1920ء کی بالی ووڈ فلموں کی فہرست
1920ء میں بھارتی فلمی صنعت
ترمیمخبریں اور نکات
ترمیم- اس سال فلموں کے متعلق ہندوستان کا پہلا فلمی رسالہ ہفت روزہ بجولی بنگالی زبان میں شایع ہونا شروع ہوا۔ اس رسالے کی ادارت میں نلنی کانت سرکار، برندرکمار گھوش، سچندراناتھ سین گپتا، آرون سنہا اور مصنف و فلم ساز دنیش رنجن داس شامل تھے۔ اس کے بعد فلمی رسالوں کی قطار لگ گئی۔ 1924ء میں جے کے دیویدی کا گجراتی رسالہ موج مجا، 1926ء میں کلکتہ کا فوٹو پلے ۔ 1927ء میں مدراس اور بمبئی سے مووی مرر، 1929 میں گجراتی رسالہ چتر پٹ اور بنگالی رسالہ بائیکوپ، 1931 میں ویکلی بتائیں اور چتر لیکھا، 1934 میں ہندی رسالہ چتر پٹ اور روپ لیکھا۔ 1935 میں معروف رسالہ فلم انڈیا اور تمل رسالہ سنیما الاگم۔ 1938 میں د ی انڈین اسکرین گزیٹ اور 1951 میں بنگالی رسالہ روپ انجلی اور پھر 1952 میں معروف رسالہ فلم فئیر نے اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔
- فلم سینسر بورڈ نے بمبئی، کلکتہ اور مدراس میں اپنے مراکز قائم کیے۔
- اردشیر ایرانی نے اپنے اسٹوڈیو اسٹار فلم کمپنیکی بنیاد رکھی۔
- اس سال سچیت سنگھ کی فلم شکنتلا ریلیز ہوئی۔ یہ پہلی ایسی ہندوستانی فلم تھی جس میں پہلی بار ایک بین الاقوامی اداکارہ، امریکی اداکارہ ڈوروتھی کنگڈم نے کام کیا۔
- اس سال دادا صاحب پھالکے کی فلم نالا دمینتی ریلیز ہوئی۔ یہ بھی پہلی ایسی ہندوستانی فلم تھی جو بھارت اور اٹلی کی شراکت سے بنی تھی۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس فلم سے ہندوستانی سنیما کی پہلی سپر اسٹار اداکارہ پیشینس کوپر نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔
- اس سال منی لال جوشی نے بطور استاد پیشہ کو خیر باد کہا اور کوہِ نور اسٹوڈیو میں ملازم ہو گئے، جہاں وہ سنیماٹوگرافر وشنو جی جوشی سے فلم ہدایت کی ٹریننگ لینے لگے۔
- ہندوستان بھر میں(شمالی و جنوبی بھارت ریاستوں سمیت، کیرالہ کی استثنی کے ساتھ ) بنائی خاموش فلموں کی اکثریت ماضی کی دیومالائی کہانیوں پر مشتمل ہیں ان کہانیاں میں اکثر مہابھارت سے لی گئی ہیں۔[6][7]
- اس سال ہندوستانی سنیما کی پہلی سماجی فلم ’’کٹورا بھرا خون‘‘ ریلیز ہوئی۔
بھارتی فلمی صنعت میں پیدائش
ترمیمجنوری تا اپریل
ترمیم- بی وٹھل چاریہ (جناپڈا برہما): پیدائش 18 جنوری 1920ء، تیلگو اور کنڑا فلموں کے ہدایت کار، فلمساز و لکھاری، فلم جگن موہنی، منگکما سیپتہم، گندھاروا کنیا، لکشمی کٹکشام، گروونو منچنا سس، چکارو ڈوراکڈو، علی بابا 40 ڈونگالو، جوالا دویت رہسیم، ویر پرتاب، موساگلکو موساگڈو، نامی فلمیں بنائیں۔[8]
- بھوپیندر کپور : پیدائش 31 جنوری 1920ء، بھارتی اداکار، فلم بوٹ پالش، جاگتے رہو، آہ سے شہرت پائی، اس کے علاوہ ہمراہی، سمپتی، منظور، فیانسی، ستی مدلسا، مد بھرے نین، اب دلی دور نہیں میں اداکاری کی۔[9]
- پران (کیول کشن سکند): پیدائش 12 فروری 1920ء، بالی ووڈ کے معروف اداکار، 1940 تا 1947 کی فلموں میں بطور ہیرو، بعد کی فلموں میں بطور ویلن اپنا سکہ جمایا۔ بعض فلموں میں بطور معاون اداکار بھی آئے۔ خاندان، کندن، آزاد، دیوداس، اُپکار، آنسو بن گئے پھول، جس دیش میں گنگا بہتا ہے، جب پیار کسی سے ہوتا ہے، راجکمار، کشمیر کی کلی، میرے محبوب، بے ایمان، دل دیا درد لیا، شہید، ملن، رام و شیام، دیس پردیس، گوپی، جونی میرا نام، پورب اور پچہم، ڈون، زنجیر، شرابی، سوتن، نوکر بیوی کا، دھرم ویر، اندھا قانون، ناستک، نصیب، امر اکبر انتھونی، کالیہ، قرض، دوستانہ، وکٹوریہ 203، وشواناتھ، بوبی، سوہنی ماہیوال، پاپ کی دنیا، شہنشاہ، صنم بے وفا، 1942 لو اسٹوری سمیت 300 سے زائد فلموں میں کام کیا۔[10]
