عبد الرحمٰن جامی

پندرہویں صدی عیسوی کے عظیم ترین نقشبندی صوفی اور بزرگ

مولانا عماد الدین نور الدین عبد الرحمٰن جامی عموماً مولانا عبد الرحمٰن جامی اور عبد الرحمٰن نور الدین محمد دشتی کے نام سے مشہور و معروف صوفی شاعر اور مؤرخ ہیں۔ آپ کا عرصہ حیات 1414ء سے 1492ء تک محیط ہے۔ آپ اپنے زمانہ میں علمائے اسلام اور صوفیائے اسلام کی صف اول میں شمار کیے جاتے تھے۔ اسلامی صوفی ازم میں آپ کا رتبہ مقام عالیت کو پہنچا ہوا ہے۔ آپ نے صنف شاعری میں کئی اہم کتب تصنیف فرمائیں جن میں تصوف اور روحانیت کا درس دیتے ہوئے مولانا جامی کی شخصیت مزید اُبھرتی ہوئی ہمارے سامنے آتی ہے۔

عبد الرحمٰن جامی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 7 نومبر 1414ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خرجرد ،  ہرات ،  تربت جام   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 نومبر 1492ء (78 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہرات   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت تیموری سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر [3]،  مصنف [4][5]،  موسیقی کا نظریہ ساز ،  فلسفی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان تاجک زبان ،  عربی [6]،  فارسی [6]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فلسفہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جامی شناسی

ترمیم

خراسان کی ولایت جام کے ایک قصبہ خرجرو میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں باپ کے ساتھ ہرات اور سمرقند گئے جو اس زمانے میں اسلامی علوم اور فارسی ادب کا مرکز تھے۔ تعلیم کے بعد سلوک و عرفان کی طرف رجوع کیا اور سعد الدین محمد کاشغری اور خواجہ علی سمرقندی کے حلقۂ طریقت میں ان کا شمار خلفا میں ہونے لگا۔ 1472ء میں حج کیا۔ مختلف شہروں کی سیاحت کرکے ہرات واپس آئے اور وہیں انتقال کیا۔

سلطان ابو سعید گرگانی، سلطان حسین مرزا، میر علی شیرنوائی، اوزون حسن، آق قیونلو، سلطان یعقوب، سلطان محمد فاتح اور سلطان بایزید دوم مولانا جامی کی بڑی عزت کرتے تھے۔ گوشہ نشین اور درویش منش تھے۔ نظم و نثر کی تصانیف 49 ہیں۔ نظم میں سات مثنویاں ہفت اورنگ سلسلۃ الذہب، سلامان وابسال، تحفۃ الاحرار، صحبۃ الابرار، یوسف زلیخا، لیلی مجنوں، فرد نامۂ سکندری اور غزلوں کے تین مجموعے آپ کی یادگار ہیں۔ نثر میں گیارہ کتابیں تصنیف کیں۔

ولادت و مولد

ترمیم

مولانا جامی کی ولادت بروز بدھ 23 شعبان المعظم 817ھ مطابق 7 نومبر، 1414ء کو بوقت عشاء جام کے موضع خرجرد میں ہوئی جو اب افغانستان کے صوبہ غور میں واقع ہے۔[7][8] جام ایک گاؤں ہے جو افغانستان کے صوبہ غور میں چشت کے شمال میں ہری رُود کے بائیں کنارے کے معاون تگاؤ گنبذ کے کنارے آباد ہے۔ یہاں سے اصل دریا اور اُس کے معاون کے مقامِ اِتصال سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر ایک اسطوانی شکل کا متناسب منزلوں والا مینار واقع ہے جو مینار جام کہلاتا ہے۔[9] مولانا جامی اپنے سال ولادت 817ھ کے متعلق خود لکھتے ہیں کہ:

بہ سال ہشتصد و ہفدہ زِ ہجرتِ نبوی

کہ زدز مکہ بہ یثرب سُر ادقات جلال

والدین

ترمیم

مولانا جامی کے والد احمد بن محمد دشتی تھی۔ وہ اولاً اصفہان کے قریہ دشت میں رہا کرتے تھے، بعد ازاں جام آ گئے۔ مولانا محمد (مولاناجامی کے جد امجد) کے عقد میں امام محمد بن حسن شیبانی کی اولاد سے ایک صاحبزادی تھیں، جن کے بطن سے مولانا جامی کے والد احمد بن محمد پیدا ہوئے۔[7] آپ کی والدہ کا اسم گرامی معلوم نہیں ہو سکا مگر اِتنا پتہ چلتا ہے کہ 878ھ/1474ء تک وہ بقیدِ حیات تھیں، کیونکہ اُن کی حالت ضعیفی کی بنا پر مولانا جامی تبریز میں قیام نہیں کرسکے تھے اور واپس 878ھ مطابق 1474ء میں ہرات آ گئے تھے۔ غالباً طویل العمری میں اُن کا اِنتقال ہرات میں ہوا۔

