یہود کے اخراج و بیدخلیاں

یہودی تاریخ میں یہود کو بے شمار مرتبہ بڑے پیمانے پر ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا اور مختلف نوعیت کے خطرات کا سامنا کرنے اور مقامی حکام سے دھمکیوں کا سامنا کرنے کے بعد اپنے علاقوں سے فرار ہوکر دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے۔

سرزمین اسرائیل کو یہودی اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ [2] 1948ء میں اس کے قیام کے بعد ، ریاستِ اسرائیل نے 1950ء میں قانونِ واپسی اختیار کیا جس نے اسرائیل کو یہودی وطن کی حیثیت دی اور اُس وقت اور مستقبل کے لیے اسے یہود کی پناہ گاہ بنادیا۔ اس قانون کا مقصد یہود کو اسرائیل میں اپنے وطن واپس جانے کی ترغیب دینا تھا۔

یہود کی بیدخلی ملکی اعتبار سے۔ ترمیم

علاقہ ملک بدر کرنے کی عیسوی تاریخ اخراج ختم (حقیقی) جلاوطنی اٹھا دی گئی ( قانوناً )
  آسٹریا 1421۔ 1469۔
  انگلستان 1290۔ 1656۔ 1753-4
1829۔
  فرانس 1394۔ 18 ویں صدی۔ 27 ستمبر 1791
  مجارستان 1349۔ 1350۔
1360۔ 1364۔
  لتھووینیا 1495۔ 1503۔
  میلان 1597۔ 1714۔
  ناپولی 1510۔ 1735۔
سانچہ:Country data نورنبرگ 1499۔ 1850 [3]
  پرتگال 1497۔ 19ویں صدی N / A
  صقلیہ 31 دسمبر 1492 3 فروری 1740
  ہسپانیہ 31 مارچ 1492 19ویں صدی 16 دسمبر 1968[4]

خط زمانی ترمیم

 
یورپ میں یہود کا 1100ء سے لے کر 1600ء تک بدخلیاں۔

ذیل میں یہودی جلاوطنی واقعات کی ایک فہرست ہے جن سے یہودی پناہ گزینی کے بڑے سلسلوں کا آغاز ہوا۔

733 قبل مسیح۔


سامریہ (اسرائیل / یہوداہ) شاہ تلگلت پلاسرسوم نے یہود کو جلاوطن کیا۔

722 قبل مسیح۔


شاہ سارگون دوم یہود کو گرفتار اور ملک بدر کیا۔ اسوریوں نے شالمانسر کی سربراہی میں اسرائیل کی (شمالی) سلطنت کو فتح کیا اور آبادی کو خراسان جلاوطن کیا ۔ اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس کو گمشدہ سمجھا جاتا ہے۔

597 قبل مسیح۔


اسیری بابل
537 قبل مسیح سے دو سال قبل بابل فتح کرنے والے فارسیوں نے یہود کو یروشلم اور بیت المقدس واپس آنے اور ہیکل دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی ۔

475 قبل مسیح۔


فارس
ہامان نے تمام یہود کو ملک بدر کرنے اور قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ [5]

139 قبل مسیح۔


رومیوں کی تبدیلی مذہب کے جارحانہ الزامات پر یہود کو روم سے روم شہر سے بیدخل ہونا پڑا۔

19 عیسوی


مصری مذہب کے ماننے والوں سمیت شہنشاہ تیبریس نے یہود کو روم کے شہر سے بیدخل کیا۔ [6]

41۔53 عیسوی


کلاڈیس نے یہودیوں کو روم سے بے دخل کردیا ۔

70 عیسوی


عظیم یہودی بغاوت کی شکست
رومی سلطنت میں یہود کے بڑے بڑے تمام گروہوں کو غلام بنا لیا گیا، اگرچہ بہت سے یہود فرار ہوئے۔ [7]

119ء


قبرص ، قورینا (لیبیا) اور اسکندریہ کی بڑی بڑی یہودی برادریوں کا روم کے خلاف کٹوس جنگ میں شکست کے بعد خاتمہ ہوا۔ اس واقعے کے سبب سرزمین شام اور شمالی افریقہ میں آبادی کی ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ قیصریہ کے یوسیبیس کے مطابق ، تشدد اور دنگوں کے پھوٹنے سے لیبیا اس حد تک غیر آباد ہوا کہ کہ کچھ سال بعد شہنشاہ ہیڈرین کو وہاں مستقل طور پر آباد کاری کے عمل کو برقرار رکھنے کے لیے نئی آبادیاں قائم کرنا پڑی۔[حوالہ درکار]

