مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی جو خود مختار ریاستيں بر صغیر میں قائم ہوئیں ان میں سب سے بڑی اور طاقتور ریاست حیدر آباد دکن کی مملکت آصفیہ تھی۔ اس مملکت کے بانی نظام الملک آصف جاہ تھے، چنانچہ اسی نسبت سے اس ریاست کو مملکت آصفیہ یا آصف جاہی مملکت کہا جاتا ہے۔ آصف جاہی مملکت کے حکمرانوں نے بادشاہت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ وہ نظام کہلاتے تھے اور جب تک آزاد رہے مغل بادشاہ کی بالادستی تسلیم کرتے رہے، اسی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری رکھا اور مسند نشینی کے وقت اس سے فرمان حاصل کرتے تھے۔ اس لحاظ سے دکن کی مملکت آصفیہ دراصل مغلیہ سلطنت ہی تھی جو دہلی کے زوال کے بعد دکن میں منتقل ہو گئی تھی اور یہیں آصفی دور میں مغلیہ نظام حکومت اور مغلیہ سلطنت کے تحت پرورش پانے والی تہذیب کا فروغ ہوا۔

نظام الملک حیدرآباد
سابقہ بادشاہت
Coat of Arms
عثمان علی خان
اولین بادشاہ/ملکہ نظام الملک آصف جاہ اول
آخری بادشاہ/ملکہ نواب میر عثمان علی خان
انداز اعلیحضرت
سرکاری رہائش گاہ چومحلہ محل
بادشاہت کا آغاز 31 جولائی 1724
بادشاہت کا آختتام 17 ستمبر 1948

نظام الملک

ترمیم

نظام الملک کا اصل نام میر قمر الدین تھا اور یہ نام خود شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے رکھا تھا۔ نظام الملک کے اجداد کا تعلق ترکستان سے تھا۔ انھوں نے عالمگیر کی زیر نگرانی تربیت پائی تھی اور اپنے عادات و اطوار اور اپنی صلاحیتوں میں اس سے بہت ملتے جلتے تھے۔ نظام الملک میں وہ تمام صلاحیتں تھیں جو سلطنت مغلیہ کے زوال کو روک سکتی تھیں۔ اگر ان کو موقع ملتا تو نظام الملک برصغیر میں وہی کردار ادا کرسکتے تھے جو سلطنت عثمانیہ میں سلیمان اعظم کے بعد وزیراعظم محمد صوقوللی‍‍،۔ محمد کوپریلی اور احمد کوپریلی نے ادا کیا۔ ان کو جب محمد شاہ کے دور میں 1722ء میں ہندوستان کا وزیراعظم بنایا گیا تو انھوں نے زوال سلطنت کو روکنے کے لیے ضروری اصلاحات کرنا چاہیں اور جب بادشاہ اور ان کے نا اہل مصاحبین نے ان اصلاحات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں تو نظام الملک بد دل ہو کر دکن چلے گئے جہاں کے چھ صوبوں کا ان کو صوبہ دار بنادیا گیا تھا۔ یہاں انھوں نے ایک خود مختار حکمران کی حیثیت سے حکومت کی، مگر وہ مغل بادشاہ کا اتنا لحاظ کرتے تھے کہ اس کے حکم پر دہلی پہنچ جاتے تھے، چنانچہ نادر شاہ کے حملے کے موقع پر انھوں نے دہلی جاکر مغل بادشاہ کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

نظام الملک نے جو وسیع ریاست قائم کی وہ دریائے نربدا سے راس کماری تک پھیلی ہوئی تھی اور مہاراشٹر کے مغربی اور شمال مشرقی حصوں اور موجودہ کیرالا کے علاوہ یہ سارا علاقہ ان کے قبضے میں تھا۔ حیدر آباد، اورنگ آباد، احمد نگر، بیجا پور، ترچناپلی، تنجور اور مدورا مملکت آصف جاہی کے مشہور شہر تھے۔ مملکت کا رقبہ تین لاکھ مربع میل سے کم نہ تھا۔ نظام الملک نے مغلیہ سلطنت کے بہت بڑے حصے کو مرہٹوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ کر دیا تھا اور ایک ایسے وقت میں جبکہ پورے بر صغیر میں انتشار پھیلا ہوا تھا انھوں نے دکن میں امن و امان کی فضا قائم کی۔

