منیتہ الممارسین فی اجوبتہ الشیخ یاسین

گیارہویں صدی ہجری کے مشہور اخباری عالم دین شیخ عبد اللہ ابن صالح السماہیجی نے کتاب منیتہ الممارسین اصولی عالم دین شیخ یاسین بن صلاح الدین کے اس رسالے کے جواب میں لکھی تھی جس میں شیخ یاسین نے، شیخ سماہیجی سے 90 سوالات کیے تھے۔ جیسا کہ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں تحریر فرمایا ہے کہ:

(373: أسئلة الشيخ ياسين) المكتوب في الجواب عنها منية الممارسين، هي للشيخ ياسين بن صلاح الدين بن علي بن ناصر بن علي البلادي البحراني نزيل شيراز، أرسلها إلى شيخه الشيخ عبد الله السماهيجي المتوفى سنة 1135 فكتب في جوابها منية الممارسين

ترجمہ: کتاب "شیخ یاسین کے سوالات" ، یہ شیخ یاسین کی کتاب تھی جو انھوں نے شیخ السماہیجی کو بھیجی جس کے جواب میں انھوں نے منیتہ الممارسین لکھی.[1]

شیخ سماہیجی کے بیان کردہ ان چالیس نکات کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور بعد کے علما و مورخین نے اس کا تذکرہ کیا. جیسا کہ آقا بزرگ تہرانی اپنی کتاب الذریعہ میں کتاب منیتہ الممارسین کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

وهو من أحسن ما كتبه على ما قيل، وذكر فيه الفروق الأربعين بين الأصوليين والأخباريين

ترجمہ: اور جو کچھ انھوں نے لکھا ان میں سے یہ ان کی بہترین کتاب ہے جو کچھ بھی اس کے متعلق کہا گیا ہے اور اس میں انھوں نے اصولین و اخبارین کے نظریات میں چالیس فروق کا تذکرہ کیا ہے.[2]

اصولی عالم باقر خوانساری نے اپنی کتاب روضات میں شیخ السماہیجی کے بیان کردہ چالیس نکات کو اجمالی طور پر 29 نکات میں نقل کیا لیکن انھوں نے روضات کی پہلی جلد میں غیر منصفانہ طور پر شیخ السماہیجی کو متعصب قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ رہی ہو جیسا کہ شیخ یوسف بحرانی نے اپنی کتاب لولوة البحرین میں شیخ السماہیجی کے متعلق لکھا ہے کہ "أخبارياً صرفاً كثير التشنيع على المجتهدين"، یعنی (شیخ السماہیجی) اخباری تھے اور کثرت کے ساتھ مجتہدین پر طعن و تشنیع کرتے تھے۔

تشنیع کس طرح تعصب ہو سکتا ہے یہ ملاں باقر خوانساری رض ہی بہتر سمجھتے ہوں گے. علامہ شیخ علی بحرانی کی کتاب انوار البدرین پر یہ تحیر آفریں عبارت ہے کہ شیخ السماہیجی کے متعلق لکھتے ہیں:

" وعكسه الوالد (قدس سره) قد كان مجتهدا صرفا كثير التشنيع على الأخباريين"

ترجمہ: یعنی شیخ عبد الله السماہیجی اپنے والد شیخ صالح رض کے بالکل برعکس تھے، کیونکہ شیخ عبد اللہ کے والد خود مجتہد تھے اور کثرت کے ساتھ اخباریوں پر طعن و تشنیع کرتے تھے.[3]

پس اگر ملاں باقر خوانساری صاحب کے نزدیک کسی اخباری کے متعصب ہونے کی یہ دلیل ہے کہ وہ مجتہدین پر کثرت سے تشنیع کرتا رہا ہے تو پھر اسی دلیل سے خود شیخ عبد الله السماہیجی کے والد اصولی مجتہد بھی متعصب قرار پائے کیونکہ وہ بھی اخباریوں پر کثرت سے تشنیع کرتے رہے. جبکہ شیخ سماہیجی مولا ص کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے خود اپنے والد گرامی جو مجتہد تھے کی بھی مخالفت کرتے رہے اور حق کی راہ میں اپنے والد کو بھی رکاوٹ نہ بننے دیا۔

یہی وجہ ہے کہ علامہ شیخ یوسف بحرانی نے اپنی کتاب لولوة البحرین میں شیخ سماہیجی رح کے متعلق لکھا ہے کہ

كان الشيخ المذكور صالحاً عابداً ورعاً، شديداً في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، جواداً سخياً كريماً، كثير الملازمة للتدريس والمطالعة والتصنيف، لا تخلو أيّامه من أحدها

ترجمہ: بیشک شیخ ، صالح عابد اور متقی تھے ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں شدید واقع ہوئے تھے۔ سخی و کریم تھے، کثرت سے تدریس کے کام سر انجام دیتے تھے اور مطالعہ اور کتابوں کی تصنیف میں بھی وقت کثیر خرچ کرتے تھے اور ان کے ہوتے ہوئے کسی ایک کے لیے بھی کوئی جگہ باقی خالی نہ تھی.

مزید براں، سید عبد الله الجزائری نے شیخ سماہیجی کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے:

كان عالماً فاضلاً محدّثاً متبحّراً بالأخبار، عارفاً بأساليبها ووجوهها، بصيراً في أغوارها، خبيراً بالجمع بين متنافياتها وتطبيق بعضها على بعض، له سليقة حسنة في فهم الروايات، وأُنس تام في معانيها

ترجمہ: وہ عالم فاضل محدث تھے اور اخبار سے آگاہی رکھنے والے تھے، اخبار کے اسلوب و اطراف کے عارف تھے اور ان کی گہرایوں پر بصیر تھے۔ اور تمام اخبار میں ایک دوسرے سے متنافی خبروں کی تطبیق پر کماحقہ مہارت رکھتے تھے۔ روایات کو سمجھنے میں ان کا سلیقہ بہت اچھا تھا۔ اور اخبار کے تمام معنوں کو اخذ کرنے والے تھے۔

شيخ السماهيجي لکھتے ہیں

اور انھوں (شیخ یاسین) نے پوچھا ہے کہ ، "ہمارے مجتہد اور اخباری میں کیا فرق ہے ؟"

میں (شیخ سماہیجی رح) کہتا ہوں اگر انصاف کا دامن نہ چھوڑا جائے اور ناحق جانبداری سے کام نہ لیا جائے تو ان دونوں میں فرق بالکل ظاہر ہے اور یہ مختلف نکات پر مبنی ہے کہ اگر جو کوئی بدگمانی کے پھندے کو اتار پھینک کر انھیں پڑھے گا تو اختلاف نہیں کرے گا . " وہ جس کے پاس دل ہو گا یا وہ کانوں کو سماعت کے لیے ہمہ تن گوش رکھے اور حاضر ہو "[4] [5]

نکتہ نمبر 1

مجتہدین اجتہاد کو واجب عینی یا تخیری قرار دیتے ہیں۔

جبکہ، اخبارین اجتہاد کو حرام قرار دیتے ہیں اور روایت سے شرعی فیصلوں کو اخذ کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں، پھر چاہے تو خود معصوم سے براہ راست روایت ہو یا کوئی دوسرا شخص ان سے روایت کرے، پھر چاہے اس کا سلسلہ سند زیادہ ہی کیوں نہ ہو. اور اس طریقہ کار پر اخباریوں کے پاس کتاب و سنت سے قطعی ادلہ موجود ہیں، جن کو بیان کرنے کے لیے یہاں ان نکات کے بیان میں جگہ نہیں ہے۔ البتہ ان ادلہ کو ہم نے الله کے حضور عاجزی دکھاتے ہوئے اپنے رسالہ میں مکمل کیا ہے اور اس میں تصحیح بھی کر چکے ہیں اور خلاصہ و نتیجہ بھی لکھ چکے ہیں جنہیں ان کے مقام پر مطالعہ کیا جا سکتا ہے.

نکتہ نمبر 2

مجتہدین کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک ادلہ کی اقسام چار ہیں، کتاب و سنت اور اجماع و دلیل عقل.

جب کہ اخباری کتاب و سنت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے ہیں اور بعض تو سختی سے صرف اکیلی سنت تک خود کو محدود کیے رکھتے ہیں۔ کیونکہ کتاب ان کے لیے غیر معروف ہے اور کسی کے لیے اس کی تفسیر کرنا جائز نہیں ہے سوائے معصومین کے.

