شاہ محمد سلیمان تونسوی

خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی برصغیر پاک و ہند میں بارہویں صدی ہجری کے آخر ایک عظیم مصلح اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ کا تعلق سلسلہ عالیہ چشتیہ سے تھا۔ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں سینکڑوں مشائخ آپ کو اپنا روحانی مورث تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کی رشد و ہدایت سے برصغیر پاک و ہند کا کونہ کونہ منور ہوا، برصغیر سے باہر افغانستان، وسط ایشیا، ایران، عراق، شام اور حجاز مقدس تک آپ کا فیض پہنچا۔

شاہ محمد سلیمان تونسوی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1770ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع لورالائی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 12 دسمبر 1850ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تونسہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت و خاندان نسبت

ترمیم

شاہ سلیمان کی پیدائش 1183ھ مطابق 1769ء میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی کا نام ذکریا بن عبد الوہاب بن عمر خان بن خان محمد تھا جبکہ والدہ کا نام زلیخا بی بی تھا۔ شاہ سلیمان کا مقامِ پیدائش گڑگوجی موضع ہے جو کوہِ درگ میں تونسہ سے مغرب کی طرف 30 کوس کے فاصلہ پر ہے۔ آپ کا خاندان افغان قوم کے قبیلہ جعفر سے تعلق رکھتا تھا۔ شاہ سلیمان کا ایک بڑا بھائی یوسف نامی جوانی میں فوت ہو گیا تھا۔ آپ کی چار بہنیں تھیں جن کی اولاد تونسہ میں ہی سکونت پزیر رہی۔ شاہ سلیمان کو عوام پیر پٹھان کے نام سے جانتی ہے۔ [1]حضرت خواجہ محمد سلیمان رضی اللہ عنہ بن زکریا رحمۃ اللہ علیہ بن عبد الوہاب بن عمر خان بن خان محمد ۔ آپ کا وطن مالوف موضع گڑگوجی ہے جو کوہ درگ میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ تونسہ شریف سے مغرب کی طرف میں کوس کے فاصلہ پر ہے۔ قوم کے پٹھان ہیں اور قوم جعفر کے ساتھ مشہور ہیں۔ ان کی یہ نسبت حضرت امام جعفر جعفر الصادق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ حضرت خواجہ حافظ صاحب نے مجھے یونہی بیان فرمایا کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے دو نکاح کیسے تھے۔ ایک اماموں کے خاندان سے سید زادی تھیں اور دوسری بیوی بیٹھانوں کے خاندان سے تھیں۔ اس کے بطن سے ایک فرزند پیدا ہوا جس کا نام جعفر رکھا گیا۔ جب وہ صاحب اولاد ہوا تو ان کی اولاد جعفر مشہور ہوئی۔ یہ قصہ کتب تواریخ میں تحریر ہے اور مشہور ہے۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

آپ نے علوم دینی کی تعلیم گڑگوجی تونسہ شریف، کوٹ مٹھن اور مہار شریف میں حاصل کی اور علوم باطنی کے لیے خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ ( چشتیاں شریف) کے دست مبارک پر بیعت کی اور تاجِ خلافت سے سرفراز ہوئے۔

قیام تونسہ شریف

ترمیم

مرشد کے انتقال کے بعد 1214ھ بمطابق 1799ء میں گڑگوجی سے نقل مکانی کر کے تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازی خان) میں مقیم ہو گئے اور خلق خدا کی رہنمائی کرنے لگے۔ آپ کا فیض عام ہو گیا اور لوگ جوق در جوق بیعت کرنے لگے۔ آپ کے تشریف لانے سے قبل تونسہ شریف سنگھڑ ندی کے کنارے چند گھروں پر مشتمل ایک غیر معروف گاؤں تھا۔ جب آپ تونسہ شریف میں آ کر مقیم ہوئے تو یہ غیر معروف گاؤں علم و عرفان کا مرکز بن گیا اور طاؤسہ سے تونسہ شریف کہلانے لگا۔

دینی خدمات

ترمیم

تیرہویں صدی ہجری و اٹھارویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مسلمانوں کا ہزار سالہ دور حکومت ختم ہونے کو تھا آخری مسلم حکومت یعنی مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانس لے رہی تھی اس کی حدود صرف دہلی تک محدود ہو چکیں تھیں۔ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں نے افراتفری مچا رکھی تھی۔ حکومت کابل کی شوکت روبہ زوال تھی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر سکھوں نے پنجاب پر اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ انگریز کی نظر تخت دہلی پر لگی ہوئی تھی۔ آپ نے تونسہ شریف میں عظیم علمی و دینی درسگاہ قائم کی جہاں پچاس سے زائد علما و صوفیا فارسی، عربی، حدیث، تفسیر، فقہ، تصوف، سائنس، طب و ہندسہ وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے۔ طلبہ کی تعداد ان مدارس میں ڈیڑھ ہزار سے زائد تھی۔ طلبہ، علما و فقراء کو لنگرخانہ سے کھانا، کپڑے، جوتے، کتابیں، ادویہ اور دیگر تمام ضروریات زندگی ملتی تھیں۔ آپ کو درس و تدریس کا بے حد شوق تھا۔ مریدین و خلفاء کو کتب تصوف کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے خلفاء نے برصغیر پاک وہند کے طول وعرض میں اور اس سے باہر اپنی خانقاہیں قائم کیں۔ دینی مدارس کا اجرا کیا لنگر خانے قائم کیے۔ پاکستان میں تونسہ شریف، مکھڈ شریف، سیال شریف ،ترگ شریف، میرا شریف، گڑھی افغانان، جلال پور، گولڑہ شریف اور بھیرہ شریف وغیرہ کے مدارس قابل ذکر ہیں۔ ان مدارس میں نہ صرف اعلٰی درجہ کی تعلیم دی جاتی بلکہ اعلٰی درجہ کی تربیت بھی کی جاتی۔

