میلاد النبی

محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا جشن
(مولد نبوی سے رجوع مکرر)

میلاد النبیﷺ یا جشنِ میلاد النبیﷺ (عربی: مَوْلِدُ النَبِيِّ‎) سے مراد رسول کی ولادت کا دن ہے۔ یہ دن بعض مسلمان ہر سال اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ ولادت کی مناسبت سے مناتے ہیں۔ یہ ربیع الاول کے مہینہ میں آتا ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے۔ اگرچہ کچھ مسلمان اسے ایک عید کے طور پر مناتے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس تہوار کو دین میں ایک اضافہ اور بدعت تصور کرتی ہے[3][4] [5]

میلاد النبی / جشنِ میلاد النبی
ملائشیا صوفی مسلمان دار الحکومت پتراجایا میں جلوس میلاد النبی، 2013۔
عرفیتمیلاد النبی ، المولد النبوی[1]
منانے والےبعض صوفی گروہ جیسے بریلوی مکتب فکر، اہل تشیع اور تصوف سے تعلق رکھنے والے مختلف دیگر مکاتب فکر۔
قسمتصوف
اہمیتمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش کی خوشی میں
رسوماتروزہ، عوامی جلوس، نعت خوانی، ذکر و درود، صدقہ، خاندانی اور دیگر سماجی اجتماعات، مساجد، راستوں اور گھروں کی سجاوٹ وغیرہ
تاریخ12 ربیع الاول (اہل سنت)، 17 ربیع الاول (اہل تشیع)[2]
تکرارسالانہ
عالمی میلاد کانفرنس، مینار پاکستان لاہور
فائل:Milad.jpg
بھارت میں میلاد النبی کا ایک اجتماع۔

میلاد النبیﷺ سے متعلق علمائے اسلام کی آراء

  • مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا: شریعت مطہرہ میں عید میلاد منانے کی کوئی اصل نہیں ہے ‘ بلکہ یہ محض بدعت ہے۔[6]
  • سعودی عرب کے مشہور عالم دین الشیخ محمد صالح المنجد رحمہ اللہ نے بھی جشن عيد ميلاد النبى کو دین میں خودساختہ اضافہ و بدعت قرار دیا ہے[7]
  • عالم اسلام کی ایک مشہور درسگاہ جامعہ بنوریہ نے بھی اپنے ایک فتوی میں عیدمیلادالنبیﷺ کو بدعت قرار دیا ہے[8]
  • اسی طرح عالم اسلام کی ایک اور مشہور درسگاہ دارلعلوم دیوبند نے بھی اپنے ایک فتوی میں عیدمیلادالنبیﷺ کو بدعت کہا ہے[9]
  • انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے مشہور سعودی عالم دین عاصم بن لقمان الحكيم رحمہ اللہ نے بھی اپنے ایک ویڈیو بیان میں میلادالنبیﷺ کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس سے بچنے کی نصیحت کی ہے۔[10]
  • پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور عظیم مبلغ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے بھی جشن عید میلاد کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔[11]
  • ایک اور مشہور سکالر مفتی طارق مسعود بھی جشن عیدمیلاد کو دین میں ایک خود ساختہ اضافہ اور بدعت سمجھتے ہیں۔[12]
  • سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمه اللہ بھی جشن عید میلاد کو کرسمس سے مشابہت، دین میں اضافہ اور بدعت قرار دیتے ہیں۔[13]
  • عالم اسلام کے ایک اورمشہور سکالر شیخ صالح فوزان رحمہ اللہ نے بھی جشن عید میلاد کو دین اسلام میں خود ساختہ اضافہ اور بدعت قرار دیا ہے۔[14]

وجہ تسمیہ اور مختلف ممالک میں دیگر نام

 
سیکیتان اجلاس انڈونیشیا، ہفتہ بھر منائے جانے والے مولد کے تقاریب۔

لفظ مولد کا مصدر ولد ایک عربی لفظ ہے۔ جس کے معنی تولید یا جنم دینا یا وارث کے ہیں۔[15] عصری دور میں مولد یا مولود لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کو کہتے ہیں۔[16]

میلاد النبی کے دیگر نام مختلف ممالک میں:

تقریبات و رسومات

 
Garebeg جشن میلا یوگیکرتا، جاوا انڈونیشیا

میلاد اکثر اسلامی ممالک میں منایا جاتا ہے اور دیگر ممالک جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے وہاں پر بھی، جیسے بھارت، برطانیہ، کینیڈا۔[17] اور روس وغیرہ[18][19][20][21][22][23][24][25][26] لیکن عرب ممالک سعودی عرب کویت اور بحرین میں اس دن سرکاری سطح پر چھٹی نہیں ہوتی۔[27] مقبول اسلامی تعطیلات کی رسمی تقریباًت میں شرکت کو اسلامی احیاء کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔[28] میلاد کا جشن منانے کے لیے بظاہر عام مسلمانوں کا کوئی ایک واضح مقصد متعین نہیں ہے، جشن مقدس اور حرمت کے نام پر کیا جاتا ہے۔[29]

روزہ

اس دن سنی مسلمانوں کی ایک تعداد روزہ رکھتی ہے۔[حوالہ درکار] جس کی وجہ اسلام میں شکر نعمت پر نماز یا روزہ رکھنے کی سنت ہے، خود محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ وہ ہر پیر کے دن اپنی ولادت کی یاد میں روزہ رکھا کرتے ( کیونکہ یہی ان کی پیدائش کا دن ہے)۔ تاہم اس حدیث کے تحت پورا سال پیر کے دن روزہ رکھنا مسنون ہے نا کہ صرف سال میں ایک دفعہ پیر کے دن۔[30][31][32][33]

جلوس

اس دن کئی ممالک میں خاص کر پاکستان، بھارت، ملائشیا، بنگلہ دیش وغیرہ میں عوامی جلوس نکالے جاتے ہیں، سڑکوں، چوراہوں کو سجایا جاتا ہے، جگہ جگہ کھانے پینے کا بندوبست کیا جاتا ہے اور منچ بنائے جاتے ہیں، جن پر علما سیرت کا بیان کرتے ہیں جو اس دن عام طور پر معجزات نبوی، ولادت نبوی، میلاد بطور نعمت کے تشکر جیسے عنوانات پر ہوتے ہیں۔ نعت خواں پارٹیاں ٹولیوں کی صورت نعتیں پڑھتی ہیں اور جلوس مخصوص راستوں سے ہوتے ہوئے منزل پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ یہ جلوس عام طور پر 12 کو نکالے جاتے ہیں، لیکن پورا مہینا ہی شہر کے الگ الگ گوشوں میں چھوٹے پیمانے پر بھی جلوس، ریلیاں اور گھروں میں مجالس میلاد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

میلاد النبیﷺ کی تاریخ میں اختلاف

اس بات میں اختلاف ہے کہ حضورﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضورﷺعام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپ ﷺ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ ﷺاس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیر نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔[34]

قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب 'التقویم العربي قبل الإسلام' میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ''عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول 'حضرت ابراہیم' کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرت ﷺ کی وفات کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔''[35]

برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹؍ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق ِجدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔[36]

12 ربیع الاول دراصل یوم وفات ہے!

ابن سعد، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔[37] حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔[38]

حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ۱۲؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔[39]

مؤرخ ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ نبی اکرمﷺ۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔[40] حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔[41]

محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔[42] امام نووی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔[43]

مؤرخ و مفسر ابن جریر طبری نے بھی ۱۲؍ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔[44]

امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔[45]

ملا علی قاری کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔[46]

سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی کا بھی یہی فتویٰ ہے۔[47]

قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔[48]

صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔[49]

ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔[50]

مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔[51]

درج بالا حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبیﷺہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے '۱۲ وفات' کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!... تو اس معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام '۱۲ وفات' کی بجائے 'عیدمیلاد' رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ 'مشرق' لاہور کی ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے :

''اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے 'میلادالنبی ﷺ' کا نام دے دیا۔''[52]

میلاد النبیﷺ کی ابتداء

ڈاکٹر این میری شمل نے مجالس میلاد کے انعقاد اور میلاد کی ابتدا اور فروغ کے بارے میں جو رائے دی ہے اس لحاظ سے یا سلسلہ چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوا ہے۔[53]

امام سخاوی فرماتے ہیں کہ میلاد منانے کا رواج تین صدی بعد ہوا ہے اور اس کے بعد سے تمام ممالک میں مسلمان عید میلاد النبی مناتے چلے آ رہے ہیں۔[54]

