سید مناظر احسن گیلانی

ہندوستانی عالم دین اور مصنف

سید مناظر احسن گیلانی (1 اکتوبر 1892–5 جون 1956ء) ایک ہندوستانی سنی عالم دین اور عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبۂ دینیات کے سابق ڈین تھے۔ ’’تدوینِ حدیث‘‘، ’’تدوینِ فقہ‘‘ اور ’’سوانح قاسمی‘‘ جیسی کتابیں ان کی تصانیف میں شامل ہیں۔[1] محمد حمید اللہ ان کے تلامذہ میں سے تھے۔[2]

سید مناظر احسن گیلانی
معلومات شخصیت
پیدائش 1 اکتوبر 1892ء
استھانواں، ضلع پٹنہ، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند (موجودہ ضلع نالندہ، بہار، بھارت)
وفات 5 جون 1956(1956-60-05) (عمر  63 سال)
گیلانی، نالندہ، بہار، بھارت
نسل بھارتی
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی دارالعلوم دیوبند
استاذ محمود حسن دیوبندی ،  انور شاہ کشمیری ،  شبیر احمد عثمانی ،  اصغر حسین دیوبندی ،  حسین احمد مدنی ،  عزیز الرحمن عثمانی ،  غلام رسول ہزاروی ،  برکات احمد ٹونکی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد حمید اللہ   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مصنف ،  پروفیسر ،  محقق ،  منطقی ،  متکلم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل اسلامیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سوانح قاسمی، تدوینِ حدیث، مقدمہ تدوین فقہ، امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی
متاثر محمد حمید اللہ
باب ادب

ولادت و خاندانی پس منظر

ترمیم

مناظر احسن گیلانی 9 ربیع الاول 1310ھ بہ مطابق 1 اکتوبر 1892ء کو اپنی ننھیال استھانواں، ضلع پٹنہ (موجودہ ضلع نالندہ)، بہار (اس وقت کے بنگال پریزیڈنسی) میں پیدا ہوئے۔ [3]

گیلانی کے جد امجد محمد احسن گیلانی ایک جید عالم دین تھے، سرحد و کابل تک کے علما جن کے تلامذہ کی فہرست میں آتے ہیں، عبد اللہ ہزاروی ثم گیلانی، رفیع الدین رئیس شکرانواں، عبد الغفور رمضانپوری، عبد السلام بھاگلپوری اور دائم علی گیلانی ثم ٹونکی وغیرہ جن کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ [4]

تعلیم و تربیت

ترمیم

ان کی ابتدائی تعلیم رسم بسم اللّٰہ سے لے کر اردو، فارسی اور ابتدائی عربی تک گھر پر ہوئی، جس کا وافر حصہ اپنے چچا سید ابو نصر گیلانی سے پڑھا، پھر 1314ھ کو چودہ سال کی عمر میں گیلانی ٹونک، راجستھان گئے اور وہیں پر مدرسہ خلیلیہ، ٹونک میں 1431ھ تک تقریباً آٹھ سال رہ کر برکات احمد ٹونکی اور محمد اشرف ملتانی کے پاس معقولات اور منقولات کی دورۂ حدیث سے پہلے تک کی کتابیں پڑھیں۔ [5] گیلانی کے ٹونک کے ساتھیوں میں عبد الرشید رانی ساگری بھی تھے۔ [6]


اس کے بعد شوال 1331ھ (بہ مطابق ستمبر 1913ء) میں گیلانی کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے سال میں ہوا اور شعبان 1332ھ (جون/جولائی 1914ء) میں فرسٹ ڈویژن میں تیسری پوزیشن کے ساتھ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔ [7]

انھوں نے دار العلوم دیوبند میں محمود حسن دیوبندی سے صحیح البخاری اور جامع ترمذی،[1][8] انور شاہ کشمیری سے صحیح مسلم، شبیر احمد عثمانی پھر اصغر حسین دیوبندی سے سنن ابو داؤد، حسین احمد مدنی سے سنن نسائی، غلام رسول ہزاروی سے سنن ابن ماجہ اور عزیز الرحمن عثمانی سے موطأ امام مالک و موطأ امام مالک پڑھی۔[9] [10]

دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں گیلانی کو محمود حسن دیوبندی (شیخ الہند) کے شرفِ تلمذ کے ساتھ ساتھ ان سے بیعت ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی؛ مگر ایک سال کے بعد ہی محمود حسن مکہ گئے اور شریفِ مکہ کے ذریعے انگریزوں نے گرفتار کرکے انھیں اسیرِ مالٹا کر دیا، واپسی ہوئی تو چند مہینوں کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا اور گیلانی ان سے مزید مستفید نہ ہو سکے۔ [11]

حیدرآباد، دکن کے زمانۂ قیام میں گیلانی نے سلسلۂ قادریہ کے ایک بغدادی الاصل بزرگ حبیب العیدروس سے اپنا تعلقِ بیعت قائم کیا اور خلافتِ بیعت سے نوازے گئے، پھر محمد حسین نامی ایک حیدرآبادی بزرگ سے وابستہ ہوئے اور چند ہی عرصے بعد ان کے بھی خلیفہ و مجاز ہوئے۔ [12]

عملی زندگی

ترمیم

گیلانی نے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں ہی محمود حسن دیوبندی کے مشورے پر رسالہ القاسم دیوبند میں ”خیر الامم کا طغرائے امتیاز“ کے عنوان سے چھ قسطوں میں اپنا پہلا مضمون لکھا تھا، جس نے ان کی قلمی زندگی کے لیے مہمیز کا کام کیا۔ [13] بعد میں معارف اعظم گڑھ، برہان دہلی، الفرقان لکھنؤ، صدقِ جدید لکھنؤ اور رسالہ دار العلوم دیوبند جیسے رسائل و جرائد میں ان کے مقالات و مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ [14]

دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد ٹونک، حیدرآباد اور احمد آباد ہوتے ہوئے چھ سات مہینوں کے بعد 1334ھ کو وہ دار العلوم میں معین مدرس مقرر کیے گئے اور تدریسی خدمت کے ساتھ وقتی طلبی پر تقریری پروگراموں میں جانا، نیز ماہنامہ القاسم اور ماہنامہ الرشید کے مضامین کی ترتیب و تزئین انھیں کے ذمے تھی اور ذی الحجہ 1435ھ تک ہی دیوبند میں مقیم رہے۔ [15][ا]

تحفظ ناموس رسالت کے پس منظر میں دیوبند سے کلکتہ جانا ہوا اور واپسی میں 1919ء میں حیدرآباد، دکن ہی میں رک گئے اور حمید الدین فراہی کے مشورے پر نودمیدہ عثمانیہ یونیورسٹی میں خدمات کے لیے درخواست دیا، فراہی کے درس قرآن میں شریک ہوکر استفادہ کرتے رہے اور ایک سال کے بعد فراہی نے اس وقت کے حیدرآباد، دکن کے صدر الصدور حبیب الرحمان خاں شیروانی سے سفارش کی، پھر گیلانی اپنے وطن چلے گئے اور 1920ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبۂ دینیات کے استاذ کی حیثیت سے بلائے گئے؛ یہاں تک کہ 1949ء میں اسی شعبے کے صدر اور ڈین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ [17][18][19] ان کے تلامذہ میں محمد حمید اللہ اور غلام محمد ربانی شامل تھے۔[20][21]

1350ھ بہ مطابق 1930ء کو گیلانی رکنِ مجلس شوریٰ دار العلوم منتخب ہوئے اور شوال 1367ھ (بہ مطابق اگست 1948ء) میں مجلس شوریٰ سے سبکدوش ہو گئے۔ [22][16]

گیلانی عثمانیہ یونیورسٹی میں مختلف اوقات میں پروفیسر، شیخ الحدیث اور صدر شعبۂ دینیات کے مناصب پر فائز رہے، نیز وہاں کے قیام کے دوران میں مسلم یونیورسٹی، ڈھاکہ یونیورسٹی، لکھنؤ یونیورسٹی، اورنگل یونیورسٹی، لاہور اور بہار و پنچاب یونیورسٹی کے اگزامینر بھی رہ چکے تھے۔ [23]

اعزازات و خصوصیات

ترمیم

1 تا 2 دسمبر 2018ء کو، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی نے اے. این. سنہا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز، پٹنہ میں ”مولانا مناظر احسن گیلانی کی حیات و خدمات“ پر ایک دو روزہ قومی کانفرنس کا اہتمام کیا۔[24]

ابو سلمان شاہجہانپوری نے بھی ”مولانا سید مناظر احسن گیلانی: شخصیت اور سوانح“ کے عنوان سے گیلانی کی سوانح عمری لکھی ہے۔[25]

عبد الماجد دریابادی گیلانی کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مولانا بیک وقت مفسر، محدث، فقیہ، متکلم، معقولی اور صوفی صافی تھے۔ تاریخی مطالعہ کی وسعت و کثرت نے انھیں مؤرخ بھی بنا دیا تھا۔ طلبہ اور اونچے یونیورسٹی طلبہ کے حق میں بہترین معلم تھے اور ایک بہترین مقرر و خوش بیان خطیب بھی تھے۔[26]

قلمی خدمات

ترمیم

گیلانی کی تصانیف میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[27][28]

  • النبی الخاتم
  • ظہورِ نور صلی اللّٰہ علیہ وسلم
  • حضرت ابوذر غفاری
  • حضرت اویس قرنی
  • امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی
  • تذکرہ شاہ ولی اللہ
  • سوانحِ قاسمی (تین جلدوں میں محمد قاسم نانوتوی کی سوانح عمری)
  • سیرتِ بانی دار العلوم
  • ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت (دو جلدیں)
  • ایک ہندوستانی صحابی
  • اسلامی معاشیات
  • تدوینِ حدیث
  • الدین القیم
  • تدوینِ قرآن
  • تدوین فقہ
  • مقالاتِ احسانی
  • تذکیر بسورۃ الکہف
  • مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ
  • ہزار سال پہلے
  • احاطۂ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن
  • دجالی فتنے کے نمایاں خدوخال
  • ہند اسلامی میں اسلام اور مسلمان
  • دنیا کے دو بھائی اور دین کے دو بھائی
  • آغوش موج کا ایک دُر تابندہ یا اسلامی ہند کے طوفانی عہد میں خدا کا ایک وفادار بندہ
  • عرضِ احسن
  • اسلام اور ہندو مذہب کی بعض مشترک تعلیمات
  • سلوک و آداب
  • کائنات روحانی

وفات

ترمیم

گیلانی 9 نومبر 1953ء سے دل کی تکلیف میں مبتلا ہوئے، مارچ 1954ء میں دل کا دوسرا دورہ پڑنے کے بعد انھیں پٹنہ کے ہسپتال میں منتقل کیا گیا اور احمد عبد الحئی نامی ڈاکٹر ان کا علاج کر رہے تھے، ڈاکٹر نے ان کو لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ گیلانی کا انتقال 25 شوال 1375ھ بہ مطابق 5 جون 1956ء کو بوقت سات بجے صبح ان کے آبائی علاقہ گیلانی، بہار میں ہوا، نماز جنازہ سید فصیح احمد استھانوی نے پڑھائی اور اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔[29][19][30]

حوالہ جات

ترمیم

مآخذ

ترمیم
  1. ^ ا ب "The Distinguished Researcher and Litterateur: Mawlānā Manāzir Ahsan Gīlāni"۔ IlmGate.org۔ 27 فروری 2015ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2022ء 
  2. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی۔ "Maulāna Manāẓir Aḥsan Gīlāni: His Early Life at Deoband as Student, Editor and Teacher" [مولانا مناظر احسن گیلانی: دیوبند میں ان کی ابتدائی زندگی بطور طالب علم، مدیر اور استاد] (بزبان انگریزی) 
  3. مفتاحی 1994, p. 38.
  4. مفتاحی 1994, pp. 33–34.
  5. مفتاحی 1994, pp. 38–43، 49، 91.
  6. مفتاحی 1994, p. 45.
  7. مفتاحی 1994, pp. 91–92.
  8. مفتاحی 1994, p. 85.
  9. فاروق اعظم قاسمی (2020)۔ مناظر گیلانی (2 ایڈیشن)۔ نئی دہلی: مرکزی پبلی کیشنز۔ صفحہ: 39 
  10. مفتاحی 1994, pp. 74–92.
  11. مفتاحی 1994, pp. 248–249.
  12. مفتاحی 1994, pp. 250–251.
  13. مفتاحی 1994, pp. 74–92، 149.
  14. مفتاحی 1994, p. 215.
  15. مفتاحی 1994, pp. 94، 104، 131، 113-134، 151، 160.
  16. ^ ا ب محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "اراکین مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند"، "مدیران اردو رسائل"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہندؒ اکیڈمی۔ صفحہ: 755، 785 
  17. مفتاحی 1994, pp. 141–148، 160.
  18. گیان پرکاش، نکھل مینن، مائیکل لافان (22 فروری 2018ء)۔ The Postcolonial Moment in South and Southeast Asia۔ صفحہ: 249۔ ISBN 9781350038646۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2022ء 
  19. ^ ا ب سید محبوب رضوی۔ تاریخ دار العلوم دیوبند [ہسٹری آف دی دار العلوم دیوبند] (PDF)۔ 2۔ ترجمہ بقلم پروفیسر. مرتاض حسین ایف. قریشی۔ دار العلوم دیوبند: ادارۂ اہتمام۔ صفحہ: 85–86۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2022ء 
  20. "ڈاکٹر محمد حمید اللہ از ابو عمار زاہد الراشدی"۔ روزنامہ اسلام۔ لاہور۔ 24 دسمبر 2002ء 
  21. مناظر احسن گیلانی و غلام محمد ربانی (2005ء)۔ تدوینِ قرآن: قرآن کے تحفظ پر ایک نظر۔ کراچی: مکتبہ البخاری۔ صفحہ: 5 
  22. مفتاحی 1994, p. 156-157.
  23. مفتاحی 1994, p. 189.
  24. "2-day IOS national meet on Maulana Manazir Ahsan Gilani"۔ oldwebsite.iosworld.org۔ 27 نومبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28نومبر 2022ء 
  25. "مولانا سید مناظر احسن گیلانی: شخصیت اور سوانح/ابو سلمان شاہجہانپوری"۔ مانو لائبریری سسٹم۔ حیدرآباد، دکن: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 نومبر 2022ء 
  26. عبد الماجد دریابادی (دسمبر 1977ء)۔ "محقق گیلانی"۔ وفیات ماجدی۔ کراچی: مجلس نشریات اسلام۔ صفحہ: 77 
  27. مفتاحی 1994, p. 212.
  28. "ریختہ ای بک پر سید مناظر احسن گیلانی کی کتابیں"۔ rekhta.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2022ء 
  29. ابو محمد مولانا ثناء اللہ سعد شجاع آبادی (2015)۔ "مولانا سید مناظر احسن گیلانی"۔ علمائے دیوبند کے آخری لمحات۔ سہارنپور: مکتبہ رشیدیہ۔ صفحہ: 87–89 
  30. مفتاحی 1994, p. 296-302.

کتابیات

ترمیم

ملاحظہ

ترمیم
  1. اگرچہ مدرسے کی طرف سے سفر پر ہونے کی وجہ سے دار العلوم دیوبند میں 1437ھ تک ان کا بر سرِ منصب ہونا مذکور ہے۔[16]

بیرونی روابط

ترمیم