موسیٰ کاظم قرہ بکر
موسیٰ کاظم قرہ بکر (پیدائش: 1882ء، انتقال: 26 جنوری 1948ء، انقرہ) ایک ترکی جرنیل اور سیاست دان تھے۔ وہ جنگ عظیم اول کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کی مشرقی افواج کے کمان دار تھے اور اپنے انتقال سے قبل وہ ترک قومی مجلس (اسمبلی) ترکیہ بیوک ملت مجلسی کے اسپیکر بھی رہے۔ آپ کاظم قرہ بکر پاشا کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں جبکہ نام کی تبدیلی سے قبل کاظم زیرک کہلاتے تھے۔ ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد آپ اس گروہ کے ساتھ مل گئے تھے جو خلافت کے خاتمے کے حق میں نہیں تھا۔ اس گروہ میں مشہور ترک مصنفہ خالدہ ادیب خانم بھی شامل تھیں۔ اتاترک سے بنیادی نوعیت کے اختلافات کے باعث ہی زیر عتاب آئے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔
موسیٰ کاظم قرہ بکر | |
---|---|
عرف | کاظم زیرک |
پیدائش | 1882 کوجا مصطفیٰ پاشا, استنبول (قسطنطنیہ), سلطنت عثمانیہ |
وفات | 1948 انقرہ, ترکی |
مدفن | انقرہ ریاستی قبرستان (ترکی: انقرہ ہوا شہتلیغی) |
وفاداری | سلطنت عثمانیہ (1902-1919) ترکیہ (1919-1926) |
سالہائے فعالیت | 1902-1926 |
درجہ | برنجی فریق( کپتانِ اعلیٰ) |
آرمی عہدہ | پہلی مہم جو فوج, 14ویں ڈویژین, 18ویں کور, دوسری کور, پہلی قفقازی کور, 14ویں کور, 15ویں کور, مشرقی محاذ, پہلی فوج |
مقابلے/جنگیں | بلقان جنگیں جنگ عظیم اول جنگ آزادی |
دیگر کام | رکن ترک قومی اسمبلی (ادرنہ) رکن ترک قومی اسمبلی (استنبول) |
دستخط |
ابتدائی زندگی
ترمیمکاظم 1882ء میں استنبول کے علاقے خوجا مصطفیٰ پاشا میں پیدا ہوئے، وہ ایک عثمانی جرنیل محمد امین پاشا کے صاحبزادے تھے۔ فوج میں والد کی ذمہ داریوں کے باعث انھوں نے عثمانی سلطنت کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی۔ مکہ میں والد کی وفات کے بعد وہ 1893ء میں والدہ کے ہمراہ استنبول واپس آئے جہاں انھوں نے شہر کے علاقے زیرک میں قیام اختیار کیا۔ کاظم اگلے سال فاتح ثانوی عسکری مکتب میں داخل ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے کلیلی عسکری مکتبِ اعلیٰ میں داخلہ لیا اور 1899ء میں گریجویشن کیا۔ انھوں نے استنبول کے عسکری کالج میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جہاں سے وہ 6 دسمبر 1902ء کو امتیازی نمبروں سے کامیاب ہو کر نکلے۔
عسکری زندگی
ترمیمجنوری 1906ء میں وہ عثمانیوں کی تیسری فوج میں شامل ہوئے اور مقدونیہ کے علاقے میں خدمات انجام دیں جہاں وہ یونانی اور بلغاری باغی جنگجوؤں کا مقابلہ کرتے رہے۔ کامیاب خدمات کے عوض انھیں 1907ء میں کپتانِ اعلیٰ کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اگلے سالوں میں انھوں نے استنبول اور ادرنہ میں خدمات انجام دیں۔ 15 اپریل 1911ء کو کاظم نے اپنا خاندانی نام زیرک سے تبدیل کر کے قرہ بکر رکھ لیا۔ اس سے قبل وہ کاظم زیرک کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
جنگ بلقان
ترمیمادرنہ میں خدمات کی انجام دہی کے دوران قرہ بکر کو 27 اپریل 1912ء کو میجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ انھوں نے بلغاری افواج کے خلاف پہلی بلقان جنگ میں حصہ لیا لیکن 22 اپریل 1913ء کو ادرنہ-قلعہ کی جنگ میں گرفتار کر لیے گئے۔ وہ 21 اکتوبر 1913ء کو معاہدہ ہو جانے تک جنگی قیدی رہے۔
پہلی جنگ عظیم
ترمیمپہلی جنگ عظیم سے قبل قرہ بکر کچھ عرصہ استنبول میں گزارنے کے بعد مختلف یورپی ممالک گئے۔ وہ آسٹریا، جرمنی، فرانس اور سویٹزرلینڈ کا دورہ کرنے کے بعد جولائی 1914ء میں وطن واپس آئے جب جنگ کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے تھے۔ استنبول واپسی کے بعد قرہ بکر کو جنرل اسٹاف میں چیف آف انٹیلی جنس مقررکیا گیا۔ جلد ہی انھیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ جنوب مشرقی محاذ پر کچھ عرصہ گزارنے کے بعد انھیں در دانیال بھیج دیا گیا۔ 14 ویں ڈویژن کے کمان دار کی حیثیت سے قرہ بکر نے 1915ء کے موسم گرما میں جنگ گیلی پولی میں بہادری کے جوہر دکھائی۔ اکتوبر 1915ء میں انھیں استنبول میں پہلی فوج کا چیف اسٹاف آفیسر بنا دیا گیا۔ انھیں چھٹی فوج میں شمولیت کے لیے عراقی محاذ میں شامل کر لیا گیا۔ گیلی پولی میں عسکری سرگرمیوں کی بھرپور کامیابیوں پر انھیں دسمبر 1915ء میں عثمانی اور جرمن دونوں کمانوں کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا اور کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ اپریل 1916ء میں انھوں نے 18 ویں کور کی قیادت سنبھالی اور عراق میں کوت العمارہ کے محاصرے میں چارلس ٹاؤن شینڈ کی زیر قیادت انگریز افواج پر عظیم فتح حاصل کی۔