- آئی ایس جوہر ( اندر سین جوہر): پیدائش 16 فروری 1920ء، ہندی فلموں کے معروف مزاحیہ اداکار، ہدایتکار، فلمساز و لکھاری، جنھوں نے ہالی وڈ کی مقبول فلم لارنس آف عربیہ میں بھی اداکاری کی۔ ان کی مقبول ہند ی فلموں میں جوہر محمود ان گوا، جوہر ان کشمیر، جوہر محمود ان ہانگ کانگ، ایک تھی لڑکی، شریمتی جی، ڈھولک، ہم سب چور ہیں، بے وقوف، مسٹر انڈیا، دل نے پھر یاد کیا، میرا نام جوکر، روپ تیرا مستانہ، تین چور اور پریم چندجاسوس شامل ہیں۔[11]
- وی جی جوگ (وشنو گووند جوگ): پیدائش 21 فروری 1920ء، ہندی اور مراٹھی فلموں کے اداکار اور وائلن نواز، ہندی کی دو فلموں برہمچاری، برانڈی کی بوتل اور اس کے مراٹھی چربہ برہمچاری اور برانڈیچی باٹلی میں اداکاری کی بعد میں موسیقی کی طف رغبت ہوئی اور استاد علاؤ الدین خان سے تربیت لی اور ہندوستان کے معروف وائلن نواز بن کر شہرت پائی۔۔[12]
- افتخار (سیدنا افتخار احمد شریف): پیدائش 22 فروری 1920ء، ہندی فلموں کے معروف معاون اداکار جنھوں 50نے زیادہ تر فلموں میں پولیس انسپکٹر، کمشنر اور پروفیسر کے کردار ادا کیے۔ پانچ دہائیوں تک تین سو سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی۔ جن میں شعلے، ڈون، دیوار، زنجیر، شری 420، دلی کا ٹھگ، سنگم، شہید، تیسری منزل، اتفاق، دی ٹرین، جونی میرا نام، نے نام، اچانک، فقیرا، کبھی کبھی، وشواناتھ، ترشول، دی گریٹ گیمبلر، چھوٹا کہیں کا، نوری، مسٹر نٹور لال، کالا پتھر، برننگ ٹرین، قرض، کرودھی، مہان، مزدور، موالی، انقلاب، مشعل، انسانیت کے دشمن، پاپ کو جلا کر راکھ کردوں گا، گلیوں کا بادشاہ، نامی فلمیں شامل ہیں۔[13]
- کمل کپور : پیدائش 22 فروری 1920ء، ہندی فلموں کے معروف معاون اداکار جنھوں نے زیادہ تر فلموں میں ویلن کے کردار ادا کیے اور 600 سے زیادہ ہندی، پنجابی اور گجراتی فلموں میں اداکاری کی۔ جن میں ڈون، آگ، امر اکبر انتھونی، پاکیزہ، شہید، راجا اور رنک، پیاسی شام، سچا جھوٹا، سیتا اور گیتا، دیوار، بنڈل باز، جے وجے، نمک حلال، ناستک، جاگیر، مرد، پالے خان، اللہ رکھا، طوفان، دودھ کا قرض اور زخمی روح نامی فلمیں شامل ہیں۔[14]
- روی شنکر : پیدائش 4 اپریل 1920ء، مشہور بھارتی ستار نواز اور موسیقار جنھوں نے گاندھی، نیچا نگر، دھرتی کے لال، پتھر پنچلی، کابلی والا، پارس پتھر، انورادھا، میگھ، نامی فلموں کے علاوہ کئی ڈوکیومنٹریز اور البم میں موسیقی دی۔[15]
- جیوتیکا روئے : پیدائش 20 اپریل 1920ء، بنگالی اور ہندی فلموں کے گلوکارہ، 12 سال کی عمر میں پہلی البم ریلیز ہوئی۔ ہندی فلم للکار اور بنگالی فلم رانا پرتاب اور دھولی میں پس پردہ گلوکاری کی۔۔[16]
مئی تا اگست
ترمیم- اچلا سچدیو : پیدائش 3 مئی 1920ء، بالی ووڈ کی معروف اداکارہ جنھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ شروع کیا او ر بعد کی فلموں میں ماں اور دادی ماں کے کرداروں سے شہرت پائی، مقبول فلموں میں میرا نام جوکر، وقت، میرے ہمدم میرے دوست، نذرانہ، کورا کاغذ، انامیکا، جولی، فقیرا، لیلیٰ مجنوں، چاندنی، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، کل ہو نہ ہو اور کبھی خوشی کبھی غم جیسی فلموں میں اہم کردار اداکیے۔[17]
- پربھاکر منجی راؤ نائیک : پیدائش 1 جون 1920ء، مراٹھی فلموں ہدایت کار، پنرجنم، ہے نار روپ سندری، دام کرے کام، نامی مراٹھی فلمیں بنائیں۔[18]