135/6 ء۔


رومیوں نے بار کوخبا کی بغاوت کو کچلا۔ شہنشاہ ہیڈرین نے لاکھوں یہودکو یہودیہ سے بے دخل کیا ، نقشوں سے انکا نام مٹایا، اس جگہ کو سوریہ فلسطین کہا اور یہود کو یروشلم میں قدم رکھنے سے منع کیا۔ [8]

415ء۔


اسکندریہ کے سینٹ سیرلکی سربراہی میں یہودکو اسکندریہ سے بے دخل کیا گیا۔ [9]

629ء۔


بازنطین کے ہرکل خلاف یہودی بغاوت کے بعد ، گلیل کی پوری یہودی آبادی کا قتل عام کیا گیا یا انھیں بے دخل کر دیا گیا۔

ساتویں صدی


محمدﷺ‎ نے مدینہ کے یہودی قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیرکومدینہ منورہ سے نکالا ، بنو قینقاع قبیلہ کو ذبح کیا گیا اور خیبر کی یہودی بستی غارت کی گئی ۔ اس سے قبل تینوں قبیلوں نے محمدﷺ‎ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تھا ، لیکن انھوں نے معاہدہ توڑا اور مسلم مخالفین کا ساتھ دیا۔ بنو قریظہ نے نہ صرف مسلم مخالف (قریش) کا ساتھ دیا بلکہ انھوں نے محمدﷺ‎ کے خلاف بھی جنگ لڑی۔

1012ء۔


یہود کو مینز سے بے دخل کر دیا گیا۔

1095ء ۔ 13ء ویں صدی کے وسط


صلیبی جنگوں کی لہروں نے یروشلم سمیت یورپ اور مشرق وسطی میں سینکڑوں یہودی برادریوں کو تباہ کیا۔ [8]

12ء ویں صدی کے وسط


موحدینکے حملے نے اسپین میں یہودی ثقافت کے سنہری دور کا خاتمہ کیا۔ دوسرے مہاجرین میں موسی بن میمون بھی شامل تھے ، جو مراکش ، پھر مصر اور پھر ارضاسرائیل فرار ہوئے۔

1276ء۔


یہود کو بلائی باویریا سے بے دخل کیا گیا۔ [10] [11]

12ء ویں سے 14ء ویں صدی


فرانس
یہود کی بیدخلی کے ساتھ ساتھ ان کے ملکیت بھی ضبط ہونے لگی اور تاج فرانس کو کو تقویت بخشنے کے لیے تاوان کے عوض عارضی داخلہ کا استعمال کیا گیا ۔
فرانس سے فلپ دوم نے 1182ء میں ، فرانس سے لوئس نہم نے 1254ء میں ، فلپ چہارم نے 1306ء میں ، 1322ء میں چارلس چہارم نے، ، چارلس پنجمنے 1359ء میں ، چارلس ششمنے 1394ء میں۔

13 ویں صدی۔


بااثر فلسفی اور منطقدان رمون لل (1232ء–1315ء) نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کرنے والے تمام یہودیوں کو ملک بدر کرنے کی آواز لگائی ۔ عیسائی مغرب میں یہود کے ملک بدر کرنے کی پالیسی کے بارے میں کچھ علما لل کو بطور اول و جامع نداسمجھتے ہیں ۔

1288ء۔


ناپولی نے جنوبی اٹلی میں یہود کی اولین ملک بدریاں جاری کیں۔ [12]

1290ء۔


شاہ انگلستان ایڈورڈ اول نے تمام یہودکے انگلستان سے بیدخلی کا فرمان جاری کیا ۔ اولیور کروم ویل نے 1655ء میں 365 سال بعد اس پالیسی کو واپس پھیر دیا ۔

1293ء۔


ناپولی کی بادشاہت میں بیشتر یہودی برادریوں کی تباہی ہوئی۔ [12]

