پاک بحریہ (Pakistan Navy) پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ ہے۔ پاک بحریہ (اردو: پاکستان بحریہ۔ Pɑkistan Bahri'a) (نام رپورٹنگ: PN) پاکستان کی دفاعی افواج کے بحری جنگ وجدل کی شاخ ہے۔ یہ پاکستان کی 1,046 کلومیٹر (650 میل) لمبی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب اور اہم شہری بندرگاہوں اور فوجی اڈوں کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاک بحریہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد وجود میں آئی اور ایڈمرل کلیم شوکت موجودہ سربراہ ہيں۔ بحری دن 8 ستمبر 1965ء کو پاک بھارت جنگ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پاک بحریہ پاکستان کی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت ميں ملکی اور غیر ملکی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ پاکستان کے دفاع کے لیے پاک بحریہ کا موجودہ اور بنیادی کردار ہے۔ اکیسویں صدی میں پاک بحریہ نے محدود بیرون ملک آپريشنز کیے اور پاکستان انترکٹک پروگرام کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے ۔ پاک بحریہ جدت و توسیع کے مراحل سے گذر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے۔ 2001ء سے پاک بحریہ نے اپنی آپریشنل گنجائش کو بڑھایا اور عالمی دہشت گردی، منشیات سمگلنگ اور قزاقی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داری میں تيزی لائی۔ 2004 میں پاکستان نیٹو مشترکہ ٹاسک فورس CTF-150 کا رکن بن گیا۔ پاکستان کے آئین کے تحت صدر پاکستان پاکستانی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف (CNS) جوکے چار ستارے والا ایڈمرل ہوتا ہے پاک بحریہ کا سربراہ ہوتا ہے جس کو وزیر اعظم پاکستان صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد مقرر کرتا ہے۔ چیف آف نيول اسٹاف سویلین وزیر دفاع اور سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہوتا ہے۔

پاک بحریہ
پاک بحریہ کا نشان
فعال15 اگست 1947ء – تا حال
ملک پاکستان
قسمبحریہ
کردارسمندری لڑائی و دفاع
حجم30,700 حاضر[1]
5,000 ريزرو[1]
63 ships
101 aircraft[2]
حصہوزراتِ دفاع
افواج پاکستان
نیول ہیڈکوارٹرنیول ہیڈکوارٹر، اسلام آباد
عرفیتپاک بحریہ (Pak Bahr'ya) or PN
نصب العینA Silent Force to Reckon With
Navy blue and White   
برسیاں8 ستمبر نیوی ڈے
معرکے
نشان رتبہMilitary and Civil decorations of Pakistan.
کمان دار
کمانڈر نچیفصدر پاکستان آصف علی زرداری
چیئرمین مشترکہ رؤسائے عملہ کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا
چیف آف نیول اسٹافایڈمرل نوید اشرف
وائس چیف آف نیول اسٹافوائس ایڈمرل اویس احمد بلگرامی
طغرا
Standard (flag) of the Navy
Naval Jack of Pakistan
Naval Ensign of Pakistan
Aircraft flown
بمبارڈسالٹ میراج 5
برقیاتی حربہاکر 800
ہیلی کاپٹرWestland Seaking, Aérospatiale SA-319B Alouette III, Harbin Z-9
گشتیLockheed P-3C Orion, Fokker F27-2000, Breguet Atlantique I, ATR-72-500

تاريخ

ترمیم

"آج پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے خاص کر ان لوگوں کے لیے جو بحریہ میں ہيں۔ مملکتِ پاکستان‎ اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی بحریہ، شاہی پاک بحریہ وجود میں آگئی ہے۔ مجھے فخر ہے کے مجھے اس کا سربراہ اور آپ کے ساتھ مل کر اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ میرا اور آپ کا فرض ہے کے آنے والے مہینوں میں اس بحریہ کو ہم ايک مستعد اور خوش باش بحریہ بنائيں" —بانی پاکستان محمد علی جناح کا مارچ 1948ءمیں پاکستان نيول اکیڈمی منوڑہ ميں خطاب—

پاک بحریہ 15 اگست 1947ءکو پاکستان کی ریاست کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ مسلح افواج کی ریکونسٹوشن کمیٹی نے شاہی ہندوستانی بحریہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا۔ شاہی پاک بحریہ کو دو سلوپ، دو فریگٹیس، چار مانیسویپر، دو بحری ٹرالرز، چار بندرگاہ لانچیز اور 358 اہلکار (180 افسران اور 34ريٹنگ) ملے۔ پاکستان کے ساحل پر ڈیلٹا کے علاقے زيادہ ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو بندرگاہ ڈیفنس موٹر لانچیز کی ایک بڑی تعداد بھی ملی۔ 1956ء میں پاکستان کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا اور دولت مشترکہ کے حصے کے طور پر "شاہی" کا لاحقہ ختم کرديا گیا۔ بحریہ کو ایک مشکل تاریخ سے گذرنا پڑا،بحریہ کو صرف 200 افسران اور 3000 سيلر ملے جن ميں کموڈور ايچ ايم ايس چوہدری سینئر ترین افسر تھے۔ بحریہ کو ناکافی عملے، آپریشنل اڈوں کی کمی اور ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ويسے بھی تکنیکی عملے، ساز و سامان اور افسران کے لحاظ سے فوج اور فضائیہ کے مقابلے ميں سب سے چھوٹی شاخ تھی۔ ان تمام مشکلات کے باوجود بحریہ نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا اور نوزائيدہ پاکستان میں ایک ہائی پروفائل بھرتی پروگرام کا آغاز کیا۔

