الملک اسماء الحسنی میں شامل ایک نام۔ بادشاہ جو چاہے کرے اور اس کے فعل پر کسی کو مجال اعتراض نہ ہو۔[1]

الملک

معانی

ترمیم

الملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔[2]

حقیقی بادشاہ

ترمیم

تمام اشیاء کا مالک اور ان میں مکمل تصرف فرمانے والا یا وہ ذات کریم جس کو چاہے معزز کرے (عزت عطافرمائے) اور جسے چاہے پست و ذلیل رکھے (رسوا کرے) اور وہ پستیوں (ذلتوں ) سے پاک ہے یعنی ذلت اس کے لیے محال ہے وہ لامتناہی عزت والا ہے یا وہی ہے جو اقتدار عطا کرتا ہے اور معزول کردیتا ہے اور اس کے لیے معزولی وتولیت تصور بھی نہیں کی جا سکتی یعنی اس کا معزول ہونا اور کسی کی زیرنگیں ہونا محال ہے یا وہ عزتوں کے ساتھ فرد ہے یعنی سب عزت اسی ہی کے لیے ہے اور وہ معزز یکتا ہے اور وہی حاکم علی الاطلاق ہے بادشاہی والا ہے اور بادشاہی اس کی تخلیق ہے یعنی حاکم رہی ہے اور حکومت اسی کی ہے یا قدرت والا ہے۔ اس کی حکومت و سلطنت دائمی ہے جسے زوال نہیں ۔[3]

قرآن میں ذکر

ترمیم

قرآن میں الملک 4 مرتبہ آیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

  •   فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ    

پس اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے وہ سچا بادشاہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سچا بادشاہ نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں۔ وہ عرش کریم کا رب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

  •   قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ    

(اے محمد ﷺ) آپ کہہ دیں :اے اللہ تو ہی شہنشاہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

  •   فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ    

وہ (روز قیامت) قدرت والے بادشاہ کے پاس سچی نشست گاہ میں ہوں گے۔

حدیث میں ذکر

ترمیم

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جس وقت رات کا ابتدائی حصہ گذر جاتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میں بادشاہ ہوں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے اور میں اسے معاف کر دوں، اللہ تعالیٰ اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح روشن ہوجاتی ہے۔[4]
اللہ تعالیٰ اپنی سلطنت میں اپنے احکام نافذ کرتا ہے۔ وہی اس میں تصرف مطلق کا مالک و مختار ہے وہ اپنی مخلوقات اپنے احکامات اور جزاء و سزاء کے معاملے میں ہر طرح کے تصرف کا مالک ہے۔ عالم بالا ہو یا عالم اسفل۔ سب کا مالک وہی ہے تمام مخلوقات اس کی غلام اور ا س کی نوکر ہیں۔ وہ سب اس کے محتاج ہیں۔ جب کوئی حرکت کرنے والی چیز حرکت کرتی ہے تو ا س کے ارادے اور اس کی مشیئت کے ساتھ ہی حرکت کرتے ہیں اور جب کوئی چیز ساکن ہوتی ہے تو اس کے علم اور ارادے سے ہی ساکن ہوتی ہے۔

قیامت کے دن اللہ سبحانہ کی بادشاہت سب کے سامنے واضح ہو جائے گی اور تمام مخلوقات اس کی معترف ہو جائیں گی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ضیاء القرآن پیر کرم شاہ
  2. مفردات القرآن امام راغب اصفہانی
  3. تفسیر الحسنات :ابو الحسنات سید محمداحمد قادری
  4. صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1767
اسماء الحسنیٰ
اللہالرحمٰنالرحیمالملکالقدوسالسلامالمؤمنالمہیمنالعزیزالجبارالمتکبرالخالقالباریالمصورالغفارالقہارالوہابالرزاقالفتاحالعلیمالقابضالباسطالخافضالرافعالمعزالمذلالسمیعالبصیرالحکمالعدلاللطیفالخبیرالحلیمالعظیمالغفورالشکورالعلیالکبیرالحفیظالمقیتالحسیبالجلیلالکریمالرقیبالمجیبالواسعالحکیمالودودالمجیدالباعثالشہیدالحقالوکیلالقویالمتیناولیالحمیدالمحصیالمبدیالمعیدالمحییالممیتالحیالقیومالواجدالماجدالواحدالصمدالقادرالمقتدرالمقدمالمؤخرالاولالآخرالظاہرالباطنالوالیالمتعالالبرالتوابالمنتقمالعفوالرؤفالمقسطالجامعالغنیالمغنیالمانعالضارالنافعالنورالہادیالبدیعالباقیالوارثالرشیدالصبورمالک الملکذو الجلال و الاکرام
یہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی فہرست ہے