وہابی جہادی آئیڈیالوجی

وہابی جہادی آئیڈیالوجی ایک اسلامی نظریہ ہے جو 18ویں صدی کے دوران عبدالوہاب نجدی (1703-1792) کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ اس آئیڈیالوجی نے اسلامی فقہ کی روایتی تشریحات کو مسترد کر کے ایک سخت گیر تشریح کو فروغ دیا، جسے "وہابیت" کہا جاتا ہے۔ وہابیت کا مقصد اسلام کی بنیادی تعلیمات کی "اصلاح" کرنا اور قتال فی سبیل اللہ کو ایک ذاتی اور غیر ریاستی عمل کے طور پر جائز قرار دینا تھا۔ اس نظریے نے غیر ریاستی جہادی تنظیموں کی فکری بنیاد رکھی، جنہوں نے بعد میں عالمی سطح پر دہشت گردی، فرقہ واریت، اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا۔[1]

پرائیویٹ جہاد
عمومی معلومات
بانیمحمد بن عبدالوہاب
آغاز18ویں صدی، نجد، (موجودہ سعودی عرب)
نوعیتغیر ریاستی مسلح جدوجہد
متاثرہ نظریات
وہابی جہادی آئیڈیالوجی، سلفی جہادی آئیڈیالوجی، قطبیت، عزامیت، زرقاویت، داعشیت، بوکو حرامیت، الشبابیت، طالبانیت، دیوبندی-وہابی جہادی آئیڈیالوجی
متاثرہ تنظیمیں
القاعدہ · داعش · بوکو حرام · الشباب · جیش محمد · لشکر طیبہ · حرکت المجاہدین · انصار الشریعہ · جماعت المجاہدین بنگلہ دیش · انصار الاسلام · ابو سیاف · حقانی نیٹ ورک · تحریک طالبان پاکستان · حرکة الشباب المجاہدین · جمہوریہ وسطی افریقہ میں سیلیکا · انصار دین · انصار الاسلام (مصر) · الحزب الاسلامی (صومالیہ) · حماس · الجماعة الاسلامیہ (انڈونیشیا) · فتح الاسلام · اسلامی تحریک ازبکستان · سپاہ صحابہ پاکستان · لشکر جھنگوی · خراسان گروپ · انصار المجاہدین · حرکة المجاہدین العالمیہ · جماعت انصار اللہ · تحریک طالبان افغانستان · جیش العدل · لشکر اسلام · لشکر جھنگوی العالمی
اثرات
 افغانستان ·  پاکستان ·  صومالیہ ·  نائجیریا ·  عراق ·  سوریہ ·  یمن ·  فلسطین ·  فلپائن ·  مالی ·  نائجر ·  لیبیا ·  مصر ·  الجزائر ·  انڈونیشیا ·  تاجکستان ·  ازبکستان ·  بنگلادیش · کشمیر ·  روس ·  چین ·  یورپ ·  ریاستہائے متحدہ ·  سعودی عرب ·  ترکیہ ·  سوڈان ·  لبنان ·  تھائی لینڈ ·  کینیا ·  یوگنڈا · چچنیا ·  ترکمانستان ·  میانمار ·  بھارت ·  مالدیپ · بوسنیا ·  قطر ·  بحرین
مقاصد
خلافت یا اسلامی ریاست کا قیام، غیر ریاستی مسلح جدوجہد، عالمی خلافت کا نفاذ، فرقہ وارانہ تصادم
تنقید
اسلامی فقہ کی روایات سے انحراف، ریاستی اختیارات کی خلاف ورزی، غیر ریاستی تشدد اور دہشت گردی، غیر منظم تشدد

وہابیت اور پرائیویٹ جہاد کی بنیاد

ترمیم

عبدالوہاب نجدی (1703-1792) ایک اسلامی عالم اور مصلح تھے، جنہوں نے جزیرہ نما عرب کے علاقے نجد میں ایک نئی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ ان کی تعلیمات کا بنیادی مقصد اسلام کی روایتی تعلیمات کو رد کر کے ایک نئی تشریح پیش کرنا تھا، جسے بعد میں "وہابیت" کہا گیا۔[2]

اصلاحی تحریک اور فقہ سے انحراف

ترمیم

عبدالوہاب نجدی کی اصلاحی تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے اسلامی تعلیمات میں موجود بعض عناصر کو "بدعت" قرار دیا اور اسلامی فقہ کی روایات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہابیت کی تحریک کا اہم مقصد اسلامی عقائد اور اعمال کو "خالص" بنانا تھا، جس میں سلف صالحین (پہلے تین صدیوں کے مسلمان) کی تعلیمات کو معیار بنایا گیا۔ عبدالوہاب نجدی نے اسلامی فقہ کی تشریح کو سختی سے رد کیا، اور اس کی جگہ قرآن و سنت کی اپنی مخصوص تشریح کو فروغ دیا۔[3]

ان کی اصلاحی تحریک میں بعض ایسے نکات شامل تھے، جن کا مقصد اسلامی فقہ کے تمام مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کو مسترد کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ فقہ کی تعلیمات اسلامی تعلیمات کو "محدود" اور "بدعتی" بناتی ہیں، جس کے باعث انہوں نے فقہ کے روایتی اصولوں کو ترک کر دیا اور ایک نئی تشریح کی بنیاد رکھی۔[4]

قتال کا ذاتی اور غیر ریاستی عمل

ترمیم

عبدالوہاب نجدی کی تعلیمات نے قتال فی سبیل اللہ کو ایک ذاتی اور غیر ریاستی عمل کے طور پر جائز قرار دیا، جو اسلامی فقہ کی روایات کے برعکس تھا۔ روایتی اسلامی فقہ میں قتال کا اعلان صرف ایک مستند اسلامی ریاست یا حکمران کی طرف سے کیا جا سکتا ہے، اور اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ اور معصوم لوگوں کی حفاظت ہوتا ہے۔[5]

عبدالوہاب نجدی نے اس نظریے کو چیلنج کرتے ہوئے ایک نئی تشریح پیش کی، جس میں غیر ریاستی افراد اور گروہوں کو بھی جہاد کے نام پر مسلح جدوجہد کی اجازت دی گئی۔ یہ وہابی تعلیمات کے اہم عناصر میں سے ایک تھی، جس نے اسلامی دنیا میں جہادی تنظیموں کو فکری بنیاد فراہم کی۔ اس تشریح کے نتیجے میں، وہابی پیروکاروں نے غیر ریاستی گروہوں کی شکل میں مسلح کارروائیاں شروع کیں، جو "پرائیویٹ جہاد" کے زمرے میں آتی ہیں۔[6]

ایک نظریاتی تصادم

ترمیم

وہابیت کی تعلیمات کی وجہ سے خلافت عثمانیہ اور روایتی اسلامی ریاستوں کے ساتھ ایک نظریاتی تصادم پیدا ہوا۔ خلافت، جو اسلامی فقہ پر مبنی تھی، میں قتال فی سبیل اللہ کو ریاستی عمل کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جب کہ عبدالوہاب نجدی کی تعلیمات نے اس تصور کو چیلنج کیا اور خلافت کے اقتدار کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئی اسلامی تشریح کی وکالت کی۔ اس کی وجہ سے اسلامی دنیا میں فرقہ واریت اور تقسیم کا عمل شروع ہوا، جس نے بعد میں آنے والی غیر ریاستی جہادی تنظیموں کے لیے راستہ ہموار کیا۔[7]

وہابیت اور موجودہ غیر ریاستی جہادی تنظیمیں

ترمیم

عبدالوہاب نجدی کی تعلیمات پر مبنی وہابی آئیڈیالوجی آج بھی القاعدہ، داعش، الشباب، اور دیگر غیر ریاستی جہادی تنظیموں کی فکری بنیاد ہے۔ ان تنظیموں نے وہابیت کی سخت گیر تشریح کو اپنے نظریاتی اور مسلح مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس نے عالمی سطح پر دہشت گردی، فرقہ واریت، اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا۔[8]

وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی تعلیمات نے نہ صرف اسلامی تعلیمات کو ایک نئی اور سخت گیر تشریح دی بلکہ اسلامی فقہ کی روایات کو بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے اسلامی دنیا میں ایک فکری تقسیم پیدا ہوئی اور غیر ریاستی جہادی تحریکوں نے "پرائیویٹ جہاد" کا جواز حاصل کیا۔[9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Boko Haram's Islamist Ideology"۔ BBC News۔ June 17, 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  2. "Boko Haram's Islamist Ideology"۔ BBC News۔ June 17, 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  3. "Understanding Al-Shabaab"۔ Council on Foreign Relations۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  4. Thomas Barfield (2010)۔ Afghanistan: A Cultural and Political History۔ Princeton University Press۔ ISBN 9781400832187 
  5. Olivier Roy (2004)۔ Globalized Islam: The Search for a New Ummah۔ Columbia University Press۔ ISBN 9780231134996 
  6. "Wahhabism and Its Influence on Global Terrorism"۔ BBC News۔ October 17, 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  7. Gilles Kepel (2002)۔ Jihad: The Trail of Political Islam۔ I.B. Tauris۔ صفحہ: 102–106۔ ISBN 9781845112570 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  8. "The Origins of ISIS: Understanding the Wahhabi Connection"۔ The Guardian۔ November 22, 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  9. Thomas Hegghammer (2010)۔ Jihad in Saudi Arabia: Violence and Pan-Islamism since 1979۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 78–82۔ ISBN 9780521764778 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت)