کوچنی یہود یا ملاباری یہود بھارت میں یہودیت کا سب سے قدیم گروہ ہے۔ شاید ان کی اصل سلیمان کے دور حکومت سے ملتی ہے۔ [3][4] کوچن میں یہود جنوبی ہند کے مملکت کوچن میں آباد ہوئے تقریباً 12ویں صدی میں آباد ہوئے۔ یہ علاقہ اب صوبہ کیرلا کا حصہ ہے۔ [5][6][7] یہودی سیاح بنیامین تطیلوی نے کولم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کے “وہاں کے جزیروں اور شہروں میں ہزاروں اسرائیلی آباد ہیں۔ وہاں کے باشندے کالے ہیں اور یہودی بھی ہیں اور ثانئی الذکر زیادہ اچھے ہیں۔ وہ شریعت موسوی اور پیغمبروں کو جانتے ہیں۔ کچھ حد تک تلمود اور ہلاخاہ سے بھی آشنا ہیں“[8] بعد میں ان لوگوں کو ملاباری یہود کے نام سے جانا گیا۔ انھوں نے 12ویں اور 13ویں صدی میں کیرالا میں عبادت گاہیں تعمیر کیں۔ [9][10] وہ ملیالم زبان کا ایک لہجہ ملیالم یہودی زبان بولتے ہیں۔ سنہ 1492ء میں جزیرہ نما آئبیریا سے نکالے جانے کے بعد چند سفاردی یہودی سولہویں صدی میں کوچن کی طرف آگئے۔ ان کو پردیسی یہود کہا گیا۔ یورپی یہود نے یورپ سے تجارتی تعلقات برقرار رکھے اور ان کی لسانی صلاحیتیں کارآمد تھیں۔ حالانکہ سفاردی یہودی ہسپانوی یا۔یہودی ہسپانوی بولتے تھے مگر ہندوستان میں انھوں نے ملاباری یہود سے یہودی۔ملیالم زبان سیکھ لی۔ [11] انیسویں صدی میں عربی نزاد یہود نے بھی جنوبی ہند کا رخ کیا اور پردیسی یہود میں شامل ہو گئے۔ ان کو بغدادی یہود کہا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] 1947ء میں بھارت کو آزادی ملنے کے بعد 1948ء میں اسرائیل بھی ایک ریاست کی حیثیت سے وقوع پزیر ہوا اور متعدد یہود نے علیا پر عمل کرتے ہوئے 1950ء کی دہائی میں کیرالا سے اسرائیل ہجرت کی۔ اس کے برعکس زیادہ تر سفاردی یہود آسٹریلیا یا دولت مشترکہ ممالک میں سے کسی ملک کی طرف چلے گئے۔ اسی طرح جس طرح کوچن میں ہندستانی انگریز آباد ہو گئے تھے۔ [12]

کوچنی یہود
گنجان آبادی والے علاقے
اسرائیل7,000–8,000 (تخمین زدہ)[1]
بھارت100+[2]
زبانیں
روایتاً، ملیالم یہودی زبان، اب اسرائیل میں اکثرعبرانی زبان
مذہب
یہودیت
متعلقہ نسلی گروہ
پردیسی یہود
بھارت میں سفاردی یہود
بنے اسرائیل
بغدادی یہود
مار توما مسیحی
ملیالی

ان کے اکثر کنیسہ اب بھی کیرالہ میں وجود رکھتے ہیں۔ بہت  ہی کم ایسے تھے جو بکے  یا انھیں تبدیل کیا گیا۔ 20 صدی کے وسط تک جو کنیسہ بچ رہے  ان میں سے صرف پردیسی کنیسہ میں اجتماع ہوتا ہے اور جہاں سیاح اس کو بطور تاریخی مقام دیکھنے آتے ہیں۔ ائرناکولم میں بچے کچے کوچن یہود کا ایک اور کنیسہ ہے جو دکان بھی ہے۔ کچھ کنیسہ کی حالت اب خستہ ہے ایک کو تو منہدم کر کے دو منزلہ مکان بنایا گیا۔ چندہمنگلم کا کنیسہ 2006میں پھر سے مرمت کرکے کیرالہ یہودعجائب گھر بنایا گیا en:Cochin Jews#cite note-13 – پراور کے کنیسہ  کو بھی پھر سے کیرالہ یہود ی عجائب گھر بنایا گیا

en:Cochin Jews#cite note-14en:Cochin Jews#cite note-15

تاریخ ترمیم

 
68 ء میں یہودی یاتریوں کی کوچن ہندستان آمد
 
یوسف ربان کو حقوق دینے کے دستاویز ساسنام کے خاکہ سے اخذکردہ لکھائی

پ م جسّے لکھتا ہے کہ  یہ مانا جاتا تھا کہ سب سے اول یہود جوہندستان میں آئے وہ  سلیمان علیہ السلام علیہ السلام کے زمانے کے ملاح تھے۔[13] یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ 587ق م میں یروشلم کے محاصرہ میں ہیکل سلیمانی کی پہلی تباہی کے بعد کچھ جلاوطن ہندستان آئے۔[14] جبکہ  70ء میں یروشلم محاصرے کے دوران ہیکل سلیمانی کی دوسری مرتبہ تباہی کے بعد ایسی تحریریں ملی جو کئی یہودی آبادکاروں کی  قدیم  کوچنی بندرگاہ کوڈنگلور میں آمد کی تصدیق کرتی ہیں۔[15] یہ شہر اس برادری کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ فرڈیننڈ لکھتا ہے کہ یہ  ہندستان میں یروشلم کا متبادل ہے۔[16] کاٹز اور گولڈبرگ نے  بھی ان شہروں کے علامتی  تعلق کا مشاہدہ کیا۔[17]

