بہائیت

توحیدی مذہب
(بہائی مذہب سے رجوع مکرر)

بہائیت یا امر بہائی ایک آزاد حیثیت رکھنے والے مذاہب میں سے دنیا کا سب سے نومولود مذہب ہے جس کے بانی، مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ (1817ء تا 1892ء) کو اس کے ماننے والے، ابراہیمی و غیر ابراہیمی مذاہب کے پیغمبروں میں سب سے نیا ترین پیغمبر قرار دیتے ہیں۔۔[2] بعد میں مرزا حسن علی کے بڑے فرزند عبد البہاء نے بہائیت کو مشتہر کرنے اور وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا. اس کے بعد شوقی آفندی نے بہائی مذہب کی تبلیغ میں بڑی محنت کی چنانچہ 1957 میں جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوا تو یہ مذہب دنیا کے تقریباً ہر ممالک میں پھیل چکا تھا[3] بہائیت کو ایک الگ مذہب سمجھا جاتا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود پیدائش و آغازِ بہائیت پر اسلام کی ؛ جغرافیائی حدود، معاشرتی نفسیات اور اس کے فکری محرکات جیسے عوامل کے اثر کی وجہ سے پیدا ہونے والی نسبت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔[4] بہائیت اور اسلام کی اس تاریخی و معاشرتی نسبت سے بعض اوقات ایک ابہام کی کیفیت بھی دیکھنے میں آتی ہے جو ان افراد میں زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بہائیت کے تاریخی پس منظر سے ناواقف ہوں، یہ ابہام بہائیت کی دستاویزات کے مطالعے کے دوران میں سامنے آنے والے قرآنی آیات و احادیث کے حوالوں کی موجودگی میں اس وقت واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں ان کی تفسیر بہائیت کے نظریات کے مطابق پیش کی گئی ہو، جیسے رسول اور نبی میں فرق کا نظریہ۔[5] بہائیت کے ماننے والوں کی موجودہ تعداد بعض ذرائع کے مطابق پچاس لاکھ[3] اور خود ایک بہائی ویب گاہ کے مطابق ساٹھ لاکھ سامنے آتی ہے۔[6]

بہائیت
دین بہائیت
دین بہائیت
دین بہائیت

مذہب بہائیت
بانی بہاء اللہ۔
مقام ابتدا شیراز، ایران کا پرچم ایران.
تاریخ ابتدا سنہ 1852
مقدس مقامات مزار باب، حیفا، فلسطین
قریبی عقائد والے مذاہب بابیت، ازلیت
مذہبی خاندان توحیدی مذاہب۔
پیروکاروں کی تعداد تقریباً 7 ملین.[1]
دنیا میں  بھارت- امریکا- ایران- ویت نام- کینیا،۔۔۔ اور دنیا کے مختلف ممالک میں۔