- بھارت بھوشن : پیدائش 14 جون 1920ء، بھارتی اداکار، سکرپٹ رائٹر اور پروڈیوسر، فلم بیجو باورا میں بیجو کے کردار سے شہرت پائی، اس کے علاوہ بھگت کبیر، چکوری، مززا غالب، کوی، رانی روپ متی، سمراٹ چندر گپت، جہاں آرا، نیا قانون، تقدیر، وشواس، خون پسینہ، کھیل کھلاڑی کا، وشواناتھ، کرودھی، یارانہ، امراؤ جان، ناستک، جسٹس چوہدری سمیت دو سو سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔[19]
- ہیمنت مکھرجی (ہیمنت کمارمکھوپادھیائے ): پیدائش 16 جون 1920ء، بنگالی اور ہندی فلموں کے معروف موسیقار و گلوکار، جنھوں نے یادگار ہندی فلموں ناگن، انارکلی، بیس سال بعد، کہرا، فرار، سولہواں سال، راہگیر، خاموشی، انوپما، آنند ماتھ، ڈاکو کی لڑکی، بندش، جاگرتی، انجان، ایک ہی راستہ، ہمارا وطن اور صاحب بی بی اور غلام میں موسیقی دی اور گیت گائے۔ ان کے گائے مقبول گیتوں میں بے قرار کرکے ہمیں یوں نہ جائیے، ہے اپنا دل تو آوارہ، جانے وہ کیسے لوگ تھے، تیرے دوار کھڑا اک جوگی، یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں، نہ تم ہمیں جانو، نہ ہم تمھیں جانیں، تری دنیا میں جینے سے تو بہتر ہے، یہ نین ڈرے ڈرے سے اور بطور موسیقار من ڈولے میرا تن ڈولے، کہیں دیپ جلے کہیں دل، ذرانظروں سے کہہ دو جی، شامل ہیں۔[20]
- ڈی وی نارسہ راجو (داتلا وینکٹ نارسہ راجو): پیدائش 15 جولائی 1920ء، تیلگو فلموں کے کہانی نویس، لکھاری اور ہدایت کار۔ جن کی فلموں کو ہندی میں بھی ری میک کیا گیا، ان کی مقبول تیلگو فلم ہیں راموڈو بھیموڈو (ہندی ری میک: رام اور شام )، ڈونگا راموڈو (ہندی ری میک: من موجی )، یماگولا، گندما کتھا، رنگولا رتنام، یوگیندھر (ماخوذ از ہندی فلم ڈون) اور ادارو اممائیلو (ہندی ری میک سیتا اور گیتا)جیسی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے۔[21]
- بھانو بینرجی : پیدائش 26 اگست 1920ء، بنگالی فلموں اداکاراور فلمساز، فلم 80 تو ایسیو نا، لہو کپٹ، دیوداس، پرسنل اسسٹنٹ، شور غل، راج بابو، دیدی، پراجئے، جگ جوگ سمیت 170 فلموں میں اداکاری کی۔[22]
ستمبر تا دسمبر
ترمیم- آسوتوش مکھرجی : پیدائش 7 ستمبر 1920ء، ہندی اور بنگالی فلموں کے لکھاری و کہانی نویس، کورا کاغذ، بے مثال، سفر اور خاموشی جیسی ہندی فلموں اور جبان ترشنا، دیپ جلے جا، کل تمی الیہ، سنکھا بیلا، نبرنگ، الور ٹھکانہ، نگر درپنے، امی سے او سکھا، امر کنٹک نامی بنگالی فلموں کی کہانیاں لکھیں۔[23]
- بی ایم ویاس : پیدائش 22 اکتوبر 1920ء، ہندی فلموں کے اداکار، جنھوں نے فلم دو آنکھیں بارہ ہاتھ، آوارہ اور بیجو باورا میں یادگار کردار نبھایا، اس کے علاوہ نیچا نگر، برسات، تم سا نہیں دیکھا، رانی روپ متی، ہم پنچھی اک ڈال کے، بھت پرہلاد، یہ رات پھر ہ آئے گی، تھیف آف بغداد، دھرم ویر، بغاوت، ماں، اوڈارلنگ ہی ہے انڈیا میں اداکاری کی۔[24]
- ستارا دیوی : پیدائش 8 نومبر 1920ء، بالی ووڈ کی اداکارہ، مغل اعظم کے ہدایت کارکے آصف کی زوجہ، مدر انڈیا، آبرو، دیوداس، سوسائٹی، وطن، پوجا، اچھوت، آج کا ہندوستان، پھول، بڑی ماں پیسا یا پیار نامی فلموں میں اہم کردار اداکیے۔[25]
بھارتی فلمی صنعت میں وفات
ترمیم- سچیت سنگھ :وفات 1920ء، ہندی فلموں کے ہدایت کار و لکھاری۔ جنہیں خاموش فلموں کے دور میں دادا صاحب پھالکے اور شری ناتھ پٹناکر کا ہم پلہ ہدایت کار مانا جاتا ہے، 1919ء میں اورئینٹل فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، مرچاکارتھک، راما اور مایا، ڈاکٹر پاگل، نرسنگھ مہتہ اور شکنتلا جیسی فلم بنائی جو سال 1920ء میں ریلیز ہوئیں اور 1920ء کو ہی ایک کار ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے۔[7][26]