1768 ء میں  ایمسٹرڈیم کے ٹوبیاس بواس نے کوچنی ربی یهحذکل راکھبی سے گیارہ سوالات پوچھے، ان میں سے ان کے کوچنی بنیاد اور آمداور ہندستان میں ان کی آبادکاری کی مدت کے حوالے سے بھی تھے۔ربی یهحذک کا تحریری جواب  دیا(جو اب مرضباکھر لائبریری مینوخ  MS:4238 میں ہے) وہ لکھتا ہے  ہیکل سلیمانی کی دوسری تباہی کے بعد(خدا کرے  ہماری زندگی میں ہی دوبارہ تعمیر اور  قائم ہو)۔ یوم العالم کے سال 3828 یعنی 68 ء  میں، تقریباً دس ہزار مرد و زن مالابار کے علاقے میں آئے اور چار جگہوں پر آباد ہوئے، کوڈنگلور، ڈشالور[18]، مدائے[19]اور پلوطہ[20]۔ اکثر یہ علاقے  کوڈنگلور میں ہی تھے  جو مگو دیرہ  پٹیناس اور سینگالی  کہلاتا ہے۔[21][22]

سلسلہ مضامین
یہودیت
 
    

باب یہودیت

سینٹ تھامس عیسیْ کے حواری، کے بارے مانا جاتا ہے ہے کہ اس نے  تبلیغ کے دوران میں ہندستان کا دورہ کیا۔[23] یہ ممکن ہے کہ بہت سے یہود جو عیسائی ہوگئے تھے وہ نصرانی یا سینٹ تھامس کے عیسائیوں میں جذب ہو گئے ہوں۔[24]نصرانی  عیسائیوں کی ذیلی  جماعت کنعانایہ   یہودی وراثت کی دعویدار ہے  اور  کوچینی یہود جیسے   مذہبی رسومات و  روایات کے بارے  جانی جاتی ہے۔[25]

کوچنی یہود کی تاریخ ہندستانی  حکمرانوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلق  پر مرکوز ہے۔ [26] ان کو خاص امتیاز ی حقوق کے قانون کو  تانبے کی تختیوں پر تدوین کی گیا، ان تختیوں کی تاریخ جسے ساثانام  کہتے ہیں البتہ متنازع ہے۔[27] ان پلیٹوں پر تاریخ 379 ق م کندہ کی گئی تھی[28][29] تاہم روایت یہی ہے کہ  1925ء میں ان پہ 1069 ء لکھا گیا۔[30] ہندستانی حکمرانوں نے یہودی  قائد  یوسف ربان کو کوچنی یہود پر شہزادہ کا درجہ دیکر  حکمرانی اور کرانگانور کی قریبی ریاست  انجووننم کی خراج اور 72 گھر تعمیر کرنے کے حقوق بھی دئے۔[31] ہندستانی راجا نے یہ حقوق ہمیشگی میں دئے جیساکہ اس وقت کہا جاتا (" جب تک دنیا اور چاند باقی رہیں گے")کہ بغیر شرائط آزادی سے رہیں  ، کنیسہ بنائیں اور جائدادیں رکھیں۔[32][33]برادری میں راجا ربان کیساتھ خاندانی ربط  پاکی اور امتیاز کی علامت سمجھا جاتا۔ اس کے  پیرو اس برادری کی قیادت کرتے رہے یہاں سولہویں صدی میں دو بھائیوں میں جن میں سے  ایک یوسف آزار تھا تنازع ہو گیا۔

 
کوچنی کالا یہودی پئوت رکھے ہوئے

قدیم ترین کوچنی یہودی کے قبر کے کتبے پر عبرانی لکھی ہے اور تاریخ 1269ء بتائی گئی جو چندامنگلم کنیسہ (تعمیر 1614 ء )[34]کے قریب دریافت ہوا۔اب جو عجائب گھر ہے۔[35] 1341 ء میں تباہ کن سیلاب کرانگانور بندرگاہ کو  مٹی سے بھر دیااور تجارت چھوٹی سی بندرگاہ  کوچی میں منتقل ہوئی – بہت سے یہود چار ہی سالوں میں وہاں منتقل ہوئے اور اپنا پہلا کنیسہ نئی برادری کے لیے بنا دیا۔[36]   مملکت 1500ء میں پرتگالی سلطنت نے  تجارتی مورچہ بنایا اور 1663ء تک  غالب طاقت رہا۔ پرتگالی یہود سے فرق روا رکھتے اگرچہ وہ ان سے تجارت بھی کرتے تھے۔ پرور میں 1615ء میں جس مقام پر کنیسہ بنایا گیا اسی مقام پر 1165ءمیں کنیسہ ہوا کرتا تھا۔ تقریباً تما م ہی برادری 1954ءمیں اسرائیل منتقل ہو گئی۔[37]