تاریخ

 
شیخ احمد احسائی کی مبینہ تصویر (اصل ماخذ ، نامعلوم)۔

شیخ احمد احسائی (1775ء تا 1826ء) جو ایک ایرانی نہیں بلکہ خلیج کے علاقے سے ایک عرب تھا [7] اس نے انیسویں صدی میں اہل تشیع کے درمیان میں ایک تحریک (مکتبۂ خیال) کی بنیاد رکھی جس کو شیخیہ کہا گیا، بعد میں اس تحریک کی راہنمائی شیخ احمد احسائی کے ایک طالب علم، سید کاظم رشتی (1793ء تا 1843ء) کو دی گئی؛ ان دونوں ابتدائی اشخاص کا تعلق اثنا عشریہ اہل تشیع سے تھا جبکہ پانچ پشتوں قبل شیخ احمد احسائی کے اجداد سنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ احمد احسائی کا رجحان، تصوف میں پائے جانے والے تصورات؛ مشاہدۂ نفس، گوشہ نشینی اور رہبانیت کی جانب مائل تھا اور انھیں ذاتی طور پر بصارت کے تجربات بھی درپیش آچکے تھے[8]، مثلاً وہ دیکھنا یا سننا کہ جو دوسرے نا دیکھ اور سن سکیں اور یا عالم غیب کے خواب وغیرہ۔ انھوں نے متعدد ایسے بیانات دیے جن پر دیگر مسلم علما نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا؛ جیسے انھوں نے امامیان (فارسی برائے ائمہ) کے بارے میں کہا کہ وہ تخلیق کی طاقت رکھتے ہیں۔[9][10] گو احمد احسائی نے کبھی کسی نئے مذہب یا فرقے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن ان کے بیان کردہ مافوق الفطرت واقعات اور خوابوں کی مدد سے ان کے شاگرد سید کاظم رشتی نے شیخ احمد احسائی کو براہ راست امام حسین سمیت دیگر امامیان سے علم حاصل کرنے کیوجہ سے دیگر علما سے اشرف اور جدا حیثیت میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ MacEoin کے مطابق سید کاظم رشتی نے احمد احسائی کو اسلام کی بارہ سو سالہ ظاہری تعلیمات کے بعد، اندرونی سچ (مشاہدۂ نفس) یا باطنی تعلیمات کو رائج کرنے والا قرار دیا۔ کاظم رشتی کی جانب سے اسلام کے عمومی اجتماع سے الگ انتہا پسندانہ رجحانات ان کی وفات کے بعد دو تفرقوں کی بنیاد بنے؛ ایک کی راہنمائی حاج محمد کریم خان کرمانی (1810ء تا 1817ء) کو ملی جبکہ دوسرا سید علی محمد باب شیرازی (1819ء تا 1850ء) کے گرد مرتکز ہوا۔ اول الذکر نے شیخ احمد احسائی کی شدت پسند تعلیمات سے دور رہتے ہوئے مجموعی طور پر اہل تشیع سے تعلق استوار کرنے کی کوشش کی اور بعد الذکر نے ایسے خیالات پر عمل جاری رکھا کہ جن کو علما کی اجتماعیت قبول نہیں کرتی تھی، سید علی محمد شیرازی نے اپنے لیے باب کا لقب اختیار کیا۔ اس بات کی شہادتیں ملتی ہیں کہ سید محمد شیرازی کے اپنے لیے باب کا لقب اختیار کرنے سے بہت قبل، شیخیہ میں ایسے افراد بھی تھے کہ جو شیخ احمد احسائی اور سید کاظم رشتی کے لیے بابان (فارسی برائے ابواب) کا تصور رکھتے تھے؛ شیخ احمد احسائی کی تعلیمات سے متاثرہ اس دوسرے فرقے سے ہی، جس کی قیادت سید علی محمد شیرازی (باب) کے ہاتھ میں تھی، بابیت کی بنیادیں تیار ہوئیں[8]۔

شیعوں میں شیخ احسائی ظہور

اخباری اور اصولی شیعوں میں کشمکش کی شدت کے زمانے میں شیعی نظریات کو اساس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شیخ احسائی نے ایک نیا راستہ اختیار کیا کہ بلا تنقید، نا تو احادیث پر قائم ہوا جا سکتا ہے اور نا ہی اجتہاد (یا علما) پر اقرار کیا جا سکتا ہے۔ شیخی مدرسۂ فکر کے مطابق الشیعہ الکامل، بارھویں غیبی امام اور انسانوں کے مابین ایک رابطہ یا دروازہ یا باب کا قیام کرتا ہے؛ 874ء تا 941ء کے دوران میں چار ابواب کے نام دیے جاتے ہیں عثمان بن سعید العمری الاسدی، ابو جعفر محمد بن عثمان، ابو القاسم حسین بن روح النوبختی اور حسن علی بن محمد السمری یہاں سے غیبت صغریٰ کا اختتام اور غیبت کبریٰ کا آغاز ہوتا ہے۔ شیخ احسائی کے مطابق ایمان کے الارکان الاربعۃ کو یوں بیان کیا جاتا ہے 1- توحید 2- نبوت 3- امامت اور 4- اولیا الامام (الشیعہ الکامل)۔ شیخ احمد احسائی کے مکمل نظریات ہمیشہ سے قابل بحث رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ شیعہ دنیا میں موجود تقیہ کا طرز عمل بھی بیان کی جاتی ہے جو احسائی مخالفین کے پیش نظر اختیار کیا گیا[7]۔

