مسجد

مسلمانوں کی عبادت گاہ
(مساجد سے رجوع مکرر)

مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔ مسجد کو عموماً نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر تاریخی طور پر یہ کئی حوالوں سے اہم ہیں مثلاً عبادت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اجتماع اور تعلیمی مقاصد کے لیے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں مسجدِ نبوی کو غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مساجد سے مسلمانوں کی اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی طرزِ تعمیر بھی بنیادی طور پر مساجد سے فروغ پایا ہے۔[2] [3]

اسلام
اللہ کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا واحد خدا ہے
اللہ کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا واحد خدا ہے
اللہ کا خطاطی نام، اللہ مسلمانوں کا واحد خدا ہے

رہنما موجودہ: کوئی نہیں
اول خلیفہ: ابو بکر صدیق
آخر خلیفہ: عبد المجید ثانی (بمطابق اہل سنت)
بانی محمد بن عبد اللہ
مقام ابتدا مکہ، حجاز، غرب جزیرہ نما عرب۔
تاریخ ابتدا اوائل ساتویں صدی۔
ارکان شہادت ونماز وزکوۃ وصوم وحج
فرقے مُتفق علیہا: سنیت، شیعیت، اباضیت
غیر مُتفق علیہا: احمدیت، دروز، نصیریت۔
مقدس مقامات مسجد حرام، مکہ،  سعودی عرب
مسجد نبوی، مدینہ منورہ،  سعودی عرب
مسجد اقصیٰ، یروشلم،  فلسطین
قریبی عقائد والے مذاہب یہودیت، مسیحیت، مندائیت، بہائیت، سکھ مت
مذہبی خاندان ابراہیمی مذہب
پیروکاروں کی تعداد 1.8 بلین (2015ء) [1]
دنیا میں جنوب مشرقی ایشیا، وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقا، بلاد البلقان، اور باقی عالم میں مسلمان اقلیت ہیں۔

پہلے دور میں مساجد نماز کے لیے سادہ سی جگہیں ہوتی تھیں جو عمارتوں کی بجائے کھلی جگہوں پر ہوتی تھیں۔ [4]650-750 عیسوی میں اسلامی طرز تعمیر کے پہلے مرحلے میں ابتدائی مساجد بند جگہوں پر تھیں اور ان کے ساتھ باہر کی جانب مینار تھے جہاں سے اذان دی جاتی تھی۔ [5] مسجد کی عمارتوں میں عام طور ایک طاق ( محراب ) ہوتا ہے جو دیوار میں ہوتا ہے جو مکہ کی سمت ( قبلہ ) کی نشان دہی کرتا ہے۔ مسجد کے اندر ایک منبر ہوتا ہے جہاں سے نماز جمعہ کا خطبہ دیا جاتا ہے۔ مساجد میں عام طور پر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ جگہیں ہوتی ہیں۔   مساجد نماز کے لیے، رمضان میں اعتکاف ، جنازے کے لیے ، شادی اور کاروباری معاہدے، خیرات جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ پناہ گاہوں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ تاریخی طور پر مساجد سماجی مراکز ، ایک عدالت اور دینی درسگاہوں کے طور پر بھی کام کرتی رہی ہیں۔ جدید دور میں مساجد مذہبی تعلیمات اور مناظرے کے مقامات کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ مکہ میں مسجد الحرام ( حج کے مرکز کے طور پر )[6][7]، مدینہ میں مسجد نبوی ( محمد کی تدفین کی جگہ)[8][9][10] اور یروشلم میں الاقصیٰ (معراج النبی - محمد کے آسمان پر چڑھنے کا مقام سمجھا جاتا ہے)[11] کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

اسلام کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی پوری اسلامی دنیا میں مساجد کی تعداد بڑھ گئی۔ ماقبل زیادہ ترجدید مساجد کو خیراتی وقفوں سے مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی، بڑی مساجد کے بڑھتے ہوئے حکومتی ضابطے کی وجہ سے نجی طور پر مالی اعانت سے چلنے والی مساجد میں اضافہ ہوا ہے۔ مساجد نے مذہبی رواداری کے ساتھ کئی سیاسی کردار بھی ادا کیے ہیں۔

مسجد کا مطلب

ترمیم

بسلسلۂ
مساجد

اہم مساجد
طرز تعمیر
اندازِ طرز تعمیر
دنیا بھر کی مساجد


لفظ 'مسجد' کا لغوی مطلب ہے ' سجدہ کرنے کی جگہ'۔ اردو سمیت مسلمانوں کی اکثر زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ عربی الاصل لفظ ہے۔ انگریزی اور یورپی زبانوں میں اس کے لیے موسک (Mosque) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اگرچہ بعض مسلمان اب انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں بھی 'مسجد' (Masjid) استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ ہسپانوی لفظ موسکا (Moska) بمعنی مچھر سے نکلا ہے۔ البتہ بعض لوگوں کے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔ اہلِ اسلام کے نزدیک 'مسجد' سے وہ عمارت مراد ہے جہاں نمازِ جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اگر مسجد میں نمازِ جمعہ بھی ہوتی ہو تو اسے جامع مسجد کہتے ہیں۔ مسجد کا لفظ قرآن میں بھی آیا ہے مثلاً مسجد الحرام کے ذکر میں بے شمار آیات میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعض دانشوروں کے خیال میں تمام مساجد اصل میں مسجد الحرام ہی کی تمثیل ہیں اگرچہ بعد میں بہت شاندار اور مختلف الانواع طرز ہائے تعمیر پیدا ہوئے جس سے ایک الگ اسلامی طرزِ تعمیر نے جنم لیا۔[12]

تاریخ

ترمیم

اولین مساجد

ترمیم

سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی۔ کعبۃ اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے زمین پر عبادت کی تھی۔ اسی جگہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ کئی روایات کے مطابق یہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے پہل نمازیں ادا کیں اگرچہ وہاں کعبہ میں اس وقت بت موجود تھے۔ دوسری مسجد 'مسجد قباء' تھی جس کی بنیاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے کچھ باہر اس وقت رکھی جب وہ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے۔ تیسری مسجد 'مسجد نبوی' تھی جس کی بنیاد بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں ہجرت کے بعد رکھی اور اس کی تعمیر میں خود بھی حصہ لیا۔ مسجدِ نبوی مسلمانوں کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مرکز تھا۔ آج مسجد الحرام اور مسجد نبوی مسلمانوں کی مقدس ترین جگہیں ہیں۔[13][14][15][16]

بین المذاہب تبدیلی

ترمیم

ابتدائی مسلمان مورخین کے مطابق، جن علاقوں نے بغیر کسی مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیے اور مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کیے انھیں گرجا گھروں کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی اور بعض جگہوں پر بہت سے گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا۔ [17] 705ء میں دمشق میں اموی خلیفہ الولید اول نے سینٹ جان چرچ کو عیسائیوں سے خریدا اور اسے ایک مسجد کے طور پر دوبارہ تعمیر کروایا۔ عبد الملک ابن مروان نے دمشق میں 10 گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ [18] عثمانی ترکوں نے 1453ء میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد تقریباً تمام گرجا گھروں، خانقاہوں اور چیپلوں کو، بشمول مشہور آیا صوفیہ ، کو مساجد میں تبدیل کر دیا۔ مساجد کو دوسرے مذاہب کے استعمال کے لیے بھی تبدیل کر دیا گیا ہے، خاص طور پر جنوبی سپین میں، 1492 کی فتح کے بعد قرطبہ کی عظیم مسجد کو چرچ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔[19]

ایشیا کی مساجد

ترمیم
 
مسجد الاقصیٰ، فلسطین
 
مسجد الحرام 1880ء میں

دنیائے عرب سے باہر اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی مساجد تعمیر ہو گئیں۔ ان میں سے بعض مساجد تیرہ سو سال سے قدیم ہیں۔ 640ء میں مصر کی فتح کے ساتھ ہی مساجد کی تعمیر ہوئی۔ بعد میں وہاں جامعہ الازہر جیسی مساجد تعمیر ہوئیں۔ مصر بعد میں خود ایک عرب علاقہ بن گیا۔ چین، ایران اور ہندوستان میں آٹھویں صدی عیسوی میں ہی مساجد تعمیر ہو چکی تھیں۔ چین میں ژیان کی عظیم مسجد اور ہوائشنگ کی مسجد تیرہ سو سال پرانی ہیں اور موجودہ چین کے مرکزی علاقے میں واقع ہیں۔[20] ہوائشنگ کی مسجد چین کا دورہ کرنے والے اسلامی وفد نے630ء کی دہائی میں بنوائی تھی جو اسلام کا عرب میں بھی بالکل ابتدائی دور تھا۔[21] ایران کی فتح کے بعد ایران، عراق اور موجودہ افغانستان میں اسلام پھیلا تو وہاں مساجد تعمیر ہوئیں جن میں سے کچھ تیرہ سو سال قدیم ہیں۔ ہندوستان میں پہلے سندھ اور بعد میں دیگر علاقوں میں آٹھویں صدی عیسوی سے مساجد تعمیر ہوئیں۔ بعد میں مغلوں نے بڑی عالیشان مساجد کی تعمیر کی جن میں سے بہت سی آج موجود ہیں مثلاً جامع مسجد دہلی (دہلی، بھارت) اور بادشاہی مسجد (لاہور، پاکستان) وغیرہ۔ ترکی میں پہلی مساجد گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔[22][23][24]

