بدر عالم میرٹھی (ولادت: 1898ء، وفات: 29 اکتوبر 1965ء)، جو بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی اور بدر عالم مدنی کے نام سے بھی معروف ہیں، بیسویں صدی کے ایک ہندوستانی نژاد محدث اور شاعر تھے۔ ان کا تعلق میرٹھ سے تھا، تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کر گئے اور وہیں سے مدینہ منورہ ہجرت کر جا بسے۔ علومِ انور شاہ کشمیری کے علم بردار کی حیثیت سے معروف، وہ کشمیری اور شبیر احمد عثمانی دونوں کے شاگرد رشید تھے۔[1]

بدر عالم میرٹھی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1898ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدایوں   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 اکتوبر 1965ء (66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی مظاہر علوم سہارنپور
دار العلوم دیوبند   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ خلیل احمد انبہٹوی ،  ظفر احمد عثمانی ،  انور شاہ کشمیری ،  عزیز الرحمن عثمانی ،  شبیر احمد عثمانی ،  اصغر حسین دیوبندی ،  عبد الرحمن کامل پوری   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت مظاہر علوم سہارنپور ،  دار العلوم دیوبند ،  جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مظاہر علوم سہارنپور اور دار العلوم دیوبند میں تحصیل علم کے علاوہ تدریسی خدمات بھی انجام دیں، اسی طرح جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں بھی بہ حیثیت مدرس خدمت انجام دی۔ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین کے زمانۂ تدریس میں، انھوں نے انور شاہ کشمیری کے انتقال کے بعد ان کے علوم و معارف پر مشتمل ان کے دروسِ بخاری کو ”فیض الباری علی صحیح البخاری“ کے نام سے چار جلدوں میں مرتب کیا، جسے جمعیۃ العلماء ٹرانسوال (موجودہ جمعیۃ علماء جنوبی افریقا) نے اپنے مالی تعاون سے قاہرہ سے شائع کروایا۔[1][2] انھوں نے ندوۃ المصنفین سے بھی وابستہ رہتے ہوئے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر چار جلدوں میں ترجمان السنۃ لکھی، جسے علمی حلقوں میں بڑی پزیرائی حاصل ہوئی۔[3] اپنے آخری زندگی میں، انھوں نے مسجد نبوی میں رہ کر علمی و عملی مشاغل میں مصروف ہو گئے، جہاں ان سے استفادہ کرنے والوں میں بکثرت جنوبی افریقا کے لوگ بھی تھے، جو ان کے حلقۂ ارادت میں بھی شمولیت اختیار کی اور اس طرح جنوبی افریقہ میں بھی ان کا روحانی فیض پھیلا۔[2]

سوانحی خاکہ

ترمیم

بدر عالم میرٹھی کی پیدائش 1898ء کو ضلع بدایوں، اترپردیش کے ایک سید گھرانے میں ہوئی۔[4] ان کے والد طہور علی پولیس افسر تھے۔[3] انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم علی گڑھ کے ایک انگریزی اسکول میں حاصل کی اور گیارہ سال کی عمر میں اشرف علی تھانوی کی تقریر سے متاثر ہو کر، دینی علوم کی تحصیل کی طرف ان کا رجحان ہوا۔[5] ان کے والد نے ان کے رحجان کے بارے میں یقین ہو جانے کے بعد ان کا داخلہ مظاہر علوم سہارنپور میں کروا دیا۔[3]

انھوں نے آٹھ سال مظاہر علوم میں خلیل احمد سہارنپوری کی سرپرستی میں رہ کر 1336ھ میں درس نظامی کی تکمیل کی، پھر 1337ھ میں وہیں معین مدرس ہو گئے، پھر 1339ھ میں مزید طلب علم کے لیے دار العلوم دیوبند آ گئے اور دورۂ حدیث شریف میں داخلہ لے کر انور شاہ کشمیری سے صحیح بخاری پڑھی۔[3][2] ان کے دیگر اساتذۂ مظاہر علوم میں ظفر احمد عثمانی اور دیگر اساتذۂ دار العلوم میں عزیز الرحمن عثمانی اور اصغر حسین دیوبندی شامل تھے۔[6] دار العلوم دیوبند میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1925ء میں انھوں وہیں تدریس کا آغاز کیا۔[7][8][9]

سنہ 1927ء میں، انور شاہ کشمیری اور شبیر احمد عثمانی کے ساتھ وہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل ہجرت کر گئے۔[4] [8] سترہ سال تک انھوں نے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین میں استاذ حدیث کی حیثیت سے خدمت انجام دی اور جامع ترمذی، شمائل ترمذی اور مشکاۃ المصابیح جیسی کتب احادیث کا درس دیا۔[6][10] ڈابھیل کے زمانۂ تدریس میں چار سال سبقاً سبقاً طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر وہ انور شاہ کشمیری کے درسِ بخاری و ترمذی میں بھی شرکت کرتے رہے۔[11][1][12]