اور کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اجماع اور دلیل عقل، کتاب و سنت میں داخل ہیں۔ ایسا اس لیے کہ اگر کہا جائے کہ اجماع اور دلیل عقل کتاب و سنت میں شامل ہیں تو تمھیں اس کے الگ سے تذکرے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بلکہ صرف کتاب و سنت لکھنا ہی کافی ہوتا اور ادلہ کی چار اقسام بنانا یوں بے معنی و بے مقصد ہو کر رہ جاتا پس ثابت ہے کہ تمھارے نزدیک اجماع اور دلیل عقل کتاب و سنت کے علاوہ کوئی شے ہیں۔

اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اجماع اور دلیل عقل فقط کفایت کرنے لیے بطور ادلہ قبول کیے گئے ہیں اور یہ مستقل دلیل کے طور پر نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا کہا گیا تو ہم کہیں گے کہ صرف کفایت و مدد کے طور پر ان دونوں کا استعمال خود مستقل طور پر ادلہ کو چار اقسام میں تقسیم کرنے لیے ناکافی تھا اور غیر مستقل اشیا کو کتاب و سنت کے برابر نہیں لایا جا سکتا ہے.

نکتہ نمبر 3

مجتہدین شرعی احکامات کو ظن کے ذریعے اخذ کرنے کو جائز سمجھتے اور مانتے ہیں۔

جبکہ اخباری اس سے منع کرتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے ماسوائے یقینی علم کے اور یقینی علم ہی ان کے نزدیک قطعی ہوا کرتا ہے۔ اور ان کے نزدیک یقینی علم ایک تو براہ راست امر ہے اور دوسرا عادی و روایت شدہ ہے جو روایت کرنے میں یقینی طور پر معصوم سے صادر ہوا ہو.

اخباریوں کا کہنا ہے کہ یقینی علم میں خطاء و غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوا کرتی ہے اور اسی کو شارع سمیت اہل لغت و عرفان یقینی علم کہتے ہیں۔ جبکہ ظن وہاں ہوتا ہے جب روایت سے ہٹ کر اجتہاد اور استنباط کیا جائے. جبکہ روایت سے شرعی حکم اخذ کرنا قطعا ظن نہیں ہوتا ہے۔ اور ظن پر عمل کے خلاف اخباری کتاب و سنت سے ادلہ پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں۔ کہ الله کا قول ہے، "ظن گناہ ہے، [6] "ظن حق کو نہیں بدل سکتا".[7] "جو اندازہ لگاتے رہے قتل ہوئے". [8] "اس شے کی پیروی مت کرو جس کا تم علم نہیں رکھتے ہو".[9] "الله کے بارے میں وہ کچھ مت کہو جس کا تم علم نہیں رکھتے ہو".[10]

اور وہ (اخباری) آئمہ سے بھی روایات نقل کرتے ہیں کہ فرمایا "اس بارے میں کلام کرو جس بارے میں تم جانتے ہو اور جس کا علم نہیں رکھتے اس بارے میں گفتگو سے پرہیز کرو"، علاوہ ازیں اس امر پر اور بہت سے براہین ہیں جو دلالت کرتے ہیں۔

ان واضح براہین کی عمومیت اور قطعیت کی وجہ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اصول فقہ کے ذریعے اخذ شدہ فیصلے بغاوت اور آمریت کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔

اور یہ جو تنقید کی جاتی ہے کہ اخباریت کی بنیاد اخبار پر ہونا خود قیاس ہے، رد کی جاتی ہے۔ یہ نہ لغوی اعتبار سے قیاس کہلا سکتی ہے اور نہ روایت و درایت کے اعتبار سے ہی. البتہ جہاں تک اخبار میں تعارض کا تذکرہ ہے تو وہ بھی اس دائرۂ سے خارج نہیں کہ وہ بھی یقینی علم ہی ہیں، کیونکہ معمولی تجربہ اور طریقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی علم میں تعارض ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا جو بظاہر تعارض نظر آتا ہے اس کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اب چونکہ بظاہر تعارض واقع ہو گیا ہے لہذا حق کو مطلقا رد کر دیا جائے.

ایسا اس لیے بھی ہے کہ قبول کیا جا چکا ہے کہ راویان سے ہم تک جو کچھ بھی پہنچا ہے معصومین کا ہی پہنچایا ہوا ہے۔ البتہ ظن کو تو یقینی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔

لہذا، تعارض کی آڑ میں اخبار پر عمل کرنے کو ظن پر عمل کرنے پر دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے کہ ایک شے یعنی نقل روایات خود ممدوح اور دوسری شے یعنی ظن کو خود مذموم قرار دیا گیا ہے۔

الغرض، اخباریوں کے پاس اس کے علاوہ اور بہت سے عقلی و علمی براہین ہیں کہ جن کا مکمل تذکرہ کی گنجائش شیخ (یاسین) کے اس سوال کے جوابات میں نہیں ہے چاہیے کہ ہماری دیگر و متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کیا جاوے.

نکتہ نمبر 4

مجتہدین نے احادیث کی 4 اقسام بنا رکھی ہیں. صحیح، حسن، موثق اور ضعیف.

جبکہ اخباریوں کے ہاں احادیث کی دو ہی اقسام ہیں صحیح اور ضعیف، اگر تحقیقی بات کی جائے تو اخباری ایسی حدیث جو صحیح (سند کے اعتبار سے) نہ بھی ہو بلکہ حسن اور موثق بھی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ وگرنہ ضعیف ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ اصطلاح "ضعیف" اخباریوں کے نزدیک بھی چار گنا اور دگنا معنی دیگر بھی رکھتی ہے.

نکتہ نمبر 5

مجتہدین، روایت صحیح کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ جو امامی عادل ثقہ شخص سے مروی ہو جو اپنے ہی جیسے راوی سے روایت کرے اور یہ سلسلہ معصوم تک جائے اور حسن وہ روایت ہے جس کی سند میں ایک سے زائد راوی یا کم از کم ایک راوی امامی ممدوح ہو، چاہے اس کی توثیق پر (معصوم سے)کوئی نص نہ بھی ہو (یعنی رجالی علما اس کی مدح کر دیں). اور روایت موثق یہ ہے کہ اگر کسی روایت کے راوی یا کم از کم ایک راوی قابل اعتبار تو ہو مگر غیر امامی ہو.

اور ضعیف ان سب کے علاوہ روایت کو کہا جاتا ہے۔

جبکہ، اخباری "صحیح" کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ ایسی روایت جو قطعی طور امام سے ثابت ہو، پھر چاہے اس کی صحت کے مراتب و ثبوت طرح طرح سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں، اسی لیے اس میں اخبار تواتر بھی داخل ہیں اور اخبار احاد بھی داخل ہیں اور ان قرائن میں ایک واضح قرینہ یہ بھی ہے کہ روایت کی صحت کی شہادت قرآن کی مطابقت سے ہو جائے یا پھر اس پر (عمل کے اعتبار سے) شیعوں میں اجماع ہو یا پھر اس کا متن دیگر احادیث کی مطابقت رکھتا ہو اور بھی دیگر قرائن ہیں کہ جن سے اس کے صحیح ہونے اور یقینی علم ہونے پر قطعی علم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ شیخ (طوسی) اور دیگر نے اس کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور روایت کے صحیح ہونے کے اس کے علاوہ بھی بہت سے قابل وثوق اصول موجود ہیں, جو کچھ ہم نے تذکرہ کیا ہے۔

اسی لیے ہمارے شیخ (یہ اشارہ ہے اپنے استاد شیخ سلیمان البحرانی الماہوزی کی طرف) نے بیان کیا ہے کہ، ہمارے زمانے میں یا اگلے وقتوں میں اس اصطلاح صحیح (جو اخباری بیان کرتے ہیں) سے صرف علامہ (اشارہ علامہ حلی کی طرف ) نے انحراف کیا ہے اور پھر متاخرین نے ان کی وضع کردہ اصطلاحات کی پیروی کی ہے اور اس سے پہلے انھیں کوئی نہیں جانتا تھا اور اخباریوں کی روایت صحیح کے متعلق اصطلاحی معانی ہی مشہور تھے.

نکتہ نمبر 6

مجتہدین لوگوں کی دو اقسام بیان کرتے ہیں، مجتہد اور مقلد جبکہ اخباری کہتے ہیں کہ تمام لوگ امام معصوم کے مقلد ہیں اور مجتہد نام کی کسی شے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے.

نکتہ نمبر 7

مجتہدین کہتے ہیں کہ زمانہ غیبت میں علم کے حصول کے لیے طریق اجتہاد ہی فقط موجود ہے اور ایسے زمانہ میں جبکہ امام معصوم حاضر ہوں تو پھر البتہ اجتہاد کی ضرورت نہیں کیونکہ امام کی موجودگی میں علم انہی سے اخذ کیا جا سکتا ہے اگرچہ پھر یہ کئی واسطوں سے ہی کیوں نہ اخذ کیا جائے، جیسا کہ اخباریوں کا اب تک طریقہ ہے۔

جبکہ، اخباری حضرات معصوم کے زمانہ غیبت یا معصوم کے زمانہ حضور میں تفریق ہی نہیں کرتے ہیں کیونکہ محمد رسول الله کا حلال کردہ یوم قیامت تک حلال ہوتا ہے اور ان کا حرام کردہ قیامت کے روز تک حرام ہوا کرتا ہے۔ اور اس کے علاوہ نہ بطور قانون کچھ ہے اور نہ کچھ آ سکتا ہے حیسا کہ حدیث میں ایسا ہی آیا ہے.