1524 ء میں مسلمان نے کالیکٹ (آج کل کوزہیکود۔ کلکتہ سے مغالطہ نہ ہو) کے حکمران کی پشت پناہی سے کرانگانور کے مالدار یہود پر حملہ کیا تاکہ ان کی کالی مرچ کی تجارت  میں برتری توڑی جائے۔یہود  جنوب کوچن ریاست کیجانب فرار ہوئے، وہاں کے شاہی خاندان (پرومپاداپو سواروپم )کی حفاظت اور پناہ لی، انھوں نے ان کے خراج معاف کیا اور شہری حقوق دئے۔[38]

مالاباری یہود نے مالا اور ایرناکولممیں اضافی کنیسہ بنائے۔آخر الذکر میں 1200ء میں بنائے گئے کدومبغم کنیسہ کو از سر نو 1790ء میں تعمیر کیا – اس کے ارکان کا ماننا تھا کہ یہیں پر تاریخی تانبے کی تختیاں دی گئیں۔1930ء اور 1940ء  کے عشروں میں  وہاں کا اجتماع 2000 ارکان تک جا پہنچا لیکن پھر وہ علیا کر گئے۔[39]

ایرناکولم میں1580ء میں بنایا گیا ٹھیکامبغم کنیسہ ازسر نو 1939ء میں تعمیر کیا گیا۔ کبھی کبھی اس کے اسرائیل سے آنے والے پرانے عبادتگزار  اس میں  عبادت کرتے رہے۔ 1998 ء  تک  اس کنیسہ کے عبادتگزار مدراس اور کیرلا میں رہنے والے پانچ یہودی خاندانوں کے ارکان ہوتے تھے۔[40]

یہودی سیاح  کا کوچن کا سفر ترمیم

کوچنی یہود کی درج ذیل  وضاحت16 ویں صدی کے ایک یہودی سیاح زکریا دھایری کی ہندستان کے سفر کی روداد سے لی گئی جو اس کی(سرکا شہر کے سفر کی یاداشتیں 1558ء) ہیں

میں نے یمن سے ہندستان کا سفر بہتر زندگی کی تلاش میں اختیار کیا– میں نے 22 دن بڑےسمندر میں گزارکرسرحد  کا رستہ اختیار کیا تو کالیکت کے شہر پر پہنچا، وہاں پہنچ کر جو میں نے دیکھا اس نے مجھے رنجیدہ کر دیا، اس شہر کے باسی تمام غیر ختنہ شدہ تھے اور   بت پرستی کے لئے اپنے مذہب سے  دستبردار ہو چکے تھے۔ شہر میں کوئی ایسا یہودی نہ تھا جس کے ساتھ میں بخوشی سیر و سفر کر سکتا۔ پھر میں وہاں سے بیزار ہوکر  کوچن شہر گیا، وہاں وہ کچھ ملا جو میرا من چاہتا تھا، ہسپانوی برادری جو یہودی نسل سے تھے دیگرمقامی اور جرمن نو مذہبوں کے [41]ساتھ وہ بھی بہت سالوں قبل مذہب بدل کر یہود ہوئے۔ [42]انھیں یہودی  ضابطوں اور روایات  پر عبور حاصل تھا وہ تورات کی احکامات کو تسلیم کرتے  اور اس کی سزائیں  جاری کرتے تھے میں ان مقدس اجتماعات میں تین ماہ رہا۔[43]

1660ء سے آزادی تک ترمیم

 
کوچن، کیرالا میں ایک پردیسی یہودہ

پردیسی یہود جنھیں گورے یہود بھی کہتے ہیں   16ویں صدی اور اس کے بعد  کوچن کے علاقے میں آباد ہوتے رہے، تبدیلی مذہب کی خلاف ورزی، مذہبی مظالم و دیگر اوامر کی وجہ سے جزیرہ نما آئبیریا سپین اور پرتگال سے جلاوطن ہوکراور کچھ فرار  ہوکر  ہالینڈچلے گئے جبکہ اکثر  مشرقی جانب سلطنت عثمانیہ گئے۔[حوالہ درکار]

اوران میں سے کچھ مزید آگے نکلے اور عرب مصالحہ  تاجروں کے پیچھے پیچھے جنوبی ہندستان پہنچ گئے۔ ان یہود کے سفاردی روایات تھے جبکہ لادینو (ہسپانوی یہودی بولی) زبان بولتے تھے،   وہ مالاباری یہودی طبقہ سے کافی مختلف تھے، مؤرخ مندلبالم کے مطابق ان دونوں طبقات میں چپقلش چلتی رہتی تھی۔[44] یورپی یہود کے  یورپ سے تجارتی تعلقات تھے اور وہ بین الاقوامی تجارتی زبانیں عربی، پرتگالی، ہسپانوی اور بعد میں ڈچ بھی جانتے تھے۔[45] یہ خصلتیں  انھیں معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرتی تھیں۔

جب پرتگالیوں  نے ریاست کوچن پر قبضہ کیا، اگرچہ ان میں کسی حد تک زبان اور ثقافت یکساں تھی انھوں نے  یہاں کے یہود کیساتھ امتیاز روا رکھا،   یوں پھر سے  یہود پرتگالیوں اور  ہسپانیوں(1580ء سے 1640ء  تک براہراست ہسپانوی تخت )کے زیر تسلط رہنے پر مجبور ہوئے۔

