پرائیویٹ جہاد وہ غیر ریاستی مسلح جدوجہد ہے، جسے کچھ گروہوں نے 18ویں صدی کے بعد اپنے مخصوص نظریات اور مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پرائیویٹ جہاد کو اسلامی فقہ کی روایات اور اصولوں کے خلاف تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ کسی مستند ریاست یا حکمران کی اجازت کے بغیر ہوتا ہے۔ ایسی غیر ریاستی جدوجہد کا مقصد عموماً سیاسی یا نظریاتی ہوتا ہے، اور یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے انحراف کرتی ہے۔

پرائیویٹ جہاد
عمومی معلومات
بانیمحمد بن عبدالوہاب
آغاز18ویں صدی، نجد، (موجودہ سعودی عرب)
نوعیتغیر ریاستی مسلح جدوجہد
متاثرہ نظریات
وہابی جہادی آئیڈیالوجی، سلفی جہادی آئیڈیالوجی، قطبیت، عزامیت، زرقاویت، داعشیت، بوکو حرامیت، الشبابیت، طالبانیت، دیوبندی-وہابی جہادی آئیڈیالوجی
متاثرہ تنظیمیں
القاعدہ · داعش · بوکو حرام · الشباب · جیش محمد · لشکر طیبہ · حرکت المجاہدین · انصار الشریعہ · جماعت المجاہدین بنگلہ دیش · انصار الاسلام · ابو سیاف · حقانی نیٹ ورک · تحریک طالبان پاکستان · حرکة الشباب المجاہدین · جمہوریہ وسطی افریقہ میں سیلیکا · انصار دین · انصار الاسلام (مصر) · الحزب الاسلامی (صومالیہ) · حماس · الجماعة الاسلامیہ (انڈونیشیا) · فتح الاسلام · اسلامی تحریک ازبکستان · سپاہ صحابہ پاکستان · لشکر جھنگوی · خراسان گروپ · انصار المجاہدین · حرکة المجاہدین العالمیہ · جماعت انصار اللہ · تحریک طالبان افغانستان · جیش العدل · لشکر اسلام · لشکر جھنگوی العالمی
اثرات
 افغانستان ·  پاکستان ·  صومالیہ ·  نائجیریا ·  عراق ·  سوریہ ·  یمن ·  فلسطین ·  فلپائن ·  مالی ·  نائجر ·  لیبیا ·  مصر ·  الجزائر ·  انڈونیشیا ·  تاجکستان ·  ازبکستان ·  بنگلادیش · کشمیر ·  روس ·  چین ·  یورپ ·  ریاستہائے متحدہ ·  سعودی عرب ·  ترکیہ ·  سوڈان ·  لبنان ·  تھائی لینڈ ·  کینیا ·  یوگنڈا · چچنیا ·  ترکمانستان ·  میانمار ·  بھارت ·  مالدیپ · بوسنیا ·  قطر ·  بحرین
مقاصد
خلافت یا اسلامی ریاست کا قیام، غیر ریاستی مسلح جدوجہد، عالمی خلافت کا نفاذ، فرقہ وارانہ تصادم
تنقید
اسلامی فقہ کی روایات سے انحراف، ریاستی اختیارات کی خلاف ورزی، غیر ریاستی تشدد اور دہشت گردی، غیر منظم تشدد

جہاد ایک اسلامی اصطلاح ہے، جس کا مطلب دین اسلام کے اجتماعی اصولوں کے تحت جدوجہد کرنا ہے۔ اس میں روحانی، معاشرتی، علمی، اور مالی جدوجہد شامل ہو سکتی ہے، اور اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ، عدل و انصاف کا قیام، اور اسلامی اخلاقیات کی ترویج ہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق، قتال فی سبیل اللہ جو کہ جہاد کی ایک مسلح اور انتہائی شکل ہے، صرف اور صرف ایک مستند اسلامی ریاست یا حکمران کے زیرِ سرپرستی جائز ہے۔ اسلامی تاریخ میں، قتال ہمیشہ ریاست کی اجازت اور نگرانی میں ہوتا تھا، تاکہ جنگ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو اور معصوم لوگوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔

نظریاتی پس منظر

ترمیم

پرائیویٹ جہاد ایک مخصوص آئیڈیالوجی پر مبنی ہے، جس کی جڑیں 18ویں صدی کی وہابی تحریک میں پائی جاتی ہیں۔ اس تحریک کا آغاز محمد بن عبدالوہاب (1703-1792) کی تعلیمات سے ہوا، جو نجد، عرب میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اسلام کی ایک سخت گیر اور مخصوص تشریح پیش کی۔ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی تحریک نے ایک نئے نظریاتی نظام کو جنم دیا، جس میں اسلام کی تعلیمات کو سختی سے نافذ کرنے کی تشریح کی گئی۔[1]