تحصیل علم

ترمیم

مولانا جامی کی ابتدائی تعلیم کے متعلق صفی الدین علی نے اپنی تصنیف رشحات عین الحیات میں بہت معلومات تحریر کی ہے، اُن کے مدرسین، اُساتذہ، کسبِ علم کے لیے کیے گئے سفر اور مولانا جامی کے نبوغ و اِستعداد پر تفصیل سے جائزہ لکھا ہے۔ صفی الدین علی کتاب رشحات عین الحیات میں یوں لکھتے ہیں کہ:

جب وہ چھوٹی عمر میں اپنے والد محترم کے ساتھ ہرات آئے تو مدرسہ نظامیہ میں ٹھہرے۔ وہاں علومِ عربی کے ماہر جنید اُصولی کے درس میں داخل ہو گئے، جن کی اِس فن میں شہرت بڑی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ مولانا جامی کو مختصر تلخیص پڑھنے کا شوق ہوا۔ جن جامی اِس درس میں داخل ہوئے تو بعض طلبہ شرح مفتاح اور مطول پڑھ رہے تھے۔ جامی اگرچہ ابھی شرعی حدِ بلوغت کو نہیں پہنچے تھے لیکن خود میں وہ کتب سمجھنے کی اِستعداد پاتے تھے، لہٰذا وہ بھی مطول اور حاشیہ مطول پڑھنے لگے۔ پھر مولانا خواجہ علی سمرقندی کے حلقہ درس میں داخل ہو گئے جو مدققِ روزگار اور حضرت سید شریف جرجانی کے نامود شاگرد تھے اور طریقہ مطالعہ (تدریس) میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ لیکن جامی 40 دن میں ہی اُن سے مستغنی ہو گئے اور مولانا شہاب الدین محمد جاجرمی کے حلقہ درس میں چلے گئے جو اپنے وقت کے بہترین باحث (مناظر) تھے اور اُن کا سلسلہ تلمذ حضرت مولانا سعد الدین تفتازانی تک ملتا تھا۔ جامی فرمایا کرتے تھے:

ہم جو چند روز اُن کے درس میں گئے تو اُن سے دو کارآمد باتیں سنیں، ایک یہ کہ کتاب تلویح پڑھاتے وقت وہ مولانا زادہ خطائی کے اعتراضات کا رَد کرتے۔ پہلے دن جب انھوں نے اُن (یعنی مولانا زادہ خطائی) کا اعتراض دور کرنے کے لیے دو تین مقدمات بیان کیے تو ہم نے انھیں جھٹلا دیا۔ دوسری نشست میں انھوں نے بڑے غوروخوض کے بعد جواب دیا، جو قدرے منطقی تھا۔ دوسری بات فن بیان میں انھیں تلخیص مطول سے قدرے اِختلاف تھا، گو وہ بنیادی طور پر اِس کی کوئی زیادہ تردید نہیں کرتے تھے اور صرف کتاب کی عبارت اور الفاظ پر اَڑے ہوئے تھے، تاہم اُن کی توجیہ میں کچھ وزن تھا۔

مولانا جامی اِس کے بعد سمرقند مین محققۃ روزگار قاضی زادہ روم کے مدرسہ میں چلے گئے، پہلی ہی ملاقات میں جامی کی اُن سے بحث چل نکلی، جو طول پکڑ گئی۔ آخر کار قاضی زادہ روم کو جامی کی بات سے اِتفاق کرنا پڑا۔ مرزا الغ بیگ کے ہاں عہدہ صدارت پر فائز ایک متبحر عالم دین مولانا فتح اللہ تبریزی بیان کرتے ہیں کہ وہ بھی اِس مجلس مباحثہ میں موجود تھے، قاضی زادہ روم نے سمرقند میں اپنے مدرسہ میں مجلس کا اہتمام کیا۔ دنیا کے سبھی اکابر و افاضل وہاں موجود تھے۔ قاضی زادہ روم اِس مجلس میں زیادہ تر صاحبِ اِستعداد اور خوش طبع لوگوں کا ذکر کرتے رہے۔ مولانا عبد الرحمٰن جامی کے بارے میں یوں فرمایا: جب سے سمرقند آباد ہوا ہے، جدتِ طبع اور قوتِ تصرف میں جام کے اِس نوجوان کے پائے کا کوئی شخص دریائے آمویہ عبور کرکے اِدھر نہیں آیا ۔[10][11] (دریائے آمویہ موجودہ آمو دریا کا پرانا نام ہے، یہ وسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے اور دریائے جیحوں بھی کہلاتا ہے)۔

