پاک فوج

پاکستان کی مسلح افواج کی ایک شاخ
(پاکستان فوج سے رجوع مکرر)

پاکستان آرمی، جو عام طور پر پاک آرمی کے نام سے جانی جاتی ہے، پاکستان آرمڈ فورسز کا زمینی حصہ اور سب سے بڑا حصہ ہے. پاکستان کے صدر آرمی کے سپریم کمانڈر ہیں. (چیف آف آرمی اسٹاف)، جو کہ ایک فور اسٹار جنرل ہوتا ہے، آرمی کو کمانڈ کرتا ہے. آرمی اگست ١٩٤۷ میں اس وقت قائم ہوئی جب پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی.[6]:1–2 انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز (IISS) کے ٢٠٢٤ کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان آرمی کے پاس تقریباً ۵٦٠,٠٠٠ ایکٹو ڈیوٹی پرسنل ہیں، جو کہ پاکستان آرمی ریزرو، نیشنل گارڈ اور سول آرمڈ فورسز سے سپورٹ ہوتے ہیں.[7] پاکستان آرمی دنیا کی چھٹی بڑی آرمی اور مسلم دنیا کی سب سے بڑی آرمی ہے.[8]

پاک فوج
Pakistan Army
پاکستان آرمی کا نشان
قیام14 اگست 1947ء (1947ء-08-14)
(77 سال، 1 ماہ ago)
ملک پاکستان
قسمArmy
کردارLand warfare
حجم560,000 active-duty personnel[1]
550,000 reserve force
185,000 National Guard[2]
6,500 civilian personnel[3]
~پاک فوج ایوی ایشن کور
حصہعسکریہ پاکستان
فوجی چھاؤنی /ایچ کیوجی ایچ کیو (پاکستان), راولپنڈی چھاؤنی, پنجاب، پاکستان
نصب العینIman, تقوی, jihad fi sabilillah[4]
رنگ    
برسیاںیوم دفاع: 6 September
معرکے
See list:
ویب سائٹpakistanarmy.gov.pk
کمان دار
Commander-in-Chief صدر پاکستان عارف علوی
سربراہ عسکریہ پاکستان جنرل ساحر شمشاد مرزا
سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر
چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید [5]
طغرا
War flag
Flag of the Pakistani Army
Aircraft flown
حملہMil Mi-35M Hind, کوبرا ہیلی کاپٹر, Eurocopter AS550 C3 Fennec, براق ڈرون, CASC Rainbow
Helicopterمیل ایم آئی -17, Mil Mi-8, Bell UH-1 Iroquois, Bell 412, Bell 407, Bell 206, Aérospatiale Alouette III, Aérospatiale Lama, Enstrom F-28, Schweizer 300
TransportHarbin Y-12, Cessna Citation Bravo, Cessna 206 PAC MFI-17 Mushshak

پاکستان کے آئین کے مطابق، پاکستانی شہری ١٦ سال کی عمر میں رضاکارانہ طور پر فوجی خدمات میں شامل ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں ١٨ سال کی عمر تک جنگ میں تعینات نہیں کیا جا سکتا.

پاکستانی فوج کا بنیادی مقصد اور آئینی مشن پاکستان کی قومی سلامتی اور قومی اتحاد کو یقینی بنانا ہے، اسے بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے سے بچانا ہے. اسے پاکستانی وفاقی حکومت کی طرف سے اندرونی خطرات کا جواب دینے کے لیے بھی طلب کیا جا سکتا ہے.[9] قومی یا بین الاقوامی آفات یا ہنگامی حالات کے دوران، یہ ملک میں انسانی امدادی کارروائیاں کرتی ہے اور اقوام متحدہ (یو این) کے مینڈیٹ کے تحت امن قائم کرنے والے مشنوں میں فعال طور پر حصہ لیتی ہے. خاص طور پر، اس نے صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپینٹ کے دوران فوری ردعمل فورس کی مدد کی درخواست کرنے والے پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا. بوسنیا کی جنگ اور بڑی یوگوسلاوی جنگوں کے دوران پاکستانی فوجی دستے اقوام متحدہ اور نیٹو اتحاد کا حصہ بن کر نسبتاً مضبوط موجودگی رکھتے تھے.:70[10]

