شاہ بشارت اللہ بہرائچی

مولانا بشارت اللہ کی پیدائش 1786ء (مطابق 1201ھ) میں شہر بہرائچ میں ہوئی تھی اور آپ کا نسب سیخ بڈھن بہرائچی سے ملتا ہے۔ مولانا بشارت اللہ بہرائچی سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ شاہ غلام علی کے خلیفہ تھے۔

مولانا شاہ بشارت اللہ بہرائچی
پیدائش1786ء مطابق 1201ھ
بہرائچ، اتر پردیش ہندوستان
وفات22اگست 1838ء[1]
اسمائے دیگرمولانا شاہ بشارت اللہ نقشبندی مجددی مظہری بہرائچی
وجہِ شہرتسلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ
مذہباسلام
شریک حیاتبی بی نجیبتہ النساء عرف امتہ البتول

حالات ترمیم

مولانا بشارت اللہ بہرائچی شاہ غلام علی دہلوی کے اعظم خلفا میں سے تھے۔ آپ اول اپنے خسر مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی سے بیعت تھے بعد میں شاہ غلام علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام کمال و نسبت مجددیہ حاصل کی حضرت شاہ غلام علی آپ کے حال پر نہایت عنایت فرماتے تھے جب کبھی آپ حاضر ہوتے تو حضرت شاہ غلام علی آپ کا استقبال کرتے تھے۔ آپ کی علو منزلت کا اس سے ہی قیاس کرنا چاہیے کہ حضرت شاہ غلام علی آپ کا استقبال کرتے تھے۔ شاہ غلام علی نے اپنے جانشین کے واسطے دو شخصوں کو تجویز فرمایا تھا ایک شاہ ابو سعید اور دوسرے مولانا بشارت اللہ کہ ا ن میں سے کوئی ایک مقیم ہو کر اشاعت طریقہ کرے اس بات کا ذکر شاہ غلام علی کی وصیت نامہ میں اس کا ذکر ہے۔ ایک مرتبہ آپ کو شاہ صاحب کی جانب سے کچھ گمان نا خوشی ہوا تو آپ نے اس کا اظہار شا ہ غلام علی سے کیا اس کا جواب شاہ غلام علی نے اس طرح تحریر فرمایا وہم نا خوشی بندہ در دل نیا رند بندہ ہر گز از شمانا خوش نیست وجہ ناخوشی چیست ایں وہم از دل برادر ند اکثرمیگویم کہ سہ چہار کس دریا ران من ممتاز اند میاں ابوسعید و رؤف احمد واحمد سعید ودیگر مولوی قصوری غلام محی الدین پیدا شدہ است۔ غرض یہ کی آپ حضرت شاہ غلام علی کے نہایت ممتاز خلفاء میں سے تھے ۔بہرائچ کی طرف آپ سے نہایت اشاعت طریقت ہوئی علم ظاہر میں بھی آپ کمال رکھتے تھے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوینے اپنی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت حصہ چہارم میں لکھا ہے کہ شاہ بشارت اللہ نے بہرائچ میں سلسلہ مجدیہ نقشبندیہ کی اشاعت کی۔ شاہ بشارت اللہ سلسلسہ مجدیہ کے ایک مشہور شیخ ہے جنھوں بہرائچ میں ایک خانقاہ قائم کی ۔[2]مولانا سید عبد الحئی حسنی اپنی کتاب نزھتہ الخواطر میں لکھتے ہیں کہ الشیخ العام الفقیہ بشارت اللہ البہرائچی کا تعلق مشائخ نقشبندیہ سے تھا۔ ان کی ولادت 1201ھ میں شہر بہرائچ میں ہوئی۔ آپ اول اپنے خسر مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی کے گہوارہ علم و فضل میں پروان چڑھے۔ اور ان ہی سے ابتدائی تعلیم حٓصل کی۔ ان کی وفات کے بعد دہلی کاقصد کیا اور منطق و حکمت کی تعلیم شیخ امام خیرآبادی سے اور فقہ وحدیث کی تعلیم شاہ رفیع الدین اور ان کے بھائی شاہ عبد القادر سے حاصل کی۔ اس دوران حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے درس میں حاضری اور کسب فیض کا سلسلسہ جاری رہا۔ مزید برآں حضرت شاہ غلام علی دہلوی کی خدمت میں حاضری اور کسب فیض کا سلسلسہ جاری رکھا۔ علوم ظاہری کے حصول سے فراغت کے بعد ہمہ تن گوش ہو کر دل و جان سے حضرت شاہ غلام علی دہلوی کی صحبت اختیار کر لی اور ان کے راز دار خاص اور خلوتوں کے امین ہو گئے۔ اور وہ مقام منزلت حاصل کی جس سے ان کے دیگر متوسلین و منسلکین حیران تھے۔شاہ غلام علی دہلوی نے بہت محبت و شفقت کے ساتھ خلعت خلافت سے نوازا۔ حضرت شاہ غلام علی دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ میرے اصحاب و متعلقین میں چار افراد ہیں جن کو اللہ سلامت رکھے اور ان جیسے دائمی مودت والوں میں اضافہ فرمائے اور مودت کا درجہ قرابت سے بڑا ہوتا ہے۔ پھر چاروں کو بیان فرماتے تھے: 1۔ شیخ ابو سعید اسعدہ اللہ سبحانہ اور ان کے صاحبزادے شیخ احمد سعید جعلہ اللہ تعالٰی محمودا اور شیخ رؤف احمد راف اللہ بہ اور شیخ بشارت اللہ جعلہ مبشرا بقبولہ۔[3]