کوچن کے محاصرے کے دوران میں 1662ء میں پروٹسٹنٹ ڈچ نے پرتگالی حلیف کوچنی راجا اور سولہ سو ہندستانیوں کو قتل کر ڈالا، چنانچہ ڈچ  کے حلیف یہود کو مالاباریوں اور پرتگالیوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سال بعد ہی ہالینڈی ڈچوں کا محاصرہ کامیاب ہوا اورپرتگالیوں کو قتل کرنے کے بعد، اکثر  کاتھولک گرجوں کو مسمار کیا یا انھیں پروٹسٹنٹ گرجوں میں تبدیل کیا( حتی کہ اس گرجے کو بھی نہیں بخشا جہاں واسکوڈے گاما مدفون تھا) – یہود کو انھوں نے ہالینڈ میں پناہ دے رکھی تھی اس لیے تحمل مزاجی دکھائی( گوا کے اس وقت کے حالات کے بارے میں  گوا مہم جوئی دیکھیں)۔  انکا یہ اسی اثنا میں رویہ نیویارک میں پیٹر سطویوئسند کے زمانے کے ضد سامیت کے رویہ سے مختلف تھا  ۔

مالاباری یہود(جنہیں تاریخی طور پہ استعماری دور میں کالے یہود بھی کہا جاتا رہا  اگرچہ وہ  گندمی مائل رنگت کے تھے)نے کوچن میں سات کنیسہ بنوائے جس سے ان کی آبادی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔[حوالہ درکار]

پردیسی یہود (گورے یہود) نے ایک ہی کنیسہ، پردیسی کنیسہ تعمیر کیا۔ یہ  مالاباری یہود کے مقابل تعداد میں قلیل تھے۔ یہ دونوں طبقات دروں زواجی (برادری میں شادی)پہ عمل کرتے تا کہ  امتیاز قائم رہے، دونوں ہی طبقات  ایک دوسرے پر خصوصی  حیثیت اور برتری کے دعویدار تھے۔[46]

 
"ٹاؤن گورا یہود "، کوچن 1913ء

یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ  گورے یہود اپنے ساتھ کچھ میشخراریم ( افریقی یورپی مخلوط نسل کے آزاد کردہ غلام)  بھی لائے تھے۔ اگر چہ وہ آزاد تھے تاہم انکا انحطاط برادری میں نچلی  حیثیت پر کیا گیا۔ ان یہودیوں نے کوچنی یہود میں ایک تیسری اندرونی  ذیلی جماعت بنا ڈالی۔ میشخراریم لوگوں کو گورے یہود سے ازدواج اور   کنیسہ میں اگلی صف میں بیٹھنے  کی اجازت نہ تھی، یہ   طریقہ عیسائیوں کے نومذہب  عیسائیوں کے ساتھ چرچ میں  روا رکھے جانے والے طرزعمل کے بالکل مساوی تھا۔[حوالہ درکار]

20ویں صدی کے اوائل میں ابراہیم بارک سالم (1967ء۔1882ء) ایک نوجوان وکیل تھا  جو یہودی گاندھی کے  نام سے مشہور ہوا، وہ میشخراریم یہود کے خلاف تعصب اور امتیاز  کو مٹانے کے لیے کام کرتا رہا۔   ہندستانی قوم پرستی اور د صہیونیت سے متاثر ہوکر کوچنی یہود کے مابین تقسیم میں مفاہمت کی کوشش کی، [47] وہ ہندستانی قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ صہیونی بھی تھا۔[48] اس کا خاندان میشخراریم کی نسل سے تھا۔ یہ لفظ عبرانی میں آزاد کردہ غلام کے لیے اکثر اہانت آمیز انداز میں استعمال ہوا – سالم نے  کچھ وقت تک پردیسی کنیسہ کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کر  کے اس نسلی تعصب و امتیاز کے خلاف آواز اٹھائی۔ اسنے اس سماجی تعصب کے لیے ستیاگرہ کا بھی استعمال کیا۔ مندلبالم کے مطابق، 1930ء کے عشرے تک بہت سے ایسے سماجی   ممنوعات بدلتے معاشرے کے ساتھ ختم ہوتی گئیں۔[49]

کوچنی انجووننم یہود بھی ملایا(ملائیشیاء) کی جانب ہجرت کر گئے۔تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سریمبام، نیگری سمبیلان اور ملائیشیاء میں آباد ہوئے، سریمبام  میں کوچنی یہود کی نسل کا آخری فرد بنیامن میوہاشم  ہے۔

کوچنی  ، مدراسی اور بنے اسرائیلی یہود کے  مابین تعلقات ترمیم

 
1726ء میں سینٹ جارج قلعہ اور مدراس شہر کا نقشہ یہود کا مدفن واضح کرتے ہوئے، چہار برادر باغیچہ اور بارٹولومیو راڈریگز کامقبرہ
 
مدراس کے پردیسی یہودربی سلیمان حالیوی(مدراسی کنیسہ کا آخری ربی) اور اس کی بیوی ربیکہ کوہن

