خواجہ قطب الدین ولادت ( 602 ہجری بمطابق 1205عیسوی ) میں خواجہ محمد کے ہاں پیدا ہوئے، آپ کے والد قدوۃالدین خواجہ محمد کی وفات آپ کے دادا خواجہ رکن الدین حسین بن احمد مودود چشتی کے زندگی میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر 22 سال تھی اور سجادہ نشینی آپ کے دادا کے پاس تھی، آپ کے دادا خواجہ رکن الدین کا وصال 635ھ میں ہوا اس وقت چونکہ سجادگی کے پہلے حقدار آپ کے چچا خواجہ علی دہلی والے تھے اس لیے آپ نے ان سے ہندوستان خط لکھ کر گزارش کی کہ آکر سجادہ سنبھال لیں مگردہلی میں اس وقت خواجہ علی کی مصروفیات زیادہ تھیں اس لیے انھوں نے معذرت کی اورآپکو سجادہ چشت سنبھالنے کی اجازت دے دی ـ [1][2]

مضامین بسلسلہ

تصوف

تاریخ ترمیم

شیخ الاسلام  خواجہ رکن الدین ابن احمد کے  رحلت فرمانے کے  بعد ان کے  پوتے حضرت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  نے اپنے چچا حضرت خواجہ محی الدین علی  کو دہلی خط لکھا (جو ہندوستان میں تھے) کہ اب وقت ہے آپ آئیں اور اپنے آباؤ اجداد کی مسند رشد و خلافت  سنبھال لیں، خواجہ محی الدین علی  نے جواب دیا  یہاں دہلی میں خدمت دین کی بڑی گنجا ئش ہے اور یہاں کے  لوگوں کو مجھ سے  اتنی محبت ہے کہ میں ان کو چھوڑ کر اب چشت نہیں آ سکتا،  لہذا چشت کی مسند سجادہ آپ کو مبارک ہو،  یہ دہلی میں غیاث الدین بلبن کادورحکومت’’1266ء تا 1286ء تھا۔  خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  سلسلہ چشتیہ کے  بہت بڑے  صاحب کشف و کرامت بزرگ گذرے ہیں،  ملک الاسلام حاجی غازی    آپ کے  بارے میں فرماتے ہیں میں نے  خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  کو عرفات کے  میدان میں دیکھا  تمام لوگوں کے  مقابلے آپ کے  چہرے کا نور چمک رہا تھا اور ان کی طرح کا کوئی دوسرا وہاں موجود نہ تھا،  حاکم وقت ملک شمس الدین خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  کے  ساتھ بہت ارادت رکھتے تھے۔ اور اسی خلوص کے  پیش نظر انھوں نے اپنے جگر گوشے  کو آپ کی غلامی میں دیا اور آپ کے  بیٹے خواجہ ابو احمد سے  انکا نکاح پڑھایا اور کہا کہ میں اپنی اولاد اس لیے آپ کے  گھر بھیج رہا ہوں تاکہ یہ آپ کے گھر کی گرد صاف کریں اور اللہ تعالٰی اس کے  بدلے میر ے گناہ معاف فرمائیں، چنگیز خان( پیدائش1162ء   وفات1227ء)  کے  بعد اس کے  لڑکوں اور حواریوں میں سے بہت ساروں نے اسلام  قبول کیا اور  خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  کے  ارادت مندوں میں شامل ہو گئے اور خواجہ صاحب کے  پند و نصائح نے ان کے  عقیدوں کو پختہ کیا،   حضرت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد  کے  ہمعصر چنگیز خان کے  پوتے ہلاکو خان (پیدائش 1217ء: وفات1265ء)  تھے، 1221ء میں تاتاری یلغار کے  وقت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد کے  عزیز اور مریدین چشت کے علاقہ سے  ہجرت کر کے  دوسرے علاقوں غور غزنی اور خراسان  چلے گئے تھے[3] حاکم وقت نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ جو شخص خواجہ صاحب کے  علاقہ میں واپس آ جائے اور ان کی حمایت کرے تو اس کی مزاحمت نہ کی جائے،  چنانچہ غور غزنی اورخراسان کی طرف سے  بہت سارے لوگ واپس آ گئے آپ نے خطوط لکھ کر سب کو واپس بلایا سب کو تسلی دی اس طرح سب امن و خوشی سے  رہنے لگے، خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد کے  دو فرزند تھے جن کے  نام نامی خواجہ نظام الدین علی  اور خواجہ اود الدین الدین ابو احمد   تھے،  آپ نے ان دونوں کو ساتھ لے کر ہندوستان کی طرف سفر کیا اور موضع سرنائی پہنچ گئے موضع سرنائی پانی پت سے  پانچ میل شمال کی طرف واقع ہے،  آپ نے چند ماہ وہاں اقامت فرمائی اور واپسی پر آپ نے خواجہ نظام الدین سے  فرمایا کہ وہ یہاں سکونت اختیار کر لیں اورخواجہ اود الدین الدین ابو احمدکو ساتھ چلنے حکم دیا چونکہ خواجہ اود الدین الدین ابو احمد کو وہاں کی آب و ہوا بہت پسند آئی تھی اس لیے انھوں نے التجا کی کہ آپ مجھے بھی یہیں رہنے کی اجازت دے دیں، خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد نے یہ پیشینگوئی کی کہ اگر تم میرے ساتھ نہیں آئے تو میرے پیچھے تمھارا تابوت آئے گا۔ اور خواجہ اود الدین الدین ابو احمد نے عرض کیا کہ حضور آپ بھی تو چشت نہیں پہنچ رہے اور راستے میں انتقال فرمائیں گے چنانچہ دونوں بزرگوں کی پیشینگوئی سچ ثابت ہوئی۔

