مومل جی ماڑی
’’مومل جی ماڑی‘‘ ایک افسانوی محل ، جس کے صرف کھنڈر باقی ہیں۔ مومل جی ماڑی کے قدیم آثار، گھوٹکی سے 11کلومیٹر مشرق کی طرف ماتھیلو روڈ پر واقع ہیں۔[1] سندھ کے درسی کتاب، سندھ ٹکسٹ بک بور جامشورو نے بھی شایع کیے ہیں۔ سندھ کے اسکولوں میں مضمون کے طور پر پڑہایا جاتا ہے۔
مومل جی ماڑی | |
---|---|
مومل | |
19 January 590 – 17 June 1631 | |
پیشرو | مومل |
شریک حیات | ھمير سومرو |
نسل among others... | گجر |
خاندان | گجر گھرانا |
والد | راجانند |
مومل جی ماڑی کے قدیم آثار ، گھوٹکی سے 11 کلومیٹر مشرق کی طرف ماتھیلو میں واقع ہیں۔ یہ ماڑی 15 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور پہاڑی تودوں پر واقع ہے۔ ان تودوں کے 12 ایکڑرقبے پر کچی پکی اینٹوں کے مکانات اور جھگیوں پر مشتمل دہات ہیں۔ جب کہ جنوب مغربی سمت میں بقیہ 3 ایکڑ رقبہ غیر آباد ہے۔
اس کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہاں کسی دور میں مومل کا محل واقع تھا۔ محل کو سندھی زبان میں ’’ماڑی ‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے یہ محل مومل کی ماڑی کہلاتا ہے۔
آثار قدیمہ کے مطابق مومل نام کا یہ قلعہ نما محل 590ء میں راجا رائے سہاسی ثانی کے دور حکومت میں تعمیر ہوا تھا۔
راجا رائے سہاسی کے دور میں یہ قلعے تعمیر ہوئے تھے چکنی مٹی سے مومل جی ماڑی کے علاوہ چھ دوسرے محل تعمیر ساتھ ہوئے، جن کے نام:
1. مومل جی ماڑی
2. اچھ
3. ماتھیلا
4. سیورائی
5. ماڈ
6. الور
7. سیوستان
مومل جی ماڑی کے کھنڈر اس پہاڑ ی ٹیلے پر ایک عظیم الشان قلعے کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں، جب کہ ان کھنڈر سے وقتاً فوقتاً زیورات، ظروف و دیگر اشیاء ملتی رہتی ہیں، جو وہاں دور قدیم کے کسی قلعے یا محل کی موجودگی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
"مومل ماڑی"کا میوزیم بہ تعمير کیا گیا ہے۔ جس میں ملنے والی اشیاہ اور چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ اور سياحت کرنے والوں کو دکھائی جاتی ہیں۔
مومل رانے کی کہانی
سندھ کے ماتھیلے والے حصے پر، گجر خاندان کے راجا نند حکومت کرتے تھے۔ اس کو دولت کٹھی کرنا اور شکار کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دفع کسی جانور کا شکار کر کے اس دانت ہاتھ کیا۔ اس کی مدد سے اپنا سمورا خزانا دریا کی تلے چھوپا دیا۔
- راجا نند کی نوں بیٹیاں تھیں۔ اس میں بڑی سومل سب سے عقلمند تھی اور چھوٹی مومل سب سے زیادہ خوبصورت تھی۔ راجا کو بھی بھا گئی تھی۔ اس لیے وہ جادوئی دانت اس کو سنبھال کر رکھنے کے لیے دیا۔ پر دانت کا اصلی راز نہیں بتایا۔
- ایک جادوگر کو کس طرح راجا کا چھپایا ہوا خزانے کا معلوم ہوا۔ ایک دن جیسے راجا شکاپر گئے تھے تو مومل کو بیوقوف بناکر وہ دانت لے جا کر۔ دریا سے سمورا خازانا نکال کر غاعب ہو گیا۔ راجا جب شکار سے واپس آگیا تو دانت کھوجانے کا معلوم ہوا۔ وہ مومل سے بہت غصہ ہوئے۔ پھر بڑی بیٹی سومل وعدہ کیا کہ "میں آپ کو اتنا خزانہ آپ کو اکٹھہ کر کے دونگی۔
- سومل باپ سے اجازت لی۔ کاک محل کندھ پر ایک محل جڑوایا اور اپنی بہنوں اور نوکرانوں کو لیجاکر واہاں پر رہنے لگی۔ اس نے اپنی ہوشیاری سے محل کی چاروں طرف سے جادوئی باغ تیار کرایا اور اس کے بیچ رستے پر خوفناک جادوئی جانور کھڑا دیے۔ جن کی ڈرانے والی آوازیں بڑے بڑے بہادر بھی کانپ جاتے تھے۔ اس کے سوا اور کتنی ہی گمراہ کن چیزیں اور جادوئی چیزیں بہ تیار کرا کے رکھیں تھیں۔
