عبد اللہ بن عمرو بن العاص

(عبداللہ بن عمرو سے رجوع مکرر)

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ(25ق.ھ / 63ھ) صحابی اور راوی حدیث تھے۔ صحابی عبد اللہ بن عمرو بن العاص بن وائل سہمی قرشی نے سنہ کے بعد اسلام قبول کیا اور مدینہ ہجرت کی۔[1] انھوں نے والد صحابی عمرو بن العاص سے پہلے اسلام قبول کیا، جو قریش کے سرداروں میں سے ایک تھے۔[2] ان کی والدہ ریطہ بنت منبہ بن حجاج سہمیہ قرشیہ تھیں۔[1][3] عبد اللہ اپنے والد عَمروْ سے فقط 12 سال چھوٹے تھے۔ قبول اسلام کے بعد عبد اللہ کچھ غزوات میں شریک ہوئے۔[1] مؤرخین نے ان کی مختلف کنتیں لکھی ہیں، ابو محمد، ابو عبد الرحمن اور ابو نصیر۔[1][3] کہا جاتا ہے کہ جب پیدا ہوئے تو ان کا نام العاص رکھا گیا اور رسول اللہ نے تبدیل کر کے عبد اللہ رکھا۔[1][3]

صحابی
عبد اللہ بن عمرو بن العاص

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 595ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 684ء (88–89 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فسطاط   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طبعی موت
کنیت ابو محمد
والد عمرو ابن العاص   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ریطہ بنت منبہ   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
طبقہ الصحابہ
نسب السہمی القرشی
تعداد روایات 700
نمایاں شاگرد طاؤس بن کیسان   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سائنس دان ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سریانی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد اللہ کے بقول رسول اللہ کی ہجرت کے بعد انھوں نے ان سے کئی احادیث[1] ایک صحیفے میں نقل کیں[2] جسے انھوں نے «صحیفہ صادقہ» کا نام دیا۔[1] یہ سلسلہ انھوں نے بیچ میں روکا مگر رسول اللہ کے حکم «لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا» جناب رسول اللہ ﷺ سے اجازت ملنے پر حضرت عبد اللہؓ نے پھر حدیثیں لکھنی شروع کر دی اور ان کا ایک مجموعہ مرتب کیا جس کا نام " الصادقہ" رکھا ۔ اس مجموعہ کو وہ نہایت عزیز رکھتے تھے اور کسی حالت میں بھی اس کی مفارقت گوارا نہ کرتے تھے۔فرماتے تھے : ( مایر غبنی فی الحیٰوۃ اِلاَّ الصّادقہة) یعنی مجھ کو زندگی کا خواہش مند یہی کتاب "صادقہ" بنا رہی ہے یہ نہ ہو تو مجھے جینے کی خواہش نہیں ہے۔پھر خود ہی "صادقہ" کی تعریف اس طرح کرتے ہیں: فاماالصّادقة فصحِیفِة کتبتھا منﷺ یعنی الصّادقہ وہ صحیفہ ہے جس کو میں نے رسولﷺ سے سُن سُن کر لکھا ہے۔ [4]ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ نے فرمایا کہ اگر قرآن اور یہ صحیفہ (صادقہ) اور وہط کی جاگیر مجھ کو دے دی جائے تو پھر مجھ کو دنیا کی کوئی پروا نہیں حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے بعد ان کا مجموعہ احادیث"الصادقہ" ان کے صابزادے شعیبؒ کو ملا اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے عمروؒ کا ملا انھوں نے اپنے والد کے واسطے سے اسی صحیفے کی حدیثیں روایت کی ہیں۔[1][5] عبد اللہ قرآن کے قاری اور ماہر تھے اور وہ تورات پڑھ سکتے تھے اور اس کے عالم تھے۔ انھوں نے کئی احادیث منتقل کیں، یوں وہ بڑے عالم ہو گئے اور وہ عبادات میں مجتہد تھے۔ [6] حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ کو جہاد فی سبیل اللہ کا بے انتہا شوق تھا اور وہ غزوات میں اکژ رسول اللہ ﷺ کی ہمر کابی کا شرف حاصل کیا کرتے تھے لیکن اربابِ سِیرَ نے یہ تصریح نہیں کی کہ انھوں نے عہدِ رسالت کے کن کن غزوات میں شرکت کی ۔ " سنن دار قطنیؒ " کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غزووں میں بعض دفعہ حُضُور ﷺ اُن کو کسی اہم خدمت پر مامور فرماتے تھے خود فرماتے ہے ایک دفعہ رسول ﷺ نے مجھے فوج کے لیے اونٹ مہیا کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ میری تحویل میں جس قدر اونٹ تھے ان سب پر لوگوں کو سوار کر دیا پھر بھی کچھ لوگ باقی رہ گئے جن کو سوار کرنے کیے لیے کوئی اونٹ نہ تھا ۔ میں نے رسول ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : " یا رسول اللہ ﷺ میں نے سارے اونٹ لوگوں میں تقسیم کر دیے لیکن کچھ لوگوں کو اونٹ نہیں مل سکا " حُضُور ﷺ نے فرمایا: " ایک ایک اونٹ کے بدلے میں صدقہ کے دو دو تین تین اونٹوں کا وعدہ کر کے کچھ اونٹ حاصل کر لو تاکہ باقی لوگ بھی ان پر سوار ہو سکیں " میں نے ارشادِ نبوی کی تعمیل کی اور جتنے اونٹوں کی ضرورت تھی مہیا کر لیے 10ھ میں حجتہ الوداع کے موقع پر بھی سرورِ عالم ﷺ کے ہمرکاب تھے ۔ فرماتے ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجتہ الوداع میں منٰی تشریف فرما تھے کے ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ! نا واقفیت کی وجہ سے میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوالیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ذبح کر اور پھر سر منڈوا لے کوئی حرج نہیں۔ دوسرا شخص آیا اور اس نے عرض کیا ، نا واقفیت کے سبب میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا ، اب کنکریاں مار لے اس میں کوئی حرج نہیں مختصر یہ کے تقدیم و تاخیر کے جو مسائل آپ سے دریافت کیے گئے آپ ﷺ نے سب کے جواب میں یہی فرمایا کہ اب کر لے کوئی حرج نہیں ۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد عبد اللہ نے شام کی فتح میں حصہ لیا اور جنگ یرموک میں والد کے ہمراہ بھی دیکھے گئے۔[5] عبد اللہ جنگ صفین میں اپنے والد عمرو کے حکم دینے پر معاویہ بن ابی سفیان شریک ہوئے اور وہ میمنہ پر تھے۔[1] تاہم، انھوں نے جنگ والے دن شرکت نہیں کی[1] اور بعد ازاں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔[5]

