پاناما دستاویزات
پانامہ دستاویزات 11.5 ملین خفیہ کاغذات ہیں جسے قانونی مشاورتی کمپنی موساک فونسکا (انگریزی: Mossack Fonseca) نے بنایا تھا۔ یہ کمپنی پانامہ میں قائم ہوئی اور اس کے پوری دنیا میں 40 کے قریب دفاتر ہیں۔ یہ فرم دنیا کی چوتھی بڑی قانونی فرم ہے اور اس کی وجہ شہرت بڑی بڑی شخصیات کے اثاثے چھپانے اور ٹیکس چوری میں مدد دینا ہے۔
پاناما دستاویزیں Panama Papers | |
---|---|
ممالک جن کے لوگوں کا نام ان دستاویزات میں ہے | |
تفصیل | جاری شدہ 11.5 ملین دستاویزات (2.6 ٹیرا بائٹس)[2] |
کاغذات کی تاریخ | 1970 کی دہائی – 2016[2] |
جاری کرنے کا عرصہ | اپریل 2016[2] |
بنیادی ناشر | زیتوشے زائتونگ, International Consortium of Investigative Journalists |
متعلقہ مضامین | پاناما دستاویزات میں مذکور شخصیات |
دفتری ویب گاہ | panamapapers.de panamapapers.icij.org panamapapers.sueddeutsche.de/en/ |
پس منظر
ترمیم2015ء میں ایک جرمن اخبار زیتوشے زائتونگ سے ایک نامعلوم شخص نے رابطہ کیا اور اسے "موزیک فونیسکا" نامی مشہور لا فرم کے انتہائی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش کی۔ جرمن اخبار نے یہ تمام ڈاکومنٹس " انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس" (ICIJ) کے حوالے کر دیے جو اس سے قبل اسی اخبار کے ساتھ آف شور لیکس، لکس لیکس اور سوئس لیکس پر کام کر چکا تھا۔
ان پیپرز کے لیے کی گئی تحقیقات میں گذشتہ 12 مہینے کے دوران 100 صحافتی تنظیموں سے اور 80 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 400 کے قریب صحافیوں نے حصہ لیا۔
یہ تحقیقات عالمی سطح پر اس نوعیت کے تعاون کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔
ان میں بی بی سی کی ٹیم، برطانوی اخبار گارڈین، فرانسیسی اخبار لا موند، ارجنٹائن کے اخبار لا نیسیون شامل ہیں۔
اس تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم کا پہلا اجلاس واشنگٹن، میونخ، لندن اور للہیمر میں ہوا جس میں تحقیق کے دائرۂ کار کا تعین کیا گیا۔
پورا ایک سال ان ڈاکومنٹس پر تحقیق کی اور بالآخر پتہ چلا لیا کہ وہ تمام ڈاکومنٹس بالکل اصلی اور درست تھے۔[3]
تحقیق کا طریقۂ کار
ترمیمموساک فونسیکا نے ہر شیل کمپنی کے لیے ایک فولڈر بنایا ہوا تھا جس میں کمپنی کی ای میلز، رابطے، بات چیت، ٹھیکے اور ان کی سکین شدہ دستاویزات شامل تھیں۔ سب سے پہلے تحقیق کاروں نے سارے ڈیٹا کو بہترین کارکردگی والے کمپیوٹروں پر چڑھایا جس کے نتیجے میں فائلوں کو پڑھنے میں آسانی ملی اور انھیں ترتیب دیا گیا جس کے نتیجے میں صحافیوں کو اس سارے ڈیٹا کو گوگل کی سرچ کی طرح کھنگالنے میں مدد ملی۔
چند منٹوں میں سارے ڈیٹا کو سدھارنے کے بعد اس پر تحقیق کا کام شروع ہوا جس میں ہر سامنے آنے والے نام کے بارے میں سوالات سامنے لائے گئے کہ ان کمپنیوں میں اس فرد کا کیا کردار ہے؟ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ کیا سٹرکچر قانونی ہے؟
عمومی طور پر آف شور کمپنی رکھنا غیر قانونی نہیں ہے بلکہ آف شور کمپنیاں بنانے کو بڑے پیمانے پر کاروباری سودے کرنے کی جانب قدم سمجھا جاتا ہے۔[3]
اجرا
ترمیمجرمن اخبار نے اس پورے ڈیٹا کا خلاصہ رپورٹ کی شکل میں اپریل 2016ء کو جاری کر دیا اور اسے "پانامہ پیپرز لیک" کا نام دیا۔ اس وقت تک ہونے والے تمام لیکس میں یہ تاریخ کا سب سے بڑا لیک تھا جس میں تقریباً سوا کروڑ ڈاکومنٹس ہیں جس کا حجم 2 اعشاریہ 6 ٹیرا بائیٹس ہے۔ اس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔
ان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام ہیں بشمول ان آمروں کے جن پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں۔
ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاست دانوں کے 60 کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔
فائلز میں روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔
فائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔
ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک لکھ پتی کو جعلی ملکیتی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔[4]
