جنگ آزادی ہند 1857ء

بھارت میں انگریزوں سے آزادی پانے کے لیے جنگ
(1857ء كي جنگ آزادي سے رجوع مکرر)

جنگ آزادی ہند 1857ء جو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔

جنگ آزادی ہند 1857ء

1912 کا ایک نقشۂ ہندوستان جو جنگِ آزادی کو بیاں کرتا ہے۔ اس خطے میں دلی ،جھانسی،میرٹھ، گوالیار مشارکین ظاہر ہے۔
تاریخ10 مئی 1857ءیکم نومبر 1858ء
(1 سال 5 ماہ 22 دن)
مقامہندوستان (cf. 1857)[1]
نتیجہ ہندوستانی افواج کو کچل دیا گیا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے سارے طاقتیں براہ راست برطانوی تاج کے سپرد کیا گیا (برطانوی سلطنت میں شامل کیا گیا)،مغل سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔
سرحدی
تبدیلیاں
برطانوی راج نے کچھ علاقوں کو ان کے اپنے باشندوں کو سونپا جبکہ زیادہ تر علاقوں کو برطانوی تاج میں شامل کر دیا۔
مُحارِب

 سلطنت مغلیہ
ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہی جو انگریزوں کے خلاف تھے
سات ہندوستانی نوابی ریاستیں

مملکت متحدہ کا پرچم برطانوی فوج
ایسٹ انڈیا کمپنی وفادار سپاہی
Native irregulars
East India Company British regulars مملکت متحدہ کا پرچم British and European civilian volunteers raised in the Bengal Presidency
21 نوابی ریاستیں


Kingdom of Nepal
کمان دار اور رہنما
سلطنت مغلیہ کا پرچم بہادر شاہ ظفر
نانا صاحب
بخت خان
جھانسی کی رانی
تانتیا توپی
بیگم حضرت محل
Ishwori Kumari Devi, Rani of Tulsipur
Commander-in-Chief, India:
مملکت متحدہ کا پرچم جارج انسن ( مئی 1857 تک)
مملکت متحدہ کا پرچم Sir Patrick Grant
مملکت متحدہ کا پرچم سر کولن کیمبل (اگست 1857 سے)
جنگ بہادر[2]
فائل:جنگ آزادی 1.jpg
framepx

واقعات

ترمیم

جنگ آزادی ہند کا آغاز 1857ء میں بنگال میں دمدم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخواست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔

9 مئی 1857ء کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے ۔

میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اور دہلی کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔

فائل:BahadurShah Zafar rangoon.jpg
بہادر شاہ ظفر رنگون میں

جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کیے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے۔ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔ مارچ1858ء میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ دہلی ،لکھنؤ ،کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آ گئے۔

جنگ آزادی کا نعرہ "انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو" تھا، اس لیے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جن کو انگریز حکومت سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا تھے۔ بہادر شاہ ظفر جس کی بادشاہت کا اعلان باغی سپاہیوں نے کر دیا تھا۔ نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔ مزید برآں باغیوں نے دہلی میں لوٹ مار اور غارت گری مچا کر عام لوگوں کی ہمدریاں کھو دی تھیں۔ چنانچہ 1857ء کی یہ جنگ آزادی ناکام ری۔

فتویٰ جہاد

ترمیم

علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کے ساتھی مفتی صدر الدین خان آزردہ، سید کفایت علی کافی اور دیگر بہت سے مسلمان علما نے دہلی کی جامع مسجد سے بیک وقت انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑے۔[3][4][5][6][7][8][9][10]

نتائج

ترمیم
دہلی کی فتح کے بعد انگریز فوجوں نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا۔ لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیے گئے۔ ان میں مجرم بھی تھے اور بے گناہ بھی۔ مسلمان بھی تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اور ہندو بھی۔ لیکن جلد ہی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں نے قتل و غارت میں فرقہ ورانہ رنگ بھر دیا۔ مسلمان چن چن کر قتل کیے گئے۔ بہت سے مقتدر اور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ ہو گئیں۔ اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے۔ ان ہولناک مظالم کا اعادہ ان مقامات پر بھی کیا گیا جہاں اولا جنگ کی آگ بھڑکی تھی۔

اگست 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔

اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر عتاب آئے۔ جب کہ ہندوؤں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کر لی۔ یوں مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسے لوگ سامنے آئے جنھوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومیوں کو دور کرکے ہی انگریز یہاں حکومت کر سکتا ہے۔ سرسید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔

اس جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پڑی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. File:Indian revolt of 1857 states map.svg
  2. The Gurkhas by W. Brook Northey, John Morris. ISBN 81-206-1577-8. Page 58
  3. "مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی کون؟؟؟ | ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  4. Religion Articles : Hamariweb.com - علامہ فضل حق خیرآبادی اور 1857 کا فتوی جہاد
  5. Religion Articles : Hamariweb.com - علامہ فضل حق خیرآبادی اور 1857 کا فتوی جہاد
  6. "Lantrani.co.in"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  7. "Mujahid-e-Aazam Hazrat Allama Fazl-e-Haqq Kherabadi Alaihir raHma"۔ 11 اپریل 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  8. "آرکائیو کاپی"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  9. "Book – quaid e jang e azadi allama fazl e haq khair abadi (alaih rahma) – Nafeislam.Com | Islam | Quran | Tafseer | Fatwa | Books | Audio | Video | Muslim | Sunni – Nafseislam.۔."۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 
  10. "ہمارے عقائد کی سرحدوں کا جانباز مجاہد Pioneers of Islamic Beliefs And Protection. Islamic Magazine Tahaffuz Karachi, Pakistan"۔ 10 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2015 

بیرونی روابط

ترمیم