افریقہ کی مساجد

ترمیم
 
1905ء میں مدینہ میں مسجد نبوی

افریقا میں سب سے پہلے اسلام غالباً حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) میں پھیلا مگر جلد ہی اسلام شمالی افریقہ کے ممالک مصر، تیونس، الجزائر، مراکش وغیرہ میں بھی پھیل گیا۔ تیونس اور مراکش میں قدیم ترین مساجد آج بھی موجود ہیں مثلاً جامعہ الازہر، جامع القیروان الاکبر، مسجد جینے وغیرہ۔ مسجد جینے کچی اینٹوں سے تعمیر کردہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے اور مالی کے شہر جینے میں ہے۔ اسی طرح مسجد کتبیہ جو مراکش کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے، اپنے مینار کی وجہ سے مشہور ہے جو مخصوص مراکشی طرز کا ہے۔ اس مسجد کے نیچے ایک زمانے میں کتابوں کی ڈھائی سو دکانیں تھیں۔ افریقہ کی دیگر مساجد میں مسجد حسین ( قاہرہ، مصر) جو راس الحسین کے نام سے مشہور ہے، مراکش کی مسجد حسن ثانی (دنیا کی دوسری بڑی مسجد اور دنیا کے بلند ترین مینار والی مسجد)، موریطانیہ کی مسجد شنقیط یا مسجد جمعہ، شنقیط (مساجد میں دوسرا قدیم ترین مینار)، نائیجیریا کی ابوجا قومی مسجد اور دیگر بے شمار مساجد شامل ہیں۔

یورپ میں مساجد

ترمیم

یورپ میں ہسپانیہ کی فتح کے ساتھ ہی مساجد تعمیر ہوئیں جن میں سے مسجد قرطبہ آثارِ قدیمہ کے طور پر مشہور ہے۔ ہسپانیہ کے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد یورپی اقوام نے انتہائی تنگ نظری سے وہاں اسلام کے آثار مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ تمام مساجد کو یا تو ڈھا دیا گیا یا کلیساؤں میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسجد قرطبہ میں اس وقت (1492ء) سے نماز کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔ یورپ کی بیشتر موجودہ مساجد جدید دور میں بنی ہیں اگرچہ البانیا، رومانیہ، قبرص اور بوسنیا میں کچھ پرانی مساجد موجود ہیں۔ قبرص کی مسجد لالہ مصطفےٰ پاشا (1298ء) اس کی ایک مثال ہے۔ بوسنیا و ہرزیگووینا کی کئی قدیم مساجد کو 1990ء کی دہائی میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ یورپ میں ترکی اثرات کے بعد کافی مساجد کی تعمیر ہوئی۔ یورپ میں سولہویں صدی عیسوی میں بننے والی مساجد کی کچھ مثالیں یہ ہیں:[25][26][27]

 
بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان
1. مسجد قل شریف، کازان، تاتارستان، روس (1552ء)۔ یورپ کی سب سے بڑی مسجد سمجھی جاتی ہے
 
جامع مسجد دہلی کا صحن
2. بجراکلی مسجد، بلغراد، سربیا (1575ء) 2004ء میں اسے شدید نقصان پہنچایا گیا
3. منگالیہ مسجد، رومانیہ (1525ء)
4. غازی خسرو بیگ مسجد، سراجیوو، بوسنیا (1531ء)
5. بنواباشی مسجد، صوفیہ، بلغاریہ (1576ء)

اٹھارویں صدی میں تعمیر ہونے والی مساجد میں تیرانا، البانیا کی 'مسجد ادھم بے' (1789ء) شامل ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ میں بے شمار مساجد کی تعمیر ہوئی جس کی بنیادی وجوہات یورپ کا مسلمان ممالک پر قبضہ اور نتیجہ کے طور پر مسلمانوں اور ان کا میل جول اور مسلمانوں کی مغربی ممالک کی طرف ہجرت ہیں۔ عثمانی دور کی مساجد اب بھی مشرقی یورپ میں بکھری ہوئی ہیں، لیکن یورپ میں مساجد کی تعداد میں سب سے تیزی سے اضافہ پچھلی صدی میں ہوا ہے کیونکہ زیادہ مسلمانوں نے یورپ میں انیسویں صدی میں ہجرت کی۔ [28]

امریکا میں مساجد

ترمیم

شمالی امریکا میں پہلی مسجد کی بنیاد البانوی امریکیوں نے 1915 میں رکھی تھی، لیکن براعظم کی سب سے پرانی مسجد مدر مسجد آف امریکا 1934 میں بنائی گئی تھی۔ [29] یورپ کی طرح حالیہ دہائیوں میں امریکی مساجد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ مسلمان تارکینِ وطن خاص طور پر جنوبی ایشیا سے تارکین وطن امریکا میں آباد ہوئے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ میں چالیس فیصد سے زیادہ مساجد 2000ء کے بعد تعمیر کی گئیں ۔[30]

جدید دور کی مساجد

ترمیم

بیسویں صدی میں بڑی شاندار مساجد تعمیر ہوئی ہیں جن کا طرزِ تعمیر مخلوط ہے۔ یہ نہ صرف مسلمان ممالک میں تعمیر ہوئیں ہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی بے شمار مساجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ ان مساجد کی مثالیں ڈھاکہ کی بیت المکرم، برونائی دارالسلام کی سلطان عمر علی سیف الدین مسجد، انڈونیشیا کی مسجد استقلال (جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد)، جاپان میں پہلی مسجد 'مسجد کوبےپاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد، فلپائن کے شہر منیلا کی مسجد الذہب(سنہری مسجد کے نام سے مشہور ہے)، سنگاپور کی المسجد الاستقامۃ، امریکا میں اسلامی مرکز واشنگٹن اور دیگر بے شمار مساجد شامل ہیں۔[31][32][33]

فائل:Huaisheng-mosque.jpg
مسجد ہوائشنگ، گوانگ ژو، چین تیرہ سو سال قدیم مسجد
 
مسجد سلطان احمد، استنبول، ترکی
 
جامع القیروان الاکبر تیونس۔ قدیم ترین مساجد میں سے ایک
 
بنیاباشی مسجد، صوفیہ بلغاریہ
 
مرکزی مسجد، لندن، برطانیہ

مساجد کا کردار

ترمیم

نماز

ترمیم

مساجد مسلمانوں کا مذہبی مرکز ہیں۔ اس میں بنیادی طور پر نمازِ جماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پنجگانہ نمازیں، نمازِ جمعہ اور عید کی نمازیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان کے اعمال بھی ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں مساجد کو خیرات اور زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا جس کا رواج اب کم ہے۔ مسجدیں اکثر قرآن کی تدریس کے لیے بھی ایک مرکز کا کام دیتی ہیں۔ کئی مساجد میں مدارس بھی قائم ہیں جن سے مذہبی تعلیم کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔

معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی کردار

ترمیم

مساجد مسلمانوں کا مرکز ہیں جس کا مقصد صرف مذہبی نہیں رہا بلکہ مسلمانوں کا معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی مرکز بھی مسجدیں رہی ہیں۔ باجماعت نمازیں مسلمانوں کے آپس کے تعلقات، میل جول اور حالات سے آگاہی کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد جنگوں اور دیگر ہنگامی حالات میں ایک پناہ گاہ کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلمین کو پناہ دینے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہیں مثلاً مسجدِ پیرس دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے لیے پناہ گاہ رہی ہے۔
مساجد وہ جگہ ہیں جہاں سے اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے جنم لیا مثلاً جامعہ الازہر، جامعہ قرویین، جامعہ زیتونیہ وغیرہ۔ بیشتر مساجد میں مدارس قائم ہیں جن میں قرآن اور مذہب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ ابتدائی تعلیم بھی دی جاتی رہی ہے۔ مشرقی ممالک کے دیہات میں کئی مساجد میں عمومی مدارس بھی قائم ہیں۔ بعض مساجد کے ساتھ اسلامی مراکز موجود ہیں جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیقی مراکز قائم ہیں۔
مساجد کا سیاسی کردار بھی تاریخی طور پر شروع سے جاری رہا ہے۔ مسجد نبوی صرف نماز کے لیے استعمال نہیں ہوتی رہی بلکہ اس میں غیر ممالک سے آنے والے وفود سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مختلف غزوات اور سرایہ کے منصوبے زیرِ بحث لائے گئے۔ صدیوں تک مساجد میں انقلابی تحریکوں نے جنم لیا کیونکہ وہ مسلمانوں کے رابطہ کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں۔ جدید دور میں بھی مساجد کا سیاسی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی واضح مثال لال مسجد اسلام آباد کی ہے۔ حکومتیں بھی مساجد اور مساجد کے ذمہ داران کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔

پرتشدد تنازعات میں کردار

ترمیم

مذہبی فعالیت

ترمیم

جامع مسجد ( عربی: مَسْجِد جَامِع )، ایک مرکزی مسجد، مذہبی سرگرمیوں، قرآن کی تعلیم اور مستقبل کے اماموں کو تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کر تی ہے۔

نماز عیدین

ترمیم

اسلامی کیلنڈر میں دو تعطیلات ( عیدیں ) ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی ۔ نماز عید ، عیدگاہ کی عدم موجودگی میں ایک بڑی مسجد یا چھوٹی مقامی مساجد میں ادا کی جاتی ہیں۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، عید کی نماز باہر صحنوں،چوکوں یا چوراہوں پر یا شہر کے مضافات میں مساجد یا عید گاہ میں ادا کی جاتی ہیں۔ [34] [35]

رمضان

ترمیم

رمضان ،اسلام کا مقدس ترین مہینہ ہے۔ چونکہ مسلمانوں کو رمضان کے دوران دن میں روزہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے مساجد غروب آفتاب کے بعد افطار کی میزبانی کرتی ہیں۔ مسلمان سال کے دیگر مہینوں کے مقابلے میں ماہ رمضان کی فضیلت سے واقف ہیں۔ یہ رحمت، مغفرت اور آگ سے نجات کا مہینہ ہے جس میں ثواب دگنا ہو جاتا ہے، لہذا وہ اطاعت اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور مسلمان مسجد میں نمازوں کے ساتھ ساتھ تراویح اور تہجد کی نمازیں بھی ادا کرتے ہیں۔رمضان المبارک میں اکثر مساجد کو رمضان کے مقدس مہینے میں روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ مساجد میں سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ رمضان میں روزانہ کی آخری فرض نماز ( عشاء ) کے بعد بڑی مساجد میں تراویح کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں بڑی مساجد لیلۃ القدر کو دیکھنے کے لیے تمام رات مذہبی پروگراموں کی میزبانی کرتی ہیں، اس رات مسلمانوں کا ماننا ہے کہ محمد کو سب سے پہلے قرآنی آیات ملی تھیں۔رمضان کے آخری عشرہ کے دوران مساجد اعتکاف کی میزبانی کرتی ہیں ۔ اعتکاف کرنے والے مسلمانوں کو مسلسل دس دن تک مسجد کے اندر رہنا ہوتا ہے۔ [36]

مساجد اور ضرورت مندوں کی دیکھ بھال

ترمیم

مساجد خیراتی کمیٹیوں کے ذریعے ضرورت مندوں کے خاندانوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو خوش حال افراد سے عطیات جمع کرتی ہیں اور انھیں ضرورت مندوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے تیسرا یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی دولت کا تقریباً چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ خیرات کی صورت میں ادا کریں۔ چونکہ مساجدمسلمانوں کا مراکز ہوتی ہیں، اس لیے یہ وہ جگہ ہے جہاں مسلمان خیرات اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ [37]

طرزِ تعمیر

ترمیم
فائل:BadshahiMinar1.jpg
بادشاہی مسجد،لاہور، پاکستان کا مینار جس کے عقب میں سکھوں کا گردوارہ نظر آ رہا ہے

ابتدائی مساجد بہت سادہ تھیں اور ایک منزلہ سادہ عمارت پر بھی مشتمل ہوتی تھیں جس کے ساتھ کوئی مینار یا گنبد ضروری نہیں تھا۔ اسلام میں مسجد کے لیے صرف جگہ مخصوص ہوتی ہے مگر اس کے طرزِ تعمیر پر کوئی قدغن نہیں۔ ابتدا میں مسجد نبوی کھجور کے تنوں کے ستونوں اور اُس کے پتوں کی چھت سے تعمیر ہوئی تھی۔ کعبہ پتھروں سے بنی ایک چوکور عمارت تھی جس کے اردگرد کھلے احاطے میں عبادت ہوتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے وسائل پڑھتے چلے گئے اور انھوں نے اپنی ضرورت اور علاقے کی ثقافت کے مطابق مساجد تعمیر کیں۔ مساجد میں مہنگے کام اور بلند مینار اور گنبد بعد میں بننا شروع ہوئے۔ مینار کی وجہ یہ تھی کہ مسجد دور سے نظر آئے، اس پر چڑھ کر اذان دی جائے تو آواز دور دور تک آئے اور علاقے کی ثقافت و فن کی عکاسی بھی تھی۔ گنبد سے مسجد کے خطیب کی تقریر اور نماز کی آواز ایک گونج اور خوبصورتی کے ساتھ پوری مسجد میں پھیلتی تھی۔ اسلام میں چونکہ زندہ چیزوں کی تصاویر کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اس لیے مساجد کی تزئین کے لیے قرآنی آیات کا مختلف خوبصورت طریقوں سے استعمال کیا گیا اور مختلف جیومیٹرک ڈیزائن بھی استعمال کیے گئے۔
وقت، ضرورت اور ثقافت کی عکاسی کی وجہ سے مساجد میں کئی چیزیں تقریباً ضروری ہو گئیں جیسے مینار، گنبد، مسجد میں ایک صحن، وضو کے فوارے (یا تالاب یا نلکوں والی جگہ)، نماز کے لیے ہال (بڑا کمرہ) وغیرہ۔ اس کے علاوہ اکثر مساجد کے ساتھ حمام ( یا کم از کم بیت الخلاء)، کتب خانے، مطب (کلینک) اور بعض مساجد کے ساتھ مدارس، تحقیقی مراکز یا باقاعدہ جامعات (یونیورسٹیاں) شامل ہیں۔[38][39][40]

مینار

ترمیم

مینار مسجد کی بنیادی پہچان ہے جس سے مسجد دور ہی سے نظر آسکتی ہے۔ بنیادی طور پر مینار پر چڑھ کر اذان دی جاتی تھی جس سے آواز دور تک جاتی تھی مگر اب اذان مسجد کے اندر سے دی جاتی ہے کیونکہ لاوڈ سپیکر سے آواز کو دور دور تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ مسجد کے مینار کی اونچائی پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ بہت چھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور بہت اونچا بھی۔ یورپ میں چھوٹی مساجد میں تو مینار ہی نہیں ہوتے کیونکہ وہ اکثر ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ سب سے لمبا مینار مسجد حسن ثانی، کاسابلانکا، مراکش کا سمجھا جاتا ہے جو 210 میٹر(689 فٹ) بلند ہے۔[41]
شروع میں مساجد کے مینار نہیں تھے اور وہ بہت سادہ تھیں مگر جلد ہی مینار مساجد کا تقریباً لازمی حصہ بن گئے۔ مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ مینار کلیساووں کے مینار دیکھ کر بنائے گئے مگر یہ درست نہیں ہے کیونکہ عرب تعمیرات میں پہلے ہی سے مینار بنتے تھے خصوصاً مختلف دفاعی قلعوں کے ساتھ مینار دور تک دیکھنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔ مساجد میں میناروں کی تعداد ایک سے لے کر چھ تک ہوتی ہے۔ اکثر مساجد میں چار مینار ملتے ہیں۔ ترکی کی کئی مساجد میں چھ مینار ہیں۔ مسجد الحرام میں کل نو مینار ہیں جو مختلف اوقات میں تعمیر ہوئے ہیں۔ مسجد نبوی کے دس مینار ہیں جن میں سے چھ 99 میٹر اونچے ہیں۔۔[42] بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان کے مینار 53.8 میٹر ( 176.3 فٹ) لمبے ہیں۔ مینار کے اوپر جانے کے لیے دو سو چار سیڑھیاں ہیں۔ ۔[43] مسجد الحضر، تریم، یمن کے مینار کی لمبائی 53 میٹر ( 175 فٹ) ہے۔ مسجد حسن ثانی کا مینار، بادشاہی مسجد کا مینار اور مسجد الحضر کا مینار دنیا کے لمبے ترین میناروں میں سے کچھ ہیں۔
میناروں کی اشکال مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔ پاکستان، بھارت اور ایران میں مینار عموماً گول ہوتے ہیں اور کافی موٹائی رکھتے ہیں۔ ترکی میں عموماً مینار گول مگر کم موٹائی والے ہوتے ہیں۔ شام اور مصر میں بہت سے مینار چورس(مربع شکل کے ) ہوتے ہیں۔ مصر میں ہشت پہلو مینار بھی ملتے ہیں۔ مگر ان تمام مذکورہ ممالک میں دوسری اقسام کے مینار بھی ملتے ہیں۔ میناروں کے اوپر سرخ، فیروزی یا دیگر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جن سے ان کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایران اور عراق میں بعض مینار سنہری رنگ کے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپری حصے میں اصلی سونے سے ملمع کاری کی گئی ہے۔[44]

