رکن الدین حسین چشتی
ولادت 545 ہجری اور وفات 635 ہجری خواجہ رکن الدین حسین خواجہ نجم الدین احمد مشتاق ( 492ہجری 577 ہجری) کے فرزند تھے اور خواجہ نجم الدین احمد مشتاق خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمت اللہ علیہ (430ہجری 527 ہجری) کے فرزند تھے
مضامین بسلسلہ |
تاریخ
ترمیمحضرت خواجہ نجم الدین احمد مشتاق رحمت اللہ علیہ کے تین بیٹے تھے، جن کے نام خواجہ بہاو الدین محمود خواجہ نظام الدین علی اور خواجہ رکن الدین حسین تھے، حضرت خواجہ نجم الدین احمد مشتاق رحمت اللہ علیہ نے ان تینوں میں سے کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا، خواجہ محمود بڑے صاحبزادے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ حق انکا ہے اور خواجہ نظام الدین علی اپنی اعلٰی علمی حیثیت کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ ان کو یہ رتبہ ملنا چايے، جبکہ خواجہ رکن الدین سب سے چھوٹے اور خاموش تھے اور مریدین کی خاطر مدارات میں لگے رہتے تھے، خواجہ نجم الدین احمد مشتاق رحمت اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آخر کار خواجہ رکن الدین حسین رحمت اللہ علیہ کو اتفاق رائے سے جانشین مقرر کیا گیا، اسی دور میں تاتاریوں کا فتنہ اپنے عروج پر تھا خواجہ رکن الدین حسین رحمت اللہ علیہ نے اپنے والد محترم کو خواب میں دیکھا جو ان سے فرما رہے تھے کہ تاتاریوں کا لشکر پہنچ رہا ہے علاقہ بدری کی بشارت پاتے ہی آپ علاقہ غور کی طرف روانہ ہو گئے اور اپنے دونوں صاحب زادوں خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علی اور شیخ الاسلام قد و دین خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ کو سات لیا، اس طرح منازل طے کرتے ہوئے علاقہ ساغر پہنچے جہاں کا والی قطب الدین حسن تھا جو خواجہ صاحب قدس اللہ سرہ عزیز کا معتقد تھا، انھوں نے خواجہ صاحب کا بڑے اعزاز و اکرام سے استقبال کیا اور اپنے ساتھ تعظیم و تکریم سے رکھا، تاتاریوں کا لشکر اس قلعہ تک بھی پہنچا اور قلعہ کا چھ ماہ تک محاصرہ کیا جبکہ قلعہ کے اندر راشن پانی وغیرہ سب ختم ہو گیا اور حالات انتہائی تکلیف دہ ہو گئے ایک دن ملک قطب الدین حسن نے صرف ایک لوٹہ پانی کے ساتھ وضو کیا اور پانی کی کمیابی کی وجہ سے وضو کے پانی کو ایک برتن میں جمع کرکے خواجہ رکن الدین کے گھوڑے کو پلایا اس صورت حال سے مجبور ہوکر لوگ آپ کے پاس جمع ہوئے اور بارش کے لیے اللہ سے دعا کی التجاء کی آپ نے دست نیاز بلند کی اور دعا کے ختم ہوتے ہی باران رحمت شروع ہو گئی اور لوگ سیر آب ہو گئے حالانکہ یہ موسم بارش کا نہیں تھا یہ دیکھ کر تاتاری لشکر کو مایوسی ہوئی اور وہ محاصرہ ختم کرکے واپس چلے گئے، کچھ مدت قیام کے بعد خواجہ رکن الدین حسین رحمت اللہ علیہ واپس بطرف چست روانہ ہو گئے اور جب آپ تولک کے مقام پر پہنچے تو آپ نے اپنے صاحب زادوں کو قلعہ سے کچھ میوہ جات لانے کے لیے روانہ کیا جب صاحبزادے قلعہ کے قریب پہنچے تو اچانک وہاں تاتاری سپاہی آگئے ، حضرت قدودین خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ درختوں کے پیچھے چھپ گئے اور حضرت خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علیہ گرفتار ہو گئے اور سپاہی ان کو اپنے حاکم کے پاس لے گئے وہاں دربار میں ان کے ایک جدی معتقد خواجہ نصر الدین طوسی رحمت اللہ علیہ موجود تھے جن کا تاتاری حکمران بڑی عزت کرتے تھے، جب خواجہ نصر الدین طوسی رحمت اللہ علیہ نے خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علیہ کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے اور ان کو رہا کروانے کی ترکیب سوچنے لگے خواجہ نصر الدین طوسی رحمت اللہ علیہ نے تاتاری حاکم کے سامنے آپ کے کرامات اور خاندان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا صرف حاکم سے یہ کہا کہ یہ لو گوں کو کھانا کہلاتے ہیں تاتاری حاکم نے سوال کیا اپنے لوگوں کو کھانا کہلاتے ہیں خواجہ نصر الدین طوسی رحمت اللہ علیہ نے جواب دیا نہیں یہ سب کو کھانا کہلاتے ہیں جو بھی جاوئے یہ سن کر کہا ایسا کوئی تو ہے جو بیگانوں کو بھی کھانا کہلاتے ہیں ، اس طرح تاتاری حاکم نے خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علیہ کو رہا کر دیا ، افغانستان میں موجود ہزارہ جات اپنے آپ کو انہی سپاہیوں کی نسل بتا تے ہیں اور انہی کی نسل پاکستان کے شہر کوئٹہ کے مقام مری آباد اور بمقام کرانی بڑی تعداد میں آباد ہیں یہ عجیب بات ہے کہ یہی لوگ خاندان سادات مو دودیہ کے طفیل مشرف بہ اسلام ہوئے اور انہی کی نسل جب افغانستان پر روسی جارحیت کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آئی تو ان کو پناہ بھی حضرت خواجہ ولی رحمت اللہ علیہ کے دامن میں بمقام کرانی ملی حضرت خواجہ ولیؒ جو حضرت خواجہ مودود چشت رحمت اللہ علیہ کے پسری اولاد ہیں، ان خواجگان چشت کو خواجگان کل بھی کہتے ہیں یعنی انھوں نے عوام الناس کی خدمت قبول کرلی اور اپنے خط کے ساتھ (خادم خلائق اجمعین ) لکھتے تھے، جب خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ مزارات متبرکہ چشت شریف پہنچے تو پایا کہ اکثر عزیزو اقارب تاتاری فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے تھے اور جو بچ گئے تھے وہ نہایت پریشان حال تھے، آپ نے سب کو یکجا کیا اور تسلی دی، منقول ہے لشکر کفار جب بھی مزارات مبارکہ کے پاس سے گزرتی تو ان میں سے اکثر خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں اسلام لاتے اس طرح ہزاروں فو جی مشرف بہ اسلام ہوئے اور یہ سلسلہ جاری رہا، منقول ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کی ظالم تاتاری خواجہ گان چشت کے گھوڑوں کے سموں پہ بوسہ دیتے ہوئے پائے گئے، خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علیہ تاتاری قید سے رہا ہو کر جب چشت پہنچے تو خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ نے ان کو ہندوستان جانے کا حکم دیا اور خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علیہ ہندوستان روانہ ہو گئے اور قد و دین خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ کے حیات ہی میں سن 624ھ کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، حضرت قد و دین خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ کے پس ماندگان میں ایک بیٹا جن کا نام حضرت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد تھا رہا، چنانچہ خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ کو ہمیشہ اپنے جگر گوشوں کی جدائی کا غم رہا اور 635ھ رمضان المبارک میں 90 برس کی عمر میں اس دنیا سے رحلت فرما گئے-[1]