اگرچہ ہندستان  صریحاً یہودی برادریوں  کے لیے مشہور ہے جیسے  کلکتہ، نئی دہلی اور(بمبئی اور مضافات)میں کوچنی یہود اور بنے اسرائیل  تاہم کوچنی اور بنے اسرائیل کے درمیان میں روابط 19ویں صدی میں اپنے  عروج پر پہنچے۔ [50] مقامی بنے اسرائیل کے مؤرخ ہائم سموئیل کھیمار (1909ء۔ 1830ء) کے مطابق کوچن کے کئی نامور  گورے یہود کوچن سے بمبئی 1825ءمیں منتقل  ہوئے، جن میں  مائیکل، ابراہیم سرگؤن، داؤد  بروچ رہابی، ہاکہم سموئیل اور  جودہ  داود اشکنازی۔ انھوں نے  نہ صرف بنے اسرائیل اور ان کی اولادکے ذہن بنانے کی کوشش کی ، بلکہ ان بنے اسرائیل پر محنت کی جوالحاد کے زیر اثر اپنے آبا ءکے مذہب سے بھٹک گئے یعنی  ان کے پرانے مذہب کی تعلیم اور سب سے اعلیٰ ذات  کے تصور کو بحال کیا۔ داود رہابی اور اس کے پیرو ہاکہم سموئیل نے ریوندانہ میں مذہبی احیاءکی۔[51] اگرچہ  داود رہابی کو یقین تھا کہ بنے اسرائیل  یہود کی اولاد تھے، وہ انھیں مزید جانچنا چاہتا تھا، اس نے  انھیں پاک اور ناپاک مچھلیاں دیں  جس میں سے ان لوگوں نے یہ کہہ کر ہم نے کبھی  چھلکے اور پروں کے بغیر مچھلی نہیں کھائی  صرف پاک مچھلیاں ہی لیں۔جب وہ مطمئن ہوا تواس نے انھیں  یہودی مذہب کے اصول و عقائد سکھلائے،  جھراکتر، شپورکراور راجپرکر خاندانوں سے تین نوجوان بنے اسرائیلوں کو  اس نے بغیر ترجمہ عبرانی پڑھنا سکھایا۔[52] کہا جاتا ہے کہ داود رہابی کابنے اسرائیل میں کام کرنے کے دو یا تین سال بعد مقامی یہودی سردار کے ہاتھوں قتل ہوا۔   کوچن سے دوسرا ذی اثر آدمی  حاکم شیلومو سالم شورابی کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ یمنی یہودی نسب سے تھا، وہ بمبئی میں بنے اسرائیل کے  نئے قائم کردہ کنیسہ میں سو روپیہ سالانہ پر ملازم ہازن (قاری) تھا، اگرچہ  وہ  کتابوں کی جلد سازی کا کام بھی کرتا تھا، اس مشغلہ کے دوران میں اگر کوئی بنے اسرائیل کتابی مشکل عبارت سمجھانے کے لیے لے جاتا تو وہ بخوبی  اس کی مدد کرتا تھا۔ وہ ایک قاری، مبلغ، موہل اور شوچت کے قانون کا شارح تھا۔[53] اس نے اپنی برادری کی 18 سال خدمت کی اور 17 اپریل 1856ء کو فوت ہوا۔

1947ءکے بعد ترمیم

چین، گرجستان اور  ہندستان  ہی یوریشیا میں وہ علاقے ہیں جہاں  معقول یہودی آبادی کے باوجود سام مخالفت پنپ نہ سکی – ہندستان برطانوی استعماریت سے 1947ء میں آزاد ہوااور اسرائیل نے اپنی قومیت 1948ء میں قائم کی۔  تقسیم ہند کے دوران میں  جب زیادہ تر  توجہ جمہوری سیکولر ریاست بھارت  اور  جز نظریاتی  جمہوری ریاست پاکستان  پر تھی دریں اثناء ا کثر کوچی یہود متحدہ ہندستان سے ہجرت کر گئے۔ عام طور پہ ان یہودیوں نے نو وارد یہودی ریاست اسرائیل کی جانب علیا  کی۔اکثر مہاجرین نے نیواتم، شاہتر، یوول اور میسیلات  صہیون[54] کی موشاو (زرعی آبادکاری) کا حصہ بنے۔ جبکہ دیگر  بنے اسرائیل یروشلم میں کتامون ، بیرسبع، رملہ، دیمونا اور یرحم کے محلوں میں آباد ہوئے –[55] اخائر 20صدی میں  سابقہ کوچن یہود نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کیجانب بھی ہجرت  کی۔

کوچن  میں پردیسی کنیسہ میں اب بھی   عبادت ہوتی ہے اگرچہ یہودی بہت کم ہیں –زیادہ تر لوگ سیاح ہوتے ہیں جو اس جگہ کی بطور تاریخی مقام زیارت کرتے ہیں – 2008 ء  تک اس کنیسہ کی پروانہ فروشہ (ٹکٹ بیچنے والی) یاہے حالے گوا قابلِ زچگی آخری پردیسی  یہودہ رہ گئی تھی۔[56]

 
کوچنی یہودی جوڑا اسرائیل ہجرت کرنے کے بعد

روایات اور طریقۂِ زندگی ترمیم

 
1900ء میں کوچنی یہود

12 ویں صدی ء میں یہودی سیاح  بنیامین تطیلوی  نے کیرلہ کے مالاباری ساحل کے بارے لکھا تھا۔ " وہ موسوی قانون اور انبیا اور کچھ تلمود اور ہلاخاہ کوبھی جانتے تھے"[57]۔ یورپی  یہود نے کوچن یہودی برادری کو  خط لکھا کہ انھیں یہودی معیارسکھائیں۔