آغاز

ترمیم
 
1951 ميں فريگيٹ شمشير

پاک بحریہ نے 1947 کی پاک بھارت جنگ میں حصہ نہيں ليا کيونکہ تمام لڑائی زمین تک محدودتھی۔ تاہم ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ جیفورد، چیف آف دی نيول سٹاف نے ایک" ہنگامی منصوبہ"(فریگٹیس اور بحری دفاع کو کام کرنے کے لیے مرحلہ)" بناليا تھا۔ 1948ء میں بحریہ میں بحری جاسوسی کے معملات کے یے ڈائریکٹوریٹ جنرل نيول انٹیل جنس (DGNI) کا محکمہ قائم کیا گیا تھا اور کمانڈر سید محمد احسن نے اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1947 ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد بحریہ نے اپنے اڈوں کی توسیع کا کام شروع کر دیا اور کراچی ميں نيول ہيڈکوارٹرز کا قيام عمل ميں لايا گيا۔ 1949 میں اپنا پہلا او کلاس تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہاز شاہی بحریہ سے خریدا ۔ پاک بحریہ کی آپریشنل تاریخ کا آغاز 1949 کو شاہی بحریہ کے دو عطیہ کردہ تباہ کن ( ڈيسٹرائر) بحری جہازوں پی اين ايس ٹیپو سلطان اور پی اين ايس طارق کے ساتھ ہوا۔ پی اين ايس طارق کی کمان لیفٹیننٹ کمانڈر افضل رحمان خان کو دی گئی جبکے پی اين ايس ٹیپو سلطان 30 ستمبر 1949 کو کمانڈر پی ايس ایونز کی کمان میں پاک بحریہ میں کميشن ہوا۔ ان دو جہازوں سے 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی تشکیل دی گئی۔ 1950ء میں بحریہ ميں قوميتی پروگرام کو فروخ ديا گيا، جس میں مقامی افسران کی بڑی تعداد ميں ترقی دی گئی۔ ڈاکيارڈ، لاجسٹکس اور انجینرنگ کے اڈوں کی تشکیل ہوئی، توانا کوششوں سے مشرقی پاکستان میں بحری موجودگی کو فروخ ديا گيا تاکے مشرقی پاکستان سے لوگوں کی بھرتی کے لیے مواقع پیدا ہوں۔ اس مدت کے دوران شاہی بحریہ کے افسران کی جگہ مقامی افسران کو خاص اور کلیدی عہدوں پے لگايا گيا۔ ریئر ایڈمرل جيمز وِلفریڈ جیفورد بحریہ کے پہلے سربراہ کے طور پر جبکہ کمانڈر خالد جمیل نے بحریہ کے پہلے پاکستانی نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1950 کی دہائی میں، وزارت خزانہ نے پاک فوج کی کور آف انجینئرز کو کراچی میں بحری ڈاکيارڈ اور نيول ہيڈکوارٹرز کی تعمیر کی زمہ داری سونپی۔ اس وقت کے دوران شاہی بحریہ کی سرپرستی میں بحریہ کے بحری جہازوں نے خیر سگالی مشنوں کی ایک بڑی تعداد ميں شرکت کی۔ پاک بحریہ کے بحری جہازوں نے دنیا بھر کا دورہ کیا۔ 1950 میں کموڈور چوہدری نے پی اين ايس مہران کی کمان سنبھالی۔ 1953ء میں وہ بحریہ کے پہلے پاکستانی سربراہ بن گئے۔ 25ويں تباہ کن( ڈيسٹرائر) سکواڈرن کی کمان کيپٹن رومولڈ نالیکز کی ٹیمانسک نے سنبھالی۔ رومولڈ نالیکز کی ٹیمانسک پاک بحریہ میں خدمات انجام دینے والے پہلے پولش افسر تھے۔

 
تباہ کن( ڈيسٹرائر) جہاز پی اين ايس بدر 1957 ميں برطانيہ کے دورے پر

1956ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر 1956 کا آئین پاکستان منظور کیا اور پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریہ قرار دیا۔ تب بحریہ کے نام سے "شاہی" کا لاحقہ ختم کرديا گیا اور پاک بحریہ یا "PN" نامزد کیا گیا اور نيول جیک میں ملکہ کے رنگ کی جگہ پاکستان کے پرچم کے سبز اور سفید رنگ نے لے لی۔ تینوں مسلح افواج کی سنيارٹی کی ترتیب بحریہ، فوج اور فضائیہ سے تبدیل کرکے فوج، بحریہ اور فضائیہ کردی گئی۔ فروری 1956ء میں برطانوی حکومت نے پاکستان کے ليے کئی اہم لڑاکا بحری جہازوں کا اعلان کیا۔ يہ جہاز ایک کروزر اور چار تباہ کن( ڈيسٹرائر), امریکی فوجی امدادی پروگرام کے تحت دستیاب فنڈز سے خریدے گئے۔ 1956ء سے 1963 کے درميان چند اضافی جہازوں کا حصول جن میں دو تباہ کن( ڈيسٹرائر)، آٹھ ساحلی مانیسویپرس اور ایک تيل ٹينکر جہاز، کمیونسٹ مخالف سمجھوتوں سیٹو اورسينٹو میں پاکستان کی شرکت کا براہ راست نتیجہ تھا۔ اس عرصے کے دوران بحریہ نے پہلی آبدوز حاصل کرنے کی کوشش تھی لیکن پاکستان میں بگڑتی ہوئی سیاسی صورت حال کی وجہ سے يہ کوشش ناکام ہو گئی۔