شجرہ جات
ترمیمشجرہ
ترمیم- سید امام حسین علیہ السلام (4ہجری 60 ہجری)
- سید امام زین العابدین علیہ السلام (ہجری 94 ہجری)
- سید امام محمد باقر علیہ السلام (ہجری 114ہجری)
- سید امام جعفر صادق علیہ السلام (80ہجری 148 ہجری)
- سید امام موسی کاظم علیہ السلام (128ہجری 183 ہجری)
- سید امام علی رضا علیہ السلام (153ہجری 203 ہجری)
- سید امام محمد تقی علیہ السلام (195ہجری 220ہجری)
- سید امام علی نقی علیہ السلام (214ہجری 254ہجری)
- سید حسن ؒاصغر رحمت اللہ علیہ
- سید عبدالله علی اکبر رحمت اللہ علیہ 238(ہجری 292ہجری)
- سیدابومحمدالحسین علیہ سلام (295ہجری 352 ہجری)
- سیدابوجعفرابراهیم رحمت اللہ علیہ (ہجری 370ہجری)
- سیدابو نصر محمد سمعان رحمت اللہ علیہ (ہجری 398ہجری)
- سید خواجه ابو یوسف ناصر الدین ایوسف چشتی رحمت اللہ علیہ (375ہجری 459 ہجری)
- سید خواجه قطب الدین مودود چشتی رحمت اللہ علیہ (430ہجری 527 ہجری)
- سید خواجه نجم الدین احمد مشتاق مودودی چستی چشت ہرات( 492ہجری 577 ہجری)
- سید خواجه رکن الدین مودودی چستی ( 545ہجری 635ہجری)
اولاد
ترمیم- سید خواجہ رکن الدین مودودی چستی ( 545ہجری 635ہجری)
- سید قدودین خواجہ محمد مودودی چستی ( 584ہجری 624 ہجری) بمطابق ( پیدائش 1188 ء وفات 1226 ء )
- سید خواجہ قطب دین محمد ابن خواجہ محمد مودودی چستی ( 602ہجری 680ہجری) بمطابق ( پیدائش 1205 ء وفات 1288ء )
- سید اودالدین خواجہ ابواحمد سید محمد مودودی چستی ( 635ہجری 710ہجری) بمطابق ( پیدائش 1237 ء وفات 1307ء )
- سید تقی الدین خواجہ یوسف مودودی چستی ( 662ہجری 745ہجری) بمطابق ( پیدائش 1263 ء وفات 1353 ء )
- سید نصرالدین خواجہ ولید مودودی چستی ( 727ہجری 820 ہجری) بمطابق (پیدائش 1326 ء وفات 1417 ء)
- سید خواجہ نقرالد ین چشتی مودودی المعروف شال پیر بابا تقریباﹰدور حیات ( 1421ء )
- سیدخواجہ ولی مودودی چستی کرانی رحمت اللہ عليہ تقریباﹰدور حیات ( 1470 ء)
- سید خواجہ میر شہداد مودودی چشتی کرانی تقریباﹰدور حیات (1519 ء )
- سید قاسم شاہ مودودی چشتی کرانی تقریباﹰدور حیات ( 1558 ء) [2]
حوالہ جات بیرون
ترمیمحوالہ جات کتب
ترمیم- [2] Chishti Tariqa
- [3]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ soofie.org.za (Error: unknown archive URL) Soofie(Sufi)
- [4] Chishti Order
- [5]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iranibook.com (Error: unknown archive URL) خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامه هاي مشايخ چشتيه
- [6] طريقۀ چشتيه در هند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقه به فرهنگهاى اسلامى و ايرانى
- ( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری )
- تذکرہ سید مودودی ادارہ معارف اسلامی لاہور
- سیر ال اولیاء
- مرا تہ الاسرار
- تاریخ مشائخ چشت
- سفینہ ال عارفین
- تذکرہ غوث و قطب
- شجرہ موروثی سادات کرانی