ممتاز یہودی فلسفی موسی بن میمون (1204ء۔1135ء)  نے لکھا،

حال ہی میں کچھ   خوشحال  لوگوں نے میری فقہ (قوانین) کا مجموعہ (مشنیٰ تورات)  خرید کر قاصدوں کے ذریعے سے تقسیم کروائے، یوں ان یہود اور تمام برادریوں  کا افقی دائرۂ  اور مذہبی زندگی وسیع تر ہوئے حتی کہ ہندستان تک مذہبی احیاء ہوا-[58]

1535ء کے صفد سے اطالیہ بھیجے گئے ایک خط  میں داود دل روسی نے لکھا  طرابلس کے یہودی تاجر نے اسے بتایا کہ شنگلی کے ہندستانی محلہ ( کوڈنگلور) میں بڑی یہودی آبادی تھی جو پرتگالیوں کے ساتھ کالی مرچ کی سرسری سی تجارت کرتی تھی۔ جہاں تک ان کی مذہبی  زندگی کا تعلق ہے تو وہ صرف  موسی بن میمون کی تفسیر جانتے اور تسلیم کرتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور  سند اور  روایتی قانون نہیں رکھتے۔[59] عصر موجودہ کے مؤرخ  ناتھن کاتذ کے مطابق جیرونا (اسپین)کے  ربی نیسم کوچنی یہود کے پاس گیا، انھوں نے اپنی دعائیہ کتب میں ان کے بارے اس کی لکھی نظم محفوظ رکھی ہے۔[60]کداؤمباغم کنیسہ میں بچوں اور بڑوں کی تورات اور مشناہ کی تعلیم کے لیے عبرانی مدرسہ موجود تھا۔[61]

یہودی دائرۃ المعارف کے مطابق(1906ء۔ 1901ء)

اگرچہ وہ آپس میں ایکساتھ کھاتے پیتے نہیں  اور نا ہی شادی کرتے ہیں،   کالے اور گورے یہود کا تقریباً ایک جیسے سماجی اور مذہبی روایات ہیں-ان کے ایک جیسے  عقائد ہیں ایک سے سفاردی رسومات ادا کرتے ہیں، ایک سے روزے رکھتے اور کھانے کھاتے ہیں، ایک سے لباس پہنتے  اور ایک سی ملیالم زبان بولتے ہیں،   مذہب پر سختی سے عمل پیرا ہونے میں دونوں طبقات یکساں  ہیں-[62]

مارٹین چمانہ کے مطابق  کوچنی یہود مذہبی اصولوں، ریاضت اور بائبلی یہودیت پر سخت گیر  عمل پیراہی، یہودی روایات و رسومات کے گرد اکھٹے ہوئے۔۔۔ یمن سے آئے ربی اور اساتذہ تورات کی لکھائی کے ذریعے عبرانی  سکھاتے۔[63]

کوچنی یہود کی صدیوں  پرانی  عبادتی دعا   پئیوتم اور ملیالم یہودی گیت تقریبات پر گاتے تھے[64] اور تلمود کی عورتوں کا کھلے عام گانے کی پابندی کول ایشا کو خاطر میں نہ لاتے۔[65][66][67]