عقیدۂ غَیبَت سے بابیت تک

امامت کے جاری رہنے اور غیبت صغریٰ و کبریٰ سے مدرسۂ شیخیہ میں ایک رجل الغائب یا غیبی انسان کا تصور ملتا ہے جسے روحانی مرتبہ حاصل ہے اور وہ الشیعہ الکامل براہ راست امام سے رابطے میں رہتا ہے اور اس کا ناطق الواحد ہے؛ ان نظریات کی رو سے اللہ ناطق ہے اور وہ کلام کرتا ہے اور جبرائیلفائل:ALAYHE.PNG صامت سننے والے ہیں، پھر جبرائیلفائل:ALAYHE.PNG ناطق ہیں اور محمد سننے والے صامت، پھر محمد ناطق ہیں اور امام صامت، پھر امام ناطق ہیں اور ان کے باب صامت سننے والے اور پھر باب ناطق ہے اور تمام انسان (شیعہ) صامت سننے والے ہیں۔ یعنی ایک باب کا تصور اور فلسفہ اللہ سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور پھر حضرت علی کے بارے میں وہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ؛ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ (باب) ہیں۔ اس کے بعد علی بن ابی طالب کے باب سلمان فارسی ہوئے اور اسی طرح تمام امامیان کا بارہویں امام تک کوئی نا کوئی باب رہا ہے جو اپنے امام کے لیے صامت (خاموش) اور انسانوں کے لیے ناطق (مکلم) ہوتا ہے۔ مورخین کے مطابق ایران میں امام اور امامت کے تصور میں غلو شامل کرنے والے اقلیتی بھی تھے جن کے لیے بادشاہ یا راہنما کے الہایاتی اور ربّانی تعلق کا ساسانی فلسفہ موجود تھا ؛ ان اقلیتی افراد نے امام کا درجہ معصوم سے بڑھا کر سماوی، خداوندی یا ربّانی تک پہنچا دیا ان افراد کے لیے کتب میں غالی کی اصطلاح بھی مستعمل ملتی ہے جو امام کی صفات میں غلات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ احسائی کے انتقال کے بعد سید کاظم رشتی (جس کے بارے میں محققین نے کہا ہے کہ وہ رشت میں نہیں بلکہ ولاڈی واسٹک (Vladivostok) میں پیدا ہوا تھا اور روس کا سیاسی کارندہ تھا[11]) نے شیخیہ نظریات استعمال کرتے ہوئے اہل تشیع میں نفاق پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اسی رشتی کی جماعت میں علی محمد شیرازی بھی تھا۔ یہ انیسویں صدی کا وسط تھا جب مسلم دنیا میں یورپی تسلط کے خلاف جذبات بڑھ رہے تھے اور انھی جذبات اور رجحانات سے استفادہ اٹھاتے ہوئے مسلم دنیا میں تین اطراف مہدی نمودار ہوئے۔ ایران میں علی محمد شیرازی (1819ء تا 1850ء) کا ظہور ہوا تو سوڈان میں محمد احمد المہدی (1844ء تا 1885ء) اور ادھر ہندوستان میں مرزا غلام احمد (1853ء تا 1908ء) منظر عام پر آیا۔ شیعہ فلسفے سے کامل آگاہی علی محمد شیرازی کی پہلی کتاب زیارت نامہ سے ظاہر ہوتی ہے اور اس نے ملا احمد بشروئی (1813ء تا 1849ء) کے سامنے اپنے باب ہونے کا بیان دیتے وقت 1260ھ یعنی 1844ء کی اہمیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا، ملا احمد بشروئی ہی کو بابیت پر سب سے پہلے ایمان لانے والا تسلیم کیا جاتا ہے[7]؛ موجان مومن نے اس تاریخ کے بارے میں یوں لکھا ہے

1260ھ کے قرب کا زمانہ عمومی طور پر غائب امام کے ظہور کا امکان زیادہ رکھتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جو بارھویں امام کے غائب ہونے اور غیبت کا زمانہ شروع ہونے کے ہزار سال مکمل ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں متعدد اشارے ملتے ہیں کہ محمد کی حلت ہزار سال طویل ہوگی لہٰذا تمام شیعہ دنیا میں سال 1260ھ کو بہت زیادہ متوقع سمجھا جارہا تھا[12]۔

