بنگالی زبان کی تحریک (بنگالی: বাংলা ভাষা আন্দোলন بھاشا آندولن۔ لفظی معنی لسانی تحریک) مشرقی بنگال (اب بنگلہ دیش ) میں چلائی گئی ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد بنگالی زبان کو بطور دفتری زبان کے طور پر اپنانا تھا تاکہ سرکاری معاملات میں اسے استعمال میں لایا جاسکے، نیز یہ بنگالی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم، ذرائع ابلاغ، کرنسی، ڈاک ٹکٹو ں میں بھی استعمال کرنے کی تحریک تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد بنگالی رسم الخط کا فروغ بھی تھا۔

1947ء میں تقسیم ہند کے بعد قیام پاکستان ہوا جو کثیر نسلی، لسانی اور جغرافیائی خطوں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح اس کا مشرقی بنگال صوبہ (جسے 1956ء میں مشرقی پاکستان کہا گیا) میں بنگالی لوگ اکثریت میں بستے تھے۔ 1948ء میں حکومت پاکستان نے اردو کو بطور واحد سرکاری زبان کے طور پر پورے ملک میں نافذ کیا، متبادل طور پر بنگالی کو عربی رسم الخط[1] یا عربی میں پورے پاکستان کی سرکاری زبان کے طور پر لکھنے کی بھی تجویز دی گئی تھی،[2] جس کے سبب مشرقی بنگال کے عوام میں بے چینی پھیلی اور وہاں بڑے بڑے عوامی جلسے اس فیصلے کے خلاف میں نکالے گئے۔کیے بڑے مسئلوں جس میں مہاجرین، نئے قانون کے مسائل، فرقہ وارانہ فسادات شامل تھے اس نوزائیدہ مملکت نے ایسے تمام جلسے جلوسوں اور عوامی میٹنگوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ اور چند دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس فیصلے کے خلاف 21 فروری 1952ء کو ایک احتجاج کا کیا۔ اس تحریک نے اس وقت عروج پائی جب اس دن پولیس نے مظاہرین طلبہ پر گولیاں چلائیں جس سے کئی اموات ہوئیں۔ ان ہلاکتوں نے عوام میں وسیع طور پر اشتعال انگیزی پھیلائی۔ ان تنازعات کے کئی سال بعد مرکزی حکومت نے 1956ء میں بنگالی زبان کو دفتری زبان قرار دیا۔ 21 فروری 1999ء کو یونیسکو نے اس دن کو زبان کے عالمی دن کے طور پر منانے کو فیصلہ کیا تاکہ اس تحریک کے کارکنان اور دنیا میں زبان کے حق کے سلسلے میں بیداری پیدا کی جاسکے۔[3] اس تحریک نے مشرقی بنگال کے لوگوں میں بنگالی قومی تشخص کو بیدار کیا جس نے آگے چل کر بنگالی قوم پرستی کی شکل حاصل کی اور یہیں سے چھ نکات پھر بنگلہ دیشی آزادی تحریک، پاک بھارت 1971ء کی جنگ جیسے واقعات کی ابتدا اور نفاذ بنگالی زبان ایکٹ،1987 کے نفاذ کا باعث بنی۔ 21 فروری (ایکوشے فروری) کو بنگلہ دیش میں عام تعطیل ہوتی ہے اور اس دن کوقومی لسانی تحریک کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ڈھاکہ میڈیکل کالج کے قریب شہید مینار، یادگار اس تحریک اور اس کے متاثرین کے یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔

پس منظر ترمیم

موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی نوآبادیاتی دور میں متحدہ ہندوستان کے حصے تھے۔ انیسویں صدی کے وسط میں کئی مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے اردو زبان کو مسلمانوں کے مابینرابطے کے زبان طور پر فروغ دینے کی کوشش کی ان حضرات میں سر خواجہ سلیم اللہ، سر سید احمد خان، نواب وقار الملک اور مولوی عبدالحق شامل تھے۔[4][5] اردوہند یورپی زبان کی شاخ ہند ایرانی کی ذیلی شاخہند آریان سے ہے۔ اس زبان کی افزائش اپ بھرنش (قرون وسطی میں ہند آریانی زبان پالی- پراکرت کا لسانی دور) [6] پر فارسی، عربی اور ترک اثرات کے زیر اثر جنوبی ایشیا میں دہلی سلطنت اور مغل ادوار میں ہوئی۔[7]اس کے فارسی عربی رسم الخط کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کا اس سے ایک طرح کا لگاؤ دیکھا جاتا ہے جبکہ ہندی کو عام طور پر ہندوؤں سے منسوب کیا جاتا ہے جو دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔[4]