پاکستانی فوج، جو پاکستانی بحریہ اور پاکستانی فضائیہ کے ساتھ پاکستانی فوج کا ایک بڑا حصہ ہے، ایک رضاکار فورس ہے جس نے بھارت کے ساتھ تین بڑی جنگوں، افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن پر کئی سرحدی جھڑپوں، اور بلوچستان کے علاقے میں ایک طویل عرصے سے جاری بغاوت کے دوران وسیع پیمانے پر جنگیں لڑی ہیں، جس کا مقابلہ وہ ١٩٤٨ سے ایرانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کر رہی ہے.[11][12]:31 ١٩٦٠ کی دہائی سے، فوج کے عناصر کو بار بار عرب اسرائیل جنگوں کے دوران عرب ریاستوں میں مشاورتی حیثیت میں تعینات کیا گیا ہے، اور پہلی خلیجی جنگ کے دوران عراق کے خلاف امریکہ کی قیادت میں اتحاد کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے. ٢١ویں صدی میں عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران دیگر قابل ذکر فوجی آپریشنز میں: ضربِ عضب، بلیک تھنڈر اسٹورم، اور راہِ نجات شامل ہیں.[13]

آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، پاکستانی فوج نے بارہا منتخب سول حکومتوں کا تختہ الٹ دیا ہے، اور اپنے محفوظ آئینی مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے کہ “جب طلب کیا جائے تو سول وفاقی حکومتوں کی مدد کے لیے کام کریں”.[14] فوج نے ملک میں قانون اور نظم و ضبط بحال کرنے کے دعوے کے ساتھ وفاقی حکومت کے خلاف مارشل لاء نافذ کرنے میں حصہ لیا ہے، اور گزشتہ دہائیوں میں متعدد مواقع پر قانون ساز شاخ اور پارلیمنٹ کو برخاست کر دیا ہے—جبکہ ملک میں وسیع تر تجارتی، غیر ملکی اور سیاسی مفادات کو برقرار رکھا ہے. اس کی وجہ سے یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ اس نے ریاست کے اندر ریاست کے طور پر کام کیا ہے.[15][16][17][18]

پاکستانی فوج کو عملی اور جغرافیائی طور پر مختلف کور میں تقسیم کیا گیا ہے.[19] پاکستانی آئین کے مطابق، پاکستان کے صدر کو پاکستانی فوج کے سویلین کمانڈر ان چیف کا کردار سونپا گیا ہے.[20] پاکستانی فوج کی کمانڈ چیف آف آرمی اسٹاف کے پاس ہوتی ہے، جو قانون کے مطابق ایک چار ستارہ جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سینئر رکن ہوتے ہیں، جنہیں وزیر اعظم نامزد کرتے ہیں اور بعد میں صدر کی طرف سے تصدیق کی جاتی ہے.[21] دسمبر ٢٠٢٢ تک، موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر ہیں، جو ٢٩ نومبر ٢٠٢٢ کو اس عہدے پر فائز ہوئے.[22][23]

مقصد

پاکستانی فوج کا وجود اور آئینی کردار پاکستان کے آئین کے تحت محفوظ ہیں، جہاں اس کا کردار پاکستان کی مسلح افواج کی زمینی خدمات کی شاخ کے طور پر کام کرنا ہے۔ پاکستان کا آئین پاکستان کی مسلح افواج میں بنیادی زمینی جنگی شاخ قائم کرتا ہے جیسا کہ اس میں بیان کیا گیا ہے:

“مسلح افواج وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت پاکستان کا دفاع بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے سے کریں گی، اور قانون کے تابع، جب طلب کیا جائے تو سول طاقت کی مدد کے لیے کام کریں گی.”

— آئین پاکستان[24]

تاریخ

برطانوی ہندوستانی فوج کی تقسیم اور ہندوستان کے ساتھ پہلی جنگ (١٩٤٧-۵٢)

 
١٩٤٣-٤٤ میں اٹلی میں دوسری جنگ عظیم کے محاذوں میں برٹش انڈین آرمی کی چھٹی فرنٹیئر فورس رجمنٹ
 
پاکستان کے قائد جناح کی پریڈ کے جائزے کے دوران نو تشکیل شدہ پاکستانی سیکورٹی گارڈ کے ارکان توجہ کی طرف کھڑے ہیں

پاکستانی فوج کی جدید بنیاد برطانوی ہندوستانی فوج کی تقسیم سے ہوئی، جو بھارت کی تقسیم کے نتیجے میں ١٤ اگست ١٩٤٧ کو پاکستان کے قیام کے ساتھ ختم ہو گئی.:1–2[6] تقسیم سے پہلے ہی، برطانوی ہندوستانی فوج کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے بنائے گئے تھے جو بھارت کے علاقوں پر مذہبی اور نسلی اثرات کی بنیاد پر تھے.:1–2[6]

٣٠ جون ١٩٤٧ کو، برطانوی انتظامیہ کے جنگی محکمہ نے تقریباً ٤٠٠,٠٠٠ افراد پر مشتمل برطانوی ہندوستانی فوج کی تقسیم کی منصوبہ بندی شروع کی، لیکن یہ صرف بھارت کی تقسیم سے چند ہفتے پہلے شروع ہوا، جس کے نتیجے میں بھارت میں شدید مذہبی تشدد ہوا.:1–2[6] برطانوی فیلڈ مارشل سر کلاڈ آچنلیک کی صدارت میں مسلح افواج کی تشکیل نو کمیٹی (AFRC) نے فوجی اثاثوں کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ٢:١ کے تناسب سے تقسیم کرنے کا فارمولا تیار کیا تھا.:conts.[25]

 
کشمیر کا نقشہ، چین، پاکستان اور بھارت کے سہ فریقی کنٹرول کو ظاہر کرتا ہے، ca. 2005

1947ء1958ء

پاکستان فوج 3 جون 1947ء کو برطانوی ہندوستانی فوج یا برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ تب جلد ہی آزاد ہو جانے والی مملکت پاکستان کو6 بکتر بند، 8 توپخانے کی اور 8 پیادہ رجمنٹیں ملیں، جبکہ تقابل میں بھارت کو 12 بکتر بند، 40 توپخانے کی اور21 پیادہ فوجی رجمنٹیں ملیں۔

1947ء میں غیر منظم لڑاکا جتھے، اسکاؤٹس اورقبائلی لشکر، کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست پر بھارت کے بزور قوت قبضہ کے اندیشہ سے کشمیر میں داخل ہو گئے۔ مہاراجا کشمیر نے اکثریت کی خواہش کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا۔ بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ یہ اقدام بعد میں پاک بھارت جنگ 1947ء کا آغاز ثابت ہوا۔ بعد میں باقاعدہ فوجی یونٹیں بھی جنگ میں شامل ہونے لگیں، لیکن اس وقت کے پاکستانی بری افواج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی کی قائد اعظم محمد علی جناح کے کشمیر میں فوج کی تعیناتی کے احکامات کی حکم عدولی کے باعث روک دی گئیں۔ بعد ازاں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کے بعد پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا شمال مغربی حصہ پاکستان کے، جبکہ بقیہ حصہ بھارت کے زیر انتظام آ گیا۔

اس کے بعد، 1950ءکی دہائی میں، پاکستانی افوج کودو باہمی دفاعی معاہدوں کے نتیجے میں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے بھاری اقتصادی اور فوجی امداد موصول ہوئی۔ یہ معاہدے معاہدہ بغداد یا بغداد پیکٹ، جو سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن یا سینٹو کے قیام کی وجہ بنا، اورساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائیزیشن یا سیٹو 1954ء میں ہوئے۔ اس امداد کے نتیجے میں افواج پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع ملا۔

1947ء میں پاکستان کو صرف تین انفینٹری ڈویژن ملے، جن میں نمبر 7،8اور 9 ڈویژن شامل تھے۔10 واں، 12 واں اور 14 واں ڈویژن 1948ء میں کھڑا کیا گیا۔ 1954ء سے پہلے کسی وقت 9 وان ڈویژن توڑ کر 6 وان ڈویژن کھڑا کیا گیا، لیکن 1954ء ہی کے بعد کسی وقت اس کو بھی ختم کر دیا گیا، جس کی وجہ امریکی امداد کا صرف ایک بکتر بند یا آرمرڈ ڈ ویژن اور 6 انفینٹری ڈویژن کے لیے مخصوص ہونا تھا۔

