الرحیم:اسماء الحسنی میں شامل ایک نام۔ آخرت میں صرف مؤمنوں پر رحم فرمانے والا۔ اور(الرحمٰن)دنیا میں مومنوں اور کافروں پررحم فرمانے والا

قرآن میں ذکر ترمیم

قرآن میں لفظ الرحیم 34 مرتبہ آیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

  •   وَإِلَـهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ    

اور تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی (سچا) معبود نہیں وہ (دنیا و آخرت میں ) رحم کرنے والا ہے۔

  •   الرَّحْمـنِ الرَّحِيمِ    

نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے

صفت رحمٰن اور رحیم ترمیم

الرحمن اور الرحیم: دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں یہ دونوں ہم معنی لفظ مبالغہ کے صیغے ہیں لیکن الرحمن میں زیادتی لفظ کے باعث رحیم کی نسبت مبالغہ زیادہ تر ہے۔ رحمن کے معنی سب پر عام رحم فرمانے والا۔ رحیم کے معنی خاص خاص پر خاص رحم فرمانے والا۔ پانی، ہوا، صحت، بارش، سورج کی روشنی بلافرق سب کو عطا فرمائی یہاں رحمانیت کی جلوہ گری ہے۔ لیکن ایمان، ولایت، نبوت، حکومت، عبادت یہ سب کو نہ عطا کیا گیا بلکہ خاص خاص کو عطا کیا گیا ان میں رحیم کے معنی کا ظہور ہے۔ دوست، دشمن، مومن، کافر، گبروترسا سب کو اپنی رحمت سے نواز دیا یہ سب صفت رحمانی ہی کا ظہور ہے۔ لیکن آخرت میں صرف اور صرف ایمان والوں پر رحمت و کرم ہوگا۔ کافر و مشرک پر عذاب ہوگا یہ صفت رحیمی کا ظہور ہے۔[1]

صفت رحیم ترمیم

الرحیم سے مراد: اس کی رحمت صرف اسی کو ملے گی جس پر وہ رحم کرنا چاہے گا۔ اور وہ اہل ایمان ہوں گے اس لیے علما کہتے ہیں۔ ھُوَ رحمن الدنیا اور رحیم الاخرۃ ہے اسی لیے لفظ رحیم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوا (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : کی نسبت بالمؤمنین رؤف رحیم موجود ہے) ۔ اہل ایمان پرجتنی بھی نعمتیں ظاہری و باطنی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دلیل ہیں۔ مثلاً امن و سلامتی صحت و اموال ،اولاد، خور و نوش وغیرہ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل توحید کے ساتھ خاص ہو گی۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ( بخشش کرنے والے مہربان کے ) یہ دونوں لفظ رَحْمَۃ سے مشتق ہیں اور رحمت رقت قلب (دِل کی نرمی) کو کہتے ہیں جس کا تقاضا فضل و احسان ہے مگر یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات میں آغاز و الفاظ کا لحاظ نہیں ہے بلکہ انجام و معانی کا لحاظ رکھا گیا ہے ( رحمت کا انجام احسان ہے)
ابن عباس فرماتے ہیں یہ دونوں اسم مہربانی پر دال ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت زیادتی اور مبالغہ پایا جاتا ہے پھر یہ زیادتی کبھی مقدار ( کمی بیشی) کے لحاظ سے ہوتی ہے ( یعنی رحمت سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ ہوتے ہیں) اس اعتبار سے اللہ کو رَحْمٰنُ الدنیا وَ رَحِیْمُ الْاٰخِرَۃ کہتے ہیں کیونکہ رحمت آخرت میں صرف پ رہی زگاروں کا حصہ(آخرت میں رحمت سے فائدہ اٹھانے والے صرف مومن ہوں گے اور دنیا میں سب ہی لوگ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ مومن بھی اور کافر بھی) ہے اور کبھی یہ زیادتی محض کیفیت کے لحاظ سے ہوتی ہے اس لحاظ سے اللہ کو رحمن الدنیا والاخرۃ و رحیم الدنیا کہتے ہیں کیونکہ آخرت کی تمام نعمتیں بیش قیمت ہیں اور دنیا کی بعض نعمتیں حقیر ہیں اور بعض جلیل القدر چونکہ لفظ رحمن اعلام کی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے لفظ رحیم پر مقدم رکھا گیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ رحمت کو تقدم زمانی حاصل ہے اور عموم رحمت دنیا میں مقدم ہے[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر الحسنات،ابو الحسنات سید محمد احمد قادری
  2. تفسیر مظہری،قاضی ثناء اللہ پانی پتی
اسماء الحسنیٰ
اللہالرحمٰنالرحیمالملکالقدوسالسلامالمؤمنالمہیمنالعزیزالجبارالمتکبرالخالقالباریالمصورالغفارالقہارالوہابالرزاقالفتاحالعلیمالقابضالباسطالخافضالرافعالمعزالمذلالسمیعالبصیرالحکمالعدلاللطیفالخبیرالحلیمالعظیمالغفورالشکورالعلیالکبیرالحفیظالمقیتالحسیبالجلیلالکریمالرقیبالمجیبالواسعالحکیمالودودالمجیدالباعثالشہیدالحقالوکیلالقویالمتیناولیالحمیدالمحصیالمبدیالمعیدالمحییالممیتالحیالقیومالواجدالماجدالواحدالصمدالقادرالمقتدرالمقدمالمؤخرالاولالآخرالظاہرالباطنالوالیالمتعالالبرالتوابالمنتقمالعفوالرؤفالمقسطالجامعالغنیالمغنیالمانعالضارالنافعالنورالہادیالبدیعالباقیالوارثالرشیدالصبورمالک الملکذو الجلال و الاکرام
یہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی فہرست ہے