نکتہ نمبر 8

مجتہدین اپنے علاوہ کسی کو بھی فتوی دینے کا اختیار نہیں دیتے ہیں اور نہ قضاوت کرنے کا حق دیتے ہیں اور دیگر امور میں بھی خود کو ہی محتسب قرار دیتے ہیں اور غیر مجتہدین کے لیے یہ سب کچھ جائز قرار نہیں دیتے ہیں.

اخباری اس قسم کے مجتہدانہ نظریات کو اپنانے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احادیث کے راوی اہل بیت سے جو کچھ لاتے ہیں انہی کے مطلع کردہ احکام جو اہل بیت سے صادر ہوئے ہیں پر عمل کیا جائے گا. اخباریوں کا کہنا ہے کہ مجتہد کی کسی قول یا عمل میں پیروی جائز نہیں ہے جو انھوں نے اہل عصمت کے حکم کے علاوہ سر انجام دیا ہو.

جیسا کہ مولا امام جعفر صادق نے فرمایا کہ، تم اپنے اندر ایسے لوگوں کی طرف نظر کرو جو ہماری احادیث کو روایت کرتے ہیں۔ اور ہمارے مولا مہدی کا قول کہ " جہاں تک مستقبل کے حوادث کا ذکر ہے تو تم ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرنا بتحقیق وہ تم پر اور ہم ان پر حجت ہیں۔ اور انہی ذوات مقدسات کا قول ہے کہ، لوگوں کی منزلت کو اس طرح پہچانا کرو کہ وہ کس قدر ہم سے روایت کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اخبار کے ہوتے ہوئے مجتہدوں کے قول کو قبول کرنا کہ کبھی تو وہ روایت سے حکم لگائیں گے اور کبھی کہیں کہ خود ہی استنباط کریں گے، یہ انصاف کے خلاف بات ہے .

نکتہ نمبر 9

مجتہدین، عالم کو دو اقسام میں منقسم کرتے ہیں کہ جن کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور وہ قسمیں یہ ہیں کہ ایک تو مکمل طور پر مجتہد ہو اور دوسرا وہ جو جزوی طور پر مجتہد ہو.

جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ عالم کی فقط ایک ہی قسم ہے اور وہ یہ ہے کہ جزوی عالم. کیونکہ وہ بعض احکام کا ہی عالم ہوتا ہے جو روایت کے ذریعہ اس تک پہنچے، جبکہ روایت کے پہنچنے سے پہلے وہ عالم نہ تھے۔ اور اخباریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی تمام احکام کا عالم مطلق نہیں ہو سکتا ہے مگر یہ کہ سوائے امام معصوم کے اور معصوم کا غیر ہر صورت میں جزوی عالم ہی ہے اور اسی قدر جانتا ہے جس قدر اسے معصوم سے روایت کے ذریعہ یقینی علم حاصل ہو جائے.

البتہ علم کا حصول مختلف مراتب رکھ سکتا ہے جس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں میں عالم بھی مختلف مراتب کے ہو سکتے ہیں، جیسے کہا جائے کہ فلاں زیادہ علم رکھنے والا ہے اور فلاں کم. تاہم زیادہ علم رکھنے والا بھی جزوی عالم ہی ہو گا جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے، اسی لیے ہم انکار کرتے ہیں اس امکان کا کہ مجتہد اس قدر قوت رکھتا ہو کہ اصول سے فروع کا استخراج کر سکے، چاہے پھر وہ اپنے فن میں جس قدر بھی مہارت حاصل کر لے اور اپنے طور پر تمام احکام پر قوت استعداد کے لیے پوری طرح تیاری ہی کیوں نہ کر لے. کیونکہ ایسا کرنے سے تو وہ حکم شرعی کے متعلق کسی مسلہ کو بھی چھوڑنے والا نہیں ہو گا چاہے اس کا علم ہو یا نہ ہو اور ہر مسلہ میں حکم لگانے والا بن جائے گا جبکہ ایسا ممکن نہیں.

یہی وجہ کہ سوائے علامہ حلی کے ہمارے علما میں سے کسی نے بھی ایسی بات نہیں کہی ہے جیسا کہ علامہ حلی نے قوت استنباط کا دعوی کیا ہے، یہ صرف انہی کا دعوی ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ حکم لگانے میں توقف کرتے رہے اور جا بجا انھیں مشکلات کا سامنا رہا، کوئی کہنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر علامہ حلی زیادہ وقت اس مسلہ میں گزارتے اور اپنی کوشش کو بھی زیادہ کر دیتے تو وہ کامیاب ہو جاتے، کیونکہ اگر ان میں یہ صلاحیت ہوتی تو وہ ضرور اس کے ذریعے حکم شرعی کو اپنی ذاتی کوششوں سے حاصل کر لیتے.

پھر آپ سنی علما کی طرف دیکھیں کہ ان میں سے کسی نے وہ کچھ نہیں پایا جو ان کے چار فقہا نے پایا. اسی لیے شاید انہی چار کو مجتہد مطلق کہا جاتا ہے اور یہ روایت بھی یقینی ہے کہ ان میں سے ایک، یعنی مالک کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس سے 40 سوالات پوچھے گئے جن میں سے 36 کے بارے میں اس نے کہہ دیا کہ میں ان کے بارے میں علم نہیں رکھتا ہوں. تو جب سنی مجتہد مطلق کا یہ حال ہے تو علامہ حلی کیونکر اپنے بل بوتے پر صحیح حکم اخذ کر سکتے ہیں؟

نکتہ نمبر 10

مجتہدین کا کہنا ہے کہ، کوئی بھی شخص فتوی جاری نہیں کر سکتا ہے اور نہ معرفت حدیث کا دعوی کر سکتا ہے کہ جب تک وہ 6 مقدمات کے بارے میں مکمل علم نہ رکھتا ہو اور وہ یہ ہیں، الکلام، اصول، نحو، تصریف، لغت عرب اور منطق. اور چار مزید اصول اربعہ بھی نہ جانتا ہو جو یہ ہیں ، کتاب و سنت اور اجماع و دلیل عقل اور بعض کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کہ اصول اربعہ کے بارے میں بھی مکمل علم کا دعوی نہیں کیا جا سکتا جب تک کم از کم 15 مزید مقدمات کا علم نہ رکھتا ہو.

جبکہ اخباری کوئی شرط نہیں لگاتے ہیں مگر صرف اتنی قابلیت کہ عربی پڑھنا آتی ہو. اور اس میں بھی صرف اس قدر کافی ہے کہ صرف و نحو کے بعض مسائل کا علم ہو. جبکہ بعض اخباریوں نے تو صرف و نحو جاننے کی بھی شرط مقرر نہیں کی ہے۔ البتہ ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ مناسب حد تک عربی گرائمر پر عبور حاصل ہونا چاہیے تاکہ اہل بیت کی اصطلاحات کو سمجھا جا سکے. اوراسی طرح اخباریوں کی طرف سے عربی پڑھ سکنے کی حد تک کی قابلیت کے علاوہ کچھ بھی شرط نہیں رکھی گئی ہے.[11]

نکتہ نمبر 11

مجتہدین جب اخبار میں تعارض پاتے ہیں تو اپنی ذاتی رائے اور افکار کو ترجیح دیتے ہیں۔

جبکہ اخباری اس کو جائز نہیں سمجھتے ہیں، مگر یہ کہ ترجیحات کے سلسلے میں خود معصوم سے کچھ منصوص نہ ہو. جیسا کہ مقبول روایت موجود ہے جو عمر بن حنظلہ سے مروی ہے اور اس جیسی دیگر اخبار ہیں یا ایسا مقام آ جائے جہاں ضرورت کی بنا پر ترجیح محسوس کی جائے.