عبد اللہ بن عمرو کی وفات کی جگہ اور تاریخ کے متعلق مختلف روایات ہیں: کہا جاتا ہے کہ مصر میں سنہ 63ھ یا سنہ 65ھ،[5] مصر میں سنہ 69ھ میں وفات پائی مگر تدفین آبائی وطن میں ہوئی،[7] سنہ 67ھ میں مکہ، سنہ 57ھ میں طائف میں، 68ھ میں، 73ھ میں۔ کہتے ہیں کہ وہ وفات کے وقت 72 برس کے تھے بعض کہتے ہیں کہ 92 برس کے تھے۔[5] کہا جاتا ہے کہ سنہ 65ھ میں شام میں وفات پائی اور عمر 72 برس تھی۔[7] ان کا چہرہ لمبا سرخ مائل، لمبی ٹانگیں، تندرست تھے یہاں تک کہ توند نکلی تھی اور عمر کے آخری حصے میں اندھا پن ہو گیا تھا۔[8] [2][5]

نام ونسب

ترمیم

عبد اللہ نام، ابو محمد اور ابو عبد الرحمن کنیت، والد کا نام عمرو بن العاص ؓ اور والدہ کا نام ریطہ بنت منبہ تھا، شجرۂ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن معبدبن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوی القرشی۔ [9]

اسلام

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن عمرؓو اپنے والد حضرت عمرو بن العاص ؓ سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ [10]

مصاحبتِ رسول

ترمیم

وہ دربارِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں اکثر حاضر رہتے تھے اور آنحضرت کی زبانِ فیض ترجمان سے جو کچھ سنتے اس کو لکھ لیتے تھے، ایک مرتبہ قریش کے چند بزرگوں نے ان کو اس سے منع کیا اور کہا کہ"رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ غیظ و انبساط میں خدا جانے کیا کچھ فرماتے ہیں، آپ سب کو قلمبند نہ کیا کیجئے[11] حضرت عبد اللہ بن عمروؓ نے جب حضور ﷺ کو یہ بات بتلائی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ان دو ہونٹوں کے درمیان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا،سو تم لکھتے رہو۔ [12] رسول اللہ کی مصاحبت سے جو وقت بچتا تھا وہ تمام تر یادِ حق میں صرف ہوتا تھا، دن عموما ًروزوں میں بسر ہوتا اور رات عبادت میں گذر جاتی تھی، رفتہ رفتہ یہ مشغلہ اس قدر بڑھا کہ اہل و عیال اور تمام دنیاوی تعلقات سے کنارہ کش ہو گئے، حضرت عمرو بن العاص ؓ نے دربار نبوت میں ان کی اس راہبانہ زندگی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر اپنے والد کی اطاعت کی تاکید کی اور فرمایا عبد اللہ روزے رکھو اور افطار کرو ،نمازیں پڑھو اور آرام کرو،نیز بیوی بچوں کا حق ادا کرو، یہی میرا طریقہ ہے اور جو میرے طریقے سے اعراض کرے گا وہ میری امت سے نہیں ہے۔ [13] [14]