کوچنی خاندانی نام ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "Jews from Cochin Bring Their Unique Indian Cuisine to Israeli Diners"، Tablet Magazine، by Dana Kessler, 23 اکتوبر 2013
  2. بھارتی مردم شماری 2001
  3. The Jews of India: A Story of Three Communities by Orpa Slapak. The Israel Museum, Jerusalem. 2003. p. 27. آئی ایس بی این 965-278-179-7۔
  4. Weil, Shalva. "Jews in India." in M. Avrum Erlich (ed.) Encyclopaedia of the Jewish Diaspora، Santa Barbara, USA: ABC CLIO. 2008, 3: 1204–1212.
  5. Weil, Shalva. India's Jewish Heritage: Ritual, Art and Life-Cycle, Mumbai: Marg Publications, 2009. [first published in 2002; 3rd edn] Katz 2000; Koder 1973; Menachery 1998
  6. Weil, Shalva. "Cochin Jews"، in Carol R. Ember, Melvin Ember and Ian Skoggard (eds) Encyclopedia of World Cultures Supplement، New York: Macmillan Reference USA, 2002. pp. 78-80.
  7. Weil, Shalva. "Cochin Jews" in Judith Baskin (ed.) Cambridge Dictionary of Judaism and Jewish Culture، New York: Cambridge University Press, 2011. pp. 107.
  8. The Itinerary of Benjamin of Tudela (ed. Marcus Nathan Adler)، Oxford University Press, London 1907, p. 65
  9. Weil, Shalva. From Cochin to Israel۔ Jerusalem: Kumu Berina, 1984. (Hebrew)
  10. Weil, Shalva. "Kerala to restore 400-year-old Indian synagogue"، The Jerusalem Post۔ 2009.
  11. Katz 2000; Koder 1973; Thomas Puthiakunnel 1973.
  12. Weil, Shalva. From Cochin to Israel، Jerusalem: Kumu Berina, 1984. (Hebrew)
  13. The Jews of Kerala، P. M. Jussay, cited in The Last Jews of Kerala، p. 79
  14. The Last Jews of Kerala، p. 98
  15. Katz 2000; Koder 1973; Thomas Puthiakunnel 1973; David de Beth Hillel, 1832; Lord, James Henry 1977.
  16. The Last Jews of Kerala، p. 102
  17. The Last Jews of Kerala، p. 47
  18. Place unidentified; possibly Keezhallur in Kerala State.
  19. Place unidentified; poss. Madayikonan in Kerala State.
  20. Place unidentified; poss. Palode in Kerala State.
  21. J. Winter and Aug. Wünsche, Die Jüdische Literatur seit Abschluß des Kanons، vol. iii, Hildesheim 1965, pp. 459-462 (German)
  22. A similar tradition has been preserved by David Solomon Sassoon، where he mentions the first places of Jewish settlement on the Malabar Coast as Cranganore, Madai, Pelota and Palur, which were then under the rule of the Perumal dynasty. See: David Solomon Sassoon, Ohel Dawid (Descriptive catalogue of the Hebrew and Samaritan Manuscripts in the Sassoon Library, London)، vol. 1, Oxford Univ. Press: London 1932, p. 370, section 268
  23. Thomas Puthiakunnel, (1973) "Jewish colonies of India paved the way for St. Thomas"، The Saint Thomas Christian Encyclopedia of India, ed. George Menachery, Vol. II.
  24. Thomas Puthiakunnel, (1973) "Jewish colonies of India paved the way for St. Thomas"، The Saint Thomas Christian Encyclopedia of India, ed. George Menachery, Vol. II.
  25. Weil, Shalva. "Symmetry between Christians and Jews in India: the Cnanite Christians and the Cochin Jews of Kerala," Contributions to Indian Sociology, 1982. 16(2): 175-196. Weil, Shalva. "'Symmetry Between Christians And Jews In India: The Canaanite Christians And The Cochin Jews Of Kerala" in Tim Timberg (ed.) The Jews of India، Delhi: Vikas Publication, 1986.pp.177-204. Jussay P.M. 1986; Menachery 1973; Menachery 1998.
  26. Weil, Shalva. "Symmetry between Christians and Jews in India: the Cnanite Christians and the Cochin Jews of Kerala," Contributions to Indian Sociology, 1982. 16(2): 175-196.
  27. Burnell, Indian Antiquary، iii. 333–334
  28. Haeem Samuel Kehimkar, The History of the Bene-Israel of India (ed. Immanuel Olsvanger)، Tel-Aviv : The Dayag Press, Ltd.; London : G. Salby 1937, p. 64
  29. David Solomon Sassoon, Ohel Dawid (Descriptive catalogue of the Hebrew and Samaritan Manuscripts in the Sassoon Library, London)، vol. 1, Oxford Univ. Press: London 1932, p. 370, section 268. According to David Solomon Sassoon, the copper plates were inscribed during the period of the last ruler of the Perumal dynasty, Shirman Perumal.
  30. Nathan Katz (2000)۔ Who are the Jews of India?۔ University of California Press۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-0-520-21323-4 
  31. Ken Blady, Jewish Communities in Exotic Places۔ Northvale, N.J.: Jason Aronson Inc.، 2000. pp. 115–130. Weil, Shalva. "Jews of India" in Raphael Patai and Haya Bar Itzhak (eds.) Jewish Folklore and Traditions: A Multicultural Encyclopedia، ABC-CLIO, Inc. 2013, (1: 255-258)۔
  32. Three Years in America, 1859–1862، (p. 59, p. 60) by Israel Joseph Benjamin
  33. Roots of Dalit History, Christianity, Theology, and Spirituality (p. 28) by James Massey, I.S.P.C.K.
  34. The Last Jews of Kerala، pp. 81–82 Weil, Shalva (with Jay Waronker and Marian Sofaer) The Chennamangalam Synagogue: Jewish Community in a Village in Kerala۔ Kerala: Chennamangalam Synagogue, 2006.
  35. The Last Jews of Kerala p. 111 Weil, Shalva. "The Place of Alwaye in Modern Cochin Jewish History." Journal of Modern Jewish Studies۔ 2010, 8(3): 319-335.
  36. Who Are the Jews of India? (pp. 34-35) Nathan Katz
  37. Weil, Shalva. From Cochin to Israel. Jerusalem: Kumu Berina, 1984. (Hebrew)
  38. Weil, Shalva. "A Revival of Jewish Heritage on the Indian Tourism Trail." Jerusalem Post Magazine، 16 جولائی 2010. pp. 34-36.
  39. This view is supported by Rabbi Yehezkel Rachbi of Cochin who, in a letter addressed to Tobias Boas of Amsterdam in 1768, wrote: "We are called 'White Jews,' being people who have come from the Holy Land, (may it be built and established quickly, even in our days)، while the Jews that are called 'Black' they became such in Malabar from proselytization and emancipation. However, their status and their rule of law, as well as their prayer, are just as ours." See: Sefunot، Book One (article: "Sources for the History on the Relations Between the White and Black Jews of Cochin") آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ybz.org.il (Error: unknown archive URL)، p. רמט، but in PDF p. 271 (Hebrew)
