باب:حدیث
حدیث حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے، تحدیث کے معنی ہیں:خبر یا بات چیت، اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد وہ روایت جس میں جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی قول یا عمل بیان ہوا ہو ۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے قبل عرب حدیث بمعنی اخبار (خبردینے) کے معنی میں استعمال کرتے تھے، مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث سے تعبیر کرتے تھے، اسی لیے مشہور نحوی الفراء کا کہنا ہے کہ حدیث کی جمع احدوثہ اور احدوثہ کی جمع احادیث ہے، لفظ حدیث کے مادہ کو جیسے بھی تبدیل کریں اس میں خبر دینے کا مفہوم ضرور موجود ہو گا، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وجعلناہم احادیث، فجعلناہم احادیث، اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا، فلیاتو حدیث مثلہ،بعض علما کے نزدیک لفظ حدیث میں جدت کامفہوم پایا جاتاہے، اس طرح حدیث قدیم کی ضد ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:- المراد بالحدیث فی عرف الشرع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،وکانہ ارید بہ مقابلۃ القرآن لانہ قدیم شرعی اصطلاح میں حدیث سے وہ اقوال واعمال مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں، گویا حدیث کا لفظ قرآن کے مقابلہ میں بولاجاتاہے،اس لیے کہ قرآن قدیم ہے اور حدیث اس کے مقابلہ میں جدید ہے، اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں المراد بالحدیث فی عرف الشارع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف الی ما حدث بہ عنہ بعد النبوۃ من قولہ وفعلہ واقرارہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اقوال کو حدیث کا نام دیا ہے،آپ ہی نے یہ اصطلاح مقرر فرمائی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابوہریرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی شفاعت کی سعادت کس کو نصیب ہوگی آپ نے جوابًا فرمایا ابو ہریرہ سے پہلے کو ئی شخص مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا کیونکہ وہ طلب حدیث کے بہت حریص ہیں۔ حديث
الکافی یا اصول کافی ایک شیعہ مجموعۂ احادیث ہے جو ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی المتوفى 328ھ / 329ھ، نے مرتب کیا۔امام کلینی نے اس کتاب کو اہل بیت کے شاگردوں اور شیعہ و اہل سنت کے اہم اور معتبر راویوں کی روایات کی بنیاد پر مرتب کیا۔ اس کتاب کو تالیف کرنے میں تقریبًا بیس سال لگے ہیں۔ مجموعہ میں کل 16,199 روایات ہیں۔امام کلینی نے اس کتاب کو لکھنے کے لئے اپنے زمانہ کے تقریبًا تمام علمی اور حدیثی مراکز جیسے ایران، شام، عراق اور سعودی عرب کا سفر کیا یہاں تک کہ بزرگوں سے حدیث کو سننے اور حاصل کرنے میں قریہ اور دیہات کا سفر کیا اس لحاظ سے اسلامی تعلیمات اوراحکام خصوصا مکتب تشیع کی تعلیمات کو استنباط اوراستخراج کرنے کے لئے سب سے پہلا اور اہم منبع سمجھا جاتاہے۔ نسخہ موطأ امام مالک، مراکش 3
ابو زكریا يحییٰ بن شرف الحزامی النووی الشافعی (631ھ - 676ھ / 1233ء - 1277ء) امام نووی کے نام سے معروف ہیں، يحيىٰ بن شرف نووی 19 سال کی عمر میں دمشق آئے ، وہاں مختلف اساتذہ سے علم حاصل کیا ، پھر مختلف مدارس کی مسند ہائے درس کو زینت بخشی ، تصنیف و تالیف کا نہایت وقیع کام کیا جن میں صحیح مسلم کی شرح ، تہذہب الاسماء و اللغات ، کتاب الاذکار اور ریاض الصالحین جیسی نہایت اہم کتابیں ہیں جن سے ہزاروں نہیں ، لاکھوں افراد فیضیاب ہوتے اور رہمنائی حاصل کرتے ہیں ۔ 28 سال دمشق میں گزرنے کے بعد امام نووی اپنے مولد نویٰ میں واپس تشریف لے گئے اور اسی سال 676ھ میں کچھ عرصہ بیمار رہ کر وفات پاگئے ۔ لیکن اپنی علمی خدمات کی وجہ سے علمی دنیا میں زندہ جاوید ہوگئے۔
|