عباس بن عبد المطلب
عباس ابن عبد المطلب (پیدائش: 568ء— 15 فروری 653ء) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سگے چچا تھے۔
عباس بن عبد المطلب | |
---|---|
(عربی میں: العباس بن عبد المطلب) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 568 مکہ[1] |
وفات | 15 فروری 653 (84–85 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | ![]() |
زوجہ | لبابہ بنت حارث |
اولاد | عبد اللہ بن عباس، فضل ابن عباس، عبید اللہ بن عباس، تمام بن عباس، معبد ابن عباس، قثم بن عباس، ام حبيب بنت عباس، ام كلثوم بنت عباس، کثیر بن عباس، عبد الرحمن بن العباس |
تعداد اولاد | |
والد | عبد المطلب[2][3] |
والدہ | نتیلہ بنت جناب |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | ریاست کار، تاجر |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر، فتح مکہ، غزوہ حنین[2] |
درستی - ترمیم ![]() |
نام،نسبترميم
عباس نام ،ابوالفضل کنیت، والد کا نام عبدالمطلب اوروالدہ کا نام نتیلہ تھا،شجرہ نسب یہ ہے۔ عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف الہاشمی القرشی آنحضرت ﷺ کے چچا تھے،لیکن عمر میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا،غالباً حضرت عباس ؓ دویا تین برس آپ سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ [4]
ابتدائی حالاتترميم
حضرت عباس ؓ عہد طفولیت میں ایک مرتبہ گم ہو گئے تھے،ان کی والدہ نے خانہ کعبہ پر غلاف چڑھانے کی نذر مانی ،چنانچہ ان کے صحیح وسلامت مل جانے کے بعد نہایت تزک واحتشام کے ساتھ یہ نذرپوری کی گئی،بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پہلی عرب خاتون تھی ،جنھوں نے ایام جاہلیت میں خانہ کعبہ کو دیباوحریرسے مزین کیا۔ [5] زمانہ جاہلیت میں وہ قریش کے ایک سربرآوردہ رئیس تھے،خانہ کعبہ کا اہتمام وانصرام اورلوگوں کو پانی پلانے کا عہدہ ان کو اپنے والد عبدالمطلب سے وراثت میں ملا تھا۔ [6]
آنحضرت ﷺ کو خلعتِ نبوت عطا ہوا اورآپ نے مکہ میں علانیہ دعوتِ توحید کی صدابلند فرمائی توحضرت عباس ؓ نے گو بظاہر ایک عرصہ تک بیعت کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا،تاہم دل سے وہ اس تحریک کے حامی تھے، چنانچہ اہل یثرب نے جب رسالت پناہ ﷺ کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی اورزمانہ حج میں بہتر(72) انصارنے کفار سے چھپ کر منیٰ کی ایک گھاٹی میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اوراس رازداری کے موقع پر حضرت عباس ؓ بھی موجود تھے،انہوں نے انصار سے خطاب کرکے کہا گروہ خزرج تم کو معلوم ہے کہ محمد ﷺ اپنے خاندان میں معزز ومحترم رہے ہیں اوردشمنوں کے مقابلہ میں ہم نے ہمیشہ ان کی حفاظت کی ہے،اب وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں،اگر مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی سے صاف جواب دے دو،[7]انصار ؓ نے اس کے جواب میں جان نثار ووفاشعاری کی ہامی بھری اوراس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی آنحضرت ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔
جنگ بدرترميم
مشرکین قریش کے مجبور کرنے پر ان کے ساتھ معرکہ بدر میں شریک ہوئے،لیکن رسول اللہ ﷺ حقیقتِ حال سے آگاہ تھے،آپ نے صحابہ کرام ؓ کو ہدایت فرمائی کہ اگر اثنائے جنگ میں ابوالنجتری عباس اور دوسرے بنی ہاشم سامنے آجائیں تو قتل نہ کیے جائیں ،کیونکہ وہ زبردستی میدان میں لائے گئےہیں، حضرت ابوحذیفہ ؓ بول اٹھے کہ ہم اپنے باپ، بیٹے،بھائی سے درگزر نہیں کرتے تو بنی ہاشم میں کیا خصوصیت ہے،واللہ اگر عباس مجھ کو ہاتھ آئیں گے تو میں ان کو تلوار کی لگام دوں گا، آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرؓ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا ابوحفص دیکھتے ہو،عمِ رسول ﷺ کا چہرہ تلوار کے قابل ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا اجازت دیجئے کہ اس کا سراڑا دوں؛ لیکن حضرت ابو حذیفہ ؓ ایک بلند پایہ صحابی تھے، یہ جملہ اتفاقاًزبان سے نکل گیا تھا، آپﷺ نے کچھ مواخذہ نہ فرمایا۔ [8]
اس جنگ میں دوسرے مشرکین قریش کے ساتھ حضرت عباس ؓ عقیل ؓ اورنوفل بن حارث بھی گرفتار ہوئے تھے،اتفاق سے حضرت عباس ؓ کی مشکیں اس قدر کس کر باندھی گئی تھیں کہ وہ درد ناک آواز کے ساتھ کراہ رہے تھے،یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ ان کی کراہ سن کر رات کو آرام نہ فرماسکے،صحابہ کرام ؓ کو معلوم ہوتو انہوں نے ان کی مشکیں ڈھیلی کر دیں۔ [9]
اسیرانِ جنگ کے پاس کپڑے نہ تھے، آنحضرت ﷺ نے سب کو کپڑے دلوائے لیکن حضرت عباس ؓ کا قد اس قدراونچا تھا کہ کسی کا کرتا ان کے بدن پر ٹھیک نہیں اترتا تھا ،عبد اللہ بن ابی نےجو حضرت عباس ؓ کا ہم قد تھا، اپنا کرتا منگواکردیا ،آنحضرت ﷺ نے منافق ہونے کے باوجود مرنے کے بعد اس کی لاش کو اپنا کرتا پہنانے کے لیے دیا،وہ درحقیقت اسی احسان کا معاوضہ تھا۔
دربارِرسالت نے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑدینے کا فیصلہ کیا،چونکہ حضرت عباس ؓ کی والدہ انصار کے ایک قبیلہ خزرج سے تھیں اس لیے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ عباس ؓ ہمارے بھانجے ہیں ہم ان کا فدیہ چھوڑدیتے ہیں،لیکن آنحضرت ﷺ نے مساوات کی بنا پرگوارانہیں فرمایا اوردولت مند ہونے کے باعث ان سے ایک بڑی رقم طلب فرمائی[10] حضرت عباس ؓ نے ناداری کا عذر پیش کرکے کہا میں دل سے پہلے ہی مسلمان ہوچکا تھا،مشرکین نے مجھ کو بجبراس جنگ میں شریک کیا،ارشاد ہوا کہ دل کا حال خدا جانتا ہے اگر آپ کا دعویٰ صحیح ہے تو خدا اس کا اجر دے گا، لیکن ظاہری حالت کے لحاظ سے کوئی رعایت نہیں ہوسکتی ،ناداری کا عذر بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ مکہ میں ام الفضل کے پاس ایک بڑی رقم رکھ آئے ہیں، حضرت عباس ؓ نے متعجب ہوکر کہا خدا کی قسم اس رقم کا حال میرے اورام الفضل کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا، بے شک آپ رسولِ خدا ہیں اوراپنی طرف سے نیز اپنے بھتیجے عقیل ونوفل بن حارث کی طرف سے گرانقدر فدیہ دے کر مخلص حاصل کی۔ [11]
