ضلع دادو
ضلع دادو پاکستان کے صوبہ سندھ میں حیدر آباد ڈویژن کا ایک ضلع ہے، جس کا صدر مقام دادو شہر ہے۔ ضلع دادو 1931ء میں برطانوی راج کے دوران قائم ہوا۔ مردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء کے مطابق ضلع دادو کی آبادی سترہ لاکھ بیالیس ہزار 1,742,307 افراد پر مشتمل ہے۔
District Dadu | |
---|---|
ضلع دادو | |
ضلع دادو کا نقشہ | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | سندھ |
مرکزی شہر | دادو |
تشکیل | 1931 |
قائم از | برطانوی راج |
انتظامی تقسیم | ۴
|
حکومت | |
• قائم مقام منتظم (ڈپٹی کمشنر) | جواد علی لاڑک |
• انتخابی حلقے | این اے۔227 (دادو۔1) این اے۔228 (دادو۔2) |
رقبہ | |
• کل | 7,866 کلومیٹر2 (3,037 میل مربع) |
بلندی | 40 میل (130 فٹ) |
بلند ترین مقام | 1,734 میل (5,689 فٹ) |
پست ترین مقام | 31 میل (102 فٹ) |
آبادی (مردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء) | |
• کل | 1,742,307 |
• کثافت | 221.50/کلومیٹر2 (573.7/میل مربع) |
نام آبادی | سندھی |
رمزیہ ڈاک | 76330 |
ٹیلی فون کوڈ | 025 |
آیزو 3166 رمز | PK-SD |
تاریخ
ترمیم1931ء میں برطانوی نو آبادیاتی دور میں کراچی کی تحصیلوں کوٹری اور کوہستان اور ضلع لاڑکانہ کی تحصیلوں میہڑ، خیرپور ناتھن شاہ، دادو، جوہی اور تحصیل سیہون کو ملا کر ضلع دادو تشکیل دیا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ رقبہ کے اعتبار سے سندھ کا سب سے بڑا ضلع تھا، 2004ء میں ایک حکم نامے کے تحت ضلع دادو کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور نیا قائم ہونے والا ضلع جامشورو کہلایا۔
علم آبادیات
ترمیممردم شماری پاکستان ۲۰۲۳ء کے مطابق ضلع دادو کی آبادی 1,742,307 ہے جن میں سندھی بولنے والوں کی تعداد 1,725,321 ہے جبکہ 5,974 بلوچی، 4,118 اردو، 2,072 سرائیکی، 1,962 پنجابی، 1,262 پشتو، 760 براہوی، 401 ہندکو، 11 کشمیری، 1 شینا اور 425 افراد دیگر زبانیں بولتے ہیں۔
جغرافیہ
ترمیمضلع دادو کے مغرب میں کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ ہے جو اسے بلوچستان سے جدا کرتا ہے۔ شمال میں ضلع لاڑکانہ، مشرق میں ضلع نوشہرو فیروز اور جنوب میں نیا ضلع جامشورو واقع ہے۔ جامشورو کوٹری، سیہون مانجھند اور جامشورو کی تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ اس کا ضلعی صدر مقام جامشورو ہے۔
انتظامی تقسیم
ترمیمضلع دادو مندرجہ ذیل چار تحصیلوں (تعلقوں) پر مشتمل ہے:
پاکستان کی سب سے بڑی جھیل منچھر جھیل کا کچھ حصہ اسی ضلع میں واقع ہے جو ضلع جامشورو کے شہر سیہون کے مغرب میں ہے۔
آبادیاتی خصوصیات
ترمیم1998ء کی قومی مردم شماری کے مطابق ضلع دادو کی کل آبادی 16،88،810 ہے۔ ضلع کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، جو کل آبادی کا 79 فیصد ہے جبکہ 21 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ ضلع 19،070 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اسے انتظامی طور پر 4 تحصیلوں (تعلقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کثافت آبادی 88.6 فیصد افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ اوسط ایک گھرانہ 5.5 افراد پر مشتمل ہے۔ یہ تناسب شہری علاقوں میں زیادہ (6.3 فیصد) ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تناسب 5.5 فیصد ہے۔ ضلع کے 73 فیصد سے زائد گھر ایک کمرے کے حامل ہیں۔
قدامت اور سیاحت
ترمیمدادو ضلع میں کئی قدیم آثار ہیں۔این جی مجمدارنے قبل مسیح کے زمانے کے آثار دریافت کیے تھے۔ تفریح اور سیاحت میں 5688 فٹ بلند گورکھ ہل اسٹیشن ہے جو اب سیاحت کا مرکز ہے۔
موسم
ترمیمضلع میں اوسط سالانہ بارش 120 م م ہوتی ہے۔ ضلع کا کل 217،000 ہیکٹرز کا رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے جہاں سے لکڑی حاصل کی جاتی ہے۔
قبائل
ترمیمضلع کی بیشتر آبادی اسلام کی پیرو ہے۔ اہم قبائل میں مغلعباسی جتوئی قبیلہ اتیرو مگسی، سومرو، شاہانی، کلہوڑو، ڈاہری، چنہ، پنہور، سولنگی، قاضی، شیخ، میرانی، ملاح، میربحر، چانڈیو، جمالی قبیلہ، کھوسہ، گبول، لوند، بوزدار، لغاری، انڑ کنگرانی، مستوئی، آلکھانی، گنب، خاصخیلی، لاشاری،برہمانی رودنانی وغیرہ ہیں۔ جن میں بوزدار،گنب، لغاری اور شاہانی سب سے زیادہ با اثر قبیلے ہیں۔
اہم شخصیات
ترمیمسابق وزیر اعظم پاکستان شوکت عزیز کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی رہنے والے لیاقت علی جتوئی کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے جو معروف قبائلی سردار عبد الحمید خان جتوئی کے صاحبزادے ہیں۔ لیاقت علی کے صاحبزادے کریم علی خان جتوئی ضلع کے ناظم رہے ہیں۔ ان کے علاوہ سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں وفاقی ریلوے وزیر ظفرعلی لغاری، سابقہ صوبائی سینیئر منسٹر تعلیم صوبہ سندھپیر مظہرالحق، ایم این اے سردار رفیق احمد جمالی,ایم پی اے غلام شاہ جیلانی بھی ضلع کی اہم شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔ ادباُ اور شعراُ میں استاد بخاری، تاج صحرائی، عبداللہ مگسی، عزیز کنگرانی اور اکبر جسکانی ذکر لائق ہیں۔
بیرونی روابط
ترمیم- مقامی حکومتوں کا نظام، صوبہ سندھ – ضلع دادو آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lgdsindh.com.pk (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "TABLE 11 – POPULATION BY MOTHER TONGUE, SEX AND RURAL/ URBAN" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2024