بہاولپور
بہاولپور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سرائیکی وسیب (جنوبی پنجاب) کے ضلع بہاولپور میں ایک شہر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 408,395 نفوس پر مشتمل ہے۔ بہاولپور پاکستان کا گیارھواں بڑا شہر ہے۔ يہ ملتان سے 90 کلوميٹر، لاہور سے 401 کلوميٹر، اسلام آباد سے 700 کلومیٹر اور کراچی سے850 کلوميٹر دور ہے۔بہاولپور برصغیر کی پہلی ریاست تھی جس نے پاکستان میں الحاق کا اعلان کیا تھا اور بطور ریاست بہاولپور صوبائی حیثیت کے ساتھ پاکستان میں الحاق ہوا تھا لیکن ون یونٹ کے اختتام کے بعد اس کی صوبائی حیثیت ختم کر دی گئی اور صوبہ پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔
بہاولپور | |
---|---|
تاریخ تاسیس | 1748 |
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان [1] |
دار الحکومت برائے | |
تقسیم اعلیٰ | تحصیل بہاولپور |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 29°23′44″N 71°40′20″E / 29.395555555556°N 71.672222222222°E |
رقبہ | 237.2 مربع کلومیٹر |
بلندی | 461 میٹر |
آبادی | |
کل آبادی | 762111 (مردم شماری ) (2017)[2] |
مزید معلومات | |
اوقات | پاکستان کا معیاری وقت |
رمزِ ڈاک | 63100 |
فون کوڈ | 062 |
قابل ذکر | |
باضابطہ ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
جیو رمز | 1183880 |
درستی - ترمیم |
ابتدائی تاریخ
ترمیمریاست بہاولپور مختلف قدیم معاشروں کا گھر تھی۔ بہاولپور کا علاقہ حالیہ تاریخ میں مغلیہ سلطنت کے صوبہ ملتان کا حصہ تھا۔ اس میں وادی سندھ کی تہذیب کے کھنڈر کے ساتھ ساتھ قدیم بدھ مت کے مقامات جیسے قریبی پٹن مینارہ بھی شامل ہے۔ برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر الیگزینڈر کننگھم نے بہاولپور کے علاقے کی شناخت مہابھارت کی یودھیا سلطنتوں کے گھر کے طور پر کی۔ بہاولپور کے قیام سے پہلے، خطے کا بڑا شہر اُچ شریف کا مقدس شہر تھا – جو 12ویں اور 17ویں صدی کے درمیان ایک علاقائی میٹروپولیٹن مرکز تھا جو 12-15 ویں صدی میں تعمیر کیے گئے مسلم صوفیا کے لیے وقف تاریخی مزارات کے مجموعے کے لیے مشہور ہے۔ خطے کا مقامی انداز۔
تاریخی تعمیر نو
ترمیمبہاولپور 1748ء میں نواب بہاول خان اول نے قائم کیا تھا، جب وہ شکار پور، سندھ سے اُچ کے آس پاس کے علاقے میں ہجرت کر گئے تھے۔ بہاولپور نے قبیلہ کے دار الحکومت کے طور پر ڈیراوڑ کی جگہ لے لی۔ یہ شہر ابتدا میں افغانستان اور وسطی ہندوستان کے درمیان تجارتی راستوں پر ایک تجارتی چوکی کے طور پر پروان چڑھا۔
درانی حملے
ترمیم1785ء میں، درانی کمانڈر سردار خان نے سندھ کے میاں عبدالنبی کلہوڑہ کی طرف سے بہاولپور شہر پر حملہ کیا اور اس کی کئی عمارتیں تباہ کر دیں۔ بہاولپور کا حکمران خاندان، قریبی اُچ کے رئیسوں کے ساتھ، قلعہ ڈیراوڑ میں پناہ لینے پر مجبور ہوا، جہاں انھوں نے مزید حملوں کو کامیابی سے پسپا کیا۔ حملہ آور درانی فورس نے نذرانہ یا خراج کے طور پر 60,000 روپے قبول کیے، حالانکہ بہاول خان کو بعد میں راجپوت ریاستوں میں پناہ لینی پڑی کیونکہ افغان درانیوں نے قلعہ دیرواڑ پر قبضہ کر لیا تھا۔ بہاول خان اُچ کے راستے قلعہ فتح کرنے کے لیے واپس آیا اور بہاولپور پر دوبارہ کنٹرول قائم کر لیا۔
شاہی ریاست
ترمیمصادق محمد خان پنجم نے بہاولپور کے آخری نواب کے طور پر خدمات انجام دیں۔حکمران عباسی خاندان قریبی قلعہ ڈیراوڑ کو اپنی طاقت کا روایتی گڑھ سمجھتا تھا۔بہاولپور کی مرکزی لائبریری کا تعلق ریاستی دور سے ہے۔ریاست بہاولپور کی بنیاد 1802ء میں نواب محمد بہاول خان دوم نے درانی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد رکھی تھی اور اس کی بنیاد شہر میں تھی۔
برطانوی اثر و رسوخ میں اضافہ
