عبد الرحیم بستوی

ایک ہندوستانی دیوبندی عالم

عبد الرحیم بستوی (1934ء - 2015ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم اور معقولات و منقولات؛ دونوں طرح کے علوم کے ماہر تھے اور چونتیس سال تک دار العلوم دیوبند کے استاذ رہے۔


عبد الرحیم بستوی
لقبامام المنطق و الفلسفہ
ذاتی
پیدائش1934ء
وفات9 ستمبر 2015(2015-90-09) (عمر  80–81 سال)
مدفنقاسمی قبرستان
مذہباسلام
قومیتبھارتی
فقہی مسلکسنی، حنفی
تحریکدیوبندی
بنیادی دلچسپیفقہ، اصول فقہ، اصول تفسیر، منطق، علم کلام
اساتذہحسین احمد مدنی، محمد ابراہیم بلیاوی، فخر الحسن مرادآبادی

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

ان کی پیدائش 1934ء میں مشرقی اتر پردیش کے غیر منقسم ضلع بستی (موجودہ ضلع سنت کبیر نگر) کے دریا باد گاؤں میں ہوئی تھی۔[1] ان کے والد ماجد کا نام محمد سلیم تھا۔[2]

بستوی کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں ہوئی۔[3] مکتب کی تعلیم کے بعد ہدایۃ النحو و علم الصیغہ تک کی تعلیم ان کے گاؤں کے قریب مدرسہ عربیہ دینیہ، مونڈا ڈیہہ بیگ میں ہوئی۔[4] اس کے بعد شرح تہذیب، قطبی، شرح ابن عقیل اور شرح جامی تک کی تعلیم مدرسہ نور العلوم، بہرائچ میں ہوئی۔[5]

مدرسہ نور العلوم، بہرائچ کے بعد وہ آگے کی تعلیم کے لیے 1372ھ بہ مطابق 1952ء میں دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1375ھ بہ مطابق 1955ء میں وہاں سے فارغ ہوئے۔[6][7] ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں حسین احمد مدنی، فخر الحسن مرادآبادی، محمد ابراہیم بلیاوی، بشیر احمد خان بلند شہری، محمد سالم قاسمی اور حسین احمد بہاری شامل ہیں۔[8] [9][10] نیز میسور کے زمانۂ تدریس میں وہیں سے ادیب ماہر اور ادیب کامل کا امتحان پاس کیا۔[11]

بستوی کے رفقا میں وحید الزماں کیرانوی، مجاہد الاسلام قاسمی، مشہور مقرر و داعی محمد عمر پالن پوری، سابق مہتمم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد رشید الدین حمیدی، احرار الحق فیض آبادی، سابق شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند خورشید عالم دیوبندی، محمد یعقوب بلوچستانی، صادق بستوی جیسے بڑے بڑے مشاہیر علما شامل تھے۔[9][12]

تدریس و خدمات

ترمیم

فراغت کے بعد بستوی چار سال مدرسہ کلیدِ علوم عمری کلاں، ضلع مرادآباد میں مدرس رہے۔[13][14] اس کے بعد 1959ء تک میسور کی درگاہی مسجد میں انھوں نے چار سال امام و خطیب کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور فجر کے بعد درسِ قرآن کا حلقہ بھی لگایا کرتے تھے۔[15][16] اس کے بعد وہ 1963ء میں مدرسہ شمس العلوم، ہندو پور، ضلع اننت پور آندھرا پردیش میں بحیثیت صدر مدرس مقرر ہوئے اور تقریباً اٹھارہ سال تک؛ تدریس، صدارت اور اہتمام کی شکل میں انھوں نے اس مدرسہ میں خدمات انجام دیں۔[17]

1981ء میں دار العلوم دیوبند میں انتظامی انقلاب کے بعد وہ وہاں تدریس کے لیے مدعو کیے گئے اور تاوفات 34 سال تک دار العلوم دیوبند کے استاذ رہے۔[17] اس عرصہ میں مختلف کتابیں جیسے: ترجمۂ قرآن، نور الانوار، تفسیر جلالین، شرح العقائد النفسیہ، سراجی، مشکوٰۃ المصابیح اور خصوصاً سلم العلوم، مبادی الفلسفہ، میبذی؛ ان سے متعلق رہیں۔[17]

بیعت و خلافت

ترمیم

تعلیم سے فراغت کے بعد ہی وہ حسین احمد مدنی سے بیعت ہو گئے تھے، حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد دوبارہ کسی اور سے بیعت نہیں ہوئے، 2006ء میں بنگلہ دیش کے دورہ کے موقع کے پر حافظ جی حضور (خلیفہ اشرف علی تھانوی) کے خلیفہ الطاف حسین بنگلہ دیشی نے انھیں خلافت سے نوازا۔[14]