پاک بھارت جنگ 1965

ترمیم

بحریہ 1965ء کی جنگ کے وقت اچھی طرح تیار تھی۔ نيول چیف ایڈمرل افضل رحمان خان نے پاک بحریہ کے تمام لڑاکا یونٹس کو ساحل کے قريب دفاعی پوزیشن لینے کا حکم دیا، لیکن خلیج بنگال میں کسی جارحانہ کارروائی کا آرڈر نہیں دیا۔ ليکن جب بھارتی فضائیہ کی بار بار کی کارروائیوں سے پاک فضائیہ کے آپريشن متاثر ہونا شروع ہوئے تو بحریہ کو تنازعے میں ایک زیادہ جارحانہ کردار سنبھالنا پڑا۔ 2 ستمبر کو بحریہ کی پہلی طويل رينج آبدوز پی اين ايس/ايم غازی کو کموڈور نیازی کی کمان میں ہندوستانی بحریہ کی نقل و حرکت اور اجتماع پر نظر رکھنے اور انٹیلی جنس معلومات فراحم کرنے کيلئے تعینات کيا گيا۔ اسے ہدایت کی گئی کے بھارتی فريگيٹس، میزائیل کشتیاوں اور کورویٹٹیس کو مشغول کرنے کے علاوہ، طیارہ بردار جہاز وکرانت کی طرف سے درپیش خطرات سے بھی نپٹے۔ 7/8 ستمبر کی رات ایک پاکستانی سکواڈرن جو کے چار تباہ کن( ڈيسٹرائر) ایک فریگیٹ، ایک کروزر اور ایک آبدوز پہ مشتمل تھا نے کموڈور ایس ایم انور کے زیر کمان بھارتی فضائیہ کے دوارکا کے ساحلی قصبے ميں موجود ریڈار بيس پرحملہ کیا۔ یہ حملہ کامیابی تھی اور ریڈار تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا تھا- اور اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ کارروائی کے بعدسکواڈرن تیزی سے دوارکا سے نکل گيا ۔ آبدوز غازی بھارتی بحریہ کے بمبئی (ممبئی) ميں موجود مغربی بیڑے کے خلاف حرکت میں لائی گئی تھی۔ 22 ستمبر کو سونار سسٹم کے ذريعے لگاتار دو ہفتے پیچھا کرکے ہندوستانی فریگیٹ آئی اين ايس کوٹحر پے چار ہومنگ تارپیدو فائر کيے۔ دو تارپیدو ہندوستانی جہاز پے لگے ليکن وہ ڈوبا نہیں۔ 23 ستمبر کو، آبدوز غازی اپنے آپریشنز ختم کرکے کراچی روانہ ہو گئی۔ آپریشن دوارکا نے پاک بحریہ کا وقار بہت بڑھا ديا تھا۔ بھارتی بحری کمانڈروں نے پاک بحریہ کی طرف سے درپیش اہم خطرے اور اپنی بحریہ کی پاک بحریہ کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کو جانچ ليا تھا۔ ليکن جنگ کے بعد 1965 ء – 70 کے دوران ہندوستانی بحریہ کی آپریشنل صلاحیت پاک بحریہ کے مقابلے کئی گنا بڑھ گئی۔ پاکستان نے امریکا سے ٹینچ آبدوز اور فرانس سے تین ڈيفائن کلاس آبدوزيں حاصل کیں ،اس کے علاوہ بحری اسپیشل فورسز (کمانڈوز) 1966 میں قائم کی گئی۔ بحریہ نے بھی لڑاکا جیٹ طیاروں پرمشتمل ایک بحری ايويشن ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن فضائيہ نے کھلے سمندر کی کارروائیوں میں طیارے کھونے کے خطرے کے پيشِنظر اس کی مخالفت کی۔ بحری امور کی طرف سے اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کی بے اعتنائی کی وجوہ سے بحریہ کی آپریشنل کارکردگی مزید خراب ہوئی۔ 1970ء میں جنرل یحییٰ خان نے اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا جس سے قومی دفاع میں بحریہ کے کردار میں اضافہ ہوا۔

 
1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران آبدوز پی اين ايس/ايم غازی. یہ آبدوز پراسرار حالات میں اپنے 100 سيلروں اور افسروں سميت 1971 کی جنگ ميں ڈوب گئی تھی

پاک بھارت جنگ 1971

ترمیم

پاک بحریہ کی مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ مشرقی پاکستان میں کم نمائندگی اور خلیج بنگال میں جارحانہ کارروائیوں کيلئے صلاحيتوں کی کمی تھی۔ اس کا لڑاکا بحری بیڑے تقریباً مکمل طور پر (مغربی) پاکستان میں تعینات تھا۔ مشرقی پاکستان میں بحریہ نے بحری سپيشل سروس گروپ ( کمانڈوز) اور پاکستان مرینز کے کچھ دستے تعینات کيے۔ کراچی شہر جو پاکستان کی سمندری تجارت کا مرکز تھا میں پاک بحریہ کا ہیڈکوارٹر رکھا گيا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان میں بحری موجودگی بڑھانے کے لیے تجاویز پیش کی گئيں تھيں ليکن کوئی سنجیدہ اصلاحات نہيں کی گئيں۔ 15 مارچ 1971ء کو بحری سپيشل سروس گروپ ( کمانڈوز) نے مشرقی پاکستان میں ایک بھرپور انسداد دہشت گردی آپریشن کوڈ نام " آپریشن جيک پوٹ" اور اپريل میں "آپریشن بريسل" شروع کيا۔ اس کے بعد ہندوستانی بحریہ کی نقل و حرکت اور اجتماع پر نظر رکھنے اور انٹیلی جنس معلومات فراحم کرنے کيلئے آبدوز پی اين ايس/ايم غازی مشرقی پاکستان میں تعینات کی گئی۔

"مشرقی پاکستان کے بحران کے خاتمے کے وقت ہمارا يہ حال تھا کہ۔.. ہمارے (پاک بحریہ، مشرقی کمانڈ) پاس کوئی انٹیلی جنس نہيں تھی اور ہم ايک طرح سے بہرے اور اندھے تھے، بھارتی بحریہ اور بھارتی فضائیہ ہم پے دن رات بم برساتی تھی ..." — ایڈمرل محمد شریف کی 1971ء میں امریکی ایڈمرل زموالٹ سے گفتگو-

 
"پی اين ايس نازم، اس نے امريکی بحريہ ميں رہتے ہوئے بطور يو ايس ايس ولٹسی کوريا اور ويتنام کی جنگوں ميں حصہ ليا

