سلسلہ کوہ ہمالیہ

(کوہ ہمالیہ سے رجوع مکرر)

سلسلہ کوہ ہمالیہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو برصغیر پاک و ہند کو سطح مرتفع تبت سے جدا کرتا ہے۔ بعض اوقات سلسلہ ہمالیہ میں سطح مرتفع پامیر سے شروع ہونے والے دیگر سلسوں جیسے کہ قراقرم اور ہندوکش کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ کوہ ہمالیہ کو طبقاتی طور پر چار ٹیکٹونک یونٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کرہ ارض کی کچھ بلند ترین چوٹیاں ہیں، جن میں سب سے اونچی، ماؤنٹ ایورسٹ بھی شامل ہے جو چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے۔ ہمالیہ کی بلندی میں 7,200 میٹر (23,600 فٹ) سے زیادہ 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں۔

سلسلہ کوہ ہمالیہ
 

انتظامی تقسیم
ملک نیپال
میانمار
عوامی جمہوریہ چین
پاکستان
بھارت
افغانستان
بھوٹان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 29°N 84°E / 29°N 84°E / 29; 84   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ 600000 مربع کلومیٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2046) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی 8848.86 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2044) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
جیو رمز 1252558  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
  ویکی ڈیٹا پر (P935) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف 6,962 میٹر ہے۔[2]

دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ، گنگا، برہم پتر، یانگزی، میکانگ، جیحوں، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ کی برف بوش بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، پاکستان، چین، نیپال، برما، کمبوڈیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، تھائی لینڈ، لاؤس، ویتنام اور ملائیشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3 ارب لوگ، بستے ہیں۔

ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی اکثر چوٹیاں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت میں مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لے کر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب سے زیادہ ہے، عظیم ہمالیہ یا اندرونی ہمالیہ کہا جاتا ہے۔

گلیشئر اور دریا

ترمیم

ہمالیہ نام سنسکرت: हिमालय‎ ('ہِمالَے' بمعنی برف کا گھر) سے مشتق ہے۔ ہمالیہ میں کم و بیش 15,000 گلیشیٔر ہیں جن میں تقریباً 12,000 مکعب کلومیٹر پانی ذخیرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع 70 کلومیٹر لمبا سیاچن گلیشیر دنیا میں قطبین سے باہر دوسرا طویل ترین گلیشیر ہے۔ قطبین کے باہر طویل ترین گلیشیر بھی ہمالیہ سے زیادہ دور نہیں، یہ تاجکستان کا فریڈشینکو گلیشیر ہے جس کی لمبائی 77 کلومیٹر ہے۔ ہمالیہ کے کچھ دوسرے مشہور گلیشیر گنگوتری اور یمنوتری گیشیر (اتراکھنڈ)، نوبرا، بیافو اور بالتورو گلیشیر (قراقرم)، زیمو اور کھُمبو گلیشیر (ماؤنٹ ایورسٹ) ہیں

گرم علاقوں کے قریب واقع ہونے کے باوجود ہمالیہ کے بلند تر علاقے سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان برف پوش چوٹیوں سے بہت سے دریا نکلتے ہیں جو موسمی دریاؤں کے برعکس سارا سال چلتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دریا برصغیر پاک و ہند کے دو دریائی نظاموں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجاتے ہیں:

  • مغربی دریا سندھ طاس کا حصہ ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے۔ دریائے سندھ تبت میں دریائے سینگے اور دریائے گار کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے اور بھارت اور پاکستان سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس کے معاونین میں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے دریا بھی شامل ہیں
  • ہمالیہ کے دیگر دریاؤں کی اکثریت گنگا برہماپترا طاس میں شامل ہے۔ اس طاس کے سب سے بڑے دریا گنگا اور برہم پترا ہیں۔ برہماپترا مغربی تبت میں دریائے یارلنگ تسانگپو کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف سفر کرتا ہوا تبت اور پھر آسام کی وادیوں سے گزرتا ہے۔ گنگا اور برہماپترا کا ملاپ بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ دریا دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا[3] بناتا ہوا خلیج بنگال میں گرتا ہے۔