وہابی آئیڈیالوجی کے تحت، جہاد کو ایک ذاتی اور غیر ریاستی عمل کے طور پر پیش کیا گیا، جو اسلامی فقہ کی روایتی روایات سے انحراف کرتا ہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق، قتال فی سبیل اللہ، یعنی مسلح جدوجہد، ہمیشہ ایک مستند ریاست کی اتھارٹی کے تحت ہوتی ہے اور اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔[2]

محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات پر مبنی سخت گیر آئیڈیالوجی بعد میں کئی غیر ریاستی جہادی تنظیموں کی فکری بنیاد بنی، جیسے کہ القاعدہ, داعش, اور الشباب۔ ان تنظیموں نے جہاد کی تشریح کو اپنے مخصوص نظریاتی مقاصد کے مطابق ڈھال لیا اور دنیا بھر میں غیر ریاستی مسلح جدوجہد کو فروغ دیا۔[3]

یہ غیر ریاستی جہادی تنظیمیں وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی اس تشریح پر عمل پیرا ہیں، جس میں قتال کو ایک انفرادی اور غیر ریاستی عمل کے طور پر جائز سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی فقہاء کی اکثریت نے اس تشریح کو مسترد کیا ہے، کیونکہ یہ اسلامی قانون کے اصولوں کے خلاف ہے۔[4]

پرائیویٹ جہاد کی اس تشریح کو قبول کرنے والی تنظیمیں اکثر سخت گیر نظریات اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کرتی ہیں، جو اسلامی اصولوں اور فقہ کی روایات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس طرح کی تنظیموں کی کارروائیاں نہ صرف اسلامی تعلیمات کی صحیح ترجمانی سے انحراف کرتی ہیں بلکہ یہ تشدد، فرقہ واریت، اور بین الاقوامی سطح پر امن کے خلاف بھی ہوتی ہیں۔[5]

پرائیویٹ جہاد کے عالمی بنیادی نظریات

ترمیم

پرائیویٹ جہاد کی عالمی سطح پر مختلف فکری بنیادیں ہیں، جنہوں نے غیر ریاستی جہاد کے تصور کو پروان چڑھایا۔ یہ نظریات اپنی مخصوص تشریحات اور حکمت عملیوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔

وہابی جہادی آئیڈیالوجی (Wahhabi Jihadism)

ترمیم

یہ آئیڈیالوجی 18ویں صدی میں محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات پر مبنی ہے، جنہوں نے جزیرہ نما عرب میں اسلامی اصلاح کی تحریک شروع کی۔ اس وہابی جہادی آئیڈیالوجی میں اسلامی تعلیمات کی ایک سخت گیر اور خالص شکل کو فروغ دیا گیا، جس میں اسلامی فقہ کی روایتی تشریحات کو مسترد کر دیا گیا۔ وہابیت میں غیر ریاستی جہاد کو ایک ذاتی فریضہ کے طور پر پیش کیا گیا، جس نے بعد میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی فکری بنیاد رکھی۔ وہابیت کا مقصد اسلامی خلافت کے قیام کی وکالت کرنا اور اس کے ماننے والوں کو ایک عالمی اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر غیر ریاستی جدوجہد کے لیے تیار کرنا ہے۔[6]

سلفی جہادی آئیڈیالوجی (Salafi Jihadi Ideology)