1969 میں بحریہ کے سابق کمانڈر ایڈمرل سید محمد احسن کو مشرقی پاکستان بھیجا گیا اور وہاں پاکستانی مسلح افواج کمانڈر بنايا گیا۔ ان کی ہدايات کے تحت، مشرقی پاکستان میں بحریہ کی موجودگی کو تین گنا بڑھايا گیا۔ کمانڈسائز بحری اثاثہ جات بڑھاے گئے، مشرقی پاکستان میں ایک بحری انتظامی یونٹ بنايا گیا۔ مشرقی بحری کمانڈ ہندوستانی بحریہ کے لیے ایک بڑا خطرہ تھا۔ چنانچہ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے ایک آپریشن شروع کیا۔ پاک بحریہ کی پوری کوشش تھی کے بھارت کسی طرح خلیج بنگال بلاک نہ کرسکے۔ 4 دسمبر کو بھارتی بحریہ نے 3 OSA کلاس میزائل کشتیوں اور 2 آبدوز شکن بحری جہازوں کيساتھ "آپریشن ٹرائیڈينٹ" کا آغاز کیا۔ انھوں نے کراچی کی بندرگاہ کے قریب ایس ایس-اين-2 سٹائکس بحری جہاز شکن میزائل فائر کيے جس سے دفاع کيلئے فرسودہ پاکستانی بحریہ کے بحری جہازوں کے پاس کوئی قابل عمل انتظام موجود نہيں تھا۔ پاکستانی بحری جہاز پی اين ايس محافظ اور پی اين ايس خیبر تباہ ہو کر ڈوب گئے جبکہ پی اين ايس شاہ جہاں کو ناقابلِ مرمت حد تک نقصان پہنچا۔ یہ بھارتی بحریہ کے لیے ایک شاندار کامیابی تھی اس کے حملہ آور سکواڈرن کو کوئی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ 8 دسمبر 1971ء کو پاک بحریہ کی آبدوز "پی اين ايس/ايم ہنگور" نے بھارتی فریگیٹ "آئی اين ايس کھکری" کو بھارتی گجرات کے ساحل کے قریب تباہ کرديا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک آبدوزکے ایک لڑاکا جنگی بحری جہاز تباہ کرنے کا پہلا واقع تھا اور اس ميں بھارتی بحریہ کے 18 افسران اور 176سيلر مارے گئے۔ اسی آبدوز نے بھارتی بحری جہاز "آئی اين ايس کرپان" کو بھی بری طرح نقصان پہنچا۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی میزائل کشتیوں کے خطرے کے مقابلہے کے لیے ان کے اڈے اوکہا بندرگاہ پر بمباری کی کوششیں کی گئيں۔ ہندوستانی بحریہ نے 8 دسمبر 1971ء کی رات آپریشن پائيتون کے تحت پاکستانی ساحل پر جوابی حملہ کر دیا۔ ایک میزائل بوٹ اور دو فریگیٹس پر مشتمل بھارتی جہاز کراچی کے ساحل کے قریب پہنچے۔ انھوں نے بمباری کر کے پانامی بحری جہاز گلف سٹار ڈبو ديا جبکہ پاک بحریہ کے بحری جہاز پی اين ايس ڈھاکہ اور برطانوی بحری جہاز ایس ایس ہرمٹن کو نقصان پہنچايا جبکے کراچی بندرگاہ ميں کچھ تيل ڈپو بھی تباہ کيے۔ آپریشن پائيتون ہندوستانی بحریہ کے لیے مکمل کامیابی جبکے پاک بحریہ کے لیے ایک نفسیاتی صدما تھا۔ پاکستان انٹرنيشنل ائيرلائن کے سویلین ہوابازوں نے ہوائی نگرانی مشنز کے لیے پاک فضائیہ کو اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کيں لیکن اس سے کم فائدہ ہوا، انھوں نے پاک بحریہ کے فریگیٹ جہاز پی اين ايس ذو الفقار کی ایک ہندوستانی میزائل کشتی کے طور پر غلط نشان دہی کردی۔ پاک فضائیہ کے طیاروں نے پی اين ايس ذو الفقار کی سہی نشان دہی کرنے سے پہلے اس پے لگاتار حملے کيے۔ دوستانہ حملے کا نتیجہ یہ نکلا مزید نیوی کو اہلکاروں اور بحری جہازوں کا شدید نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پاک بحریہ کی آپریشنل صلاحیتيں اب عملی طور پر ناپید تھیں اور حوصلے ٹوٹ چکے تھے۔ بحری مبصرین نے کہا کہ پاک فضائیہ کے پائلٹ بحری آپریشنز ميں تربيت کی شديد کمی کی وجوہ سے "ایک بڑے فریگیٹ جہاز اور ایک چھوٹی Osa میزائل کشتی کے درمیان فرق پہچاننے میں ناکام رہے"۔ اس دوستانہ حملے کے بعد، تمام بحری آپریشنز بحریہ کے سربراہ کے احکامات کے تحت بند کر ديئے گئے۔ پاک بحریہ کی واحد طویل رینج آبدوز پی اين ايس/ايم غازی کو تعینات کیا گیا تھا لیکن غیر جانبدار ذرائع کے مطابق یہ راستے میں پراسرار حالات میں ڈوب گئی تھی۔ پاکستانی حکام کے مطابق يہ یا تو اندرونی دھماکے یا ان بارودی سرنگوں سے ٹکرا کر جو اس وقت يہ بچھا رہی تھی ڈوب گئی۔ ہندوستانی بحریہ بھی اس کو ڈبونے کا دعوہ کرتی ہے۔ اس آبدوز کی تباہی کے بعد بھارت نے خلیج بنگال کی ناکہ بندی کردی۔ دفاعی رسالے "پاکستان ڈيفينس جرنل" کے مطابق، کراچی، ڈھاکہ اور چٹاگانگ پر حملے اور آبدوز غازی کی تباہی کے بعد پاک بحریہ 1965 ء کی جنگ کی طرح ہندوستانی بحریہ کے خطرے کے مقابلہے کے کابل نہيں رہی تھی۔ ہندوستانی بحریہ اور فضائیہ کی طرف سے پاک بحریہ کو پہنچنے والے نقصان ميں سات گن بوٹس، ایک مائن سوئپر، دو تباہ کن( ڈيسٹرائر)، پاکستان کوسٹ گارڈ کی 3پيٹرول کرافٹ، 18 کارگو، رسد اور مواصلات والے بحری جہاز اس کے علاوہ ساحلی شہر کراچی کی بندرگاہ اور بحری اڈے ميں بھی بڑے پیمانے پر نقصان تھا۔ تین تجارتی بحری جہاز۔ انور بخش، پسنی اور مادھمیتھا اور دس چھوٹی کشتیياں قبضے ميں چلی گئی تھيں۔ نیوی کے 1900 اہلکار جاں بحق ہوئے جبکے 1413 ڈھاکہ میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے تھے۔ اس کے مقابلے ميں ہندوستانی بحریہ کو 18افسران 176سيلر دو فریگیٹ اور ایک بریگویٹ ايليز لڑاکا بحری ہوائی جہاز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ایک پاکستان اسکالر کے مطابق، پاک بحریہ نے جنگ میں اپنی قوت کا ایک تہائی گنوا ديا تھا۔ محدود وسائل اور افرادی قوت کے باوجود پاک بحریہ نے جانفشانی سے انٹر سروسز (فضائیہ اور فوج) کو اختتام تک معاونت فراہم کی۔ اس اس جنگ ميں ناکامی کی بنیادی وجوہ بحریہ کی مرکزی کمانڈ کی ناکامی تھی۔

سرد جنگ

ترمیم
 
آپریشن "ريسٹور ہوپ"کے دوران پاک بحريہ کی ڈيفنی کلاس آبدوز پی اين ايس/ايم غازی (1971میں تباہ ہونے والی آبدوز غازی ٹينچ کلاس آبدوز تھی).