مروج میلاد کے سلسلہ میں سید سلیمان ندوی اپنی رائے میں لکھتے ہیں[55] جس نے اس مہینے کو ولادت نبوی کی یادگار اور محفل میلاد کا زمانہ بنایا۔ ملک معظم مظفر الدین ابن زین العابدین وہ پہلا شخص ہے، جس نے مجلس میلاد (سرکاری طور پر) قائم کی۔ ابن خلکان نے ملک مظفر شاہ اربل (549ھ تا 630ھ) کے حال میں لکھا ہے مولود شریف بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام سے منایا کرتا تھا، یہ صلیبی جنگوں کا دور تھا۔ اس کے لیے ابن وحیہ (متوفی 633ھ) نے 604ھ میں کتاب التنویر في مولد السراج المنین لکھی تھی اور بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے نوازا تھا، وہ مشاہیر فضلاء میں سے تھا۔

جلال الدین سیوطی کے شاگرد، محمد بن علی یوسف دمشقی شامی نے سیرت شامی (سبل الدی و الدشاد فی سیرۃ خیر العباد) میں لکھا ہے کہ؛ سب سے پہلے مولود عمر بن محمد موصلی نے کیا تھا جو ایک نیک آدمی مشہور تھے اور ان کی پیروی سلطان اربل نے کی۔[56] مگر حسن مثنیٰ کی تحقیق کے مطابق سلطان اربل سے بھی پہلے سرکاری مجلسِ میلاد شاہ سلجوقی نے منائی؛ سلطان ملک شاہ سلجوقی نے 485ھ میں ایک مجلس مولود دھوم دھام سے بغداد میں منعقد کی۔ اس کا چرچا ہوا کیونکہ یہ سرکاری طور پر تھی اس لیے اس کا تذکرہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ ورنہ عوامی طور پر یہ دن عوام اپنے اپنے انداز میں منا رہی تھی۔[57]

مصر کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت لکھتے ہیں کہ: ''إن أول من أحدثھا بالقاھرة الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجه من المغرب إلی مصر في شوال سنة (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائة ھجریة ...'' ''سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبیﷺ، میلادِ علی، میلادِ فاطمہ رضی اللہ عنہا، میلادِ حسن، میلادِ حسین، اور حاکم وقت کا میلاد... یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔''[58]

علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی لکھتے ہیں: ''کان للخلفاء الفاطمیین في طول السنة أعیاد ومواسم وھي موسم رأس السنة وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبي ﷺ ومولد علي بن أبي طالب ومولد فاطمة الزھراء ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفة الحاضر'' ''فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیﷺ، میلادِ علی، میلاد فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، میلادِ حسن، میلاد حسین اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔''[59]

عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علی، میلادِ حسن و حسین وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبیﷺپر زور دیا۔ چنانچہ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ کے بقول : ''وکان أول من فعل ذلك بالموصل الشیخ عمر بن محمد الملا أحد الصالحین المشھورین وبه اقتدی في ذلك صاحب إربل وغیرہ'' ''(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی 'اربل'کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔''[60]

اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ ۵۸۶ ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ :

''یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتااور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ؎

کساعیة للخیر من کسب فرجھا      لك الویل لا تزني ولا تتصدقي

''یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔[61]

اسی 'صاحب ِاربل' ہی کے بارے میں امام سیوطی رقم طراز ہیں کہ

''وأول من أحدث فعل ذلك صاحب إربل الملك المظفر أبوسعید کوکبوري''

''سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔''[62]

شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:

''محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہا، صوفیا، وعظا، قرأ اور شعرا حضرات اربل آنا شرو ع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان 'مہمانوں' کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھربو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عیدمیلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) آنحضرتﷺکے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عیدمیلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔''[63]

سبط ابن جوزی کا بیان ہے کہ

''اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دستر خوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلا دمیں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیا کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقصکرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔'[64]

میلاد النبیﷺ کی برصغیر میں ابتداء

روزنامہ 'کوہستان' ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۴ء میں احسان بی اے 'لاہور میں عیدمیلاد النبیﷺ ' کی سرخی کے تحت لکھتے ہیں کہ:

''لاہور میں عیدمیلاد النبیﷺ کا جلوس سب سے پہلے ۵ ؍جولائی ۱۹۳۳ء مطابق ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۵۲ھ کونکلا۔ اس کے لئے انگریزی حکومت سے باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیاتھا۔ اس کا اہتمام انجمن فرزندانِ توحید موچی دروازہ نے کیا۔ اس انجمن کامقصد ہی اس کے جلوس کا اہتمام کرنا تھا۔ انجمن کی ابتدا ایک خوبصورت جذبہ سے ہوئی۔ موچی دروازہ لاہور کے ایک پرجوش نوجوان حافظ معراج الدین اکثر دیکھاکرتے تھے کہ ہندو اور سکھ اپنے دھرم کے بڑے آدمیوں کی یاد بڑے شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور ان دنوں ایسے لمبے لمبے جلوس نکلتے ہیں کہ کئی بازار ان کی وجہ سے بند ہوجاتے ہیں۔ حافظ معراج الدین کے دل میں خیال آیا کہ دنیا کے لئے رحمت بن کر آنے والے حضرت محمدﷺ کی یاد میں اس سے بھی زیادہ شاندار جلوس نکلنا چاہئے ... انہوں نے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد عیدمیلاد النبیﷺ کے موقع پر جلوس مرتب کرنا تھا۔ اس میں مندرجہ ذیل عہدیدار تھے: (۱) صدر: مستری حسین بخش (۲) نائب صدر: مہر معراج دین (۳) حافظ معراج الدین (۴)پراپیگنڈہ سیکرٹری: میاں خیر دین بٹ (بابا خیرا) (۵) خزانچی: حکیم غلام ربانی... اشتہارات کے ذریعہ جلوس نکالنے کے ارادہ کو مشتہر کیا گیا۔ چست اور چاق و چوبند نوجوانوں کی ایک رضا کار جماعت بنائی گئی اور جگہ جگہ نعتیں پڑھنے کاانتظام کیا گیا... الخ''[65]

روزنامہ 'مشرق' مؤرخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۴ء (۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۰۴ھ) میں مصطفی کمال پاشا (صحافی)''لاہور میں ۱۲ ربیع الاول کا جلوس کیسے شروع ہوا؟'' کی سرخی کے بعد لکھتے ہیں کہ:

''آزادی سے پیشتر ہندوستان میں حکومت ِبرطانیہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑکے یوم پیدائش کوبڑے تزک و احتشام کے ساتھ منانے کا انتظام کرتی اور اس روز کی فوقیت کو دوبالا کرنے کے لئے اس دن کو 'بڑے دن' کے نام سے منسوب کیا گیا ... تاکہ دنیا میں ثابت کیا جاسکے کہ حضرت مسیح ؑ ہی نجات دہندہ تھے۔[66]

میلاد النبیﷺ کے قائلین کا قرآن سے استدلال

میلاد النبی کے قائلین کے نزدیک اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے:[67]

قرآن میں ہے:  وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَئِذَا كُنَّا تُرَابًا أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ الأَغْلاَلُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدونَ    
اور انھیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ عبداللہ بن عباس کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔ جن میں رب تعالیٰ کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔[68]

جبکہ اہل السنة والجماعة کے نزدیک یہ استدلال باطل ومردود ہے ، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ کسی حدیث میں آیت کریمہ کی یہ تشریح وارد نہیں ہوئی، نیز صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نے آیت کریمہ سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواز پر استدلال نہیں کیا اور نہ ہی ان حضرات میں سے کسی نے اسے جائز قرار دیا؛ بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں یہ عمل بدعت وناجائز ہے ، اس سے اجتناب لازم وضروری ہے۔[69]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسا کام جاری کیا جو کہ اس میں نہیں وہ مردود ہے۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔[70]

حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واياكم ومحدثات الأمور فان كل محدثة بدعة ”اور تم نئی ایجاد شدہ چیزوں سے بچنا اس لئے کہ ہر ایجاد شدہ چیز بدعت ہے۔“ [71]

اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة ”اور سب سے بری چیز نئی ایجاد شدہ چیزیں ہیں اور ہر نئی ایجا شدہ چیز (جو دین میں ہو) بدعت ہے۔“[72]

نیز ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ان الله صحبا التوبة عن كل صاحب بدعة حتى يدع بدعته کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب بدعت کی توبہ کو قبول کرنے سے روک دیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی بدعت کو چھوڑ دے۔[73]

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : يا ايها الناس انما انا متبع وسلت بمبتدع فان احسنت فاعينوني وان زغت فقوموني کہ اے لوگو ! میں سنت کی اتباع کرنے والا ہوں اور بدعتوں کی پیروی کرنے والا نہیں اگر اپنے معاملات میں سنت پر قائم رہوں اور اچھا کروں تو میری مدد کرنا اور اگر میں کج رو ہو جاؤں تو مجھے راہ راست پر لانا۔[74]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب فرماتے ہیں کہ ان لكل صاحب ذنب توبة غير اصحاب الاهواء والبدع ليس لهم توبة أنا برئی منهم وهم مني براء کہ ہر صاحب گناہ کی توبہ قبول ہو گی سوائے بدعتی اور ہویٰ پرست کے ان کی توبہ قابل قبول نہیں میں ان سے بری ہوں اور یہ مجھ سے بری ہیں۔[75]