- جب کاک کے کناری پر وہ محل تیار ہوا تو سومل پڑائو منگوایا" کر کہا جو شہزادہ باغ سے گذر کر، مومل کے پاس سلامتی سے پھچے گا۔ وہی اس سے شادی کرے گا۔ دوسرے حالت میں اپنے مال اور سامان سے ہاتھ دھونا پڑے گا
- مومل کی خوبصورتی کی تعریف سن کر بہت سے شہزادے آگئے۔ اور آپنی دنیا دولت لٹا کر چلے گئے۔ اس وقت عمرکوٹ کا بادشاہ ہمیر سومرو تھے۔ ایک دن وہ آپنے تین وزیروں کے ساتھ شکار پر نکلے۔ رانا میندھرو سوڈھو ان سب میں سے بہادر اور عقلمند تھے اور ہمیر سومرے کے سالے بھی تھے۔ رستے پر ایک فقیر ملا۔ جس نے مومل اور ان کے کاک محل کے بارے میں متایا۔ وہی بات چاروں دوستوں کے دل میں مومل حاصل کرنے کا شوق پیدا کر دیا۔ پھر تو چاروں اپنا نصیب آزمانے کے لیے کاک محل روانا ہو گئے۔وہاں پر جاکے
باہر رکھا بھیرسے ٹنکا لگایا تو سکھائی ہوئی نوکرانی ناتر باہر آئی اور آنے کا اطلاع جاکر اندر دیا۔
- کچھ دیر بعد ناتر طعام لے کر آگے رکھ دئے۔ رانے میندھری آپنے تینوں ساتھیوں کو کھانے سے منع کیا اور ان میں سے چھوٹا سا حصہ لے کر کتا کو ڈالا۔ جو کھانے سے ہی مر گیا۔ ناتر پھر اور اٹکلیں کی، لیکن کابہ چلاکی کامیاب نہیں ہوئی۔ آخر میں کہا کہ " مومل سے ملنا ہے تو میرے ساتھ ایک ایک ہوکر چلیں۔ پھر تو ایک ایک ہوکر ناتر کے ساتھ گئے۔ پھر وہ رستے سے باگنے کی کوشش کی، آخر میں جب رانا میندھری ساتھ میں بھاگنے کی کوشش کی تو رانے لے کر بالوں سے پکڑ لیا اور گس کے سیدھا کیا۔ آگے چل کر جب ایک تلا پر پھنچے تو ناتر پھر بھی چلاقی کر کے بھاگ گئی اور رانا اکیلے رہ گئے۔ رانے پانی کو ازمانے کی اونچائی دیکھنے کے لیے سوپاری نکال کر پانی میں اچھلائی۔ وہ آواز کرتی دور جا کر گری تب رانے کو معلوم ہوا کہ تلاء صرف پاگل بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ پھر تو گھوڑے کو دوڑا کر مومل محل پنچھے گئے۔ جہاں پر ناتر پہلے ہی موجود تھی۔ وہ اس کو اس کمرے میں لیے گئی جہاں پر ایک جیسی سات بسترے ایک جیسے چادر سے تھیں۔ رانے جب بستروں کو آزمانے کے لیے اپنی لاٹھی سے اوپر سے زور دیا چھ بسترے جاکر نیچے جاکر کویں میں جا گرے رانو ساتویں بسترے پر بیٹھے۔ جو بالکل صحیح سلامت تھے، جب وہ چلاقی کامیاب نہیں ہوئی تو ناتر ایک دوسرے کمرے میں لیے کے گئی۔ جہاں پر ایک جیسی خوبصورت شقلوں سے کتنی ہی عورتیں موجود تھیں۔ اور ہاتھوں میں پھولوں کے ہار تھے، ناتر رانے سے کہا ان عورتوں میں مومل بھی کھڑی ہے۔ پر تم جس ہاتھ سے پکڑو گے اس سے آپ کی شادی
کرائی جائے گی۔
- رانا پہلے تو خاموش ہو گئے، پھر بعد میں ایک عورت کے بالوں کے بھانور پاکر دیکھا، رانا سمجھ گئے کہ خوشبودار بالوں والی ہی مومل ہو سکتی ہے۔ اس نے آگے بڑھ کر جاکے ہاتھ سے پکڑا تو مومل اسے پھولوں کا ہار پہنا دیا۔
پھر تو خوشیاں ہی خشیاں ہوگئ اور دونوں کی شادی ہو گئی۔
- رانے کے تینوں دوست غصا ہو کے اپنی جگہوں پر واپس چلے گئے۔ کچھ دنوں بعد ہمیر سومرو کسی بہانے سے رانی کو اپنے پاس بلوا لیا جیسے وہ مومل سے مل نہ سکے، پر رانے سے رہا نہیں گیا۔ وہ ہر رات کو تیز اوٹ پر چڑھ کے کاک محل چلے جاتے تھے۔ اور مومل سے مل کے جلدی واپس اجاتے تھے۔