ترمیم1866ء میں تخت بہاولپور کی جانشینی کے بحران نے ریاست میں برطانوی اثر و رسوخ کو واضح طور پر بڑھایا۔ بہاولپور کو 1874ء میں میونسپلٹی کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ بہاولپور کے نواب نے 1887ء میں نور محل محل میں ایک سرکاری تقریب میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی منائی۔ 1901ء میں شہر کی آبادی 18,546 تھی۔
دوسری عالمی جنگ
ترمیم1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر، بہاولپور کا نواب کسی شاہی ریاست کا پہلا حکمران تھا جس نے ولی عہد کی جنگی کوششوں کے لیے ریاست کے اپنے مکمل تعاون اور وسائل کی پیشکش کی۔
پاکستان میں شامل ہونا
ترمیماگست 1947ء میں برصغیر سے برطانوی انخلاء کے بعد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک میں شامل ہو جائیں۔ آزادی کے بعد، شہر کی اقلیتی ہندو اور سکھ برادریوں نے بڑے پیمانے پر ہندوستان ہجرت کی، جب کہ ہندوستان سے مسلمان مہاجرین شہر اور آس پاس کے علاقے میں آباد ہوئے۔
معیشت
ترمیمبہاولپور میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زراعت ہے۔ یہاں پر اگائی جانے والی اہم فصلوں میں گندم، گنا، کپاس،چاول اور سورج مکھی وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں پر بہت سے پھلوں کے باغات موجود ہیں۔ پھلوں میں آم، کھجور اور امرود ایسے پھل ہیں جو بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ سبزیوں میں پیاز، ٹماٹر، بندگھوبی اور آلو کثرت سے اگائے جاتے ہیں۔
تعلیم
ترمیمبہاولپور میں بہت سی تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ جن میں صادق پبلک اسکول، گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی، قائداعظم میڈیکل کالج اور اسلامیہ یونیورسٹی اہم ہیں۔ اس شہر کی شرح خواندگی بہت زیادہ ہے۔ اس وجہ سے ملک بھر سے طالب علم یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس شہر میں ایک قدیم کتب خانہ "سینٹرل لائبریری بہاولپور" کے نام سے موجود ہے جس میں ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتب خانہ پنجاب کا دوسرا بڑا کتب خانہ ہے اور پاکستان کے قدیم ترین کتب خانوں میں سے ایک ہے جو اس وقت کی ریاست بہاولپور کے نواب کی کاوشوں سے بنایا گیا ہے۔ ایس ای کالج 1886 میں قائم ہونے والا کالج نوابوں اور انگریزوں کا مشترکہ یاد گار ہے۔ اس کالج سے کئی مشہور ہستیوں نے تعلیم حاصل کی۔
بہاولپور کے مشہور اور قدیم تعلیمی اداروں کی فہرست:
مشاہیر
ترمیم- علی احمد رفعت
- گل بہار بانو
- بتول رحمانی
- سید مسعود حسن شہاب دہلوی
- پروفیسر ڈاکٹر شاہد حسن رضوی
- کمار پاشی
- ڈاکٹر عصمت درانی
- منور جمیل قریشی
- راشد محمود
- کمار پاشی
- اصغر بہاولپوری
- سمیع اللہ خان
- مسرت کلانچوی
- دلشاد کلانچوی
- فاروق انور عباسی
- اسماعیل بھٹہ
- حبیب اللہ بھٹہ
- مولانا مسعود اظہر
- فاروق اعظم ملک
- سیمیں درانی
- مطیع اللہ خان
- راشد عزیز ہاشمی
- اسلم ملک
- نجیب جمال
قائد اعظم سولر پارک
ترمیمقائداعظم سولر پارک ایک زیر تعمیر پاور اسٹیشن ہے۔ جو سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے چائنہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ اس کی مکمل تکمیل پر یہ 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے سولر پارک کا درجہ حاصل کر لے گا ۔[3] ابھی اس پاور اسٹیشن کے پہلے مرحلے میں صرف 400 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جسے نیشنل گرِڈ میں شامل کیا جاتا ہے۔ کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اس کی مزید توسیع کا کام روک دیا گیا ہے تاہم رقبے کے لحاظ سے اب بھی یہ دنیا کا سب سے بڑا سولر پارک ہے۔
سینٹرل لائبریری
