اسرائیلی
اسرائیلی (عبرانی: ישראלים یشرائیلیم، عربی لإسرائيليين) ریاست اسرائیل کی شہریت رکھنے والوں اور اس کے مستقل باشندے کو کہتے ہیں۔ اسرائیل ایک کثیر نسلی ریاست ہے۔ جہاں مختلف نسل کے لوگ آباد ہیں۔ اسرائیل میں سب سے زیادہ یہود ی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ اس کی آبادی کا کل 75 فیصد یہودی نسل 20 فیصد عربی نسل اور 5 فیصد دوسری اقلیتی نسلی برادیاں ہیں۔[1] یہودی آبادی میں ہزاروں لاکھوں ایسے یہودی ہیں جو اسرائیل میں پیدا ہوئے اور وہ اشکنازی یہود اور مزراحی یہود یہود سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہودی آبادی کے 50 فیصد سے زیادہ مزراحی نسل سے تعلق رکھنے والے ہیں۔[2]
گنجان آبادی والے علاقے | |
---|---|
اسرائیل | لگ بھگ 8.3 ملین (بشمول مقبوضہ علاقے) |
ریاستہائے متحدہ | 106,839- 500,000 |
روس | 100,000 (80,000 in Moscow) |
بھارت | 40-50,000 |
کینیڈا | 21,320 |
مملکت متحدہ | 11,892 – 50,000 |
آسٹریلیا | 15,000 |
جرمنی | 10,000 |
زبانیں | |
زیادہ تر جدید عبرانی، اور عربی، روسی، انگریزی، فرانسیسی، امہری، رومانیائی، ہسپانوی، جارجیائی، ترکی، یدیش، لاڈینو، یوکرینی، آرامی، آرمینیائی، فارسی بھی۔ | |
مذہب | |
اکثریت یہودیت، اور اقلیت اسلام، مسیحیت، دروز، سامری، بہائیت، بدھ مت |
19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں یورپ اور مشرق وسطی سے وسیع پیمانے پر یہودی قبائل کی ہجرت اور اس کے بعد ماضی قریب میں شمالی افریقا، مغربی ایشیا، شمالی امریکا، جنوبی امریکا ، سابقسوویت ریاستیں اور حبشہ سے بہت بڑی تعداد میں یہودی لوگوں کی ہجرت نے بہت سارے ثقافتی عناصر کو متعارف کروایا ہے اور اسرائیلی ثقافت پر ایک گہرا اثر ڈالا ہے۔ اسرائیلی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اسرائیلی نسل سے تعلق رکھتے ہوں خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں۔ ریاستہائے متحدہ امریکا، روس (ماسکو میں اسرائیل کے باہر سب سے زیادہ یہودی آباد ہیں۔ )، بھارت، کینیڈا، برطانیہ ، یورپ اور دیگر علاقوں میں اسرائیلی آباد ہیں۔اسرائلی آبادی کا تقریباً 0 فیصد حصہ بیرون میں آباد ہے۔[3]
آبادی
ترمیمسنہ 2013 تک اسرائیل کی آبادی 8 ملین تھی۔ جس میں حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 75.3 فیصد (یہودی)، 20.7 فیصد غیر یہود عرب قوم اور 4 فیصد دیگر اقوام ہیں۔[4] اسرائیل کی سرکاری مردم شماری میں مقبوضہ علاقوں[5] کے اسرائیلی باشندگان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ (اسرائیل اس کو متنازع تسلیم کرتا ہے)۔ یہودا و سامرا علاقہ میں اسرائیلی آبادکاری میں 280,000 باشندے ہیں[5] تو وہیں 190,000 مشرقی یروشلم میں[5] اور 20,000 سطح مرتفع گولان میں رہتے ہیں۔[6]
70.3 فیصد یہودی اسرائیل میں پیدا ہوئے ہیں، ان میں زیادہ تر اس ملک میں دوسری یا تیسری نسل ہے۔ اور باقی یہودی مہاجرین ہیں۔ ان مہاجرین میں 20.5 فیصد یورپ و امریکا سے، 9.2 فیصد ایشیا، افریقا اور مشرق وسطی عظمی سے ہیں۔[4] تقریباً نصف سے زیادہ اسرائیلی یہودی یورپ کے یہودی نسل سے آئے مہاجرین کی اولاد ہیں۔ اور تقریباً اتنی ہی تعداد وسط ایشیا، ترکی، ایران اور عرب ممالک کے مہاجرین کی اولاد و اخلاف کی ہے۔ 200,000 سے زائد حبشی اور ہندوستانی یہود کے اخلاف ہیں۔[7]