گنبد

ترمیم

گنبد آج کل کی مساجد کا تقریباً جزوِ لازم ہیں۔ گنبد کا بنیادی مقصد صرف خوبصورتی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے خطیبِ مسجد کی آواز پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ اس کے علاوہ اب گنبد مساجد کی پہچان بن چکی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا روضہ مبارک مسجدِ نبوی میں ہے جس کا سبز گنبد بہت مشہور ہے۔ روضہ مبارک کی تصاویر میں سب سے نمایاں یہی گنبد ہے۔

فلسطین میں حرم قدسی الشریف میں واقع قبۃ الصخرہ بھی تحریکِ آزادیِ فلسطین کی پہچان ہے۔ یہ مسلمانوں کا شاید سب سے پرانا قائم گنبد ہے۔ بعض لوگ اسے مسجد الاقصیٰ سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔ ایران میں مساجد کے بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر ہوئے ہیں۔ مثلاً مسجدِ امام، اصفہان کا گنبد یا مسجد گوہر شاد، مشہد کا گنبد۔ برصغیر پاک و ہند کے گنبد بھی قابلِ دید ہیں۔ سندھ میں عربوں کی آمد کے بعد کئی مساجد تعمیر ہوئیں جن کے ساتھ سادہ مگر بڑے بڑے گنبد تھے مگر بعد میں مغل بادشاہوں نے بڑی شاندار مساجد تعمیر کیں مثلاً بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان کے سفید گنبد بہت ہی خوبصورت اور بڑے ہیں۔ مغلوں کی تعمیر کردہ بابری مسجد کے گنبد بھی بہت بڑے تھے جن کو ہندو انتہا پسندوں نے شہید کر دیا۔ جدید دور میں تعمیر ہونے والی کراچی، پاکستان کی مسجد طوبیٰ کا گنبد یک گنبدی مساجد میں سب سے بڑا ہے جو 72 میٹر (236 فٹ) قطر کا ہے اور بغیر کسی ستون کے تعمیر ہوا ہے۔ 1557ء میں تعمیر ہونے والی سلیمیہ مسجد، ادرنہ، ترکی کا گنبد 27.2 میٹر قطر کا ہے اور یہ بھی دنیا کے بڑے گنبدوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ گنبد پرانا ہونے کے باوجود اس قدر مضبوط ہے کہ 1915ء کی بلغاریہ کی توپوں کی بمباری سے بھی نہیں ٹوٹا اور اس کی صرف اندرونی تہ کو نقصان پہنچا۔ دنیا میں بڑے گنبدوں میں مسجد سلطان صلاح الدین عبدالعزیز (نیلی مسجد)، ملائیشیا کا گنبد بھی شامل ہے جو170 فٹ قطر کا ہے۔ یاد رہے کہ گنبد صرف مساجد پر نہیں ہوتے بلکہ یہ کلیسا، جامعات اور کچھ تحقیقاتی مراکز پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
گنبدوں کے اندرونی حصوں پر بڑی خوبصورت نقاشی بھی ہوتی ہے اور اکثر قرآنی آیات بھی لکھی جاتی ہیں۔ بعض گنبدوں میں شیشے لگے ہوتے ہیں جس سے روشنی بھی اندر آسکتی ہے۔ گنبد کی اندرونی نقاشی زیادہ تر گہرے نیلے، فیروزی یا سرخ رنگ میں کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ رنگ اونچے گنبدوں میں بھی گنبد کے نیچے کھڑے افراد کو بخوبی نظر آ سکتے ہیں۔[45][46]

فائل:Gunbad-khadhra.jpg
گنبدِ خضراء۔روضہ و مسجد نبوی
فائل:بابری مسجد - انہدام سے پہلے.jpg
بابری مسجد، بھارت۔ یہ گنبد انتہا پسند ہندو لوگوں نے ڈھا دیے۔
فائل:Tooba mosque.jpg
مسجد طوبیٰ، کراچی، پاکستان۔ یک گنبدی مساجد میں دنیا کا سب سے بڑا گنبد
 
مسجد سلطان صلاح الدین عبد العزیز ملائیشیا اپنے نیلے گنبد کی وجہ سے مشہور ہے

صحنِ مسجد، وضو کی جگہ، فوارے، تالاب اور حمام

ترمیم
 
مسجد الحضر، تریم، یمن کا مینار

قدیم مساجد کے بڑے بڑے صحن ہیں مثلاً مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے صحن بہت بڑے بڑے ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت آئی ہے۔ ان صحنوں میں بلاشبہ لاکھوں افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کا صحن بھی بہت بڑا ہے جس میں ایک وقت میں ایک لاکھ کے قریب افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نماز کے علاوہ قدیم زمانے کی مساجد میں حوض (تالاب) ضرور ہوتے تھے جو وضو کے لیے استعمال ہوتے تھے۔[47] بعض تالاب ایسے بنے ہوتے تھے جن میں بارش کا پانی نتھر کر (فلٹر ہو کر) جاتا تھا۔ اس کی ایک مثال تیونس کی قدیم مسجد جامع القیروان الاکبر کی ہے۔ بڑے بڑے صحنوں اور ان کے درمیان حوض کی ایک اور مثال جامع مسجد اصفہان، ایران کی ہے۔[48] سلطانی مسجد بروجرد، ایران کا صحن بھی بہت بڑا ہے جس کے تین اطراف میں عمارتیں ہیں۔ سمرقند میں امیر تیمور کی بنائی ہوئی مسجد بی بی خانم کا صحن بھی بڑے صحنوں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ جامعہ الازہر اور مصر ہی کی ایک اور مسجد حاکم کے صحن بھی بہت بڑے بڑے ہیں۔ غرض یہ فہرست بہت طویل ہے۔ ان تمام صحنوں میں حوض ہیں اور بعض میں فوارے بھی لگے ہوئے ہیں۔ بعض مساجد مثلاً مسجدِ پیرس کے ساتھ حمام بھی موجود ہیں۔