قاضی روم کے شاگرد مولانا ابو یوسف سمرقندی کا بیان ہے کہ جب حضرت مولانا عبد الرحمٰن جامی سمرقند آئے تو اِتفاق سے فنِ ہیئت میں ایک کتاب کی شرح پڑھنے لگے۔ قاضی روم نے اُس کتاب کے حواشی پر سالہا سال سے کچھ تعلیقات لکھ رکھی تھیں، جامی روزانہ ہر نشست میں اُن میں سے ایک دو کی اِصلاح کر دیا کرتے۔ قاضی روم اِس کام پر جامی کے بے حد شکر گزار ہوئے۔ چنانچہ وہ اپنی شرح ملخص چغمینی بھی اُٹھا لائے اور مولانا جامی کو دکھائی۔ جامی نے اُس کتاب میں وہ تصرفات بھی کیے جو قاضی روم کے وہم و گماں میں بھی نہ تھے۔[12]

اِن مذکورہ بالا واقعات میں جن کتب کا تذکرہ آیا ہے وہ یہ ہیں:

  • خطیب دمشق متوفی (739ھ) کی کتاب تلخیص المفتاح کی شرح مختصر تلخیص ہے جسے علامہ سعد الدین تفتازانی نے لکھا ہے۔[13]
  • شرح مفتاح: علامہ سکاکی کی مفتاح العلوم کے تیسرے حصہ پر علامہ سعد الدین تفتازانی نے شرح لکھی ہے۔[14]
  • مطول: تلخیص المفتاح پر علامہ سعد الدین تفتازانی کی شرح ہے، مذکورہ تینوں کتب علمِ معانی و بیان میں ہیں۔
  • تلویح: یہ عبید اللہ بن مسعود متوفی 747ھ کی کتاب تنقیح الاصول پر شرح ہے۔[15]

اساتذہ کرام

ترمیم

اِن مذکورہ بالا واقعات میں جن شخصیات کا ذکر آیا، وہ مولانا جامی کے اُساتذہ کرام ہیں۔ اِن کا مختصراً ذکر یوں ہے:

  • شہاب الدین محمد جاجرمی: یہ مولانا شمس الدین محمد جاجرمی سے الگ ایک شخصیت ہیں۔[16]
  • عثمان بن عبد اللہ خطائی حنفی معروف بہ مولانا زادہ خطائی نظام الدین: علم اُصول وبیان کے عالم تھے، انھوں نے علامہ سعد الدین تفتازانی کی کتب پر حواشی لکھے۔ 901ھ/ 1460ء میں فوت ہوئے۔[17]
  • قاضی زادہ روم صلاح الدین موسیٰ بن احمد: قاضی محمودی کے نواسے تھے اور سلطان مراد عثمانی کے عہد حکومت میں 761ھ تا 792ھ تک بروسہ کے قاضہ بھی رہے۔ 841ھ/ 1437ء سے قبل فوت ہو چکے تھے۔[18][19]
  • مولانا فتح اللہ تبریزی: علوم معقول و منقول میں ماہر تھے۔ مدتوں سلطان سعید کی ملازمت میں رہے۔ درس و تدریس سے بھی رابستہ رہے۔ ماہِ ربیع الثانی 867ھ/ جنوری 1463ء میں فوت ہوئے۔[20]

مولانا علی قوشچی سے تعلقات

ترمیم

مولانا علی قوشچی تیموری سلطان مرزا الغ بیگ کے منظور نظر طالب علم تھے اور اُن کے ہمراہ علم فلکیات کے مشاہدے میں شریک عمل رہا کرتے تھے۔ اپنے زمانہ قیام ہرات میں ایک دن مولانا علی قوشچی ترکوں کی طرح ایک عجیب سا کمر بند لپیٹے، مولانا جامی کی مجلس میں آئے اور شبہے کی آڑ میں فن ہیئت کے چند بے حد مشکل سوالات سامنے رکھے۔ مولانا جامی نے ایسے جوابات دیے کہ مولانا علی قوشچی انگشت بدنداں رہ گئے۔ مولانا جامی نے مولانا علی قوشچی کو ازراہ مذاق فرمایا: مولانا! آپ کی چادر میں اِس سے بہتر کوئی شے نہیں تھی؟۔ اِس کے بعد مولانا علی قوشچی اپنے شاگردوں سے ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اُس دن مجھ پر یہ بات دوبارہ واضح ہو گئی کہ اِس دنیا میں واقعی کسی نفسِ قدسی کا وجود ہے۔[21][22]