اسرائیل کی دو سرکاری زبانیں عبرانی زبان اور عربی زبان ہیں۔ عبرانی وہاں کی بنیادی اور اہم زبان ہے اور جمہور آبادی اس کو بولتی ہے۔ جبکہ عربی اقلیت کی زبان ہے جسے عرب اور مزراحی یہودی بولتے ہیں۔ انگریزی زبان اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور جمہور آبادی اپنی دوسری زبان کا درجہ دیتی ہے اور بولتی ہے۔ دوسری بولی جانے والی زبانوں میں روسی زبان، یدیش زبان، ہسپانوی زبان، امہری زبان، آرمینیائی زبان، رومانیائی زبان اور فرانسیسی زبان شامل ہیں۔[8]
گذشتہ دہائیوں میں 650,000 سے 1,300,000 یہودیوں نے ہجرت کی ہے۔[9] یہ ایک رجحان ہے جسے عبرانی میں یریدہ (yerida) کہتے ہیں۔ ان کی ہجرت کی وجوہات مختلف تھیں مگر عمومی طور پر سیاسی اور معاشی وجہوں سے یہ ہجرتیں کی گئیں۔بیرون اسرائیل لاس اینجلس وہ جگہ جہاں سب سے زیادہ اسرائیلی بسے ہوئے ہیں۔
نسلی اور مذہبی گروہ
ترمیماسرائیل کے اہم مذہبی فرقے اور نسلی گروہ مندرجہ ذیل ہیں:
یہود
ترمیمسی بی ایس نے سنہ 2010 میں اسرائیلیوں کے مادر وطن کا مندرجہ ذیل ڈاٹا دیا ہے۔
پیدائشی ملک | بیرون
میں پیدا ہوئے |
اسرائیل
میں پیدا ہوئے |
کل | % |
افریقا | 315,800 | 572,100 | 887,900 | 15.4% |
الجزائر/تونس | 43,200 | 91,700 | 134,900 | 2.3% |
ارجنٹائن | 35,500 | 26,100 | 61,600 | 1.1% |
ایشیا | 201,000 | 494,200 | 695,200 | 12.0% |
بلغاریہ/یونانہ | 16,400 | 32,600 | 49,000 | 0.9% |
جمہوریہ چیک/سلواکیہ/ہنگری | 20,000 | 45,000 | 64,900 | 1.1% |
مصر | 18,500 | 39,000 | 57,500 | 1.0% |
ایتھوپیا | 81,600 | 38,600 | 110,100 | 1.9% |
یورپ، دیگر | 27,000 | 29,900 | 56,900 | 1.0% |
یورپ/امریکا/اوقیانوس | 1,094,100 | 829,700 | 1,923,800 | 33.4% |
فرانس | 41,100 | 26,900 | 68,000 | 1.2% |
جرمنی/آسٹریا | 24,500 | 50,600 | 75,200 | 1.3% |
بھارت/پاکستان | 17,600 | 29,000 | 46,600 | 0.8% |
ایران/افغانستان | 49,300 | 92,300 | 141,600 | 2.5% |
عراق | 62,600 | 173,300 | 235,800 | 4.1% |
اسرائیل | — | 2,246,300 | 2,246,300 | 39.0% |
لاطینی امریکا، دیگر | 26,900 | 17,000 | 43,900 | 0.8% |
لیبیا | 15,800 | 53,500 | 69,400 | 1.2% |
مراکش | 153,600 | 339,600 | 493,200 | 8.6% |
شمالی امریکا/اوقیانوس | 90,500 | 63,900 | 154,400 | 2.7% |
دیگر | 6,700 | 11,300 | 18,000 | 0.3% |
دیگر | 13,100 | 9,700 | 22,800 | 0.4% |
پولینڈ | 51,300 | 151,000 | 202,300 | 3.5% |
رومانیا | 88,600 | 125,900 | 214,400 | 3.7% |
سویت یونین | 651,400 | 241,000 | 892,400 | 15.5% |
شام/لبنان | 10,700 | 25,000 | 35,700 | 0.6% |
کل | 1,610,900 | 4,124,400 | 5,753,300 | 100.0% |
ترکی | 25,700 | 52,500 | 78,100 | 1.4% |
مملکت متحدہ | 21,000 | 19,900 | 40,800 | 0.7% |
یمن | 28,400 | 111,100 | 139,500 | 2.4% |
عربی بولنے والی اقلیت
ترمیمسنہ 1948 کے نکبہ کے دوران میں بہت سارے فلسطینی اسرائیل کے حدود کے اندر ہی رہ گئے۔ یہ اسرائیل میں عربی بولنے والوں کا سب سے بڑا گروہ ہے اور اور تہذیبی طور پر اسرائیل کے عرب نژاد باشندے ہیں۔ اسرائیل میں عرب نژاد باشندوں میں سب سے بڑی تعداد اہل سنت مسلمانوں کی ہے اور 9 فیصد مسیحی ہیں۔[10]