بابیت سے اظہار اللہ تک

تصوف کے عمل دخل کو بابیت کے پس منظر سے خارج نہیں کیا جا سکتا اور علی محمد شیرازی کے خود کو باب کہنے کے پس منظر میں مہدی کے تصور کے ساتھ ساتھ قرآن کی باطنی تعلیمات کی جانب باب (دروازے) کا تصور بھی شامل تھا۔۔[13] مذکورہ بالا قطعے میں درج کاظم رشتی نے عین اسی عہد میں پائے جانے والے مسیحی دنیا کے متوقع نزولِ مَسِیح کے رجحانات کی مماثلت میں مسلم دنیا کے عقیدۂ غیبت میں پوشیدہ انتظارِ مَسِیح کے رجحانات سے استفادہ کرتے ہوئے اختتامِ انتظار اور آمد مسیح کے افکار کی تشہیر شروع کردی تھی۔[14] شیرازی نے 1841ء میں کچھ عرصہ کربلا میں بھی صرف کیا اور سید کاظم رشتی کی جماعتوں میں شرکت (یعنی تعلیم حاصل) کی[15] خود کو باب کی حیثیت میں پیش کرنے کے بعد جب علی محمد شیرازی کے پاس معتقدین کی تعداد کثیر ہوئی تو اس نے اپنے دعویٰ کو مہدی تک وسعت دے دی جس کی نا صرف شیعہ بلکہ خود شیخیہ تحریک میں بھی مخالفت ظاہر ہوئی جو اس کی اپنی کتاب بنام 'بیان' میں خود کو نبوت پر فائز کرنے کے بعد انتہائی شدت اختیار کر گئی۔[16] اور اس کتاب بیان کو نئی الہامی کتاب کا درجہ دیا گیا اور قرآن منسوخ ہو گیا[17] باب یا شیرازی کی جانب سے کیے جانے والے دعوں میں ؛ قائم، باب (دروازہ)، مہدی، نبی اور پھر خود خدا کا مظہر، اظہار اللہ کے دعوے شامل ہیں۔[18][19] شیرازی نے ابتدائی دعوے بارہویں امام کے باب سے بذات خود بارھواں امام بنتے وقت اپنے پچھلے دعوے کے اخفا پر بھی توجہ نا دی[15]۔ شیعہ علما اور عوام کی جانب سے باب کے اپنے لیے امام مہدی کے دعوے اور حضرت محمد کی نبوت کے اختتام کے بیان کی شدید مخالفت 1845ء میں اس کی گرفتاری اور پھر سزائے موت (1850ء) کا سبب بنی۔[20]

اظہار اللہ سے بہاء اللہ تک

علی محمد شیرازی کی وفات کے بعد باقی رہ جانے والے بابی خاموشی سے اپنے مقصد پر کام کرتے رہے ؛ ان کے سامنے باب شیرازی کے وہ بیانات تھے جو اس نے جلد ہی کسی مظہرِ اللہ کے نمودار ہونے کے بارے میں دیے تھے۔ ان کا جذبہ اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک عظیم دور (نزولِ مہدی) سے گذر رہے تھے اور امام مہدی ظاہر ہو چکے تھے جبکہ اس وقت کی حکومت ان کے قتل (شہادت) کی مرتکب ہوئی تھی۔ مورخین کے مطابق باب سے محروم ہوجانے کے بعد تحریک بابیت میں متعدد راہنما یا جانشینی کے دعویدار نمودار ہوئے جن میں ملا شیخ علی ترشیزی (ترشیز کاشمر کا پرانا نام ہے) اور مرزا عباس نوری (وفات 1839ء) کے دو فرزند بنام مرزا حسین علی (بہاء اللہ) اور مرزا یحییٰ (صبح ازل) شامل ہیں۔ صبح ازل یا یحییٰ کو ابتدا میں زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی اور بابیوں نے یحیٰی کو عمومی طور پر باب کا جانشین تسلیم کرنا شروع کر دیا۔

تفرد

بہائیت کی نئی سوچ صرف خدا اور نبوت کے تصور تک ہی محدود نہیں ہے۔ بہت سے اخلاقی پہلو، جس میں رزق شامل ہے، اس میں یہ لوگ الگ ہیں۔ یہ لوگ سور کے گوشت کو بھی حلال اور فی زمانہ درست مانتے ہیں جو اسلام اور شیعہ تصورات سے میل نہیں کھاتا جن سے ان کا مذہب الگ ہوا ہے ۔[21] اس کے علاوہ بہائیت میں انسانوں کے لیے کوئی غذا تجویز نہیں کی گئی ہے اور ہر ایک کو غذا چننے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مذہب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگ بغیر گوشت کے بھی چست رہ سکتے ہیں۔[22]