ہمالیہ سے نکلنے والے مشرقی ترین دریا میانمار کے دریائے آئیروادی سے ملتے ہیں۔ یہ دریا جنوب کی جانب بہتے ہیں اور مشرقی تبت اور میانمار سے ہوتے ہوئے بحیرہ انڈمان میں گرتے ہیں۔

دریائے سالوین، میکانگ، یانگزی اور ہوانگ ہی (دریائے زرد) بھی سطح مرتفع تبت سے نکلتے ہیں تاہم تبت کے یہ حصے ارضیاتی طور پر کوہ ہمالیہ کا حصہ نہیں اور اس لیے ان دریاؤں کو ہمالیہ کے دریاؤں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ تاہم کچھ ارضیات دان ان تمام دریاؤں کو مجموعی طور پر "حلقہ ہمالیہ دریا" کہتے ہیں[4]

حالیہ سالوں میں سائنسدانوں نے گلیشیروں کے پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہے۔[5] اگرچہ گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات بہت سالوں تک پوری طرح واضع نہیں ہوں گے، اس سے شمالی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو خشک موسم میں اپنے دریاؤں میں ان گیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔[6]

جھیلیں

ترمیم

ان پہاڑوں میں سینکڑوں جھیلیں موجود ہیں۔ زیادہ تر جھیلیں 5000 میٹر سے کم بلندی پر واقع ہیں اور بلندی کم ہونے کے ساتھ ساتھ جھیلوں کی جسامت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی جھیل پنگونگ تسو ہے جو بھارت اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ 4600 میٹر کی بلندی پر ہے، چوڑائی 8 کلومیٹر اور لمبائی لمبائی لگ بھگ 134 کلومیٹر ہے۔

موسمی اثرات

ترمیم

کوہ ہمالیہ کے برصغیر پاک و ہند اور سطح مرتفع تبت کے موسم پر انتہائی اہم اثرات ہیں۔ یہ پہاڑ آرکٹک اور سائبیریا سے آنے والی انتہائی سرد اور خشک ہوا کو برصغیر میں داخل نہیں ہونے دیتے جس کے باعث برصغیر کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ یہ مون سون کی ہواؤں کو بھی مزید شمال کی جانب جانے سے روکتے ہیں جس کے باعث ترائی کے علاقے میں خوب بارش ہوتی ہے۔ اس بارش کے باعث ہوا سے تمام نمی خارج ہوجاتی ہے اور جو ہوائیں ہمالیہ کو پار کرکے تبت تک پہنچتی ہیں، وہ وہاں بارش نہیں برساتیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان سلسلہ کوہ ہمالیہ کو صحرائے ٹکلامکان اور صحرائے گوبی کی تشکیل کا باعث بھی سمجھتے ہیں۔

ہمالیہ میں، جسے کہ اکثر اوقات دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے ہے، قطبین کے علاوہ سب سے زیادہ گلیشئر پائے جاتے ہیں۔ ایشیا کے دس سب سے بڑے دریا اس سلسلے یا اس سے ملحقہ علاقوں سے نکلتے ہیں اور لگ بھگ ایک ارب لوگوں کی زندگی کا دارومدار ان دریاؤں پر ہے۔

