خواجہ نقر الدین شال پیر اور ان کے بھائیوں نے چشت افغانستان سے اپنے خاندان عزیز و اقارب قبرستان اور وطن کو خیرباد کہہ کر صرف خلقِ خدا کی بھلائی و ہدایت کی غرض سے انجان سرزمین کا رخ کیا اور بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل گئے، گزٹیر آف بلوچستان میں آپ کا نام خواجہ ناصر الدین درج ہے اور شجرہ جات میں خواجہ نقر الدین لکھا ہے، البتہ مقامی لوگوں میں آپ شال پیر اور نوگزہ بابا کے نام سے مشہور ہیں۔ خواجہ نقر الدین شال پیر کی اولاد آج بلوچستان اور سندھ میں کثیر تعداد میں آباد ہے، حضرت عمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ ( دنیا کا ہر حسب و نسب موت سے محو و نابود ہو جاتا ہے مگر میرا حسب و نسب موت سے کبھی محو و نابود نہ ہوگا) -[1]

سید خواجہ نقرالدین مودودی چشتی بمقام کوئٹہ چھاونی
سید خواجہ نقرالدین مودودی چشتی بمقام کوئٹہ چھاونی

تاریخی پس منظر ترمیم

مختصر تاریخ ترمیم

کوئٹہ کا قدیم اور ابتدائی نام کوٹہ تھا چونکہ قدیم شہر مٹی کے ٹیلے کے اوپر واقع تھا، کوٹہ پشتو زبان کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں مٹی کا ڈھیر، افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے دور میں اس کو شال کوٹ کا نام دیا گیا اور یہ رفتہ رفتہ تبدیل ہوتے انگریز دور میں یہ کوئٹہ مشہور ہوا سید خواجہ نقرالدین مودودی چشتی شال پیر 600 برس قبل چشت افغانستان سے ہجرت کر کے اسی ٹیلے کے قریب آباد ہوئے اور وفات کے بعد اس سے کچھ فاصلے پر آپ کو دفنایا گیا، یہ علاقہ اب فوجی چھاونی میں شامل ہے کوئٹہ کا قدیم نام شال کوٹ تھا۔ اس کے توسط سے آپ کا لقب شال پیر بابا مشہور ہوا۔ آپ کا مزار اقدس پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ چھاونی کے علاقہ قلعہ میری خان قلات کے قریب واقع ہے، آپ کی آمد کے وقت کوئٹہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ آپ کے والد محترم کا نام نصرالدین خواجہ ولید[ مودودی چشتی ہے، جن کا مزار چشت ھرات، افغانستان میں ہے، آپ یہاں کے مقامی لوگوں میں نوگزہ بابا کے نام سے مشہور ہیں، جو آپ کے قبر کی طوالت کی وجہ سے ہے، خواجہ نقر الدین مودودی چشتی کے تاریخ ولادت و وفات کے بارے میں درست علم نہیں ہے مگر آپ کے بھائی خواجہ ابراہیم یکپاسی[ کا تاریخ ولادت 1359ء اور تاریخ وفات 1455ء بتائی گئی ہے، جس کے حساب سے آپ کی عمر 96 برس بنتی ہے، آپ کے دوسرے بھائی خواجہ نظام الدین علی کی تاریخ ولادت 1308ء اور وفات 1405ء بتائی گئی ہے، جس کے حساب سے آپ کی عمر 97 برس بنتی ہے، آپ کے فرزند حضرت خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے مقام پر دفن ہیں-[2][3]

ہجرت ترمیم

چونکہ آپ کے چشت سے کوئٹہ ہجرت کے وقت کا درست تعین نہیں ہو سکتا مگر آپ تینوں بھائیوں کے ولادت اور وفات کے تواریخ کے حساب سے یہ افغانستان کے بادشاہ امیر تیمور کا زمانہ تھا، جو تیمور لنگ کے نام سے بھی مشہور تھے (پیدائش: ـ 1335ء، وفات: ـ 1405ء) امیر تیمور کا شمار سکندر اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے تین سب سے بڑے فاتح سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے فتوحات کا سلسلہ اس کی موت تک پورے 37 سال جاری رہا۔ 1374ء میں کاشغر اور 1379ء میں خوارزم پر قابض ہو گیا۔