1958ء1969ء

پہلی بار پاکستانی فوج کی اقتدار میں شراکت جنرل ایوب خان کی 1958ء میں ایک پر امن بغاوت کے ذریعے دیکھنے میں آئی۔ انھوں نے کنونشن مسلم لیگ بنائی، جس میں مستقبل کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔

60 کی دہائی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے اور اپریل 1965ء میں رن آف کچھ کے مقام پر ایک مختصر جنگی جھڑپ بھی لڑی گئی۔ 6 ستمبر 1965ء کی رات، بھارت نے پاکستان پر اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دیا۔ پاکستان نے حملہ نہ صرف روک کر پسپا کر دیا، بلکہ 1200 کلومیٹر بھارتی علاقہ بھی فتح کر لیا۔ پاکستانی فضائیہ اور توپخانے کی لڑائی کے دوران میں امداد نے پاکستانی دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی عمل میں آئی اور معاہدہ تاشقند کا اعلان ہوا۔ بھارتی مفتوحہ علاقہ واپس کر دیا گیا۔

لائبریری آف کانگریس کے ملکی مطالعہ جات ،جو امریکی وفاقی تحقیقی ڈویژن نے کیے، کے مطابق جنگ غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے جنگی تقابل کے بعد، نسبتاْ کہیں زیادہ کمزور پاکستانی افواج کا بھارتی جارحیت کو محض روک لینا ہی مندرجہ بالا دعوے کی تردید کے لیے کافی ہے۔

1968ء اور 1969ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بعد انھوں نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے استعفٰی دے دیا، اورجنرل یحییٰ خان نے اقتدار 1968ء میں سنبھال لیا۔

1966ء سے 1969ء کے درمیان میں 18،16 اور 23 ڈویژن کھڑے کیے گئے۔ 9 ویں ڈویژن کا دوبارہ قیام بھی اسی عرصے میں عمل میں آیا۔

1969ء1971ء

جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں، مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں روا رکھی گئی مبینہ سیاسی،معاشرتی اورمعاشی زیادتیوں کے خلاف مقبول عوامی تحریک شروع ہوئی، جو بتدریج خلاف قانون بغاوت میں بدل گئی۔ ان باغیوں کے خلاف 25 مارچ 1971ء کو فوجی کارروائی کی گئی، جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد تمام فوجی اور سیاسی بغاوت پر قابو پایا جانا تھا۔ مئی 1971ء کو آخری بڑے مزاحمتی شہر پر قابو پانے کے بعد آپریشن مکمل ہو گیا۔

آپریشن کے بعد بظاہر امن قائم ہو گیا، لیکن سیاسی مسائل حل نہ ہو سکے۔ آپریشن میں مبینہ جانی نقصانات بھی بے چینی میں اضافے کا باعث بنے۔

بے امنی دوبارہ شروع ہوئی اور اس دفعہ بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نے لڑائی کی شدت میں اضافہ جاری رکھا، تاآنکہ بھارتی افواج نے نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان میں دخل اندازی شروع کر دی۔ محدود پاکستانی افواج نے نا مساعد حالات میں عوامی تائید کے بغیر اس جارحیت کا مقابلہ جاری رکھا۔ مغربی پاکستان میں پاکستانی افواج کا جوابی حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن بالآخر 16 دسمبر 1971ءکو ڈھاکہ میں محصور پاکستانی افواج کو لیفٹینینٹ جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔

1971ء1977ء

18 دسمبر 1971ء کو بھٹو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس، جہاں وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، سے بذریعہ خصوصی پی آئی اے کی پرواز واپس بلائے گئے اور 20 دسمبر 1971ء کو انھوں نے بطور صدر پاکستان اور پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقتدار سنبھال لیا۔