تاخیر اسلام اورقیامِ مکہ کی غایتترميم
حضرت عباس ؓ ایک عرصہ تک مکہ میں مقیم رہنا اورعلانیہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہونا درحقیقت ایک مصلحت پر مبنی تھا،وہ کفارمکہ کی نقل وحرکت اوران کے رازہائے سربستہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دیتے تھے، نیز اس سرزمین کفر میں جو ضعفائے اسلام رہ گئے تھے ان کے لیے تنہا مامن وملجا تھے،یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس ؓ نے جب کبھی رسالت پناہ ﷺ سے ہجرت کی اجازت طلب کی تو آپ نے بازرکھا اورفرمایا کہ "آپ کا مکہ میں مقیم رہنا بہتر ہے،خدانے جس طرح مجھ پر نبوت ختم کی ہے ،اسی طرح آپ پر ہجرت ختم کرے گا۔ [12]
گو حضرت عباس ؓ نے عرصہ تک اپنے ایمان وعقیدہ کو مشرکین قریش سے مخفی رکھا؛ تاہم وہ اپنے دلی رحجان کو چھپانہ سکے، ایک مرتبہ حضرت حجاج بن علاطہ ؓ آنحضرت ﷺ سے اجازت لے کر مکہ آئے اس زمانہ میں جنگِ خیبر درپیش تھی، اوراہل مکہ نہایت بے چینی کے ساتھ اس کے نتیجہ پر آنکھیں لگائے ہوئے تھے، لوگوں نے ان کو مدینہ کی طرف سے آتے ہوئےدیکھ کر گھیر لیا اورجنگ کی خبر پوچھی بولے،خیبر کی جنگ میں مسلمانوں کو نہایت عبرت ناک شکست ملی، محمد ﷺ گرفتار ہوئے اوران کے اکثر جان نثار قتل کیے گئے ہیں، اپنا مال لینے آیا ہوں کہ دوسرے تاجروں کو خبر نہ ہونے سے پہلے اہل خیبر سے تمام مالِ غنیمت خرید لوں۔
اس خبر سے یکا یک تمام مکہ میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی وادیٔ بطحاء کا ہربچہ بادہ انبساط سے مخمور ہو گیا، گھر گھر خوشی کے ترانے گائے جانے لگے،لیکن حضرت عباس ؓ کا گھر ماتم کدہ تھا، وہ افسردہ دل اورمغموم صورت حجاج علاط ؓ سے تخلیہ میں ملے اورپوچھا،حجاج !کیا یہ خبر صحیح ہے بولے نہیں خدا کی قسم آپ کے لیے نہایت خوش آیندخبر ہے ،خدانے آپ کے بھتیجے کو خیبر پر کامل فتح عطا فرمائی،اکثر رؤسائے خیبر قتل کیے گئے ان کا تمام مال واسباب مجاہدین اسلام کے ہاتھ آیا اورمیں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں چھوڑا کہ خیبر کی شہزادی داخلِ حرم ہورہی تھی، میں اسلام قبول کرچکا ہوں اوریہاں صرف اس لیے آیا ہوں کہ بلطائف الحیل اپنا مال لے کر رسول اللہ ﷺ سے جا ملوں،آپ میرے جانے کے بعد تین دن تک اس خبر کو پوشیدہ رکھیں،کیونکہ مجھے تعاقب کا خوف ہے۔
حضرت عباس ؓ کی مسرت وانبساط کی کوئی انتہا نہ رہی وہ بمشکل تین دن تک اس کو چھپا سکے اورچوتھے روز نہا دھوکر اوربیش قیمت کپڑے زیب بدن کرکے ہاتھ میں عصالیے ہوئے خانہ کعبہ آئے اورطواف کرنے لگے،لوگوں نے چھیڑکر کہاخدا قسم!یہ مصیبت پر اظہار صب رہے بولے قسم ہے اس ذات کی جس کی تم نے قسم کھائی ہرگز نہیں!بالکل غلط ہے،خیبر فتح ہو گیا اوراس کا ایک ایک چپہ محمدﷺ اور ان کے اصحاب کے تصرف میں ہے،لوگوں نے تعجب سے پوچھا یہ خبر کہاں سے آئی؟فرمایا: حجاج بن علاطہ ؓ نے بیان کیا جو اسلام قبول کرچکے ہیں اور یہاں محض اپنا مال لینے آئے تھے،اس حقیقت نے مشرکین مکہ کی تمام مسرت خاک میں ملادی اور وہ ایک فریب خوردہ دشمن کی طرح دانت پیسنے لگے۔ [13]
