جارج فرنانڈیز
جارج میتھیو فرنانڈیز[3] (جنم 3 جون 1930ء - 29 جنوری 2019ء) بھارت کے ایک صنعتی اتحاد پسند، سیاست دان،[4] صحافی[5]، ماہر زراعت اور بہار سے راجیہ سبھا کے رکن تھے۔[6] نیز وہ جنتا دل کے کلیدی رکن اور سمتا پارٹی کے بانی بھی تھے۔ علاوہ ازیں جارج فرنفرنانڈیز بھارت کی حکومتوں میں وزیر برائے مواصلات، صنعت، ریلوے اور دفاع کے مناصب پر بھی فائز رہے۔[7]
جارج فرنانڈیز | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(ہندی میں: जॉर्ज फ़र्नान्डिस) | |||||||
وزیر دفاع | |||||||
مدت منصب 21 اکتوبر 2001 – 22 مئی 2004 | |||||||
وزیر اعظم | اٹل بہاری واجپائی | ||||||
| |||||||
مدت منصب 19 مارچ 1998 – 16 مارچ 2001 | |||||||
وزیر اعظم | اٹل بہاری واجپائی | ||||||
| |||||||
وزیر ریلوے | |||||||
مدت منصب 2 دسمبر 1989 – 10 نومبر 1990 | |||||||
وزیر اعظم | وی پی سنگھ | ||||||
| |||||||
رکن پارلیمان، راجیہ سبھا | |||||||
مدت منصب 4 اگست 2009 – 7 جولائی 2010 | |||||||
رکن پارلیمان، لوک سبھا | |||||||
مدت منصب 2004–2009 | |||||||
| |||||||
مدت منصب 1989–1996 | |||||||
| |||||||
مدت منصب 1977–1984 | |||||||
| |||||||
مدت منصب 1996 – 2004 | |||||||
| |||||||
مدت منصب 1967 – 1971 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 3 جون 1930ء [1] منگلور |
||||||
وفات | 29 جنوری 2019ء (89 سال)[2][1] نئی دہلی |
||||||
وجہ وفات | Swine influenza | ||||||
رہائش | بنگلور، کرناٹک، بھارت | ||||||
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
||||||
جماعت | جنتا دل (متحدہ) سمتا پارٹی جنتا دل |
||||||
عارضہ | الزائمر | ||||||
اولاد | 1 بیٹا | ||||||
تعداد اولاد | 1 | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | سینٹ الیسیئس کالج (منگلور) | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، صحافی ، ٹریڈ یونین پسند ، مدیر ، مصنف | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | کونکنی زبان ، انگریزی ، تولو ، کنڑ زبان ، مراٹھی ، تمل ، اردو ، ملیالم ، لاطینی زبان | ||||||
دستخط | |||||||
درستی - ترمیم |
وہ منگلور کے باشندے تھے۔ سنہ 1946ء میں پادری کی تربیت حاصل کرنے بنگلور گئے۔ سنہ 1949ء میں وہ بمبئی منتقل ہوئے، جہاں انھوں نے سوشلسٹ ٹریڈ یونین موومنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ فرنانڈیز نے ٹریڈ یونین لیڈر بننے کے بعد اور بھارتی ریل کے ساتھ کام کرنے کے دوران میں 1950ء و 1960ء کے عشروں میں بمبئی میں کئی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی قیادت کی۔ انھوں نے سنہ 1967ء کے پارلیمانی انتخابات میں حلقہ بمبئی جنوبی (اب ممبئی جنوبی) سے ایس کے پاٹل کو شکست دی۔ سنہ 1974ء میں بھی انھوں نے ہڑتال کا انتظام کیا، اُس وقت وہ آل انڈیا ریلوے مینز فیڈریشن کے صدر تھے۔ فرنانڈیز نے 1975ء کی ہنگامی صورت حال کے دوران میں خفیہ طور پر مہم چلائی،[8] سنہ 1976ء میں بدنام بروڈا ڈائنامائیٹ کیس میں انھیں گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔
سنہ 1977ء میں ہنگامی صورت حال ہٹا دی گئی، فرنانڈیز نے بہار سے لوک سبھا کی نشست جیت لی پھر ان کو مرکزی وزیر برائے صنعت کے طور پر نامزد کیا گیا۔ مرکزی وزیر کے طور پر اپنی مدت کے دوران میں انھوں نے امریکی کثیر القومی کمپنیوں آئی بی ایم اور کوکا کولا کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا کیونکہ انھوں نے سرمایہ کاری کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ بطور وزیر ریل (1989ء سے 1990ء تک) انھوں نے کوکن ریلوے جیسے منصوبوں پر کام کیا۔ وہ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت (1998ء–2004ء) کے دور میں وزیر دفاع تھے۔ اس وقت پاک بھارت کارگل جنگ چھڑی ہوئی تھی اور بھارت نے پوکھرن میں نیوکلیئر تجربے کیے تھے۔ تجربہ کار سوشلسٹ فرنانڈیز کچھ تنازعات میں بھی پھنسے دکھائی دیے، جن میں براک میزائل اسکینڈل اور تہلکہ جیسے امور سرفہرست ہیں۔ جارج فرنانڈیز نے سنہ 1967ء سے سنہ 2004ء تک لوک سبھا کے نو انتخابات جیتے۔[9]جارج نے 29 جنوری 2019ء کو 88 سال کی عمر میں وفات پائی۔[10]
ابتدائی زندگی