1360ء۔


ہنگری کے لوئس اول نے یہود کو ہنگری سے بے دخل کیا ۔

1392ء۔


یہود کو برن،سوئٹزرلینڈ سے بے دخل کیا گیا۔ اگرچہ اس شہر میں ایک بار پھر سے 1408ء سے 1427ء کے درمیان یہودی مقیم تھے ، لیکن بعد میں برن میں ظاہر ہونے والے یہود ہی عارضی طور پر رہ رہے تھے ، بنیادی طور پر معالجین اور مویشیوں کا کاروبار کرنے والے۔ [13]

1421ء۔


یہود کو آسٹریا کی ڈچی سے جرمنی کے البرٹ دوم کے کہنے پر ملک بدر کیا گیا۔ [14]

1442ء۔


یہود کو ایک بار پھر باویریا بالا سے بے دخل کیا گیا۔ [10]

1478ء۔


یہود کو پساؤ سے بے دخل کیا گیا۔ [10]

1491ء۔


راوینا کے یہود کو ملک بدر کیا گیا، ان کے عبادت خانوں کو تباہ کر دیا۔ [12]

1492ء۔


فرڈینینڈ دوم اور ازابیلا اول نے فرمان الحمرا جاری کیا ، عام حکم نامہ برائے بیدخلی یہود از اسپین (تقریبا ً 200،000) ، سسلی سے (1493ء ، تقریبا ً 37،000) ، پرتگال سے (1496ء) کلابریا اٹلی سے تقریبا ً 1554 ۔

1495ء۔


فرانس کے چارلس ہشتم نے نیپلس کی بادشاہت پر قبضہ کیا اور یہودیوں کے خلاف نیا ظلم ڈھایا ، ان میں سے بیشتر اسپین کے مہاجر تھے۔ [12]

1496ء۔


یہود کو پرتگال سے بے دخل کیا گیا۔ مقدس شاہ روم میکسمیلن اول نے تمام یہودیوں کو اسٹیریا اور وینر نیوشٹڈ سے ملک بدر کرنے کا فرمان جاری کیا ۔

1499ء


یہود کو نیورمبرگ سے نکال دیا گیا۔ [10]

1510ء


یہود کو نیپلس سے بے دخل کر دیا گیا۔ [12]

1519ء


یہود کو ریجنس برگ سے بے دخل کر دیا گیا۔ [10]

1551ء


باقی ماندہ یہود کو باویریا کی ڈچی سے نکال دیا گیا۔ باویریا میں یہودی آبادکاری 17 ویں صدی کے آخر تک ختم ہو گئی ، جب سلزباکھ میں ویانا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین نے ایک چھوٹی سی برادری کی بنیاد رکھی۔ [10]

1569ء


پوپ پیوس پنجم نے یہود کو سوائے انکونا اور روم کی ریاستوں کے تمام پاپائی ریاستوں سے نکال دیا ۔ [12]

1593ء


پوپ کلیمنٹ ہشتم نے روم ، ایگونن اور انکونا کے علاوہ ،تمام پاپائی ریاستوں میں رہنے والے یہودیوں کو ملک بدر کر دیا۔ میسیڈی خاندان نے یہود کو ٹسکنی کی مرکزی بندرگاہ لیورنو میں آباد ہونے کی دعوت دی ، جہاں انھیں مکمل مذہبی آزادی اور شہری حقوق دیے گئے ، جو اس خطے کی بطور مرکزِ تجارت ترقی چاہتے تھے۔ [10]

1597ء


نو سو یہود کو میلان سے بے دخل کیا گیا ۔ [12]

1614ء


فیٹ ملچ بغاوت
جوڈنگیس کی لوٹ مار کے بعد یہود کو مقدس رومی سلطنت فرینکفرٹ سے بے دخل کر دیا گیا۔

1654ء


پرتگالیوں کے ہاتھوں برازیل میں ڈچ کالونی ریسیف کے خاتمے نے یہود کا نیو ایمسٹرڈیم پہنچنا آسان کیا ، یہود کا پہلا گروہ جو شمالی امریکہ فرار ہوا۔

1669ء۔1670ء


یہود کو مقدس رومی شہنشاہ لیوپولڈ اول نے ویانا سے بے دخل کیا اور بعد ازاں آسٹریا کے موروثی علاقوں میں آباد ہونے سے روکا۔ شاہ کے عزاز میں انٹرر ویرڈ پر واقع سابق یہودی پاڑے کا نام تبدیل کر کے لیوپولڈشٹڈ کا نام دیا گیا اور مکانات و اراضی ضبط کرکے کیتھولک شہریوں کو دی گئیں۔ [15]