اسلام وہجرتترميم
فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے حضرت عباس ؓ کو ہجرت کی اجازت مل گئی،چنانچہ وہ مع اہل و عیال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعلانیہ بیعت کرکے مستقل طورسے مدینہ میں سکونت پزیر ہوئے۔
غزواتترميم
مکہ کی فوج کشی میں شریک تھے، حنین کی جنگ میں حضرت خیرالانام ﷺ کے ہمرکاب تھے اورر ہواررسالت کی باگ تھامے ہوئے ساتھ ساتھ دوڑتے تھے،فرماتے ہیں کہ اثنائے جنگ میں جب کفار کا غلبہ ہوا اورمسلمانوں کے منہ پھر گئے،توارشاد ہوا،عباس ؓ! نیزہ برداروں کو آواز دو،فطرۃ میری آواز نہایت بلند تھی،میں نے این اصحاب السمرہ؟ کا نعرہ مارا تو سب کے سب یکا یک پلٹ پڑے اورمسلمانوں کا بگڑاہواکھیل بن گیا،[14] محاصرہ طائف،غزوۂ تبوک اورحجتہ الوداع میں بھی شریک تھے۔
آنحضرت ﷺ کی وفاتترميم
حجۃ الوداع سے واپس آکر آنحضرت ﷺ بیمار ہوئے ،مرض روز بڑھتا گیا،حضرت علی ؓ، حضرت عباس ؓ اوردوسرے بنی ہاشم تیمارداری کی خدمت انجام دیتے تھے،وفات کے دن حضرت علی ؓ باہر نکلے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کا مزاج کیسا ہے؟ چونکہ بظاہر حالت سنبھل گئی تھی،اس لیے انہوں نے کہا کہ خدا کے فضل سے اب اچھے ہیں؛ لیکن حضرت عباس ؓ خاندانِ ہاشم کا دیرینہ تجربہ رکھتے تھے،انہوں نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا،تمہارا کہاں خیال ہے؟ خدا کی قسم تین دن کے بعد تم غلامی کروگے میں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ عنقریب اس مرض میں وفات پائیں گے؛ کیونکہ میں خانداِ عبدالمطلب کے چہروں سے موت کا اندازہ کرسکتا ہوں،آؤ چلو رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعد منصب خلافت کس کوحاصل ہوگا،اگر ہم مستحق ہیں تو معلوم ہو جائے گا،ورنہ عرض کریں گے کہ ہمارے لیے وصیت فرماجائیں،حضرت علی ؓ نے کہا خدا کی قسم میں نہ پوچھوں گا،اگر پوچھنے پر آپ نے انکار کر دیا تو پھر آئندہ ہمیشہ کے لیے اس سے محروم ہوجاؤں گا،(بخاری :2/927)حضرت علی ؓ کے انکار سے حضرت عباس ؓ کوبھی جرأت نہ ہوئی۔ غرض آنحضرت ﷺ نے اسی روز وفات پائی،حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ اوردوسرے بنو ہاشم کی مدد سے تجہیز وتکفین کی خدمت انجام دی،چونکہ وہ آنحضرت ﷺ کے عم محترم تھے،خاندانِ ہاشم میں سب سے معمر تھے،اس لیے تعزیت وماتم پرسی کے خیال سے لوگ ان ہی کے پاس آئے۔ [15]
بارگاہِ نبوت میں اعزازترميم
آنحضرت ﷺ اپنے عم محترم کی نہایت تعظیم وتوقیر فرماتے تھے اوران کی معمولی اذیت سے بھی آپ کو تکلیف ہوتی تھی، ایک مرتبہ انہوں نے بارگاہِ نبوت میں شکایت کی کہ قریش جب باہم ملتے ہیں تو ان کے چہروں پر تازگی وشگفتگی برستی ہے ،لیکن جب ہم سے ملتے ہیں تو بشاشت کی بجائے برہمی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں،آنحضرت ﷺ یہ سنکر غضبناک ہوئے اورفرمایا،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو شخص خدا اوررسول کے لیے تم لوگوں