غزوات

ترمیم

عہد نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غزوات میں شریک تھے، جہاد و فوج کشی کے موقع پر عموماً سواری و باربرداری کا اہتمام ان کے سپرد ہوتا تھا،ایک مرتبہ عمرو بن حویش نے ان سے پوچھا" ابو محمد ! ہم لوگ ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں درہم و دینار کا چلن نہیں،مویشی اورجانور ہمارے مال و اسباب ہیں، ہم آپس میں بکریوں کے عوض اونٹ ،گائے کے بدلے گھوڑے اور گھوڑوں کے عوض اونٹ ادھار خرید و فروخت کرتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ تو نہیں؟ فرمایا: تم ایک واقف کار شخص کے پاس آئے، ایک دفعہ رسول اللہ نے مجھ کو شتر سواروں کی ایک فوج مرتب کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میرے اہتمام میں جس قدر اونٹ تھے ایک ایک کر کے سب پر لوگوں کو میں نے سوار کرایا،تاہم کچھ لوگ ایسے رہ گئے جن کے پاس کوئی سواری نہ تھی، میں نے بارگاہِ نبوت میں عرض کیا" یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم! تمام سواریاں تقسیم ہو گئیں، لیکن پھر بھی ایک جماعت ایسی رہ گئی جس کو کوئی سواری نہ مل سکی ، ارشاد ہوا"ایک اونٹ کے عوض صدقہ کے دو دو،تین تین اونٹوں کا وعدہ کرکے کچھ اونٹوں کو خرید لو" چنانچہ اس طرح میں نے حسبِ ضرورت اونٹ فراہم کرلیے۔ [15] [16]

جنگ یرموک

ترمیم

یرموک کی عظیم الشان جنگ میں نہایت جانبازی کے ساتھ سرگرمِ پیکار تھے ،حضرت عمرو بن العاص ؓ نے اس جنگ میں اپنا علمِ قیادت ان کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ [17] [18]

واقعۂ صفین

ترمیم

حضرت عمرو بن العاص ؓ حضرت امیر معاویہ ؓ کے طرفدار تھے،اس لیے جب واقعہ صفین پیش آیا تو انھوں نے حضرت عبد اللہ بن عمؓرو کو امیر معاویہ ؓ کی فوج میں شریک ہونے پر مجبور کیا؛ لیکن درحقیقت وہ اس خانہ جنگی سے سخت متنفر تھے ، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جنگ میں عملاً کوئی حصہ نہیں لیا اور بارہا اپنے والد کو اس سے کنارہ کش ہونے کا مشورہ دیا۔ [19] حضرت عمار بن یاسر ؓ حضرت علی ؓ کی طرف سے سرگرم پیکار تھے،وہ شہید ہوئے تو حضرت عبد اللہ ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی یاد آگئی اور اپنے والد سے مخاطب ہوکر کہا" کیا آپ نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ افسوس! ابن سمیہ کو گروہ باغی قتل کرے گا؟" حضرت عمرو بن العاص ؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کی طرف دیکھ کر کہا آپ نہیں سنتے ،عبد اللہ کیا کہہ رہے ہیں،امیر معاویہ ؓ نے تاویل کرتے ہوئے کہا، یہ ہمیشہ ایک نیا طرفہ لے کر آتے ہیں،کیا عمار ؓ کو ہم نے قتل کیا ہے؟ درحقیقت ان کے قتل کی ذمہ داری اس پر ہے جو ان کو اپنے ساتھ لایا۔ [20] حضرت عمار بن یاسرؓ پر دو آدمیوں نے ایک ساتھ حملہ کیا تھا، وہ دونوں جھگڑتے ہوئے امیر معاویہ ؓ کے دربار میں آئے؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اس کارنامہ کو تنہا اپنی طرف منسوب کرتا تھا، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ حاضرِ دربار تھے، انھوں نے کہا"تم میں سے کسی کو بخوشی اپنا دعویٰ تسلیم کر لینا چاہیے، کیونکہ میں نے رسالت پناہ ﷺ سے سنا ہے عمار ؓ کو گروہ باغی قتل کرے گا،امیر معاویہ ؓ نے برہم ہوکر ان کے والد سے کہا عمرو تم اپنے اس مجنوں کو مجھ سے الگ نہیں کروگے؟ اور خود ان سے کہا "اگر ایسا ہے تو تم کیوں میرے ساتھ ہو؟ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ نے جواب دیا میں صرف اس لیے آپ کے ساتھ ہوں کہ رسول خدا نے مجھے ہدایت فرمائی تھی کہ جب تک زندہ رہنا اپنے باپ کے مطیع وفرمان بردار رہنا۔ [21] گو اس خانہ جنگی میں حضرت عبد اللہ بن ؓعمرو کا دامن قتل وخونریزی سے ملوث نہیں ہوا تاہم وہ اس نام نہاد شرکت پر بھی سخت نادم و پشیمان تھے،نہایت حسرت وافسوس کے ساتھ فرمایا کرتے تھے" میرے اور جنگ صفین میں اور مسلمانوں کی خونریزی میں ،کاش! اس سے بیس سال پہلے میں دنیا سے اُٹھ گیا ہوتا۔ [22] [16] [23][24]