یعنی جب کوئی ایسی روایت آئے جو احادیث صحیحہ کے مخالف ہو اور ان میں ظاہری طور پر تطبیق نہ ہو رہی ہو یا حتی خود منصوص ترجیحات سے بھی مسلہ حل نہ ہو رہا اور آخری صورت یہی باقی رہ جائے کہ ایسی روایت کی تاویل کی جائے تو جائز ہے کہ ترجیح کو اخبار میں رہتے ہوئے اخذ کیا جائے. اور اس کے علاوہ صورت حال ہو تو پھر البتہ اس خبر کو رد نہ کیا جائے مگر یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اور ان پر عمل پر متواتر عمل کے ثبوت کی وجہ سے اس پر عمل بھی نہ کیا جائے کیونکہ ایسے عمل کی نہی بھی خود اخبار میں ہی وارد ہوئی ہے کہ جن سے ہم تمسک رکھتے ہیں۔

ہمارے استاد (اشارہ سلیمان البحرانی کی طرف ) نے مجتہدوں اور اخباریوں کے فروق کے بارے میں جو بعض جوابات تحریر کیے ہیں اس میں یہ لکھا ہے کہ اخبار میں تعارض کی صورت میں اخباری ترجیحات کو اخذ نہیں کرتے ہیں مگر ان قواعد کے ذریعے سے جو اہل ذکر علیھم السلام سے صادر ہوئے ہیں۔ جنھیں ثقہ الاسلام کلینی رح نے اپنی کتاب کافی کے دیباجہ میں ذکر کیا ہے۔ اور اگر یہ مذکور نہ بھی کیا جاتا تو پھر بھی ایسی صورت میں توقف کرنا ضروری ہوتا کیونکہ جیسا کہ معصوم کا فرمان ہے کہ ملتوی کر دیا کرو اسے یہاں تک کے اپنے امام سے نہ مل لو یا پھر جیسا کہ دیگر اخبار میں آیا ہے کہ ، تم اس میں آزاد ہو کہ تسلیم کی غرض سے 2 (متعارض) میں سے کسی 1 کو چن لو اور اس پر عمل کرو.

ان 2 قسموں کے احکام جو مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں کہ بارے میں بعض نے یہ تفسیر کی ہے کہ ان میں سے پہلا حکم تو دنیاوی امور سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ وراثت وغیرہ مسائل کہ جن میں انتخاب کی کوئی گنجاش نہیں (لہٰذا خبر کو پلٹایا جائے گا امام معصوم کی طرف ) اور دوسرا حکم باقی تمام امور کو شامل ہے۔ جبکہ ثقہ الاسلام کلینی رح نے الکافی میں ایسی اخبار جمع کی ہیں جس میں ظاہراً ہر 2 صورت میں ہی اخیتار دیا گیا ہے (کہ 2 میں سے 1 کو چنا جائے). اور یہ تو پھر بھی طے شدہ امر ہے کہ خبر کو عالم علیہ السلام کی طرف ہی پلٹایا جائے گا. اور واقعا اس سے زیادہ سہل اور آسان کچھ نہیں ہو سکتا ہے کہ، متعارض معاملات کو عالم علیہ السلام کی طرف ہی پلٹایا جائے. اور اس کے باوجود امام نے یہ آسانی مہیا کر رکھی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ دو میں سے جس پر چاہو عمل کرو اور تسلیم ہو جاو.

جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مجتہدوں کی اجتہادی تاویلات کی کوئی حد ہی نہیں ہوا کرتی ہے، بلکہ ان کی اکثر تاویلات تو خود حقیقت سے ہی بہت دور ہوتی ہیں۔

اس لیے، اس معاملے میں اخباریوں کے طریق کو ترجیح دینا، عقل سلیم کے نزدیک ثابت ہے۔

یہاں ہمارے شیخ (سلیمان البحرانی) کا کلام ختم ہوا. الله جنت میں ان کے درجات کو بلند کرے. جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ انھوں نے اخباریوں کے حق میں انصاف سے کام لیتے ہوئے کلام کیا اور یہ اعتراف کیا کہ مجتہدین کا قاعدہ نہایت کمزور اور حقیقت سے دور لے جانے والا ہوتا ہے اور دونوں فریقوں کے مابین تحقیقی نزاع میں فرق کے اعتبار سے فیصلہ کن گفتگو کی.

نکتہ نمبر 12

مجتہدین کسی 1 کے لیے بھی یہ جائز قرار نہیں دیتے ہیں کہ وہ احکام میں سے کوئی چیز اخذ کرے یا اس پر عمل ہی کرے حتی کہ کوئی مسلہ یقینی روایات و احادیث سے ثابت ہی کیوں نہ ہو جائے، جب تک کہ وہ شخص درجہ اجتہاد پر نہ ہو.

اور اگر وہ درجہ اجتہاد پر نہیں تو ایسا شخص عالم یا فقیہ نہیں کہلوا سکتا بلکہ متعلم اور ملقد ہی ہو سکتا ہے اور ان کے لیے جائز نہیں کہ احکامات کو اخذ کریں.

چاہے پھر اس کے پاس کسی حکم کے متعلق ایک ہزار احادیث ہی کیوں نہ ہوں اگر وہ درجہ اجتہاد پر نہیں تو وہ ان پر عمل نہیں کر سکتا ہے اور اس کے لیے واجب ہے کہ مجتہد کی رائے کی طرف رجوع کرے اور مجتہد کے ظن کو قبول کرے اور احادیث سے جو کچھ اس نے علم حاصل کیا ہے اس کو ترک کر دے.

جبکہ اخباری کہتے ہیں کہ عام مومن کے لیے یہ جائز ہے، بلکہ واجب ہے کہ وہ حدیث پر عمل کرے چاہے وہ 1 ہی حدیث کیوں نہ ہو، اگر اس کا صحیح ہونا اور امام سے صدور ہونا ثابت ہو. اور یہ کہ اس کے تعارض میں کوئی دوسری ملتی جلتی خبر نہ ہو.

اور اخباریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ مجتہد کی طرف رجوع کیا جائے، حدیث صحیح کے بغیر جو واضح طور پر مجتہدوں کی طرف رجوع پر دلالت کرتی ہو (جبکہ ایسی کوئی خبر موجود نہیں کہ عامی اصول فقہ اپنانے والوں سے دین لیا جائے).

نکتہ نمبر 13

مجتہدین کہتے ہیں کہ ان روایات پر عمل کرنا کہ جو معنی کے اعتبار سے مختلف جہات رکھتی ہوں (جیسا کہ حدیث تقلید کی کئی جہات جو خود مجتہدین کے خلاف ہیں کو چھوڑ کر جہتِ واحد اپنی تقلید کروانے والے ٹکڑے کو اپنا لینا) پر عمل کرنا جائز ہے۔ اور بعض جو ظاہرا معنی رکھتی ہوں ان پر بھی عمل کرنا جائز ہے اور اسی طرح آیات کے ظاہر کا بھی معاملہ ہے کہ ان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ اخباری اس عمل کو جائز نہیں کہتے ہیں، وہ سوائے احادیث صریحہ اور آیات محکمات کے کسی پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ یعنی ان اخبار پر عمل کرتے ہیں جن میں کسی قسم کا شبہ وارد نہیں ہوتا ہے۔ اور وہ معانی کے لحاظ سے واضح اور لغت عربی کے لحاظ سے بھی واضح ہوتی ہیں اور جہاں کہیں جو امر متشابہ ہو جائے اس پر عمل کرنا ناجائز ہو جاتا ہے اور یہ ان اخباریوں کے نزدیک قرآن کی نص سے ثابت ہے کہ متشابھات کی پیروی نہ کی جائے.

نکتہ نمبر 14

مجتہدین کہتے ہیں کہ حکم شرعی میں استحباب اور کراہت کے احکام، احادیث ضعیف سے اخذ کیے جا سکتے ہیں ، بلکہ بعض مجتہدوں نے یہ بھی کہا ہے کہ مجتہد حکم کے متعلق فتوی میں اپنی رائے پر ہی انحصار کر سکتا ہے اگرچہ اس کے پاس بطور دلیل خبر نہ بھی ہو.

جبکہ اخباری حضرات احکام کی پانچوں اقسام میں اپنی رائے سے کوئی تفریق نہیں کرتے ہیں جو ان کے نزدیک یقینی علمی دلیل یعنی حدیث شریف سے ثابت ہو جائے اور وہ یہ اقسام ہیں، واجبات، مستحبات، محرمات، مکروہات اور مباحات.

نکتہ نمبر 15

مجتہدین کا کہنا ہے کہ جب کوئی مجتہد مر جاتا ہے تو اس کی تقلید کرنا باطل ہو جاتی ہے۔ اور اسی طرح اس کے فتاوی بھی مر جاتے ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فوت شدہ کا قول بھی اس کی میت کی طرح ہی ہوتا ہے۔

جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ حق حیات یا موت کی وجہ سے تغیر پزیر نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حق میں تبدیلی واقع ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ انشا الله اس پر مزید بیان آنے والے مسلہ میں قدرے تفصیل سے آئے گا.

نکتہ نمبر 16

مجتہدین جائز سمجھتے ہیں کہ قرآن کے ظاہر سے معانی اخذ کیے جائیں جب کہ اس کی موافقت میں کوئی حدیث موجود نہ بھی ہو. اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے بہتری اسی میں ہے کہ وہ بجائے حدیث کے قرآن کے ظاہر سے معانی اخذ کریں، کیونکہ حدیث قرآن کی آیات کی طرح قطعی متن نہیں رکھتی ہے، جبکہ قرآن کی آیات قطعی دلالت بھی رکھتی ہیں جبکہ خبر کی دلالت میں ایسی قطعیت نہیں ہوا کرتی ہے۔

جبکہ اخباری، قرآن کے ظاہر سے معانی کو اخذ کرنا جائز نہیں سمجھتے ہیں، سوائے ان آیات کے کہ جن کی تفسیر و تاویل معصومین علیھم سلام سے پہنچ جائے، یعنی آیات کے بارے میں جو کچھ احادیث سے ثابت ہو جائے وہ معانی حجت ہوں گے اور ظاہر قرآن سے کسی کا کچھ بھی اپنی رائے سے اخذ کر لینا درست نہیں ہو گا.