1971 کی جنگ کے بعد، بحریہ کو دوبارہ منظم کيا گيا۔ نئے آنے والے چيف آف نيول سٹاف ایڈمرل محمد شریف نے بحریہ کو ریکونسٹویٹ کيا اور بحریہ کا ہوائی بازو بنايا گيا۔ جنگ کے دوران انٹر سروسز (فضائیہ،بحریہ اور فوج) کے درمیان کورڈینیشن،مواصلات اور مشترکہ کارروائیوں کی کمی کے بعد چيرمين جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ قائم کيا گيا اور ایڈمرل محمد شریف کی بحریہ کے لیے خدمات کے اعتراف ميں ان کو بطور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاکستان مسلح افواج مقرر کيا گيا۔ پاک بحریہ 1974ء میں اس وقت منظرِعام پر آئی جب اس نے بلوچستان کے تنازع میں ہتھياروں کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے مبینہ طور بحری ناکہ بندی کر دی اور فوج اور فضائیہ کو تنازعے ميں لوجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ اپنے آغاز سے، بحریہ نے ریاست ہائے متحدہ امریکا سے خريداری پر انحصار کی بجائے اپنی خریداری کو متنوع بنانے کی کوشش کی۔ 1971ء کے بعد بحریہ نے زیادہ تر لڑاکا بحری جہاز دوست ممالک خاص طور پر، فرانس اور چین سے خريدنے کی کوشش کی۔ پس اپنے تيز ترين جدت لانے کے اس پروگرام کی بنیاد پر پاک بحریہ جنوبی ایشیا میں زمین سے اڑنے والے بالسٹکس میزائل فائر کرنے کے قابل طویل رینج ريکی طیارے حاصل کرنے والی سب سے پہلی بحریہ بن گئی۔ 1980 کی دہائی کے دوران پاک بحریہ نے بے مثال ترقی کی ،اس کا جنگی بیڑا 8 سے 16 جہازوں تک آگيا جب 1982 میں ریگن انتظامیہ نے پاکستان کيلئے 3.2 بلین ڈالر فوجی اور اقتصادی امداد کی منظوری دے دی۔ پاکستان نے 1988 میں آٹھ بروک اور گارشیا کلاس فریگیٹس امریکی بحریہ سے پانچ سالہ لیز پر حاصل کيں۔ ڈپووں کی مرمت کے لیے ایک امریکی جہاز یو ایس ایس ہيکٹر بھی اپریل 1989 میں لیز پر حاصل کيا گيا۔ 1989ء ميں افغانستان سے سوویت فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکی صدر جارج بش کو مشورہ دیا گیا کہ پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کی تياری پر اب مزيد پردہ ڈالنے کی ضرورت نہيں اور تب 1 اکتوبر 1990ء کو پریسسلر ترمیم نافظ کردی گئی۔ پہلی بروک کلاس فریگیٹ کی لیز کی مدت مارچ 1993ء میں اور بقايا کی 1994 میں ختم ہو گئی۔ پاک بحریہ، جو تقریباً مکمل طور پر سابق امریکی بحری جہازوں پرمشتمل تھی کو شديد دھچکا لگا۔ امريکہ کی بل کھانے کی روش کوسمجھتے ہوئے، پاکستان نے اپنے فوجی ساز و سامان کی ضروریات کے لیے خود انحصاری پر توجہ مرکوز کرنا شروع کردی۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے فرانس سے اگوسٹا آبدوزوں کی خریداری (بشمول ٹیکنالوجی کی منتقلی) کے معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ مبینہ طور پر انتہائی متنازع تھا لیکن شديد ہندوستانی احتجاج اور بین الاقوامی دباو کے باوجود انجام پايا اور اس سے پاک بحریہ کی جنگی صلاحیت تین گنا بڑھ گئی۔ برطانیہ کی آبدوز شکن میزائیلوں سے ليس سی کنگ اور ویسٹلنڈ لينکس ہیلی کاپٹروں کی فروخت کی منظوری سے پاک بحریہ کی صلاحیتيں مزید بہتر ہوئيں ۔ 1998 میں ایٹمی منصوبے میں کامیابی کے بعد پاک بحریہ کو ایک ایٹمی بحریہ میں تبدیل کرنے کے لیے کئی تجاویز پيش کی گئيں۔ 1990 ء کی دہائی میں بحریہ کو پتہ چلا کہ ہندوستانی بحریہ روس سے ایک روسی چارلی 1 کلاس ایٹمی آبدوز لیز پر لينے کی کوشش کر رہی ہے تو اس خطرے سے نپٹنے کيلئے پاک بحریہ نے چين کی پیپلز لبریشن آرمی بحریہ سے ایک چینی 091 ہان آبدوز لیز پر لينے کے لیے پرامن مذاکرات شروع کر ديے۔ تاہم ہندوستانی بحریہ نے 1991 میں روسی آبدوز کا ارادہ منسوخ کر دیا تو پاک بحریہ نے بھی چینی بحریہ کے ساتھ چینی آبدوز کے مذاکرات ختم کرديے۔1991میں بحریہ نے صومالیہ میں پاکستان فوجيوں کے جاں بحق ہونے کے بعد آپریشن "ريسٹور ہوپ" (امید بحال) شروع کيا۔ بحریہ نے ایک آبدوز اور دو فریگٹیس امریکی بحریہ کے صومالیہ میں آپریشنز میں معاونت کے لیے روانہ کيں۔ بحریہ نے امریکا کے ساتھ 1995 میں اقوام متحدہ کے آپریشن "يونائيٹڈ شيلڈ" (متحدہ ڈھال) میں بھی حصہ لیا اور فوج کے اہلکاروں اور سامان کا انخلاء يقينی بنايا ۔ کارگل جنگ کے واقعہ کے دوران پاک بحریہ پاک فضائیہ کی طرح بے عمل رہی۔ تاہم جب بھارتی بحریہ نے آپریشن "تلوار" شروع کیا، تو پاک بحریہ نے بھارتی بحریہ کو کراچی اور بلوچستان کی بندرگاہوں سے دور رکھنے کے لیے آبدوزوں اور بحری جہازوں کی تعیناتی کی۔ نيول ايويشن( بحری ہوائی بازو) نے بحیرہ عرب میں مسلسل ہوائی جاسوسی اور گشت آپریشنز برقرار رکھے۔ 1999 میں ایک اور تجویز منظرِعام پر آئی کے اگوسٹا آبدوز میں بغير ہوا چلنے والا نظام بدل کر جوہری نظام کر ديا جائے تاہم يہ تجویز مسترد کردی گئی۔ 2001 ء – 2002ءکے ہندوستان-پاکستان کے آمنے سامنے کے دوران، پاک بحریہ ہائی الرٹ پرتھی اور ایک درجن سے زائد جنگی بحری جہازوں کو بحیرہ عرب میں تعینات کيا گيا تھا۔ بحریہ نے اس دوران اپنی آبدوزوں کو ایٹمی ہتھیاروں سے ليس کرنے کا منصوبہ بھی بنايا تاہم اس کی نوبت نہيں آئی۔