ترمیمعمارت کا سنگِ بنیاد مؤرخہ 8 مارچ 1924 کو دو شخصیات، ارل آف ریڈنگ سر روفس ڈینیل آئزک، جو ہندوستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا بھی تھے اور امیر بہاولپور نے رکھا تھا۔ ان دنوں بہاولپور ریاست پر نواب سر صادق محمد خان پنجم کی حکمرانی تھی۔ بہاولپور کی سینٹرل لائبریری کی عمارت انتہائی خوبصورت ہے ۔
بہاولپور کے اخبارات
ترمیمبہاولپور شہر سے کئی اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میں سے مشہور درج ذیل ہیں
- اُمیدیں ٹائمز
- صادق الاخبار
- صدائے پاکستان
- ڈیلی رہبر
- بہاولپور پوسٹ
- ڈیلی نامہ بہاولپور (2016ء/ چیف ایڈیٹر میاں عاطف اکرم عباسی)
ڈرنگ اسٹیڈیم کھیل
ترمیمبہاولپور میں ایک کھیل کا اسٹیڈیم بھی موجود ہے جسے کرکٹ کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے کھیلوں ہاکی فٹ بال تیراکی اسکوایش ٹینیس بیڈ مینٹن والی بال ٹیبل ٹینس کبڈی اور اتھلیٹکس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا نام بہاولپور کے دوسرے وزیر اعظم سر جون ڈرنگ کی نسبت سے رکھا گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت یہ پاکستان کا واحد مکمل اسٹیڈیم تھا جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور ایشیا کا دوسرا بڑا اسٹیڈیم ہے۔ اس کے بالکل سامنے بہت بڑا zoo بھی ہے۔ جو پاکستان بھر میں مشہور ہے۔ بہاولپور کی اپنی کرکٹ ٹیم بہاولپور سٹیگز کے نام سے جانی جاتی ہے۔
یہ مغربی پاکستان کا پہلا اسٹیڈیم ہے جسے انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سال 55-1954 میں بھارتی کرکٹ ٹیم کا پاکستان میں دوسرے ٹیسٹ میچ کا انعقاد ڈرنگ اسٹیڈیم بہاولپور میں کیا گیا تاہم یہ واحد انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ ہے جس کی میزبانی اس گراؤنڈ میں کی گئی۔ اس کے علاوہ سال 2002 تک ڈرنگ اسٹیڈیم میں 155 فرسٹ کلاس اور 23 لسٹ اے کیٹگری کے میچ منعقد ہو چکے ہیں۔
ویکی ذخائر پر بہاولپور سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
چولستان۔ بہاولپور کے قریب بہت بڑا صحرا ہے جس کی سرحد انڈیا سے ملتی ہے۔ جس کو روہی بھی کہا جاتا ہے۔ ادھر قلعہ دراوڑ ہے جہاں ہر سال انٹرنیشنل جیپ ریلی ہوتی ہے۔
بہاولپور کے دروازے
ترمیمنواب صادق محمد خان اول عباسی کے بیٹے نواب بہاول خان عباسی اول نے 1774ءمیں دریائے ستلج کے جنوب میں تین میل کے فاصلے پر ایک نئے شہر بہاول پور کی بنیاد رکھی اور ریاست کے وسط میں ہونے کی بنا پر اسے ریاست کا دار الخلافہ قرار دیا گیا، شہر بہاولپور کے 200سال قدیم دروازے ریاستِ بہاولپور کے پرشکوہ ماضی کی عکاسی کرتے ہیں۔ عباسی فرمانروا نے شہر کے اطراف 7شاہی دروازے تعمیر کروائے تھے ان بلند و بالا دروازوں کی تعمیر کا حقیقی مقصد شہر کے خارجی اور داخلی راستوں پر حفاظتی نظر رکھنا تھا
7دروازوں میں صرف فرید گیٹ اپنی اصل جگہ پر موجود ہے جبکہ دیگر 6 دروازوں کی تعمیر چند سال قبل دوبارہ عمل میں لائی گئی جس کا مقصد لوگوں کو شہر کی تاریخ سے روشناس کروانا اور بہاولپور کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا تھا ان دروازوں میں ملتان روڈ پر واقعہ "بوہڑ گیٹ" کی تعمیر ابھی بھی نامکمل ہے اور آخری تکمیلی مراحل میں ہے۔
موجودہ "فرید گیٹ" پہلے "بیکانیری دروازے" کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس دروازے کی خارجی سمت "ریاست بیکانیر" کیطرف جاتی تھی اس طرح "احمد پوری گیٹ" "ڈیراوری گیٹ" "ملتانی گیٹ" بھی اپنی سمت کی وجہ سے ان ناموں سے منصوب کیے گئے اور ان دروازوں میں ریاست کی فن تعمیر کی عکاسی نمایاں نظر آتی ۔
"بوہڑ گیٹ" جہاں دورِ ریاست میں لکڑی کا خوبصورت کام کیا جاتا تھا بوہڑ گیٹ اپنی قدامت کے لحاظ سے بھی خاصا مشہور تھا اس کی وجہ شہرت یہاں بوہڑ کے درخت تھے جو زمانے کی شکست ور ریخت کی نذر ہو گئے۔
