کاتب چلبی حاجی خلیفہ
کاتب چلبی حاجی خلیفہ یا مصطفیٰ بن عبد اللہ (پیدائش: فروری 1609ء– وفات: 26 ستمبر 1657ء) مشہور ترک مورخ ہیں۔ اُن کا زمانہ حیات سترہویں صدی عیسوی کے پہلے عشرے سے چھٹے عشرے تک محیط ہے۔ یہ عرصہ خاص سیاسی اعتبار سے وہ ہے جب سلطنت عثمانیہ عروج سے جمود کی جانب منتقل ہو رہی تھی علاوہ ازیں وہ کئی عثمانی مہمات و فتوحات میں شامل رہے تھے اور اِن تمام مہمات و فتوحات کے عینی شاہد بھی تھے۔ حاجی خلیفہ کی شہرت اُن کی مشہور کتاب کشف الظنون ہے جس کی وجہ سے انھیں تمام ایشیائی ممالک میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
مؤرخ، جغرافیہ دان | |
---|---|
کاتب چلبی | |
مصطفیٰ بن عبد اللہ | |
1728ء میں ہنگری نژاد جغرافیہ دان ابراہیم متفرقہ کا بنایا ہوا بحر ہند اور چینی دریاؤں کے نقشہ کی نقل جسے حاجی خلیفہ نے بعد ازاں دوبارہ بنایا۔
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | ذوالقعدہ 1017ھ/ فروری 1609ء قسطنطنیہ، سلطنت عثمانیہ، موجودہ استنبول، ترکی |
وفات | بدھ 18 ذوالحجہ 1067ھ/ 26 ستمبر 1657ء (عمر: 50 سال 1 ماہ قمری، 48 سال 7 ماہ شمسی) قسطنطنیہ، سلطنت عثمانیہ، موجودہ استنبول، ترکی |
قومیت | ترک |
دیگر نام | حاجی خلیفہ |
نسل | ترکی قوم [1] |
مذہب | سنی اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | مؤرخ، جغرافیہ دان |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، ترکی ، فارسی |
شعبۂ عمل | تاریخ |
کارہائے نمایاں | کشف الظنون |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمحاجی خلیفہ کا اصل نام مصطفیٰ بن عبد اللہ ہے اور کاتب چِلبی کے لقب سے مشہور و معروف ہیں۔[2]
ولادت اور ابتدائی حالات
ترمیمحاجی خلیفہ کی ولادت ماہِ ذوالقعدہ 1017ھ مطابق فروری 1609ء میں قسطنطنیہ میں ہوئی۔ حاجی خلیفہ کی ولادت عثمانی سلطان احمد اول کے عہد میں ہوئی تھی جب سلطنت عثمانیہ کا عروج رک چکا تھا اور سلطنت کا یہ زمانہ عرصہ جمود کہلاتا ہے۔ 1031ھ مطابق 1622ء میں 14 سال کی عمر میں وہ سلحداروں کی اُس چیدہ دستے میں شامل کرلیے گئے جس میں اُن کے والد بھی ملازم تھے۔ اِسی زمانے میں انھیں اناطولیہ کے دفتر محاسبہ یعنی اناضولو محاسبہ قلمی میں ایک ادنیٰ منشی کا عہدہ بھی مل گیا جس سے وہ اپنے لقب کاتبِ چِلبی کے نام سے مشہور ہوئے۔
سلاطین عثمانیہ
ترمیمحاجی خلیفہ عثمانی سلطان احمد اول کے عہد میں پیدا ہوئے اور اِس طرح انھوں نے 6 عثمانی سلاطین کا زمانہ حکومت دیکھا۔
- سلطان احمد اول : 21 دسمبر 1603ء تا 22 نومبر 1617ء۔
- سلطان مصطفیٰ اول : 22 نومبر 1617ء تا 26 فروری 1618ء۔
- سلطان عثمان دوم : 26 فروری 1618ء تا 19 مئی 1622ء۔
- سلطان مصطفیٰ اول : 20 مئی 1622ء تا 10 ستمبر 1623ء۔ (دوسری بار )