ترمیمجارج فرنانڈیز 3 جون 1930ء کو کاتھولک والدین جان جوزف فرنانڈیز اور ایلس مارتھا فرنانڈیز (سابقہ پنٹو) کے ہاں منگلور میں پیدا ہوئے۔[11] وہ چھ بچوں میں سے بڑے تھے۔ لارینس، مائیکل، پال، ایلوسیس اور رچرڈ ان کے بہن بھائی ہیں۔ ان کی والد جارج پنجم کی بہت بڑی مداح تھیں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ جارج بھی 3 جون کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پیئرلیس فائنانس گروپ کے انشیورنس ایگزیکٹو تھے اور ان کے جنوبی ہندوستان کے دفتر کے کچھ سالوں تک سربراہ بھی رہے۔ جارج کو پیار سے رشتہ داروں میں ”جیری“ کہا جاتا تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر کے قریب واقع ”بورڈ اسکول “ نامی ادارے سے پائی جو ایک میونسپل اسکول اور چرچ اسکول تھا۔[12]
انھوں نے پانچویں کلاس کی تعلیم سینٹ ایلوسیس کالج، منگلور سے مکمل کی جہاں سے انھوں نے سیکنڈری اسکول لِیونگ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔[11]
ای ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑنا چاہتے تھے مگر ان کے والد کی خواہش تھی کہ پڑھ لکھ کر وکیل بنیں۔[12] ان کا ماننا تھا کہ وہ وکیل نہیں بننا چاہتے اور نہ اپنے والد کے مقدمات لڑنا چاہتے ہیں جس میں وہ اکثر کرایہ داروں کو زمین کے ٹکڑے سے نکالتے تھے، منگلور کے مضافات میں جس کے وہ مالک تھے۔ اس کی بجائے انھوں نے پادری بننے کے لیے سیمینری میں داخلہ لیا۔[12] وہ سولہ سال کی عمر میں بینگلور میں واقع سینٹ پیٹرز سیمینری میں رومن کاتھولک پادری بننے کی ترتیب حاصل کرنے گئے جہاں انھوں نے ساڑھے دو سالوں 1946ء سے 1948ء تک فلسفہ پڑھا۔[13][14] تنگ آکر انیس برس کی عمر میں انھیں سیمینری چھوڑ دی کیونکہ ان کہنا تھا کہ ریکٹر (گرجے کا متولی) سیمینری کے اراکین سے زیادہ اچھا کھاتے اور اوچے میزوں پر بیٹھتے ہیں۔[15] وہ مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے تھے لیکن انھوں نے مذہب رد کیا اور سیمینری سے بھاگ گئے اور وہ ملحد بن گئے۔ [16] منگلور میں انھوں نے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کام کیا۔[17][18]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000014256 — بنام: George Fernandes — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ George Fernandes, former Union minister, dies at 88
- ↑ Reddy 1977, p. 144 "(i) Accused George Mathew Fernandes (hereinafter referred to as George Fernandes Al) was the former Chairman of the Socialist Party of India and also the President of the All India Railway- men's Federation."
- ↑ Surender Sharma (1 July 2010)۔ "By George! It's out on the street"۔ میڈ ڈے۔ 02 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2010۔
As if it had not earned enough bad name and publicity for one of the most veteran politicians and trade unionist George Fernandes, claimants to his legacy slug it out in streets on Wednesday.
- ↑ "Biographical Sketch (Member of Parliament: 13th Lok Sabha)"۔ بھارتی پارلیمان۔ 12 August 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2010
- ↑ "Shri George Fernandes General Information"۔ Government of Bihar۔ 22 جولائی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2010
- ↑ "Fernandes: Popular but controversial minister"۔ برطانوی نشریاتی ادارہ۔ 15 March 2001۔ 03 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2010
- ↑ "Why despite several controversial moves, George Fernandes continues to inspire us"۔ www.dailyo.in
- ↑ "The loneliness of George Fernandes"۔ 21 April 2009 – www.thehindu.com سے
- ↑
- ^ ا ب Richie Lasrado۔ "A Knight in Shining Armour (A profile of union defence minister George Fernandes)"۔ Daijiworld Media Pvt Ltd Mangalore۔ 28 جون 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2010
- ^ ا ب پ "Kuch lamhe fursat ke - George Fernandes, a life"۔ E TV۔ 27 March 2015
- ↑ Fernandes & Mathew 1991, p. xi
- ↑ Fernandes & Mathew 1991, p. 200
- ↑ Ghosh 2007, p. 85
- ↑ Wife-Son vs Jaya Jaitly vs Brothers: George Fernandes Remained Unaware of Fight for His Legacy, NEws 18, 29 Jan 2019.
- ↑ Fernandes & Mathew 1991, p. 11
- ↑ Fernandes & Matthew 1991, p. 212