نظام الملک ایک دیانتدار، دیندار اور صاحب کردار حکمران تھے۔ ان کی انتظامی صلاحیت اور تدبر کا مورخین نے کھل کر اعتراف کیا ہے۔ دکن میں نظام آباد کا شہر انہی کا آباد کیا ہوا ہے۔ ان کی علمی اور ادبی سرپرستی کی وجہ سے دار الحکومت حیدر آباد علم و ادب کا مرکز بن گیا۔ بر صغیر کی اسلامی تاریخ میں اورنگ زیب کے بعد ہم جن تین حکمرانوں کو عظیم کہہ سکتے ہیں ان میں ایک نظام الملک ہیں اور باقی دو حیدر علی اور ٹیپو سلطان۔

جانشین

ترمیم

نظام الملک آصف جاہ اول کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں ناصر جنگ اور مظفر جنگ کی باہمی خانہ جنگی سے مملکت آصفیہ کو بڑا نقصان پہنچا۔ انھوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے انگریزوں اور فرانسیسیوں کا تعاون حاصل کیا اور اسی طرح انھوں نے پہلی مرتبہ یورپی قوموں کو بر صغیر کی سیاست میں مداخلت کرنے کا موقع فراہم کیا اور انگریزی اقتدار کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اس خانہ جنگی سے دوسرا نقصان یہ ہوا کہ شمالی سر کار، کرناٹک اور جنوب کے کئی علاقے جن میں میسور بھی شامل تھا، نظام کے اقتدار سے باہر نکل گئے اور ریاست کے مشرقی اور شمالی حصوں پر مرہٹے قابض ہو گئے۔ اس طرح نظام الملک کے انتقال کے بعد 15 سال کے اندر ہی ریاست کی حدود نصف رہ گئیں۔

نظام علی خاں

ترمیم

بعد کے حکمرانوں میں نظام علی خاں (1762ء تا 1803ء) کا 40 سالہ طویل دور اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس نے باقی ماندہ ریاست کو استحکام بخشا لیکن حیدر علی اور ٹیپو سلطان سے نظام علی خاں کی لڑائیاں بر صغیر میں اسلامی اقتدار کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ حیدر علی ٹیپو سلطان نے نظام علی خاں کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر انگریزوں کو نکالنے کا جو منصوبہ تیار کیا تھا اگر نظام علی خاں اس میں تعاون کرتے تو شاید آج بر صغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ لیکن ٹیپو سلطان سے تعاون کرنے کی بجائے نظام علی خان نے 1798ء میں انگریزوں کی فوجی امداد کے نظام Subsidiary System کو قبول کرکے انگریزوں کی بالادستی قبول کرلی اور اس طرح حیدرآباد کی آصف جاہی مملکت اپنے قیام کے 74 سال بعد انگریزوں کی ماتحت ریاست بن گئی۔ یہ وہی نظام تھا جس کو قبول کرنے سے ٹیپو سلطان نے انکار کر دیا تھا اور اس کے نتیجے میں انگریزوں کے حملے کا مردانہ وار مقابلہ کرکے جان دے دی۔

نظام علی خان کی مصلحت آمیز پالیسی نے اس کی جان بھی بچالی اور ریاست کو بھی محفوظ کر لیا۔ 1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے ساتھ انگریزوں کا سب سے طاقتور حریف ختم ہو گیا اور نظام علی خاں ان کے مقابلے میں بے بس ہو گیا۔ اس کی رہی سہی آزادی 1800ء میں ختم کردی گئی۔ اب حیدر آباد برطانوی ہند کی ایک محکوم ریاست بن گئی۔

ٹیپو سلطان کا خط نظام الملک کے نام

ترمیم

میر نظام علی خان کا داماد نواب مہا بت جنگ کا دیوان اسد علی خان صلح کا پیغام لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں۔

جناب عالی!

آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں اور میری فوج اور علاقے کے ہر حب الوطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے ، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اس کی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔ اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کے لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔ ٹیپو سلطان۔[1]

علم و ادب کی سر پرستی

ترمیم
 
ریاست حیدرآباد کا نقشہ سنہ 1909ء میں

حیدر آباد چونکہ ایک دولت مند ریاست تھی اور اس کے حکمران علم دوست تھے اس لیے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بر صغیر میں علم و ادب کی سب سے زيادہ سرپرستی ریاست حیدر آباد میں کی گئی۔ نادر شاہ کے حملے کے دہلی کی تباہی کے بعد حیدر آباد وہ واحد شہر تھا جہاں سب سے زیادہ امن و سکون تھا اور جہاں کے حکمراں علم و ادب کے سب کے سب سے بڑے سرپرست تھے۔ چنانچہ بر صغیر کے ہر حصے سے اہل علم اور اہل کمال مسلمان کھنچ کھنچ کر حیدرآباد پہنچ گئے۔

اٹھارویں صدی کے ممتاز مصنفین میں جن کا حیدرآباد سے تعلق رہا شاہ نواز خاں (1700ء تا 1758ء) اور غلام علی آزاد (1704ء اور 1785ء) کے نام بہت نمایاں ہیں۔ شاہ نواز خاں ریاست کے ایک ممتاز عہدے دار تھے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں سب سے اہم ماثر الامراء ہے۔ یہ دہلی کی مغلیہ سلطنت کے امرا اور عہدے داروں کا سب سے بڑا تذکرہ ہے۔ اس میں تقریباً تمام امیروں کے حالات ملتے ہیں۔ غلام علی آزاد بھی اپنے دور کے بہت بڑے سوانح نگار تھے۔ وہ سر و آزاد، ماثر الکرام، خزانہ عامرہ اور سیحہ المرجان نامی کتابوں کے مصنف تھے جو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان میں ادیبوں، شاعروں اور اولیاء اللہ کے حالات ہیں۔

اس دور کے جنوبی ہند کے علما میں مولانا بحر العلوم (متوفی 1819ء) کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔ ان کا تعلق کرناٹک سے تھا جو شروع میں ریاست حیدرآباد کا ایک صوبہ تھا۔ وہاں کے نواب محمد علی خاں ان کے سب سے بڑے سر پرست تھے۔ بحر العلوم کا خطاب بھی نواب محمد علی نے دیا تھا۔ وہ اس زمانے میں دینی علوم کے سب سے بڑے علم سمجھے جاتے تھے۔

بعد کے دور میں جب حیدرآباد میں برطانوی بالادستی قائم ہو گئی، جن علما اور ادیبوں نے حیدرآباد سے وابستہ ہو کر علمی کام کیے ان میں شبلی نعمانی، مولوی چراغ علی، سید علی بلگرامی، ڈپٹی نذیر احمد، عبدالحلیم شرر، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ظفر علی خاں اورجوش ملیح آبادی کے نام قابل ذکر ہیں۔ شاعروں کی کثیر تعداد اس کے علاوہ ہے۔

علمی کارنامے

ترمیم

ریاست حیدر آباد کا ایک اور بڑا کارنامہ جامعہ عثمانیہ کا قیام ہے۔ 1856ء میں دار العلوم کی حیثیت سے اس کا آغاز ہوا تھا، 1918ء میں اس کو جدید طرز کی جامعہ کی حیثیت دے دی گئی۔ جامعہ عثمانیہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پہلی جامعہ تھی جس نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیم اور ہندوؤں کے لیے اخلاقی تعلیم لازمی تھی۔ جامعہ عثمانیہ کے تحت ایک شعبہ تالیف و ترجمہ قائم کیا گیا تھا جس میں عربی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی کے ہر علم و فن پر کئی سو کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس طرح نہ صرف جامعہ کی درسی ضروریات کو پورا کیا گیا بلکہ اردو کے علمی ذخیرے میں قیمتی اضافہ کیا گیا۔ شعبۂ تالیف و ترجمہ نے جن علمی اور فنی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کیا ان کی تعداد 5 لاکھ ہے۔

حیدرآباد میں دائرۃ المعارف کے نام سے ایک اور علمی ادارہ قائم تھا جس کا کام عربی کی نایاب قلمی کتابوں کو جمع کرنا اور ان کی تصحیح کرکے ان کو شائع کرنا تھا۔ اس طرح ادارے نے تقریباً پانچ سو کتابیں شائع کیں۔ ان کتابوں کی وجہ سے حیدر آباد کا نام پوری اسلامی دنیا اور خاص طور پر عرب ممالک میں سر پرست علوم کی حیثیت سے عام ہو گیا۔

