فریڈریک نیچہ
فریڈریک نیچہ (1900-1844) انیسویں صدی کے جرمن فلسفی، نثری شاعر، ثقافتی تجزیہ نگار، زبان دان اور موسیقار تھے جن کے کام نے جدید فلسفہ پر زبردست اثر ڈالا۔ اس کے خیال میں طاقت ہی انسانی معاملات میں فیصلہ کن عنصر ہے۔ اس نے فوق البشر (Superman) کے تصور کو آگے بڑھایا۔
نیچہ کی تشکیل
ترمیمنیچہ 15 اکتوبر 1844ء کو روکن پرشیا مں پیدا ہوا۔ پرشیا فوجی اور سیاسی لحاظ ایک طاقتور ریاست بنتا جا رہا تھا۔ آسٹریا کو وہ جرمن معاملات سے علاحدہ کر چکا تھا۔ 1871ء میں پرشیا نے نپولین کی فتوحات کے نشے میں چور فرانس کو بد ترین شکست دی اور ورسائی پیرس کے مقام پر تمام چھوٹی چھوٹی جرمن ریاستوں کو متحد کر کے جرمن سلطنت کی بنیاد رکھی۔ نیچہ اس ابھرتی ہوئی طاقتور جرمن سلطنت کی آواز بن گيا۔
نظریات
ترمیمدلچسپ باتیں
ترمیمتصانیف
ترمیمFriedrich Nietzsche The Birth of Tragedy (1872)
On Truth and Lies in a Nonmoral Sense (1873)
Philosophy in the Tragic Age of the Greeks (1873)
Untimely Meditations (1876)
Human, All Too Human (1878)
The Dawn (1881)
The Gay Science (1882)
Thus Spoke Zarathustra (1883)
Beyond Good and Evil (1886)
On the Genealogy of Morality (1887)
The Case of Wagner (1888)
Twilight of the Idols (1888)
The Antichrist (1888)
Ecce Homo (1888; first published in 1908)
Nietzsche contra Wagner (1888)
The Will to Power (various unpublished manuscripts edited by his sister Elisabeth; not recognized as a unified work after ca 1960)
نیچہ اور اقبال
ترمیمفریڈرک ولہیم نیچہ ۔ جرمن فلسفی‘ شاعر‘ موسیقار‘ ثقافتی نقاد اور ماہر لسانیات۔ اس کے فلسفہ قوت اور نظریہ فوق البشر کو جدید یورپ میں بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے تصورِ مومن شاید اسی کے تصورِ فوق البشر سے مستعار لیا تھا‘ جو سراسر غلط ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک مکتوب بنام نکلسن میں اپنے تصورات کو واضح کر دیا تھا۔ علامہ اقبال نے نطشے کے منفی اور مثبت دونوں پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ نطشے کے بہت سے خیالات اسلامی تعلیمات سے مشابہ تھے لیکن وہ خدا کی ذات کا منکر تھا۔ جس کی وجہ سے اقبال نے اس کو ’قلبِ او مومن دماغش کافر است‘ کہا۔ [13]
اقبال کے نزدیک نطشے کی واردات کچھ ایسی ہی واردات تھی۔ اسے ذات انسانی میں الوہیت کی ایک جھلک تو نظر آئی لیکن وہ اس کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہا، جس کی وجہ تھی اس کی مادہ پرستی۔ بایں ہمہ اقبال کے نزدیک اس کے ذوق طلب کا جو عالم تھا یہ:
نہ جبریلے ، نہ فردوسے ، نہ حورے ، نے خداوندے
کفِ خاکے کہ می سوزد ز جانِ آرزو مندے13؎
یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے یہاں نطشے کی قدردانی ہمدردی کی قدردانی ہے اخذ و اکتساب یا اثر پذیری کی قدردانی نہیں۔ اقبال کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نطشے کو کوئی ایسا رہنما نہ ملا جو اس کے واردات قلب اور افکارِ دماغ کی تربیت کرتا۔ وہ بڑا ذہین و فطین اور غیر معمولی قابلیتوں کا انسان تھا۔ ایک عظیم نابغہ جو اپنے دور کی مادیت پرستی کا شکار ہو گیا۔ اقبال کے نزدیک نطشے کا معاملہ ایک ایسے مریض کا معاملہ ہے جس کا مداوا اطبا کی بجائے کوئی صاحب نظر انسان ہی کرسکتا تھا۔ وہ اگر زندہ ہوتا تو شاید اقبال خود بھی اس کی رہبری کرتا:
اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے؎
لیکن یہ جو کچھ عرض کیا جارہا ہے اس لیے کہ اقبال اور نطشے کے ذہنی روابط کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا گیا بڑا غلط بلکہ سر تا سر غلط ہے، چغل فہمی اور غلط بیانی پر مبنی جس کی ذمہ داری اقبال کے انگریز ناقدین اور اپنے اہل وطن کی خود اپنی روایات سے بے خبری پر عائد ہوتی ہے۔ بہرحال اس غلط بیانی اور غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال اور نطشے کے خیالات میں جو سطحی مشابہت ہے اور وہ بھی صرف ایک پہلو سے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی تاآنکہ لوگ بھول گئے کہ یورپ میں اقبال کا ہم نوا فی الحقیقت کون ہے۔ انھوں نے گوئٹے کو نظر انداز کر دیا اور التفات کیا تو نطشے کے فوق البشر سے۔ ایک روز یہی ذکر تھا۔ فرمایا میرے کم نظر ناقدین اس سطحی مشابہت کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ میں نے اگر نطشے کے بعض خیالات کو ہمدردی کی نگاہوں سے دیکھا یا اسرارِ خودی میں کوئی ایسی حکایت لے آیا جس کی مثال نطشے کے یہاں موجود ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نطشے سے متفق الرائے ہوں یا میں نے اپنے خیالات اس سے اخذ کیے۔ ایک صاحب فن کا حق ہے جس حکایت کو جس مطلب کے لیے چاہے استعمال کرے
مذہبی تاریخ میں سطحی مشابہت حق پرستی اور فریب پرستی کے فریقین کو فارق کرنے کے لیے ضروری ہے اسی لیے انسانیت کا آخری نجات دہندہ اقبال کے قانونی اور اجتہادی پہلو کا شجر ہوگا نہ کہ شاعرانہ جدیدیت جو دراصل ایک بے لوث حکیمانہ خضری فلاحی اقدام ہے جس کا مقصد مشرقی موسویت اور جرمن حلاجیت کا اجماع ہے تاکہ انسانیت یکسو ہو کر انوار توحید و تکریم سے لطف اندوز ہو سکے
وفات
ترمیمنظشے کی وفات 25 اگست 1900ء ہے۔ الحاد کی تاریخ
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118587943 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اپریل 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118587943 — اخذ شدہ بتاریخ: 24 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/1369/ — اخذ شدہ بتاریخ: 14 فروری 2021
- ↑ abART person ID: https://cs.isabart.org/person/15739 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118587943 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اگست 2024
- ↑ عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11917712p — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/7943267
- ↑ مصنف: نطشے — عنوان : Götzen-Dämmerung oder wie man mit dem Hammer philosophirt — اقتباس: Достоевский — единственный психолог, кстати говоря, от которого я многому научился; он принадлежит к прекраснейшим случайностям моей жизни, к лучшим даже, чем, например, открытие Стендаля.
- ↑ http://anthropology.ru/ru/text/percev-av/fnicshe-dela-semeynye
- ↑ http://www.nietzsche.ru/biograf/litera/niet-gercen/
- ↑ http://virlib.eunnet.net/sofia/06-2003/text/0613.html
- ↑ (تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)