شیخ الحدیث مولانا محمد حسن جان مدنی، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم دین، اپنے وقت کے عظیم محدث، مسجد درویش پشاور صدر کے خطیب اور جامعہ امداد العلوم پشاور صدر کے شیخ الحدیث اور سرپرست تھے۔ 5 جنوری 1938ء کو چارسدہ کے علاقہ پڑانگ یاسین زئی کے ایک علمی گھرانے میں شیخ الحدیث مولانا علی اکبر جان کے گھر پیدا ہونے والے محمد حسن جان زندگی میں وہ شخصیت بننے میں کامیاب ہو گئے جن کی شخصیت سے انکار ان کی زندگی میں بھی کسی کو کرنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اللہ تعالی نے آپکو چار بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی ہیں، چاروں بیٹے جید علماء ہیں مولانا حافظ فیض الحسن، مولانا حافظ عزیز الحسن، شیخ الحدیث مولانا عابد الرحمن صاحب مہتمم جامعہ احسن المدارس جھگڑا پشاور جو کہ شیخ صاحب شہید کا اپنا قائم کردہ مدرسہ ہے اور یہاں شیخ شہید رحمہ اللہ مدفون بھی ہے، چھوتا بیٹا مولانا فخر الحسن، ایک ایکلوتی بیٹی جو معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس صاحب کے رشتہ ازدواج میں ہے۔

حسن جان
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1938ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع چارسدہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 2007ء (68–69 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سیاسی قتل   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
جماعت جمیعت علمائے اسلام   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ اشرفیہ، لاہور
دار العلوم حقانیہ
جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
جامعۂ پشاور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ ادریس کاندھلوی ،  محمد رسول خان ہزاروی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص مولانا فضل الرحمٰن   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ستارہ شجاعت
طلائی تمغا   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

دینی تعلیم

ترمیم

دارالعلوم نعمانیہ اتمانزئی میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی، پھر جامعہ اشرفیہ لاہور چلے گئے۔ 1957ء کے بعد مولوی عالم اور مولوی فاضل کی سند حاصل کی۔ 1971ء میں جامعۂ پشاور سے ایم.اے اسلامیات میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ مولانا حسن جان اُن 18 طلبہ میں سے تھے جنہیں سب سے پہلے مدینہ یونیورسٹی میں پاکستان کی طرف سے طالب علمی کا شرف حاصل ہوا۔ چونکہ مدینہ یونیورسٹی کا قیام صرف 6 ماہ پہلے ہوا تھا، اس لیے وہاں پر صرف کلیہ شریعہ کی تعلیم دی جاتی تھی اور باقی شعبے مولانا حسن جان کی واپسی کے بعد قائم ہوئے۔ مولانا حسن جان نے مدینہ میں چار سال قیام کیا۔ اس دوران مسجد نبوی میں قرآن حفظ کیا۔

دنیاوی تعلیم

ترمیم

مولانا حسن جان نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کی تھی

درس و تدریس

ترمیم

مولانا حسن جان نے رزق حلال کمانے کے لیے اسکول میں بھی درس و تدریس کا پیشہ اپنایا اکبر میموریل کالج مردان میں اسلامیات کے استاد کے لیے انٹرویو ہو رہے تھے تو مولانا نے بھی انٹرویو دیا۔ جلبئی صوابی کے ایک اسکول میں ان کی تقرری ہوئی مگر یہاں آ کر انھیں تسلی اس لیے نہیں ہوئی کہ وہ بالغوں کی محفل سے نکل کر بچوں کی مجلس میں آ گئے تھے جس کے بعد ملازمت چھوڑ کر مدرسے کی طرف آ گئے۔

تصانیف

ترمیم

مولانا حسن جان کئی کتابوں کے مصنف تھے،

ماہنامہ الحق میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔لبنان کے رسالہ اجتماع میں ان کے مقالات وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے تھے۔

  • صفۃ الصلاۃ

سیاسی خدمات

ترمیم

دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جمیعت العلماء اسلام سے ان کا تعلق رہا۔ 1990ء سے 1993ء تک وہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ خان عبدالولی خان ان سے شکست کے بعد ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ وفاق المدارس پاکستان کے نائب صدر بھی رہے۔ انھوں نے افغانستان، ہندوستان، ازبکستان، ایران، سعودی عرب، لبنان، شام، فلسطین، مصر، اردن، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، عراق، کویت، جنوبی افریقا اور کینیا سمیت بہت سے ممالک کا سفر کیا۔ 15 مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی۔ اس کے علاوہ مولانا ایک معتدل سوچ رکھنے والے عالم دین رہے۔ خودکش دھماکوں کی شدید مخالفت کی اور ان کا کہنا تھا کہ مسلمان کا خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے۔

مسجد درویش

ترمیم

آپ مسجد درویش کے خطیب اور جامعہ امدادیہ العلوم کے سربراہ تھے۔ اس مدرسے اور مسجد نے دین کی اشاعت اور لوگوں کی رہنمائی میں جو اہم کردار ادا کیا ہے اسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ دین کے لیے اس مدرسے اور مسجد کی خدمات صوبہ سرحد کیا پورے ملک میں قابل تقلید ہیں۔

شہادت

ترمیم

15 ستمبر 2007ء کو افطاری کے بعد تقریباً سات بجے پشاور کے وزیر باغ کے علاقے میں تین نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