ترمیم

سلفی جہادی آئیڈیالوجی ایک سخت گیر اسلامی نظریہ ہے، جو سلفیت کی بنیادی تعلیمات کو مسلح جدوجہد کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ نظریہ دراصل وہابیت سے ماخوذ ہے، جسے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تعلیمات کی جہادی تشریح کہا جاتا ہے۔ سلفیت کو اسلام کے اہل سنت عقیدے کی ایک مخصوص شکل سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا بنیادی فرق فقہ کو ماننے یا نہ ماننے کی بنیاد پر ہے۔ جہاں اہل سنت کی روایت فقہ کو اسلامی قانون کی تعبیر کا لازمی حصہ مانتی ہے، وہیں وہابیت اور سلفیت کا یہ ماننا ہے کہ فقہ پر انحصار اسلام کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے۔ سلفی جہادی آئیڈیالوجی کے مطابق، اسلامی خلافت کا قیام اور شریعت کا مکمل نفاذ مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے، اور اس کے لیے "پرائیویٹ جہاد" (غیر ریاستی مسلح جدوجہد) کو جائز تصور کیا جاتا ہے۔[7] اس نظریے کے پیروکار دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سلف الصالحین (یعنی ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان، جنہیں "خیرالقرون" کہا جاتا ہے) کے راستے پر چلتے ہیں۔ لیکن سنی فقہی روایت میں، سلفی جہادی آئیڈیالوجی کو ایک انتہا پسندانہ شکل سمجھا جاتا ہے، جس کا بنیادی فرق فقہی اصولوں سے انحراف ہے۔ اس آئیڈیالوجی نے نہ صرف القاعدہ اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کو جنم دیا، بلکہ عالمی سطح پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا، جن میں دہشت گرد حملے، خودکش حملے، اور غیر ریاستی عسکریت پسندی شامل ہے۔[8] سلفی جہادی آئیڈیالوجی کا یہ تصور جدید دور میں پروان چڑھا، جب فقہ کا انکار کیا گیا اور "پرائیویٹ جہاد" کو جائز سمجھا جانے لگا۔ تاریخی طور پر، جب تک فقہ اسلامی قانون کی بنیاد رہی، تب تک پرائیویٹ جہاد کو کبھی بھی جائز قرار نہیں دیا گیا تھا۔ سلفی جہادی آئیڈیالوجی کی جدیدیت اور اس کی فقہی اصولوں سے دوری یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ اصل اسلام کی نمائندگی نہیں کرتی، بلکہ پچھلی دو سے تین صدیوں میں ایک نئی شدت پسندانہ سوچ کے طور پر ابھری ہے، جس کا مقصد اسلامی شریعت کا سخت گیر نفاذ اور مسلح جدوجہد کے ذریعے خلافت کا قیام ہے۔[9]

قطبیت (Qutbism)

ترمیم

قطبیت 20ویں صدی کے مصری مفکر سید قطب کی تعلیمات پر مبنی ایک انقلابی جہادی نظریہ ہے۔ قطبیت نے مسلم معاشروں کو "جہالت" کے دور میں قرار دیا، جہاں اسلامی اصولوں کی پیروی نہیں کی جا رہی تھی۔ سید قطب نے ان معاشروں کے خلاف مسلح جدوجہد کو اسلامی طور پر جائز قرار دیا، اور اس کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ قطبیت نے اسلامی انقلاب، شریعت کے نفاذ اور اسلامی حکومت پر زور دیا، اور اس کے نتیجے میں یہ نظریہ اخوان المسلمون جیسی تحریکوں کی فکری بنیاد بنا۔[10]

عزامیت (Azzamism)

ترمیم

عزامیت دراصل فلسطینی نژاد عالم عبد اللہ عزام کی تعلیمات اور افکار پر مبنی ایک غیر ریاستی جہادی نظریہ ہے، جو 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد کے دوران فروغ پایا۔ یہ نظریہ براہ راست پرائیویٹ جہاد اور وہابی جہادی آئیڈیالوجی سے منسلک ہے، کیوں کہ عزامیت اصل اسلامی فقہی جہاد کے برخلاف ایک پرائیویٹ یا غیر ریاستی مسلح جدوجہد کو فروغ دیتی ہے۔ عزام نے پرائیویٹ جہاد کے دائرہ کار کو وسعت دینے اور ا س کو عالمی سطح پر پھیلانے کی تحریک کی بنیاد ڈالی جس کو انہوں نے "عالمی جہاد" کا نام دیا۔ جس میں غیر مسلم طاقتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو ہر مسلمان پر ایک انفرادی فرض قرار دیا گیا۔ عزامیت کے پیروکار اس نظریے کو ایک "فرض عین" سمجھتے ہیں، جس کے لیے ریاستی جواز کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس نظریے کے تحت ہر مسلمان کو انفرادی طور پر، ریاستی منظوری کے بغیر، جہاد میں حصہ لینا چاہیے، تاکہ مسلم علاقوں کی آزادی، اسلامی خلافت کا قیام، اور مسلم امت کے اتحاد کو ممکن بنایا جا سکے۔ عزامیت کی بنیاد وہابی جہادی آئیڈیالوجی پر ہے، جو کہ غیر ریاستی یا پرائیویٹ جہاد کو جائز قرار دیتی ہے اور اسے اسلامی تعلیمات کی سخت گیر تشریح کے طور پر پیش کرتی ہے۔ وہابی جہادی آئیڈیالوجی کی طرح، عزامیت بھی جہاد کو صرف دفاعی جنگ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ اسے ایک عالمگیر نظریاتی عمل قرار دیتی ہے، جس میں غیر مسلم طاقتوں اور مسلم حکمرانوں، دونوں کو دشمن سمجھا جاتا ہے۔ القاعدہ اور دیگر عالمی جہادی تنظیمیں عزامیت سے متاثر ہوئیں اور اس کے اصولوں کو اپنی مسلح حکمت عملی کا حصہ بنایا، جس نے دنیا بھر میں غیر ریاستی جہادی تحریکوں کو فروغ دیا۔ اس کے نتیجے میں، عزامیت نے نہ صرف اسلامی فقہ کے روایتی اصولوں کی نفی کی، بلکہ پرائیویٹ جہاد کو عالمی سطح پر پھیلانے میں بھی کردار ادا کیا، جس سے مسلم دنیا میں شدت پسندی، عدم استحکام، اور دہشت گردی کو بڑھاوا ملا۔[11]

زرقاویت (Zarqawism)

ترمیم

زرقاویت دراصل ابو مصعب الزرقاوی کی تعلیمات اور افکار پر مبنی ایک شدت پسند نظریہ ہے، جس کا براہ راست تعلق وہابی جہادی آئیڈیالوجی اور پرائیویٹ جہاد سے ہے۔ [12]زرقاوی نے عراق میں القاعدہ کی بنیاد رکھی اور ایک سخت گیر، غیر ریاستی مسلح جدوجہد کی تشہیر کی، جس میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ مخالف کارروائیوں کو جائز سمجھا گیا۔[13] زرقاویت، وہابی جہادی آئیڈیالوجی کے اصولوں کے تحت، ایک انتہائی متشدد اور پرائیویٹ جہاد کو فروغ دیتی ہے، جس کا مقصد خلافت کا قیام اور مسلم دنیا میں ایک مخصوص قسم کی اسلامیت کا نفاذ ہے۔ [14]یہ نظریہ، اسلامی فقہ کے روایتی اصولوں کے برعکس، جہاد کو ایک انفرادی فرض کے طور پر پیش کرتا ہے، جسے ہر مسلمان بغیر کسی ریاستی جواز کے ادا کر سکتا ہے۔[15] زرقاوی کی تعلیمات نے عراق میں سنی-شیعہ تنازع کو نہ صرف مزید بھڑکایا بلکہ عالمی جہادی تحریکوں کو بھی مزید شدت پسند بنا دیا، جس کے نتیجے میں داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ [16]زرقاویت نے عالمی جہاد کی ایک نئی اور زیادہ سخت گیر تعبیر فراہم کی، جس میں زیادہ تر وحشیانہ طریقے اور دہشت گردی کی کارروائیاں شامل تھیں۔ اس نظریے نے عراق اور شام میں مسلح تنازعات کو مزید پیچیدہ کیا اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی اور عدم استحکام کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر مسلمانوں کی داخلی تقسیم اور جنگ و جدل میں اضافہ ہوا۔[17]

داعشیت (Daeshism)

ترمیم

داعشیت داعش (یا اسلامی ریاست) کی تعلیمات پر مبنی ہے، جس نے 2014 میں عالمی خلافت کے قیام کا دعویٰ کیا اور اسلامی قوانین کا سخت ترین نفاذ اپنایا۔ اس آئیڈیالوجی میں غیر ریاستی جہاد کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا گیا، اور اس کے حامی ایک عالمی اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کرتے ہیں۔ داعشیت میں جہاد کو زیادہ متشدد طریقوں کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے، اور اس میں خلافت کے نفاذ کے لیے سفاکانہ حکمت عملیوں کا استعمال شامل ہے۔[18]

بوکو حرامیت (Boko Haramism)

ترمیم

بوکو حرامیت نائیجیریا میں قائم بوکو حرام کی آئیڈیالوجی پر مبنی ہے، جس نے مغربی تعلیم کی مخالفت اور اسلامی ریاست کے قیام کی وکالت کی۔ بوکو حرام نے غیر ریاستی جہاد کو مغربی ثقافت کے خلاف ایک مسلح جدوجہد کے طور پر استعمال کیا، اور اس کا مقصد ایک خالص اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے، جو کہ مکمل اسلامی قوانین کے نفاذ پر مبنی ہو۔[19]

الشبابیت (Shababism)

ترمیم

الشبابیت، صومالیہ میں الشباب کی تعلیمات پر مبنی ہے، جو اسلامی قوانین کے سخت نفاذ اور غیر ریاستی خلافت کی وکالت کرتی ہے۔ الشباب نے وہابی-سلفی تشریحات کو اپنایا اور عالمی جہاد کو فروغ دیا، جس کا مقصد ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام اور صومالیہ میں اسلامی قانون کا مکمل نفاذ ہے۔[20]

طالبانیت (Talibanism)

ترمیم

طالبانیت دیوبندی مکتب فکر کی تعلیمات پر مبنی ہے، جس میں افغانستان اور پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ اور غیر ملکی افواج کے خلاف مسلح جدوجہد شامل ہے۔ طالبان نے غیر ریاستی جہاد کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا، اور ان کا بنیادی مقصد ایک اسلامی امارت کا قیام تھا، جو کہ دیوبندی فقہ کے اصولوں پر مبنی ہو۔[21]

دیوبندی-وہابی جہادی آئیڈیالوجی (Deobandi-Wahhabi Jihadism)

ترمیم

یہ آئیڈیالوجی جنوبی ایشیا میں دیوبندی اور وہابی تعلیمات کا مرکب ہے، جس میں اسلام کی سخت گیر تشریح اور غیر ریاستی جہاد کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس آئیڈیالوجی نے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کی فکری بنیاد رکھی، جن کا مقصد بھارتی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد اور کشمیر میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے۔[22]

حوالہ جات

ترمیم
  1. David Commins (2006)۔ The Wahhabi Mission and Saudi Arabia۔ I.B. Tauris۔ ISBN 9781845112211 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  2. Gilles Kepel (2005)۔ The Roots of Radical Islam۔ Saqi Books۔ ISBN 9780863563967 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  3. Fawaz Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9780521791408 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  4. "The Rise and Fall of Abu Musab al-Zarqawi"۔ The Guardian۔ June 9, 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  5. William McCants (2015)۔ The ISIS Apocalypse: The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State۔ St. Martin's Press۔ ISBN 9781250080905 
  6. David Commins (2006)۔ The Wahhabi Mission and Saudi Arabia۔ I.B. Tauris۔ ISBN 9781845112211 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  7. John Esposito (2018)۔ Wahhabism and Salafi Jihadism: The Origins and Expansion of Militant Ideology۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 55–60 
  8. "The Impact of Salafi Jihadism on Sunni Islam"۔ Brookings Institution۔ October 20, 2024 
  9. "Salafi Jihadism: A New Form of Wahhabism"۔ Council on Foreign Relations۔ January 25, 2023 
  10. Gilles Kepel (2005)۔ The Roots of Radical Islam۔ Saqi Books۔ ISBN 9780863563967 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  11. Fawaz Gerges (2005)۔ The Far Enemy: Why Jihad Went Global۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9780521791408 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  12. "The Rise and Fall of Abu Musab al-Zarqawi"۔ The Guardian۔ June 9, 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  13. John McCary (2008)۔ The Terrorist Perspectives Project: Strategic and Operational Views of Al-Qaida and Associated Movements۔ US Naval Institute Press۔ ISBN 9781591144311 
  14. Brian H. Fishman (2006)۔ "After Zarqawi: The Dilemmas and Future of Al Qaeda in Iraq"۔ The Washington Quarterly۔ 29 (4): 19–32۔ doi:10.1162/wash.2006.29.4.19 
  15. Michael Weiss (2015)۔ ISIS: The State of Terror۔ HarperCollins۔ ISBN 9780062377221 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  16. "Zarqawi's Legacy: Al-Qaeda in Iraq and the Rise of ISIS"۔ Brookings Institution۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  17. "Zarqawi: Architect of Iraq's Sectarian Warfare"۔ The New York Times۔ June 8, 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  18. William McCants (2015)۔ The ISIS Apocalypse: The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State۔ St. Martin's Press۔ ISBN 9781250080905 
  19. "Boko Haram's Islamist Ideology"۔ BBC News۔ June 17, 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  20. "Understanding Al-Shabaab"۔ Council on Foreign Relations۔ اخذ شدہ بتاریخ October 23, 2024 
  21. Thomas Barfield (2010)۔ Afghanistan: A Cultural and Political History۔ Princeton University Press۔ ISBN 9781400832187 
  22. Olivier Roy (2004)۔ Globalized Islam: The Search for a New Ummah۔ Columbia University Press۔ ISBN 9780231134996