2013 کے ڈاٹا کے مطابق اسرائیل میں عرب نژاد باشندوں کی تعداد 1,658,000 تھی۔ یعنی کل آبادی کا 20.7 فیصد۔[4] اس میں 209,000 فیصد لوگ (عرب اسرائیل آبادی کا 14 فیصد) مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں۔ اور فلسطینی مردم شماری میں ان کو شامل کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مشرقی یروشلم کی 98 فیصدفلسطینی کے پاس یا تو اسرائیلی رہائش ہے یا پھر اسرائیل کی شہریت ہے۔.[11]
نقبی بدو
ترمیماسرائیل کے عربی باشندوں میں بدو بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی بدو ملک کے شمالی علاقے میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر گاؤں یا قصبوں میں۔ اور صحرائے نقب میں جو رہتے ہیں وہ یا تو نیم خانہ بدوش ہیں یا غیر تسلیم شدہ بدوی گاؤں میں رہتے ہیں۔ سنہ 1999 میں 110,000 بدو نقب میں، 50,000 گلیل میں اور 10,000 اسرائیل کے وسطی علاقوں میں رہتے ہیں۔[12] سنہ 2013 تک نقبی بدو کی تعداد 200,000-210,000 کے درمیان میں تھی۔[13][14][15]
دروز
ترمیماسرائیلی دروز بھی اسرائیلی آبادی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ سنہ 2006 کے آخر تک ان کی آبادی تقریباً 117,500 تھی۔[16] دروز کی مکمل آبادی انتداب فلسطین میں ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد اسرائیلی شہری بن گئے۔
مارونی
ترمیمتقریباً 7,000 مارونی مسیحی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر گلیل میں، پھر حیفا، ناصرہ اور یروشلم میں رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ اسرائیل کے حمایتی لبنانی ہیں جو سابق فوجی ہیں۔ وہ اور ان کا خاندان جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضہ کے دوران میں لبنان سے آگئے تھے۔ ان میں علاقائی گلیلی شعبہ سے بھی ہیں جیسے جیش۔
قبطی مسیحی
ترمیماسرائیل میں قبطی مسیحی شہریوں کی تعداد تقریباً 1,000 ہے۔
آرامی
ترمیمستمبر 2014 میں حکومت اسرائیل نے سینکڑوں مسیحیوں کو ”آرامی“ نسلی شناخت دی۔ یہ شناخت سادی خلول ریشو کی قیادت میں اسرائیل میں آرامی مسیحی فاؤنڈیشن-آرام اور یونانی راسخ الاعتقاد کلیسیا کے فادر جبرائیل نضاف اور میجر ایہاب شلایان کی قیادت والی اسرائیلی مسیحی بھرتی فورم کی سات برس کی جد و جہد کے بعد ملی۔ آرامی نسلی شناخت اب یونانی راسخ العتقاد کلیسیا، مشرقی کاتھولک کلیسیا، سریانی کاتھولک کلییا اور سریانی راسخ الاعتقاد کلیسیا سمیت اسرائیل میں موجود تمام سریانی مشرقی مسیحی کلیسیا کو اپنے احاطہ میں لے لیگی۔[17][18][19]
آرمینیائی
ترمیماسرائیل میں تقریباً 4,000 آرمینیائی نژاد باشندے ہیں۔ ان میں زیادہ تر یروشلم میں رہتے ہیں۔ اور باقی آرمینیائی محلہ، تل ابیب، حیفا اور جافا میں رہتے ہیں۔ ان کے سارے مذہبی امور یروشلم کے آرمینیائی محب وطن اور یروشلم، حیفا اور جافا کے دیگر کلیسیاؤں کے مطابق ہوتے ہیں۔ حالانکہ قدیم شہر (ہروشلم) کے آرمینیائی باشندوں کے اسرائیلی شناختی کارڈ ہے اور ان کے پاس اردن کا پاسپورٹ ہے۔[20]
آشوری
ترمیماسرائیل میں تقریباً 1,000 آشوری قوم کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر یروشلم اور ناصرہ میں رہتے ہیں۔ آشوری آرامی زبان زبان بولتے ہیں۔ آشوری میں مشرقی مسیحیت کی اقلیت جو قدیم بین النہرین کے اخلاف بھی شامل ہیں۔ قدیم سریانی راسخ الاعتقاد کلیسا ‘‘ مانیسٹری آف سیینٹ مارک‘‘ یروشلم میں واقع ہے۔ اسرائیل میں مشرقی آشوری کلیسا کے ماننے واے بھی رہتے ہیں۔
ادیگی قوم