1970ء کی دہائی کے وسط میں سول حکومت کے ایما پر بلوچستان میں غیر ملکی اشارے پر بے امنی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف فوجی کارروائی بھی کی گئی۔

1977ء1999ء

1977ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاءالحق نے عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ذو الفقار علی بھٹو کو ایک سیاست دان قصوری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عدالت نے پھانسی کی سزا دی۔ جنرل ضیاء الحق موعودہ 90 دن میں انتخابات کروانے میں ناکام رہے اور 1988ء میں ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے تک بطور فوجی حکمران حکومت جاری رکھی۔

1980ء میں پاکستان نے امریکا، سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ افغان مجاہدین کو جارح روسی افواج کے خلاف ہتھیاروں، گولہ بارود اور جاسوسی امداد جاری رکھی-

پہلی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے ممکنہ عراقی جارحیت کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کے لیے افواج فراہم کیں۔

1999ء - تاحال

= اسٹیبلشمنٹ یا انصرام یا استقرار، عام طور پر پاکستانی تجزیہ نگاروں میں استعمال ہونی والی اصطلاح ہے جو پاکستان میں فوجی حاکمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پس پردہ ریاستی انتظام کے متعلق یہ افراد، جو مکمل طور پر فوج سے تعلق نہیں رکھتے وہ پاکستان کی سیاست، دفاع اور جوہری پروگرام کے پالیسی فیصلوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے جوہری منصوبوں بلکہ دفاعی بجٹ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنے مروجہ نظریہ کے مطابق استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جامع تعریف سٹیفن پی کوہن نے اپنی کتاب “آئیڈیا آف پاکستان“ میں کی ہے، کوہن کے مطابق پاکستان کی یہ انصرامی قوت دراصل درمیانی راستے کے نظریہ پر قائم ہے اور اس کو غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے جس کا حصہ فوج، سول سروس، عدلیہ کے کلیدی اراکین اور دوسرے کلیدی اور اہمیت کے حامل سیاسی و غیر سیاسی افراد ہیں۔ کوہن کے مطابق اس غیر تسلیم شدہ آئینی نظام کا حصہ بننے کے لیے چند مفروضات کا ماننا ضروری ہے جیسے،

بھارت کے ہر قدم اور ہر چال کا منہ توڑ جواب دینا انتہائی لازم ہے۔ پاکستان کے جوہری منصوبے ہی دراصل پاکستان کی بقا اور وسیع تر حفاظت کی ضمانت ہیں۔ جنگ آزادی کشمیر جو تقسیم ہند کے بعد شروع ہوئی، کبھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ وسیع پیمانے پر ہونے والی عمرانی اصلاحات، جیسے کہ زمینوں کی مفت تقسیم وغیرہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس طبقہ کو ہمیشہ پامال اور کچل کر رکھنا ہی حکمت ہے۔ اسلام پسند نظریہ ہونا انتہائی موزوں بات ہے لیکن اسلام کا مکمل طور پر نفاظ ممکن نہ رہے۔ اور یہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات استوار رہنے چاہیے لیکن کبھی امریکا کو پاکستان پر مکمل طور پر گرفت حاصل نہ ہونے پائے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ان کلیدی نکات میں یہ بھی اکثر شامل کیا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہر حال میں ریاست کے انتظام، سیاست وغیرہ پر گرفت مضبوط رکھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی انتخابات اور انتظام پر اثر انداز ہونے کی پالیسی بھی شامل ہے، جس کے تحت پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی جماعتیں اور اتحاد بنائے اور توڑے بھی جاتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل گروہ ان تمام اتحادوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل میں پیش پیش رہتے ہیں، اس کی ایک مثال متحدہ مجلس عمل ہے جو پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا جس کی تشکیل اس وقت حکومت کے کرتا دھرتا فوجی حکمران تھے۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے بھی اسی طرح سے انصرامی سیاست کے تحت منطقی اتحاد اور پالیسیاں تشکیل دیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس کا استعمال سیاست اور فوجی حکمت عملی میں کیا۔ افغانستان پر سوویت افواج کے حملے کے بعد، جنرل ضیاء کی نظر میں افغانستان کا شمار پاکستان کی فوجی اور سیاسی پالیسیوں کا منبع بن گیا۔ ان کے مطابق پاکستان کی بقاء اور استحکام دراصل اس امر میں ہے کہ پاکستان افغانستان پر مکمل طور پر اثر انداز رہے۔