اس کی وجہ اخباری یہ بتاتے ہیں کہ، قرآن کو مکمل طور پر وہی سمجھ سکتا ہے جس سے قرآن کا خطاب ہوا ہے یعنی رسول الله اور اس لیے بھی کہ قرآن میں محکمات اور متشابہ دونوں ہیں۔ محکم وہ جس میں کوئی شک نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے متشابہ ہو گا اور اس متشابہ کو کوئی بھی جاننے کا دعوی نہیں کر سکتا سوائے راسخون فی العلم پاک ہستیوں کے. اور یہ راسخون ہمارے آئمہ ہیں، جیسا کہ قرآن کی آیت کی تفسیر میں خود فرمایا گیا ہے کہ ہم راسخون فی العلم ہیں۔

اور یہ دلیل ہے کہ متشابہ سے بغیر نص کے اخذ کرنا عمل حرام ہے اور اخباری اسی لیے سختی سے ایسے عمل جس میں قرآن کے ظاہر کو ذاتی رائے سے سمجھا جائے، سے منع کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اس نکتہ میں ذکر کیا ہے۔ اور مجتہدوں کے نکتہ نظر کو رد کیا ہے۔

یعنی جو کچھ مجتہد قرآن کے قطعی ہونے کے بارے میں کہتے ہیں، وہی کچھ اخباری حضرات قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کے بارے میں بھی کہتے ہیں۔ کہ قرآن و حدیث دونوں قطعی متن و رکھتے ہیں۔

اخباریوں کا یہ کہنا ہے کہ احادیث بھی قطعی المتن اور قطعی دلالت کرنے والی ہوتی ہیں، جیسے متواترات و محکمات اخبار ہوں، جبکہ قرآن کا قطعی المتن ہونا، اس سے قطعی دلالت کو اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ اس کے سمجھنے کے لیے خبر کی ضرورت رہتی ہے اس لیے قرآن کی ہر آیت کو (بغیر تفسیر معصوم کے ) دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے اور یہی صورت حال اخبار کے ساتھ بھی ہوتی ہے (یعنی ان کی درایت کے لیے بھی دیگر احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے). فتأمل!

نکتہ نمبر 17

مجتہدین کہتے ہیں کہ جب کسی حکم شرعی سے متعلق امام کا حکم ملنا ناممکن ہو جائے تو ایسے حکم شرعی کے حل کے لیے اجتہاد کرنا جائز ہے۔

جبکہ اخباریوں نے اجتہاد کرنے میں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں رکھی یعنی ان کے نزدیک اجتہاد تب بھی حرام ہے جب کسی مسلہ میں نص معصوم معلوم نہ ہو اور اس صورت میں بھی وہ معصوم کی طرف رجوع کرنے کو مطلقہ طور پر واجب کہتے ہیں.

اخباری اول تو ایسے مسائل پر تحقیق کرتے ہیں کہ خبر مل جائے، اگر خبر مل جائے تو وہی کچھ کہتے ہیں جو خبر میں آیا ہو اور اگر خبر یعنی حدیث نہ ملے تو وہ خاموشی اختیار کرتے ہیں اور توقف کرتے ہیں، یعنی وہ مولا کے اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں کہ فرمایا " جب تمھیں علم ہو تو پھر بولو اور جب تمھیں علم نہ ہو تو ... یہ فرما کر امام نے اپنے ہاتھ مبارک کو سینہ مبارک پر رکھا، یعنی تب خاموش رہو اور توقف کرو" نیز دیگر مقام پر فرمایا " امور تین طرح کے ہوتے ہیں اول یہ کہ جہاں امر بالکل واضح ہو اس کی پیروی کی جاتی ہے، دوسرا ایسا معاملہ ہوتا ہے جہاں شک و شبہ واضح ہوتے ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور تیسرا ایسا مسلہ ہے جو بہت مشکل ہوتا ہے جس کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے. "

نیز ، ہشام بن الحکم سے مروی ہے کہ انھوں نے مولا امام صادق آل محمد سے سوال کیا کہ مولا قربان جاؤں الله کا اپنی مخلوق پر کیا حق ہے؟ تو مولا نے جوابا فرمایا یہ کہ مخلوق وہی کچھ بولے جس کا علم رکھتی ہے اور وہاں توقف کرے جہاں اس کے پاس علم نہ ہو اور اگر انھوں نے ایسا کیا تو گویا انھوں نے الله کا حق ادا کر دیا۔

اس کے علاوہ ان ذوات مقدسات سے یہ بھی حدیث ہے کہ ، فرمایا " جب تمھارے پاس کوئی ایسا معاملہ آئے جس متعلق تم علم نہیں رکھتے ہو، تو لازما اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس بارے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے. اور اس بارے میں سچ جاننے کے لیے اس معاملے کو ائمہ کی طرف پلٹانا چاہیے، تاکہ وہ اس معاملے کے بارے میں تمھیں صحیح راستہ دکھائیں، شکوک کا خاتمہ کر دیں اور اس معاملے کے بارے میں حق کی تمھیں تعلیم دیں"

الله عزوجل کا قول ہے کہ "اگر تم علم نہیں رکھتے تو اہل ذکر سے پوچھو"

اس کے علاوہ بھی اس پر اخبار کثیر ہیں، جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے.

نکتہ نمبر 18

مجتہدین کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ جب اجتہاد کرتے ہیں اور ان کے اجتہاد میں خطاء نہ ہو تو انھیں اس کے 2 اجر ملتے ہیں ایک حق کو اخذ کرنے کا اجر اور دوسرا ان کی انتھک محنت کا اجر. حتی کہ اگر ان کے اجتہاد میں خطاء بھی ہو جائے تو انھیں پھر بھی اپنا لہو پسینہ ایک کرنے کا ایک اجر ضرور ملتا ہے۔ اس موقف کی تائید میں وہ رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم سے ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں۔

جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ ہر صورت میں ہی مجتہدین گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسا اس لیے ہے کہ اگر بالفرض اس نے حق کو اخذ بھی کر لیا تو ایسا کرنا بھی الله کی طرف سے علم کے بغیر اخذ کرنا ہی کہلائے گا=، کیونکہ اس نے معصوم سے روایت کے بغیر اسے اخذ کیا ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ اس نے روایت سے حق کو اخذ کیا ہے تو یہ پھر اجتہاد کہلائے گا ہی نہیں اور اگر اس نے اجتہاد میں خطاء کی تو گویا اس نے الله پر جھوٹ باندھا.

ابو بصیر سے روایت ہے کہ، میں نے مولا امام صادق آل محمد سے پوچھا کہ بعض اوقات ہمارے پاس ایسے معاملات آتے ہیں کہ جن کے متعلق ہم کچھ علم نہیں رکھتے ہیں قرآن میں سے یا سنت میں سے، تو کیا پھر ہمارے لیے جائز ہے کہ ان امور میں نظر کریں؟

فرمایا، یقینا نہیں! اگر تم نے ان کے بارے میں حق کو اخذ بھی کیا تو تمھیں اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا اور اگر تم نے خطاء کی تو تم نے الله پر جھوٹ باندھا.

اسے کلینی رح نے الکافی میں اور احمد بن محمد نے المحاسن میں اور شیخ صدوق نے الفقیہ میں درج کیا ہے کہ ، اامام صادق آل محمد سے روایت ہے کہ، قاضیوں کی اقسام 4 ہیں، جن میں سے 3 طرح کے قاضی جہنمی ہیں، ایسا شخص کہ جو فیصلہ کرے اور جانتا ہو کہ ناحق فیصلہ کر رہا ہے تو وہ جہنم میں جائے گا اور ایسا شخص جو بغیر جانتے ہوئے ایسا فیصلہ کرے جو ظلم کا فیصلہ ہو تو وہ بھی جہنم میں جائے گا، تیسرا وہ شخص ہے کہ جو فصیلہ تو حق کے ساتھ کرے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ یہ فیصلہ حق ہے تو اس کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔ اور چوتھا وہ شخص ہے کہ جو حق کے ساتھ فیصلہ کرے اور جانتا ہو کہ یہی صحیح فیصلہ ہے تو وہ جنتی ہو گا.

اور یہ بھی ان ذوات مقدسات کا قول ہے کہ فرمایا "فیصلے 2 طرح کے ہوا کرتے ہیں، الله کا فیصلہ اور جاہلیت کا فیصلہ جس کسی نے جاہلیت کے حکم میں خطاء کی تو اس نے الله کے حکم کو پا لیا اور جس کسی نے الله کے حکم میں خطاء کی تو اس نے جاہلیت کے فیصلے کو پا لیا.

اور انہی معنوں میں کثرت کے ساتھ دیگر اخبار بھی وارد ہوئے ہیں۔

اور اس متعلق قرآنی آیات بھی موجود ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ ہم کیے دیتے ہیں:

"اور جو کوئی حکم نہیں لگاتے اس کے مطابق جو کچھ الله نے نازل کیا ہے تو وہی ہیں ظالمین اور وہی ہیں فاسقین اور وہی ہیں کافرون"![12]

یہاں ہم یہ بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس نکتہ کے آغاز میں جو ہم نے لکھا تھا کہ مجتہدین اپنے اس باطل عقیدہ پر 1 عدد روایت نبی صلی الله علیہ والہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، اخباریوں کے نزدیک اس روایت کی صحت ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ وہ روایت یا اس سے ملتے جلتے مضمون میں کوئی شے ہماری حدیث کی کتابوں میں موجود نہیں ہے۔ اور وہ عامہ کی ہی منفرد روایت ہے اور وہی ہیں جنھوں نے اسے گھڑا ہے البتہ جہاں تک اس کی تخریج کا معاملہ ہے جو اصول فقہ کے ماہرین نے کی ہے تو ایسا ان کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے, کیونکہ اگر یہ سنی روایت درست ہوتی تو پھر یہ ہمارے اصحاب کی بیان کردہ کثرت سے احادیث کے متعارض ہوتی، جبکہ جو اخبار ہمارے پاس ہیں وہ قرآن کی موافقت میں اور عامہ کی مخالفت میں ہیں۔

پھر آپ دیکھیے کہ جیسا کہ ہم نے اپنی دیگر کتب میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ، صحیح اخبار میں سے ترجیح کو 2 صحیح طریقوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔

ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ، شہرت خبر کو دیکھا جائے. اور ایسا ان(چودہ معصومین) کے اس قول کی بنا پر ہے کہ فرمایا "وہ کچھ لے لیا کرو جو تمھارے اصحاب کے مابین مشہور ہو اور اس کو ترک کر دیا کرو جو شاذ ہو اور مشہور نہ ہو"

اور ہم نے اس نکتہ میں جتنی بھی اخبار کا ذکر کیا ہے وہ ایسی روایت ہیں جو ہمارے اصحاب اور اصحاب حدیث میں بہت زیادہ مشہور ہیں جبکہ ان کے برعکس وہ عامی طریق سے وارد خبر ہے جس پر مجتہدین اپنا عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ، احیتاط کے ساتھ موافقت قائم کی جائے اور ایسا بھی فقط تب کیا جاتا ہے جب اخبار صحیحہ میں ترجیحات کا مسلہ وارد ہو.

نکتہ نمبر 19

مجتہدین کا کہنا ہے کہ امور 2 طرح کے ہوتے ہیں، ایک ایسا امر جس کی دلیل واضح ہو چاہے پھر وہ ظن پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، لہذا اسے اخذ کرنا واجب ہے۔ دوسرا امر خفی ہے جس کی دلیل غائب ہو. اس صورت میں بھی واجب ہے کہ اسے اخذ کیا جائے اور اس کی اصل کو جانا جائے، الله کے ان احکام کے ذریعے جو اس سے ملتے جلتے ہوں اور ایسا کرنے میں توقف اور احتیاط ہرچند واجب نہیں ہے۔

جبکہ اخباریوں کا کہنا ہے کہ امور 3 طرح کے ہیں، یعنی غیر معصوم لوگوں کے لیے یہ 3 طرح کے ہیں، اول وہ ہیں جن میں حق واضح ہو تو واجب ہے کہ ان کی پیروی کی جائے، دوسرے وہ ہیں جن میں سراب واضح ہو تو پس ان سے اجتناب کیا جائے اور تیسری قسم ایسے امور کی ہے کہ جن کے درمیان شکوک و شبہات ہوں.

پس جس کسی نے شبہات سے اخذ کیا تو اس نے ایسے امور پر عمل کیا جن پر عمل کرنا حرام ہے۔ اور وہ ہلاک ہو گیا کیونکہ وہ اس بارے میں علم نہیں رکھتا تھا۔ اور ان معاملات کہ جن کے بارے میں ذوات مقدسات ص سے خبر وارد نہ ہو میں احتیاط لازم ہے اور ہر ہر مسلہ میں معصوم کی طرف رجوع کرنا واجب ہے.

نکتہ نمبر 20

مجتہدین کا کہنا ہے کہ ایسے عقائد جو متکلمین کے ادلہ کہ جن پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہ ہو کو اپنانا جائز ہے۔

جبکہ اخباری اس قسم کی باتوں کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں جیسا کہ آپ نے اب تک کے نکات میں واضح طور پر دیکھ اور سمجھ لیا ہے کہ وہ ہر بارے میں قرآن و سنت پر عمل کرنے پر سختی کرتے ہیں.

نکتہ نمبر 21

مجتہدین کا کہنا ہے کہ فقہی ادلہ جن قواعد سے اخذ کیے جاتے ہیں کی صحت ان کے نزدیک ثابت ہوتی ہے جسے وہ ان اصولوں سے اخذ کرتے ہیں جو علمائے عامہ کے وضع کردہ ہیں۔

جبکہ اخباری حضرات اس عمل کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اصول و فروع میں خود کو وہیں تک محدود رکھا جائے جہاں تک معصوم علیہ السلام سے حدیث سے دلالت موجود ہو. اور اس سلسلہ میں وہ امام صادق آل محمد علیہ السلام کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ، "کسی سے بھی دین کے معاملے میں کچھ مت لو اور صرف ہم اہل بیت علیہ السلام سے ہی دین لو یوں تم ہم (علیہ السلام) میں سے ہی رہو گے، نیز آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ، تم پر وائے ہو اگر تم ایسا کلام کرو یا بات کرو جو تم نے ہم سے نہ سنا ہو. مزید ارشاد فرمایا ، جو کچھ ہم اہل بیت علیہ السلام سے تم تک نہ پہنچا ہو وہ یقینا باطل ہے۔ ارشاد مزید ہوا کہ الله کی قسم ہمیں یہ بات بہت پسند ہے کہ جب ہم بولیں تو تم بھی وہی بولو جو ہم نے بولا ہے اور جب ہم خاموش ہو جائیں تو تم بھی خاموش جو جاو کیونکہ ہم تمھارے اور الله کے درمیان ہیں اور الله نے ہمارے امر کی مخالفت میں ہر گز خیر نہیں رکھی ہے۔

لب ہائے اطہر نے پھر جنبش فرمائی اور ارشاد ہوا ،"لوگوں کے پاس حق اور نہ مناسب بات ہے مگر یہ کہ جو کچھ وہ ہم اہل بیت علیہ السلام سے سنیں . " ، فرمان حق یوں جاری رہا کہ "اگر تم یقینی علم کے حصول کے متمنی ہو تو وہ تو ہمارے ہی پاس ہے ، ہم اہل بیت علیہ السلام ہیں اور ہم ہی اہل الذکر ہیں جس کے بارے میں رب تعالی فرماتا ہے کہ اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے. ، کلام پاک کی روانی یوں رہی کہ "تم چاہے تو مشرق میں جاو یا مغرب میں جاو بخدا تم یقینی علم کو حاصل نہ کر پاو گے ماسوائے ان لوگوں سے کہ جن پر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتا تھا. "

اس کے علاوہ بھی اخباری حضرات بہت سے دلائل نقل کرتے ہیں.

نکتہ نمبر 22

مجتہدین قرآن و حدیث سے عقائد کو اخذ کرنا جائز نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ بعض نے تو اصول فقہ کے ذریعہ حدیث سے کسی مسلہ کے اخذ کرنے کو بھی منع قرار دیا ہے، ایسی حدیث جو اخبار احاد میں سے ہو.

ایسا اس لیے ہے کہ وہ اصول کو یقینی رکھنا چاہتے ہیں اور بقول ان کے، خبر واحد ان کے لیے یقینی علم کے لیے مفید نہیں ہوتی ہے۔

جبکہ اخباری حضرات اس موقف کے بالکل برعکس موقف رکھتے ہیں، جیسا کہ آپ نے ابھی تک کے سابقہ نکات میں ملاحظه فرما لیا ہے.

نکتہ نمبر 23

مجتہدین حضرات شرعی مسائل کے متعلق جو کچھ ظنی اجتہاد سے اخذ کرتے ہیں، اس میں اختلاف کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور وہ اس سلسلے میں کسی کو بھی گناہگار نہیں کہتے ہیں جو آیات و روایات یعنی حق کے خلاف بھی استفادہ کرے تو وہ بھی ان کے نزدیک فاسق نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ مسلہ فروعی احکامات سے متعلق ہو اور اجتہادی ظن کو بروئے کار لایا گیا ہو.

