گلگت بلتستان

خود حکومتی انتظامیہ پاکستان
(گلگت۔بلتستان سے رجوع مکرر)

گلگت بلتستان (انگریزی: Gilgit Baltistan شینا زبان (گِلِیٗتْ پَلوٗلْ) پاکستان کے زیر انتظام علاقہ ہے جو متنازع ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔1840ء سے پہلے یہ علاقے مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں بلتستان، گلگت شامل ہیں اس کے علاؤہ ہنزہ، نگر[10] الگ خود مختار علاقے تھے۔ ان علاقوں میں گلگت اور بلتستان کو جنرل زور اور سنگھ نے فتح کر لیا اور ریاست جموں کشمیر میں شامل کر دیا۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ اٹھا، ریاست کے اکثریتی باشندوں کی خواہش کے برخلاف مہارجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس وقت گلگت سکاوٹس کے مقامی افسران کی رہنمائی میں مقامی لوگوں مہاراجہ کشمیر کی افواج کے خلاف بغاوت کی اور انہیں شکست دیکر گلگت سمیت، دیامر، استور اور بلتستان کے اکثریتی علاقے آزاد کرا لیئے۔ کچھ دن گلگت میں مقامی لوگوں کی حکومت رہی اس کے بعد پاکستان کی طرف سے پولیٹکل ایجنٹ بھیج کر اپنے زیر انتظام کیا گیا۔ ریاست کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں گیا، لیکن تاحال اقوام عالم ہندوستان اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل پر متفق نہیں کر سکی ہیں۔


گِلگِت بَلتِستان
صوبہ
متناسقات: 35°21′N 75°54′E / 35.35°N 75.9°E / 35.35; 75.9
ملک پاکستان
قیامیکم نومبر 1948
صوبائی دار الحکومتگلگت
سب سے بڑا شہرسکردو[1]
حکومت[4]
 • قسمصوبہ (عارضی حیثیت)
 • مجلسحکومت گلگت بلتستان
 • گورنرسید مہدی شاہ
 • وزیر اعلیخالد خورشید
 • چیف سیکرٹریمحمد خرم آغا[2]
 • مقننہگلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی
 • ہائی کورٹGilgit-Baltistan Supreme Appellate Court[3]
رقبہ
 • کل72,496 کلومیٹر2 (27,991 میل مربع)
 [5]
آبادی (2017)
 • کل1،492،924
منطقۂ وقتPST (UTC+05:00)
آیزو 3166 رمزآیزو 3166-2:PK
زبانیںشینا زبان,گوجری، بلتی زبان، وخی زبان، بروشسکی زبان، کھوار زبان، ڈوماکی، اردو (دفتری)
HDI (2018)0.593 Increase[6]
Medium
اسمبلی نشستیں33[7]
پاکستان کے ڈویژن3
گلگت بلتستان کے اضلاع14[8]
تحصیل31[9]
پاکستان کی یونین کونسلیں113
ویب سائٹgilgitbaltistan.gov.pk

شمالی علاقہ جات کی آبادی تقریباً 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے ۔ شینا، بلتی ،بروشسکی، کھوار اور وخی یہاں کی مشہور زبانیں ہیں، جبکہ سب سے بڑی زبان شینا ہے جو 65 فیصد لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے تین ڈویژن ہیں؛ بلتستان ، دیا میراور گلگت۔ بلتستان ڈویژن سکردو،شگر،کھرمنگ اور گانچھے کے اضلاع پر مشتمل ہے ۔ گلگت ڈویژن گلگت،غذر، ہنزہ اورنگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ جب کہ دیا میر ڈویژن داریل،تانگیر،استوراور دیامرکے اضلاع پر مشتمل ہے ۔ گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر، جنوب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جبکہ مغرب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔[11]

گلگت بلتستان کے علاقائی علامات
علاقائی جانور
علاقائی پرندہ
علاقائی درخت
علاقائی پھول
علاقائی کھیل

تاریخ

ترمیم

چینی سیاح فاہیان جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو پورے گلگت بلتستان پے پھیلی ہوئی تھی اور اس کا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔ پھر ساتھویں صدی میں اس کے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں چلے گئے پھر نویں صدی میں یہ مقامی ریاستوں میں بٹ گئی جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترکھان خاندان مشہور ہیں مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ،گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی احمد شاہ مقپون اس خاندا کا آخری راجا تھا جسے ڈوگرہ افواج نے ایک ناکام بغاوت میں 1840ء میں قتل کر ڈالا پھر 1947ء میں بر صغیر کے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہماراہ پورے علاقے کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد کر ڈالا۔

گلگت اور بلتستان۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجا نے ان علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصاے تبت میں شامل تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اس آزادی کا آغاز گلگت سے ہوا اور یکم نومبر 1947 کو گلگت پر ریاستی افواج کے مسلمان افسروں نے قبضہ کر لیا اور آزاد جمہوریہ گلگت کا اعلان کر دیا اس آزادی کے سولہ دن بعد پاکستان نے آزاد ریاست ختم کر کے ایف سی آر نافذ کر دیا۔ آزادی کے بعد سے یہ علاقہ ایک گمنام علاقہ سمجھا جاتا تھا جسے شمالی علاقہ جات کہا جاتا لیکن، 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے اس خطے کو نیم صوبائی اختیارات دیے۔ یہ واحد خطہ ہے جس کی سرحدیں چار ملکوں سے ملتی ہیں نیز پاکستان اور بھارت تین جنگیں سن 1948 کی جنگ، کارگل جنگ اور سیاچن جنگ اسی خطے میں لڑے ہیں۔ جبکہ سن1971 کی جنگ میں میں اس کے کچھ سرحدی علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جس میں کئی پاکستان کے کئی گاؤں بھارتی قبضے میں چلے گئے اور بھارت کے کئی گاؤں پاکستان کے قبضے میں چلے گئے۔ انہی وجوہات کی بنا پر یہ علاقہ دفاعی طور پر ایک اہم علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہیں سے تاریخی شاہراہ ریشم گزرتی ہے۔ 2009ء میں اس علاقے کو نیم صوبائی حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں عام انتخابات کروائے گئے، جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔[12]

عمران خان نے 2020 میں گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کا اعلان کر دیا۔ نئے صوبوں کو پاکستانی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی جائے گی لیکن اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے ختم ہونے تک خطے کو نہ ہی آئینی صوبے کا درجہ ملا اور نہ ہی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملی۔[13]

اقتصادی ترقی

ترمیم

سیاحت نسبتاً ترقی یافتہ ہے، پاکستان شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین کے سنکیانگ سے منسلک ہے اور گلگت پاک چین اقتصادی راہداری کے مرکزوں میں سے ایک ہے۔[14]

اضلاع اور اعداد و شمار

ترمیم

گلگت بلتستان اب چودہ اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے پانچ بلتستان میں، پانچ گلگت اور چار دیامرکے اضلاع ہیں۔

ڈویژن اضلاع رقبہ (مربع کلومیٹر) آبادی (2013ء) مرکز
بلتستان ضلع سکردو 8,000 305,000 سکردو
ضلع گانچھے 9,400 خپلو
  ضلع شگر 8,500 شگرٹاون
  کھرمنگ 5,500 طولتی
ضلع روندو ڈمبوداس
دیامر ضلع استور 8,657 114,000 گوری کوٹ/عید گاہ
  ضلع دیامر 10,936 چلاس
ضلع داریل
ضلع تانگیر
گلگت ضلع غذر 9,635 190,000 گاہکوچ
ضلع گلگت
  ضلع ہنزہ 20,057 70,000 علی آباد
ضلع یاسین
ضلع نگر 51,387 (1998)
گلگت و بلتستان۔ مجموعاً 14 اضلاع 72,971 1،996,797 گلگت

گلگت و بلتستان کے کل رقبہ کا درست شمار دستیاب نہیں اور مختلف جگہ مختلف رقبے ملتے ہیں اس لیے یہاں صرف تمام رقبوں کا درست مجموعہ دیا گیا ہے۔
فائل:Gilgit-wa-baltistan.png


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Skardu"۔ Skardu۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولا‎ئی 2015 
  2. "Khuram Aga posted chief secretary GB"۔ TheNation۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2020 
  3. "Supreme Appellate Court GB"۔ sacgb.gov.pk 
  4. Martin Sökefeld (2015)، "At the margins of Pakistan: Political relationships between Gilgit-Baltistan and Azad Jammu and Kashmir"، $1 میں Ravi Kalia، Pakistan's Political Labyrinths: Military, Society and Terror، Routledge، صفحہ: 177، ISBN 978-1-317-40544-3 : "While AJK formally possesses most of the government institutions of a state, GB now formally has the institutions of a Pakistani province. However, AJK remains a quasi-state and GB a quasi-province because neither territory enjoys the full rights and powers connected with the respective political formations. In both areas, Pakistan retains ultimate control."
  5. "UNPO: Gilgit Baltistan: Impact Of Climate Change On Biodiversity"۔ unpo.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2016 
  6. "Sub-national HDI - Area Database - Global Data Lab"۔ hdi.globaldatalab.org (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مارچ 2020 
  7. Legislative Assembly will have directly elected 24 members, besides six women and three technocrats. "Gilgit Baltistan: New Pakistani Package or Governor Rule آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ unpo.org (Error: unknown archive URL)" 3 ستمبر 2009, The Unrepresented Nations and Peoples Organization (UNPO)
  8. "Gilgit-Baltistan at a Glance, 2020" (PDF)۔ PND GB۔ 03 اگست 2021 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  9. نگر ضلع نگر , نگر جو کبھی ماضی میں ایک خود مختار ریاست تھی پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ یہاں کے باشندوں کو بروشو اور ان کی بولی کو بروشسکی کہا جاتا ہے۔ بروشو لوگوں کو شمال کے قدیم ترین باشند ے اور اولین آبادکار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہاں کے لوگوں کی زبان بروشسکی ہے۔ یہاں شیعہ مسلمان آباد ہیں ضلع نگر کا کل رقبہ 5000 کلومیٹر ہے۔ آج کل نگر 3 سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً 115000 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ نگر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ پہلے بروشال کے نام سے مشہور تھا جس کا دار الحکومت کیپل ڈونگس تھا۔ جہاں کا بادشاہ تھم کہلاتا تھا۔ اور یہ آج کے نگر اور ھنزہ پر مشتمل تھا۔ چونکہ کیپل ڈونگس کے چاروں اطراف برفانی گلیشرتھے جن کے بڑھنے سے وہاں کی نظام آبپاشی سخت متاثر ہوا۔ وہاں سے لوگ ہوپر میں آکر آبار ہوئے۔ اس کے بعد راجا میور خان کے بیثوں (مغلوٹ اور گرکس نے بروشال کو نگر اور ھنزہ میں تقسیم کیا۔ نگر اور ھنزہ چھو ٹی ریاستں تھیں اور یہ اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ چین سے آنے والی تجارتی قافلوں کو لوٹ کر حاصل کرتی تھیں۔ چونکہ انگریز یہاں سے روس تک تجارت کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ریاستیں ایسا کرنے سے روک رہی تھی اس لیے1891میں کرنل ڈیورنڈ کی سربراہی میں نگر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور نگر کی طرف چڑہائی شروع کی۔ انگریزوں نے چھ مہینوں تک نلت قلعہ کا محاصرہ کیا۔ آخر کار ایک غدار کی مدد سے انگریز فوج قلعے کی اوپر والی چوٹی پر پہچ گھی۔ اور قلعے پر حملہ کیا اور یوں نگر کی ہزاروں سال پر مشتمل آزادی ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں انگریزفوج کو چار وکٹوریہ کراس ملے جو اصل نگر کی چھوٹی سی فو ج کی بہادری کا اعتراف ہے۔
  10. شمالی علاقہ جات کو صوبائی حیثیت دینے کا اعلان روزنامہ آج، 4 ستمبر 2009ء
  11. گلگت بلتستان: مہدی شاہ نئے وزیر اعلیٰ بی بی سی اردو، 11 دسمبر، 2009ء
  12. "Imran Khan announces provincial status for Gilgit-Baltistan despite anger at home, opposition from India"۔ Hindustan Times۔ Nov 01, 2020 
  13. "اقتصادی راہداری کی حفاظت کے لیے ایف سی تعینات کی جائے گی"۔ BBC۔ 2016