اردو کا استعمال شمال مشرقی ہند کے مسلمانوں میں قدرے زیادہ فروغ پایا جبکہ بنگال (مشرقی ہند) کے مسلمانوں میں بنگالی ہی زیادہ مستعمل رہی۔ بنگالی زبان ایک ہند آریائی زبان ہے جو وسطی ہند زبانوں سے 1000صدی میں تخلیق ہوئی [8] اس میں لسانی ترقی بنگالی نشاۃ ثانیہ کے دور میں فروغ پائی۔ انیسویں صدی کے آخر میں کئی سماجی کارکن جیسے حقوق نسواں کی مسلم کارکن بیگم رقیہ سخاوت نے بنگالی کو لکھ کر بنگالی عوام میں پہنچانے کا آغاز کیا یوں بنگالی ادب کا ایک جدید دور شروع ہوا۔ بنگالی مسلمانوں نے اردو کو مسلمانوں کے مابین رابطے کے ذریعے کے طور پر اپنانے کی تقسیم ہند سے قبل سے ہی مخالفت کی تھی جیسا کہ مسلم لیگ کے لکھنؤ اجلاس 1937ء میں بنگالی رہنماؤں نے اردو کو بطور مسلمانوں کی قومی زبان اپنانے کے حوالے سے تجویز کی مخالفت کی۔ مسلم لیگ برطانوی ہند کی ایک سیاسی جماعت تھی جس نے قیام پاکستان کی کامیاب تحریک چلائی تھی۔[9]

تحریک کی ابتدائی حالت ترمیم

 
برطانوئی حکومت کے خاتمہ پر برصغیر کے علاقے نئے ممالک میں بدل گئے جن میں بھارت، برما، سری لنکا، ڈومنین پاکستان بشمول مشرقی بنگال جو 1956 سے مشرقی پاکستان اور 1971 کے بعد بنگلہ دیش بنا شامل تھے۔

تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس کے الگ تھلگ مشرقی حصے کی آبادی چار کروڑ چالیس لاکھ تھی جبکہ مجموعی آبادی کوئی چھ کروڑ نوے لاکھ تھی۔[10] پاکستان کی حکومت، سول سروس اور فوج میں مغربی حصے کے لوگوں کی زیادہ اکثریت تھی۔ 1947[11] ء میں کراچی میں ایک قومی تعلیمی حوالے سے منعقد پروگرام میں اردو کو سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم و ابلاغ کے طور پر اپنانے کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی۔ [12] اس کے باوجودپاکستانی بیوروکریسی نے بنگالی زبان کو تعلیم اور کرنسی نوٹوں سے نکال باہر کیا۔[13] مرکزی تعلیمی وزیر فضل الرحمان نے اردو کو ہی مملکت میں مکمل طور پر نافذ کرنے کی کوشش بڑھ چڑھ کر کی۔ عوامی رد عمل کے طور پر 8 دسمبر 1947ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے جمع ہو کر بنگالی زبان کو دفتری زبان بنانے کی حمایت کی۔ اور اس کی حمایت میں ان بنگالی طلبہ نے ڈھاکہ میں مظاہرے کیے۔[10]

نمایاں بنگالی علما نے صرف اردو کے بطور سرکاری زبان نافذ کرنے پراس کی مخالفت میں بحث کی۔ معروف بنگالی لکھاری ابو المنصور احمد کہتے تھے کہ اگر اردو کو ہی صرف سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا تو مشرقی بنگال کے پڑھے لکھے افراد یکدم" ان پڑھ "ہوجائیں گے یوں وہ اہم سرکاری عہدے حاصل کرنے میں "نااہل" ٹھہریں گے۔[14] دسمبر 1947 کے آخر میں بنگال میں ایک پہلی دفعہ قومی سطح پر ایک لسانی تنظیم رسترابھاشا سنگرم پریساد (قومی زبان ایکشن کمیٹی) قائم ہوئی۔ تمدن مجلس کے پروفیسر نور الحق بھویاں نے اس تنظیم کی صدارت کی۔[10][15] بعد میں رکن پارلیمنٹ شمس الحق نے ایک کمیٹی قائم کی جس کا مقصد بنگالی کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنا تھا۔ رکن اسمبلی جیسے دھرین درناتھ دتا نے قانون ساز اسمبلی میں بنگالی اراکین کو بنگالی زبان کے استعمال اور اس کے سرکاری استعمال کی قانونی اجازت فراہم کرنے کی اجازت تجویز دی۔[10] اس تجویز کے حامیوں میں مشرقی بنگال کے عوام اور قانون دان جیسے پریم ہری بھومن، بھوپندرا کمار دتا اور سریس چندرا چتوپدہایا شامل تھے۔[10] وزیر اعظم لیاقت علی خان اور مسلم لیگی رہنماؤں نے اسے پاکستان کو تقسیم کرنے سے تعبیر کیا اور اس کی مخالفت کی اس طرح یہ قانونی تبدیلی نہیں لائی جاس کی۔[10][16]