اعتذار

ترمیم

رجاء ؓبن حیاۃ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی ﷺ میں ایک مرتبہ میں ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا عبد اللہ بن عمروؓ اور ابوسعید خدری ؓ بھی موجود تھے ، عبد اللہ بن عمرو ؓ نے امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو آتے ہوئے دیکھ کر کہا، کیا تمھیں اس شخص سے آگاہ نہ کروں جو آسمان والوں کے نزدیک دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا وہ یہ ہے جو تمھارے سامنے ٹہل رہا ہے، واقعہ صفین کے بعد سے اس کی مجھ سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی، حالانکہ اس کی خوشنودی میرے نزدیک تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہے، ابو سعید خدری ؓ نے کہا،کیا آپ ان سے مل کر عذر خواہی نہ کریں گے؟" بولے کیوں نہیں دوسرے روز حضرت ابو سعید خدری ؓ کو ساتھ لے کر عذر خواہی کے لیے تشریف لے گئے، حضرت امام حسین ؓ کو ان سے ملنے میں پس و پیش تھا، لیکن حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصرار کے بعد اندر آنے کی اجازت حاصل کی اور واقعہ صفین میں اپنی شرکت کی عذرخواہی کرتے ہوئے کہا" رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق میں اپنے والد کی اطاعت پر مجبور تھا، لیکن خدا کی قسم! میں نے اس جنگ میں نہ تو اپنی تلوار برہنہ کی،نہ نیزہ سے کسی کو زخمی کیا اورنہ کوئی تیر چلایا۔ [25] [26][27]

وفات

ترمیم

65ھ میں حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بن عاص نے فسطاط میں وفات پائی، لوگوں نے ان کو گھر ہی میں دفن کر دیا، کیونکہ اس زمانہ میں مروان بن الحکم اورحضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی فوجوں میں نہایت شدید جنگ ہورہی تھی اور جنازہ کا عام قبرستان تک پہنچانا سخت دشوار تھا۔ [28] [29]

حلیہ

ترمیم

قدر بلند و بالا، پیٹ بھاری، رنگ سرخ، اخیر عمر میں سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے تھے۔ [30]

علم و فضل

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بن العاص اپنے علم و فضل کے لحاظ سے طبقہ صحابہ ؓ میں خاص امتیاز رکھتے تھے، انھوں نے اپنی مادری زبان کے علاوہ عبرانی میں بھی مخصوص دستگاہ حاصل کی تھی اور توریت و انجیل کا نہایت غور سے مطالعہ کیا تھا، احادیث نبوی صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا جس قدر ذخیرہ ان کے پاس تھا، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک کو اعتراف تھا کہ حضرت "عبد اللہ بن عمروؓ کو مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں؛ کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ سنتے تھے لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا۔ [31] [32][33]

مجموعہ حدیث کے پہلے مدون

ترمیم

انھوں نے رسول اللہ کے ارشادات و ملفوظات کا ایک مجموعہ جمع کیا تھا، جس کا نام صادقہ رکھا تھا،چنانچہ جب ان سے کوئی ایسا مسئلہ پوچھا جاتا جس کے متعلق انھیں زبانی کچھ یاد نہ ہوتا تو وہ اس میں دیکھ کر جواب دیتے تھے، ابو قبیل فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ قسطنطنیہ پہلے فتح کیا جائے گا یہ رومیہ؟ ان کو زبانی یاد نہ تھا، انھوں صندوق منگا کر ایک کتاب نکالی اور اس کو ایک نظر دیکھ کر فرمایا کہ ہم رسول اللہ کے پاس بیٹھے لکھ رہے تھے کہ کسی نے یہی سوال کیا، ارشاد ہوا کہ "ہر قل کا شہر( یعنی قسطنطنیہ) پہلے فتح کیا جائے گا" [34] حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مجموعہ کو نہایت عزیز رکھتے تھے، مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بستر کے نیچے سے ایک کتاب نکال کر دیکھنے لگا، انھوں نے منع کیا، میں نے کہا آپ تو مجھ کو کسی چیز سے منع نہ فرماتے تھے،یہ کیا ہے؟ فرمایا " یہ وہ صحیفہ حق ہے جس کو میں نے تنہا رسول اللہ سے سن کر جمع کیا تھا" پھر فرمایا اگر یہ صحیفہ اور قرآن اور وہظ کی جاگیر مجھ کو دے دی جائے تو پھر مجھ کو دنیا کی کچھ پروا نہ ہو۔ [35] [36][37]

مرویات کی تعداد

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرویات کی تعداد سات سو(700) ہے، جس میں 17 بخاری اور مسلم دونوں میں ہیں، ان متفق علیہ حدیثوں کے علاوہ 8 بخاری میں ہیں اور 20 مسلم میں ہیں۔ [38]

حلقۂ درس

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا حلقۂ درس نہایت وسیع تھا۔ لوگ دور دراز ممالک سے سفر کرکے تحصیل حدیث کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور وہ جہاں پہنچ جاتے تھے،شائقین علم کا ایک مجمع ان کے گرد وپیش ہو جاتا تھا،ایک نخعی شیخ کا بیان ہے کہایک مرتبہ میں ایلیاء کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑہی رہا تھا کہ ایک شخص میرے پہلو میں آکر کھڑا ہوا،نماز کے بعد لوگ ہر طرف سے اس کے پاس سمٹ آئے،دریافت سے معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ یہی ہیں۔ [39] وہ اپنے تلامذہ کے ساتھ نہایت محبت کے ساتھ پیش آتے تھے،ایک دفعہ ان کے گرد بہت بڑا مجمع تھا،ایک شخص اس کو چیرتا ہوا آگے بڑھا،لوگوں نے روکا تو فرمایا اس کو آنے دو، غرض وہ ان کے پاس آکر بیٹھا اور بولا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی فرمان یاد ہو تو بیان کیجئے، فرمایا، میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ مسلم وہ ہے کہ مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو خدا کی منع کی ہوئی باتوں کو چھوڑ دے۔ [40] حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کے خرمنِ علم سے اہل بصرہ نے زیادہ خوشہ چینی کی ؛کیونکہ ان کے حلقۂ درس میں نسبۃ بصرہ والوں کا زیادہ ہجوم رہتا تھا۔ [41] [42][43]

اربابِ علم کی قدرشناسی

ترمیم

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ذی علم معاصرین کی نہایت عزت کرتے تھے، ایک مرتبہ ان کے سامنے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کیا گیا تو بولے، تم لوگوں نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا جس کو میں اس دن سے بہت دوست رکھتا ہوں جس دن رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو اور سب سے پہلے عبداللہ بن مسعود ؓ کا نام لیا۔ [44] [45]