حیدرآباد کا کتب خانۂ آصفیہ بر صغیر کے سب سے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے۔ خاص طور پر عربی اور فارسی کتابوں کے قلمی نسخوں کے لحاظ سے یہ اب بھی بر صغیر کا سب سے بڑا کتب خانہ ہے۔ اس میں قلمی نسخوں کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہے۔ مخطوطات کی اتنی بڑی تعداد استنبول کے کتب خانۂ سلیمانیہ کے علاوہ شاید دنیا کے کسی اور کتب خانے میں موجود نہیں۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی کے نصف اول میں بر صغیر میں اسلامی علوم اور ادب کا سب سے بڑا مرکز حیدرآباد تھا۔

حیدرآباد کی علمی سرپرستی صرف ریاست تک محدود نہیں تھی، بر صغیر کے تقریباً تمام تعلیمی، علمی، مذہبی اور معاشرتی اداروں کوبھی ریاست کی طرف سے امداد ملتی تھی۔ دارالعلوم دیوبند، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کو باقاعدہ مالی امداد ملتی تھی۔ علاہ ازیں بے شمار صاحب کمال اور اہل علم ایسے تھے جن کے ریاست کی طرف سے وظیفے مقرر تھے۔ امداد کا یہ سلسلہ اسلامی ممالک تک پھیلا ہوا تھا اور اس میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل تھے۔

حکمران مملکت آصفیہ (حیدرآباد)

ترمیم
تصویر خطاب نام پیدايش دور حکومت وفات
  نظام‌الملک آصف جاہ اول میر قمر الدین خان 20 اگست 1671ء 31 جولائی 1724ء تا 1 جون 1748ء 1748ء
ناصرجنگ میر احمد علی خان 26 فروری 1712ء 1 جون 1748ء تا 16 دسمبر 1750ء 16 دسمبر 1750ء
  مظفرجنگ میر حدایت محی الدین سعداللہ خان ؟ 16 دسمبر 1750ء تا 13 فروری 1751ء 13 فروری 1751ء
صلابت جنگ میر سعید محمد خان 24 نومبر 1718ء 13 فروری 1751ء تا 8 جولائی 1762ء 16 ستمبر 1763ء
  نظام‌الملک آصف جاہ دوم میر نظام علی خان 7 مارچ 1734ء 8 جولائی 1762ء تا 6 اگست 1803ء 6 اگست 1803ء
  سکندر جاہ ،آصف جاہ سوم میر اکبر علی خان 11 نومبر 1768ء 6 اگست 1803ء تا 21 مئی 1829ء 21 مئی 1829ء
  ناصر الدولہ ،آصف جاہ چہارم میر فرخندہ علی خان 25 اپریل 1794ء 21 مئی 1829ء تا 16 مئی 1857ء 16 مئی 1857ء
  افضل الدولہ ،آصف جاہ پنجم میر تہنیت علی خان 11 اکتوبر 1827ء 16 مئی 1857ء تا 26 فروری 1869ء 26 فروری 1869ء
  آصف جاہ ششم محبوب علی خان، آصف جاہ ششم 17 اگست 1866ء 26 فروری 1869ء تا 29 اگست 1911ء 29 اگست 1911ء
آصف جاہ ہفتم میر عثمان علی خان 6 اپریل 1886ء 31 اگست 1911ء تا 1956ء 24 فروری 1967ء
حیدرآباد کی متفرق علامتیں
سرکاری زبان اردو حیدرآباد پاکستان دولت مشترکہ ریاست
ریاست کا علامتی جانور Blackbuck  
ریاست کے علامتی پرندے نیل کنٹھ فائل:Coracias benghalensis – Kaeng Krachan.jpg
ریاست کا علامتی درخت نیم  
ریاست کا علامتی پھول Blue Water lily  
آئین سابق انتظامی اکائیاں ڈویژن
اورنگ آباد
گلبرگہ
میڈک
وارنگل

امریکا 1956ء میں دوبارہ سے منظم کیا گیا تھا کے بعد، اورنگ آباد کا حصہ بن گیا مہاراشٹر اور گلبرگہ کرناٹک، باقی بن گیا آندھرا پردیش کا حصہ بن گیا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. مردِ حریت سلطان ٹیپو، ڈاکٹر وائی، یس، خان ، بنگلور، صفحہ: 176 ناشر: کرناٹک اردو اکادمی بنگلور