1381ء میں ہرات کے خاندان کو اطاعت پر مجبور کیا اگلے سال نیشاپور اور اس کے نواح پر قبضہ کیا اور1383ء میں قندھار اور سیستان پر قبضہ کیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا 1391ء میں تیمور نے خان توقتمش کے خلاف لشکر کشی کی 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا 1395ء کو توقتمش کو ایک اور شکست فاش دی۔ دسمبر 1398ء میں دہلی کو فتح کرنے بعد وہ میرٹھ گیا 1399ء میں سمرقند سے روانہ ہوا اور تبریز پہنچا 1402ء انقرہ کو فتح کیا 18 فروری 1405ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی لاش کو سمرقند لاکر دفنایا گیا۔ امیر تیمور کے زمانے میں کوئٹہ اور چشت ہرات ایک ہی ملک کا حصہ تھے- خواجہ نقرالدین شال پیر اور اس کے بھائیوں نے اسی دور میں چشت افغانستان سے بلوچستان ہجرت کی تھی،[4]

جاگیر ترمیم

تاریخ شال کوٹ ترمیم

کوئٹہ کا قد یم نام شال کوٹ تھا۔ اس کے توسط سے آپ کا لقب شال پیر بابا مشہورہوا، احمد شاہ درانی کی دورے سلطنت ( 1747ء سے 1823ء) تک افغانستان پر رہی۔ 1765 کا زمانہ آیا سکھوں نے پنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ ایک مہم پر خان آف قلا ت میر نصیر خان بھی احمد شاہ ابدالی کے ہمرا سکھوں کی سرکوبی کے لیے پنجاب کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس کامیاب مہم سے واپسی کے بعد احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان کو ہڑند اور داجل کے علا قے بطور انعام دیے۔ اسی زمانے میں جب احمد شاہ ابدالی مشرقی ایران کی مہم سے واپس ہوئے تو اس نے میر نصیر خان کی والدہ بی بی مریم کو کوئٹہ کا علا قہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ یہ آپ کی شال ہے ( شال کا مطلب دوپٹہ ہوتا ہے)۔ اسی دن سے کوئٹہ کا نام شال کوٹ مشہور ہوا اور یہ ریاست قلات کا حصہ بن گیا۔ اس سے قبل کوئٹہ صوبہ قندھار کا ایک ضلع تھا،

علاقہ دشت و میان غنڈی تا شیخ ماندہ ترمیم

غنڈی فارسی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی چھوٹی پہاڑی کے ہیں ـ اور میان غنڈی دو پہاڑیوں کے درمیان میں کا علاقہ ہے، یہ علاقہ ہزار گنجی نیشنل پارک کوئٹہ سے شروع ہوکر ہوائی گرونڈ دشت کمبیلان پر مشتمل تھا جس کا رقبہ ہزاروں ایکڑ تھاـ یہ علاقہ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت نے ایر پورٹ کے لیے سادات سے جبراً لے لی اور وہاں پر ایر پورٹ تعمیر کی قیام پاکستان کے بعد اس ایرپورٹ کو ترک کیا گیا اور نیا ایرپورٹ بمقام سمنگلی ایربیس بنایا گیا مگر سادات کی زمین ان کو واپس نہ کی گئی اور اس رقبہ پر بلوچ اقوام بزور طاقت قابض ہو گئے سادات مودودی چشتیہ کی جاگیر موضع شیخ ماندہ سے شروع ہو کر تیرہ سنگ میل واقع مستونگ روڈ تک پھیلا ہوا تھا جس میں میان غنڈی، ہزار گنجی، کوہ چلتن، موضع خشکابہ سادات، موضع شمو زائی، شادین زائی، سردار کاریز، موضع خلی، گلزار، موضع کرانی، کرخسہ، بروری، شیخ ماندہ تا سمنگلی کے علاقے شامل تھے اور آج بھی یہ ریکارڈ لینڈ ریونیو میں موجود ہے اور تحصیل کوئٹہ میں زیرکار ہے ـ

سادات کی زیادہ اراضی بلوچ اقوام نے غصب کی جس کی موجودہ مثال موضع خشکابہ سادات میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں بلوچستان کے نوابوں سرداروں منسٹرز سے لے کر عام لینڈ مافیا تک سب قبضہ گری میں مصروف نظر آتے ہیں، بلکہ خود حکومت پاکستان نے بھی نیو سبزی منڈی، نیو بس اڈا، نیو ٹرک اڈا، ہزار گنجی نیشنل پارک کے نام پر ہزاروں ایکڑ رقبہ غصب کیاـ 1223ھ بمطابق 1808ء کا ایک سند جاری شدہ از خان آف قلات محراب خان جس میں تحریر ہے کہ آز حد تپہ سفیتک یعنی حد تیرہ میل تا حد کرخسہ بروری سادات کی ملکیت میں دست اندازی سے اقوام ریسانی کو منع کیا گیا ہے ـ[5]