1999ء کی پاک بھارت جنگ

ترمیم
 
پرواز کرتا ہوا پاک بحریہ کا P3C اورین ( آبدوز شکن) طیارہ

اگرچہ بحریہ کی 1999ء کی پاک بھارت جنگ (یا کارگل جنگ میں)میں شرکت محدود تھی، اس کو ساحلی علاقوں میں غیر لڑاکا مشنوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سویلین اور فوجی اڈوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا پڑا۔ اس کو تیزی سے متہرک ہوتی ہندوستانی بحریہ کی سرگرمیوں اور اس کے جنگی بحری جہازوں کی ہرکت پر انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے میرینز اور آبدوزوں کو بحیرہ عرب میں تعینات کرنا پڑا۔ تاہم بحریہ کو ہندوستانی بحریہ کے خلاف فوجی کارروائی نہيں کرنا پڑی۔ پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق 1999 ء کی پاک بھارت جنگ کے اختتام کے بعد بحریہ کو بھارتی فضائيہ کے ہاتھوں تب نقصان سامنا کرنا پڑا تھا کہ جب 10 اگست 1999ء کو بھارتی فضائیہ کے مگ 21FL لڑاکا طيارے نے پاک بحریہ کا اٹلانٹيک آبدوز شکن طيارہ مار گرايا، بھارتی موقف کے مطابق اس طيارے نے بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی، اس ميں اٹلانٹيک طيارے پر سوار چار پائلٹوں سميت سولہ نيول افسر اور سيلر شہيد ہوئے۔ اس طيارے کو رن کچھ کے سرحدی خطے کے علاقے میں گرايا گيا، دونوں ملکوں کا اس علاقے پے علاقائی دعوی ہے۔

بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ملبہ پاکستان کے علاقے کے اندر گرا۔ بھارتی حکومت کے مطابق طیارہ بھارتی حدود میں 10 سے زائد سمندری میل (19 کلومیٹر) میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کی فضائی حدود میں واپس جانے کی کوشش کر رہا تھا اور اس واقع کا نتیجہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کی صورت ميں نکلا۔ اکتوبر 1999ء میں ایک اور سانحہے میں بحریہ کا P3C اورین (اینٹی سب میرین وارفیئر) طیارہ معمول کی پرواز کے دوران بلوچستان کے صوبے میں پسنی کے ساحلی قصبے میں گر کر تباہ ہو گيا۔ اس سانحہے میں دو پائلٹوں سمیت طيارے پر سوار گیارہ سيلر اور دس افسر شہيد ہو گئے۔ اس واقعے کی وجہ تکنیکی خرابی بتائی گئی۔ P3C اورین امریکا کی لاک ہیڈ مارٹن کمپنی کا تيار کردہ طيارہ ہے۔

نيول سٹریٹیجک فورس کمانڈ

ترمیم

اگست 2012 میں پاک بحریہ نے بحری سٹریٹیجک فورس کمانڈ ہیڈکوارٹر کا افتتاح کيا، جس کا مقصد جوابی جوہری حملے کی صلاحیت کی نگرانی ہے

کثیر الملکی مشقيں

ترمیم

11 سے 21 مئی 2008 کے درمیان، پاکستانی جنگی بحری جہازوں پی اين ايس بدر (D-182)، پی اين ايس شاہجہان (D 186), پی اين ايس نصر (A-47) اور پاک فضائیہ کی بارود ڈسپوزل ٹیم نے شمالی بحیرہ عرب ميں"انسپائرڈ یونین"نامی کثیر الملکی مشقوں میں امریکی بحریہ کے تباہ کن( ڈيسٹرائر) جہازوں کورتس اور روز کے ہمراہ شرکت کی۔

سونامی امدادی کاروائياں

ترمیم

پاک بحریہ نے کچھ امن کارروائیوں ميں جن ميں خاص طور پر 26 دسمبر 2004 ء کو ہونے والا سانحہ سونامی تھا حصہ ليا۔ پاکستان نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ ميں امداد اور بچاؤ کے کام میں مدد کرنے کے لیے بحری جہاز روانہ کيے۔ پاکستان بحریہ کے روانہ کردہ بحری جہازوں ميں دو جنگی بحری جہاز، پی اين ايس طارق،پی اين ايس نصر اور لوجسٹک سپورٹ جہاز شامل تھے۔ بحریہ کے سابق سربراہ چيف آف نيول اسٹاف ایڈمرل (ریٹائرڈ) شاہد کريم اللہ کی ہدايات کے تحت، فوری طور پر پاک بحریہ کے جہازوں نے مالدیپ کی حکومت کی مدد کرتے ہوئے جزائر سے وہاں پھنسے سیاح/مقامی لوگوں کے انخلاء کو يقينی بنايا۔ پاک بحریہ نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سفارتی اور مالی امداد کے ساتھ دو مزید جہاز انڈونیشیا اور سری لنکا کے لیے بھیجے۔ بعد ازاں پاک بحریہ نے ایک امدادی مشن کے تحت سری لنکا کو دو مزید بحری جہاز پی اين ايس خيبر اور پی اين ايس معاون بھیجے۔ ان جہازوں کا تعلق 140th مرین ایکسپڈیشنری فورس سے تھا اور يہ تین ہیلی کاپٹروں، فوجی اور سویلین ڈاکٹروں اور پیرامیڈکس سے ليس تھے۔ اس کے علاوہ امدادی سامان ميں ادویات، طبی آلات، خوراک، خیمے، کمبل بڑی مقدار میں بھیجے گئے۔ امدادی کارروائیوں کا دائرہ بنگلہ دیش تک پھلايا گيا اور پاکستان کی دیگر مسلح افواج کے یونٹوں کو لے کر پاکستان بحریہ کے جہاز، بنگلہ دیش میں دسمبر 1971ء کے بعد پہلی بار پہنچے۔ بحریہ، فوج اور فضائیہ نے امدادی کارروائیوں کے زريعے بنگلہ دیش میں سول انفراسٹرکچر کی دوبارہ تعمیر کی۔