سے محبت نہ کرے گا اس کے دل میں نورایمان نہ ہوگا،[16]چچا باپ کا قائم مقام ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمربن خطاب ؓ مدینہ کے محصل مقرر ہوئے،انہوں نے حسبِ قاعدہ حضرت عباس ؓ سے بھی رقم طلب کی،انہوں نےانکار کیا تو حضرت عمرؓ نے سختی سے تقاضا کیا اورآنحضرت ﷺ سے جاکر صورت واقعہ عرض کیا،آپ نے فرمایا تم عباس ؓ سے کیا چاہتے ہو، بدر کے فدیہ میں تم ان سے بہت کچھ لے چکے،عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں اورچچا باپ ہی کا قائم مقام ہے۔ [17]
خلفائے راشدینترميم
آنحضرت ﷺ کے بعدخلفائے راشدین نے بھی حضرت عباس ؓ کی عزت واحترام کا مخصوص لحاظ رکھا،حضرت عمرؓ اورحضرت عثمان ؓ اگر کبھی گھوڑے پر سوار ہوکران کی طرف سے گذرتے تو تعظیما اترپڑتے، اورفرماتے کہ "یہ رسول اللہ ﷺ کے عم محترم ہیں۔ [18]
حضرت عمرؓ اکثر ان کو اپنے مشوروں میں شریک کرتے تھے، اورقحط وخشک سالی کے موقعوں پر ان سے دعائیں کراتے تھے،قحط عام الرمادہ کے موقع پر حضرت عمرؓ نے منبر پر کھڑے ہوکر کہا خدایا! پہلے ہم رسول اللہ ﷺ کا وسیلہ پکڑ کر حاضر ہوتے تھے اوراب ہم آنحضرت ﷺ کے عم محترم کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ان کے طفیل میں ہم کو سیراب کر، ان کے بعد حضرت عباس ؓ نے منبر پر بیٹھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا تو یکایک صاف و شفاف آسمان پر ابر نمودار ہوا اورتھوڑی ہی دیر میں بارانِ رحمت سے تمام کوہِ وبیابان جل تھل ہو گئے ،حضرت حسان بن ثابت ؓ نے اس واقعہ کو اس طرح نظم کیا ہے۔ سال الامام وقد تنابع جدبنا فسقی الغمام بعزۃ العباس ؓ امام کے دعامانگنے پر بھی خشک سالی بڑھتی گئی لیکن عباس کی شرافت کے طفیل میں ابر نے سیراب کر دیا عم النبی وصنووالدہ الذی ورث النبی بذاک دون الناس وہ آنحضرت ﷺ کے چچا اورآپ کے والد کے حقیقی بھائی ہیں انہوں نے تمام لوگوں کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ کی وراثت پائی۔ احیی الا لہ بہ البلادفاصبحت محضرۃ الاجناب بعد الباس ان کے طفیل میں خدانے ملک کو زندہ کر دیا اورناامیدی کے بعد پھر تمام میدان سرسبز ہو گئے۔ چونکہ یہ بارش نہایت غیر متوقع تھی،اس لیے لوگ فرط مسرت سے ان کے ہاتھ پاؤ ں چوم چوم کر کہتے تھے"ساقیِ حرمین! مبارک ہو ساقیِ حرمین! مبارک ہو۔ [19]
وفاتترميم
حضرت عباس ؓ اٹھاسی برس کی عمر پاکر32ھ میں بماہ رجب یا رمضان ،جمعہ کے روز رہگزین عالم جادواں ہوئے،خلیفہ ثالث ؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اورحضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے قبر مین اترکر سپرد خاک کیا۔ [20]
اخلاقترميم
حضرت عباس ؓ نہایت فیاض،مہمان نواز اور رحم دل تھے، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مقام بقیع میں آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو آتے دیکھ کر فرمایا یہ عباس ؓ عم رسول ہیں، یہ قریش میں سب سے زیادہ کشادہ دستی اوراپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں۔ [21] دل نہایت نرم تھا دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتا،یہی وجہ ہے کہ ان کی دعاؤں میں خاص اثر ہوتا تھا۔