اخلاق

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے زہد وتقویٰ اور کثرتِ عبادت کے لحاظ سے خاص شہرت رکھتے تھے، طبیعت فطرۃ رہبا نیت کی طرف مائل تھی، دن عموماً روزوں میں بسر ہوتا اور رات عبادت میں گذر جاتی تھی،آنحضرت کو اطلاع ہوئی تو آپ نے بلا کر فرمایا ، عبد اللہ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے عہد کیا ہے کہ تمام عمر دن کو روزے رکھو گے اور رات عبادت میں صرف کرو گے بولے ہاں یا رسول اللہ (بابی انت وامی) فرمایا کہ"تم اس کی طاقت نہیں رکھتے،روزہ رکھو اور افطار کرو، نماز پڑھو اور آرام کرو، مہینہ میں صرف تین روزے رکھا کرو؛ کیونکہ ہر نیکی کا معاوضہ دس گناہ ہوتا ہے، لیکن اس کا ثواب تمام عمر روزہ رکھنے کے برابر ہے" عرض کیا "یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں" ارشاد ہوا کہ ایک دن روزہ رکھو اوردودن افطار کرو، بولے میں اس سے بھی زیادہ رکھ سکتا ہوں، حکم ہوا کہ ایک دن روزہ اور ایک دن افطار، داؤد علیہ السلام کا یہی طریقہ تھا اوریہ روزوں کی بہترین صورت ہے، عرض کیا میں اس سے بھی بہتر روزے رکھ سکتا ہوں، ارشاد ہوا کہ ،اس سے بہتر کوئی روزہ نہیں۔ [46] اسلام کا مطمح نظر رہبانیت نہیں، بلکہ انسان کے تمام فطری تعلقات کو خوش گوار بنانا ہے اس بنا پر آنحضرت بھی کبھی کبھی عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کے پاس تشریف لے جاتے اوران کو تاکید فرماتے کہ شوقِ عبادت میں حقوقِ عباد کو بھول نہ جائیں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے میرے گھر پر تشریف لاکر فرمایا کہ روزے رکھو اور افطار کرو، نمازیں پڑھو اور آرام کرو، کیونکہ تمھارے جسم کا تمھاری آنکھوں کا، تمھارے اہل و عیال کا اور تمھارے دوستوں کا تم پر حق ہے، میں نے عرض کیا داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا ہے؟ ارشاد ہوا کہ نصف عمر۔ [47] غرض انھوں نے تمام عمر روزوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کی پیروی کی،اور رات کا اکثر حصہ عبادت میں بسر کیا، تلاوت کا اس قدر شوق تھا کہ ہر تیسرے روز قرآن ختم کرلیتے تھے، لیکن اخیر عمر میں جب کہ قوی مضمحل ہو گئے تو اس قدرسخت ریاضت دشوار گذرنے لگی فرمایا کرتے تھے، کاش! میں رسول اللہ ﷺ کی اجازت قبول کرلیتا۔ [48] [49] ،[50] .[14] [51]

ذریعۂ معاش

ترمیم

حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ کو اپنے والد سے وراثت میں بہت بڑی دولت اور بہت سے خدم و حشم ملے تھے، طائف میں وہظ کے نام سے ان کی ایک جاگیر تھی جس کی قیمت کا سرسری تخمینہ دس لاکھ درہم تھا۔ [52] حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کی طرف سے یہاں زراعت ہوتی تھی ،[53] ایک مرتبہ عنبسہ بن ابی سفیان سے اس کے متعلق کچھ جھگڑا پیدا ہو گیا تھا ، یہاں تک کہ دونوں طرف سے کشت وخون کی تیاریاں ہو گئی تھیں، خالد بن العاص ؓ حضرت عبد اللہ ؓ کو سمجھا نے کے لیے آئے تو انھوں نے جواب دیا" کیوں تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔ [54] [1] .[6]