مضامین بسلسلہ

تصوف

 

تصانیف ترمیم

سید ظفر احسن بہرائچی اپنی کتاب آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ میں صفحہ 225 پر لکھتے ہیں کہ شاہ بشارت اللہ بہرائچی نے کئی کتابیں تالیف کی جو اس طرح ہے۔

  • رسالہ سرور القلوب عندذکرالمحبوب
  • شرح مثنوی مولانا روم
  • فارسی ترجمہ و شرح قصیدہ بانت سعاد
  • فارسی ترجمہ و شرح قصیدہ بردہ
  • مثنوی در مدح حضرت شاہ غلام علی دہلوی
  • خطبات جمعہ و عیدین
  • مکاتیب شریفہ
  • ترجمہ شرح تہذیب
  • ترجمہ کلمات امیر المئومنین حضرت علی(جمعہ ابو علی الطبرانی علی ترتیب حروف المعجم من نہایتہ السالکین)
  • رسالہ شروط بیعت[4]

خلفاء ترمیم

شاہ بشارت اللہ بہرائچی سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ تھے۔ آپ کے خلفاء کی تعداد بہت تھی جن میں سے کچھ کے نام اس طرح ہیں۔

  • ملا ظہیر الدین بخاری
  • ملا عبد الغفور بخاری
  • ملا غلام رسول قندھاری
  • ملا میر قندھاری
  • مولوی غلام محمددربھنگوی
  • مولوی قدرت اللہ گوپاموی
  • مولوی نادر علی ملیح آبادی[5]

وفات ترمیم

آپ کی وفات 1838ءمطابق یکم جمادی الثانی 1254ھ بروز جمعرات کو شہر بہرائچ میں ہوئی۔ آپ کی قبر خام بنی ہوئی ہے۔ جس وقت آپ کی وفات ہوئی آپ کے صاحبزادے شاہ ابو الحسن کی عمر 14سال کی تھی انھوں نے نسبت باطنی شاہ احمد سعید کی خدمت میں حاصل کی تھی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ ازمرتب سید ظفر احسن بہرائچی مطبوعہ2015
  2. SAVIOURS OF ISLAMIC SPIRIT VOLUME 3
  3. آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید مطبوعہ 2015
  4. آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ ازمرتب سید ظفر احسن بہرائچی مطبوعہ2015
  5. قلمی بیاض خانقاہِ نعیمیہ بہرائچ
  • مشائخ نقشبندیہ مجددیہ از مولانا محمد حسن نقشبندی مجددی
  • آثار حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒ ازمرتب سید ظفر احسن بہرائچی مطبوعہ2015

بیرونی روابط ترمیم

https://archive.org/details/SavioursOfIslamicSpiritByShaykhSyedAbulHasanAliNadvir.a