ہمالیہ کی قابل ذکر چوٹیاں

ترمیم
نام دیگر نام اور معنی بلندی (میٹر) بلندی (فٹ) فتح اول نوٹ
ایورسٹ ساگرماتھا (نیپالی), "دنیا کا سر",[7]
چومولانگما(تبتی), "برف کی دیوی ماں"[7]
8,848 29,035.44 1953 دنیا کا بلند ترین پہاڑ، نیپال اور تبت-چین کی سرحد پر واقع
کے ٹو شاہگوری، ماؤنٹ گُڈوِن آسٹن 8,611 28,251 1954 دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ۔ گلگت و بلتستان-پاکستان اور زنجیانگ-چین کی سرحد پر واقع
کنگچنجنگا کنگچن ژونگا، "عظیم برف کے پانچ خزانے" 8,586 28,169 1955 دنیا کا تیسرا بلند ترین پہاڑ۔ نیپال اور سکم-بھارت کی سرحد پر واقع
لہوٹسے "جنوبی چوٹی" 8,516 27,940 1956 دنیا کا چوتھا بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر ماؤنٹ ایورسٹ کے سائے میں واقع ہے
مکلو "عظیم کالا" 8,462 27,765 1955 دنیا کا پانچواں بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے
چو اویو قووو وویاگ، "فیروزی دیوی" 8,201 26,905 1954 دنیا کا چھٹا بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے
دہولاگری "سفید پہاڑ" 8,167 26,764 1960 دنیا کا ساتواں بلند ترین پہاڑ۔ نیپال میں واقع ہے
مناسلو کُتانگ، "روح کا پہاڑ" 8,156 26,758 1956 دنیا کا آٹھواں بلند ترین پہاڑ۔ گورکھا ہمال، نیپال میں واقع ہے
نانگا پربت دیامیر، "ننگا پہاڑ" 8,126 26,660 1953 دنیا کا نواں بلند ترین پہاڑ۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع ہے
اناپورنا "کٹائی یا پیداوار کی دیوی" 8,091 26,545 1950 دنیا کا دسواں بلند ترین پہاڑ جو نیپال میں واقع ہے
گاشربرم 1 "خوبصورت پہاڑ" 8,080 26,509 1958 دنیا کا گیارھواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
براڈ پیک فائیچان کنگڑی 8,047 26,401 1957 دنیا کا بارھواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
گاشربرم 2 - 8,035 26,362 1956 دنیا کا تیرھواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
شیشاپنگما زیزیابنگما، "گھاس کے میدانوں کے اوپر تاج" 8,013 26,289 1964 دنیا کا چودھواں بلند ترین پہاڑ جو تبت-چین میں واقع ہے
گیاچُنگ کانگ نامعلوم 7,952 26,089 1964 دنیا کا چھٹا بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے اور دنیا کا سب او اونچا پہاڑ ہے جو 8,000 میٹر سے کم بلند ہے
گاشربرم 4 - 7,925 26,001 1958 دنیا کا سترھواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
ماشربرم نامعلوم 7,821 25,660 1960 دنیا کا بائیسواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
نندا دیوی "فرحت بخش دیوی" 7,817 25,645 1936 دنیا کا تئیسواں بلند ترین پہاڑ جو اتراکھنڈ-بھارت میں واقع ہے۔ یہ مکمل طور پر بھارت میں واقع بلند ترین چوٹی ہے۔
راکاپوشی "چمکتی دیوار" 7,788 25,551 1958 ایک جسیم پہاڑ جو اپنے گرد و نواح سے بہت بلند ہے۔ پاکستان کے سلسہ کوہ قراقرم میں واقع ہے۔
گنگکھر پوئنسم گنکر پُنزم، "تین پہاڑی بہنیں" 7,570 24,836 سر نہیں ہوئی دنیا کی بلند ترین چوٹی جو اب تک سر نہیں ہوئی۔ بھوٹان میں واقع یہ چوٹی کوہ پیمائی کے لیے ممنوع ہے۔
اما دبلم "ماں اور اس کا ہار" 6,848 22,467 1961 کچھ لوگوں کے نزدیک دنیا کے حسین ترین پہاڑوں میں سے ایک۔ کھُمبو، نیپال میں واقع ہے

ایوانِ عکس

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1.    "صفحہ سلسلہ کوہ ہمالیہ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 نومبر 2024ء 
  2. Himalayan Mountain System۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اگست 2007 
  3. "Sunderbans the world's largest delta"۔ gits4u.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2010 
  4. J Gaillardet; Métivier, Lemarchand, Dupré, Allégre, Li, Zhao (2003)۔ "Geochemistry of the Suspended Sediments of Circum-Himalayan Rivers and Weathering Budgets over the Last 50 Myrs" (PDF)۔ Geophysical Research Abstracts۔ 5 (13617)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 نومبر 2006  Cite uses deprecated parameter |coauthors= (معاونت)
  5. "Vanishing Himalayan Glaciers Threaten a Billion"۔ Planet Ark۔ June 5, 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2009 
  6. "Glaciers melting at alarming speed"۔ People's Daily Online۔ July 24, 2007۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2009 
  7. ^ ا ب "Edelweiss trekking, mountaineering, rafting, safari cultural and pilgrimage tours in Nepal"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2009