1948ء کے احتجاجات ترمیم

 
21 مارچ 1948 کو محمد علی جناح نے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ " ریاست پاکستان کی زبان صرف اردو ہوگی نہ کہ کوئی اور زبان"[17]

11 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی اور دیگر کالجوں کے طلبہ نے سرکاری طور پر بنگالی زبان کو سکوں، ڈاک، بحریہ میں بھرتی کے امتحانوں سے نکال دینے پر احتجاج کیا۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بنگالی کو ڈمنین آف پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ کئی سیاسی رہنما ء جیسے شمس الحق، ایم سراج الاسلام، شوکت علی، قاضی غلام محبوب، اولی احد اور عبد الواحد و دیگر گرفتار ہوئے۔ اس ریلی کے ایک رہنما محمد طحہ پر پولیس سے اسلحہ چھیننے کا الزام لگا۔ ان جلوسوں میں طلبہ کے رہنماؤں میں عبد المتین اور عبدالملک عقیل شامل تھے۔[10]

11 مارچ کی شام کو ایک میٹنگ ہوئی جس میں پولیس کے جارحانہ رویئے اور گرفتاریوں پر احتجاج کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین کے گھر پر جاتے جلوس کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے سامنے روکا گیا۔ پھر اس جلوس نے اپنا رخ بدل کر سیکریٹریٹ کی عمارت جانب چلنا شروع کیا۔ پولیس نے مظاہرین پر حملے کیے جس میں رہنماء اے کے فضل الحق سمیت کئی مظاہرین زخمی ہوئے۔ اگلے چار دن تک مسلسل ہڑتال کیے گئے۔ ان حالات میں وزیر اعلیٰ خواجہ ناظم الدین نے طلبہ گروہوں کے ساتھ بنگالی کو بطور سرکاری زبان کے طور پر اپنانے کے مطالبے کو چھوڑ کر دیگر کچھ مطالبات پر مذاکرات کیے۔

ان عوامی بے چین حالات میں گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح نے 19 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ 21 مارچ ریس کورس گروانڈ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ اس لسانی مسئلے کو "ففتھ کالم" پاکستان کو تقسیم کرنے کے لیے ابھار رہا ہے۔[18][19][20][21] ساتھ ہی انھوں نے "اردو اور صرف اردو" کو ہی ریاست کی واحد سرکاری زبان قرار دیا جس کے ساتھ مسلمانان ہند کے دلی جذبات وابستہ ہیں اور اس سے روگردانی کرنے والوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا۔ جامعہ ڈھاکہ کے کرزن ہال میں بھی 24 مارچ کو انھوں نے ایسی ہی تقریرکی جس میں سامعین نے ان کے خطاب میں مداخلت کی۔ انھوں نے پھر بعد میں اس حوالے سے ایک میٹنگ بلائی جس میں خواجہ ناظم الدین کی جانب سے طلبہ سے کیے گئے معاہدے کو ختم کیا گیا۔ ڈھاکہ چھوڑنے سے قبل 28 مارچ کو ریڈیو سے خطاب میں "صرف اردو" کی پالیسی کا اعلان کیا۔[11] اس کے فورا بعد مشرقی بنگال لسانی کمیٹی، مولانا محمد اکرم خان کی صدارت میں بنائی گئی تاکہ یہ کمیٹی مشرقی بنگال کی حکومت کو اس لسانی معاملے پر رپورٹ کر سکے۔[22] اس کمیٹی نے 6 دسمبر 1950ء کو اپنی رپورٹ مکمل کر لی لیکن اسے 1958ء تک شائع نہیں کیا گیا۔ حکومت نے بنگالی زبان کو عربی رسم الخط میں لکھنے کی تجویزز رکھی تاکہ لسانی تنا زع کو حل کیا جاسکے۔