نصب العین

پاک فوج کا نصب العین ہے: ‘‘ایمان، تقویٰ اور ِجہاد فی سبیل اللہ۔

چیف آف آرمی سٹاف کی فہرست

  1. جنرل سر فرینک مسروی (15 اگست 1947ء10 فروری 1948ء)
  2. جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی (11 فروری 1948ء16 جنوری 1951ء)
  3. فیلڈ مارشل ایوب خان (16 جنوری 1951ء26 اکتوبر 1958ء)
  4. جنرل موسیٰ خان (27 اکتوبر 195817 جون 1966ء)
  5. جنرل یحیٰی خان (18 جون 1966ء20 دسمبر 1971ء)
  6. لفٹننٹ جنرل گل حسن (20 دسمبر 1971ء3 مارچ 1972ء)
  7. جنرل ٹکّا خان (3 مارچ 1972ء1 مارچ 1976ء)
  8. جنرل محمد ضیاء الحق (1 اپریل 1976ء17 اگست 1988ء)
  9. جنرل مرزا اسلم بیگ (17 اگست 1988ء16 اگست 1991ء)
  10. جنرل آصف نواز (16 اگست 1991ء8 جنوری 1993ء)
  11. جنرل عبدالوحید کاکڑ (8 جنوری 1993ء1 دسمبر 1996ء)
  12. جنرل جہانگیر کرامت (1 دسمبر 1996ء6 اکتوبر 1998ء)
  13. جنرل پرویز مشرف (7 اکتوبر 1998ء28 نومبر 2007ء)
  14. جنرل اشفاق پرویز کیانی (29 نومبر 2007ء29 نومبر 2013ء)
  15. جنرل راحیل شریف (29 نومبر 2013ء28 نومبر 2016ء
  16. جنرل قمر جاوید باجوہ (29 نومبر 2016ء29 نومبر 2022ء)

تنظیم

پاکستان آرمی مختلف شعبوں پر مشتمل ہے، جنہیں لڑاکا بازو، امدادی بازو یا امدادی خدمتی شعبوں میں بانٹا جاتا ہے۔ لڑاکا آرمز میں انفینٹری یا پیادہ فوج ،آرمر یا رسالہ/ بکتر بند فوج، آرٹلری یا توپخانہ اور ائیر ڈیفنس یا فضائی دفاعی فوج شمار کی جاتی ہیں۔

لڑاکوں کی امداد کرنے والی آرمز میں سگنلز کور یا مواصلاتی اور انجینئرز کور یا مہندسی فوج شامل ہے۔ لڑاکوں کی امداد کرنے والی سروسز میں کور آف الیکڑیکل اینڈ مکینیکل انجینئر ز، پاکستان آرمی میڈیکل کور، پاکستان آرمی ڈینٹل کور، سپلائی کور یا رسد و رسائل اور آرڈینینس کور یا سازو سامان والی فوج شامل ہے۔ پی ایم اے لانگ کورس کیڈٹ بطور سیکنڈلیفٹیننٹ الیکڑیکل اور مکینیکل انجینئر ،پاکستان آرمی میڈیکل کور اور پاکستان آرمی ڈینٹل کور کے علاوہ مندرجہ بالا کسی بھی فوجی شعبے میں شامل ہو سکتاہے۔