نماز کے ہال اور مسجد کے ستون

ترمیم
فائل:HassanII-minar.jpg
مسجد حسن ثانی، مراکش کا مینار

مسجد میں نماز کے لیے عموماً ایک بڑا کمرہ یا ہال مخصوص ہوتا ہے جس میں بہت سازوسامان نہیں ہوتا مگر خوبصورت اور آرام دہ قالین بچھے ہوتے ہیں تاکہ اس زیادہ سے زیادہ میں آسانی سے نماز ادا کر سکیں۔ ۔[49] اس میں عموماً محراب و منبر بھی ہوتے ہیں۔ محراب وہ جگہ ہے جس میں پیش امام نمازِ جماعت کرواتا ہے اور منبر پر خطیب خطبہ دیتے ہیں۔۔[50] منبر عموماً لکڑی کے بنائے جاتے تھے۔ سب سے پرانا لکڑی کا منبر جامع القیروان الاکبر، تیونس میں ہے جس کا تعلق پہلی صدی ہجری سے ہے۔ آج کل لکڑی کے علاوہ سیمنٹ اور کنکریٹ سے بھی منبر بنائے جاتے ہیں جن کے اوپر سنگِ مرمر لگا ہوتا ہے۔
مساجد میں مرکزی بڑا کمرہ جو نماز کے لیے مخصوص ہوتا ہے، عموماً بے شمار ستونوں سے آراستہ ہوتا ہے کیونکہ بہت ہی بڑے کمرے کی چھت کو سہارا دینے کے لیے ستونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر ستونوں کا مقصد صرف چھت کو سہارا دینا نہیں رہا بلکہ اس سے مسجد کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ بعض مساجد مثلاً مسجد قرطبہ اپنے ستونوں کی وجہ سے مشہور ہو جاتی ہیں۔ ستونوں کی تعمیر میں مسلمانوں نے علم الہندسہ کے عظیم شاہکار جنم دیے ہیں۔ بعض مساجد مثلاً جامع القیروان الاکبر میں چار سو سے زیادہ ستون ہیں۔ مسجدِ نبوی کے بعض ستون تو ایسے ہیں جو پرانے ہیں اور وہ اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مسجدِ نبوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دورِ مبارک میں کہاں تک تھی۔ بعض ستون نئے ہیں۔ مسجدِ نبوی اور مسجد الحرام کے ستون بھی ان گنت ہیں۔ نماز کے ہال کا عمومی منظر دیکھا جائے تو بہت سے ستونوں اور خوبصورت محراب و منبر ساتھ پورے کمرے میں قالین بچھے نظر آئیں گے جو عموماً گہرے سرخ یا سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ ہال میں مختلف کونوں میں ٹوپیوں کی جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دیواروں کے ساتھ مختلف الماریوں میں قرآن اور دیگر مذہبی کتب پڑی ہوں گی۔ جدید مساجد میں اور بعض قدیم بڑی مساجد میں کچھ کرسیاں بھی نظر آتی ہیں جن پر ایسے لوگ بیٹھتے ہیں جو ضعیفی یا دیگر مسائل کی وجہ سے زمین پر نہیں بیٹھ سکتے۔[51][52][53][54]

مسجد کی تزئین و آرائش

ترمیم
 
اسلام آباد کی فیصل مسجد پاکستان اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہے جس کی گنجائش 300,000 نمازیوں کی ہے۔

مسلمان اپنی اللہ سے محبت کو مساجد کی تزئین سے نمایاں کرتے ہیں۔ صدیوں سے مساجد قرآنی آیات اور دیگر نقاشی کا شاہکار بنتی رہی ہیں۔ چونکہ اسلام زندہ اشیاء کی تصاویر بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اس لیے مساجد کی آرائش کے دیگر طریقے اختیار کیے گئے۔ مساجد پر نقاشی کے لیے گاڑھے رنگ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں فیروزی، گہرا نیلا، سنہرا اور سرخ رنگ زیادہ ملتے ہیں۔

مساجد میں قرآنی آیات کی خطاطی اور نقاشی درج ذیل صورتوں میں ملتی ہے:

1. بیرونی دروازے پر، جو عموماً بہت بڑا ہوتا ہے اور اس کے ارد گرد
2. گنبد اور چھت کے اندرونی حصوں پر
3. مسجد کی اندرونی دیواروں پر (عموماً) قرآنی آیات
4. محراب و منبر کے نزدیک
5. گنبدوں اور میناروں کے باہر کی طرف


مساجد میں مثلاً برصغیر میں مغلوں کی تعمیر کردہ مساجد، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا میں منگولوں اور صفویوں کی تعمیر کردہ مساجد، مراکش، تیونس، مصر وغیرہ میں تعمیر کردہ مساجد اور عراق اور دیگر عرب علاقوں کی مساجد سبھی کے نقش و نگار ایسے ہیں جو صدیوں سے آب و تاب سے قائم ہیں۔ صحرا کی گرم ریتلی ہوا یا بارش ان رنگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ بگاڑا تو حملہ آور افواج نے خصوصاً صلیبی افواج نے۔ جدید دور میں 1993ء کے لگ بھگ بوسنیا میں سینکڑوں خوبصورت مساجد کو تباہ کیا گیا جن میں سے کئی فنِ تعمیر کا شاہکار تھیں مگر اتنی قدیم مساجد کی تباہی پر مغربی اداروں نے ذرہ برابر بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ حالانکہ یہی اقوام افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی پر بہت سیخ پا ہوئی تھیں۔ ترکی کی کئی مساجد کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے مثلاً سابقہ مسجد ایا صوفیہ کی یہاں جو تصویر دی گئی ہے اس میں بظاہر گنبد کی تعمیرِ نو کی جا رہی ہے مگر حقیقت میں اس میں سے مسلمانوں کے نقاشی اور خطاطی کو ہٹا کر اس کے نیچے پرانے آثار تلاش کیے جا رہے ہیں (مثلاً انجیل سے متعلقہ مصوری) کیونکہ ترکی میں اسلام پھیلنے سے پہلے یہ ایک کلیسا تھی۔ وسطی ایشیا کی بہت سی مساجد روسی قبضہ کے دوران بند کی گئیں اور دنیا نے ان مساجد کو اس وقت آثارِ قدیمہ کا درجہ بھی نہیں دیا اس لیے وہ تباہ ہو گئیں۔ اب ان کی حفاظت پر کچھ کام ہو رہا ہے۔ جدید مساجد پر ایسی خطاطی، نقاشی اور محنت نہیں ملتی۔[55][56]

 
مدرسہ الغ بیگ، سمرقند، ازبکستان کا باریک دیدہ زیب کام
 
مسجدِ شاه، اصفہان، ایران پر آیات اور دیگر نقاشی، فیروزی اور سنہرے رنگ میں
 
مسجد روضہ شریف، مزار شریف، افغانستان
 
سلیمیہ مسجد، ادرنہ، ترکی کا گنبد اندر سے
فائل:Paris-masjid-pitchi.jpg
مسجدِ پیرس، پیرس، فرانس کی ایک دیوار پر نقاشی
 
سابقہ مسجد ایا صوفیہ، استنبول، ترکی کے گنبد کا اندرونی حصہ

عصری خصوصیات

ترمیم

جدید مساجد میں مسلمانوں کی سہولیات اور خدمت کے لیے ہیلتھ کلینک اور کتب خانوں تک اضافی سہولیات بھی ہوتی ہیں۔

آداب مسجد

ترمیم
 
مسجد قرطبہ کے ستون

مسلمانوں کے نزدیک مسجد میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق غیر مسلمین پر بھی ہوتا ہے جو مسجد میں داخل ہوں۔[57][58]

طہارت

ترمیم
فائل:Paris-masjid-se7n1.JPG
مسجدِ پیرس کا ایک صحن

اسلام میں طہارت کی بہت اہمیت ہے اور ایک حدیث کے مطابق یہ نصف ایمان ہے اس لیے مسجد میں آنے کے لیے پاک و صاف ہونا شرط ہے البتہ وضو آپ مسجد میں بھی آ کر کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے اکثر مکاتبِ فکر میں مساجد میں حالتِ جنابت میں ٹھہرنا جائز نہیں اور مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں ایسی حالت میں داخلہ بھی جائز نہیں۔ لباس کے ساتھ ساتھ جسم بھی پاک ہونا چاہئیے۔ ذہن کی طہارت بھی اپنے بس کے مطابق ضروری ہے یعنی برے خیالات سے پرہیز کرنا چاہئیے۔[59][60]

تہذیب و شائستگی

ترمیم
 
مسجد علی بن ابی طالب، نجف، عراق

مسلمان مسجد کو اللہ کا گھر سمجھتے ہیں چاہے اس کا تعلق مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ سے ہو۔ مسجد میں خاموشی اور تہذیب و شائستگی کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ نماز اور قرآن پڑھنے والے تنگ نہ ہوں۔ مساجد میں لڑائی جھگڑا کرنا یا بلا ضرورت دنیاوی باتوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے اگرچہ اجتماعی معاملات پر بحث کی جا سکتی ہے۔ مسجد میں دوڑنا یا زور سے قدم رکھنا اور اونچی آواز میں بات کرنا تہذیب و شائستگی کے خلاف ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ایسا کام کرنا جس سے نمازی تنگ ہوں، اچھا نہیں سمجھا جاتا مثلاً پیاز، لہسن، مولی یا کوئی اور بو دار چیز کھا کر جانے سے بھی منع کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں احادیث مبارکہ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔[61]

لباس

ترمیم
 
شاہ مسجد، اصفہان، ایران

مسجد میں صاف ستھرا لباس پہن کر آنا چاہئیے۔ خواتین ایسا لباس پہن کر آئیں جس سے وہ با پردہ ہوں۔ اسی طرح مرد مناسب لباس پہن کر آئیں۔ عموماً مسلمان علاقائی لباس کے علاوہ عربی لباس بھی پہننا اچھا اور ثواب سمجھتے ہیں مگر اسلام میں لباس پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے مگر لباس اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو۔[62]

