قصیدہ بردہ (عربی:قصيدة البردة) جس کا مختصر نام قصیدہ میمیہ اورپورا نام قصیدۃ الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ ہے۔ یہ کلام شرف الدین بوصیری کا ایک شاعرانہ کلام ہے جو انھوں نے حضرت محمد ﷺ کی مدح سرائی میں لکھا۔

اونی کپڑے کی دھاری دار چادر جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوڑھا کرتے تھے اس قسم کی ایک چادر خصوصی شہرت کی حامل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب کو ان کے ایک قصیدے پر بطور انعام عطا فرمائی تھی بعد میں حاکم شام معاویہ نے یہ چادر حضرت کعب کے بیٹے سے خرید کر محفوظ کر لی ،خلفائے بنو امیہ کے بعد بنو عباس کے خلفاء کے خزانہ میں بھی محفوظ رہی ۔ ہلاکو خان کے قبضہ بغداد کے بعد یہ وہاں موجود نہ رہی بعض روایا ت کے مطابق اسے قسطنطنیہ منتقل کر دیا گیا جہاں آج بھی محفوظ ہے۔

امام بوصیری کے مشہور قصیدے کا نام بھی بردہ ہے اور اسے قصیدہ بردہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بوصیری کی حالت خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی یہ چادرمبارک بوصیری کے شانوں پر ڈال دی تھی اور جب بوصیری بیدار ہوئے تو چادر ان کے شانوں پر موجود تھی۔ بوصیری مفلوج تھے لیکن اس چادر کے اوڑھنے کے بعد وہ معجزانہ طور پر شفا یاب ہو گئے چنانچہ انھوں نے یہ قصیدہ کہا۔ عربی کی کسی اور نظم کو اتنی شہرت حاصل نہیں ہو سکی جتنی قصیدہ بردہ کو ہے آج بھی اسے ردآفات کے طور پر پڑھا جاتا ہے اس کی نوے سے زائد شرحیں مختلف زبانوں میں لکھی جاچکی ہیں۔

اس قصیدے کا پورا نام ‘ الکوکب الدریہ فی مدح خیر البریہ ‘ ہے لیکن ‘ البردۃ ‘ کے نام سے مشہور ہے۔

امام بوصیری جو مصر کے معروف صوفی شاعر شرف الدین ابو عبد اللہ محمد بن سعید بن حماد بن محسن بن عبد اللہ الصنہاجی،البوصیری (694ھ-608ھ) مقام بھشیم میں پیداہوئے، دلاص میں پرورش پائی اور اسکندریہ میں آپ کا وصال ہوا۔[1] نے تحریر فرمایا۔ آپ کی تحریر کردہ یہ شاعری پوری اسلامی دنیا میں نہایت معروف ہے۔

مقبولیت

ترمیم

تصوف اور ولیوں کے ماننے والے مسلمانوں نے شروع ہی سے اس کلام کو بے حد عزت و توقیر دی۔ اس کلام کو حفظ کیا جاتا ہے اور مذہبی مجالس و محافل میں پڑھا جاتا ہے اور اس کے اشعار عوامی شہرت کی حامل عمارتوں میں مسجدوں میں خوبصورت خطاطی میں لکھے جاتے ہیں۔ کچھ مسلمانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر قصیدہ بردہ شریف سچی محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ بیماریوں سے بچاتا ہے اور دلوں کو پاک کرتا ہے۔ اب تک اس کلام کی نوے (90) سے زائد تشریحات تحریر کی جاچکی ہیں اور اس کے تراجم فارسی، اردو، ترکی، بربر، پنجابی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، سندھی و دیگر بہت سے زبانوں میں کیے جا چکے ہیں۔[2]

مقالات بسلسلۂ
محمد
محمد
 
باب محمد


 
اسکندریہ میں البوصیری کے مزار کی دیوار پر آویزاں قصیدہ البردہ کا ایک شعر

طرزِ تحریر

ترمیم

مولاي صلــــي وسلــــم دائمـــاً أبــــدا علـــى حبيبــــك خيــر الخلق كلهـم
أمن تذكــــــر جيــــــرانٍ بذى ســــــلم مزجت دمعا جَرَى من مقلةٍ بـــــدم
َمْ هبَّــــت الريـــــحُ مِنْ تلقاءِ كاظمــةٍ
وأَومض البرق في الظَّلْماءِ من إِضم
فما لعينيك إن قلت اكْفُفاهمتـــــــــــــــا
وما لقلبك إن قلت استفق يهـــــــــم
أيحسب الصب أن الحب منكتـــــــــــم
ما بين منسجم منه ومضطــــــــرم
لولا الهوى لم ترق دمعاً على طـــــللٍ
ولا أرقت لذكر البانِ والعلــــــــــمِ
فكيف تنكر حباً بعد ما شـــــــــــــهدت
به عليك عدول الدمع والســـــــــقمِ
وأثبت الوجد خطَّيْ عبرةٍ وضــــــــنى
مثل البهار على خديك والعنــــــــم
نعم سرى طيف من أهوى فأرقنـــــــي
والحب يعترض اللذات بالألــــــــمِ
يا لائمي في الهوى العذري معـــــذرة
مني إليك ولو أنصفت لم تلــــــــــمِ
عدتك حالي لا سري بمســــــــــــــتتر
عن الوشاة ولا دائي بمنحســـــــــم
محضتني النصح لكن لست أســـــمعهُ
إن المحب عن العذال في صــــــممِ
إنى اتهمت نصيح الشيب في عـــــذلي
والشيب أبعد في نصح عن التهـــتـمِ


تراجم

ترمیم

قصیدہ بردہ شریف کا حال ہی میں کھوار زبان میں ترجمہ شایع ہو چکا ہے جسے کھوار شاعر محمد عرفان نے ترجمہ کیا ہے-

حوالہ جات

ترمیم
  1. معجم المؤلفین،ج3،ص317،الاعلام للزرکلی،ج6،ص139
  2. شرح قصیدہ بردہ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی،مکتبہ دانیال لاہور

<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:قصائد"/>