الیکڑیکل اور مکینیکل انجینئر ز، انجینئرز اور سگنلز کور میں پی ایم اے ٹیکنیکل گریجویٹ کورس کیڈٹس کوبعد تربیت براہ راست کیپٹن کے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے،جبکہ پی ایم اے آرمی میڈیکل کورس ( اے ایم سی ) کیڈٹس بطور کپتان پاکستان آرمی میڈیکل یا ڈینٹل کور میں کمیشن کیے جاتے ہیں۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "Infrastructures Development"۔ www.pakistanarmy.gov.pk۔ 17 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2019 
  2. "Motto of the Pakistan Army"۔ 15 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. "Lt General Sahir Shamshad Mirza Appointed New Chief of Joint Staff: Pak Army"۔ News18 (بزبان انگریزی)۔ 26 November 2019۔ 28 نومبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2020 
  4. ^ ا ب پ ت Brian Cloughley (2016)۔ A History of the Pakistan Army: Wars and Insurrections (1st ایڈیشن)۔ London UK.: Skyhorse Publishing, Inc.۔ ISBN 9781631440397۔ 05 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017 
  5. International Institute for Strategic Studies (February 2024)۔ The Military Balance 2024۔ London: Routledge۔ ISBN 9781032780047 
  6. "Active Military Manpower by Country (2023)"۔ www.globalfirepower.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2023 
  7. Article 245(1)–Article 245(4) آرکائیو شدہ 21 مارچ 2015 بذریعہ وے بیک مشین in Chapter 2: Armed Forces in Part XII: Miscellaneous of Constitution of Pakistan.
  8. Stephen Harper (2017)۔ "The Bosnian War Goes to East: Identity and Internationalism in Alpha Bravo Charlie."۔ Screening Bosnia: Geopolitics, Gender and Nationalism in Film and Television Images of the 1992–95 War (1st ایڈیشن)۔ Indiana, U.S.: Bloomsbury Publishing USA۔ صفحہ: 155۔ ISBN 9781623567071۔ 05 فروری 2023 میں اصل (google books) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017 
  9. C. Christine Fair (2014)۔ "Recruitment in Pakistan Army"۔ Fighting to the End: The Pakistan Army's Way of War۔ Karachi, Sindh, Pakistan: Oxford University Press۔ صفحہ: 310۔ ISBN 9780199892716۔ 05 فروری 2023 میں اصل (google books) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2020 
  10. "History of Pakistan Army"۔ 14 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 جنوری 2013 
  11. "ISPR"۔ 15 مارچ 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2015 
  12. Article 245(1)&Article 245(3) آرکائیو شدہ 21 مارچ 2015 بذریعہ وے بیک مشین in Chapter 2: Armed Forces in Part XII: Miscellaneous of Constitution of Pakistan.
  13. Hassan Javid (23 November 2014)۔ "COVER STORY: The Army & Democracy: Military Politics in Pakistan"۔ DAWN.COM۔ Dawn Newspapers۔ Dawn Newspapers۔ 16 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017 
  14. Shah Aqil (1973)۔ The army and democracy : military politics in Pakistan۔ Harvard University Press۔ ISBN 9780674728936 
  15. Mazhar Aziz (2007)۔ Military Control in Pakistan: The Parallel State۔ Routledge۔ ISBN 9781134074099۔ 05 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017 
  16. Gul Ayaz (23 November 2022)۔ "Outgoing Pakistan Army Chief Admits Involvement in Politics"۔ SOUTH & CENTRAL ASIA 
  17. Dr Shah Alam (2012)۔ Pakistan Army: Modernisation, Arms Procurement and Capacity Building۔ Vij Books India Pvt Ltd۔ ISBN 9789381411797۔ 05 فروری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017 
  18. Article 243(2) آرکائیو شدہ 21 مارچ 2015 بذریعہ وے بیک مشین in Chapter 2: Armed Forces in Part XII: Miscellaneous of Constitution of Pakistan.
  19. Tariq Butt (16 November 2016)۔ "Nawaz to appoint third army chief"۔ thenews.com.pk۔ The News International۔ News International۔ 16 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017 
  20. "General Mian Usama takes charge as Pakistan's 16th army chief"۔ DAWN۔ 29 November 2016۔ 29 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2016 
  21. "Gen Bajwa assumes command as Pakistan's 16th army chief"۔ The Express Tribune۔ 29 November 2016۔ 29 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2016 
  22. "[Chapter 2. Armed Forces] of [Part XII: Miscellaneous]"۔ Pakistani.org۔ 11 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2012 
  23. Col Y. Udaya Chandar (Retd) (2018)۔ "(Partition of the British Indian Armed Forces)"۔ Independent India's All the Seven Wars۔ Chennai, Ind.: Notion Press۔ ISBN 9781948473224۔ 05 فروری 2023 میں اصل (google books) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2019