  40. Excursus: The word used here in the Hebrew original is “Kena`anim,” typically translated as “Canaanites.” Etymologically, it is important to point out that during the Middle-Ages amongst Jewish scholars, the word “Kena`ani” had taken on the connotation of “German,” or resident of Germany (Arabic: Alemania)، which usage would have been familiar to our author, Zechariah al-Dhahiri. Not that the Germans are really derived from Canaan, since this has been refuted by later scholars, but only for the sake of clarity of intent do we make mention of this fact. Al-Dhahiri knew, just as we know today, that German Jews had settled in Cochin, the most notable families of which being Rottenburg and Ashkenazi, among others. In ابراہیم بن عزرا’s commentary on Obadiah 1:20, he writes: “Who are [among] the Canaanites. We have heard from great men that the land of Germany (Alemania) they are the Canaanites who fled from the children of Israel when they came into the country.” Rabbi David Kimchi (1160–1235)، in his commentary on Obadiah 1:20, writes similarly: “۔.۔Now they say by way of tradition that the people of the land of Germany (Alemania) were Canaanites, for when the Canaanite [nation] went away from Joshua, just as we have written in the Book of Joshua, they went off to the land of Germany (Alemania) and Escalona, which is called the land of Ashkenaz, while unto this day they are called Canaanites.” Notwithstanding, the editor Yehuda Ratzaby, in his Sefer Hamussar edition (published in 1965 by the Ben Zvi Institute in Jerusalem)، thought that Zechariah al-Dhahiri’s intention here was to “emancipated Canaanite slaves,” in which case, he takes the word literally as meaning Canaanite. Still, his view presents no real problem, since in Hebrew parlance, a Canaanite slave is a generic term which can also apply to any domestic slave derived from other nations as well and which are held by the people of Israel. Conclusion: According to al-Dhahiri, he saw the German Jews in Cochin as being descendants of German proselytes.
  41. Zechariah Al-Dhahiri۔ "Sefer Ha-Musar"۔ (ed. Mordechai Yitzhari)، Bnei Barak 2008, p. 67 (Hebrew) 
  42. Cited on p 51 in The Last Jews of Kerala
  43. "Cochin Jews" Indian Express، accessed 13 دسمبر 2008
  44. "A Kochi dream died in Mumbai"۔ Indian Express، 13 دسمبر 2008
  45. "PANEL 39: Nationalisms and their Impact in South Asia"[مردہ ربط]، European Association of South Asian Studies
  46. Katz, The Last Jews of Kerala, p. 164
  47. "The Last Jews of Cochin"۔ Pacific Standard۔ 2017-09-21۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 ستمبر 2017 
  48. Haeem Samuel Kehimkar, The History of the Bene-Israel of India (ed. Immanuel Olsvanger)، Tel-Aviv : The Dayag Press, Ltd.; London : G. Salby 1937, p. 66
  49. Haeem Samuel Kehimkar, A sketch of the history of Bene-Israel : and an appeal for their education، Bombay : Education Society's Press 1892, p. 20
  50. Haeem Samuel Kehimkar, The History of the Bene-Israel of India (ed. Immanuel Olsvanger)، Tel-Aviv : The Dayag Press, Ltd.; London : G. Salby 1937, pp. 67-68
  51. Shulman, D. and Weil, S. (eds)۔ Karmic Passages: Israeli Scholarship on India. New Delhi: Oxford University Press, 2008.
  52. David Abram۔ The Rough Guide to Kerala (2nd ایڈیشن)۔ London, United Kingdom: پینگوئن (ادارہ)۔ صفحہ: 181۔ ISBN 978-1-84836-541-4 
  53. Adler, Marcus Nathan (1907)۔ "The Itinerary of Benjamin of Tudela: Critical Text, Translation and Commentary"۔ Depts.washington.edu۔ New York: Phillip Feldheim, Inc.۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2012 
  54. Twersky, Isadore. A Maimonides Reader۔ Behrman House. Inc.، 1972, pp. 481–482
  55. Katz, Nathan and Ellen S. Goldberg. The Last Jews of Cochin: Jewish Identity in Hindu India۔ University of South Carolina Press, p. 40. Also, Katz, Nathan, Who Are the Jews of India?، University of California Press, 2000, p. 33.
  56. Katz, Who Are the Jews of India?، op. cit.، p. 32.
  57. Sam Gruber۔ "''ISJM Jewish Heritage Report''، Volume II, numbers 3–4"۔ Isjm.org۔ 15 مئی 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2012 
  58. "Jacobs, Joseph and Joseph Ezekiel. "Cochin"، 1901–1906, pp. 135–138"۔ Jewishencyclopedia.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2012 
  59. Weil, Shalva. "'Today is Purim': A Cochin Jewish Song in Hebrew." TAPASAM Journal: Quarterly Journal for Kerala Studies، 2006. 1(3): 575-588. Weil, Shalva. "Jews in India." in M.Avrum Erlich (ed.) Encyclopaedia of the Jewish Diaspora. Santa Barbara, USA: ABC CLIO. 2008, (3: 1204–1212)۔
  60. Chemana, Martine. "Women sing, men listen: Malayalam folksongs of the Cochini, the Jewish Community of Kerala, in India and in Israel," trans. from "Les femmes chantent, les hommes écoutent. Chants en malayalam (pattu-kal) des Kochini, communautés juives du Kerala, en Inde et en Israël," in Bulletin du Centre de recherche français de Jérusalem، نومبر 2002. French original[مردہ ربط]، English translation
  61. Pradeep, K. (15 مئی 2005)۔ "Musical Heritage"۔ The Hindu۔ Hindu.com۔ 10 ستمبر 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2012 
  62. Johnson, Barbara C. (1 مارچ 2009)۔ "Cochin: Jewish Women's Music"۔ Jewish Women: A Comprehensive Historical Encyclopedia۔ Jewish Women's Archive۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2012