ترمیماسرائیل میں چند ہزار کی تعداد میں ادیگی قوم بھی رہتی ہے۔ ان میں زیادہ تركفر كما(2000) اور ریحانیہ (1000) میں آباد ہیں۔ دیگی قوم کے دو گاؤں سطح مرتفع گولان میں ہیں۔ ادیگیوں کو دروزیوں کی طرح ایک مقام ملا ہوا ہے۔ مرد ادیگی اپنے رہنما کے حکم پر فوج میں بھرتی ہونے کے پابند ہیں جبکہ عورتوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
سامری
ترمیمسامری لیونت کا ایک مذہبی نسلی گروہ ہے ۔ نسلی طور پر وہ اسرائیل کے ان باشندوں کے اخلاف ہیں جن کا تعلق قدیم اسیری بابل سے لے کر موجودہ زمانے کی ابتدا تک کے قدیم سماریہ سے ہے۔
2007 تک ان کی تعداد تقریباً 712 تھی۔ ان میں نصف حولون اور باقی نصف جبل جرزیم میں رہتے ہیں۔ حولون والوں کے پاس اسرائیلی شہریت ہے جبکہ جبل جرزیم والے قریہ لوزہ میں رہتے ہیں اور اسرائیلی فلسطینی دوہری شہریت ہے۔
افریقی عبرانی اسرائیلی
ترمیمافریقی عبرانی اسرائیلی یروشلم کا ایک مذہبی گروہ ہے جس کے ارکان کا ماننا ہے کہ وہ اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل میں سے کسی کی اولاد ہیں۔ ان میں زیادہ تر (5000) افراد دیمونا میں رہتے ہیں اور ایک چھوٹا گروہ عراد، اسرائیل، متسبی رمون اور طبریہ میں بھی آباد ہے۔ ان میں کچھ خود کو یہودی مانتے ہیں۔ لیکن اسرائیلی انتظامیہ ان کی یہودیت سے منکر ہے۔ ان کی مذہبی رسومات بھی یہودیوں کے مرکزی دھارے سے میل نہیں کھاتی ہیں۔[21] یہ گروہ، جن میں افریقی-امریکی بھی شامل ہیں، 1960 کی دہائی میں شکاگو، الینوائے میں رہتے تھے، پھر لائیبیریا کی طرف منتقل ہوئے اور کچھ برسوں کے بعد اسرائیل میں آ بسے۔
قفقازی
ترمیماسرائیل میں کچھ مہاجرین سابق سوویت اتحاد جیسے تاتاری، آرمینیائی اور جارجیائی کے غیر سلاوی نسلی برادری کے افراد بھی ہیں ۔
مشرقی یورپی
ترمیماسرائیل میں سوویت ریاستوں کے غیر یہودی مہاجرین ہیں، جن میں زیادہ تر زیرا اسرائیل ( یہودیوں کی اولاد]] جو روسی، یوکرینی، مولودیوی اور بیلاروسی ہیں اور جن کو کسی یہودی کا پوتا ہونے پر یا کسی یہودی سے شادی کرنے کی بنا پر اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں سوویت میں پڑھنے گئے عرب اسرائیلیوں سے شادی کر کے روسی اور یوکرینی عورتیں اسرائیل کی طرف ہجرت کر کے وہاں کی ہو رہیں۔ سلاوی نسل کے کل 300,000 باشندے اسرائیل میں موجود ہیں۔
فن لینڈی
ترمیمحالانکہ اسرائیل میں زیادہ تر فن لینڈی یا تو فن لینڈ کے یہود ہیں یا ان کی اولاد ہیں۔ ریاست کی آزادی سے قبل سنہ 1940 ء میں مسیحیوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہجرت کر کے آ بسا تھا۔ اصلی فنلینڈی مہاجرین اسرائیلی مسافروں کے ساتھ آگئے تھے اس لیے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ فنلینڈی مسیحی اسرائیلیوں (عبرانی بولنے والے)نے 1971 میں یاد ہاشمونا( 8 کی یادگار)کے نام سے یروشلم میں ایک ‘‘موشاف‘‘ قائم کیا تھا۔
ویتنامی
ترمیمویتنامی نسل کے لوگ 200 سے 400 کے درمیان میں ہیں۔ ان میں زیادہ تر 1976 اور 1979 میں اس وقت آئے جب اسرائیلی وزیر اعظم میغانیم نے ان کو سیاسی پناہ دی۔ اسرائیل میں رہنے والے ویتنامی نسل کے لوگ اسرائیلی دفاعی فوج میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ موجودہ وقت میں اکثریت غوش دان میں رہتی ہے۔ یہ اسرائیل کے وسط میں ایک علاقہ ہے۔ اور کچھ لوگ حیفا، یروشلم اور اوفاکیم میں بھی آباد ہیں۔[22][23]
غیر ملکی ملازمین
ترمیماسرائیل میں کچھ غیر ملکی ملازمین اور اسرائیل میں پیدا ہوئے ان کی اولادیں بھی آاد ہیں۔ ان میں فلپائن، نیپال، نیئجیریا، سینیگال، رومانیہ، چین، قبرص، ترکی، تھائی لینڈ]] اور لاطینی امریکا کے ملازمیں ہیں۔