- سلطان مراد رابع : 10 ستمبر 1623ء تا 9 فروری 1640ء۔
- سلطان ابراہیم : 9 فروری 1640ء تا 8 اگست 1648ء۔
- سلطان محمد رابع : 8 اگست 1648ء تا 8 نومبر 1687ء۔
سلطنتِ عثمانیہ میں خدمات
ترمیم1033ھ سے 1045ھ تک یعنی 1624ء سے 1636ء تک کے درمیانی عرصہ میں سوائے دو مختصر وقفوں کے وہ برابر عساکر عثمانی کے ہمراہ ایشیائے کوچک کی مشرقی سرحد پر مقیم اور مہمات میں شریک رہے۔
حاجی خلیفہ جن مہمات میں شریک رہے وہ یہ ہیں:[2]
- اباظہ پاشا کی بغاوت کے خلاف پہلی مہم : جنگ قیصریہ جو اواخر 1033ھ / اوائل ماہِ اکتوبر 1624ء میں لڑی گئی۔
- ایرانیوں کے خلاف مہم یعنی بغداد کا محاصرہ : یہ محاصرہ ناکام ہو گیا تھا جو 12 نومبر 1625ء سے 2 جولائی 1626ء تک جاری رہا۔
- اباظہ پاشا کے خلاف دوسری مہم اور تیسری مہم یعنی اَزض رُوم کا دوسرا محاصرہ: 12 ستمبر 1627ء تا 25 نومبر 1627ء اور دوبارہ 5 ستمبر تا 21 ستمبر 1628ء تک جاری رہا۔ حاجی خلیفہ اِس تمام مدت میں لشکر عثمانی میں شریک تھے۔
- آغاز ماہِ دسمبر 1628ء میں حاجی خلیفہ لشکر عثمانی کے ہمراہ واپس قسطنطنیہ آئے۔ اِس مہم میں جب فوج بغداد سے واپس آ رہی تھی تو موصلکے مقام پر ماہِ ستمبر 1625ء میں حاجی خلیفہ کے والد عبد اللہ کا اِنتقال ہو گیا۔ تب حاجی خلیفہ کی عمر صرف 17 سال تھی۔
- اِسی زمانے میں حاجی خلیفہ سوار فوج کے اِنتظامی دفتر یعنی سواری باش مقابلہ قلمی میں منشی مقرر ہوئے۔ماہِ مئی 1629ء کے اواخر میں پھر وہ اُس مہم میں شریک ہوئے جو عثمانی وزیر اعظم خسرو پاشا کی قیادت میں ایران کے خلاف بھیجی گئی تھی۔ اِن مہمات میں فتح ہمدان آغاز ماہِ جون 1630ء اور محاصرہ بغداد (جو 30 ستمبر تا 15 اکتوبر 1630ء تک جاری رہا) میں شریک رہے۔
- اواخر 1630ء میں وہ قسطنطنیہ واپس آئے اور سب سے آخر میں ایران کے خلاف ماہِ ستمبر 1633ء تا 1635ء کی اُس بڑی مہم میں حصہ لیا جو خود سلطان مراد رابع کی سرکردگی میں بھیجی گئی تھی، اِس مہم میں شہر اریوان (یریوان) جو 7 اگست 1635ء کو فتح ہوا۔
حج بیت اللہ
ترمیمبروز جمعۃ المبارک 9 ذوالحجہ 1042ھ مطابق 17 جون 1633ء کو حاجی خلیفہ نے اپنی زندگی کا پہلا حج ادا کیا۔ تب حاجی خلیفہ کی عمر 25 سال تھی۔ اِن دِنوں لشکر عثمانی موسم سرماء کے باعث مقام حلب میں مقیم تھا۔[2]
حاجی خلیفہ کا لقب
ترمیم1055ھ مطابق 1645ء میں وہ سوارِی باش مقابلہ قلمی کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اِس کی اہم وجہ یہ تھی کہ وہاں انھیں اُن کی اہمیت کے مطابق ترقی نہ مل سکی تھی۔ 1058ھ مطابق 1648ء میں انھیں اُن کے دوستوں نے اسی دفتر میں خلیفہ یعنی معاونِ ثانی کا عہدہ دِلوا دیا، اِس عہدے سے انھیں حاجی خلیفہ کہا جانے لگا۔
مشاغل علمی
