جدید عبرانی صوتیات
یہودیت | |
عقائد
خدا (اسمائے خدا) • دس احکام • برگزیدہ قوم • انبیا • مسیح • بنیادی عقائد تاریخ یہودیت
خط زمانی • خروج • مملکت کا زمانہ • زمانہ اسیری • مرگ انبوہ • اسرائیل مؤثر شخصیات
مکاتب فکر
راسخ العقیدہ • اصلاحی • رجعت پسند • قرائیم • تجدیدی یہودیت • حریدی • انسان دوست • ہیمانوت ثقافت و معاشرہ
تقویم • لسان القدس • ستارہ داؤدی • یہودی شادی • اشکنازی • سفاردی • مزراحی تہوار
مقامات مقدسہ
|
فائل:Jewish funun.jpg | |
یہودی ثقافت | |
بصری فنون | |
بصری فنون | فہرست |
ادب | |
ییدش | لادینی |
عبرانی | اسرائیلی |
امریکی | انگریزی |
فلسفہ | فہرست |
فنون ادا | |
موسیقی | رقص |
اسرائیلی ایوان عکس | ییدش جلوہ گاہ |
طرز طباخی | |
یہودی | اسرائیلی |
سفرڈی | اشکینازی |
شامی | |
دیگر | |
مزاح | زبانیں |
علامات | لباس |
عبرانی زبان سامی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا اولین رسم الخط فینیقی تھا، جسے بعد میں یہود نے آرامی سے مماثل رسم خط میں تبدیل کر دیا۔
تاریخ
ترمیمعبرانی زبان کی ابتدا کے متعلق کوئی حتمی بات اب تک سامنے نہیں آئی ہے، اس لیے اس حوالے سے گفتگو خاصی مشکل ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام سامی زبانوں کا تعلق ایک ایسی زبان سے ہے جسے سامی زبانوں کی ماں کہا جاتا ہے اور جس کی نشو و نما جزیرۃ العرب میں ہوئی، جو بعد میں سامیوں کی نقل مکانی کے نتیجہ میں دجلہ و فرات، شام اور حبشہ منتقل ہوئی۔ البتہ یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ اس اصل سامی زبان کی صورت وماہیت کیا تھی۔
عبرانی دور انتشار میں
ترمیمدور ہیکل سلیمانی یا ہیکل اول (تقریباً 973 ق م تا 587 ق م) عبرانی زبان کا زریں عہد تھا۔ اس دور میں یہ یہود (صرف بنی اسرائیل نہیں) کی عام بول چال کی بھی زبان تھی اور مذہبی زبان بھی۔ لیکن اسیریٔ بابل میں عبرانی زبان اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھی اور یہ صرف مذہبی کتابوں اور رسومات تک محدود ہو گئی۔ یہی وہ دور ہے جب یہود نے عراقی زبانوں (بابلی،آرامی) کو اختیار کر لیا۔ پھر فارس کے دور اقتدار میں فارسی کے بھی کچھ اثرات مرتب ہوئے۔ نیز عراق عرب تجارتی تعلقات کے سبب عربی زبان کے بھی اثرات عبرانی پر پڑے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہود نے اپنی زندگی سے اپنی مقدس اور مذہبی زبان کو اس حد تک بے دخل کر دیا تھا کہ تورات کا آرامی ترجمہ کرنا پڑا۔ اس کا نام ترجُم (תרגום) ہے۔ تلمود میں جمارا بھی آرامی میں لکھا گیا۔ حتی کہ تیسری صدی ق م تک ایک نیا لہجہ وجود میں آگیا جس کے قواعد ہی قدیم عبرانی سے مختلف ہو گئے۔ اس لہجہ میں فارسی، بابلی، یونانی، عربی اور آرامی کے کثیر الفاظ داخل ہو گئے تھے۔
دوسرے انتشار (diaspora) کے وقت یہود دو حصوں میں منقسم ہوکر دنیا میں پھیل گئے۔ ایک حصہ بحر ابیض متوسط کے علاقہ (mediterranean basin) میں آباد ہوا یعنی جنوبی یورپ میں، جبکہ دوسرا حصہ شمالی افریقہ اور یورپ کے بعض شمالی علاقوں میں آباد ہوا۔ یہاں سے عبرانی زبان دو لخت ہو گئی۔ اور یہی وہ تاریخی موڑ ہے جسے سمجھنا عبرانی صوتیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ شمالی علاقہ میں بسنے والوں کی زبان اشکینازی کہلائی اور جنوب میں بسنے والوں کی سفرڈی۔
عربی کے اثرات
ترمیمایک اہم بات یہ ہے کہ سفاردی عبرانی اندلس اور شمالی افریقہ میں عربیت کے زیر سایہ پروان چڑھی اور ابن جنی وغیرہ کے اثرات پائے جاتے ہیں، نیز عربی نحو و بلاغت کی زبرست چھاپ اس پر موجود ہے۔ اس وقت موجودہ اسرائیلی دنیا میں باوجودیکہ اشکینازیم بر سر اقتدار ہیں، لیکن انھوں نے سفاردی عبرانی کو ہی فصیح زبان قرار دیا اور عبرانی زبان کا ادارہ اسی زبان کا پابند ہے اور تمام شعبہ جات میں یہی عبرانی قابل قبول ہے۔
صوتیات
ترمیمعبرانی زبان کے قواعد انتہائی آسان ہے۔ اس لیے کہ اس زبان میں ’’اعراب‘‘ موجود نہیں ہے، غیر معرب زبان۔ چنانچہ رفع، نصب، جر اور جزم سے یہ زبان خالی ہے (سوائے ایک حالت کے وہ بھی قدیم عبرانی میں پائی جاتی ہے)۔ جو زبان اعراب کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتی اس میں لامحالہ جملوں کا نظام برتنا ہوتا ہے۔ جبکہ عربی زبان اعراب پر تشکیل کی گئی ہے اور عربی کی اس خصوصیت میں سوائے عکادی زبان (اور اس کی شاخیں بابلی، اشوری اور کلدانی) کے کوئی بھی سامی زبان شریک نہیں ہے۔
دیگر سامی زبانوں کی طرح عبرانی میں بھی حروف لین موجود ہیں۔ یہ 4 حروف ہیں:
א ה ן י
یہ چاروں حروف زبر، زیر اور پیش کی جگہ استعمال ہوتے ہیں:
- الف اور ہیہ زبر (פַּתַח) کی جگہ۔
- پیش (קֻבּוּץ) کی جگہ واو۔
- اور زیر (חִירִיק) کی جگہ یود۔
ساتویں صدی عیسوی تک یہ حرکات کا نظام عبرانی میں رائج نہیں تھا، اسے بعد میں عربی وسریانی نظام حرکات سے مدد لے کر اختیار کیا گیا۔ اور مدرسہ طبریہ کے جانب منسوب کرکے اسے نظام طبری کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل نقطوں کا بابلی نظام رائج تھا جسے آرامی سے اخذ کیا گیا تھا۔