ان میں سے ہر ایک دوسرے کو صحیح سمجھتا ہے، اس صورت میں بھی کہ خود قائل ہوں کہ اس سے (اجتہادی) خطاء ہوئی ہے تب بھی اُسے غلط نہیں سمجھتے ہیں.[13]

جبکہ اخباری اس قسم کے اختلاف کو جائز قرار نہیں دیتے ہیں اور جو کچھ آیات و روایات سے ثابت ہوتا ہے اس کے خلاف بات کرنے والے کو فاسق قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام کا قول مبارکہ ہے کہ فرمایا:

"کہ جب کوئی مسلہ کسی ایک کے پاس آتا ہے تو اس بارے میں فصیلہ کرتے ہوئے وہ اپنی رائے سے کام لیتا ہے اور پھر وہی سوال کسی دوسرے سے کیا جاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے میں پہلے والی کی مخالفت کرتا ہے اور جب یہ دونوں اپنے امام (بمعنی دنیاوی حاکم ) کے پاس آتے ہیں جس نے انھیں قاضی مقرر کیا ہوتا ہے تو وہ ان دونوں کے فیصلوں کو صحیح قرار دے دیتا ہے۔ جبکہ ان کا خدا ایک ، رسول ایک اور کتاب ایک ہی ہوتی ہے۔ کیا الله نے انھیں حکم دیا ہے کہ اختلاف کریں اور یوں انھوں نے اختلاف کر کے الله کے حکم کی پابندی کی ہے؟ یا پھر الله نے انھیں اختلاف کرنے سے منع فرمایا ہے اور انھوں نے اس کی حکم عدولی کی ہے؟ یا پھر کیا الله نے دین کو ناقص رکھا ہے اور ان سے مدد طلب کی ہے کہ وہ اسے مکمل کر دیں ؟ یا پھر یہ الله کے شریک ہو گئے ہیں کہ انھیں حق حاصل ہو گیا ہے کہ اپنی آرا سے فصیلہ کریں اور الله بھی ان سے ضرور متفق ہو؟

یا پھر یہ کہ الله نے دین تو مکمل کیا ہے لیکن رسول الله سے اس کی صحیح تبلیغ نہ ہو سکی؟ جبکہ الله کتاب میں ارشاد فرماتا ہے کہ "ہم نے قرآن میں کسی شے کے بیان کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے" الی آخر روایت. "

بعین حرف بہ حرف یہی موقف اخباریوں کا ہے , اس قسم کا اختلاف اصولیوں کے ہاں ممدوح ہے ،جہاں تک اخبار میں ظاہری اختلاف کا تعلق ہے تو اس بارے میں ہم نے مختصرا سابقہ نکات میں بھی کلام کیا ہے اور آئندہ بھی کتاب ہذا میں مفصل کلام کریں گے. یہاں ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی یہ گمان کرے کہ بعض اخبار تو حق کی ترجمان ہوں لیکن بعض دوسری تقیہ پر مبنی ہوں. یا یہ کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ یہ آپس میں متضاد ہیں۔ یا ایک یہ صورت حال بھی ہو سکتی ہے کہ اخبار کے متعلق افہام و تفہیم میں دو افراد میں اختلاف وارد ہو جائے. اور ہر ایک اپنے فہم کے مطابق کسی نتیجہ تک پہنچے کہ جو دوسرے سے مختلف ہو. تو ان سبھی صورتوں میں اختلاف کی یہ قسم قابلِ گرفت نہیں کیونکہ اخذ شدہ مسلہ کے لیے بہرحال روایت ہی استعمال کی گئی لیکن اس کے معنوں سے لا علم رہا گیا۔ ایک بے خبر شخص تب تک نظر انداز کیا جائے گا جب تک کہ وہ واقعا بے خبر رہے جیسا کہ مولا امام صادق آل محمد علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ، میں نے انھیں اختلاف کے لیے چھوڑ دیا ہے یا یہ کہ ہم جو کچھ تقیہ میں فرماتے ہیں اور کوئی اس پر عمل کرے تو یہ بھی درست ہے۔ یا یہ فرمان واضح ہے کہ جب تک تمھاری نیت خالصتا اطاعت کرنا ہی ہو اور ہمارے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہو تو اس سلسلے میں تم آزاد ہو جس خبر پر چاہو اس پر عمل کرو. اور اسی قسم کا مفہوم دیگر روایات میں بھی وارد ہوا ہے۔

یعنی، اگر تو اختلاف ظاہری طور پر روایات کے تحت ہو تو پھر ان اخبار کی درایت میں اختلاف کا ہونا بذات خود حرام و ممنوع نہیں ہے جب تک کہ نیت اطاعت کرنا ہی ہو، تو یہ قابل تلافی ہے۔ لیکن اجتہاد سے ظاہر ہونے والے اختلاف کی ممانعت وارد ہوئی ہے جو روایات کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ ایسا اختلاف اصول فقہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اصول الفقہ کا نام و نشان بھی روایات میں نہیں ملتا ہے۔

مثال کے طور پر مجتہدین کا یہ بیانیہ کہ اگر کسی شے کی انجام دہی کا حکم موجود ہو تو اس سے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کا برعکس ہر حال میں حرام ہو گا جبکہ حرمت پر اصلاً کوئی نص نہ بھی ہو. یا ان اصولیین کا یہ قول کہ اجازت واجب ہو گی اور نہی تحریم ہی ہو گی.

یا پھر ان مجتہدین کا یہ کہنا کہ طریق اولیت کو استعمال کیا جا سکتا ہے یا عقلی استنباط وغیرہ یا پھر ان کا یہ کہنا کہ منہ سے نکلی ہوئی بات ہمیشہ ہی ٹھیک نہیں ہوتی بلکہ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہی رہے گی یا پھر ان کا یہ کہنا کہ انسان پر تو بس اپنے ظن پر ہی عمل کرنا فرض ہے یا ان قواعد و اصول کے ذریعے حکم کو کشف کرنا ہی کافی ہے کہ جن کا کوئی حاصل وصول نہیں ہوتا ہے.

نکتہ نمبر 24

مجتہدین حضرات خود کسی مجتہد کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ کسی کو اپنے سے کم علم والے کے پاس روایت کے حصول کے لیے بھیج دے. حتی کہ اپنے برابر والے کے پاس بھی کسی کو بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت کہ جب خود ان کے اپنے پاس روایت نہ ہو تو پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ مقلد اپنے مجتہد کے فیصلہ کی طرف ہی رجوع رکھے.

جبکہ اخباریوں کا طریقہ اس متعلق بھی یکسر بالعکس ہے کہ وہ جب کسی مسلہ کے بارے میں روایت نہیں پاتے ہیں تو سائل کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ معصومؐ سے روایت کو جاننے کے لیے کسی اور کی طرف رجوع کرنے میں آزاد ہے پھر چاہے خود کسی طالب علم سے ہی روایت کے متعلق کیوں نہ پوچھا جائے بلکہ اخباری تو عام مومنین کی طرف بھی روایت کے حصول کے لیے رجوع کرنا صحیح سمجھتے ہیں۔

ان کا وہی موقف رہتا ہے کہ کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ مسلہ کے بارے میں اپنی رائے سے فیصلہ کرے. اور اس بارے میں بھی اخباری احادیث اہل بیت علیہ السلام پیش کرتے ہیں جیسا کہ فرمان ہوا کہ "لوگ صرف اسی وجہ سے تباہ ہو جاتے ہیں کہ وہ سوال نہیں پوچھتے". اور انہی علیہ السلام کا یہ فرمان کہ ایسا شخص قتل کیا گیا جس کے چہرے پر چیچک کے داغ ہوں اور لوگ اسے پانی سے دھو دیں جس سبب اس کی موت واقع ہو جائے , انھوں نے مٹی کا استعمال کیوں نہ کیا اور اس متعلق سوال کیوں نہ کیا؟ اور یہ فرمان بھی کہ فرمایا جہالت کا اعلاج سوالات اٹھانے میں ہے.

نکتہ نمبر 25

مجتہدین حضرات کا یہ کہنا ہے کہ زمانہ غیبت میں موجود تمام شیعہ علما مجتہد ہی ہوا کرتے ہیں۔ قدماء یعنی شیخ کلینی رح تا محقق عبد علی الکرکی رض سبھی مجتہد تھے۔ اور شیخ زین الدین رض وغیرہ تک بھی سبھی مجتہد تھے۔

جبکہ اخباریوں نے اس بارے میں بھی اصولیوں سے اختلاف کیا ہے اور ان کا یہی کہنا ہے کہ کلینی اور صدوق اور ان جیسے دیگر قدماء ہرگز مجتہد نہ تھے۔

ہاں مگر سید مرتضی اور علامہ حلی، شیخ مکی العاملی یا محقق الکرکی وغیرہم یا ان کی طرح کے اور شیوخ مجتہد تھے۔ اخباریوں کے اس موقف کی صداقت کتب سے ثابت ہے اور مجتہدین کے اس بیانیہ کا رد بھی خود مشہور کتب میں موجود ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے.