آپریشن مدد

ترمیم

پاک فوج اور پاکستان ائیر فورس (پاک فضائیہ) نے جب عسکریت پسندی کيخلاف مہم تيز کی تو بحریہ نے تو ان پر دباو کم کرنے کيلئے 2010 کے سیلاب ميں بڑی تعداد ميں امدادی کارروائياں کر کے ذمہ داری پوری کی۔ بحریہ نے "آپریشن مدد" کے تحت پاکستان بھر میں اگست 2010 ميں 352,291 سے زائد افراد کو بچایا۔ بحریہ نے سیلاب زدگان کے لیے 43,850 کلو خوراک اور امدادی سامان فراہم کيا۔ 5,700 کلو کے تيار کردہ کھانے اور 5000 کلو خوراک سکھر کو ارسال کی گئی۔ پاک نيول ايويشن (بحری ہوائی بازو) نے 500 کلوگرام سے زائد خوراک اور امداد تھل، گہعثپور اور میر پور کے علاقوں میں گرائی۔ جنوری 2011 کی رپورٹ کے مطابق پی اين ماڈل گاؤں پروگرام کے تحت، بحریہ متاثرہ علاقوں میں ماڈل گھر تعمير کر رہی ہے۔ اب تک 87 سے زائد مکانات تعمیر کيے گئے اور مقامی بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) ميں تقسیم کيے گئے۔ 69,011 لوگوں کا بحریہ کے لگائے گئے طبی کیمپوں ميں علاج کيا گيا۔

شمال مغرب میں جنگ

ترمیم

بحریہ 2006 – 07 سے ملک بھر دہشت گردی کے خلاف مہم کے حصہ کے طور پر دہشت گرد عناصر اور القاعدہ کی سراغ رسانی کر رہی ہے۔ فوج اور فضائیہ پر دباؤ کو محدود کرنے کے لیے، بحریہ نے شمالی پاکستان میں بے شمار آپریشنز کيے اور اس کے زمينی لڑاکا دستوں نے زمينی فوج کے شانہ بشانہ طالبان کيخلاف مغربی سرحدوں پے لڑائی ميں حصہ ليا۔ 22 مئی 2011 کو پاکستانی طالبان کے ساتھ بحریہ کی پہلی جھڑپ سندھ میں سب سے گنجان آباد پاکستانی فوجی تنصیب پاک فضائیہ کے فیصل ایئر فورس بیس کراچی کے قریب واقع بحری ہوائی اڈے پی اين ايس مہران (بحری ہوائی بازو کے جہازوں کے بیس) میں ہوئی۔ اس لڑائی کے دوران تقریباً 15 حملہ آور 18 بحری اہلکار ہلاک ہوئے اور 16 اس دہشت گردانہ حملے میں زخمی ہو گئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور مغربی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق حملہ 2009 ميں پاکستانی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز پر ہونيوالے حملے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک تھا اور سابقہ حملوں سے زیادہ بہتر منصوبہ بندی سے کيا گيا تھا۔1971ء کے بعد سے بحریہ کے اپنے اثاثہ جات پر ہونيوالا سب سے بڑا حملہ تھا اور اسے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے سے پہلے عسکریت پسند منصوبہ ساز الیاس کشمیری کا آخری بڑا حملہ بھی مانا جاتا ہے جبکے ايس ايس جی اين (سپيشل سروس گروپ نيوی) يعنی پاک بحری کمانڈوز کا جوابی حملہ، 1971ء کے " آپريشن جيک پاٹ" کے بعد سے ايس ايس جی اين کا سب سے بڑا آپریشن تھا۔

اہلکار

ترمیم
 
پاکستان نيول اکيڈمی (پی اين اے) منوڑہ کے کيڈٹ بحری جيک کے طريقہ کار کے مطابق گارڈ پے موجود
 
اس وقت کے ٹاسک فورس 150 کے کمانڈر پاک بحريہ کے کموڈور خان حشام بن صديق 25 فروری 2008 کو بحرين ميں پاک بحريہ کے جہاز پی اين ايس ٹيپو سلطان پے منعقدہ کمانڈ کی تبديلی کی تقريب ميں سپائی گلاس فرانسيسی بحريہ کے ريئر ايڈمرل جين ايل کيلنگراڈ کے حوالے کر رہے ہيں

2008 کی رپورٹ کے مطابق پاک بحریہ کے فعال ڈیوٹی ملازمین کی تعداد تقریبا 25000 ہے۔ اضافی 1200 مرینز اور اڑھائی ہزار سے زیادہ کوسٹ گارڈ اور 2000 فعال ڈیوٹی نیوی اہلکار ميری ٹائم سیکورٹی ایجنسی میں ہيں۔ اس کے علاوہ 5000 ريزرو موجود ہيں۔ کل تقريبا 35,700 اہلکارو ہوئے۔2012 میں بحریہ نے بلوچستان کے بلوچ یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بحریہ انجینئری کالج تربیت مکمل کرنے کے لیے بھیجا۔ بحریہ نے اہلکاروں کی تربیت کے لیے تین اضافی سہولیات بلوچستان میں قائم کيں۔