شادی بیاہ کے معاملوں میں بہائی عقیدے کی رو سے دو شریک حیات کی گنجائش ہے، تاہم یک زوجیت ہی کو مستحسن اور امن و آشتی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[23] مذہب میں جنسی محرکات کو تسلیم کیا گیا ہے، تاہم اس کے ناجائز اور نامناسب اظہار کی نفی کی گئی ہے، جس میں آزادانہ محبت اور رحم دلانہ شادی شامل ہیں۔ یہ بات بھی ادب میں مذکور ہے کہ کچھ لوگوں کو شہوانیت زیادہ ہو سکتی ہے اور انھیں ایک ہی شریک حیات پر مجبور کرنا زیادتی ہوگی، تاہم اس کا حل یہ بتایا گیا ہے کہ روحانیت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ایسا کرنے سے بہت سی جنسی بداخلاقیوں پر قابو پا لیا جا سکتا ہے۔[24]

بہائیوں کے مطابق قدیم زمانے سے نونہال مرد بچوں کی ختنہ ابراہیم علیہ السلام کے پیروکاروں میں خدا اور آدمی کے عہد کی شکل لے چکی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کی پشت سے جنم لینے والے کچھ عربوں میں بھی یہ رسم قبولیت کے درجے پر پہنچ چکی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال کے بعد ان کے پیروکاروں میں بھی یہ رسم رواج پائی حالانکہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ موجودہ طور یر ختنہ مسلمان ممالک میں عام ہے۔ تاہم چونکہ بہائیت میں کوئی رسم یا رواج نہیں ہیں اور نہ ختنہ پر زور ہے، یہ فیصلہ ماں باپ کے صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔[25]

بیشتر دنیوی مذاہب کی طرح بہائی لوگ ہم جنس پسندی کو حرام جانتے ہیں۔ چنانچہ ان کا باضابطہ موقف اس طرح ہے[26]:

شادی ایک آدمی اور عورت کے بیچ ایک جُٹ ہونا ہے، اور جنسی تعلقات صرف ایک شوہر اور بیوی کے بیچ جائز ہیں۔

حوالہ جات

  1. عالمی مسیحی دائرۃ المعارف
  2. بہائیت کے موقع آن لائن پر بہائیت کی تعریف آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ info.bahai.org (Error: unknown archive URL)
  3. ^ ا ب ایک انگریزی دائرۃ المعارف پر بہائیت کے تحت اندراج
  4. ایک آن لائن، دائرۃ المعارف پر بہائیت کی پیدائش و اسلام سے نسبت آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ encarta.msn.com (Error: unknown archive URL)
  5. ایک بہائی موقع آن لائن پر محمد کے آخری نبی سے انکار اور رسول و نبی کا نظریہ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bci.org (Error: unknown archive URL)
  6. ایک ویب سائٹ پر بہائی شماریات
  7. ^ ا ب پ An introduction to the Bahai faith by Peter Smith آن لائن کتاب
  8. ^ ا ب ایرانیکا نامی ایک دائرۃ المعارف پر شیخ احمد احسائی کے سنی تفرقے سے تعلق کا بیان آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iranica.com (Error: unknown archive URL)
  9. احمد احسائی کا امیامیان میں تخلیق کی طاقت کے بارے میں بیان
  10. The Twelver Shia in Modern Times By Rainer Brunner: Publisher Brill گوگل کتاب
  11. The rise and fall of the Pahlavi dynasty: By Hussein Fardust گوگل کتاب
  12. Prophecy and the fundamentalist quest by Farzana Hassan گوگل کتاب
  13. The Oxford dictionary of Islam by John L. Esposito (گوگل کتاب)
  14. God speaks again: an introduction to the Bahai Faith by Kenneth E. Bowers آن لائن کتاب
  15. ^ ا ب Studies in Babi and Bahai history by Moojan Memon آن لائن کتاب
  16. Iran under the ayatollahs by Dilip Hiro آن لائن ربط
  17. Bahaism and Its Claims by Wilson Samuel Graham (آن لائن کتاب)
  18. Bahai Awareness آن لائن ویب گاہ
  19. God Passes By: by Shoghi Effendi آن لائن کتاب
  20. Shism and constitutionalism in Iran by By Abdul-Hadi Hairi آن لائن کتاب
  21. Pork Eating - Baha'i Library Forum
  22. Is It Cruel to Eat Animals?
  23. Bahá'í Reference Library - The Kitáb-i-Aqdas, Pages 205-206
  24. Masturbation and sex in the Baha'i Faith - Baha'i Library Forum
  25. Circumcision: Abraham’s Healthy Sacrifice
  26. Brokenhearted Bahá'is: LGBTs Rejected by Their Faith | HuffPost

بیرونی روابط