- ایک دفع رانے کو مومل سے ملے ہوئے بہت دن ہو گئے، ان کی جدائی میں مومل اداس رہنے لگی اور اپنی پڑی بہن سومل کو رانے کے لباس میں پہناکر، اپنے ساتھ سولا دیتی تھی۔ ایک رات رانو جیسے محل پر پھچے تو اندھیرے میں میں سومل کو مرد سمجھ کے، غصے میں بھر گئے اور اپنی لاٹھی نشانی طور مومل کے پاسے سے رکھ کے عمرکوٹ چلے گئے۔
- صبح کو جب مومل نید سے اٹھی، تو سمجھ گئی کہ رانا ناراض ہوکے واپس چلے گئے ہیں۔ پھر تو اسے کتنے ہی پیغام بجوائے، پھر بھی نہیں آئے، مومل رانے کی اس بات بہت معیوس ہوئی اور جینے سے بھی بیزار ہو گئی تھی۔ اس لیے آگ کا ایک مچ تیار کرا کر، اپ اس میں گود گئیں۔ رانے کو جب پتہ چلا تو وہ بھی دوڑتے ہوئے وہاں پر پھنچے۔ تب تک بہت دیر ہو گئی تھی۔ اس لیے اپنے آپ بھی اس آگ میں چلدئے اور مومل سے مل کے مٹی ہو گئے۔
محبت کی لازوال داستان’مومل رانو‘ کا فلمی ورژن
- برصغیر میں محبت کی لازوال داستانوں میں سے ایک ’مومل رانو‘ پر بنی پاکستانی فلم کو پہلے ’پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ (پی آئی ایف ایف) میں نمائش کے لیے پیش کیا گا۔
- خیال رہے کہ ’مومل رانو‘ فلم کو پاکستان اور ہندوستان کے فلم و ڈراما ہاؤسز کے ایک مشترکہ منصوبے کے بینر تلے بنایا گیا تھا۔
- اس فلم کو ابتدائی طور پر بھارت کے ٹی وی چینل ’زی ٹی وی‘ کے لیے بنایا گیا تھا، تاہم دونوں ممالک میں تلخیاں بڑھنے کے باعث اس معاہدے پر عمل درآمد منسوخ کر دیا گیا۔
- ’مومل رانو‘ کی شوٹنگ مکمل کرلی گئی تھی، جس کے بعد اگرچہ اسے نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا، تاہم اسے متعدد عالمی فلم فیسٹیول میں پیش کیا جاچکا ہے۔
- اب اسی فلم کو کراچی میں شروع ہونے والے پہلے پاکستان فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش کیا گا۔
- ’مومل رانو‘ میں مرکزی کردار اداکار احسن خان اور صبا قمر نے ادا کیے ہیں، جب کہ فلم کی دیگر کاسٹ میں حسین قادری، سندھی ڈراموں کے ایکشن اداکار اسد قریشی، سلمان سعید اور زینب جمیل سمیت دیگر اداکار شامل ہیں۔
- ظفر معراج کے لکھے گئے اسکرپٹ کی ہدایات سراج الحق نے دی ہیں۔
- فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اگرچہ اس کیکہانی سندھ کے لازوال رومانوی کرداروں ’مومل اور رانو‘ کے گرد گھومتی ہے، تاہم اس میں برصغیر کے دیگر رومانوی قصوں اور کہانیوں کو بھی چھیڑا گیا ہے۔
- فلم کو زمانہ قدیم کی بجائے جدید دور کے حساب سے بنایا گیا ہے، جب کہ اس میں اردو سمیت سندھی زبان کے گانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
- خیال رہے کہ شروعاتی طور پر اس فلم کا نام ’محبت کی آخری کہانی‘ رکھا گیا تھا، تاہم اب اس کا نام تبدیل کرکے ’مومل رانو‘ کر دیا گیا ہے۔
- فلم کا پہلا ٹریلر 8 فروری کو ریلیز کیا گیا تھا، جس میں احسن خان اور صبا قمر کو لازوال محبت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
- صبا قمر اور احسن خان کی لازوال محبت بھی دیگر رومانوی کہانیوں کی طرح سماج کی رسم و رواج کے باعث مشکلات شکار ہوجاتی ہے۔
- واضح رہے کہ ’مومل رانو‘ کی لازوال رومانوی داستان کو سب سے پہلے سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے پیش کیا۔
- اس داستان پر شاہ عبدالطیف کی شاعری نے اسے ہمیشہ ہمشیہ کے لیے امر کر دیا، جس کے بعد آج تک اسی داستان پر بے شمار سندھی ڈرامے، گانے، افسانے اور کہانیاں لکھی جاچکی ہیں۔
میوزیم میں موجود چیزیں
’’ایکسپلوریشنز ان سندھ‘‘ میں اروڑ کے قدیم آثار کا دورہ کرنے کے بعدلکھاہے۔ ’’جنوبی سڑک کے ساتھ ساتھ گائوں کے عین شمال مشرق میں چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کا مجموعہ ہے جنہیں مقامی طور پر ’’گڑھی گور‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ بلندی 8فٹ ہے۔ ان میں سے ایک میں کھدائی کے دوران زمین کی پرت سے ساتویں یا آٹھویں صدی عیسوی کی کئی منقش اینٹیں ملی ہیں،جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ،کہ اروڑ کا یہ حصہ ماقبل عرب ہندو آبادی کاشہر تھا۔ روہڑی سے تقریباً ساڑھے تین میل جنوب میں ایک گائوں ہاکڑاہے ، اس کے اور کے درمیان اب ناران ہر بہتی ہے۔ 1855ء میں کیپٹن کربی نے اس نہر کی کھدائی کے سلسلے میں لکھاتھا کہ ’’اس عظیم نارا نہر کو کھودتے ہوئے ہمیں کبھی کبھار اینٹوں کے ٹوٹے پھوٹے ڈھیر ملے ، بالآخر زمین سے تقریباً دس فٹ نیچے ، گہرائی میں بے شمار مکانات کی بنیادیں ملیں۔ ان آثار میں ہمیں چکنی مٹی کی بنی ہوئی کئی چیزیں ملیں، جیسے پانی کے پیالے، ایک کوزہ، کچھ پرنالے اور بچوں کے بہت سے کھلونے۔ زمین کی سطح سے دس فٹ نیچے اس مدفون شہر کے متعلق ہمارا تجسس ہمیں ہاکڑا لے گیا، جہاں ایک بزرگ آدمی نے اس شہر کی موجودگی کی تصدیق کی اور وہ ہمیں نارا ہیڈ سے دو میل کے فاصلے پر لے گیا ،جہاں کھنڈر تلے دبے ہوئے قدیم دور کے ایک بازارکے آثار نظر آئے ، لیکن اب ان دبی ہوئی عمارتوں کا کوئی نشان نہیں ہے۔ شایدمزید کھدائی کے نتیجے میں قدیم دور کی کسی بستی کے کھنڈر ضرور ملیں گے‘‘۔ انھوں نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں مومل جی ماڑی کے قدیم آثار کی تصدیق کی ہے۔
- مومل جی ماڑی ، کا ذکر لوک کہانیوں میں بھی موجود ہے ۔ مومل رانو کی داستان کے مطابق
عمرکوٹ کا فرماں روا ، راجا ہمیر سومرو، اپنے خاص مصاحب، رانو مہندراسنگھ، سوڈھو، سین ہارو دھرم چنی اور ڈانروبھتیانی کے ہم راہ امر کوٹ کے دورافتادہ جنگلات میں ]]شکار]] کھیلا کرتا تھا اورجانوروں کا پیچھا کرتے ہوئے اکثر یہ لوگ اپنی سلطنت کی حدود سے آگے بھی نکل جایا کرتے تھے۔ ایک دن جب یہ لوگ شکار کھیلنے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک شخص ان کے سامنے آگیا، جو انتہائی پریشان حال لگ رہا تھا۔ ان لوگوں نے مذکورہ شخص کو کھانا اور پانی دینے کے بعد اپنے ساتھ شامل کر لیا لیکن اسے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
- شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ’’ شاہ جو رسالو ‘‘ میں اس کا تذکرہ شاعرانہ انداز میں کیا ہے جس کی وجہ سے مومل رانو کی کہانی سندھ کے بچے بچے کی زبان پر عام ہے۔ قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق کاک محل لودھروا کے قریب گھوٹکی کے گاؤں میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع تھا،
- مومل رانو کے مرنے کے بعد اس کا نام’’ مومل رانو کی ماڑی ‘‘ پڑ گیا جو آج مومل کی ماڑی کے نام سے معر وف ہے۔ سکھر کی سیر اور قدیم آثار سے دل چسپی رکھنے والے شائقین گھوٹکی سے گیارہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے ماتھیلو ’’مومل کا محل یا ماڑی ‘‘ دیکھنے ضرور جاتے ہیں جس کے صرف کھنڈر باقی رہ گئے باقی آثار صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔
- ↑ "مومل جی ماڑی ایک افسانوی محل ، جس کے صرف کھنڈرات باقی ہیں"۔ jang.com.pk۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2020