روایت حدیث

ترمیم

چند مرویات

ترمیم
  • ابی راشد تابعی فرماتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کے پاس آیا اور ان سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں سن رکھی ہیں ان میں سے کوئی حدیث ہمیں سنائیے، تو انھوں نے ایک لکھا ہوا ورق ہمارے آگے بڑھا دیا اور کہا: یہ وہ کاغذ ہے جسے رسول اللہ نے ہمیں لکھ کر دیا ہے 1؎، جب میں نے اسے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی دعا بتا دیجئیے جسے میں صبح اور شام میں پڑھا کروں، آپ نے فرمایا: ”ابوبکر! ( یہ دعا ) پڑھا کرو: اللهم فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة لا إله إلا أنت رب كل شيء ومليكه أعوذ بك من شر نفسي ومن شر الشيطان وشركه وأن أقترف على نفسي سوءا أو أجره إلى مسلم ”اے اللہ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے، کھلی ہوئی اور پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے، کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے تیرے، تو ہر چیز کا رب ( پالنے والا ) اور اس کا بادشاہ ہے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے، شیطان کے شر اور اس کے جال اور پھندوں سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اپنے آپ کے خلاف کوئی گناہ کر بیٹھوں یا اس گناہ میں کسی مسلمان کو ملوث کر دوں“۔[57]
  • عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمھارا اس زمانے میں کیا حال ہو گا ۔۔۔۔‘‘ یا فرمایا :’’ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ لوگوں کو خوب چھان لیا جائے گا ( اہل ایمان اور اچھے آدمی اٹھا لیے جائیں گے ) اور چھان بورا باقی رہ جائے گا ( بے دین اور رذیل لوگ باقی رہ جائیں گے ) جن کے عہد و مواعید میں بے وفائی اور امانتوں میں خیانت ہو گی اور ان میں اس طرح سے اختلاف ہو جائے گا ۔۔۔۔‘‘ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری کے اندر ڈال کر دکھایا ۔۔۔۔ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! تو ہم کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا :’’ جو نیکی ہو اس پر عمل پیرا ہونا اور جو برائی ہو اس سے دور رہنا اور خاص اپنی اصلاح کی فکر کرنا اور اپنے عام لوگوں کو چھوڑ دینا ۔:: امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے واسطے سے نبی ﷺ سے کئی سندوں سے وارد ہے ۔[58]
  • عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا ۔ آپ نے فرمایا :’’ جب تم دیکھو کہ لوگ اپنے عہد و مواعید میں بے وفائی کرنے لگے ہیں ، امانتوں کا معاملہ انتہائی خفیف اور ضعیف ہو گیا ہے ( لوگ خائن بن گئے ہیں ) اور ان کی آپس کی حالت اس طرح ہو گئی ہے ۔‘‘ اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر ڈال کر دکھایا ( اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں ) عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں اٹھ کر آپ کے قریب ہو گیا اور عرض کیا : اللہ مجھے آپ پر فدا ہونے والا بنائے ! میں ان حالات میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا :’’ اپنے گھر کو لازم پکڑنا ، اپنی زبان کا مالک بن جانا ( خاموش رہنا ) اور نیکی پر عمل کرنا اور برائی سے بچنا اور اپنی ذات کی فکر کرنا اور عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا ۔‘‘ [59]
  • عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ درختوں پر لگی کھجوروں کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’ جو ضرورت مند اپنے منہ سے کھا لے ‘ لیکن پلو میں نہ باندھے تو اس پر کچھ نہیں ‘ اور اگر کوئی کچھ لے کر نکلے تو اس پر اس کا دگنا جرمانہ اور سزا ہے ‘ اور اگر کوئی کھلیان میں محفوظ کر دینے کے بعد چرائے اور اس کی قیمت ایک ڈھال کو پہنچے تو اس میں ہاتھ کا کاٹنا ہے ۔ اور جو کوئی اس سے کم میں چرائے تو اس پر چوری شدہ کا دگنا جرمانہ اور سزا ہے ۔:: امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ الجرين سے مراد جوخان ہے ‘ یعنی جہاں کھجور وغیرہ خشک اور ذخیرہ کی جاتی ہے ۔ [60]
  • عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا : چند کلمات ہیں جو کوئی انھیں اپنی مجلس سے اٹھتے ہوئے تین بار پڑھ لے تو یہ اس کے لیے کفارہ بن جائیں گے ‘ اور جو کوئی انھیں اپنی اس مجلس کے دوران میں پڑھ لے ‘ وہ مجلس خیر کی ہو یا ذکر کی تو یہ اس کے لیے ایسے ہوں گے جیسے کسی تحریر کو مہر بند کر دیا گیا ہو ( اس کے لیے اس کا اجر اور گناہوں کا کفارہ ہونا محفوظ ہو گا ۔ وہ کلمات یہ ہیں : ) ( سبحانك اللهم وبحمدك لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك ) ’’ اے اللہ ! تو اپنی تعریفوں سمیت پاک ہے ‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور میں تیری ہی طرف رجوع کرنے والا ہوں ۔‘‘ [61]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » عبد الله بن عمرو بن العاص آرکائیو شدہ 2017-12-03 بذریعہ وے بیک مشین