ڈابھیل کے بعد، وہ بہاولنگر، پنجاب چلے گئے، جامع العلوم قائم کیا اور وہاں ایک سال قیام کیا۔[13][11] اس عرصے میں بہاولنگر و بہاولپور ان کا مرکز فیض رہا۔[14] اس کے بعد وہ دہلی تشریف لائے[11] اور 1943 میں ندوۃ المصنفین سے وابستہ ہو گئے۔[15][11] سنہ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی، پاکستان ہجرت کر گئے،[4][16] اور شبیر احمد عثمانی کی سرپرستی میں ٹنڈو الہ یار میں جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔[16][15] قیام پاکستان کے بعد انھوں نے اسلامی آئین کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔[6][17]

پاکستان میں چار سال رہنے کے بعد وہ نے مدینہ ہجرت کر گئے۔[18] عبد الفتاح ابو غدہ نے مدینہ میں ان سے ملاقات کی، ان سے استفادہ کیا،[19][20] نیز ابو غدہ نے ان کی سند سے احادیث بھی روایت کی ہے۔[21]

قطب العارفین کے نام سے معروف تھے،[22] وہ عزیز الرحمن عثمانی سے بیعت تھے، انھیں سے تصوف کے کئی مراحل طے کیے اور تکمیل سے قبل ہی عزیز الرحمن عثمانی انتقال فرما گئے تو انھیں کے خلیفۂ اجل محمد اسحاق میرٹھی کی طرف رجوع کیا اور اجازت بیعت سے نوازے گئے۔[23][24] ان کا انتقال 29 اکتوبر 1965ء کو مسجد نبوی میں ہوا اور انھیں جنت البقیع میں سپردِ خاک کیا گیا۔[6][25] اس کا علمی و روحانی فیض پاکستان، ہندوستان، جنوبی افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک پھیلا۔[26]

قلمی خدمات

ترمیم

وہ ایک عظیم محدث و مفسر ہونے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے ادیب و شاعر بھی تھے۔[27] ان کی قلمی خدمات مختلف موضوعات کو محیط ہیں۔ ”فیض الباری“ اور ”ترجمان السنہ“ کے علاوہ، انھوں نے 1965ء میں احادیث نبوی کی روشنی میں موجودہ دور کے اجتماعی مسائل اور قانون شریعت کے نفاذ میں درپیش مسائل کا حل کے مضامین پر مشتمل تین جلدوں میں ”جواہر الحکم“ لکھی، جس کا ترجمہ فرانسیسی اور گجراتی میں بھی ہو چکا ہے۔[28] فیض الباری پر لکھا گیا ان کا حاشیہ البدر الساری کے نام سے ہے۔[29][9][30] انھوں نے خلاصۃ المناسک کے نام سے رشید احمد گنگوہی کی مسائل حج پر رہنما کتاب زبدۃ المناسک کا خلاصہ لکھا ہے۔[15][6] نزول عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی ایک تصنیف نزول عیسیٰ کے نام سے ہے اور اسی سلسلے کا ایک کتابچہ انھوں نے آواز حق کے نام سے لکھا ہے۔[31] اپنے پاکستان کے زمانۂ قیام میں انھوں نے ملا علی القاری کی الحزب الاعظم کا اردو میں ترجمہ کیا اور بعض اشعار بھی لکھے۔[6][32]


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ محمد کلیم (2017ء)۔ علم حدیث میں فضلائے دار العلوم دیوبند کی خدمات (پی ایچ ڈی)۔ بھارت: کلیہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 174۔ hdl:10603/364028۔ 24 اکتوبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  2. ^ ا ب پ سید محبوب رضوی (1981ء)۔ ہسٹری آف دَ دار العلوم دیوبند (بزبان انگریزی)۔ 2۔ اتر پردیش، بھارت: ادارۂ اہتمام، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 103۔ OCLC 20222197 
  3. ^ ا ب پ ت محمد ریاست اللہ (2012ء)۔ احادیث کے اردو تراجم (پی ایچ ڈی)۔ بھارت: شعبۂ عربی، مدراس یونیورسٹی۔ صفحہ: 95۔ hdl:10603/295877۔ 25 اکتوبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  4. ^ ا ب پ عائشہ خاتون (2017ء)۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی خدمات حدیث (پی ایچ ڈی)۔ بھارت: کلیہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 103۔ hdl:10603/364027۔ 24 اکتوبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء آسان 
  5. خواجہ عبد الغنی (1979ء)۔ علامہ محمد انور شاہ کشمیری: ان کے متوسلین اور تلامذہ کی خدمات (PDF) (پی ایچ ڈی)۔ جام شورو، پاکستان: جامعہ سندھ۔ صفحہ: 142۔ 27 اکتوبر 2022 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2023 
  6. ^ ا ب پ ت ٹ ث یوسف شبیر (2018ء)۔ "Profile of Mawlana Muhammad Badr Alam Mirti" [مولانا محمد بدر عالم میرٹھی کا تعارف]۔ اسلامک پورٹل (بزبان انگریزی)۔ 10 جون 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  7. قاری محمد طیب (جون 1965ء)۔ دار العلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: دفتر اہتمام، دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 112۔ 10 جنوری 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  8. ^ ا ب محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ بھارت: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 577–578، 763۔ OCLC 1345466013 
  9. ^ ا ب عارف جمیل مبارکپوری (2021ء)۔ موسوعۃ علماء دیوبند (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 347 
  10. فضل الرحمن اعظمی (1999ء)۔ تاریخ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل۔ ملتان، پاکستان: ادارہ تالیفات اشرفیہ۔ صفحہ: 189، 192 
  11. ^ ا ب پ ت بدر عالم میرٹھی (1968ء)۔ "حضرت اقدس والد صاحب قدس سرہ کی حیات مبارکہ کی ہلکی سی ایک جھلک: آفتاب احمد"۔ ترجمان السنہ (جلد چہارم)۔ لاہور، پاکستان: ادارہ اسلامیات۔ صفحہ: 189، 192 
  12. ظفیر الدین مفتاحی (1980ء)۔ مشاہیر علماء دار العلوم دیوبند (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: دفتر اجلاس صد سالہ۔ صفحہ: 93–94۔ 29 دسمبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  13. بخاری 1985، ص 32
  14. بنوری 2020، ص 29
  15. ^ ا ب پ رضوی 1981، ص 103
  16. ^ ا ب عبد الغنی 1979، ص 144
  17. اکبر شاہ بخاری (1985ء)۔ سیرتِ بدر عالم۔ کراچی، پاکستان: ایچ ایم سید کمپنی۔ صفحہ: 64 
  18. کلیم 2017، ص 175
  19. عبد الفتاح ابو غدہ (2012ء)۔ صفحات من صبر العلماء (بزبان عربی) (دسواں ایڈیشن)۔ بیروت، لبنان: دار البشائر الاسلامیہ۔ صفحہ: 325 
  20. نور عالم خلیل امینی (مئی 2010ء)۔ پس مرگ زندہ (تیسرا ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارۂ علم و ادب۔ صفحہ: 365۔ 10 جنوری 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  21. عبد العزیز الراجحی (2001ء)۔ هدي الساري إلى أسانيد الشيخ اسماعيل الأنصاري (بزبان عربی) (پہلا ایڈیشن)۔ ریاض، سعودی عرب: مکتبۃ الرشد۔ صفحہ: 190 
  22. عبد الغنی 1979، ص 148
  23. محمد عارف کمال (2020ء)۔ علمائے ہند کی بیسویں صدی نصف اول میں خدمات حدیث: تنقیدی مطالعہ (پی ایچ ڈی)۔ بھارت: کلیہ سنی دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 221۔ 1 نومبر 2023ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  24. میرٹھی 1968، ص 23
  25. سعید احمد اکبر آبادی، مدیر (نومبر 1965ء)۔ "نظرات"۔ ماہنامہ برہان۔ دہلی: ندوۃ المصنفین۔ 55 (5): 3۔ 7 جنوری 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  26. محمد یوسف بنوری (2020ء)۔ یاد رفتگاں۔ بنوری ٹاؤن، کراچی: مکتبہ بینات، جامعہ العلوم الاسلامیہ۔ صفحہ: 27 
  27. محمد طیب قاسمی (1999ء)۔ مدیر: اکبر شاہ بخاری۔ دار العلوم دیوبند کی پچاس مثالی شخصیات۔ دیوبند: مکتبہ فیض القرآن۔ صفحہ: 158۔ OCLC 45499890۔ 6 جنوری 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 
  28. عبد الغنی 1979، ص 150–51
  29. عبد الغنی 1979، ص 151
  30. سعد فہمی احمد بلال (1996ء)۔ السراج المنیر فی القاب المحدثین (بزبان عربی)۔ بیروت، لبنان: دار ابن حزم۔ صفحہ: 379 
  31. عبد الغنی 1979، ص 147، 151
  32. "موقع محل کی مسنون دعاؤں کی کتابیں"۔ دارالافتاء، جامعہ العلوم الاسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ۔ 24 جنوری 2024ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جنوری 2024ء 

بیرونی روابط

ترمیم