ترمیمماہِ رجب 1045ھ مطابق ماہِ دسمبر 1635ء میں حاجی خلیفہ قسطنطنیہ واپس آنے پر انھیں عثمانی سلطان مراد رابع کی جانب سے ایک خاصی بڑی جائداد ورثہ میں مل گئی جس سے وہ اپنے دِل پسند مشاغل میں پوری طرح وقف ہو گئے جس کا اندازہ اُن کی تحقیقی و علمی کتب سے ہوتا ہے۔ حاجی خلیفہ عثمانی سلطان عثمان ثانی کی بحالتِ قید قتل کیے جانے کے عینی شاہد بھی تھے۔ اِس بات کا ثبوت اُن کی کتاب فَذلِکَہ میں ملتا ہے جسے انھوں نے مکمل تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔[3]
وفات
ترمیمبروز بدھ 17 ذوالحجہ 1067ھ مطابق 26 ستمبر 1657ء کو فقط 50 سال کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہوجانے کے سبب حاجی خلیفہ کا اِنتقال قسطنطنیہ میں اِس حالت میں ہوا جب وہ قہوہ کا ایک کپ اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔
تصانیف
ترمیم- مزید پڑھیے: کشف الظنون
فَذْلِکہ
ترمیمیہ کتاب ڈیڑھ سو فرمانرواء خاندانوں کی مختصر تاریخ پر مشتمل ہے اور غالباً یہ الجنابی (متوفی 999ھ/1591ء) کی تاریخ سے ماخوذ ہے، کتاب کے جا بجا حوالہ جات اِسی تاریخ کے اِقتباسات ہیں۔ فَذْلِکہ عربی زبان میں ہے اور 1051ھ مطابق 1641ء میں لکھی گئی تھی لیکن حاجی خلیفہ نے اپنی اِس تصنیف کا ذکر اپنی دوسری تصنیف قاموس مشاہیر میں کیا ہے۔ فَذْلِکہ اب ناپید ہے اور کوئی مخطوطہ اِس کا موجود نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی دو تفاسیر کا مجموعہ
ترمیماِس کتاب کا نام اب تک صیغہ راز میں ہے، اِس میں ایک تفسیر مفسرِ قرآن البیضاوی (متوفی 1052ھ/1642ء) کی بھی تھی۔ بظاہر اب یہ کتاب ناپید ہے اور اِس کا کوئی ایک مخطوطہ بھی موجود نہیں ہے۔
شرح المُحَمدیۃ
ترمیمیہ مسلم ماہر فلکیات علی القوشجی متوفی 879ھ/ 1471ء)کے رسالہ المُحَمدِیۃ کی شرح تھی مگر یہ نامکمل رہی۔ یہ کتاب بھی اب ناپید ہے۔
تقویم التوارِیخ
ترمیمیہ کتاب تاریخی جدولوں پر مشتمل ہے اور یہ 1058ھ مطابق 1648ء میں مکمل ہوئی۔ اِس کتاب کا مقدمہ اور کئی ضمیمے ترکی زبان میں لکھے گئے ہیں لیکن جدولیں فارسی زبان میں ہیں جن میں اِبتدائے آفرینش سے لے کر 1058ھ تک کے واقعات مذکور ہیں۔[4] یہ کتاب 1146ھ مطابق 1733ء میں قسطنطنیہ سے طبع ہوئی اور اِس میں وہ جدولیں بھی شامل ہیں جن میں 1145ھ مطابق 1732ء تک کے واقعات مندرج ہیں۔ اِس کتاب کا اطالوی ترجمہ وینس کے ایک ترجمان رِینالدو کارلی (Rinaldo Carli) نے کیا تھا۔[5]
جہاں نما
ترمیمیہ کتاب بیانِ کائنات یا اِحوالِ عالم کے نام سے بھی مشہور ہے، اِس کتاب کے طبع اول کی اِبتداء 1058ھ مطابق 1648ء میں ہوئی اور یہ سلطان محمد رابع کے نام سے معنون کی گئی تھی۔[6] یہ کتاب مشہور طابع ابراہیم کے زمانہ میں ہی ناپید سمجھی جاتی تھی۔ اب ناپید ہے۔
سُلم الوصول اِلیٰ طبقات الفحول