صنفی علیحدگی

ترمیم

ابتدائے اسلام سے مردوں اور عورتوں دونوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے مگر ان کو علاحدہ علاحدہ جگہ دی جاتی ہے۔ شرعِ اسلام کے مطابق نماز کے دوران عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوتی ہیں تاکہ مردوں کی نظر عورتوں پر نہ پڑے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں مرد و زن دونوں مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اگرچہ عورتوں کے احترام اور حفاظت کے لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گھر ہی میں نماز ادا کریں۔ آج کل اکثر مساجد میں عورتوں کے لیے علاحدہ جگہ بنی ہوتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں عورتوں کے مسجد میں آنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ ہندوستانی معاشرت سے ہے۔ عرب ممالک میں اور جدید مغربی مساجد میں عورتیں مساجد میں آتی ہیں، نماز پڑھتی ہیں اور مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔[63][64][65]

مشہور مساجد

ترمیم
نام تصویر حجم رقبہ (m2) شہر ملک تعمیر کی ابتدا
مسجد الحرام
 
4,000,000[66] 356,000[67] مکہ   سعودی عرب Pre-622
مسجد نبوی
 
1,500,000[68] 384,000[69] مدینہ منورہ   سعودی عرب 623
گرینڈ جامع مسجد، کراچی
 
950,000 200,000 کراچی   پاکستان 2021
امام علی مسجد
 
800,000[حوالہ درکار] نجف   عراق 900
مزار امام علی رضا
 
700,000[70] 598,657[71] مشہد   ایران 729
فیصل مسجد
 
300,000[72] 130,000[73] اسلام آباد   پاکستان 1986
مسجد استقلال 200,000[74] جکارتا   انڈونیشیا 1978
تاج المساجد
 
175,000 23,000[75] بھوپال   بھارت 1901
مسجد جمکران
 
150,000 قم   ایران 984
جامع الجزائر   120,000[76] 200,000[76] الجزائر شہر   الجزائر 2019
مسجد حسن ثانی
 
دار البیضا   المغرب 1993
بادشاہی مسجد
 
100,000[77] لاہور   پاکستان 1673
گرینڈ جامع مسجد
 
70,000[78] لاہور   پاکستان 2014
چاملیجا مسجد
 
63,000[79] استنبول   ترکیہ 2013
جامع مسجد شیخ زايد
 
41,000[80] 22,412[80] ابوظبی   متحدہ عرب امارات 2007
بیت المکرم مسجد، ڈھاکہ
 
42,000 [81] ڈھاکہ   بنگلادیش 1960
جامع مسجد سرینگر[82]
 
33,333[83] جموں و کشمیر (یونین علاقہ)   بھارت 1400
امام محمد ابن عبد الوہاب مسجد
 
30,000[84] دوحہ   قطر 2010
سبانجی مرکزی مسجد
 
28,500[85] آدانا   ترکیہ 1998
جامع مسجد دہلی
 
25,000[86] مرکزی دہلی   بھارت 1656
سلطان صلاح الدین عبد العزیز مسجد
 
24,000[87] شاہ عالم، ملائیشیا   ملائیشیا 1988
مسجد الذہب
 
22,000[88] منیلا   فلپائن 1976
الازہر مسجد
 
20,000[89] قاہرہ   مصر 972
عید گاہ مسجد، کاشغر
 
20,000[90] کاشغر   چین 1442
شاہجہاں مسجد، ٹھٹہ
 
20,000[91] ٹھٹہ   پاکستان 1659
آیا صوفیہ
 
18,000[92] استنبول   ترکیہ 537
جامع مسجد ماخاچکالا
 
17,000[93] مخاچ قلعہ   روس 1998
مسجد امیر عبد القادر
 
15,000[89] قسنطینہ   الجزائر 1994
کوجاتپہ مسجد
 
15,000[94] انقرہ   ترکیہ 1987
ملائیشیا کی قومی مسجد
 
15,000[95] کوالا لمپور   ملائیشیا 1965

مساجد میں حاضری بلحاظ

ترمیم

دنیا بھر میں مسلمانوں کی مساجد کی خدمات میں شرکت کی تعدد بہت مختلف ہوتی ہے۔ کچھ ممالک میں، مسلمانوں میں مذہبی خدمات میں ہفتہ وار حاضری عام ہے جبکہ دیگر میں، حاضری بہت کم ہے۔

ہفتے میں کم از کم ایک بار مسجد جانے والی کی تعداد بلحاظ فیصد، 2009–2012[96]
ملک فیصد
  گھانا
  
100%
  لائبیریا
  
94%
  ایتھوپیا
  
93%
  یوگنڈا
  
93%
  گنی بساؤ
  
92%
  موزمبیق
  
92%
  کینیا
  
91%
  نائجر
  
88%
  نائجیریا
  
87%
  جمہوری جمہوریہ کانگو
  
85%
  کیمرون
  
84%
  جبوتی
  
84%
  تنزانیہ
  
82%
  چاڈ
  
81%
  مالی
  
79%
  انڈونیشیا
  
72%
  اردن
  
65%
  سینیگال
  
65%
  افغانستان
  
61%
  مصر
  
61%
  پاکستان
  
59%
  ملائیشیا
  
57%
  مملکت متحدہ[note 1][97]
  
56%
  دولت فلسطین
  
55%
  مراکش
  
54%
  ہسپانیہ[98]
  
54%
  بنگلہ دیش
  
53%
  تھائی لینڈ[note 2]
  
52%
  یمن[note 3][99]
  
51%
  اسرائیل[note 4][100]
  
49%
  اطالیہ[101]
  
49%
  کینیڈا[note 5][102]
  
48%
  الجزائر[note 6][103]
  
47%
  تونس
  
47%
  ریاستہائے متحدہ امریکا[104]
  
47%
  ترکی
  
44%
  آسٹریلیا[note 7][105]
  
40%
  عراق
  
40%
  جرمنی[note 8][106]
  
35%
  لبنان
  
35%
  لیبیا[note 9][99]
  
35%
  بوسنیا و ہرزیگووینا
  
30%
  فرانس[note 10][107]
  
30%
  تاجکستان
  
30%
  بلجئیم[101]
  
28%
  ایران[note 11][103]
  
27%
  سعودی عرب[note 12][103]
  
27%
  ڈنمارک[108]
  
25%
  نیدرلینڈز[109]
  
24%
  کرغیزستان
  
23%
  کوسووہ
  
22%
  روس
  
19%
  قازقستان
  
10%
  ازبکستان
  
9%
  البانیا
  
5%
  آذربائیجان
  
1%

متعلقہ مضامین

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

ملاحظات

ترمیم
  1. Survey was conducted in 2016, not 2009–2012.
  2. Survey was only conducted in the southern five provinces.
  3. Survey was conducted in 2013, not 2009–2012. Sample was taken from entire population of Yemen, which is approximately 99% Muslim.
  4. Survey was conducted in 2015, not 2009–2012.
  5. Survey was conducted in 2016, not 2009–2012.
  6. Survey was conducted in 2008, not 2009–2012.
  7. Survey was conducted in 2015, not 2009–2012.
  8. Survey was conducted in 2008, not 2009–2012.
  9. Survey was conducted in 2013, not 2009–2012. Sample was taken from entire population of Libya, which is approximately 97% Muslim.
  10. Survey was conducted in 2016, not 2009–2012.
  11. Survey was conducted in 2008, not 2009–2012.
  12. Survey was conducted in 2008, not 2009–2012.