غیر شہری
ترمیمافریقی پناہ گزیں
ترمیماسرائیل میں افریقی پناہ گزینوں کی تعداد اور ان کا مرتبہ تنازع کا شکار رہا ہے۔ تا ہم یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ کم از کم 16000 پناہ گزین ارتریا، سوڈان، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا اور آئیوری کوسٹ کے ہیں جو اسرائیل میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ 2011 میں وائی نیٹ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ صرف تل ابیب میں 40000 کی تعداد رہتی ہے جو شہر کی آبادی کا 10 فیصد ہے۔ ایک بڑی تعداد شہر کے جنوبی علاقے میں رہتی ہے۔ کچھ افریقی لوگ اسرائیل کے جنوبی شہر جیسے ایلات، عراد اور بئر السبع میں بھی آباد ہے۔
غیر ملکی ملازمین
ترمیماسرائیل میں وقتی ویزا پر رہ رہے ملازمین کی تعداد تقریباً 300,000 ہے۔ وہ کھیتی باڑی اور صنعت میں ملازم ہیں۔ ان میں زیادہ تر چین، تھائی لینڈ، فلپائن، نائجیریا، رومانیہ اور لاطینی امریکا کے رہنے والے ہیں ۔
دیگر پناہ گزین
ترمیمتقریباً 100 سے 200 پناہ گزین بوسنیا و ہرزیگووینا، کوسووہ، کردستان اور شمالی کوریا کے ہیں جو اسرائیل میں رہتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر افراد کو اسرائیل کی شہریت مل چکی ہے۔
اسرائیلی بیرون اسرائیل
ترمیمایسا نہیں ہے کہ ہجرت صرف اسرائیل کی طرف ہوئی ہے، کچھ ایسے بھی افراد ہیں جنھوں نے اسرائیل سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پناہ لی ہے۔ ان میں زیادہ تر ریاستہائے متحدہ امریکا، کینیڈا اور مملکت متحدہ گئے ہیں۔ ایک تخمینہ ہے کہ 330,000 اسرائیل میں پیدا ہوئے اسرائیلی جن میں 230,000 یہود ہیں، غیر ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔[24] تعداد میں اختلاف ان لوگوں کی وجہ سے ہے جنھوں نے اسرائیل کی جانب ہجرت کی مگر پھر اپنے وطنوں لوٹ گئے۔ ان کو شمار کرنا بھی ایک دشوار امر ہے۔
کئی برسوں تک اسرائلی مہاجرین کا مستند ڈاٹا غیر موجود تھا۔[25] اسرائیلی منتشر آبادی کے ماہر سماجیات جے۔ گولڈ نے ان شماریات کو یکجا کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ”صہیونیت ایک منصوبہ جس کے تحت یہودیوں کی گھر واپسی کی تحریک چلائی گئی- ایسے میں اگر لوگ اپنے آبائی وطن یعنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بستے ہیں تو ایک نظریاتی اور ڈیموگرافک مسئلہ ہے۔“[26] اسرائیل سے باہر کی طرف ہجرت کی اہم وجوہات میں تحفظ، اقتصادی پابندیاں، اقتصادی خصوصیات، اسرائیلی حکومت کی طرف سے مایوسی اور اسرائیلیوں کی زندگی میں مذہب کی ضرورت سے زیادہ دخل اندازی ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Statistical Abstract of Israel 2015"۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2018
- ↑ My Promised Land، by Ari Shavit، (London 2014)
- ↑ Gold Eric، Omer Moav (2006)، Brain Drain From Israel (Brichat Mochot M'Yisrael) (بزبان العبرية)، Jerusalem: Mercaz Shalem – The Shalem Center, The Social-Economic Institute، صفحہ: 26 ۔
- ^ ا ب پ [1]، Monthly Bulletin of Statistics, CBS
- ^ ا ب پ "Palestinians shun Israeli settlement restriction plan"۔ BBC۔ 25 نومبر 2009۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 دسمبر 2010