1683ء


لوئس چودھویں کے جاری کردہ فرمان کوڈ نوئر (کالا قانون) کے سبب یہود کو ہیٹی اور دیگر تمام فرانسیسی کالونیوں سے بے دخل کیا گیا۔ [16]

1701ء–1714ء


ہسپانوی جانشینی کی جنگ کے بعد ، آسٹریا سے تعلق رکھنے والے یہود کو باویریا سے بے دخل کیا گیا ، تاہم کچھ یہود میونخ میں رہائش پانے کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ [10]

1744ء – 1790ء کی دہائی


فریڈرک دوم ، جوزف دوم اور ماریہ تھیریسا کی اصلاحات نے پسماندہ جرمن اور آسٹریا کی یہودی عوام کو مشرق بھیجا۔ ملاحظہ کریں
شوٹزجوڈ
[حوالہ درکار]

1791ء


روس کی زارینہکیتھرین عظیم نے یہود کو جلاوطنی کے ذریعہ سلطنت کے مغربی حصوں تک محدود رکھنے کے لیے تحدیدی آباد کاری تشکیل دی۔ انیسویں صدی کے آخر تک ، چالیس لاکھ سے زیادہ یہود تحدیدی علاقوں میں رہتے تھے۔

1862ء ٹینیسی ، مسیسیپی ، کینٹکی


اولیسس ۔س ۔گرانٹ نے یہود کو فرمان عام نمبر 11 کے ذریعہ بے دخل کیا ۔

1880ء - 1910ء کی دہائی


روسی سلطنت میں پوگروم
مشرقی یورپ سے تقریبا 25 لاکھ یہود ہجرت کر گئے ، زیادہ تر ریاست ہائے متحدہ امریکا منتقل ہوئے۔ [17]

1933ء –1957ء


 
پناہ گزین بچوں کی پہلی کھیپ جرمنی سے انگلینڈ پہنچی۔
 
بوچن والڈ کے زندہ بچ جانے والے حائفہ پہنچتے ہوئے۔

نازی جرمن کے ظلم و ستم کا آغاز 1933ء میں نازیوں کے یہودی کاروبار کے بائیکاٹ کے ساتھ ہوا، 1938ء میں کرسٹل ناخٹ کے یہ اپنے دوران پہلے عروج پر پہنچا اور یورپی یہود کے مرگ انبوہ (ہولوکاسٹ) پر اختتام پزیر ہوا ۔ تعہد فلسطین کے برطانوی قانون نے یہودی پرتعہدی فلسطین کی جانب ہجرت پر پابندی عائد کی۔ 1938ء کی ایویان کانفرنس ، 1943ء میں برمودا کانفرنس اور دیگر کوششیں یہودی پناہ گزینوں کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ، یہ حقیقت نازی پروپیگنڈے میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے (ملاحظہ ایم ایس سینٹ لوئس بھی )۔ جرمنی اور آسٹریا کے یہودی سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی ایک چھوٹی جماعت برطانیہ ہجرت کرگئی ، جہاں ضروری نہیں کہ رویہ مثبت ہوتا۔ [18] دوسری جنگ عظیم میں بہت سے مہاجرین برطانیہ کے لیے لڑے ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ، مشرقی یورپی ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے یہود یورپ کے اتحادیوں کے زیر کنٹرول حصے میں منتقل ہو گئے ، کیونکہ یہودی معاشرہ جس سے زیادہ تر کا تعلق تھا اب اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہا تھا۔ اکثر وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی بیکار تلاشی سے تھکے ہارے محض تن تنہا زندہ بچ جاتے اور اکثر ان شہروں میں ناپسند کیے جاتے جہاں سے وہ آئے تھے۔ وہ بے گھر افراد کے نام سے جانا جاتا تھا (جسے شیریٹ ہاپلیٹہ بھی کہا جاتا ہے) اور انھیں بے گھر افراد کےخیمہ بستیوں میں رکھا جاتا تھا ، جن میں سے بیشتر خیمہ بستیاں 1951ء تک بند ہو گئی تھیں۔ آخری خیمہ بستی فارن والڈ 1957ء میں بند ہوا تھا۔

1947ء–1972ء


 
یہودی پناہ گزینوں نے حائفہ کی بندرگاہ پر ڈوبتے ہوئے جہاز کے پورتھولز پر نظر ڈالی۔
 