تمول وذریعہ ٔمعاشترميم
حضرت عباس ؓ ایامِ جاہلیت میں نہایت متمول تھے،چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے بیس اوقیہ سونا فدیہ لیا تھا جو دوسرے قیدیوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھا۔ [22] تجارت ذریعہ ٔمعاش تھی،ساتھ ہی وہ سودی لین دین بھی کرتے تھے،لوگوں کو سود پر قرض دیتے تھے،یہ سلسلہ فتح مکہ تک قائم رہا، حجۃ الوداع کے موقع پر محرم10ھ میں آنحضرت ﷺ نے جب اپنا مشہور آخری خطبہ دیا تو اس میں فرمایا،آج سے عرب کے تمام سودی کاروبار بند کیے گئے اور سب سے پہلا سودی کاروبار جس کو میں بند کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب ؓ کا ہے۔ [23] آنحضرت ﷺ مالِ غنیمت کے خمس اورفدک کی آمدنی سے بھی ان کی اعانت فرماتے تھے، رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد انہوں نے حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ خلیفہ اول سے فدک اورآنحضرت ﷺ کی دوسری متروکہ جائداد میں وراثت کا مطالبہ کیا لیکن"لانورث ماترکنا صدقۃ" کی حدیث سن کر خاموش ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں باغِ فدک حضرت علی ؓ اورحضرت عباس ؓ کے حوالہ کر دیا تھا، لیکن وہ دونوں باہمی اتفاق سے اس کا انتظام قائم نہ رکھ سکے اوربارگاہِ خلافت میں تقسیم کردینے کی درخواست پیش کی، حضرت عمؓر نے فرمایا کہ یہ محض گزارہ کے لیے دیا گیا ہے اس میں وراثت کا قاعدہ جاری نہیں ہوسکتا۔ [24]
حلیہترميم
حلیہ یہ تھا، قد بلند وبالا، چہرہ خوبصورت،رنگ سفید اورجلد نہایت نازک۔
ازواج واولادترميم
حضرت عباس ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں جن سے کثرت سے اولادیں ہوئیں، سب سے پہلی بیوی لبابہ بنت حارث تھیں، ان سے حسب ذیل اولادیں ہوئیں۔ فضل، عبد اللہ، عبیداللہ،عبدالرحمن،قشم،معبدام حبیبہ ام ولد سے یہ اولادیں ہوئیں۔ کثیر،تمام،صفیہ،امیمہ تیسری بیوی حجیلہ تھیں، ان کے بطن سے حارث تھے۔ [25]
حوالہ جاتترميم
- ↑ عنوان : Аббас, Абул-Фадль Эль-Гашими
- ^ ا ب عنوان : Аббас ибн Абд аль-Мутталиб
- ↑ عنوان : Абд аль-Мутталиб
- ↑ (استیعاب تذکرہ عباس بن عبدالمطلب )
- ↑ (اسدالغابہ:3/109)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 342)
- ↑ (ابن اسعد قسم اول جزو 4:15)
- ↑ (ابن سعد قسم اول جزو 4 صفحہ 7)
- ↑ (بخاری جلد 2 صفحہ 572)
- ↑ (مسند:1/353)
- ↑ (اسد الغابہ :3/110)
- ↑ (اسد الغابہ تذکرہ حجاج بن علاطہ)
- ↑ (مسند :1/207)
- ↑ (استیعاب تذکرہ عباس بن عبدالمطلب)
- ↑ (جامع ترمذی مناقب حضرت عباس ؓ ومسند :1/207)
- ↑ (جامع ترمذی وغیرہ مناقب عباس ؓ)
- ↑ (استیعاب تذکرہ عباس ؓ)
- ↑ (استیعاب تذکرہ عباس بن عبدالمطلب ؓ)
- ↑ (استیعاب تذکرہ عباس بن عبدالمطلب ؓ)
- ↑ (اسد الغابہ:3/101)
- ↑ (مسند:1/353)
- ↑ (صحیح مسلم وابوداؤد)
- ↑ (بخاری باب غزوۂ خیبر)
- ↑ (طبقات ابن سعد قسم اول جزو 4 صفحہ 2)