بہاولپور کے قدیم اور تاریخی دروازوں میں سے ایک "موہری گیٹ" ہے اس کے نام کے حوالے سے یہاں کے لوگوں میں کچھ تضاد پایا جاتا ہے اس گیٹ پر ریاستِ بہاولپور کی موہر(مہرُ) کا نشان تھا جس کی وجہ سے اس کا نام موہری(مہرُی) گیٹ پڑا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان دروازوں کے نشانات ختم ہونے کے سبب اس کا نام موری گیٹ بولا، لکھا اور پڑھا جانے لگا جبکہ دروازے کو دوبارہ تعمیر کرنے کے بعد لوکل گورنمنٹ نے بھی اس کی تصیح کرتے ہوئے ابھی تک اس کا پُرانا اصلی نام اس پر آویزاں نہیں کیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ابھی تک اس کے درست نام سے ناواقف ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمنگار خانہ
ترمیمفہرست گنجان شہر بلحاظ آبادی
ترمیم- صوبائی دار الحکومت
- وفاقی دار الحکومت
- ڈویژنل دار الحکومت
درجہ | شہر | آبادی (مردم شماری 2017ء)[4][5][6] |
آبادی (1998 کی مردم شماری)[4][7][6] |
تبدیلی | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 14,916,456 | 9,339,023 | +59.72% | سندھ |
2 | لاہور | 11,126,285 | 5,209,088 | +113.59% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 3,204,726 | 2,008,861 | +59.53% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 2,098,231 | 1,409,768 | +48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 2,027,001 | 1,132,509 | +78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 1,970,042 | 982,816 | +100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,871,843 | 1,197,384 | +56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد | 1,734,309 | 1,166,894 | +48.63% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 1,009,832 | 529,180 | +90.83% | وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد |
10 | کوئٹہ | 1,001,205 | 565,137 | +77.16% | بلوچستان |
11 | بہاولپور | 762,111 | 408,395 | +86.61% | پنجاب، پاکستان |
12 | سرگودھا | 659,862 | 458,440 | +43.94% | پنجاب، پاکستان |
13 | سیالکوٹ | 655,852 | 421,502 | +55.60% | پنجاب، پاکستان |
14 | سکھر | 499,900 | 335,551 | +48.98% | سندھ |
15 | لاڑکانہ | 490,508 | 270,283 | +81.48% | سندھ |
16 | شیخوپورہ | 473,129 | 280,263 | +68.82% | پنجاب، پاکستان |
17 | رحیم یار خان | 420,419 | 233,537 | +80.02% | پنجاب، پاکستان |
18 | جھنگ | 414,131 | 293,366 | +41.17% | پنجاب، پاکستان |
19 | ڈیرہ غازی خان | 399,064 | 190,542 | +109.44% | پنجاب، پاکستان |
20 | گجرات | 390,533 | 251,792 | +55.10% | پنجاب، پاکستان |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ بہاولپور في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2024ء
- ↑ ناشر: ادارہ شماریات پاکستان — تاریخ اشاعت: 3 جنوری 2018 — Block Wise Provisional Summary Results of 6th Population & Housing Census-2017 — اخذ شدہ بتاریخ: 27 جنوری 2021
- ↑ Quaid-e-Azam Solar Park: Solar energy’s 100MW to arrive in April - The Express Tribune
- ^ ا ب
- ↑
- ^ ا ب "PAKISTAN: Provinces and Major Cities"۔ PAKISTAN: Provinces and Major Cities۔ citypopulation.de۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2020
- ↑ "AZAD JAMMU & KASHMIR AT A GLANCE 2014" (PDF)۔ AJK at a glance 2014.pdf۔ AZAD GOVERNMENT OF THE STATE OF JAMMU & KASHMIR۔ 11 February 2017۔ 30 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2020