آئی سی آئی جے کے ڈائریکٹر جیرارڈ رائل کہتے ہیں کہ یہ دستاویزات پچھلے 40 برسوں میں موساک فونسیکا کی روزمرہ کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا: ’میرے خیال سے یہ انکشافات ’آف شور‘ دنیا کو پہنچنے والا سب سے بڑا صدمہ ثابت ہوں گے۔[5]
تقابلی جائزہ
ترمیمپاناما دستاویزات کے ڈیٹا کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وکی لیکس کی سفارتی کیبلز، آف شور لیکس، لکس لیکس، سوئس لیکس کے سارے ڈیٹا سے زیادہ ہے جس میں 4804618 ای میلز، 3047306 ڈیٹا بیس کی اقسام، 2154264 پی ڈی ایف فائلیں، 1117026 تصاویر، 320166 تحریری دستاویزات اور 2242 دیگرجس میں موساک فونسیکا کے اندرونی ڈیٹا بیس کا حصہ بھی شامل ہے جو 1970ء سے 2016ء تک پھیلا ہوا ہے۔
- وکی لیکس کی سفارتی کیبلز (2010ء) ایک اعشاریہ سات گیگا بائٹس
- آف شور لیکس (2013ء) دو سو ساٹھ گیگا بائٹس
- لکس لیکس (2014ء) چار گیگا بائٹس
- سوئس لیکس (2016ء) تین اعشاریہ تین گیگا بائٹس
- پاناما دستاویزیں (2016ء) دو اعشاریہ چھ ٹیرا بائٹس [3]
شکوک و شبہات
ترمیماس تمام دستاویزات میں کسی بھی امریکی شخص کا نام نہیں ہے حالانکہ امریکا میں سالانہ اربوں ڈالر محصول چوری ہوتا ہے۔ یہ بات ان سارے معاملات پر سوالیہ نشان ہے۔ دیگر یہ جس نامعلوم شخص نے اتنا زیادہ ڈیٹا مہیا کیا ہے اس شخص نے اس کے عوض کچھ مالی فائدہ طلب نہیں کیا محض اپنی حفاظت پر اپنے تحفظات بیان کر کے ضمانت لی تھی۔[3]
دوسری قسط
ترمیم9 مئی 2016ء کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس کی جانب سے پاناما پیپرز کی دوسری قسط جاری کی گئی جس میں مزید دو لاکھ آف شور کمپنیوں میں امرا کی دولت کی تفصیلات موجود تھیں۔[6]
9 مئی بروز پیر کی شب انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس یعنی آئی سی آئی جے موساک فونسیکا کے لیک کی جانے والی دستاویزات کی مزید تفصیل گرینویج کے معیاری وقت کے مطابق شام چھ بجے شائع کی گئیں۔
ان دستاویزات میں تقریباً دو سو پاکستانی سیاست دانوں، تاجروں اور دیگر افراد کے نام بھی شامل ہیں۔ آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ پر شائع کیے جانے والے ڈیٹا میں تین پاکستانی آف شور کمپنیاں اور 150 سے زائد پاکستانیوں کے پتے شامل تھے۔
یہ دستاویزات offshoreleaks.icij.org پر دستیاب ہیں۔[7]
ممالک جن کے لوگوں کا نام ان دستاویزات میں ہیں
ترمیم- الجزائر
- انڈورا
- انگولا
- ارجنٹائن
- آسٹریلیا
- آذربائیجان
- بلجئیم
- بیلیز
- بوٹسوانا
- برازیل
- برونڈی
- کمبوڈیا
- چلی
- چین
- کولمبیا
- جمہوریہ کانگو
- جمہوری جمہوریہ کانگو
- ایکواڈور
- مصر
- فرانس
- جارجیا
- گھانا
- یونان
- جمہوریہ گنی
- ہونڈوراس
- مجارستان
- آئس لینڈ
- بھارت
- عراق
- جمہوریہ آئرلینڈ
- اسرائیل
- اطالیہ
- آئیوری کوسٹ
- اردن
- قازقستان
- کینیا
- لکسمبرگ
- ملائیشیا
- مالٹا
- مالدووا
- المغرب
- نیوزی لینڈ
- نائجیریا
- شمالی کوریا
- پاکستان
- فلسطین
- پاناما
- پیرو
- فلپائن
- پولینڈ
- قطر
- روس
- سعودی عرب
- سینیگال
- جنوبی افریقا
- جنوبی کوریا
- ہسپانیہ
- سوڈان
- سویڈن
- سویٹزرلینڈ
- سوریہ
- تائیوان
- یوکرین
- متحدہ عرب امارات
- مملکت متحدہ
- ریاستہائے متحدہ
- یوراگوئے
- وینیزویلا
- زیمبیا
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑
- ^ ا ب پ Frederik Obermaier، Bastian Obermayer، Vanessa Wormer، Wolfgang Jaschensky (April 3, 2016)۔ "About the Panama Papers"۔ زیتوشے زائتونگ۔ 2016-04-03 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 3, 2016
- ^ ا ب پ ت بی بی سی اردو
- ↑ بی بی سی اردو - پاناما پیپرز کیا ہیں؟
- ↑ "بی بی سی - پاناما ٹیکس لیکس پر رد عمل"۔ 08 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اپریل 2016
- ↑ پانامالیکس : دوسری قسط کے سارے نام سامنے آگئے | Daily Jang | Latest National News
- ↑ بی بی سی اردو- پاناما لیکس، مزید دو لاکھ آف شور کمپنیوں کی تفصیل جاری
بیرونی روابط
ترمیم- Panama Papers Portal of انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (USA)
- Panama Papers Portal of زیتوشے زائتونگ (Germany)