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے عن عثمان الازدي قال: دخلت على ابن عباس فقلت: أوصني فقال: نعم، عليك بتقوى الله والاستقامة اتبع والا تبتدع کہ عثمان الازدی کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ آپ مجھے کچھ وصیت کیجئیے، تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اور دین پر استقامت کو لازم پکڑو اور سنت کی اتباع کرو بدعات مت اختیار کرو۔[76]

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ان ابغض الامور الى الله البدع وان من البدع الاعتكاف فى المساجد التى فى الدور کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض بدعتیں ہیں اور بدعت میں یہ بھی ہے کہ ان مسجدوں میں اعتکاف کیا جائے جو گھروں میں ہیں۔[77]

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: كل بدعة ضلالة وان رآها الناس حسنة کہ ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اس کو اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں۔[78]

نافع بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بغل میں چھینک آنے کے بعد کہا: الحمدلله والسلام على رسول الله حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے اس کی چھینک کے، اس دعا میں زیادتی کو بدعت قرار دیتے ہوئے فرمایا: وليس هكذا علمنا رسول الله علمنا ان نقول: الحمدلله على كل حال کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں سکھایا بلکہ یہ کہا ہے کہ جب چھینک آئے تو الحمد لله على كل حال کہو۔[79]

نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک دوست ملک شام سے آپ کے پاس خط و کتابت کرتا تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس ایک خط لکھا کہ بلغني انه قد احدث فلا تقرئه مني السلام فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يكون فى امتي مسخ وخسف وقذف وذلك فى اهل القدر کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم تقدیر کے سلسلے میں کچھ کلام کرتے ہو اس لئے خبردار تم میرے پاس آئندہ خط نہ لکھنا، ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے جواب دیا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے بدعت اختیار کر لیا ہے، اس لئے اس کا اسلام مجھے مت پہنچاؤ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں چہرہ مسخ کیا جانا، دھنسا دیا جانا اور قذف کا عذاب ہو گا اور یہ تقدیر کے منکر ین میں ہوگا۔[80]