ترمیمیہ کتاب مشاہیر کی سوانح کی ایک قاموس ہے جو عربی زبان میں ہے۔ اِس کی جلد اول ایک نقل 1061ھ اور 1062ھ میں مکمل ہوئی۔ اِس کتاب کا ایک مخطوطہ کتاب خانہ شہید علی پاشا میں مصنف کے خود ہاتھ کا لکھا ہوا موحود ہے۔
تحفۃ الاَخیار فِی الحِکَم وَ الْاَمثال وَ الْاَشعار
ترمیمیہ کتاب منتخب اقوال، ضرب الامثال اور مختلف اشعار کا مجموعہ ہے جو غالباً 1061ھ تا 1062ھ میں مکمل ہو گیا تھا۔ اِس کا حوالہ خود حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں بذیل عدد 2537 میں لکھا ہے۔ اِس کتاب کا ایک نسخہ کتاب خانہ اسعد افندی بمقام قسطنطنیہ میں موجود ہے۔
کَشف الظُنُّون عَن اَسَامِی الکُتُب وَ الفُنُون
ترمیمیہ کتاب عربی زبان میں ہے اور حاجی خلیفہ کی سب سے مشہور و معروف کتاب یہی ہے۔ دراصل یہ کتاب عالمِ اِسلام کی تمام کتب کے متعلق معلومات کا دائرۃ المعارف ہے یعنی انسائیکلوپیڈیا۔ حاجی خلیفہ نے اِس کتاب کی تیاری میں 20 سال سے زائد مدت صرف کی۔ اِس کتاب کی پہلی جلد 1064ھ میں مکمل ہوئی۔ اِس کا ایک مستند ایڈیشن فلوگل (Flugel) نے لائپزِگ سے 1835ء اور 1858ء میں شائع کیا۔ بعد ازاں یہ کتاب دوبارہ بولاق سے 1274ھ میں اور اِستنبول سے 1310ھ تا 1311ھ میں طبع ہوئی۔ اِس میں تقریباً 14,500 کتب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
لَوَامِع النُّور فِی ظُلْمۃ اَطْلَس مِینُور
ترمیمMercator, Hondius یعنی Atlas Minor کا ترکی ترجمہ مطابق طبع Arnheim جو 1064ھ تا 1065ھ میں ایک نو مسلم فرانسیسی اخلاصی شیخ محمد افندی کی مدد سے مکمل ہوا تھا۔ اِس کتاب کے متعدد نسخے قسطنطنیہ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ جہاں نما عدد نمبر5 کا دوسرا ایڈیشن: یہ ایڈیشن بالکل ایک نئے اَسلوب پر مرتب ہوا، اِس لیے کہ مصنف اِس کی تیاری سے قبل مغربی مصنفین کی مستند کتب سے اِستفادہ کرچکے تھے۔ لیکن حاجی خلیفہ اِس کتاب کو مکمل نہ کرسکے۔ اِس کتاب کے متعلق ہم صرف اُن جزیات سے واقف ہیں جو ایشیائے کوچک سے متعلق ہیں اور جنہیں ابراہیم متفرقہ نے شائع کیا تھا۔ جہاں نما کا پہلا حصہ 1145ھ مطابق 1732ء، دوسرا حصہ جس میں یورپ افریقہ اور امریکا جیسے تین بڑے براعظموں کا بیان کرنا مقصود تھا، وہ شائع نہیں ہو سکا۔ اِس کتاب کے 2 اور اہم اجزاء بھی موجود ہیں، اِن میں سے ایک موزہ برطانیہ میں عدد نمبر 1038 کے تحت اور دوسرا ویانا رائل لائبری میں عدد نمبر 1282 کے تحت موجود ہے۔
تاریخ افرنگی کا ترکی ترجمہ
ترمیمیہ کتاب بوزنطی مورخ Khalkokondylas کی ایک تاریخ " تاریخ افرنگی" کا ترکی زبان میں کیا ہوا ترجمہ ہے جو اب مفقود ہے۔
رَوْنق السَلطنۃ
ترمیمیہ قسطنطنیہ کی تاریخ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حاجی خلیفہ کہ اپنی ہی ایک عربی کتاب کا ترکی زبان میں کیا ہوا ترجمہ ہے۔ اب یہ مفقود ہے۔