- ↑ United Nations (1 اکتوبر 2007)۔ Yearbook of the United Nations 2005۔ United Nations Publications۔ صفحہ: 524۔ ISBN 978-92-1-100967-5۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2018
- ↑ http://www.cbs.gov.il/reader/shnaton/templ_shnaton.html?num_tab=st02_23x&CYear=2005
- ↑ "Language." Frommer's۔ 8 مارچ 2016.
- ↑ Andrew I. Killgore."Facts on the Ground: A Jewish Exodus from Israel" Washington Report on Middle East Affairs, مارچ 2004, pp.18-20
- ↑ http://www.cbs.gov.il/statistical/arab_pop03e.pdf
- ↑ "Selected Statistics on Jerusalem Day 2007 (Hebrew)"۔ مرکزی ادارہ شماریات، اسرائیل۔ 14 May 2007۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2018
- ↑ The Bedouin in Israel: Demography آرکائیو شدہ 26 اکتوبر 2007 بذریعہ وے بیک مشین وزارت خارجہ (اسرائیل) 1 July 1999
- ↑ "Arrests at protest over Israel's Bedouin plan"۔ Al Jazeera English۔ 1 December 2013۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2014
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2018
- ↑ "Behind the Headlines: The Bedouin in the Negev and the Begin Plan"۔ Israeli Ministry of Foreign Affairs۔ 4 November 2013۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2014
- ↑ Table 2.2 آرکائیو شدہ 28 جنوری 2012 بذریعہ وے بیک مشین, Statistical Abstract of Israel 2007, No. 58.
- ↑ "Israeli Christians Officially Recognized as Arameans, Not Arabs - Israel Today | Israel News"۔ 07 مارچ 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2018
- ↑ Israel recognizes Aramean minority in Israel as separate nationality - Haaretz - Israel News | Haaretz.com
- ↑ http://www.israelhayom.com/site/newsletter_article.php?id=20169
- ↑ Joyce M. Davis. Jerusalem’s Armenian Quarter. Catholic Near East Welfare Association.
- ↑ Martina Könighofer (2008)۔ The New Ship of Zion: Dynamic Diaspora Dimensions of the African Hebrew Israelites of Jerusalem۔ LIT Verlag Münster۔ صفحہ: 12۔ ISBN 978-3-8258-1055-9۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولائی 2018۔
The African Hebrew Israelites do not practice Judaism according to mainstream Jewish tradition and have not been accepted as Jews by the Israeli authorities.
- ↑ "Front page Current Affairs Embassy Honorary Consulates Services Team Finland Finland in Israel History Finnish associations About Finland Links Feedback Contact Front page > Finland in Israel > Finnish associations Finnish Associations"۔ Ministry for Foreign Affairs of Finland۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2014
- ↑ Ann Landers (7 February 1997)۔ "Readers Recall Heroic War Efforts"۔ NYT۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2014
- ↑ "4. MIGRATION FROM ISRAEL" (PDF)۔ JPPI۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2014
- ↑ Henry Kamm. "Israeli emigration inspires anger and fear;" New York Times 4 January 1981
- ↑ Stephen J. Gold. The Israeli Diaspora; Routledge 2002, p.8