سید محمد بن مبارک (میرخورد) ترمیم

میرئے والد کی عمرعزیز سلطان المشائخ کی نظر مرحمت و شفقت میں گذری ـ اس بنا پر کہ وہ خانوادہ چشت میں خواجہ قطب الدین چشتی بن خواجہ محمد سے عقیدت رکھتے تھے وہ دو مرتبہ چشت بھی گئےـ دوسری مرتبہ جب وہ چشت گئے اور خواجہ قطب الدین چشتی کی خدمت میں پہنچے تو کچھ دن وہاں ٹھہر کر اس مبارک خانوادے کی خدمت بجا لائے، خواجہ قطب الدین کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ سید محض خواجگان چشت کی زیارت کے لیے آتا ہے، تو آپ نے ان کو اپنی خلافت سے سر فراز کیا اور خرقہ خلافت اور اجازت نامے سے اپنے نشان مبارک سے نوازا اور ایک قیمتی مغل گھوڑا، جو آپ کی سواری کے لیے خاص تھا ان کو عطا فرمایااور نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ باوضو رہو اور کھانا تنہا مت کھاؤ۔ پھر آپ کو نہایت اعزاز کے ساتھ رخصت کیا سیراولیاء میں میر خورد مزید لکھتے ہیں کہ میرے والد فرماتے تھے کہ میں اس سال جب چشت سے لوٹا اس گھوڑے پر سوار تھا جو خواجہ قطب الدین نے مجھے دیا تھا، اس گھوڑے پر خواجہ قطب الدین کے پائے مبارک کے ایڑیوں کے نشان پڑے ہوئے تھے، اس سال کافر تاتاریوں کا لشکر سلطان علا الدین خلجی کے فاتح لشکر سے شکست کھا کر دہلی سے تتر بتر ہوکر ہزار اور دو ہزار کی ٹولیوں میں واپس ہو رہا تھا، اس لشکر کے کچھ لوگ خراسان کے راستے میں کئیی مرتبہ مجھے ملے، انھوں نے چاہا کہ میرا گھوڑا اور کپڑوں کا بقچہ کی جس میں خواجہ بزرگوار کا عطا کیا ہوا خرقہ تھا مجھ سے چھین لیں لیکن جب وہ خواجہ بزرگوار کے ایڑیوں کے داغوں کو دیکھتے تو گھوڑے کے سم چومنے لگتے اور کہتے تم خواجہ قطب الدینؒ کی برکت سے خیریت سے گھر پہنچوگے اور اپنے والد کی خدمت کروگے۔[4]

شجرہ جات ترمیم

شجرہ ترمیم

اولاد ترمیم

حوالہ کتب ترمیم

  1. بحوالہ کتاب خواجہ ابراہیم یک پاسی تحریر پروفیسر سید احمد سعید ہمدانی،
  2. سیرالاولیاء صفیہ نمبر 356
  3. (بحوالہ کتاب خواجہ محمد ابراہیم یک پاسی مصنف ڈاکٹر طاہر تونسوی)
  4. سیرالاولیاء:صفحہ نمبر 355

حوالہ جات ترمیم

 
Referenced from Book Khwaajah Maudood Chisti
  • [1] Chishti Tariqa
  • [2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ soofie.org.za (Error: unknown archive URL) Soofie(Sufi)
  • en:Chishtia Chishti Order
  • [3]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iranibook.com (Error: unknown archive URL) خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامه هاي مشايخ چشتيه
  • [4] طريقۀ چشتيه در هند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقه به فرهنگهاى اسلامى و ايرانى‎
  • ( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری )
  • تذکرہ سید مودودی ادارہ معارف اسلامی لاہور
  • سیر ال اولیاء
  • مرا تہ الاسرار
  • تاریخ مشائخ چشت
  • سفینہ ال عارفین
  • تذکرہ غوث و قطب
  • شجرہ موروثی سادات کرانی