تونسہ شریف کی خانقاہ برصغیر پاک و ہند میں صوفیا کی خانقاہوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی علمی، دینی، اصلاحی، اخلاقی و روحانی تعلیمات نے معاشرے کے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا ان میں عام مسلمانوں کے علاوہ علما و صوفیا اور رؤساء بھی شامل ہیں۔ علما اور عوام کے بڑے بڑے والیان ریاست اور جاگیردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اکثر والیان ریاست گدی پر بیٹھتے وقت آپ کے دست مبارک سے پگڑی بندھوانے کی خواہش کرتے مگر آپ راضی نہ ہوتے۔ سنگھڑ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور ریاست بہاولپور کے نواب، افغانستان سے والی ریاست شاہ شجاع محمدپوتے احمد شاہ ابدالی و میر دوست محمد والی افغانستان اور پنجاب، سرحدو افغانستان کی چھوٹی بڑی ریاستوں کے نواب کئی مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی شان میں علما، صوفیا اور شعرا نے عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبان میں بے شمار تذکرے، مناقب، قصائد اور سلام عقیدت لکھے۔

سلسلہ

ترمیم
  1. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
  2. حضرت علی بن ابی طالب
  3. خواجہ حسن بصری
  4. خواجہ عبدالواحد بن زید
  5. خواجہ فضیل بن عیاض
  6. خواجہ ابراہیم بن ادہم
  7. خواجہ حذیفہ مرعشی
  8. خواجہ ابو ہبیرہ بصری
  9. خواجہ ممشاد علوی دینوری
  10. خواجہ ابو اسحاق شامی
  11. خواجہ ابو احمد ابدال
  12. خواجہ ابو یوسف چشتی
  13. خواجہ مودود چشتی
  14. خواجہ حاجی شریف زندنی
  15. خواجہ عثمان ہارونی
  16. خواجہ معین الدین حسن
  17. خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
  18. بابا فرید الدین گنج شکر
  19. خواجہ نظام الدین اولیاء
  20. خواجہ نصير الدین محمود چراغ دہلوی
  21. خواجہ کمال الدین چشتی
  22. خواجہ سراج الدین
  23. خواجہ علم الدین
  24. خواجہ محمود راجن
  25. خواجہ جمال الدین چمن
  26. شیخ حسن محمد
  27. قطب شمس الدین محمد احمد آبادی
  28. خواجہ شیخ محی الدین يحيىٰ مدنی
  29. شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی
  30. شیخ نظام الدین اورنگ آبادی
  31. خواجہ فخر الدین دہلوی
  32. خواجہ نور محمد مہاروی
  33. شاہ محمد سلیمان تونسوی

خلفاء

ترمیم

آپ کے خلفاء کی تعداد 673 ہے، جن میں سے چند مشہور خلفاء کے اسماء گرامی یہ ہیں۔

  • صاحبزادہ خواجہ گل محمد
  • خواجہ اللہ بخش تونسوی
  • مولانا محمد علی مکھڈی
  • حافظ سید محمد علی خیر آبادی
  • سید حسن عسکری دہلوی
  • خواجہ محمد شمس الدین سیالوی
  • مولوى نظامت علی مراد آبادی
  • مولانا خواجہ جان محمد چشتی تونسوی، انتالی شریف، پاکپتن شریف
  • مولانا فیض بخش الہی
  • خواجہ میاں باران صاحب
  • حضرت میاں گامنڑ صاحب
  • حضرت خواجہ احمدالدین دھڑ شریف ضلع گجرات
  • حضرت بابا عنایت علی بھنگرتھ (مدفن 112/9ایل ساہی

وفات

ترمیم

آپ نے ماہ صفرالمظفر کی 7 تاریخ 1267ھ مطابق 12 دسمبر 1850ء کو سحری کے وقت 84 برس کی عمر میں انتقال فرمایا اور اپنے حجرہ عبادت میں دفن ہوئے۔ آپ کے مزار پر نواب آف بہاولپور محمد بہاول خان سوم (1825ء تا 1852ء) مرید خواجہ تونسوی نے 85 ہزار روپے کی لاگت سے ایک عالیشان مقبرہ 1270ھ میں مکمل کرایا۔[2]

اولاد

ترمیم

شاہ محمد سلیمان تونسوی کے دو بیٹے تھے۔

  1. خواجہ گل محمد تونسوی
  2. خواجہ درویش محمد تونسوی

دونوں صاحبزادے خواجہ محمد سلیمان تونسوی کی زندگی میں ہی وفات پا گئے تھے اس لیے آپ کے پوتے خواجہ اللہ بخش تونسوی آپ کے مسند نشین ہوئے۔ [3]

بیرونی روابط

ترمیم

کتابیات

ترمیم
  • محمد حسیب القادری: سیرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی، مطبوعہ اکبر بک سیلرز، لاہور، 2018ء
  • پروفیسر افتخار احمد چشتی سلیمانی : تذکرہ خواجگان تونسوی، جلد 1 ، مطبوعہ چشتیہ اکادمی، فیصل آباد، پاکستان، 1406ھ/1985ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ خواجگان تونسوی، جلد 1 ، صفحہ 93۔
  2. سیرالاولیاء، باب نہم، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، ص502۔ 501
  3. تاریخ مشایخ چشت از خلیق احمد نظامی صفحہ 663
  1. https://sialsharif.org/golden-chain.html