فَذلِکہ کا ترکی ترجمہ
ترمیمیہ کتاب بشکل مخطوطہ کتاب خانہ اسعد آفندی قسطنطنیہ میں موجود ہے۔
اَلاِلھَام المُقدس مِن الفیض الاَقدس
ترمیمیہ رسالہ کی شکل میں ہے اِس میں بعض ایسے اِسلامی شعائر اور اَحکام ایسے بیان کیے گئے ہیں، جن کی مخصوص حالات میں پابندی نہیں کی جا سکتی۔ اِس کتاب کا ایک مخطوطہ کتاب خانہ عمومی قسطنطنیہ میں موجود ہے۔
نَستُور العَمَل لاِصلاح الخَلل
ترمیمیہ مختصر سا رِسالہ مالی اصلاحات پر لکھا گیا ہے جو 1603ء میں مکمل ہوا تھا۔ لیکن تین سال بعد 1606ء میں مکمل شائع ہوا۔ دوبارہ 1280ھ مطابق 1863ء میں قسطنطنیہ سے جرمن زبان میں طبع ہوا۔
رَجم الرجیم بِالسین وَالحیم
ترمیمیہ مختصر سا رِسالہ پیچیدہ قانون مقدمات اور اُن کے متعلق مختلف فیصلوں کا ایک مجموعہ ہے۔ اِس کے اِقتباسات کئی ترکی کتب میں ملتے ہیں۔
فَذلِکہ التواریخ
ترمیمترکی زبان میں فَذلِکہ کا عدد نمبر 1 سے 13 تک ضمیمہ ہے جس میں سلطنت عثمانیہ کی 1000ھ سے 1065ھ تک کے واقعات و تاریخ درج ہے۔ یہ کتاب قسطنطنیہ سے 1286ھ تا 1287ھ میں شائع ہوئی۔
تحفۃ الکبار فی اَسفار البِحار
ترمیمیہ کتاب سلطنت عثمانیہ کی بحری فوج کی تاریخ ہے جو اندازہً 1067ھ مطابق 1656ء میں مکمل تحریر ہو چکی تھی۔ قسطنطنیہ سے 1141ھ مطابق 1728ء میں پہلی بار شائع ہوئی اور دوسری بار 1329ھ مطابق 1911ء میں۔ اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ جیمز مِچل (James Mitchell) نے لندن سے 1831ء میں شائع کیا۔
میزان الحَق فی اِختیار الاَحَق
ترمیمیہ حاجی خلیفہ کی آخری کتاب ہے جو ماہِ صفر 1067ھ مطابق نومبر 1656ء میں لکھی گئی تھی۔ اِس میں اُس زمانے کی بہت سی فقہی مناقشات سے بحث کی گئی ہے اور حاجی خلیفہ نے اپنے اُستاد قاضی زادہ سے جو راسخ العقیدہ تھے، قطعی طور پر اِختلاف رائے کیا ہے۔ یہ کتاب قسطنطنیہ سے 1281ھ، 1286ھ اور 1306ھ میں شائع ہوئی۔[7][8][9]
اِزمیر کاتب چِلبی یونیورسٹی
ترمیم2010ء میں حکومت ترکی نے ازمیر میں عوامی یونیورسٹی اِزمیر کاتب چِلبی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جو حاجی خلیفہ کے اعزاز کے نام سے قائم کی گئی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Katip-Celebi
- ^ ا ب پ انسائیکلوپیڈیا آف اِسلام: ج 7، ص 771۔
- ↑ احمد رفیق : کاتب چِلبی، کائنات قطوفانِیسی کتب خانہ، ص 41 تا 42۔ طبع 1932ء
- ↑ کشف الظنون: عدد 3496۔
- ↑ Catalogue of Turkish Manuscripts in the British Museum ص 33، عدد 195۔
- ↑ کشف الظنون: عدد 4355۔
- ↑ براکلمان: تاریخ آداب العربی، ج 2 ص 428۔
- ↑ احمد زکی پاشا: موسوعات العلوم، ص 24 تا 29۔
- ↑ عشاقی زادہ : ذیل عطائی، سیرت عدد 158۔