نفسِ قدسی: فلسفہ کی اصطلاح میں اُس قوت کو نفسِ قدسی کہتے ہیں جس میں تفکر کی مدد کے بغیر ہی مختصر ترین مدت میں کسی مشکل مسئلہ کو سمجھ لیا جائے۔ شیخ الرئیس بو علی سینا نے اپنی تصنیف الاشارات والتنبہیات میں اِس کی بہترین تشریح کی ہے۔[23]

مولانا علی قوشچی کا اصل نام علاءُ الدین علی ابن محمد قوشچی ہے، 1403ء میں سمرقند میں پیدا ہوئے اور 16 دسمبر 1474ء کو 71 سال کی عمر میں سلطنت عثمانیہ کے دار الخلافہ استنبول میں فوت ہوئے۔ بچپن سے ہی تیموری سلطان مرزا الغ بیگ کی شفقت کے سائے میں تھے۔ علم فلکیات میں اِن کی مشہور تصنیف شرح تجرید خواجہ نصیر الدین طوسی بہت مشہور ہے۔1472ء میں اواخر عمر میں سلطنت عثمانیہ چلے گئے اور وہیں استنبول میں وفات پائی۔ عہد جامی کے مشہور مسلم ماہرین فلکیات میں سے ایک ہیں اور سلطان مرزا الغ بیگ کی تعمیر کردہ رصدگاہ کو جب نذر آتش کیا گیا تو تب مرزا الغ بیگ کی تصانیف کو راتوں رات لے کر وہاں سے بھاگ نکلے اور اِس طرح سلطان مرزا الغ بیگ کی فلکیات پر مبنی تحقیقات و تصانیف محفوظ رہ پائیں۔

مولانا جامی کے روحانی پیشوا

ترمیم

مولانا جامی نے اپنے عہد کی نامور روحانی شخصیات سے اکتسابِ فیض حاصل کیا جن میں قابل ذکر یہ شخصیات ہیں:

حضرت مخدوم سعد الدین کاشغری

ترمیم

اِن سے مولانا جامی نے سمرقند میں ملاقات کی۔ 860ھ/ 1456ء میں سمرقند میں فوت ہوئے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار آپ کے سلسلہ طریقت میں خلیفہ تھے۔[24] مولانا جامی نے اِن کی تاریخ وفات بروز بدھ 7 جمادی الثانی 860ھ/ 12 مئی 1456ء بوقتِ ظہر لکھی ہے۔[25]

خواجہ محمد پارسا

ترمیم

اِن کو بچپن میں مولانا جامی نے دیکھا۔ اِن کی ولادت 756ھ/ 1355ء میں ہوئی اور وفات 66 سال قمری کی عمر میں 822ھ/ 1419ء میں ہوئی۔[26][27][28]

مولانا فخر الدین لورستانی

ترمیم

اِن کو بچپن میں مولانا جامی نے دیکھا۔

خواجہ محمد ب رہان الدین ابو نصر پارسا

ترمیم

مولانا جامی اکثر اِن کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ 865ھ/ 1460ء/1461ء میں فوت ہوئے۔[29][30][31]

حضرت شیخ بہاءُ الدین عمر قدس چغارگی

ترمیم

اِن سے بھی بکثرت ملاقات رہی۔ چغارہ ہرات کے قریب ہری رود دریا کے کنارے واقع ہے۔ وہیں پیدا ہوئے اور اِسی نسبت سے چغارگی کہلائے۔ 857ھ/1453ء میں فوت ہوئے۔ اِن کا سلسلہ طریقت حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی سے ملتا ہے۔ حکومتی حلقوں میں اِن کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار جب تک ہرات میں مقیم رہے، ہفتے میں دو تین بار شیخ سے ملنے جایا کرتے تھے۔[32] ہرات میں مدفون ہوئے۔

خواجہ شمس الدین محمد کوسوئی

ترمیم

یہ حضرت خواجہ سعد الدین کاشغری کے بھی استاد تھے اور مولانا جامی خود اِن کی خدمت میں آیا کرتے تھے۔ بروز منگل 22 جمادی الاول 863ھ/ 27 مارچ 1459ء کو فوت ہوئے۔ ہرات کے ایک قریہ کوسو میں پیدا ہوئے تھے اور کوسوئی کہلائے۔ اِس قریہ کا موجودہ نام کہسان ہے۔[33][34]

مولانا جلال الدین ابو یزید پورانی

ترمیم

مولانا جامی اِن کے قریہ پوران میں جاکر اِن کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، نفحات الانس میں مولانا جامی نے اِن کی خشیتِ الٰہی بیان کی ہے۔ بروز منگل 10 ذوالقعدہ 862ھ/ 19 ستمبر 1458ء کو فوت ہوئے۔ ہرات کے مشرقی سمت میں واقع ایک گاؤں پوران میں پیدا ہوئے تھے، اِسی نسبت سے پورانی کہلائے۔[34][35]

  • مولانا شمس الدین محمد اسد: اِن کے ہاں بھی مولانا جامی کی بہت آمدورفت رہا کرتی تھی۔ مقامِ تصور و تخیلات میں اوجِ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ مولانا جامی کا بیان ہے کہ اُن کی مقام جمع تک رسائی ممکن ہوتی تھی۔ ماہِ رمضان 864ھ/ جون/جولائی1460ء میں فوت ہوئے۔ ہرات کے ایک علاقہ گازرگاہ میں مدفون ہوئے۔[36][37]

حضرت خواجہ عبید اللہ اَحرار

ترمیم

ملا علی بن حسین کاشفی نے رشحات عین الحیات میں مولانا جامی کے مرشد حضرت خواجہ عبید اللہ احرار یعنی حضرت ناصر الدین عبید اللہ المعروف بہ خواجہ احرار کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ مولانا جامی اور اِن کے مابین قلبی و روحانی تعلق قائم تھا اور یہ تعلق مولانا جامی کی نثری اور منظومی تصانیف میں نظر بھی آتا ہے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار سے مولانا جامی کی خط کتابت ملاقات سے قبل بہت تھی لیکن ملاقات غالباً 872ھ/ 1467ء میں بمقام ہرات میں ہوئی جب حضرت خواجہ عبید اللہ احرار ہرات کے تیموری حکمران ابو سعید مرزا کی درخواست پر چوتھی مرتبہ ہرات آئے تھے۔ تب مولانا جامی کی عمر 55 سال ہو چکی تھی اور حضرت خواجہ عبید اللہ احرار تقریباً 66/67 سال کے تھے۔ اِس ملاقات کے بعد حضرت خواجہ عبید اللہ احرار 23 سال تک بقیدِ حیات رہے۔ اِن کا سلسلہ نقشبندیہ سے 19 واسطوں سے ہوتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک جا پہنچتا ہے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کی ولادت ماہِ رمضان 806ھ/مارچ/اپریل 1404ء میں ہوئی اور آپ کی وفات بروز ہفتہ 29 ربیع الاول 895ھ/ 20 فروری 1490ء کو سمرقند، موجودہ ازبکستان میں 89 سال کی عمر میں ہوئی۔[38][39] حالانکہ مولانا جامی اِن کے سال وفات تک عہد ضعیفی کو پہنچ چکے تھے اور کسی تاریخی مستند حوالے سے معلوم نہیں ہوتا کہ مولانا جامی اِن کے جنازہ پر سمرقند حاضر ہوئے ہوں۔

اسفارِ مولانا جامی

ترمیم

نفحات الانس اور دیگر دوسری تواریخی کتب سے مولانا جامی کے سات تفصیلی اسفار کا احوال معلوم ہوتا ہے جن میں مشہور اسفار یہ ہیں:

اکتسابِ علم میں شغف اور حوادثِ زمانہ سے درکناری

ترمیم

مولانا جامی کی علم میں جستجو کے ملکہ، اِنہماک اور تحصیل علم میں شغف کو جو کمال حاصل ہوا، شاید وہ نویں صدی ہجری کے کسی عالم دین یا فقیہ کو حاصل ہوا ہو۔ مولانا جامی کے شاگردِ عزیز ملا عبد الغفور لاری لکھتے ہیں کہ:

"فقیر (عبد الغفور لاری) کو آنحضرت علیہ الرحمۃ والرضوان (مولانا جامی) کے آستانِ رفیع الشان پر پہنچنے سے پہلے تردد تھا کہ جو مرتبہ شعر (گوئی) کی بدولت انھیں حاصل ہے، وہ گہرے تفکر اور دقیق تامل کے بغیر میسر نہیں آ سکتا اور یہ امر مرتبہ کمال کے منافی اور جمعیتِ خاطر کے خلاف ہے۔ لیکن جب میں اُن کی خدمت میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کوئی شغل بلکہ حوادثِ زمانہ میں سے کوئی واقعہ یا حادثہ بھی اُن کے ظاہری و باطنی اَشغال کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا اور وہ اپنی کیفیت میں کسی تبدیلی کے بغیر اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ وہ اپنا بہترین وقت بلا تکلف و زحمتِ درس (روحانی) دینے میں صرف کرتے۔" [40]

ملا عبد الغفور لاری کے اِس بیان سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مولانا جامی کا اوائل زمانہ حیات جو سیاسی خانہ جنگی کے عروج کا زمانہ تھا، اُن کی علمی و روحانی زندگی پر اثرانداز نہیں ہو سکا۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہرات میں قیام کے زمانہ میں وہ کئی شاندار علمی کتب تصنیف فرماتے رہے اور سیاسی ماحول سے درکنار رہے۔ حوادثِ زمانہ کے سبب متاثر ہونے کا کوئی بھی شائبہ اُن کی تصانیف میں نہیں ملتا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاسی خانہ جنگی کے دور میں پر امن زندگی گزار رہے تھے۔

شاہان سلطنت تیموریہ اور مولانا جامی

ترمیم

مولانا جامی کا عرصہ حیات نویں صدی ہجری (یعنی 817ھ/ 1414ء تا 898ھ/ 1492ء) ہے۔ نویں صدی ہجری کے اواخر سالوں میں مولانا جامی ہرات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اِس تمام عرصہ میں سرزمین فارس دو حصوں میں منقسم تھی اور اِس پر دو مختلف شاہی خاندان برسر اِقتدار تھے۔ فارس کے مشرق میں تیموری سلطنت قائم تھی جس کی بنیاد امیر تیمور نے 736ھ/ 1370ء میں رکھی اور یہ 912ھ/ 1507ء میں اختتام کو پہنچی۔ امیر تیمور مولانا جامی کی ولادت سے 9 سال قبل سمرقند میں فوت ہو چکا تھا۔ امیر تیمور کی وفات کے بعد خلیل مرزا تخت نشیں ہوا اور وہ بھی 1409ء تک تخت پر رہ سکا۔ 1409ء میں سلطان مرزا شاہ رخ تیموری تخت نشیں ہوا۔ مولانا جامی سلطان مرزا شاہ رخ تیموری کے عہد حکومت میں پیدا ہوئے۔ مولانا جامی نے اولاً سلاطین تیموریہ میں سے سلطان مرزا شاہ رخ تیموری (عہد حکومت:1409ء تا 13 مارچ 1447ء )کا عہد دیکھا۔

سلطان حسین مرزا بایقرا کے عہد حکومت کے 23 ویں سال مولانا جامی کا ہرات میں اِنتقال ہوا۔

شاہانِ آق قویونلو کے ہم عصر

ترمیم

مولانا جامی سلطنت آق قویونلو کے حکمرانوں کے بھی معاصر تھے۔ جنوب مغربی ایران میں پہلے قرہ قویونلو ترکمانوں کی حکمرانی قائم ہوئی، بعد ازاں آق قویونلو ترکمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ دونوں خاندان ہائے سلطنتوں کا مرکز حکومت تبریز ہی تھا۔ 1378ء میں جنوبی ایران میں سلطنت آق قویونلو قائم ہو گئی تھی، جب مولانا جامی کی ولادت ہوئی تو خاندان آق قویونلو کا بادشاہ قرہ یولک عثمان برسر اِقتدار تھا۔

جب مولانا جامی کا اِنتقال ہوا تب سلطنت آق قویونلو کا بادشاہ رستم بن مقصود بن اوزون حسن برسر اِقتدار تھا۔ اِس حساب سے مولانا جامی نے 10 شاہانِ آق قویونلو کا عہد حکومت دیکھا۔

حیات جامی اور سیاسی حالات

ترمیم

مولانا جامی کا عرصہ حیات نویں صدی ہجری کا ہے اور یہ صدی مسلم دنیا میں تبدیلی تو تغیرات کی صدی رہی ہے۔ ماوراء النہر، عراق اور ایران جیسے خطوں پر اِس صدی میں کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اور کئی صفحہ ہستی سے مٹتی گئیں۔ نویں صدی ہجری مسلم تاریخ کے نشیب و فراز کی صدی ہے جس کا اوائل حصہ پہلے پہل تو امن و سکون سے گذرا لیکن بعد میں کچھ مدت بہت کشمکش اور پر آشور گذری۔ ایک بادشاہ کے زیر اثر سلطنت کے کئی سال آرام و سکون سے گذر جاتے، جونہی بادشاہ کی آنکھ بند ہوتی، معاصر ممالک کے سلاطین اور شاہی خاندان کے شہزادوں کے درمیان کارزار بن جاتا۔ تیموری سلطان مرزا شاہ رخ تیموری کی وفات کے بعد سلطان مرزا ابوالقاسم بابر اور اُس کے بعد مرزا ابوسعید مرزا کے واقعات تخت نشینی کی تفصیلات تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہیں کہ کیسے اِس دور میں ایران حرب و ضرب، اِقتدار کی رسہ کشی اور قتل وغارت کا میدان بن چکا تھا۔ مولانا جامی نے یہ تینوں اَدوار دیکھے تھے، مگر نویں صدی ہجری کے سیاسی حالات کی باگ دوڑ خوش قسمتی سے 873ھ/ 1469ء میں ہرات کے تیموری سلطان حسین مرزا بایقرا کے ہاتھوں میں آگئی اور یوں 25 سالہ دور (یعنی 873ھ تا 898ھ مطابق 1469ء تا 1492ء تک) میں ماوراء النہر اور خراسان میں امن و اَمان برقرا رہا۔ اِنہی 25 سالوں میں مولانا جامی نے اپنی شاہکار تصانیف تحریر فرمائیں۔ بقیہ جنوب مغربی ایران میں سلطنت آق قویونلو کے شاہان اوزون حسن بن علی کا عہد حکومت 861ھ/ 1457ء تا 883ھ/ 1478ء اور یعقوب بن اوزون حسن کا عہد حکومت 883ھ/ 1478ء تا 895ھ پر اَمن تھا۔ اِن دونوں اَدوارِ حکومت میں ایران کے علاقوں، عراق عجم، آذربائیجان، فارس اور بین النہرین میں مکمل امن و سکون قائم رہا۔ گویا اِن ادوارِ حکومت سے معلوم ہوتا ہے کہ 873ھ/ 1469ء سے 898ھ/ 1492ء تک کا دور جو مولانا جامی کے اواخر حیات کے سال ہیں، میں مسلم دنیا میں امن و سکون قائم رہا اور مولانا جامی کو ایک بہترین سیاسی ماحول میسر رہا۔

وفات

ترمیم

مولانا جامی کی وفات بروز جمعہ 18 محرم الحرام 898ھ مطابق 14 نومبر 1492ء کو ہرات میں میں بوقت اذانِ جمعہ ہوئی۔ ہرات اب افغانستان کے صوبہ ہرات کا دار الحکومت ہے۔[7][41] مدت حیات قمری سال کے اعتبار سے 80 سال 4 ماہ 25 یوم اور شمسی سال کے اعتبار سے 78 سال 3 یوم تھی۔ آپ کی مدت حیات کا مادہ لفظ کاس سے نکلتا ہے جس کا معنی عربی میں جام ہی ہوتا ہے، کاس کے ابجد میں اعداد 81 ہیں۔

تصانیف

ترمیم

ادب (بحر نثر) میں مولانا جامی کی مستقل تصانیف جو شائع ہو چکی ہیں:

  • بہارستان یا روضۃ الاخیار: یہ تصنیف فارسی زبان میں نثر اور نظم یکجائی بحر میں ہے جو گلستان سعدی کے طرز پر لکھی گئی ہے۔ اولاً محمد رضا ایرنیاز بیگ اوغلی آگہی (پیدائش: 1809ء- وفات: 1874ء) نے ازبک زبان میں اِس کا ترجمہ کیا۔ موجودہ نئی طرز میں یہ بہارستان و رسائل جامی کے عنوان سے تہران سے 2000ء میں شائع ہوئی۔
  • شرح دیباچہ مرقع : فارسی زبان میں بحر نثر میں ہے۔ نظام الدین میر علی شیر نوائی (پیدائش: 844ھ- وفات: 906ھ) کے دیباچہ مرقع کی شرح ہے۔ اِس کا ایک قلمی مخطوطہ 1079ھ کا کتب خانہ سوویت یونین موجودہ رشین اکیڈمی آف سائنسز لینن گراڈ، روس میں موجود ہے۔
  • منشآت جامی: فارسی زبان میں بحر نثر میں ہے۔ برصغیر میں یہ مجموعہ مکاتیب انشائے جامی اور رقعات جامی کے نام سے کئی بار شائع ہوا ہے۔ کلکتہ سے پہلی بار 1226ھ میں فارسی زبان میں شائع ہوا۔ بمبئی کے طبع خانہ فضل الدین کہمکر نے 1261ھ میں اِسے شائع کیا۔ کانپور سے مطبع احمدی نے 1308ھ میں شائع کیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Jami
  2. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119040224 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 جولا‎ئی 2024 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. abART person ID: https://cs.isabart.org/person/122084 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  4. ربط: https://d-nb.info/gnd/119077884 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 جون 2015 — اجازت نامہ: CC0
  5. عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
  6. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119040224 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  7. ^ ا ب پ علی اصغر حکمت: جامی، اردو ترجمہ عارف نوشاہی، صفحہ 124۔
  8. دائرہ المعارف الاسلامیۃ: جلد 7 صفحہ 58، مطبوعہ لاہور، 1964ء۔
  9. دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 7 صفحہ 46، مطبوعہ لاہور، 1964ء۔
  10. علی اصغر حکمت: جامی، اردو ترجمہ عارف نوشاہی، صفحہ 127 تا 129۔ مختصرا تلخیص۔
  11. ملا صفی الدین علی کاشفی: رشحات عین الحیات، جلد 1 صفحہ 235 تا 238۔
  12. علی اصغر حکمت: جامی، اردو ترجمہ عارف نوشاہی، صفحہ 129۔
  13. حاجی خلیفہ چلبی: کشف الظنون، جلد 1 صفحہ 744۔
  14. اختر راہی: تذکرہ مصنفین درسِ نظامی، صفحہ 104۔
  15. حاجی خلیفہ چلبی: کشف الظنون، جلد 1 صفحہ 496۔
  16. بشیر ہردی: تعلیقات بر تکملہ حواشی نفحات الانس، صفحہ 54
  17. عمر رضا کحالہ: معجم المولفین، جلد 5 صفحہ 258۔
  18. بشیر ہردی: تعلیقات تکملہ بر حواشی نفحات الانس، صفحہ 55۔
  19. عمر رضا کحالہ: معجم المولفین، جلد 11 صفحہ 319۔ جلد 13 صفحہ 47۔
  20. خواند میر: حبیب السیر، جلد 4 صفحہ 102۔
  21. علی اصغر حکمت: جامی، اُردو ترجمہ عارف نوشاہی، صفحہ 129۔
  22. بشیر ہردی: تعلیقات بر تکملہ حواشی نفحات الانس، صفحہ 49 تا 51۔
  23. بشیر ہردی: تعلیقات بر تکملہ حواشی نفحات الانس، صفحہ 51۔
  24. ملا علی کاشفی: رشحات عین الحیات، جلد 1 صفحہ 205 تا 232۔
  25. مولانا جامی: نفحات الانس، صفحہ 434، مطبوعہ لاہور، دسمبر 2002ء۔
  26. ملا علی کاشفی: رشحات عین الحیات، جلد 1 صفحہ 101 تا 104۔
  27. احمد طاہری عراق: مقدمہ بر قدسیہ، مطبوعہ تہران، 1957ء۔
  28. ملک محمد اقبال: مقدمہ بر رسالہ قدسیہ، مطبوعہ راولپنڈی، 1975ء۔
  29. مولانا جامی: نفحات الانس، صفحہ 401۔
  30. ملا علی کاشفی: رشحات عین الحیات، جلد 1 صفحہ 111 تا 113۔
  31. دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی: جلد 6 صفحہ 317 تا 318۔ مطبوعہ تہران، ایران، 1994ء۔
  32. مولانا جامی: نفحات الانس، صفحہ 456 تا 458۔
  33. مولانا جامی: نفحات الانس، صفحہ 497 تا 498۔
  34. ^ ا ب خواجہ میر خواند: حبیب السیر، جلد 4 صفحہ 60۔
  35. مولانا جامی: نفحات الانس، صفحہ 502 تا 503۔
  36. مولانا جامی: نفحات الانس، صفحہ 458 تا 459۔
  37. خواجہ میر خواند: حبیب السیر، جلد 4 صفحہ 61۔
  38. ملا علی کاشفی: رشحات عین الحیات، جلد 2 صفحہ 365 تا 666۔
  39. عارف نوشاہی: خواجہ احرار، مطبوعہ پورب اکادمی اسلام آباد، 2010ء۔
  40. ملا عبد الغفور لاری: تکملہ حواشی نفحات الانس، صفحہ 9۔
  41. دائرہ المعارف الاسلامیہ: جلد 7 صفحہ 58، مطبوعہ لاہور، 1964ء۔