حذیفہ بن یمان
حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (20ق.ھ / 36ھ) کی کنیت عبد اللہ ہے آپ کا مکمل نام ”حذیفہ بن حسل بن جابر“ ہے، ان کے والد کا اصل نام ”حسل“ تھا لیکن وہ ”یمان“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔اس لقب پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان کے والد ”حسل“ انصار کے ایک قبیلہ ”بنو اشہل“ کے حلیف بنے اور وہ قبیلہ چونکہ ملکِ یمن میں رہتا تھا ، لہٰذا اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے انھیں”یمان“ کا لقب دیا گیا۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد اور والدہ دونوں صحابہ میں سے تھے۔ ان کے والد ”یمان“ کی شہادت غزوہ احد میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ اس طرح کہ حضرت حذیفہ اور ان کے والد دونوں غزوہ احد میں شریک تھے اور مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑ رہے تھے اور اس زمانے مین چونکہ خود وغیرہ پہن کر لڑتے تھے؛ اس لیے حضرت حذیفہ کے والد حضرت یمان کو صحابہ پہچان نہ سکے اور ان پر حملہ کر دیا،حضرت حذیفہ نے جب یہ دیکھا تو انھیں روکنے لگے؛لیکن تب تک ان کے والد حضرت یمان شہید ہو چکے تھے۔حضرت حذیفہ اور ان کے والد غزوہ بدر میں شریک نہیں ہو سکے، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں حضرات ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ رہے تھے کہ راستے میں کفار نے انھیں روک لیا اور پوچھا کہ کیا تم محمد (ﷺ) کے پاس جانا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم ان کے پاس نہیں؛ بلکہ صرف مدینے میں جانا چاہتے ہیں، تو کفار نے ان سے اللہ کا نام لے کر عہد و پیماں لیا کہ وہ مدینے جائیں اور حضور ﷺ کے ساتھ ہوکر نہیں لڑیں گے،پھر جب وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا، تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”انصرفا، نفي لہم بعہدہم، ونستعین اللّٰہ علیہم“ تم مدینے چلے جاؤ! ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالی سے مدد چاہیں گے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ انھیں اپنے جذبات پر مکمل قابو اور کنٹرول تھا، کیسے بھی تکلیف دہ حالات ہوں؛ لیکن حضرت حذیفہ کبھی اپنے جوش وجذبے کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوئے، جیساکہ درج ذیل دو واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ ان کے والد یمان کو ان کے سامنے شہید کیا گیا؛ لیکن ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا:یغفر اللّٰہ لکم“ اللہ تعالی تمھیں بخشے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میں وہ تمام صفات موجود تھیں جوکسی کو رازدار بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں اور ان میں بالخصوص اپنے جوش وجذبات پر کنٹرول اور قابو رکھنا ہے؛ چنانچہ انھیں خدادا صلاحیتوں کی بنا پر حضور ﷺ نے انھیں اپنے رازدار بنانے کا شرف بخشا اور فتنوں سے متعلق اور منافقین کے ناموں اور ان کے احوال سے متعلق پوری تفصیل سے حضرت حذیفہ بن یمان کو آگاہ کیا۔حضور ﷺ کے اس رازدار صحابی کا انتقال محرم الحرام، 36ھ میں مدائن میں وفات پائی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چالیس دن بعد[1] بار بار عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھا کرتے تھے، اے حذیفہ! تم مجھ کو تو منافقوں میں سے نہیں پاتے ہو؟ میرے اندر کوئی نفاق تو نہیں؟ فرمایا ہرگز نہیں، مگر تمھارے دستر خوان پر چند کھانے ہوتے ہیں۔ تحقیق کی تو ایک انڈے کی زردی سفیدی الگ الگ پکائی گئی تھی۔[2]
حذیفہ بن یمان | |
---|---|
(عربی میں: حذيفة بن اليمان بن جابر) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6ویں صدی مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 656ء (55–56 سال) مدائن |
والد | حسیل بن جابر |
عملی زندگی | |
نمایاں شاگرد | ابو الابیض العنسی |
پیشہ | عسکری قائد |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمحذیفہ نام ، ابو عبد اللہ کنیت ، صاحب السر لقب ، قبیلۂ عطفان کے خاندان عبس سے ہیں ، نسب نامہ یہ ہے ، حذیفہ بن حسیل بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن فرودہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن بغبیض بن ریث بن غطفان العبسی ، والدہ کا نام رباب بنت کعب بن عدی بن عبدالاشہل تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کے والد اپنی قوم کے کسی شخص کو قتل کر کے مدینہ منورہ گئے تھے اور یہیں سکونت اختیار کرلی تھی ، عبد الاشہل کے خاندان سے حلف کا تعلق ہوا ، پھر بعد میں باہم قرابت بھی کر لی ، کہتے ہیں کہ اوس و خزرج کا تعلق چونکہ یمن سے تھا اس لیے ان کی قوم نے ان کا نام یمان رکھ دیا [3]عبدالاشہل میں جو نکاح کیا تھا ، اس سے حسب ذیل اولاد پیدا ہوئی ، حذیفہ ، سعد ، صفوان، مدیح دلیلےٰ [4] یہ لوگ اولاد یمان کے نام سے مشہور ہوئی۔
اسلام
ترمیموالدین نے اسلام کا زمانہ پایا اور مشرف باسلام ہوئے، بھائی بہنوں میں صرف حذیفہ اور صفوان کویہ سعادت حاصل ہوئی،اس وقت آنحضرتﷺ مکہ میں اقامت گزین تھے، حضرت حذیفہؓ ہجرت کرکے مکہ مکرمہ پہنچے اور آنحضرت ﷺ سے ہجرت اور نصرت کے متعلق رائے طلب کی تو آپ نے ہجرت کی بجائے نصرت کو ان کے لیے تجویز فرمایا۔ [5]
غزوات
ترمیماگرچہ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے تاہم اپنے باپ کے ساتھ غزوہ کے ارادہ سے نکلتے تھے، لیکن راستہ میں کفار قریش نے روکا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی اجازت نہیں بولے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ؛بلکہ مدینہ جاتے ہیں، چنانچہ ان لوگوں نے اس شرط پر چھوڑا کہ لڑائی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شریک نہ ہوں، انھوں نے خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچ کر ساری داستان سنائی ارشاد ہوا کہ اپنے عہد پر قائم رہو اور مکان واپس جاؤ، باقی فتح و نصرت تو وہ خدا کے ہاتھ ہے ہم اسی سے طلب بھی کریں گے۔ [6] غزوۂ احد میں شریک ہوئے، والد بھی موجود تھے اور ثابت بن وقش رضی اللہ عنہ کے ساتھ عورتوں کی حفاظت پر متعین تھے [7] جب مشرکین نے شکست کھا کر راہ فرار اختیار کی تو کسی شیطان نے آواز دی ، دیکھنا مسلمان پہنچ گئے ، چنانچہ مشرکین کا ایک دستہ پلٹ پڑا، جس سے مسلمانوں کی ایک جماعت سے مڈ بھیڑ ہو گئی، حذیفہؓ بن یمان کے والد درمیان میں تھے یہ دیکھ کر کہ ان کی خیر نہیں حضرت حذیفہؓ بن یمان نے آواز دی خدا کے بندو ! یہ میرے باپ ہیں، لیکن نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سن سکتا تھا ، ایک مسلمان نے نادانستہ قتل کر دیا ، حذیفہؓ بن یمان کو معلوم ہوا ، تو انتہائی حلم وعفو سے کام لے کر کہا یغفر اللہ لکم خدا تم لوگوں کی مغفرت کرے[8] آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو اپنی جیب خاص سے حضرت حذیفہؓ بن یمان کو دیت عطا کی اور اس فعل کو بہ نظر استحسان دیکھا۔ [9] غزوۂ خندق میں نمایاں حصہ لیا، قریش مکہ جس سرو سامان سے اٹھے تھے اس کا یہ اثر تھا کہ مدینہ منورہ کی بنیادیں ہل گئیں، مدینہ کے چاروں طرف کوسوں تک آدمیوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا، آنحضرتﷺ نے جناب باری میں دعا کی اور مدینہ کی حفاظت کے لیے خندق کھدوائی، ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کے حق میں تائید غیبی سے کم نہ تھا قریش کا لشکر جنگل میں خیمہ زن تھا کہ یکایک نہایت تیز و تند ہوا چلی جس سے خیموں کی طنا میں اکھڑ گئیں، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سردی نہایت تیزی سے چمک اٹھی ابو سفیان نے کہا اب خیر نہیں یہاں سے فوار کوچ کرنا چاہیے، [10] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کی بڑی فکر تھی ارشاد ہوا کوئی جاکر مشرکین کی خبر لائے تو اس کو قیامت میں اپنی معیت کی بشارت سناتا ہوں، سردی اور پھر ہوا کی شدت کوئی شخص حامی نہ بھرتا تھا، آپ نے 3 مرتبہ یہی جملہ دہرایا لیکن کسی طرف سے جواب میں کوئی صدا نہ اٹھی، چوتھی بار آپ نے حذیفہؓ بن یمان کا نام لیا کہ تم جاکر خبر لاؤ چونکہ نام لے کر پکارا تھا، اس لیے تعمیل ارشاد میں اب کیا چارہ تھا اپنی جگہ سے اٹھ کر خدمتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں آئے ارشاد ہوا دیکھو "مشرکین کو میری طرف سے خوف نہ دلانا" یعنی موقع پاکر کسی پر حملہ نہ کر دینا، حضرت حذیفہؓ بن یمان بہت تیز چلے مشرکین کے پڑاؤ پر پہنچے تو دیکھا کہ ابو سفیان پیٹھ سینک رہا ہے چاہا کہ تیرو کمان سے اس کا خاتمہ کر دیں لیکن پھر آنحضرتﷺ کا قول یاد آیا اور اپنے ارادے سے باز آگئے، واپس ہوئے تو دیکھا آنحضرتﷺ اب تک نماز میں مصروف ہیں نماز سے فارغ ہوئے تو خبر سنی اس کے بعد آپ نے حضرت حذیفہؓ بن یمان کو کمبل اڑھایا اور وہ یہیں شب باش ہوئے صبح ہوئی تو فرمایا :"قم یا نومان" [11] اے سونے والے اب اٹھ خندق کے بعد دیگر غزوات اور واقعات میں بھی شرکت کی۔.[12]
عام حالات
ترمیمعہدِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عراق کی سکونت اختیار کی اور کوفہ ، نصیبین اور مدائن میں اقامت گزین ہوئے نصیبین میں جو اجزیرہ کا ایک شہر تھا شادی بھی کی۔ [13] عراق کے اضلاع فتح ہونے پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وہاں بندوبست کا ارادہ کیا تو دو مہتمم مقرر کیے علاقہ فرات کے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ اور نواحِ وجلہ کے حضرت حذیفہ بن یمان افسر مقرر ہوئے [14] نواحِ دجلہ کی رعایا نہایت بے ایمان اور شریر تھی اس نے اپنے مہتم بندوبست حضرت حذیفہؓ کو اس کام میں کوئی مدد نہ دی بلکہ الٹے مسخرہ بن گیا۔ باایں ہمہ حضرت حذیفہؓ نے بندوبست کیا اور تشخیص ایسی معقول کی کہ حکومت کی آمدنی بڑھ گئی چنانچہ جب حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مدینہ میں ملاقات ہوئی اور انھوں نے کہا کہ "شاید زمین پر زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے" تو حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا "لقد ترکت فضلا [15]میں نے بہت زیادہ چھوڑ دیا ہے۔ [16] 18ھ میں نہاوند پر فوج کشی کی تیاریاں ہوئیں اس وقت حضرت حذیفہؓ بن یمان کوفہ میں مقیم تھے، حضرت عمرؓ کا خط ملا کہ کوفہ کی فوج کولے کر نکلو اور نعمان بن مقرن کے لشکر سے مل جاؤ، حضرت نعمانؓ نے نہاوند کے قریب پڑاؤ ڈالا اورفوج کی رتیب قائم کی حذیفہؓ کو میمنہ سپرد کیا لڑائی شروع ہوئی اور سخت کشت وخون کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اسی میں حضرت نعمانؓ نے شہادت حاصل کی، حضرت عمرؓ نے سائب بن اقرع سے فرمایا تھا کہ نعمانؓ بن مقرن قتل ہوں تو حذیفہؓ امیر ہوں گے [17] نعمانؓ نے بھی وفات سے قبل ان کی امارت کی وصیت کی تھی ؛چنانچہ ان کی شہادت کے بعد جب لوگوں کو امیر کی تلاش ہوئی تو معقل نے حذیفہؓ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ تمھارے امیر یہ ہیں اور امید ہے کہ خدا ان کی آنکھیں فتح و ظفر کے ذریعہ سے ٹھنڈی کرے گا، تمام لشکر نے حضرت حذیفہؓ سے امارت پر بیعت کی اوروہ فوج لے کر نہاوند کی طرف بڑھے۔ [18] نہاوند میں ایک آتش کدہ تھا اس کا موبد خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ مجھے امان ملے تو ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں، حضرت حذیفہؓ نے امان دی اوراس نے کسریٰ کے نہایت پیش بہا جواہرات لاکر پیش کیے، حضرت حذیفہؓ بن یمان نے مالِ غنیمت تقسیم کرکے پانچواں حصہ مع جواہرات کے حضرت عمرؓ بن خطاب کی خدمت میں بھیج دیا، حضرت عمرؓ بن خطاب جواہرات دیکھ کر غصہ ہوئے اور ابن ملیکہ سے فرمایا فوراً واپس لے جاؤ اور حذیفہؓ سے کہو کہ ان کو بیچ کر فوج میں تقسیم کر دیں، حضرت حذیفہؓ بن یمان اُس وقت ماہ (نہاوند) میں مقیم تھے، انھوں نے 4 کروڑ درہم پر جواہرات فروخت کیے۔ [19] اس موقع پر حضرت حذیفہؓ نے اہل شہر کے نام جو فرمان جاری کیا وہ بتمامہ درج کیا جاتا ہے۔ هذا ما أعطى حذيفة بن اليمان أهل ماہ دينار أعطاهم الأمان على أنفسهم وأموالهم وأراضيهم لا يغيرون على ملة ولا يحال بينهم وبين شرائعهم ولهم المنعة ما أدوا الجزية في كل سنة إلى من وليهم من المسلمين على كل حالم في مالہ ونفسہ على قدر طاقتہ وما أرشدوا ابن السبيل وأصلحوا الطرق وقروا جنود المسلمين من مر بهم فأوى إليهم يوما وليلة ونصحوا فإن غشوا وبدلوا فذمتنا منهم بريئة [20]
حذیفہ بن یمان نے اہل ماہ کو ان کے جان و مال اور جائداد کے متعلق امان دی کہ ان کے مذہب سے بالکل تعرض نہ ہوگا اور نہ مذہب بدلنے پر مجبور کیے جائیں گے اور ان میں ہر بالغ شخص جب تک سالانہ جزیہ ادا کرے گا، مسافروں کو راستہ بتائے گا راستوں کو درست رکھے گا، اسلامی لشکر کی جو یہاں ٹھہرے گا ایک شبانہ روز ضیافت کرے گا اور سلطنت کا خیر خواہ رہے گا ان صورتوں میں ان کی جان و مال اور زمین محفوظ رہے گی اور اگر انھوں نے اس عہد میں خیانت کی اوران کی روش میں تغیر واقع ہوا تو پھر مسلمان بری الذمہ ہیں۔ یہ عہدنامہ محرم 19ھ میں لکھا گیا اور اس پر قعقاع ، نعیم بن مقرن ، سوید بن مقرن کی گواہی ثبت کی گئی، [21] آج مہذب ممالک میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جو عہد نامے کیے جاتے ہیں ان کا اس عہد نامہ سے مقابلہ کرو، کیا اس عفوو ترحم اور اس درگزر وحلم درواداری کے باوجود بھی مسلمان متعصب ظالم جابر اور سخت گیر کے القاب کے سزا وار ہو سکتے ہیں۔ نہاوند فتح کرنے کے بعد حضرت حذیفہؓ اپنے سابق عہدہ یعنی بندوبست کی افسری پر واپس آگئے۔ [22] 22ھ میں حسب روایت بلاذری حملہ آذر بائیجان میں فوج کا علم ملا چنانچہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہنچے جو آذر بائیجان کا دار السلطنت تھا یہاں کے رائیس نے ماجرد ان میمند سراۃ، سبز، میانج وغیرہ سے ایک لشکر فراہم کرکے مقابلہ کیا اور شکست کھائی، پھر 8 لاکھ درہم سالانہ پر صلح ہوئی، حضرت حذیفہؓ وہاں سے موقان اور جیلانی کی طرف بڑھے اور فتح حاصل کی اسی اثناء میں دربارِ خلافت سے ان کی معزولی کا فرمان پہنچا اور عتبہ بن فرقد ان کی جگہ پر مقرر ہوئے۔ (یہ تفصیل بلاذری میں ہے، طبری میں حملہ آذر بائیجان اور8 لاکھ درہم پر صلح کرنے کا ایک موقع پر ضمناً ذکر آیا ہے،[23] اس کے بعد غالباً مدائن کے والی بنائے گئے، حضرت عمرؓ کا قاعدہ تھا کہ عاملوں کے فرمان تقری میں اپنے احکام اور ان کے فرائض درج کرتے تھے، لیکن حضرت حذیفہؓ کے نام جو فرمان تھا اس میں صرف یہ لکھا کہ تم لوگ ان کی اطاعت کرنا اورجو طلب کریں دے دینا، حضرت حذیفہؓ مدائن پہنچے تو معززین شہر نے استقبال کیا اورجب فرمانِ امارت پڑھا تو ہر طرف سے صدا بلند ہوئی کہ جو مانگنا ہو مانگئے ہم لوگ ہر طرح حاضر ہیں، حضرت حذیفہؓ نے کہا آنحضرتﷺ اورخلفائے راشدین کے قدم بقدم چلتے تھے فرمایا کہ مجھے صرف اپنے پیٹ کا کھانا اور گدھے کے چارہ کی ضرورت ہے، جب تک یہاں رہوں گا تم سے اسی کا طلب گارہوں، کچھ زمانہ کے بعد عمرؓ بن خطاب نے دارالخلافت میں طلب فرمایا اور خود راستہ میں کسی مقام پر چھپ رہے زمانہ کے بعد حضرت عمرؓ نے دارلخلافت میں طلب فرمایا اور خود راستہ میں کسی مقام پر چھپ رہے، حذیفہؓ اپنی اس قدیم شان سے نکلے تو حضرت عمرؓ سامنے آکر لپٹ گئے اور فرمایا تم میرے بھائی ہو اور میں تمھارا بھائی ہوں [24] اس کے بعد اسی عہدہ پر قائم رکھا۔ حضرت عثمانؓ بن عفان کے عہد خلافت میں حضرت علیؓ بن طالب کے ابتدائے زمانہ خلافت تک اسی منصب پر فائز رہے [25] 30ھ عہد حضرت عثمانؓ بن عفان میں، سعید بن عاص کے ہمراہ کوفہ سے غزوۂ خراسان کے لیے نکلے، طمیسہ نام ایک بندرگاہ پر لڑائی ہوئی، یہاں سعید بن عاص نے صلوٰۃ الخوف پڑھائی تو ان سے پوچھا کہ اس کا طریقہ کیا ہے [26]فتح حاصل کرکے رے کی مہم پر روانہ ہوئے، پھر وہاں سے سلمان بن ربیعہ اور حبیب بن مسلمہ کے ہمراہ آرمینیہ کا رخ کیا اس وقت وہ کوفہ کی تمام فوج کے افسر اعلیٰ تھے۔ [27] 31ھ میں خاقان خزر سے ایک عظیم جنگ پیش آئی جس میں سلمان اور 4 ہزار مسلمانوں نے شہادت حاصل کی، حضرت حذیفہؓ سلمان کی بجائے لشکر کے امیر ہوئے [28] لیکن پھر دوسری مہم میں چلے گئے اور مغیرہؓ بن شعبہ کا ان کی جگہ پر تقرر ہوا۔ حضرت حذیفہؓ نے باب پر تین [29] مرتبہ حملہ کیا، تیسرا حملہ 34ھ میں ہوا تھا [30] یہ حضرت عثمانؓ بن عفان کا اخیر عہدِ خلافت تھا، غزوہ ختم کر کے مدائن آئے اور زمام حکومت ہاتھ میں لی۔ ،[31]
کاتب رسول
ترمیمدربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا ، ابن مسکویہ ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ [32]
وفات
ترمیمیہاں پہنچ کر حضرت عثمانؓ بن عفان کی شہادت کا واقعہ [33] سنا اور اس کے 40 روز کے بعد خود بھی وفات پائی، یہ 36ھ کا واقعہ ہے۔ وفات سے پہلے ان کی عجیب کیفیت تھی، نہایت سراسیمہ خوف زدہ اور شدید گریہ وبکا میں مصروف تھے لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو بولے کہ دنیا چھوڑنے کا غم نہیں موت مجھکو محبوب ہے لیکن اس لیے رو رہا ہوں کہ معلوم نہیں کہ وہاں کیا پیش آئے گا اور میرا حشر کیا ہوگا جس وقت انھوں نے آخری سانس لی تو فرمایا خدایا اپنی ملاقات میرے لیے مبارک کرنا کیونکہ تو جانتا ہے کہ تجھے میں نہایت محبوب رکھتا ہوں۔ [34] جنازہ کے ساتھ کثیر مجمع تھا، ایک شخص نے اشارہ کرکے کہا کہ میں نے ان سے سنا تھا کہ آنحضرتﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے کہ اس کے بیان کرنے میں ہم کو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تم لوگ آمادۂ قتال ہو تو میں اپنے گھر بیٹھ رہوں گا، اس پر بھی کوئی وہاں پہنچے گا تو کہوں گا کہ آ اور میرے اور اپنے گناہ اپنے سر لے۔ [35] وفات کے وقت اپنے دو بیٹوں کو وصیت کی کہ علیؓ بن ابی طالب سے بیعت کرنا چنانچہ ان دونوں نے حضرت علیؓ سے بیعت کی اور صفین میں قتل ہوئے [36]حضرت حذیفہؓ نے خود بھی حضرت علیؓ سے بیعت کی تھی۔
خاندانی حالات
ترمیمآپ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت یمان مکی تھے اور قبیلہ بنی عیس سے تعلق رکھتے تھے، جب آفتاب اسلام جزیرہ نمائے عرب پر ضوفگن ہوا تو یمان بنوعبس کے دس افراد پر مشتمل اس وفد کے ایک رُکن تھے، جس نے بارگاہِ نبوت میں باریاب ہو کر اپنے اسلام کا اظہار کیا تھا، یہ واقعہ ہجرت نبوی سے پہلے کا ہے، اسی طرح حذیفہ اپنی اصل کے اعتبار سے مکی اور پیدائش وپرورش کے لحاظ سے مدنی تھے، ان کی پرورش ایک مسلم گھرانے میں ایسے والدین کی آغوش میں ہوئی تھی جو ابتدا ہی میں اسلام کے ٹھنڈے اور خوش گوار سائے میں آگئے تھے اسی طرح حذیفہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہونے سے قبل ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے۔ آپ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کے بے حد مشتاق تھے، اسلام لانے کے بعد سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات وواقعات اور اوصاف کے متعلق لوگوں سے برابر پوچھتے رہے اور ان کے دل میں آتش شوقِ دید اور زیارت ہمیشہ بھڑکی رہتی تھی، آخر کار سمندر شوق پر سوار وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کے لیے مدینہ جا پہنچے اور بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہی دریافت کیا۔
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں مہاجر ہوں یا انصاری!“
تم چاہو تو مہاجرین میں شامل ہو جاؤ او راگر چاہو تو انصار میں شامل ہو جاؤ، تمھیں اختیار ہے دونوں میں سے جو بھی پسند ہو اپنالو“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:
”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں انصاری ہوں“۔ حذیفہ بن یمان نے فیصلہ کُن لہجے میں کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو حذیفہ بن یمان نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اختیار کر لی، وہ سائے کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے تھے، جنگ اُحد میں حذیفہ اور ان کے والد یمان دونوں شریک تھے، تاہم اختتام جنگ میں یمان جان بحق نوش فرما گئے، وقت تیزی سے گذر رہا تھا، حذیفہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہنے گے۔
صلاحیتیں
ترمیمرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صلاحیتوں کو بھانپ کر ان کے اندر پوشیدہ اور مخفی صلاحیتوں سے ان کے حسب استعداد کام لیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس پہلو سے حذیفہ بن یمان کو جانچا تو ان کے اندر تین اعلیٰ ترین اور غیر معمولی خوبیوں کا انکشاف ہوا، ایک تو غیر معمولی ذہانت، جس سے کام لے کر وہ مشکل سے مشکل مسائل کو بہ آسانی حل کر لیا کرتے۔ دوسری زود فہمی اور حاضر دماغی ، جس کے ذریعے وہ بہت جلد معاملے کی تہ تک پہنچ جاتے اور تیسری چیز تھی راز داری، جس پر وہ سختی سے کار بند تھے۔
یوں تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختلف مواقع پر بہت سی اہم اور نازک ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حذیفہ کا تعاون حاصل کرتے رہتے تھے ، لیکن سب سے مشکل اور خطرناک ذمہ داری، جس میں ان کی ذہانت، زود فہمی اور راز داری کا زبردست امتحان تھا، اس وقت ان کے حوالے کی گئی تھی جب غزوہ خندق کے موقع پر دشمن نے ہر طرف سے مسلمانوں کا محاصرہ کر رکھا تھا اور محاصرے کے طول پکڑ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانیاں اپنی انتہاکو پہنچ گئی تھیں، یہاں تک کہ آنکھیں پتھر ا گئیں اور کلیجے منھ کو آنے لگے، مسلمانوں کی تو یہ حالت تھی۔ لیکن قریش اور ان کے حلیف مشرک قبائل کی حالت بھی اس سخت گھڑی میں مسلمانوں سے بہتر نہیں تھی، ان کے قدم ڈگمگا گئے، خدائے تعالی نے ان کے اوپر تیز آندھی کا عذاب مسلط کر دیا تھا، جس سے ان کے خیمے اُلٹ گئے، دیگیں اُوندھی ہو گئیں اور ان کے چولہے بجھ گئے، ہوا کے تیز جھکڑوں نے ان کے چہروں پر کنکریوں کی بوچھاڑ کر دی اور ان کی آنکھوں اور ناک کو گردو غبار سے بھر دیا۔
جنگ کے ان نازک اور فیصلہ کُن لمحات میں جو فریق گھبرا کر صبرو ثبات کا دامن ہاتھوں سے چھوڑ دیتا ہے، وہ خائب و خاسر اور ناکام و نا مراد رہتا ہے اور وہ فریق جو ضبط و تحمل سے کام لیتا ہے اور فریق مخالف کے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد تک محاذ پر ڈٹا رہتا ہے، فتح مند اور کامران ہوتا ہے اور ایسے لمحات میں جو جنگ کے انجام پر تو فیصلہ کن طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، برتری اسی فریق کو حاصل ہوتی ہے جو فریق ثانی کے حالات سے مکمل طور پر آگاہی حاصل کرکے اپنے مؤقف کا تعین کرتا اور جنگ کو ترتیب دیتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حذیفہ کی صلاحیتوں اور ان کے تجربات سے کام لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے کیا کہ کوئی آخری اور فیصلہ کن قدم اٹھانے سے پہلے ان کو رات کی تاریکی میں دشمن کے کیمپ میں بھیج کر دشمن کے حالات نوٹ کیے جائیں تاکہ حالات سے آگاہی ہو جائے۔ تن تنہا دشمن کے کیمپ جانا موت کے منھ میں جانے کے مترادف تھا، لیکن جذبہ اطاعت و فرماں برداری کی رہ نمائی میں حضرت حذیفہ نے اس مہم کو کس طرح سر انجام دیا اس کو انھوں نے خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا:
”اس رات ہم لوگ صفیں باندھے محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے، ابوسفیان ( جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) او ران کے ساتھی مشرکین ہم سے بالائی جانب صف آرا تھے اور بنو قریظہ کے یہودی ہم سے نشیب کی طرف تھے۔ وہ رات، ظلمت، ٹھنڈک اور ہواؤں کیشدت کے لحاظ سے محاصرے کی شدید ترین رات تھی، ہوائیں اس طرح گرج رہی تھیں جیسے وہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالیں گی اور تاریکی کا یہ عالم تھا کہ ہمیں اپنے ہاتھ نہیں دکھائی دیتے تھے، ایسی سخت گھڑی میں منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے اپنے گھر لوٹ جانے کی اجازت مانگنے لگے۔ وہ کہتے کہ ” ہمارے مکانات دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں“۔ حالاں کہ دراصل وہ کھلے ہوئے نہ تھے۔ تو منافقین میں سے جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جانے کی اجازت مانگتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اجازت مرحمت فرما دیتے، یہاں تک کہ محاذ پر صرف تقریباً تین سو آدمی رہ گئے، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک ایک کرکے ہم میں سے ہر شخص کے پاس تشریف لائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف بھی آئے، اس وقت ٹھنڈک سے بچاؤ کے لیے میرے پاس اپنی اہلیہ کی ایک ہلکی سی چادر تھی، جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے قریب آئے، میں زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ”کون ہے؟“ ”حذیفہ“ میں نے جواب دیا۔
”حذیفہ؟“ میں فاقے اور سردی کی شدت کے مارے زمین کی طرف سمٹ گیا اور بولا”ہاں اے اللہ کے رسول! میں حذیفہ ہوں، حذیفہ بن یمان“۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے اور قریب آگئے اورسرگوشی کے انداز میں فرمایا:” تم چپکے سے دشمن کے کیمپ میں جاؤ اور اس کے حالات معلوم کرکے مجھے آگاہ کرو۔“ حکم سن کر انتہائی خوف اور سخت ٹھنڈک کے باوجود میں نے موت کی وادی کی طرف قدم اُٹھا دیے اور آپ کی زبان مبارک سے میرے لیے دعا کے الفاظ نکلے۔
”اللہم احفظہ من بین یدیہ، ومن خلفہ، وعن یمینہ، وعن شمالہ، وعن فوقہ وتحتہ“․
”خدایا اس کی حفاظت فرما، اس کے سامنے سے، اس کے پیچھے سے، اس کے دائیں سے، اس کے بائیں سے، اس کے اوپر سے او راس کے نیچے سے۔“ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ علیہ وسلم کی دعا کے یہ الفاظ ابھی ختم بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے خوف اور میرے جسم سے ٹھنڈک کے اثرات کو زائل کر دیا، جب میں جانے کے لیے مڑا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکارا او رفرمایا” حذیفہ! دیکھو ان کے کیمپ میں پہنچ کر کوئی اقدام مت کرنا۔“ میں نے کہا بہت اچھا او رخاموشی کے ساتھ تاریکی کے پردے میں چلتا ہوا مشرکین کے لشکر میں پہنچ گیا او ران کے درمیان میں اس طرح مکمل مل گیا گویا انہی کا میں ایک فرد ہوں، میرے پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد ابو سفیان ان کے درمیان میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ اس نے کہا ” قریش کے لوگو! میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، مگر مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہ پہنچ جائے۔ اس لیے تم میں سے ہر شخص اپنے بغل والے کو اچھی طرح سے دیکھ لے۔“
حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے آدمی کا ہاتھ پکڑا او راس سے پوچھا کہ ”تم کون ہو؟“ اس نے کہا فلاں بن فلاں اورپھر ابوسفیان نے تقریر کا سلسلہ آگے بڑھایا۔”قریش کے لوگو! اب تمھارے لیے مزید یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ہمارے جانور ہلاک ہو رہے ہیں، بنو قریظہ کے یہودی ہم سے کنارہ کش ہو چکے ہیں اور تندوتیز ہواؤں کے ہاتھوں جن پر یشانیوں اور مصیبتوں کاسامنا ہمیں کرنا پڑ رہا ہے، ان کا بھی مشاہدہ تم کر رہے ہو۔ اس لیے اب بہتر یہی ہے کہ سب یہاں سے کُوچ کر چلو۔ میں خود بھی واپس جا رہا ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ اپنے اُونٹ کے پاس آیا، اس کے گھٹنے سے بندھی ہوئی رسی کھولی اور اس پر سوار ہو گیا پھر اسے ایک کوڑا رسید کر دیا، اُونٹ اُچھل کر کھڑا ہو گیا او راپنے سوا ر کو لے کر روانہ ہو گیا۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپسی سے پہلے مجھے کسی اقدام سے روک نہ دیا ہوتا تو اس وقت تیر مارکر ابو سفیان کو قتل کر ڈالنا میرے لیے بہت آسان تھا۔ اس کے بعد جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی کی چادر اوڑھے نماز میں مشغول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دیکھا تو اپنے قریب بلایا، میں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں بیٹھ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر کا ایک کنارہ مجھ پر ڈال دیا، میں نے دشمن کے کیمپ کی پوری رپورٹ خدمت اقدس میں پیش کر دی، جسے سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش ہوئے، اس پر اللہ کی تعریف کی اور اس کا شکر ادا کیا۔“
راز دارِ رسول
ترمیممدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے سامنے سب سے مشکل اور ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ یہ تھا کہ یہودیوں اور ان کے ہم خیال وہم مشرب مشرکین میں منافقین کا ایک گروہ موجود تھا، جو اپنی گھناؤنی سازشوں اور مکروہ ریشہ دوانیوں کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی راہ میں طرح طرح کی مشکلات کھڑی کرتا رہتا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کو ان تمام منافقوں کے ناموں سے آگاہ کر دیا تھا اور یہ ایک راز تھا جس سے حضرت حذیفہ بن یمان کے سوا کسی دوسرے کو مطلع نہیں کیا گیا تھا اور یہ خدمت ان کے سپرد کی تھی کہ وہ ان منافقین کی سرگرمیوں اور ان کی حرکات و سکنات پر برابر نظر رکھیں او ران کی طرف سے پیش آنے والے خطرات کا سدباب اور تدارک کریں۔ اسی وجہ سے حضرت حذیفہ ”راز دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ حذیفہ بن یمان زندگی بھر منافقین سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رازوں کے امین رہے۔ خلفائے راشدین منافقوں کے متعلق ہمیشہ ان کی طرف رجوع کرتے رہے، عمر بن خطاب کا تو یہ حال تھا کہ جب بھی کسی مسلمان کا انتقال ہوتا تو وہ لوگوں سے دریافت فرماتے کہ حذیفہ اس کی نماز جنازہ میں شریک ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہوتا تو وہ بھی شریک جنازہ ہو جاتے، بصورت دیگر انھیں اس کے مومن مخلص ہونے میں شک ہو جاتا اور نماز جنازہ نہ پڑھتے۔
اللہ جل شانہ نے تمام صحابہ کو انفرادی خصوصیات وبے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا، آج ہماری زندگیوں میں بے چینی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ان ہستیوں کے حالات وواقعات کو نہیں پڑھا، جو ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول وفعل کو ہم تک پہنچانے والے ہیں، [37]
حذیفہ بن یمان آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قراء توں میں اختلاف ہو رہا ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ واپس آتے ہی انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ امیر المومنین حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور خدمت میں حاضر ہوکر پوری صورت حال سے آگاہ کیا۔ انھوں نے خلیفہ سے کہا کہ قبل اس کے کہ یہ امت کتاب اللہ کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کا شکار ہوجائے آپ اس اختلاف کا علاج فرما لیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھا کہ میں نے دیکھا کہ شام کے رہنے والے لوگ اُبی بن کعبؓ کی قرأت میں پڑھتے ہیں جو اہل عراق نے نہیں سنی تھی۔ اس بنا پر وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں: إن حذیفة قدم من غزوة فلم یدخل في بیتہ حتی أتی عثمان رضی اللہ عنہ فقال یا أمیرالمؤمنین أدرک الناس قال وما ذاك قال غزوت أرمینیة فإذا أھل الشام یقرءون بقراءة أبي ابن کعب رضی اللہ عنہ فیأتون بمالم یسمع أھل العراق وإذا أھل العراق یقرءون بقراءة عبد اللہ ابن مسعود فیأتون بمالم یسمعہ أھل الشان فیکفر بعضہم بعضاً حذیفہ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے امیر المومنین! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انھوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اہل شام ابی بن کعب کی قرات میں پڑھتے ہیں جسے اہل عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہل عراق عبد اللہ بن مسعودؓ کی قرات میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ حذیفہ بن الیمانؓ کا واقعہ بخاری شریف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: حذیفہ بن الیمانؓ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آذربائیجان کے معرکے کے بعد حاضر ہوئے اور انھیں قرآت قرآن میں باہمی اختلاف نے بہت پریشان کیا تھا۔ حذیفہ نے حضرت عثمانؓ سے کہا اے امیر المومنین! اُمت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ اپنی کتاب میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس قرآن مجید کے نوشتے اور صحیفے بھیج دیں، ہم انھیں نقل کر لیں گے اور ایک مصحف کی شکل میں جمع کر لیں گے پھر انھیں آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کے پاس بھیج دیے۔ حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، سعد بن العاصؓ اور عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشام کو متعین فرمایا کہ وہ ان صحائف کو ایک مصحف میں نقل کریں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت عثمانؓ نے جماعت قریش کے تینوں کاتبوں کو فرمایا کہ جب تم اور زید بن ثابتؓ میں قرآن کریم کی کسی آیت کے لکھنے میں اختلاف ہو تو پھر اسے لغت قریش میں لکھنا کیونکہ قرآن مجید لغت قریش میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے اسی پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ حضرات ان صحائف کونقل کرچکے تو حضرت عثمانؓ نے ان اصل صحائف کو حضرت حفصہؓ کے پاس واپس لوٹا دیا اور ہر علاقے میں ایک ایک نقل شدہ مصحف ارسال کر دیا اور یہ حکم صادر فرمایا کہ ان کے علاوہ جو مجموعے اور صحیفے لوگوں کے پاس لکھے ہوئے موجود ہوں ان کو جلا دیا جائے۔ حضرت عثمانؓ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔ انھیں اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔جب حذیفہ نے بھی اسی قسم کی اطلاع دی تو آپ نے فوراً اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت عثمان نے جلیل القدر صحابہ کو جمع کیا اور ان سے اس سلسلے میں مشورہ کیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ میری قرات تمھاری قرات سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہنچ سکی ہے۔ لہٰذا آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمانؓ بن عفان سے یہی پوچھا کہ آپ نے کیا سوچا ہے؟ حضرت عثمانؓ بن عفان نے فرمایا کہ میرے رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک یقینی مصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق باقی نہ رہے۔ صحابہ نے اس رائے کو پسند کیا اور حضرت عثمان بن عفان کی رائے کی تائید کی چنانچہ حضرت عثمانؓ بن عفان نے اسی وقت لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا: أنتم عندي تختلفون فیہ و تلحنون، فمن ذاتی عن من أھل الأمصار أشد فیہ اختلافاً وأشد لحمنا، اجتمعوا بأصحاب محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاکتبوا الناس إماماً
تم لوگ مدینہ میں میرے قریب رہتے ہوئے قرآن کریم کی قراتوں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور زیادہ تکذیب اور اختلاف کرتے ہوں گے۔ لہٰذا تم لوگ مل کر ایک نسخہ ایسا تیار کرو جو سب کے لیے واجب الاقتداء ہو۔
اولاد
ترمیمحسب ذیل اولاد چھوڑی، ابو عبیدہؓ، بلالؓ، صفوان سعید، صاحبِ طبقات کے زمانہ میں ان کی اولاد مدائن میں موجود تھی [38]بیویاں غالباً دو تھیں۔
حلیہ
ترمیمصورت سے حجازی معلوم ہوتے تھے، حلیہ یہ تھا، قد متوسط، بدن اکہرا، آگے کے دانت خوبصورت [39]نظر اس قدر تیز تھی کہ صبح کے اندھیرے میں تیر کا نشانہ دیکھ لیتے تھے۔
فضل و کمال
ترمیمحضرت حذیفہؓ علمائے کبار میں تھے فقہ وحدیث کے علاوہ اسلام پر قیامت تک جو انقلابات ہونے والے ہیں ان کے بہت بڑے عالم تھے ، منافقین اسلام کے متعلق جو واقفیت تھی اس کے لحاظ سے وہ آنحضرتﷺ کے محرم راز تسلیم کیے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے اور لوگ بھی تھے دجال کا ذکر آیا تو فرمایا کہ میں اس کے متعلق ان سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ [40] آنحضرتﷺ نے ایک دن ایک خطبہ میں قیامت تک کے تمام واقعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بیان فرمائے تھے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو وہ خطبہ یاد تھا، بعض باتیں فراموش ہو گئی تھیں لیکن جب کوئی واقعہ پیش آتا تو یاد آجاتی تھیں، بعینہ اس طرح کہ آدمی کس شخص کو ایک مرتبہ دیکھتا ہے اور پھر اس کو بھول جاتا ہے لیکن پھر جب کبھی سامنا ہوتا ہے تو اس کی پہلی صورت آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ [41] ان کا خود بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نے انھیں تمام واقعات کی خبر دے دی تھی صرف ایک بات باقی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ مدینہ والوں کے مدینہ سے نکلنے کا سبب کیا ہوگا۔ [42] صحابہؓ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم عام طور پر آنحضرتﷺ سے فضائل اعمال نماز روزہ اور اسی قسم کی باتیں دریافت کرتے تھے لیکن حضرت حذیفہؓ یہ نہیں پوچھتے تھے ان کا قول ہے کہ کنت اسالہ عن الشربخافۃ ان یدرکنی [43] میں آنحضرتﷺ سے برائیاں پوچھتا تھا کہ ان میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ صحابہؓ میں ان کا لقب "محرم راز نبوت" تھا حضرت ابو درداء کہتے تھے۔ الیس فیکم صاحب السر کیا تم میں اسرء کا سب سے بڑا عالم موجود نہیں ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس بہت سے صحابہؓ جمع تھے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا، فتنہ کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے ، حضرت حذیفہؓ بن یمان نے کہا، مال ودولت، اہل و عیال اور ہمسایہ کے متعلق آدمی سے جو کچھ سرزد ہوتا ہے، اس کا نماز، صدقہ، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر سے کفارہ ہو جاتا ہے حضرت عمرؓ بن خطاب نے کہا پوچھنے کا یہ مقصد نہیں، وہ فتنے بتاؤ جو سمندر کی طرح جوش ماریں گے، حذیفہؓ نے جواب دیا کہ "آپ کے اور ان کے درمیان میں ایک دروازہ حائل ہے اس لیے آپ کو تردد کی ضرورت نہیں فرمایا دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائیگا ؟فرمایا تو پھر کبھی بند نہ ہوگا کہا جی ہاں۔ حضرت حذیفہؓ نے جب ایک مجلس میں یہ حدیث میں یہ حدیث بیان کی تو وہاں شقیق بھی تھے انھوں نے کہا کہ کیا عمر بن خطاب کو دروازہ کی خبر تھی؟ فرمایا ہاں جس طرح تم یہ جانتے ہو کہ دن کے بعد رات ہوتی ہے لوگوں نے پوچھا تو دروازہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا خود عمرؓ بن خطاب۔ [44] حضرت حذیفہؓ سے اس قسم کی بہت سی روایتیں ثابت ہیں اور اس قسم کے اسرار ان کو بہت معلوم تھے جو زیادہ تر اسلام کی سیاست سے تعلق رکھتے تھے، صحابہؓ میں حضرت حذیفہؓ کے علاوہ اور بھی ماہرین اسرار تھے جن کا وجود ہم کو حضرت حذیفہؓ ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے صحیح مسلم میں ان سے روایت ہے کہ میں اس وقت سے قیامت تک کے تمام فتنوں کو جانتا ہون لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میرے سوا اورکسی کو ان باتوں کی خبر نہ تھی، آنحضرتﷺ نے ہم کو ایک مجلس میں ایک دن یہ باتیں بتلائی تھیں اور چھوٹے بڑے تمام واقعات کی خبر دی تھی چنانچہ ان میں سے میرے سوا اب کوئی باقی نہیں حضرت حذیفہؓ اپنے علم سے وقتا فوقتا کام لیتے اور مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی نسبت مطلع کرتے رہتے تھے، ایک مرتبہ عامر بن حنظلہ کے گھر میں خطبہ دیا تو فرمایا۔ إِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ مُضَرَ لَا تَدَعُ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ عَبْدًا صَالِحًا إِلَّا فَتَنَتْهُ وَأَهْلَكَتْهُ حَتَّى يُدْرِكَهَا اللَّهُ بِجُنُودٍ مِنْ عِبَادِهِ فَيُذِلَّهَا حَتَّى لَا تَمْنَعَ ذَنَبَ تَلْعَةٍ [45] قریش ایک زمانہ میں دنیا کے کسی نیک بندہ کونہ چھوڑیں گے اور اس کو فتنہ سے آلودہ کرکے ہلاک کریں گے اس وقت خدا ان کو اپنے بندوں کی ایک فوج سے بالکل پامال کر دے گا۔ لوگوں نے کہا آپ کیا کہتے ہیں آپ خود بھی تو قریشی ہیں فرمایا اس کو کیا کروں میں نے آنحضرتﷺ سے اسی طرح سنا ہے۔ [46] ایک مرتبہ فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے ہم سے دو باتیں بیان کی تھیں جن میں ایک کو میں دیکھ چکا دوسری کا انتظار ہے اس کے بعد خود کہتے ہیں کہ مجھ پر ایک وقت تھا جس امیر سے بیعت کرتا اس کی نسبت مجھ کو کچھ تردد نہ ہوتا تھا، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اسلام کے ذریعہ اور نصرانی ہوتا تو مسلمان عمال کے ذریعہ سے ہم پر حکومت کرتا تے ھا، لیکن اب میں بیعت میں تامل کرتا ہوں میری نگاہ میں اس کے اہل صرف چند اشخاص ہیں میں انہی کے ہاتھ پر بیعت کرسکوں گا۔ [47] حضرت حذیفہؓ نے اسلام کے مستقبل کی نسبت ایک پیشینگوئی فرمائی ہے جو آج ہماری حالت پر بالکل صادق آتی ہے اور وہ یہ ہے۔ لا تقوم الساعۃ حتی یسود کل قبیلتھا افقوھا [48] قیامت اس وقت آئے گی جب قبیلوں کے سردار منافق ہو جائیں گے۔ حضرت حذیفہؓ سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں جن کو صاحب خلاصہ نے سو سے اوپر شمار کیا ہے یہ ذخیرہ حضرت حذیفہؓ نے آنحضرتﷺ اورحضرت عمرؓ بن خطاب سے فراہم کیا تھا۔ ان کے راویان حدیث میں متعدد صحابہ ہیں جن کے نام نامی یہ ہیں، حضرت جابرؓ بن عبداللہ ، جندب بن عبد اللہ بجلی، عبد اللہ بن یزید خطمیؓ، ابوالفطیلؓ ، تابعین میں کثیر جماعت ہے، بعض کے نام یہ ہیں قیس بن ابی حازم ، ابو وائل، زید بن وہب، ربعی بن خراش، زر بن جیش، ابو ظبیان حصین بن جندب، صلہ بن زفر، ابو ادریس خولانی، عبد اللہ بن عکیم، اسود بن یزید نخعی، عبد الرحمن بن یزید، عبدالرحمن بن ابی لیلی ، حمام بن الحارث، یزید بن شریک الیتمی۔ مہماتِ سلطنت کی وجہ سے اگرچہ بہت کم فرصت رہتی تھی تاہم جب کبھی فرصت ملتی تو حدیث کا درس دیتے تھے کوفہ کی مسجد میں حلقہ قائم ہوتا اور حضرت حذیفہؓ بن یمان حدیث بیان فرماتے۔ [49] شاگردان کا نہایت ادب کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے بشکری ایک مرتبہ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ تمام مجمع خاموش اور ایک شخص کی طرف ہمہ تن متوجہ ہے ان کے الفاظ یہ ہیں۔ کانما قطعت رؤسہم [50] گویا مجمع کے سرکاٹ لیے گئے ہیں۔ شاگردوں کے خوف کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب انھوں نے حضرت عمرؓ بن خطاب سے متعلق فتنہ والی حدیث بیان کی تو باوجود اس کے کہ پوری حدیث رموز و اشارات کا مجموعہ تھی کسی کو پوچھنے کی ہمت نہ پڑی چنانچہ انھوں نے مسروق کی جو عبد اللہ بن مسعودؓ کے ارشد تلامذہ میں تھے [51] اس کے پوچھنے پر آمادہ کیا اور انھوں نے پوچھا۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ بن یمان معراج کی حدیث بیان کر رہے تھے کہ زر بن جیش آئے حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ بیت المقدس میں داخل نہیں ہوئے زر بولے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تھے اور نماز پڑھی تھی، فرمایا گنجے تیرا کیا نام ہے میں تجھے پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا انھوں نے نام بتایا تو فرمایا کہ تمھیں یہ کیونکر معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ نے نماز پڑھی تھی کہا قرآن سے فرمایا آیت پیش کرو، انھوں نے وہ آیت پڑھی جس میں معراج کا تذکرہ ، سبحن الذی اسری بعیدہ (وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ کو شب کے وقت لے گیا) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا اس میں نماز کا کہا تذکرہ ہے زر نے لاجواب ہوکر اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ [52] روایت حدیث میں سخت محتاط تھے، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں۔ وانا ان سالناہ لمہ یحدثنا [53] ہم ان سے حدیث کی خواہش کرتے تو نہ بیان کرتے اسی وجہ سے لوگ موقع کے منتظر رہتے تھے، جب کوئی واقعہ پیش آتا اور وہ حدیث بیان کرتے تو تمام مجمع کو نہایت اہتمام سے خاموش کیا جاتا تھا، دہقان کے واقعہ میں جب حدیث بیان کی تو لوگوں نے کہا :اسکتوا اسکتوو [54] تم ہی بیان کرو۔
اخلاق و عادات
ترمیمزہد کا یہ عالم تھا کہ مدائن کے زمانۂ امارت میں بھی طرز معاشرت میں کوئی تعیر نہ پیدا ہوا، عجم کی آب و ہوا میں رہنے اور منصب امارت پر فائز ہونے کے باوجود کوئی سازو سامان نہیں رکھتے تھے، سواری کے لیے ہمیشہ گدھا استعمال کرتے تھے، استغنا کا یہ عالم تھا کہ قوت لایموت سے زیادہ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے کچھ مال بھیجا تو سب اٹھا کر تقسیم کر دیا۔ [55] اس استغنا کے ساتھ عبادت اورذکر الہی میں جو انہماک تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے ساتھ تمام رات نماز پڑہتے رہ گئے اور اف تک نہ کی صبح کے وقت جب حضرت بلالؓ نے اذان پکاری تو اس وقت تک ان بزرگوں کی صرف دو رکعتیں ہوئی تھیں۔ [56] امر بالمعروف کا یہ حال تھا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہ نہایت جلیل القدر صحابی تھے یت احتیاط کی بنا پر شیشی میں پیشاب کرنا شروع کیا کہ چھینٹ نہ پڑنے پائے ان کو معلوم ہوا تو کہا کہ یہ شدت ٹھیک نہیں، آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ ایک گھوڑے پر کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا میں آپ کے ساتھ تھا ہٹنا چاہا تو ارشاد کہ قریب رہو چنانچہ بالکل پشت کے قریب ہی کھڑا رہا۔ [57] ایک مرتبہ کچھ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے، حذیفہؓ آئے اور فرمایا کہ یہ باتیں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں نفاق میں شمار کی جاتی تھیں۔ [58] ایک شخص مسجد میں نہایت عجلت سے نماز پڑھ رہا تھا حضرت حذیفہؓ آئے تو فرمایا تم کتنے زمانہ سے اس طرح نماز پڑہتے ہو؟ بولا 40 برس سے فرمایا تمھاری 40 سال کی نماز بالکل رائیگاں گئی اور اگر اس طرح نماز پڑہتے ہوئے تم مرگئے تو دین محمدی پر نہ مرو گے اس کے بعد اس کو نماز کا طریقہ بتلایا اور کہا چھوٹی رکعت پڑھو، لیکن رکوع وسجود میں اعتدال کا خیال رکھو۔ [59] حضرت عثمانؓ کے ایام محاصرہ میں ربیع زیارت کے لیے مدائن آئے تو پوچھا کہ عثمانؓ بن عفان پر خروج کن لوگوں نے کیا ہے ربیع نے نام گنائے تو فرمایا کہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے جس نے جماعت کو چھوڑا اور امارت کو ذلیل کیا وہ خدا کے نزدیک بالکل بے وقعت ہے۔ [60] ایک شخص مجلس کے وسط میں بیٹھا تو فرمایا آنحضرتﷺ نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے۔ [61] عرب میں وفات کی خبر نہایت اہتمام سے مشتہر کی جاتی تھی، آنحضرتﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے حضرت حذیفہؓ بن یمان اس پر اس شدت سے عامل تھے کہ جب کوئی مرتا تو اس کی خبر تک نہ کراتے کہ شائد اس میں بھی وہ صورت پیدا ہو جائے۔ [62] راست بازی خاص شعار تھی ان کے ایک شاگرد ربعی حدیث روایت کرتے تو کہتے۔ حدثنی من لم یکذبنی مجھ سے اس نے حدیث بیان کی جو مجھ سے جھوٹ نہ بولتا تھا لوگ سمجھ جاتے کہ حذیفہؓ بن یمان مراد ہیں۔ [63] ایک شخص حضرت عثمانؓ کو ان کی باتیں پہنچاتا تھا سامنے سے نکلا تو لوگوں نے کہا کہ یہ امرا کے پاس تمام خبریں لیجاتا ہے فرمایا ایسا شخص لعنت میں نہیں جا سکتا۔ [64] ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ کے کسی ایسے صحابی کو بتلائیے جو آپ سے رفتار وگفتار و مذہب غرض ہر چیز میں مشابہ ہو، فرمایا ایسے شخص ابن مسعودؓ ہیں، لیکن جب تک گھر کے باہر رہتے ہیں باقی گھر میں کیا کرتے ہیں اس کی مجھ کو اطلاع نہیں۔ [65] عفو و درگزر جس پیمانہ پر موجود تھا وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے ان کے والد کو مسلمانون نے غلطی سے قتل کر دیا انھوں نے غصہ کرنے اوران سے انتقام لینے کی بجائے ان کے لیے مغفرت کی دعا کی عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ عفو و درگزر کی صفت حضرت حذیفہؓ میں اخیر وقت تک موجود تھی۔ [66] اطاعت رسول اللہﷺ کا حال غزوۂ خندق کے سلسلہ میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ صحابہؓ میں ایک شخص بھی مشرکین کے لشکر میں جانے کی ہمت نہ کرتا تھا لیکن حضرت حذیفہؓ گئے اور آنحضرتﷺ سے جنت کی بشارت حاصل کی۔ ایک مرتبہ راستہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی اور آپ ان کی طرف بڑھے تو بولے میں جنبی ہوں، فرمایا مومن نجس نہیں ہو سکتا۔ [67] آنحضرتﷺ کے ساتھ کھانا کھانے کی سعادت حاصل ہوتی تو پہلے خود نہ شروع کرتے بلکہ آنحضرتﷺ ابتدا فرماتے تھے۔ [68] رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تقرب وخصوصیت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ان کے سینہ سے ٹیک لگائی، [69] ایک مرتبہ ازار کی حد بتائی تو ان کی پنڈلی دست مقدس سے پکڑی[70] غزوہ خندق کی رات کو مشرکین کی خبر لائے تو اپنا کمبل اڑھایا، اوراپنی سواری پر بٹھایا [71]ایک رات اپنے حجرہ میں رکھا ان کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نماز کے لیے اٹھے تو لحاف کا ایک کنارہ خود اوڑھے تھے اوردوسرا حضرت عائشہؓ پر پڑا تھا اور وہ نسوانی مجبوری کی وجہ سے نماز کو نہ اٹھ سکیں۔ [72] آنحضرتﷺ کی خدمت میں آتے تو بسا اوقات ظہر، عصر، مغرب، عشا کی نماز میں آپ کے ساتھ پڑہتے اوراتنے عرصہ تک شرف صحبت سے مشرف رہتے۔ [73] آنحضرتﷺ کی خدمت کرتے اورطہارت کے لیے پانی دیتے تھے [74] ایک روز ان کی والدہ نے کہا کہ تم آنحضرتﷺ کی خدمت میں کب سے نہیں گئے انھوں نے مدت بیان کی تو بہت خفا ہوئیں اورسخت سست کہا بولے اچھا چھوڑئیے جاتا ہوں اور مغرب کی نماز آنحضرتﷺ کے ساتھ پڑہتا ہوں اوراپنے اورآپ کے لیے استغفار کراتا ہوں ؛چنانچہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورنماز پڑھ کر آپ کے پیچھے ہولئے آپ نے مڑ کر دیکھا تو یہ نظر آئے پوچھا کون حذیفہ!فرمایا :غفراللہ لک ولامک خدا تجھے اور تیری ماں دونوں کو بخشے تمام لوگوں سے اچھی طرح ملتے لیکن بیوی سے سخت گفتگو کرتے اس کا احساس ہوا تو آنحضرتﷺ سے عرض کی ارشاد ہوا کہ تم استغفار کیا کرو۔ [75] غصہ کم آتا تھالیکن جب احکام شرع پامال ہوتے دیکھتے تو ان کے غیظ وغضب کی کوئی انتہا نہ رہتی تھی، مدائن میں کسی جگہ پانی مانگا، ایک رئیس نے چاندی کے برتن میں لاکر پیش کیا، تو انھوں نے جھنجھلا کر پیالہ اس پر کھینچ مارا اور فرمایا کیا میں نے تم کو تنبیہ نہیں کردی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے چاندی کے برتنوں کے استعمال کی ممانعت کی ہے۔ [76] بعض وکینہ دیر تک قائم نہ رکھتے جن لوگوں سے شکر رنجی ہوجاتی تھی ان سے جلد صاف ہوجاتے تھے اصحاب عقبہ میں سے ایک صاحب سے کسی معاملہ میں بگاڑ ہو گیا تھا اور بول چال ترک ہو گئی تھیں لیکن حضرت حذیفہؓ نے خود ہی چھیڑ کر گفتگو کی اور بالآخر ان کو بھی اپنا طرز عمل بدلنا پڑا۔ [77] استغنا کے واقعات اوپر مذکور ہو چکے ہیں طبعا بڑے فیاض اور سیر چشم تھے کوئی کھانے کے وقت پہنچ جاتا تو ا س کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے۔ [78] مذکورۂ بالامحاسن ومکارم کی بنا پر حضرت عمرؓ بن خطاب ان کا بڑا احترام کرتے تھے جس جنازہ پروہ نماز پڑہتے خود بھی پڑہتے اورجس پر وہ نماز نہ پڑہتے حضرت عمرؓ بھی نہ پڑہتے تھے۔ [79] ایک مرتبہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اپنی اپنی تمنا میں پیش کیجئے سب نے کہا کہ زر وجواہر سے بھرا ہوا ایک گھر ملتا اوراس کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتے حضرت عمرؓ نے کہا میری تمنا تو یہ ہے کہ مجھ کو ابو عبیدہؓ، معاذ بنؓ یمان جیسے لوگ ملیں اور ان کو سلطنت کے عہدے تفویض کروں۔ [80]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مرقات المفاتیح
- ↑ مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ 448نعیمی کتب خانہ گجرات
- ↑ (اصابہ:1/232)
- ↑ (ایضاً:8/234)
- ↑ (اسدالغابہ:1/391)
- ↑ (مسلم:2/89)
- ↑ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ:2/13)
- ↑ (مسلم:2/89)
- ↑ (اصابہ:2/12)
- ↑ (طبقات، قسم1، جلد2، صفحہ:50)
- ↑ (مسلم:2/391)
- ↑ "ما صحة قصة نقل جثتي حذيفة بن اليمان وجابر بن عبد الله رضي الله عنهم؟ - الإسلام سؤال وجواب"۔ islamqa.info (بزبان عربی)۔ 18 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2019
- ↑ (اسد الغابہ:1/391)
- ↑ (کتاب الخراج:21)
- ↑ (ایضاً:21)
- ↑ (طبری:5/2632)
- ↑ (اخباء الطوال:136)
- ↑ (طبری:5/2604، 2605)
- ↑ (طبری:5/2627، 30)
- ↑ (تاریخ الطبری، باب ذکر الخبر عما کان فی ھذہ السنۃ:2/530)
- ↑ (طبری:5/2633)
- ↑ (طبری:5/2638)
- ↑ طبری:5/2806)
- ↑ (اسد الغابہ:1/392)
- ↑ (اصابہ:1/332)
- ↑ (مسند:5/385، وطبری:53836، 37)
- ↑ (ایضاً:2892)
- ↑ (یعقوبی:2/194)
- ↑ (طبری:2894)
- ↑ (ایضاً:2936)
- ↑ الخطيب البغدادي۔ تاريخ بغداد۔ الأول۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 162
- ↑ تجارب الامم 1/291، عیون الاثر 2/316، شرح الفیہ عراقی 246
- ↑ (طبقات:6/8)
- ↑ (اسد الغابہ:1/292)
- ↑ (مسند:5/389)
- ↑ (استیعاب:1/105)
- ↑ صورٌ من حیاة الصحابہ، ص:254
- ↑ (طبقات :6/)
- ↑ (مسند :5/400،403)
- ↑ (مسلم:2/514)
- ↑ (مسلم:5/49)
- ↑ (مسلم:5/49)
- ↑ (بخاری:2/1049)
- ↑ (بخاری:3/1051)
- ↑ (مسند احمد، باب حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی، حدیث نمبر:22227)
- ↑ (مسند:5/390،395،404)
- ↑ (بخاری:2/1049،1050)
- ↑ (استیعاب:1/106)
- ↑ (مسند:5/403)
- ↑ (مسند:5/386)
- ↑ (بخاری:2/1051)
- ↑ (مسند:5/387)
- ↑ (مسند:5/397)
- ↑ (ایضاً:397)
- ↑ (اسد الغابہ:1/392)
- ↑ (مسند:5/4)
- ↑ (ایضا:5/382)
- ↑ (ایضاً:384)
- ↑ (مسند:384)
- ↑ (مسند:387)
- ↑ (مسند:498)
- ↑ (مسند:476)
- ↑ (مسند:385،401)
- ↑ (مسند:389)
- ↑ (مسند:289،394)
- ↑ (بخاری:2/581)
- ↑ (مسند:384)
- ↑ (ایضاً:383)
- ↑ (ایضاً:391)
- ↑ (ایضاً:382)
- ↑ (ایضاً:393)
- ↑ (ایضاً:400)
- ↑ (ایضاً:392)
- ↑ (مسند :391،وترمذی:625)
- ↑ (مسند:5/394)
- ↑ (مسند:396)
- ↑ (مسند:5/390)
- ↑ (مسند:396)
- ↑ (اسد الغابہ:1/391)
- ↑ (اسدالغابہ:392)