وفات و پسماندگان

ترمیم

ان کا انتقال 24 ذی قعدہ 1436ھ بہ مطابق 9 ستمبر 2015ء بہ روز بدھ ہوا۔[18][19][20][21] قاسمی قبرستان میں مدفون ہوئے۔[22] ان کے پس ماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹی کے علاوہ نو بیٹے ہیں، جن میں سے ایک مفتی، ایک پی ایچ ڈی اسکالر، چار عالم، ایک بی اے و آئی ٹی آئی کیے ہوئے اور بقیہ حفاظ و قراء ہیں[23] بیٹوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں: نور الہدیٰ قاسمی (مہتمم دار العلوم فاروقیہ دیوبند)، قمر الہدیٰ قاسمی، شمس الہدیٰ دریابادی (اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)، نجم الہدیٰ قاسمی، بدر الہدیٰ قاسمی، عین الہدیٰ دریابادی، ضیاء الہدیٰ قاسمی، فیض الہدیٰ دریابادی، خیر الہدیٰ دریابادی۔[23]

قلمی خدمات

ترمیم

اخبار تنظیم، میسور اور ماہنامہ نور و نار، بنگلور میں ان کے دینی و شرعی مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔[24] نیز ان کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[25]

  • پندرہ سنتیں
  • شب برات
  • شب معراج
  • احکام عید الاضحیٰ
  • خطبات لندن
  • خطبات برمنگھم
  • اسلام اور سلام
  • شرحِ سراجی
  • سوانح رحیمی (خود نوشت) (غیر مطبوعہ)
فائل:امام المنطق و الفلسفہ.jpg
عبد الرحیم بستوی پر لکھے گئے مضامین و مقالات کا مجموعہ ”امام المنطق و الفلسفہ“
فائل:مولانا بستوی کا ذکر جمیل.jpg
اشتیاق احمد دربھنگوی کی کتاب مولانا بستوی کا ذکر جمیل“ کا سرورق

حوالہ جات

ترمیم
  1. دریابادی، قاسمی 2018, p. 348.
  2. دربھنگوی 2016, p. 11.
  3. دربھنگوی 2016, p. 13.
  4. دربھنگوی 2016, p. 14.
  5. دربھنگوی 2016, p. 15.
  6. دربھنگوی 2016, p. 16.
  7. دریابادی، قاسمی 2018, p. 157.
  8. دربھنگوی 2016, p. 17,19,20.
  9. ^ ا ب نور عالم خلیل امینی (ربيع الأول 1437 هـ/ جنوری 2015ء)۔ الشيخ عبد الرحيم القاسمي البستوي – رحمہ اللہ (بزبان عربی) (2015 ایڈیشن)۔ مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  10. دریابادی، قاسمی 2018, p. 45.
  11. دربھنگوی 2016, p. 69.
  12. دربھنگوی 2016, p. 65.
  13. دربھنگوی 2016, p. 23.
  14. ^ ا ب مولانا توحید عالم بجنوری (نومبر 2015ء)۔ "کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا وہ ایسا کہ سوگیا ہے"۔ darululoom-deoband.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  15. دربھنگوی 2016, pp. 24، 70.
  16. دریابادی، قاسمی 2018, p. 158,159.
  17. ^ ا ب پ دریابادی، قاسمی 2018, p. 159.
  18. مولانا عرفی قاسمی (10 ستمبر 2015ء)۔ "مولانا عبدالرحیم بستوی کے انتقال سے دارالعلوم دیوبند کا ناقابل تلافی نقصان"۔ www.uniurdu.com۔ یو این آئی اردو سروس۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  19. دریابادی، قاسمی 2016, p. 46.
  20. مولانا عبد الرؤف غزنوی (مارچ 2016ء)۔ "حضرت مولانا عبد الرحیم بستویؒ استاد دارالعلوم دیوبند کی رحلت!"۔ www.banuri.edu.pk۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی، پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2021 
  21. "مولانا عبد الرحیم بستوی بھی چل بسے"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ مکتبہ دار العلوم دیوبند۔ 99 (10)۔ ذی الحجہ 1436ھ بہ مطابق اکتوبر 2015ء 
  22. دریابادی، قاسمی 2015, p. 49.
  23. ^ ا ب دربھنگوی 2016, p. 65,66.
  24. دربھنگوی 2016, p. 35.
  25. دریابادی، قاسمی 2018, p. 170.

کتابیات

ترمیم
  • شمس الہدیٰ، نجم الہدی دریابادی، قاسمی (اپریل 2018)۔ امام المنطق و الفلسفہ (پہلا ایڈیشن)۔ دریا باد، ضلع سنت کبیر نگر، یوپی: دار العلوم ابی ابن کعب 
  • اشتیاق احمد دربھنگوی (2016)۔ مولانا بستوی کا ذکر جمیل (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ حجاز