  2. ^ ا ب پ ت الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر العسقلانی - عبد اللَّہ بن عمرو بن العاص (2) آرکائیو شدہ 5 اکتوبر 2016 بذریعہ وے بیک مشین
  3. ^ ا ب پ
  4. ( سنن دارمی جلد اول صفحہ 29)
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير الجزري - عبد الله بن عمر بن العاص آرکائیو شدہ 2016-10-05 بذریعہ وے بیک مشین
  6. ^ ا ب پ ت تهذيب الكمال للمزي » عَبْد اللَّهِ بن عمرو بن العاص بن وائل آرکائیو شدہ 2018-02-28 بذریعہ وے بیک مشین
  7. ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - عبد اللَّه بن عمرو بن العاص (3) آرکائیو شدہ 2016-10-05 بذریعہ وے بیک مشین
  8. الولاة والقضاء - الكندي - الصفحة ٣٧. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  9. تذكرة الحفاظ وتبصرة الأيقاظ - ابن المبرد - ج ١ - الصفحة ١٣٤. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  10. (اسد الغابہ:3/233)
  11. (مسند احمد :4/192)
  12. (سنن ابی داؤد ،2،:513)
  13. (مسند احمد :4/58)
  14. ^ ا ب الطبقات الكبرى - ابن سغد - ج ٧ - الصفحة ٣٤٤. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  15. (اسد الغابہ :3/234)
  16. ^ ا ب التاريخ - ابن يونس - ج ١ - الصفحة ٢٧٧. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  17. (اسد الغابہ:3/234)
  18. الطبقات الكبرى - ابن سغد - ج ٥ - الصفحة ٦٥. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  19. (تذکرۃ الحفاظ:36)
  20. (مسند احمد:2/161)
  21. (مسند احمد:206)
  22. (اسد الغابہ:3/234)
  23. الولاة والقضاء - الكندي - الصفحة ١١. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  24. المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار - المقريزي - ج٢ - الصفحة ٩٤. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  25. (اسد الغابہ:3/234)
  26. كتاب الفتوح - أحمد بن أعثم الكوفي - ج ٢ - الصفحة ٣٥٩. آرکائیو شدہ 2021-01-13 بذریعہ وے بیک مشین
  27. فتوح البلدان - البلاذري - ج ١ - الصفحة ٢٦٧. آرکائیو شدہ 2020-01-20 بذریعہ وے بیک مشین
  28. (تذکرۃ الحفاظ:36)
  29. الخلفاء الراشدون من تاريخ الإسلام - الذهبي - الصفحة ١٢١. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  30. الاكتفاء - الكلاعي - ج ٢ - الصفحة ٣٦٤. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  31. (تذکرۃ الحفاظ:36)
  32. أمراء الكوفة وحكامها - آل خليفة - الصفحة ١٦٢. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  33. تاريخ الرسل والملوك - الطبري - ج ٣ - الصفحة ١٦٩. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  34. (مسند احمد:2/176)
  35. (اسدالغابہ:3/234)
  36. البداية والنهاية - ابن كثير - ج ٧ - الصفحة ٢٨٩. آرکائیو شدہ 2020-02-11 بذریعہ وے بیک مشین
  37. الأخبار الطوال - الدينوري - الصفحة ١٧٢. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  38. (تہذیب :208)
  39. (مسند احمد:2/198)
  40. (مسند احمد:2/192)
  41. ( تذکرۃ الحفاظ :36)
  42. فتوح البلدان - البلاذري - ج ١ - الصفحة ٢٦٩. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  43. تاريخ الرسل والملوك - الطبري - ج ٥ - الصفحة ١٨١. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  44. ( مسلم باب مناقب عبد اللہ بن مسعود)
  45. الأعلام - خير الدين الزركلي - ج ٤ - الصفحة ١١١. آرکائیو شدہ 2020-01-28 بذریعہ وے بیک مشین
  46. (بخاری باب صوم الدہر)
  47. (بخاری باب حق الجسم فی اصوم)
  48. (بخاری باب حق الجسم فی الصوم)
  49. النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة - المقريزي - ج ١ - الصفحة ١٧٦. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  50. تاريخ مدينة دمشق - العسقلاني - ج ١٧ - الصفحة ٥٧٢. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  51. فتوح مصر - ابن عبد الحكم - الصفحة ٩٧. آرکائیو شدہ 2021-01-11 بذریعہ وے بیک مشین
  52. (تذکرۃ الحفاظ:36)
  53. (اسدالغابہ :3/234)
  54. (مسند احمد :1/206)
  55. الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر العسقلانی - عبد اللَّہ بن عمرو بن العاص (1) آرکائیو شدہ 5 اکتوبر 2016 بذریعہ وے بیک مشین
  56. تہذیب الکمال، المزی، جـ 22، صـ 290، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، الطبعہ الاولى، 1980م آرکائیو شدہ 20 اکتوبر 2018 بذریعہ وے بیک مشین
  57. (جامع ترمذی حدیث نمبر 3529)
  58. (سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4352)
  59. (سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4343)
  60. (سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4390)
  61. (سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4857)