حوالہ جات

ترمیم
  1. آخر اسلام کیوں دنیا کا تیزی سے ترقی پاتا ہوا مذہب ہے – Pew Research Center
  2. لونگہرسٹ، کرسٹوفر ای؛ تھیولوجی آف اے مسجد: دی سیکرڈ انسپائرنگ فارم، فنکشن اینڈ ڈیزائن ان اسلامک آرکیٹیکچر، لونارڈ جرنل۔ مارچ 2012، والیوم۔ 2 شمارہ 8، ص3-13۔ 11ص "چونکہ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا الہی عبادت کا نچوڑ ہے، اس لیے عبادت گاہ اسلام کی خود شناسی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ 'جگہ' کوئی عمارت نہیں ہے بلکہ اس کا ثبوت لفظ 'مسجد' کی تشبیہات سے ملتا ہے۔ عربی 'مسجد' کا مطلب ہے 'سجدہ کی جگہ'۔
  3. کالج، آر (1999)۔ مسجد۔ میں: عالمی مذاہب میں مہارت حاصل کرنا۔ میکملن ماسٹر سیریز۔ پالگریو، لندن۔ https://doi.org/10.1007/978-1-349-14329-0_16 "مسجد ایک عمارت ہے جہاں مسلمان اللہ کی رضا کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرنے کے لیے جھک جاتے ہیں۔ اس کے لیے عمارت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ محمد نے کہا کہ 'جہاں تم پر نماز کا وقت آجائے، تم نماز پڑھو، وہ جگہ مسجد ہے'۔ مکہ میں ان کے ابتدائی دنوں میں کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے وہ اور ان کے دوست کہیں بھی نماز پڑھتے تھے۔
  4. Grabar 1969, p. 34: "پھر، اس پہلے مرحلے کی اہم خصوصیت ایک ایسی جگہ کی تخلیق تھی جو صرف مسلمانوں کے مقاصد کے لیے تھی اور جو شہروں میں جو مکمل طور پر مسلم تھے، دو الگ الگ سطحوں پر موجود تھے۔ لیکن اس کا ابھی تک کوئی رسمی ڈھانچہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں غیر مسلموں کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی خاص کام ہے۔"
  5. Grabar 1969, p. 34-35: "دوسرا مرحلہ 650 اور 750 کے درمیان پیش آیا۔ میرے علم کے مطابق، اس دور کی ستائیس مساجد آثار قدیمہ کے لحاظ سے قابل تعریف ہیں… تمام مساجد کا کھلی اور بند جگہوں کے درمیان ایک خاص تعلق تھا۔ اس تعلق سے پیدا ہونے والے مسائل بنیادی طور پر تاریخ سے متعلق ہیں۔ فن کے لحاظ سے، سوائے ایک نکتے کے، جو ظاہر ہے کہ ڈھانپے ہوئے حصوں کو بیت الصلوٰۃ، یعنی نماز کی جگہ، اور باقی عمارتوں کو نماز کے لیے بہاؤ کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تمام عمارتیں دیواروں سے بند تھیں۔ اور ان کا کوئی بیرونی اگواڑا نہیں تھا۔ ان کی منظم شکل صرف اندر سے ظاہر ہوتی تھی جہاں کھلی اور ڈھکی ہوئی جگہوں کے درمیان توازن، دوسری چیزوں کے علاوہ، قبلہ کی سمت کی نشاندہی کرتا تھا۔ ان مساجد میں جو پرانے شہروں میں زیادہ تر غیر مسلم آبادی والے ہیں اور بعد میں بنیادی طور پر مسلمانوں میں۔"
  6. Palmer, A. L. (2016-05-26)۔ Historical Dictionary of Architecture (2nd ایڈیشن)۔ Rowman & Littlefield۔ صفحہ: 185–236۔ ISBN 978-1-4422-6309-3 
  7. Kuban 1974
  8. Chiu 2010
  9. Cosman & Jones 2008
  10. Chiu 2010
  11. "55. Prophets - Sahih Al-Bukhari - 585"۔ www.searchtruth.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جون 2018 
  12. لفظ کی اصلیت فرانسیسی سے اور ممکنہ طور پر اطالوی moscheta سے نکلنے کے لیے، "مسجد، این" دیکھیں۔ OED آن لائن۔ دسمبر 2011۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ . عربی سجادہ سے moscheta کے مشتق کے لیے "mesquita, n" دیکھیں۔ OED آن لائن۔ دسمبر 2011۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ . آرامی زبان سے "سجادہ" کی ممکنہ ابتدا اور عربی میں سجادہ اور مسجد کے معنی کے لیے دیکھیں "مسجد، ن"۔ OED آن لائن۔ دسمبر 2011۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ . ہسپانوی میسکیٹا کو شامل کرنے کے لیے، نباتین مسغدھا اور آرامی سیگھے سے ممکنہ اخذ، دیکھیں کلین، ای، انگریزی زبان کی ایک جامع ایٹمولوجیکل ڈکشنری (ایلسیویئر پبلشنگ، 1966)، صفحہ۔ 1007.
  13. Palmer, A. L. (2016-05-26)۔ Historical Dictionary of Architecture (2nd ایڈیشن)۔ Rowman & Littlefield۔ صفحہ: 185–236۔ ISBN 978-1-4422-6309-3 
  14. William Montgomery Watt (2003)۔ Islam and the Integration of Society۔ Psychology Press۔ صفحہ: 5۔ ISBN 978-0-415-17587-6 
  15. Richard J. Reid (12 January 2012)۔ "The Islamic Frontier in Eastern Africa"۔ A History of Modern Africa: 1800 to the Present۔ John Wiley and Sons۔ صفحہ: 106۔ ISBN 978-0-4706-5898-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2015 
  16. Tajuddin 1998
  17. M. Th. Houtsma (1993)۔ E.J. Brill's First Encyclopedia of Islam, 1913-1936۔ BRILL۔ صفحہ: 320۔ ISBN 978-90-04-09791-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2013 
  18. Houtsma p. 21
  19. William Wagner (2004) [2004-05-27]۔ How Islam Plans to Change the World۔ Kregel Publications۔ صفحہ: 99۔ ISBN 978-0-8254-3965-0۔ When the Moors were driven out of Spain in 1492, most of the mosques were converted into churches 
  20. Cowen 1985
  21. Ahmed 2002
  22. Bloom & Blair 2009
  23. Bloom & Blair 2009
  24. Asher 1992
  25. "Minaret of the Great Mosque of Kairouan"۔ The Qantara Project۔ 2008۔ 11 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2013 
  26. Elleh 2002
  27. Ruggles 2002
  28. Bloom & Blair 2009
  29. Nimer 2002
  30. Cathy Lynn Grossman (29 February 2012)۔ "Number of U.S. mosques up 74% since 2000"۔ USA Today۔ 17 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اکتوبر 2013 
  31. Bloom & Blair 2009
  32. Ahmed 2002
  33. Ahmed 2002
  34. "'Id Prayers (Salatul 'Idain)"۔ Compendium of Muslim Texts۔ University of Southern California۔ December 23, 2005 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 8, 2006 
  35. "Performance of Eid Salah in Eidgah (Open Field)"۔ www.central-mosque.com 
  36. "Charity"۔ Compendium of Muslim Texts۔ University of Southern California۔ February 5, 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 17, 2006 
  37. Matthew Clarke (1 January 2011)۔ Development and Religion: Theology and Practice۔ Edward Elgar Publishing۔ صفحہ: 156۔ ISBN 978-0-85793-073-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2013 
  38. "Religious Architecture and Islamic Cultures"۔ Massachusetts Institute of Technology۔ اخذ شدہ بتاریخ April 9, 2006 
  39. "Vocabulary of Islamic Architecture"۔ Massachusetts Institute of Technology۔ September 18, 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 9, 2006 
  40. Illustrated Family Encyclopedia (2005)۔ Mosques۔ London: publisher)|DK۔ صفحہ: 572۔ ISBN 0143063022 
  41. والٹر برائن (2004-05-17). "The Prophet's People", Call to Prayer: My Travels in Spain, Portugal and Morocco. Virtualbookworm Publishing, 14. ISBN 1-58939-592-1.
  42. "مدینہ کی مسجد"۔ 09 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2007 
  43. بادشاہی مسجد لاہور
  44. Ruqaiyyah Waris Maqsood (April 22, 2003)۔ Teach Yourself Islam (2nd ایڈیشن)۔ Chicago: McGraw-Hill۔ صفحہ: 57–8, 72–5, 112–120۔ ISBN 978-0-07-141963-5 
  45. Klaus Mainzer (June 1, 1996)۔ "Art and Architecture"۔ Symmetries of Nature: A Handbook for Philosophy of Nature and Science۔ Berlin: Walter de Gruyter۔ صفحہ: 124۔ ISBN 978-3-11-012990-8۔ the dome arching over the believers like the spherical dome of the sky 
  46. Asher 1992
  47. مذہبی طرزِتعمیر اور اسلامی ثقافت (Religious Architecture and Islamic Cultures. MIT)
  48. "THE ROYAL MOSQUE (MASJED-e-EMAM) in Isfahan, Iran"۔ Ne.jp۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 نومبر 2011 
  49. "مسجد کے بارے میں حقائق (بزبان انگریزی) (جامعہ تلسہ، امریکا)"۔ 30 دسمبر 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اگست 2007 
  50. مسجد کے بارے میں حقائق (بزبان انگریزی) (جامعہ ٹوکیو، جاپان)
  51. "Mosque FAQ"۔ The University of Tulsa۔ March 30, 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 9, 2006 
  52. "Fiqh of Masjid & Musalla"۔ Qa.sunnipath.com۔ 2005-07-03۔ 19 اکتوبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 نومبر 2011 
  53. Fred S. Kleiner (2010)۔ Gardner's Art Through the Ages: The Western Perspective۔ Cengage Learning۔ صفحہ: 265۔ ISBN 978-0-495-57355-5۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2013 