عہديداران

ترمیم
  • ایڈمرل محمد ذکااللہ، نشانِ امتياز (ملٹری) – چیف آف نيول سٹاف (سی اين ايس)
  • وائس ایڈمرل خان حشام بن صدیق — وائس چیف آف نيول سٹاف ( وی سی اين ايس)
  • وائس ایڈمرل ظفر محمود عباسی ہلال امتياز (ملٹری) —ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف برائے آپریشنز (ڈی سی اين ايس او)
  • ریئر ایڈمرل محمد فیاض گیلانی ستارہ امتياز (ملٹری) — ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف پرسنل (ڈی سی اين ايس پی)
  • ریئر ایڈمرل اطہر مختار، ستارہ امتياز (ملٹری) – ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف ايڈمنسٹريشن (ڈی سی اين ايس اے)
  • ریئر ایڈمرل ناصر محمود،ستارہ امتياز (ملٹری) – ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف مٹيريل (ڈی سی اين ايس ايم)
  • ریئر ایڈمرل کلیم شوکت، ستارہ امتياز (ملٹری) –ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف پراجيکٹ (ڈی سی اين ايس پی)
  • ریئر ایڈمرل معظم الیاس، ستارہ امتياز (ملٹری) —ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف ٹرينگ اينڈ ايوليويشن (ڈی سی اين ايس ٹی اينڈ ای)
  • ریئر ایڈمرل آصف عبد الخالق، ستارہ امتياز (ملٹری) – ڈائریکٹر جنرل نيول انٹیلی جنس
  • ریئر ایڈمرل راجا قمر نواز ستارہ امتياز (ملٹری) —ڈپٹی چیف آف نيول سٹاف، سپلائی (ڈی سی اين ايس ايس)
  • کموڈور فیصل رسول لوہدی ستارہ امتياز (ملٹری) — ڈپٹی چیف بحری اسٹاف، سیکرٹری
  • کموڈور ظفر منصور ٹیپو، ستارہ امتياز (ملٹری) - جج ایڈووکیٹ جنرل

کمان

ترمیم
  • وائس ایڈمرل سید آرف اللہ حسینی،ہلال امتياز (ملٹری)، تمغا بسالت، — کمانڈر پاکستان فلیٹ (کومپاک)، کراچی
  • وائس ایڈمرل شاہ سہیل مسعود، ہلال امتياز (ملٹری) — کمانڈر، نيول سٹریٹیجک فورس کمانڈ، اسلام آباد
  • ریئر ایڈمرل فرخ احمد ہلال امتياز (ملٹری)، — کمانڈر کراچی (کوم کار)، کراچی
  • ریئر ایڈمرل سید امداد امام جعفری، نشانِ امتياز (ملٹری) — کمانڈر لاجسٹکس (کوم لوگ)، کراچی
  • ریئر ایڈمرل وسیم اکرم، ہلال امتياز (ملٹری) — کمانڈر کوسٹ (ساحلی علاقہ جات) (کوم کوسٹ)، کراچی
  • ریئر ایڈمرل عبد ل علیم، نشانِ امتياز (ملٹری) — فليگ افسر سی ٹرينگ (سمندری تربیت) (فوسٹ)، کراچی
  • ریئر ایڈمرل محمد امجد، نشانِ امتياز (ملٹری)، بٹ — کمانڈر سنٹرل پنجاب لاہور اور کمانڈنٹ پاکستان نیوی وار کالج، لاہور
  • ریئر ایڈمرل عدنان نذیر، ہلال امتياز (ملٹری) — کمانڈنٹ قومی سلامتی سيکريٹيريٹ،نيشنل ڈيفينس يونيورسٹی اسلام آباد
  • کموڈور نصر اکرام، نشانِ امتياز (ملٹری)— کمانڈنٹ پاکستان نیوی انجینئری کالج، کراچی
  • کموڈور خالد پرویز، نشانِ امتياز (ملٹری) — کمانڈر نارتھ، اسلام آباد

ڈيپوٹيشن

ترمیم
  • ریئر ایڈمرل —، وزارت دفاع کی پیداوار
  • ریئر ایڈمرل امتیاز احمد ستارہ امتياز (ملٹری) – ڈی جی ايم ٹی سی
  • ریئر ایڈمرل سید حسن ناصر شاہ،ستارہ امتياز (ملٹری) — منیجنگ ڈائریکٹر، کراچی شپ یارڈ اور انجینئری ورکس کراچی
  • ریئر ایڈمرل مختار خان جدون،ستارہ امتياز (ملٹری) — وزارت دفاع میں ايڈيشنل سیکرٹری-3 (بحریہ) راولپنڈی
  • ریئر ایڈمرل جمیل اختر، ستارہ امتياز (ملٹری) — ڈی جی پاکستان ميری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کراچی
  • ریئر ایڈمرل حبیب الرحمٰن قریش، ستارہ امتياز (ملٹری)-جنرل منیجر (انجینئری)، کراچی پورٹ ٹرسٹ
  • کموڈور زاہد الیاسستارہ امتياز (ملٹری) - کمانڈر ٹاسک فورس 150، بحرین
  • ریئر ایڈمرل نوید رضوی، ستارہ امتياز (ملٹری) - ڈی جی میڈیا، آئی ایس آئی
  • ریئر ایڈمرل احمد سعید، ستارہ امتياز (ملٹری) — ڈی جی جائنٹ وارفيئر اور ٹرينگ جائنٹ سٹاف ہیڈکوارٹر (جے ايس)، چکلالا گريزن راولپنڈی

چیف آف نيول اسٹاف

ترمیم
 
پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز پی اين ايس زولفکار پر لگے ايف ايم 90 زمين سے فضاء ميں مار کرنے والے ميزائل
 
پورٹ سمتھ (برطانيہ) ميں موجود پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز پی اين ايس ٹيپو سلطان پر نيول ايويشن کا ايلويٹ 3 ہيلی کاپٹر
 
جنگی بحری جہاز پی اين ايس زولفکار پر لگے دو چار دھانوں والے سی 802 بحری جہاز شکن ميزائلوں کے لانچر

۔ چیف آف نيول اسٹاف (CNS) جوکے چار ستارے والا ایڈمرل ہوتا ہے پاک بحریہ کا سربراہ ہوتا ہے جس کو وزیر اعظم پاکستان صدر پاکستان سے مشاورت کے بعد مقرر کرتا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم