باب:مذہب/منتخب شخصیت
مذہب شافعی کے پیروکار زیادہ تر مشرقی مصر، صومالیہ، ارتریا، ایتھوپیا، جبوتی، سواحلی ساحل، یمن، مشرق وسطیٰ کے کرد علاقوں میں، داغستان، فلسطین، لبنان، چیچنیا، قفقاز، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا کے کچھ ساحلی علاقوں میں، مالدیپ، سنگاپور، بھارت کے مسلم علاقوں، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن میں پائے جاتے ہیں۔
مشہور روایات کے مطابق امام شافعی کی ولادت ماہِ رجب 150ھ مطابق ماہِ اگست 767ء میں بمقام غزہ بلاد الشام (موجودہفلسطین) میں ہوئی۔ ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ: امام شافعی اُس سال پیدا ہوئے جس سال امام ابوحنیفہ فوت ہوئے۔ امام شافعی کا اپنا قول ہے کہ میری ولادت 150ھ میں ملک شام کے شہر غزہ میں ہوئی اور 2 سال کی عمر میں مجھے مکہ لایا گیا، یعنی 152ھ مطابق 769ء میں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں عسقلان میں پیدا ہوا اور دو سال کا ہوا تو میری والدہ مجھے مکہ کے آئیں۔
مُقَدَّس يُوحْنَا دَمشقِی (وسطی یونانی: ωάννης Δαμασκηνός؛ تلفظ: ایونس اُو دَمسقِینُوس؛ بازنطینی یونانی تلفظ : [اِیوانِیس اُو دَمسقِینُوس]؛ (لاطینی: Ioannes Damascenus)) ایک سریانی راہب اور قس تھے۔ دمشق میں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائی اور اپنی خانقاہ واقع دیر مار سابا نزد یروشلم میں وفات پائی۔
یوحنا دمشقی ایک جامع العلوم قسم کے شخص تھے، ان کی دلچسپی کے شعبے ہمہ جہت تھے، جن میں قانون، الٰہیات، فلسفہ اور موسیقی سب شامل تھے۔ بعض ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے نفاذِ فرمان (ordination) سے قبل دمشق کے مسلم خلیفہ کے ایک اعلٰی منتظم کے طور پر بھی کام کیا۔
انہوں نے مسیحی عقائد کو بیان کرنے کے لیے متعدد کتابیں تحریر کیں اور کئی مناجات مرتب کیے جو لطوریائی طور پر آج تک مشرقی مسیحیت میں اور لوتھریت میں صرف ایسٹر کے موقع پر استعمال کی جاتی ہیں۔ وہ مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کے ایک پادری کے طور پر اور شبیہ (آئیکن) کے تحفظ کے لیے معروف ہیں۔ کاتھولک کلیسیا میں ان کو معلم کلیسیا، اور عروج مریم پر تصانیف کی وجہ سے اکثر معلمِ عروج (Doctor of the Assumption) کہا جاتا ہے۔
محمد بن عبد اللہ کی ولادت مشہور قول کے مطابق ماہ ربیع الاول عام الفیل بمطابق 570ء یا 571ء کو ہوئی، نام محمد اور احمد جبکہ کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق محمد اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل کی تبلیغ کے لیے دنیا میں بھیجا تھا اور محمد کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق محمد دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
محمد پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال 63 سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے تقریباً چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ آمنہ بنت وہب بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں "جس کی تعریف کی گئی"۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا عبد المطلب نے رکھا تھا۔ محمد کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ کے القاب سے پکارا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل رسول محمد نے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے محمد عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ بعد ازاں وہ اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے، اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز جبریل (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد کو اللہ کا پیغام دیا۔
یسوع (عبرانی: יֵשׁוּעַ؛ سریانی: ܝܫܘܥ) مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کے نزدیک نہایت مقدس ہستی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور عیسیٰ کے نام سے پکارتے ہیں۔ مسیحیت میں دو طرح کے گروہ ہیں۔ ایک جو ان کو خدا کا نبی مانتے ہیں اور دوسرا جو ان کو تثلیث کا ایک کردار مانتے ہیں اور خدا کا درجہ دیتے ہیں۔ بعض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہیں مگر مسلمانوں اور کچھ مسیحیوں کے مطابق اللہ یا خدا ایک ہے اور اس کی کوئی اولاد یا شریک نہیں۔ یہودیت میں انہیں نبی نہیں مانا جاتا بلکہ یہودی یہ بھی نہیں مانتے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ مسلمان اور مسیحی دونوں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح بغیر باپ کے ایک کنواری ماں مریم سے پیدا ہوئے۔
آج سے تقریباً دو ہزار سال پیشتر مشرق وسطیٰ میں یسوع مسیح جنہیں اہل اسلام عیسیٰ ابن مریم کہتے ہیں معبوث ہوئے۔ اس وقت وہاں پر رومی حکومت کا قبضہ تھا۔ مقامی بادشاہ اور گورنر اس کے ماتحت ہی حکومت کرتے تھے۔ سیدنا یسوع مسیح کی تعلیمات اور آپ کی نوعِ انسانی کے لیے محبت سے دنیا کی تمام اقوام آگاہ ہیں۔ بے شک اس امر میں اَختلاف رائے تو پایا جاتا ہے کہ سیدنا یسوع مسیح کون تھے، لیکن غیر متعصب اشخاص کی اکثریت اِس بات پر متفق ہے کہ اگر آپ کی تعلیمات اور آپ کے نمونہ پر عمل کیا جائے، تو محبت اور رحمدلی کو فروغ ہوگا اور نفرت، ظلم اور غرباء کی استحصال میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