کوہ چلتن ترمیم

چلتن کا شمار بلوچستان کے سب سے اونچی چوٹیوں میں ہوتا ہے ـ ہزار گنجی اور چلتن کے پہاڑی علاقے ایک دوسرے کے ساتھ واقع ہیں۔ جنگلی حیات کے لیے کوہ چلتن کو محفوظ کر دیا گیا ہے ہزار گنج چلتن نیشنل پارک پاکستان کا ایک خوبصورت نیشنل پارک ہے۔ چلتن پہاڑ کے نام کے بارے میں کئی من گھڑت کہانیاں مشہور ہیں مگر جو بات تاریخ سے ثابت ہے وہ یہ کہ خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ کے اولاد میں سے ان کے تین نواسوں نے چھ سو برس قبل چشت ہرات افغانستان سے سوئے بلوچستان ہجرت کی جن میں سے ایک بھائی خواجہ نظام الدین علی نے پشین منزکی میں سکونت اختیار کی دوسرے بھائی خواجہ ابراہیم یکپاسیؒ نے مستونگ بلوچستان کا رخ کیا اور وہاں سکونت اختیار کی اور تیسرے بھائی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا نے کوئٹہ میں سکونت اختیار کی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کو افغانستان کے بادشاہوں کی طرف سے وادی کوئٹہ کا مغربی حصہ دیا گیا خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے فرزند خواجہ ولی مودودی چستی کرانیؒ کے مقام پر آباد ہوئے کرانی اسی جاگیر کے اندر واقع ہے کوہ چلتن کو چلتن کا نام خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے دور میں ملا اس کے علاوہ میان غنڈی اور دشت کو بھی اسی دور یہ نام ملے کیونکہ یہ بھی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے جاگیر کا حصّہ تھے چشت ہرات افغانستان میں بھی چلتن [6] کے نام سے ایک پہاڑ مشہور ہے کیونکہ یہ اولیاء چشت شریف سے ہجرت کر کے آئے تھے اور چشت شریف میں بھی اسی نام سے بالکل اسی مشباہہت کی ایک چوٹی موجود ہے اس لیے سادات چشتیہ نے اپنے سابقہ وطن اور اجداد کی محبت میں اس پہاڑ کو بھی چلتن کا نام دیا چونکہ چشت اور کرانی کے موسم بھی ایک جیسے ہیں اس لیے دونوں ہم نام پہاڑوں کے درخت اور پودے بھی ایک جیسے ہیں ،[7]

قدیم اسناد ترمیم

مضامین بسلسلہ

تصوف

 

تصاویر ترمیم

شجرہ ترمیم

شجرہ جات ترمیم

شجرہ نسب خواجہ نقرالدین مودودی چشتی ترمیم

اولاد ترمیم

  • سید خواجہ نقرالد ین چشتی مودودی المعروف شال پیر بابا  تقریباً دور حیات ( 1421ء )
  • سیدخواجہ ولی مودودی چستی کرانی رحمت اللہ علیہ  تقریباً دور حیات ( 1470 ء)
  • سید خواجہ میر شہداد مودودی چشتی کرانی  تقریباً دور حیات (1519 ء )
  • سید قاسم شاہ مودودی چشتی کرانی  تقریباًﹰ دور حیات ( 1558 ء)

حوالہ کتب ترمیم

  1. کتاب کشف المحجوب سید علی بن عثمان ہجویریؓ ترجمہ حکیم قاری حبیب احمد صفہ۔393
  2. بحوالہ ڈسٹرکٹ گزٹیرز آف بلوچستان ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو وال یوم 9/12
  3. [1] تذكار يكپاسى
  4. بحوالہ کتاب خواجہ براہیم یک پاسی تحریر پروفیسر سید احمد سعید ہمدانی،
  5. لینڈ روینیو ریکرڈ تحصیل کويٹہ
  6. [2] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ geography.kermanedu.ir (Error: unknown archive URL) کوہ چھلتن واقع چشت افغانستان
  7. [3] در چشت شریف یک کوہ بنام چهلتن یاد می کنند
  8. سجرہ موروثی سادات کرانی

حوالہ جات ترمیم

 
Referenced from Book Khwaajah Maudood Chisti
  • [4] Chishti Tariqa
  • [5]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ soofie.org.za (Error: unknown archive URL) Soofie(Sufi)
  • en:Chishtia Chishti Order
  • [6]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iranibook.com (Error: unknown archive URL) خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامہ هاي مشايخ چشتيہ
  • [7] طريقۀ چشتيہ در هند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقہ بہ فرهنگهاى اسلامى و ايرانى‎
  • ( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری )
  • تذکرہ سید مودودی ادارہ معارف اسلامی لاہور
  • سیر ال اولیاء
  • مرا تہ الاسرار
  • تاریخ مشائخ چشت
  • سفینہ ال عارفین
  • تذکرہ غوث و قطب
  • شجرہ موروثی سادات کرانی