نکتہ نمبر 26

مجتہدین کا کہنا ہے کہ اجتہاد واجب کفائی ہے یا واجب عینی تاہم اکثر مجتہدین نے اجتہاد کو بطور واجب کفائی لیا ہے اور مجتہدین کی قلیل جماعت نے واجب عینی قرار دیا ہے۔

جبکہ اخباریوں کا موقف یہ ہے کہ حصول علم سبھی مسلمین پر یکساں واجب ہے۔ اور علم کے حصول سے مراد یہ ہے کہ معصومین علیھم صلاۃ و سلام اجمعین سے علم حاصل کیا جائے. یا تو براہ راست معصوم علیہ السلام سے علم کو کسب کیا جائے یا پھر کسی واسطہ سے یا پھر کئی واسطوں سے یعنی ہر طرح سے معصوم علیہ السلام سے ہی علم حاصل کیا جائے .

نکتہ نمبر 27

مجتہدین کسی حکم کو برقرار رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور گذشتہ علمائے اصولیین نے بھی کسی حکم کو جوں کا توں رکھنے کو درست نہیں سمجھا ہے اگرچہ اُس مسلہ پر واضح دلیل ہی کیوں نہ موجود ہو.

جبکہ اخبارئین قدماء یا بعد والوں میں فرق نہیں کرتے ہیں اگرچہ وہ حکم کو برقرار رکھے یا پھر سرے سے حکم پیش ہی نہ کرے. اخباریوں کے نزدیک عمل کی بنیاد معصوم علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب وہ میسر ہو جائے گی تو نافذ العمل ہو جائے گی. پھر چاہے وہ پہلے میسر آئے یا بعد میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے.[14]

نکتہ نمبر 28

مجتہدین حضرات کے نزدیک علم الادب ، صرف و نحو اور علم الکلام سمیت علم المنطق وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنا واجبات میں سے ہے کیونکہ یہ اجتہاد کی شرائط میں سے ہے۔ جو واجب کفائی ہے۔ اور اسی لیے چونکہ خود اجتہاد واجب کفائی ہے تو اس کے مقدمات کا سیکھنا بھی واجب ہی ہو گا. کیونکہ جن ذرائع سے واجب کفائی پر عمل کیا جائے گا ان ذرائع کا سیکھنا خود بخود واجب ہی ہو گا.

جبکہ اخباری حضرات ان میں سے کسی علم کو بھی ضروری نہیں سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ روایات کو سمجھنے کے لیے ان علوم پر انحصار کرنا ہرگز ضروری نہیں ہوتا ہے۔ عقائد حقہ کو اخذ کرنے کے لیے علم الکلام کی محتاجی نہیں رکھی گئی ہے۔ اور فقیہ کے لیے بس یہی ضروری ہے کہ اتنی عربی کا علم ہو کہ روایت کو پڑھ اور سمجھ سکے اور اس پر دقت کر سکے جیسا کہ پہلے بھی اس کا ہم نے ذکر کیا تھا.

نکتہ نمبر 29

مجتہدین روایات کے لیے اصطلاح "ثقہ" کا استعمال صرف اسی صورت میں کرتے ہیں جبکہ راویان عادل و امامی ہوں.

جبکہ اخبارئین نے اس کے برعکس جو کچھ قدماء کی تقاریر سے استفادہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ راوی کے لیے صرف اتنا معیار رکھنا کہ عمومی طور پر تسلی ہو کہ وہ جھوٹا نہیں تھا ہی کافی ہے۔ یعنی باقاعدہ اس کی دیانت داری یا عادل ہونے کا جاننا ضروری ہی نہیں. (اس لیے کہ جب کذب دیگر قرائن سے ثابت ہو جائے گا تو اس صورت میں ہی کسی کو کذاب کہا سکے گا وگرنہ تو کسی کی مطلق دیانت داری پر تو بات کرنا ممکن ہی نہیں ہے خصوصا ً ایسے لوگوں کے بارے میں جو صدیوں پہلے گذر چکے ہوں).

نکتہ نمبر 30

مجتہدین کا کہنا ہے کہ مجتہد کی اطاعت بھی امام ص کی اطاعت کی طرح واجب ہوا کرتی ہے۔ تاہم مجتہد سے خطاء کا امکان ہوتا ہے جبکہ معصوم علیہ السلام سے خطاء کا امکان ہونا ممکن نہیں کیونکہ اگر امام علیہ السلام سے خطاء کا امکان مان لیا گیا تو یہ خطاء سرایت کر جائے گی اللہ کی طرف کیونکہ بتحقیق ائمہ علیہم السلام کی اطاعت کا حکم خود اللہ نے دیا ہے اور اگر انہی علیہ السلام سے خطاء سرزد ہو گی تو اصلاً یہ خطاء اللہ سے واقع ہو گی اور ایسی صورت حال چونکہ عدل کے برخلاف ہے اس وجہ سے یہ ناممکنات میں سے ہے۔

اخباری حضرات سوائے امام معصوم علیہ السلام کے کسی کی بھی اطاعت کو جائز نہیں کہتے ہیں۔ اطاعت صرف و صرف امام علیہ السلام کی ہو گی یا ایسے قول کی جو معصوم علیہ السلام کے فرمان پر مبنی ہو اور کوئی عالم نقل کرے. تو درحقیقت یہ بھی خود معصوم علیہ السلام کی ہی اطاعت ہو گی نہ یہ کہ اُس عالم کی جو ناقل محض ہو گا. یوں ان دونوں گروہوں کے مابین فرق واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے.

حوالہ جات

ترمیم
  1. کتاب الذریعہ جلد 2 کے صفحہ 94
  2. کتاب الذریعہ جلد 23 صفحہ 210
  3. کتاب انوار البدرین صفحہ 171
  4. قرآن سورہ ق، آیت 37
  5. (نوٹ: ان 40 نکات کو منیتہ الممارسین کے اصل قدیمی مخطوطہ نسخہ سے نقل کیا گیا ہے، جسے تالیف کتاب کے ایک سال بعد ہی دوبارہ لکھا گیا اور شیخ رح نے خود اس کی تصحیح بھی کی اور جو بحرانی علما کے پاس محفوظ ہے ، اس لیے علامہ مرعشی رض کے قمی مخطوطہ نسخے میں ممکن ہے کہ نکات کی نمبرنگ آگے پیچھے ہو، تاحال کتاب هذا کا مشینی نسخہ دستیاب نہیں ہے اس وجہ سے فقط بالترتیب نکات کے اردو ترجمہ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ ان نکات میں سے 23 نکات کو فقیہ اہل بیت ڈاکٹر احسن زیدی نے بھی اپنے ایک رسالہ میں خلاصتاً و اجمالاً اردو میں پیش کیا ہے.)سید جلال الدین محمد شاہ جعفری.
  6. سوره 49 ، آیت ١٢
  7. سوره 53، آیت 28
  8. سوره 51 ، آیت 10
  9. سوره 17، آیت 36
  10. سوره البقرہ
  11. منیتہ الممارسین فی اجوبتہ الشیخ یاسین
  12. سوره 5، آیات 44، 45، 47
  13. (نوٹ از مترجم جلال الدین : مثال کے طور پر مجتہد خامنئی کا خونی ماتم کے خلاف فتوی ہے کہ جسے خود کثیر اصولی مجتہدین غلط سمھجتے ہیں یعنی اسے خطاء پر سمجھتے ہیں ، اس کے باوجود کھل کر اس پر لعنت نہیں کرتے ہیں،نہ اسے فاسق و جابر سمجھتے ہیں اور ان مجتہدین کے مقلدین کی طرف سے یہ بیانیہ بھی سامنے آتا رہتا ہے کہ جو جس مجتہد کی تقلید میں ہے وہ وہی عمل کرے ، یعنی ایک ہی عمل ایک ہی وقت میں حلال بھی ہوتا ہے اور حرام بھی ہوتا ہے اور حلال کرنے والے بھی اور حرام قرار دینے والے بھی دونوں ہی صحیح بھی ہوتے ہیں اور بھی اس کی بہت سی امثال ہیں جو قارئین سے ڈھکی چھپی نہ ہوں گی)
  14. (نوٹ از مترجم جلال الدین: اجتہاد کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ احکام کو مستقل قرار نہ دیا جائے تاکہ آئندہ نسلوں میں پیدا ہونے والے مجتہدین کے لیے کام بند نہ ہو جائے اور احکام میں تغیر و تبدیلیاں ہوتی رہیں, مثال کے طور پر وضو کے مسائل میں مجتہدین کا کئی صدیوں سے جاری اختلاف آج تک موجود ہے)