- استاد عماد خان :وفات 1920ء، ہندوستان کے معروف موسیقار، ستار نواز اور سر بہار نواز۔ استاد عنایت خان کے والد۔ استاد ولایت حسین خان کے دادا۔
- استاد علی بخش جرنیل :وفات 1920ء، ہندوستان کے معروف کلاسیکل گلوکار، فتح علی خان کے ساتھی، استاد اختر حسین خان کے والد، استاد امانت علی خان کے دادا، اورشفقت امانت علی کے پر دادا۔
مقبول فلمیں
ترمیمسیرندھری
ترمیم- مہاراشٹرا فلم کمپنی کے زیر انتظام ہدایتکار، لکھاری و سنیماٹوگرافر بابو راؤ پینٹر کی پہلی فلم سیرندھری ریلیز ہوئی۔ یہ اس سال کی سب سے کامیاب فلم تھی۔ ایس فتح لال اس فلم کے معاون سنیماٹوگرافر تھے۔ فلم کے اداکاروں میں بالا صاحب یادو(بھیم)، زنزاراؤ پوار(کیچک)، کملا دیوی(سیرندھری)، کشا باپو باکرے(راجا ویراٹ)، بابو راؤ پندھاکر(شری کرشنا)، روی مہاسکر، گنپت باکرے، سشیلا دیوی، سیتا رام پنت کلکرنی، شیو رام وشیکر اور وی جی داملے شامل تھے۔ تقریباً 5 ہزار فیٹ ریل پر مشتمل اس فلم کی کہانی مہابھارت کی ایک داستان پر مبنی ہے۔ مہابھارت کے عہد میں ایک راجا ویراٹ تھا جس کی سلطنت بیراتنگر (موجودہ نیپال) میں تھی اور اس کی ایک بڑی فوج تھی۔ اگیات واس (مہابھارت میں پانڈووں کے دنیا سے کٹ کر چھپے رہنے کا دور ) کے دورا ن جب پانڈو اپنے پہلے سال راجا ویراٹ کے یہاں گزار رہے تھے۔ وہاں دروپدی سیرندھری نام کی ایک داسی کے روپ میں بادشاہ ویراٹ کی بیوی سدیشنا کی خدمت میں کام کر رہی تھی۔ راجا ویراٹ کا سالا کیچک، سیرندھری یعنی دروپدی پر بُری نظر رکھتا تھا اور سیررندھری کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ ایک دن راجا ویراٹ کے محل میں کیچک نے موقع پاکر دروپدی کے ساتھ بردستی کرنے کی کوشش کی تو بھیم (پانڈوؤں میں پانچ بھائیوں میں سے ایک) نے کیچک کا قتل کرکے دروپدی کی عزت بچائی۔ اس فلم کو دوبارہ 1933ء میں وی شانتا رام نے بنایا تھا۔
کٹورا بھر خون
ترمیم- 1920ء میں ہدایت کار شری ناتھ پٹناکر کی فلم کٹورا بھر خون سینما گھروں کی زینت بنی۔ خاموش فلموں کی اکثریت دیومالائی کہانیوں پر مشتمل ہوتی تھیں لیکن یہ ہندوستانی سنیما کی پہلی سماجی فلم تھی۔ اس فلم کے اداکاروں میں ٹرمبک راؤ پردھان، تارا کورے گاؤنکر، بابا ویاس اور کے جی گوکھلے شامل تھے۔ اس فلم کے فلمساز شری ناتھ پٹناکر اور دوارکاداس سمپت تھے اور فلم کی کہانی موہن لال جی ڈیو نے لکھی۔[27]
نرسنگھ مہتا
ترمیم- 1920ء کی تیسری مقبول فلم نرسنگھ مہتا تھی، جو پندرہویں صدی عیسوی کے مشہور گجراتی شاعر، سنت اور کرشن بھگت نرسنگھ مہتا کی زندگی پر مبنی تھی۔ اس کو اورئینٹ فلم مینو فیکچرنگ کمپنی فلم اسٹوڈیو کے ہدایت کار سچیت سنگھ نے بنایا۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس فلم میں سنت نرسنگھ مہتا کا کردار کانجنی بھائی راٹھور نے کیا تھا جو ایک دلِت (نچلی ذات) نسل سے تعلق رکھتے تھے۔[27]
ستی پاروتی
ترمیم- 1920ء کی فلم ستی پاروتی جس کا ایک نام دکشایگنا بھی تھا۔ ایک دیومالائی افسانوی فلم تھی۔ اس فلم کے ہدایتکار وشنو پنت دیویکر تھے اور کوہ نور فلم کمپنی بینر کی پہلی فلم تھی۔۔ فلم ایک گجراتی پس منظر میں بنائی گئی تھی اور راج کوٹ سے تعلق رکھنے والی سوراشرتان اداکارہ پربھا نے فلم کے مرکزی کردار پاروتی کا کردار ادا کیا۔[28]
شکنتلا
ترمیم- 1920ء کی ایک اور مقبول فلم شکنتلا تھی، جس کے ہدایت کار سچیت سنگھ تھے اور۔ سنیماٹوگرافر بیرن فان رائے ون اور رائے واؤگن تھے۔ یہ پہلی ایسی ہندوستانی فلم تھی جس میں پہلی بار ایک بین الاقوامی اداکارہ، امریکی اداکارہ ڈوروتھی کنگڈم نے کام کیا۔ ڈورتھی کنگڈم کے علاوہ اس فلم میں گوہر جان، سیمسن، مسز ستریا، کانجی بھائی راٹھور، دادی بھائی سرکاری، خورشید جی انجینئر، سائنورینا البرٹینی، آئزک سائمن، ریوا شنکر شامل تھے۔ فلم کے اداکاروں اور عملے میں کئی افراد غیر ہندوستانی تھے، اس بات کو کئی اخبارات خاص طور پر 24 جنوری 1920ء کی بمبے کرانیکل کی اشاعت میں تنقید کا نشانہ بنایا اور شری ناتھ پٹناکر نے ہندوستانی عملہ اور اداکاروں کے سات اس فلم کے مدمقابل اپنی فلم ریلیز کرنے کا اعلان کیا۔ دونوں فلمیں ایک ہی سال میں ریلیز ہوئیں مگر سچیت سنگھ کی فلم زیادہ کامیاب رہی۔ فلم کی کہانی سنسکرت کلاسیکی ادب میں عظیم شاعر اور ڈراما نویس کالی داس کے ایک طویل منظوم ڈرامے پر مشتمل ہے۔ شکنتلا ، وشوا متر اور اپسرا مینکا کی بیٹی تھی، مگر کسی وجہ سے اسے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے، وہاں سے ایک رشی(سادھو) کنو اس کی پرورش کرتا ہے۔ جب شکنتلا جوان ہوئی تو ایک روز راجا دشینت شکار کھیلنے اسی جنگل میں آتا ہے۔ جہاں شکنتلا کے حسن کو دیکھ کر شکنتلا سے گندھرو بیاہ کی کرلیتاہے، جو دونوں کے راضی ہونے پر بغیر برہمنی رسموں کے فوراً کیا جا سکتا ہے۔ شکنتلا نے اس شرط پر یہ درخواست منظور کرلی کہ اسی کی اولاد تخت و تاج کی وارث ہوگی۔ دشینت وعدہ کرتا ہے اور رخصت ہونے سے پہلے یقین دلاتا ہے کہ وہ بہت جلد شکنتلا کو محل میں بلوا لے گا۔ راجا دشینت ایک انگوٹھی یادگار کے طور پر شکنتلا کو دیتا ہے۔ ایک دن ایک سادھو کنو سے ملنے آئے جو گھر پر نہیں تھا۔ دن رات دشینت کی یاد میں کھوئی شکنتلا نے سادھو کا خیال نہ رکھا۔ اس بے ادبی پر سادھو نے بد دعا دی کہ اے لڑکی، جس شخص کے خیال میں تو اس قدر کھوئی ہوئی ہے، وہ تجھے بھول جائے، ادھر راجا دشنت کے ذہن سے شکنتلا کا خیال نکل جاتا ہے۔ جب بہت دن گزرنے پر کوئی شکنتلا کو لینے نہ آیا اور تھوڑے دنوں میں شکنتلا کو معلوم ہوا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ تو شکنتلا نے خود راجا کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن راستے میں ایک تالاب میں شکنتلا کی انگوٹھی گر گئی، شکنتلا جب دربار میں پہنچی تو راجا اسے پہچان نہ سکا۔ شکنتلا انتہائی دُکھ اور بے سرو سامانی کی حالت میں دربار سے نکل آئی۔ کچھ مدت کے بعد بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بھرت رکھا گیا۔ اتفاق سے شکنتلا کی انگوٹھی ایک ماہی گیر کو مچھلی کے پیٹ سے ملی۔ وہ اسے بیچنے بازارگیا تو راجا کی انگوٹھی چرانے کے الزام میں پکڑا گیا، معاملہ دربار پہنچا۔ راجا نے انگوٹھی دیکھی تو اسے اپنا قول و قرار اور بیاہ یاد آیا اور شکنتلا کی تلاش شروع ہوئی، مگر وہ نہ ملی، آخر کار کافی عرصہ بعد ایک جنگل میں انھیں ڈھونڈلیا محل میں لے آیا اور تینوں کی باقی زندگی راحت سے گذری۔ یہی بھرت دشینت کے بعد اس کا جانشین ہوا اور اسی بھرت کی رعایت سے ہندوستان کا نام بھارت مشہور ہوا۔[29][30]
نل دمینتی
ترمیم- 1920ء میں ہی داداصاحب پھالکے کی فلم نل دمینتی ریلیز ہوئی۔ یہ بھی پہلی ایسی ہندوستانی فلم تھی جو بھارت اور اٹلی کی شراکت سے بنی تھی۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس فلم سے ہندوستانی سنیما کی پہلی سپر اسٹار اداکارہ پیشینس کوپر نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ پیشینس کوپر کے علاوہ فلم کے اداکاروں میں کیکی اداجانیا، دادی بھائی سرکاری، سگنورینا مینیلی، ماسٹر موہن، خورشید جی بلی موریا اور منچسرا چاپگر شامل تھے۔ اس فلم کے معاون ہدایت کار اور سنیماٹوگرافر اٹلی کے یوگینو ڈی لیگورو تھے، یہ فلم مدن تھیٹر کی تیار کردہ تھی۔ فلم کی کہانی مہابھارت کی کردار نشدھ دیش کے راجا نل اور دور بھ دیس کے راجا بھیم کی بیٹی راجکماری دمینتی کی کہانی پر مبنی ہے جو کیکی اداجانیا اور پیشنس کوپر نے اداکیے۔ راجکماری دمینتی کی خوبصورتی پر راجا نل فریفتہ ہوجاتا ہے اور ایک ہنس کے ذریعے راجکماری کو پیغام بھیجتا ہے، راجکماری دمینتی بھی راجا کے بارے میں سن کر دل ہی دل میں اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ عشق کی آگ اتنی بڑھتی ہے کہ راجکماری کھانا پینا، ہسنا کھیلنا بھول جاتی ہے، جب دمینتی کے باپ تک خبر پہنچی اور حل یہ نکلا کہ کسی سے راجکماری کا بیاہ کر دینا چاہیے۔ راج کماری کا سوئمبر رچایا گیا اس میں کئی راجا آتے ہیں۔ ان میں نل بھی شامل تھا۔ دیوتا دمینتی اور نل کے عشق کا امتحان لیتے ہیں اور وہ اس میں پورے اترتے ہیں۔ نل اور دمینتی کی شادی ہوجاتی ہے، شادی کے بعد نل کا بھائی پشکر چالاکی سے جوئے میں نل سے اس کا راج پاٹ سب کچھ جیت لیتا ہے اور راجا نل اور دمینتی جنگلوں میں بھٹکتے ہیں۔ نل کو اچھا نہیں لگتا کہ دمینتی اس کے جوئے کی وجہ سے جنگل میں بھٹک رہی ہے، چنانچہ ایک دن وہ اسے سوتا چھوڑ جاتا ہے تاکہ وہ واپس اپنے میکہ چلے جائے اور اسے بھول جائے۔ پھر نل ایودھیا کے راجا رتوپرن کے پاس رتھ بان بن جاتا ہے اور اس سے جوئے کے داؤ پیچ سیکھتا ہے۔ دمینتی راجا کو نہیں بھولتی اور اس کی تلاش شروع کرتی ہے اور آخر کار اسے واپس لے آتی ہے۔ راجا نل دوبارہ اپنے بھائی پشکر سے جوا کھیلتا ہے اور واپس اپنا راج پاٹ جیت لیتا ہے۔[31] اس فلم کی کامیابی کی اہم وجہ اس فلم کے اسپیشل ایفیکٹ تھے جو فلم میں کئی ماورائی، جادوئی مناظر میں استعمال ہوئے، مثلا سادھو نرادا کا آسمان کی جانب پروز کرنا، دمینتی کا امتحال لینے چار دیوتاؤں کا راجا نل کے روپ میں آنا، راج ہنس کا پیغام پہنچانا اور کہانی کے ایک کردار کا کالے ناگ میں تبدیل ہونا وغیرہ۔
1920ء کی فلمیں
ترمیمتاریخ | فلم | اداکار | ہدایتکار | موضوع | تبصرہ |
---|---|---|---|---|---|
1920ء | نرسنگھ اوتار (نرسہما اوتار) | ٹرمبک راؤ پردھان، وجے، ہیرا لیمائے | شری ناتھ پٹناکر | ، ، | [32] |
1920ء | لو کش | ، ،، | رنگاسوامی نٹراج مدلیار | تاریخی | [33] |
1920ء | سیرندھری | بالا صاحب یادو، زنزاراؤ پوار، کملا دیوی، کشا باپو باکرے | بابو راؤ پینٹر | تاریخی | [34] |
13 جنوری 1920ء | مہابھارت | ، ،، | جیوتش بینرجی | تاریخی | [35] بنگالی زبان میں |
1920ء | نل دمینتی | پیشینس کوپر، کیکی اداجانیا، دادی بھائی سرکاری، سگنور مینیلی، ماسٹر موہن، خورشید جی بلی موریا | دادا صاحب پھالکے | تاریخی | مہابھارت کی کردار راجا نالا اور دمینتی پر[36] |
1920ء | ستی پاروتی دکشا یگنا |
پربھا، خلیل، ویدیا | وشنو پنت دیویکر | تاریخی | [37] |
1920ء | شری کرشنا سداما | پربھا، کیسر بائی، موتی، سکینہ، علیمیہ، ویدیا، خلیل | وشنو پنت دیویکر | تاریخی | [38] |
1920ء | کالنگا مردنم | ، ،، | رنگاسوامی نٹراج مدلیار | تاریخی | [39] |
1920ء | کٹورا بھر خون | ٹرمبک راؤ پردھان، تارا کورے گاؤنکر، بابا ویاس، کے جی گوکھلے، | شری ناتھ پٹناکر | سماجی | [40] |
1920ء | ستی مدالسا | ٹرمبک راؤ پردھان، کے جی گوکھلے، | شری ناتھ پٹناکر | تاریخی | [41] |
1920ء | سیتا سوئمبر | خلیل، تارا، ہیرا لیمائے، | شری ناتھ پٹناکر | تاریخی | [42] |
1920ء | شکنتلا II | ٹھاٹے، تارا کورے گاؤنکر، بابا ویاس، | شری ناتھ پٹناکر | تاریخی | [43] |
1920ء | وچتر گٹیکا | ٹرمبک راؤ پردھان، مراٹھے، سیتارام پنت جوشی، کے جی گوکھلے، دمننا جوشی، دگھے، | شری ناتھ پٹناکر | تاریخی | [44] |
1920ء | وکرم اروشی | لینا ویلنٹائن، آر این ویدیا، | کانجی بھائی راٹھور | تاریخی | [45] |
1920ء | جالندھر ورندا | ، ،، | جی وی سانے | تاریخی | [46] |
1920ء | کنس ودھ | ، ،، | جی وی سانے | تاریخی | [47] |
1920ء | رام جنم | ، ،، | جی وی سانے | تاریخی | [48] |
1920ء | شری کرشنا لیلا | ، ،، | جی وی سانے | تاریخی | [49] |
1920ء | بالیکا ودھو | پنڈت تلسی داس شیدا، مس علی، طارق باگچی، | تلسی دت شیدا | ڈراما | [50] |
1920ء | ڈاکٹر پاگل | ، ،، | سچیت سنگھ | ، ، | [51] |
1920ء | مرچھ کٹک (سنسکرت: مٹی کی گاڑی) | کانجی بھائی راٹھور | سچیت سنگھ | تاریخی | [52] |
1920ء | شکنتلا | ڈورتھی کنگڈون، گوہر جان، سیمسن، ستریا | سچیت سنگھ | تاریخی | [53] |
1920ء | نرسنگھ مہتا | کانجنی بھائی راٹھور، | سچیت سنگھ، شکلے | تاریخی | [54] |
1920ء | راما اور مایا | کانجنی بھائی راٹھور، گوہر جان، | سچیت سنگھ، شکلے | تاریخی | [55] |
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Year-1920"۔ indiancine.ma۔ Indiancine.ma۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2015
- ↑ "Database"۔ citwf.com۔ Alan Goble۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015
- ↑ "SilentFilms 1920"۔ gomolo.com۔ Gomolo۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2015
- ↑ "Cinema History 1913–1920"۔ businessofcinema.com۔ Businessofcinema.com۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2015
- ↑ "Hindi Movies of Year 1920"۔ 10ka20.com۔ 10ka20.com۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولائی 2015
- ↑ Keval J. Kumar (2000)۔ Mass Communication in India (4th Edition)۔ Jaico Publishing House۔ ص 158–۔ ISBN:978-81-7224-373-9۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-23۔ اطلع عليه بتاريخ 2015-07-16
- ^ ا ب Rajadhyaksha، Ashish؛ Willemen، Paul (10 جولائی 2014)۔ "Mythologicals"۔ Encyclopedia of Indian Cinema۔ Routledge۔ ص 244–۔ ISBN:978-1-135-94318-9۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-23۔ اطلع عليه بتاريخ 2015-07-16
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر بی وٹھل چاریہ
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر بھوپیندر کپور
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر پران
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر آئی ایس جوہر
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر وی جی جوگ
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر افتخار
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر کمل کپور
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر روی شنکر
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر جیوتیکا روئے
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر اچلا سچدیو
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر پربھاکر منجی راؤ نائیک
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر بھارت بھوشن
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ہیمنت مکھرجی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ڈی وی نارسہ راجو
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر بھانو بینرجی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر آسوتوش مکھرجی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر بی ایم ویاس
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ستارا دیوی
- ↑ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر سچیت سنگھ
- ^ ا ب Gokulsing، K. Moti؛ Dissanayake، Wimal (17 اپریل 2013)۔ "Gujarati Cinema by Amrit Gangar"۔ Routledge Handbook of Indian Cinemas۔ Routledge۔ ص 90–۔ ISBN:978-1-136-77284-9۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-23۔ اطلع عليه بتاريخ 2015-07-16
- ↑ K. Moti Gokulsing؛ Wimal Dissanayake (17 اپریل 2013)۔ "Gujarati Cinema-Amrit Gangar"۔ Routledge Handbook of Indian Cinemas۔ Routledge۔ ص 89–۔ ISBN:978-1-136-77284-9۔ مؤرشف من الأصل في 2018-12-23۔ اطلع عليه بتاريخ 2015-07-16
- ↑ "شکنتلا"۔ لالٹین
- ↑ پربت کی بیٹی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iqbalcyberlibrary.net (Error: unknown archive URL) از چراغ حسن حسرت، باب: شکنتلا ؛ اقبال سائبر لائبریری
- ↑ پربت کی بیٹی آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iqbalcyberlibrary.net (Error: unknown archive URL) از چراغ حسن حسرت، باب: نل دمنیتی؛ اقبال سائبر لائبریری
- ↑ نرسنگھ اوتار آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ لو کش آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ سیرندھاری آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ مہابھارت آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ نالا دمینتی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ ستی پاروتی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شری کرشنا سداما آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ کالنگا مردنم آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ کٹورا بھر خون آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ ستی مدالسا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ سیتا سوئمبر آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شکنتلا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ وچتر گٹیکا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ وکرم اروشی آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ جالندھر ورندا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ کنس ودھ آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ رام جنم آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شری کرشنا لیلا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ بالیکا ودھو آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ ڈاکٹر پاگل آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ مرچھ کٹک آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ شکنتلا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ نرسنگھ مہتا آئی ایم ڈی بی پر
- ↑ راما اور مایا آئی ایم ڈی بی پر