بعد ازاں قرہ بکر کو قفقاز کے محاذ پر دوسری کور کا کمان دار مقرر کیا گیا جہاں انھوں نے تقریباً دس ماہ روسی اور ارمنی افواج کا مقابلہ کیا۔ ستمبر 1917ء میں سلطان کی منظوری سے انھیں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ جنگ عظیم اول کے خاتمے پر معاہدۂ سیورے کے تحت عثمانی سلطان محمد وحید الدین نے قرہ بکر کو اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا لیکن انھوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ وہ ارض روم کانگریس کے آغاز تک علاقے میں موجود رہے، جہاں مصطفیٰ کمال اتاترک کی آمد کے بعد انھوں نے شرکاء کی حفاظت کے لیے شہر کا دفاع کیا۔ ترکی کی آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا تو ترک قومی تحریک (قوائے ملیہ) نے انھیں مشرقی محاذ کی کمان دی۔ 15 نومبر 1920ء کو ترک افواج نے قرہ بکر کی زیر قیادت ارمنی جمہوریہ (آرمینیا) پر حملہ کیا، جس نے جارحیت کرتے ہوئے عثمانی سلطنت کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ ترکوں نے ارمنی افواج کو فیصلہ کن شکست دی اور قارص اور سری کمش کو حاصل کرنے کے علاوہ نئی ارمنی جمہوریہ کے اہم مرکز الیگزینڈروپول پربھی قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد 2 دسمبر 1920ء کو ارمنی جمہوریہ کے ساتھ معاہدہ الیگزینڈروپول طے پایا۔ بعد ازاں انقرہ میں نو تشکیل شدہ پارلیمان نے 23 اکتوبر 1921ء کو سوویت یونین کے ساتھ دوستی کے معاہدے 'معاہدہ قارص' پر بھی دستخط کے لیے قرہ بکر کو نامزد کیا۔
سیاسی زندگی
ترمیممغربی اناطولیہ میں یونانی افواج کی شکست کے بعد جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ کاظم قرہ بکر پاشا اکتوبر 1922ء میں انقرہ منتقل ہو گئے اور ادرنہ کے نائب کی حیثیت سے پارلیمان کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ بدستور مشرقی افواج کے کمان دار تھے اور 29 جون 1923ء کو استنبول کے نائب منتخب ہوئے۔ چھ ماہ بعد وہ پہلی فوج کے انسپکٹر قرار پائے۔ پارلیمان نے جنگ آزادی میں اعلیٰ ترین عسکری و سیاسی خدمات پر انھیں ترکی کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔ وہ 26 اپریل 1924ء کو عسکری خدمات سے فارغ ہوئے۔ قرہ بکر اتاترک کی اصلاحات پر مختلف نقطہ نظر رکھتے تھے خصوصاً خلافت کے خاتمے پر انھیں شدید تحفظات تھے جس کی وجہ سے دونوں رہنماؤں کے درمیان کشیدگی رہی۔ 17 نومبر 1924ء کو قرہ بکر نے سیاسی تحریک "ترقی پرور جمہوریت فرقہ سی" قائم کی اور اس کے رہنما بنے۔ بعد ازاں اتاترک نے قرہ بکر پر کرد بغاوت اور ازمیر میں خود پر قاتلانہ حملے کا الزام لگایا اور 5 جون 1925ء کو ان کی جماعت پر پابندی لگا دی گئی۔ قرہ بکر کو ان کی جماعت کے کئی رہنماؤں سمیت قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس طرح قرہ بکر اور مصطفیٰ پاشا کے درمیان تعلقات کا یکسر خاتمہ ہو گیا۔ قتل کی دھمکیوں کے نتیجے میں قرہ بکر کو سیاست سے جبراً بے دخل کر دیے گئے۔ انھوں نے خود کو ترک جنگ آزادی اور جدید ترکی میں کی جانے والی اصلاحات کے بارے میں یادداشتیں لکھنے تک محدود کر لیا۔ لیکن ترک حکومت کے احکام پر ان کی تمام تحاریر کو جمع کر کے نذر آتش کر دیا گیا۔ قرہ بکر 1938ء میں اتاترک کی وفات تک خوف کے سائے تلے زندگی گزارتے رہے۔ نئے صدر عصمت انونو پاشا، جواُن کے قریبی دوست تھے، نے ان پر عائد پابندیاں اٹھائیں۔ 1939ء میں کاظم قرہ بکر استنبول کے نائب کی حیثیت سے پارلیمان میں واپس آئے۔ حتیٰ کہ 5 اگست 1946ء میں پارلیمان کے اسپیکر منتخب ہوئے۔
انتقال
ترمیمپارلیمان کے اسپیکر کے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے ہی وہ 26 جنوری 1948ء کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انقرہ میں انتقال کر گئے۔ بوقت وفات ان کی عمر 66 سال تھی۔ انھیں انقرہ میں ترکی کے ریاستی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ کاظم قرہ بکر نے سوگواران میں ایک بیوہ اجلال اور تین صاحبزادیاں ، حیات، امل، تمثال چھوڑیں۔ استنبول میں ان کی رہائش گاہ، جہاں وہ 15 سال نظر بند رہے، کو 2005ء میں عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔آپ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں جنگ عظیم اول، ترک جمہوریہ کے قیام اور اُس کو درپیش ابتدائی مسائل، عثمانی سلطنت کے آخری ایام، افواج اور اپنی ذاتی یادداشتوں پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