عراقی یہود 1951ء میں بے گھر ہوئے۔
 
پناہگزین کو لایا جارہا ہے۔
 
آپریشن " طلسمی قالین " (1949ء –1950ء ) کے دوران ، یمنی یہود کا پورا طبقہ (جسے تیمنیم کہا جاتا ہے ، تقریبا 49،000) اسرائیل ہجرت کرگئے۔

عرب اور مسلم ممالک سے یہودی خروج ، جس کیمشرق وسطی اور شمالی افریقہ (سوائے اسرائیل) کی یہودی مشترکہ آبادی 1948ء میں تقریبا 900،000 سے گھٹ کر موجودہ 8000 سے بھی کم رہ گئی ہے اور ان میں سے تقریبا 600،000 اسرائیل کے شہری بن گئے ہیں۔ یہودی خروج اور بیدخلیوں کی تاریخ اس کے لیے تجویز کردہ حتمی آبادکاری کی وجہ سے سیاست زدہ ہو چکی ہےاسرائیلی اور فلسطینی امن مذاکرات [19] [20] [21] [22] [23] کی تاریخ پیش کرتے وقت، یہودی خروج از مصر اور1948ء کے فلسطینیوں کے خروج کے برابر سمجھنے والوں، جیسے اسرائیلی حکومت اور جے جے اے سی اور جمینا جیسی غیر سرکاری تنظیمیں ، "دھکیلنے کے عوامل" پر زور دیتی ہیں ، جیسے یہود مخالف تشدد اور جبری بے دخلی کے معاملات میں اور متاثرہ افراد کو " پناہ گزین " کی حیثیت دیتے ہیں ۔ جو لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہودی خروج از مصر فلسطینیوں کے خروج از فلسطین کے مترادف نہیں ہے ، وہ "کھینچنے کے عوامل" پر زور دیتے ہیں ، جیسے اسرائیلی یہودی ایجنسی کے اقدامات ، جو ایک ملین پلان کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، یہودی عوام و طبقات کے آپسی اور اسرائیلی حکومت سے اچھے تعلقات کو نمایاں کرتے ہیں، دیگر دھکیلنے کے عوامل کے اثرات پر زور دیتے ہیں جیسے مغرب میں اختتام استعماریت اور سویز جنگ اور مصر میں لاؤن معاملہ اور دلیل دیتے ہیں کہ تمام یا بہت سے فلسطین چھوڑنے والے فلسطینی پناہ گزین نہیں تھے.

اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین نے فروری 1957ء اور جولائی 1967ء میں اعلان کیا کہ، ایسے یہود جو عرب ممالک سے فرار ہوئے، انھیں ادارے کے اختیار میں ثبوت کے حصول تک بادی النظر میں سچا سمجھاجائے گا ، یعنی اقوام متحدہ کے مطابق وہ یہودی جنھوں نے عرب ممالک سے ہجرت کی وہ عالمی قوانین کے مطابق حقیقی پناہگزین ہیں۔[حوالہ درکار]


1947ء

مصر نے قانون ِکمپنی منظور کیا۔ اس کے مطابق کسی بھی مصری کمپنی کے کم از کم 75٪ کارکنان کا مصری شہری ہونا ضروری ہے۔ چونکہ مصری یہودی تمام تر مصری آبادی کا 20٪ بنتے ہیں اس قانون سے مصری یہود متاثر ہوئے ۔ جبکہ دیگر جو مصر میں پیدا تو ہوئے اور نسلوں سے رہتے رہے وہ حاملین مصری شہریت نہ تھے۔[24]

1948ء


ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ مصر میں سام مخالفت سخت شدت اختیار کر گئی۔ 15 مئی 1948ء کو ، ہنگامی قانون کے نفاذ کا اعلان کیا گیا اور ایک شاہی فرمان نے مصری شہریوں کو خصوصی اجازت نامے کے بغیر ملک چھوڑنے پر قدغن لگایا۔ یہ یہودیوں پر لاگو تھا۔ سیکڑوں یہود گرفتار ہوئے اور بہت سے یہود کی جائداد ضبط کرلی گئی۔ جون سے اگست 1948ء تک ، یہودی علاقوں میں بم لگائے گئے اور یہودی کاروبار لوٹ لیے گئے۔ ان بموں سے 250 کے قریب یہودی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ تقریبا 14000 یہودی 1948ء–50ء کے درمیان مصر سے نکل گئے۔ [24]

