باب:محمد
محمد ﷺ (570ء-632ء) دنیاوی تاریخ میں اہم ترین شخصیت کے طور پرنمودار ہوئے اور انکی یہ خصوصیت عالمی طور (مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں جانب) مصدقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءاکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جنکو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلیۓ دنیا میں بھیجا۔ دائرۃ المعارف بریطانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ انکا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال انکی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب انکی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ آمنہ بنت وہب بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت اللعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ نبوت کے اظہار سے قبل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القابات سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ سلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام انسان کو پہنچایا وہ یہ ہے
|
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔ |
امّ المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو اجازت دو، یہ اپنے کنبے میں ایک بُرا شخص ہے۔ جب وہ اندر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے نرمی سے باتیں کیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو اس کو ایسا فرمایا تھا، پھر اس سے نرمی سے باتیں کیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! بُرا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت میں وہ ہو گا جس کو لوگ اس کی بدگمانی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔( ١٧٨٩ صحیح مسلم) |
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ.
|
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی |
سیدنا ابو ہریرہ کا فرمان ہے:
|
|
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہت سے محیر العقل واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے، بچپن میں اورنبوت کے بعد بھی رونما ہوئے۔ ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے درپیش آئیں” ارھاصات“ کہلاتے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ملتا ہے کہ اُن کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے اُن کا دل دھویا تھا۔ |
|
|