  54. "Terms 1: Mosque"۔ University of Tokyo Institute of Oriental Culture۔ اخذ شدہ بتاریخ April 9, 2006 
  55. Ahmed 2002
  56. Bloom & Blair 2009
  57. Al-Mawardi Abu al-Hasankok Ibn Muhammad Ibn Habib (2000)۔ The Ordinances of Government (Al-Ahkam al-Sultaniyya w'al-Wilayat al-Diniyya)۔ Lebanon: Garnet Publishing۔ صفحہ: 184۔ ISBN 978-1-85964-140-8 
  58. "Morocco travel"۔ CNN۔ October 12, 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ September 22, 2006 
  59. ["دیکھیے آداب المسجد ، بزبان عربی"۔ 16 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2007  دیکھیے آداب المسجد ، بزبان عربی]
  60. "Chapter 16. The Description of the Prayer"۔ SunniPath Library۔ SunniPath۔ November 28, 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ July 12, 2006 
  61. بخاری، رقم 815۔ مسلم، رقم 563،564۔ موطا، رقم 30۔ ترمذی، رقم 1806۔ ابن ماجہ، رقم 1016،1015۔ ابوداود، رقم 3824۔ نسائی، رقم 707۔ احمد بن حنبل، رقم 4619، 4715، 7573، 7599، 9540، 12960، 15056 ،15111، 15198،15334۔
  62. مقصود، رقیہ وارث (2003-04-22). خود کو اسلام سکھائیے ( Teach Yourself Islam), دوسری طباعت، شکاگو: McGraw-Hill, ISBN 0-07-141963-2.
  63. Abdur Rahman I. Doi۔ "Women in Society"۔ Compendium of Muslim Texts۔ University of Southern California۔ April 9, 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 15, 2006 
  64. R Hillenbrand۔ "Masdjid. I. In the central Islamic lands"۔ $1 میں P. J. Bearman، Th. Bianquis، Clifford Edmund Bosworth، E. van Donzel، Wolfhart Heinrichss۔ Encyclopaedia of Islam Online۔ Brill Academic Publishers۔ ISSN 1573-3912 
  65. Rawya Rezk (January 26, 2006)۔ "Muslim Women Seek More Equitable Role in Mosques"۔ The Columbia Journalist۔ May 27, 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 9, 2006 
  66. "Revealed: The world's 20 most expensive buildings"۔ The Telegraph (بزبان انگریزی)۔ 2016-07-27۔ ISSN 0307-1235۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2020 
  67. Ali Daye (21 March 2018)۔ "Grand Mosque Expansion Highlights Growth of Saudi Arabian Tourism Industry (6 mins)"۔ Cornell Real Estate Review (بزبان انگریزی)۔ 09 فروری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2019 
  68. [1] آرکائیو شدہ 9 اپریل 2019 بذریعہ وے بیک مشین. mwn.gov.sa. Retrieved 10 March 2019.
  69. "Prophet's Mosque to accommodate two million worshippers after expansion"۔ Arab News۔ 26 September 2012۔ 07 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2016 
  70. "Imam Reza Shrine - Mashhad"۔ Piranoos (بزبان انگریزی)۔ 2019-11-11۔ 30 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2020۔ The shrine has now reached...a capacity of 700,000. 
  71. "The Glory of the Islamic World"۔ Imam Reza (A.S.) Network۔ 12 جون 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2009 
  72. Hira Husain (2015-11-06)۔ "King of All Mosques - Faisal Mosque"۔ House of Pakistan (بزبان انگریزی)۔ 21 فروری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اپریل 2020 
  73. "Faisal Mosque not a 'gift' by Saudi Arabia"۔ Daily Times (بزبان انگریزی)۔ 2017-02-13۔ 23 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2020 
  74. 8 Stunning Grand Mosques around Indonesia That You Will Always Remember آرکائیو شدہ 12 فروری 2019 بذریعہ وے بیک مشین. Ministry of Tourism, Republic of Indonesia. Retrieved 12 February 2019.
  75. Daniel McCrohan (2010)۔ "The search for the world's smallest mosque"۔ Lonely Planet۔ 13 فروری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2019 
  76. ^ ا ب Algeria constructs mosque with world’s tallest minaret آرکائیو شدہ 13 فروری 2019 بذریعہ وے بیک مشین. Construction Review Online. Retrieved 12 February 2019.
  77. Badshahi Mosque with a capacity of 100'000 is Pakistan's second largest Mosque آرکائیو شدہ 14 اپریل 2019 بذریعہ وے بیک مشین. Pakistan Tours Guide. Retrieved 14 April 2019.
  78. "Grand Jamia Masjid"۔ timesofindia-economictimes۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2015 
  79. "Erdogan opens Turkey's largest mosque in Istanbul"۔ Al Jazeera English۔ 4 May 2019۔ 04 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2019 
  80. ^ ا ب Selina Julien۔ "Abu Dhabi's Sheikh Zayed Grand Mosque: Secrets of one of the world's grand places of worship"۔ CNN (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2020 
  81. Tai Yong Tan (2000)۔ The Aftermath of Partition in South Asia۔ Routledge۔ صفحہ: 170۔ ISBN 978-0-415-17297-4 
  82. "Jamia Masjid Srinagar"۔ Gaffara Kashmir۔ 25 اپریل 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2009 
  83. S. M. Mukarram Jahan (9 January 2019)۔ "Plaque of Jamia Masjid"۔ Wikimedia Commons۔ Wikimedia۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جنوری 2019 
  84. "State Mosque to be named after Imam Abdul Wahhab"۔ Gulf-Times۔ 02 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2015 
  85. Official Sabancı Foundation website آرکائیو شدہ 2008-11-18 بذریعہ وے بیک مشین
  86. "Charming Chadni Chowk" (PDF)۔ Delhi Tourism۔ 02 اپریل 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2015 
  87. Iran's Mosques: The Most Beautiful in the World آرکائیو شدہ 12 فروری 2019 بذریعہ وے بیک مشین. Iran Review. Retrieved 12 February 2019.
  88. Angeles, Vivienne (2009)۔ "Constructing Identity: Visual Expressions of Islam in the Predominantly Catholic Philippines"۔ Identity in Crossroad Civilisations: Ethnicity, Nationalism and Globalism in Asia۔ Amsterdam University Press: 195–218۔ ISBN 9789089641274 
  89. ^ ا ب A look at some of Africa's largest Mosque آرکائیو شدہ 12 فروری 2019 بذریعہ وے بیک مشین. Pulse. Retrieved 12 February 2019.
  90. Peter Neville-Hadley. Frommer's China. Frommer's, 2003. آئی ایس بی این 978-0-7645-6755-1. Page 302.
  91. Shah Jahan Mosque, Thatta آرکائیو شدہ 19 اکتوبر 2018 بذریعہ وے بیک مشین. Visitpak.com. Retrieved 12 February 2019.
  92. "New Istanbul mosque becomes largest in Turkey"۔ 04 مئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2020 
  93. Makhachkala organizes charity iftars آرکائیو شدہ 24 مارچ 2012 بذریعہ وے بیک مشین, islamdag.info, 23 August 2011, read 12 January 2014
  94. "Brochure by the Turkish Ministry of Religious Affairs" (PDF)۔ 28 مئی 2008 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2007 
  95. Masjid Negara آرکائیو شدہ 13 فروری 2019 بذریعہ وے بیک مشین. IslamGRID. Retrieved 12 February 2019.
  96. Chapter 2: Religious Commitment
  97. 'What Muslims Want': A survey of British Muslims by ICM on behalf of Policy Exchange
  98. "Valores, Actitudes y Opiniones de los Inmigrantes de Religión Musulmana" (PDF)۔ 03 اکتوبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2017 
  99. ^ ا ب World Values Survey (2010-2014)
  100. Israel’s Religiously Divided Society
  101. ^ ا ب Sondage auprès des jeunes Marocains résidant en Europe
  102. Survey of Muslims in Canada 2016
  103. ^ ا ب پ "Religious Regimes and Prospects for Liberal Politics: Futures of Iran, Iraq, and Saudi Arabia" (PDF)۔ 13 مئی 2013 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2017 
  104. Section 2: Religious Beliefs and Practices
  105. The resilience and ordinariness of Australian Muslims: Attitudes and experiences of Muslims Report
  106. Muslim Life in Germany: A study conducted on behalf of the German Conference on Islam
  107. "A French Islam is possible" (PDF)۔ 15 ستمبر 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2017 
  108. Ednan Aslan۔ Islamic Education in Europe۔ Böhlau Verlag Wien۔ صفحہ: 82۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2017 
  109. Religie aan het begin van de 21ste eeuw

مزید پڑھیے

ترمیم