1949ء


اردن نے مغربی کنارے پر قبضہ کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کر لیا۔ جس کا زیادہ تر حصہ 1947ء میں اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین نے ایک عرب ریاست کو تفویض کی تھی ، جسے عرب قیادت نے مسترد کر دیا تھا ۔ اور تمام غیر مسلم باشندوں ۔ یہودی ، عیسائی (بہت سے ذیلی فرقوں) کے ساتھ بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک اور ظلم و ستم شروع کیا۔ڈروز ، سرکیسیئن وغیرہ۔ اور اسکولوں اور عوامی انتظامیہ سمیت تمام عوامی سرگرمیوں کو عربی بنانے پر مجبور کرتا ہے۔

1954ء


جمال عبدل ناصر نے مصر میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ اسنے نے فوری طور پر بہت سے یہود کو گرفتار کیا جن پر مختلف الزامات کے تحت بنیادی طور پر صیہونی اور اشتراکی سرگرمیوں کے سبب مقدمہ چلایا گیا ۔ یہود کو فوج کے لیے رقوم عطیہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہودی کاروباروں کی سخت نگرانی متعارف کروائی گئی۔ کچھ ضبط کرلئے گئے اور کچھ کو زبردستی حکومت نے خریدا۔ [24]

1956ء


سوئز بحران ۔ چار حراستی کیمپوں میں تقریبا 3 ہزار مصری یہودیوں کو نظربند کیا گیا تھا۔ حکومت نے ہزاروں یہودیوں کو چند ہی دنوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور انھیں اپنی جائداد بیچنے اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی سرمایہ لینے کی اجازت دی گئی۔ جلاوطن افراد کو مصر واپس نہ آنے اور ان کی جائداد حکومتی انتظامیہ کو منتقل کرنے پر متفق ہونے والے بیانات پر دستخط کرائے گئے ۔ بین الاقوامی صلیب احمر نے 8،000 کے قریب غیر شہری یہود کو ملک چھوڑنے میں مدد کی ، ان میں سے بیشتر اٹلی اور یونان لے جائے گئے۔ سعید بندرگاہ کے بیشتر یہودی (تقریبا 100) اسرائیلیایجنٹوں کے ذریعہ سے اسرائیل اسمگل کیے گئے ۔ جلاوطنی 1957ء تک جاری رہی۔ دوسرے یہودی اپنی زندگی گزارنے کے بعد اپنی مرضی سے وہاں سے چلے گئے، یہاں تک کہ 1957ء کی مردم شماری میں صرف 8،561 افراد ہی مندرج تھے۔ یہود کی بیدخلی اس وقت تک جاری رہا جب تک 1967ء میں 3000 یہودی باقی رہے۔ [24]

1967ء


چھ روزہ جنگ ۔ سینکڑوں مصری یہودی گرفتار ہوئے، تشدد اور بدسلوکی کا شکار ہوئے۔ کچھ کو غیر ملکی ریاستوں خاص طور پر اسپین کی مداخلت کے بعد رہا کیا گیا اور انھیں ملک چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی۔ [24] لیبیائی یہود ، جن کی تعداد لگ بھگ 7،000 تھی کو پوگروم کا نشانہ بنایا گیا جس میں 18 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس سے بڑے پیمانے پر خروج کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں لیبیا میں 100 سے کم یہودی رہ گئے تھے۔ [25]

1970ء


1970ء تک ایک ہزار سے بھی کم یہودی مصر میں مقیم تھے۔ انھیں ان کے املاک کے بغیر وہاں سے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ 1971ء تک ، مصر میں صرف 400 یہودی باقی رہے۔ 2013ء تک ، مصر میں صرف چند درجن یہودی باقی تھے۔ [24]

1960ء کی دہائی – 1989ء


1968ء میں پولینڈ کے سیاسی بحران کی وجہ سے ہزاروں یہود کو کمیونسٹ حکام نے پولینڈ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ مزید دیکھیں بے بنیاد ہردیسی ، ڈاکٹروں کی سازش ، جیکسن۔وانک ترمیم ، صہیونی تعلیم ، پامیات .[حوالہ درکار]

1962ء


خفیہ عسکری تنظیم کے تشدد کے نتیجے میں یہودی الجیریا سے فرار ہوئے۔ اس طبقے کو خدشہ تھا کہ یہودی آزادی کا اعلان مسلمان برہمی کا سبب بنے گا۔ جولائی 1962ء کے اختتام تک ، 70،000 یہودی فرانس اور 5،000 اسرائیل کی جانب روانہ ہوئے ۔ ایک اندازے کے مطابق 80٪ الجیریائی یہود فرانس میں آباد ہوئے۔ [26]

1965ء


الجیریائی یہود کی صورت حال تیزی سے خراب ہوئی۔ سنہ 1969ء تک، ایک ہزار سے کم یہودی باقی رہ گئے تھے۔ 1990ء کی دہائی تک ، یہ تعداد کم ہو کر 70 ہو گئی۔ [26]

1970ء کی دہائی 1990ء


سوویت یونین میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم نے لاکھوں سوویت یہود جنہیں رفیوزنکس کہا جاتا تھا ، کیونکہ انھیں وہاں سے بھاگنے یا جانے کی سرکاری اجازت دئے جانے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ بیشتر مہاجرین کی حیثیت سے اسرائیل یا امریکا گئے۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. "ترجمہ سکھلائی" 
  2. "The Jewish Claim to Palestine" (PDF)۔ Word From Jerusalem۔ 2008۔ 24 نومبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 نومبر 2019 
  3. "Nuremberg"۔ www.jewishvirtuallibrary.org 
  4. "1492 Ban on Jews Is Voided by Spain", The New York Times, Dec. 17, 1968
  5. "Esther – Chapter 3 – Esther"۔ Chabad.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2013 
  6. Suetonius, The Life of Tiberius, Chapter 36. 1913. University of Chicago. Retrieved July 14, 2019.
  7. Gideon (2015-11-28)۔ "The Jewish Revolts Against the Roman Empire – On Jewish Matters"۔ On Jewish Matters۔ 05 مارچ 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018 
  8. ^ ا ب Joseph Katz۔ "A History of the Jews, a list of expulsions for 2000 years"۔ EretzYisroel.Org۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018 
  9. "Cyril of Alexandria"۔ Britannica.com۔ 2018-06-14۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جون 2019 
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ "Bavaria, Germany"۔ Jewish Virtual Library۔ 2018-02-27۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018 
  11. "Bavaria, Germany"۔ www.jewishvirtuallibrary.org 
  12. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج "Timeline of Jewish History in Italy"۔ Jewish Virtual Library۔ 2018-02-27۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018 
  13. "Berne"۔ Jewish Virtual Library۔ 2018-02-27۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018 
  14. Albert II of Germany#Expulsion of the Jews
  15. "1670
    The Holy Roman Emperor Banishes the Jews From Austria"
    ۔ Haaretz.com۔ 2015-05-01۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2019
     
  16. "Caribbeans, Spanish--Portuguese Nation of the
    La Nacion"
    ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2014
     
  17. "Jewish Emigration in the 19th Century" 
  18. "Warm British welcome for Jews fleeing Nazis a 'myth'"۔ Phys.org / جامعہ مانچسٹر۔ February 27, 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ August 4, 2016 
  19. Changing tack, Foreign Ministry to bring 'Jewish refugees' to fore "'To define them as refugees is exaggerated,' said Alon Liel, a former director-general of the Foreign Ministry"
  20. "Changing the refugee paradigm - Jerusalem Report - Jerusalem Post"۔ www.jpost.com 
  21. Israel scrambles Palestinian 'right of return' with Jewish refugee talk "Palestinian and Israeli critics have two main arguments
    that these Jews were not refugees but eager participants in a new Zionist state, and that Israel cannot and should not attempt to settle its account with the Palestinians by deducting the lost assets of its own citizens, thereby preventing individuals on both sides from seeking compensation."
  22. Yehouda Shenhav The Arab Jews
    A Postcolonial Reading of Nationalism, Religion, and Ethnicity
  23. Avi Shlaim No peaceful solution
  24. ^ ا ب پ ت ٹ ث "Egypt Virtual Jewish History Tour"۔ www.jewishvirtuallibrary.org 
  25. "Jews of Libya"۔ Jewish Virtual Library۔ 2018-02-27۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2018 
  26. ^ ا ب "Algeria Virtual Jewish History Tour"۔ www.jewishvirtuallibrary.org