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ قال رضى الله عنه: اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم وكل بدعة ضلالة اتباع کرو اور بدعت ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ اتباع ہی تمہارے لئے کافی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔[81]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "Mawlid in Africa – Muhammad (pbuh) – Prophet of Islam"۔ 14 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2015 
  2. سرمقاله/ میلاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و الہ هفتہ وحدت و نهمین کنفرانس وحدت اسلامی - پایگاہ مجلات تخصصی نور
  3. "فتوی نمبر: 128530، الشیخ محمد صالح المنجد رحمہ اللہ، مفتی سعودی عرب"۔ 24-02-2010 
  4. دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (2018, 11, 05)۔ "دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن فتوی نمبر : 144001200873"۔ banuri.edu.pk 
  5. "فتوی: 679-604/B=5/1433، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند"۔ darulifta-deoband.com 
  6. "فتوی مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن باز" 
  7. "جشن عيد ميلاد النبى جيسى بدعات كو اچھا سمجھنے والے كا رد" 
  8. "عید میلاد کا حکم" 
  9. "كیا عید میلاد النبی منانا بدعت ہے؟" 
  10. "Is celebrating Eid Milad Un Nabi a Bidah? Milad or Mawlid?" 
  11. "Eid Milad Un Nabi Jaiz Hai? - 12 Rabi Ul Awwal - Reality & History" 
  12. "Eid Milad Un Nabi Manana Jaiz Hai?" 
  13. "عید میلاد النبی کی بدعت کس نے نکالی ؟جواب از شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمه اللہ" 
  14. "The ruling on celebrating the Mawlid – Sheikh Salih Al-Fawzan" 
  15. عربی: قاموس المنجد – Moungued Dictionary (paper)، or online: Webster's Arabic English Dictionary آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ websters-online-dictionary.org (Error: unknown archive URL)
  16. Mawlid۔ Reference.com
  17. "Mawlid celebration in Russia"۔ Islamdag.info۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  18. "q News"۔ q News۔ 28 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  19. "Arts Web Bham"۔ Arts Web Bham۔ 14 اگست 1996۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  20. "Buildings of London"۔ Buildings of London۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  21. "Js Board"۔ 17 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2014 
  22. "Sunni society UK"۔ 25 فروری 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2014 
  23. Emilie Bednikoff۔ "Montreal Religious Sites Project"۔ Mrsp.mcgill.ca۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  24. "Muslim Media Network"۔ Muslim Media Network۔ 15 جولا‎ئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  25. "Canadian Mawlid"۔ 09 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2014 
  26. "Religion & Ethics – Milad un Nabi"۔ BBC۔ 7 ستمبر 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  27. "Moon Sighting"۔ Moon Sighting۔ 20 جون 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  28. "Saudi Islam Politics"۔ Atheism.about.com۔ 16 دسمبر 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2011 
  29. Samuli Schielke (ستمبر 2006)۔ "On Snacks and Saints: When Discourses of Rationality and Order Enter the Egyptian mawlid"۔ Archives de sciences sociales des religions۔ 135: 117۔ ISSN 0335-5985۔ doi:10.4000/assr.3765۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 دسمبر 2014 
  30. "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن ،اور اس دن روزہ رکھنا" 
  31. مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب استحبابِ صيام ثلٰثة أيام من کل شہر، 2 : 819، رقم : 1162
  32. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 286، رقم : 38182
  33. نسائی، السنن الکبری، 2 : 146، رقم : 2777
  34. البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲
  35. محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱
  36. سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ؍ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ؍ج۲
  37. طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲
  38. تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹
  39. البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵؍۵
  40. اسدالغابۃ: ۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴
  41. فتح الباری ۲۶۱؍۱۶
  42. السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴
  43. شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰
  44. تاریخ طبری:۲۰۷؍۳
  45. دلائل النبوۃ: ۲۲۵؍۷
  46. مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴؍۱۱
  47. سیرت النبی: ص۱۸۳؍ج۲
  48. رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱
  49. الرحیق: ص۷۵۲
  50. السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴
  51. ملفوظات
  52. روزنامہ 'مشرق' لاہور کی ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۴ء
  53. And Muhammad Is His Messenger: The Veneration of the Prophet in Islamic Piety (Studies in Religion)m این میری شمل، vanguardbooks, لاہور، صفحہ 145، 1987ء
  54. شیخ محمد رضا مصری، کتاب؛محمد رسول اللہ، صفحہ 33
  55. سید سلیمان ندوی، سیرت النبی، جلد 3، صفحہ 746
  56. حکیم عبد الشکور مرزا پوری، عمران اکیڈمی، لاہور، صفحہ 16
  57. °سیارہ ڈائجسٹ، نومبر 1973ء رسول نمبر جلد دوم، مضمون جشن میلاد النبی، مولانا حسن مثنیٰ ندوی، صفحہ 455، 456
  58. أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنة والبدعة من الأحکام صفحہ ۴۴،۴۵
  59. المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰
  60. الباعث علی انکار البدع والحوادث ص۲۱
  61. معجم البلدان:ص۱۳۸، ج۱
  62. الحاوی للفتاوی: ص۱۸۹ ج۱
  63. وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان لابن خلکان : ص۱۱۷ ؍ج۴
  64. مرآۃ الزمان: ص۲۸۱ ج۸
  65. روزنامہ 'کوہستان' ۲۲؍ جولائی ۱۹۶۴ء
  66. روزنامہ 'مشرق' مؤرخہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۴ء
  67. "سورہ یونس کی آیت : ۵۸ سے عید میلاد النبی پر استدلال" 
  68. تفسیر خزائن العرفان
  69. "سورہ یونس کی آیت : ۵۸ سے عید میلاد النبی پر استدلال" 
  70. «متفق عليه، رواه البخاري (2697) و مسلم (17/ 1718)»
  71. ابوداود 4607، ترمذي 2 297
  72. مسلم: 53/2 انووي
  73. صحيح الترغيب 54
  74. الطبقات الكبريٰ ابن سعد: 183٫3
  75. السنته لابن ابي عاصم بتخريج الشيخ الباني رقم 22، 38
  76. سنن الدارمي المقدمه باب من هاب الفتيا 50٫1
  77. السنن الكبريٰ للبيهقي: 316/3
  78. شرح اصول اهل السنت والجماعت لكائي 126، المدخل الي السنن للبيهقي 191
  79. مستدرك الحاكم 265٫4-266 سنن الترمذي: 2738 وقال الشيخ الباني حسن
  80. سنن ابي داود 4613، سنن ابن ماجه، 4041، المشكاة 112، 106
  81. سنن الدارمي 169/1، مجمع الزوائد للهيثمي 181/1، وقال رجاله رجال الصحيح