1952ء کے واقعات ترمیم

 
4 فروری 1952 کو نوابپور روڈ ڈھاکہ میں لسانی تحریک کی ریلی۔
 
فروری 21 کو نکالی گئی ریلی، ڈھاکہ 1952

اردو-بنگالی تنازع اس وقت دوبارہ ابھرا جب جناح کے جانشین خواجہ ناظم الدین نے دوبارہ واضح طور پر صرف اردو کی بات 27 جنوری 1952ء کو کی۔[23]31 جنوری کو مولانا بھاشانی کی صدارت میں بار لائبریری ہال ڈھاکہ میں شربودلیو کندریو راشترو بھاشا کورمی پوریشود (آل پارٹی مرکزی لسانی ایکشن کمیٹی) کا قیام ہوا۔[10][24] اس میٹنگ میں مرکزی حکومت کی جانب سے بنگال کو عربی رسم الخط میں لکھنے کی تجویز متفقہ طور پر رد کی گئی۔ اس کمیٹی نے تمام لوگوں سے اپیل کی کہ وہ 21 فروری کوہڑتال اور احتجاجی جلوس نکالیں۔[23] اس کے جواب میں حکومت نے ڈھاکہ میں دفعہ 144 نافذ کی تاکہ ان جلوسوں کو روکا جاسکے۔[10]

21 فروری ترمیم

دفعہ 144 کے برخلاف صبح نو بجے طلبہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے احاطہ میں جمع ہونے لگے۔ جامعہ کے وائس چانسلر سمیت و دیگر عملہ بھی وہاں موجود تھے جنھیں مسلح پولیس نے گھیر رکھا تھا۔ سوا گیارہ بجے کی قریب طلبہ کا ہجوم جامعہ کے دروازے پر جمع ہوکر پولیس کے حصار کو توڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ پولیس نے نتیجتا طلبہ پر آنسو گیس کے شیل فائر کرکے کے انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔[10] اس وجہ سے کچھ طلبہ ڈھاکہ میڈیکل کالج اور کچھ جامعہ کے دیگر کمیپسس کی طرف بھاگ گئے جسے پہلے سے ہی پولیس نے بند کر رکھا تھا۔ وائس چانسلر اس دوران میں پولیس کو فائرنگ بند کرنے اور طلبہ کو چلے جانے کا کہتے رہے۔ لیکن اس دوران میں پولیس نے بھی کئی طلبہ کو دفعہ 144 کیخلاف وزری کرنے پر گرفتار کر لیا۔ اس عمل سے مشتعل طلبہ مشرقی بنگال قانون ساز اسمبلی کے پاس جمع ہو گئے اور اسمبلی کے راستے بند کردئے۔ وہ اس بات کا مطالبہ کرتے رہے کہ گرفتار ساتھیوں کو ان کے حوالے کیا جائے۔ اس دوران میں کچھ نے اسمبلی کے اندر گھسنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے فائر کھول دی اور عبدالسلام، رفیق الدین احمد، شفیع الرحمان، ابو البرکات اور عبد الجبار (کارکن) سمیت کئی طلبہ ہلاک ہو گئے۔[10][25]ہلاکتوں کی خبر نے شہر میں بے چینے پھیلائی۔ دکانیں، ٹرانسپورٹ، دفاتر بند کردئے گئے اور عام ہڑتال شروع کی گئی۔ واقعہ کے حوالے سے اسمبلی کے رکن منورنجن ڈھار، بھوشنتوکمار داس، شمس الدین احمد اور دھرین درناتھ دتا نے وزیر اعلیٰ نور الامین سے درخواست کی کہ وہ زخمی طلبہ کی عیادت کریں اور اسمبلی کے اجلاس کو اس واقعہ کے سوگ میں موخر کریں۔[26] اس قرارداد کے حق میں کچھ حکومتی اراکین جن میں عبد الراشد ترکاباگش، شرف الدین احمد، شمس الدین احمد کوندوکار اور محسن الدین احمد اپنی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن وزیر اعلیٰ نے اسے مسترد کر دیا۔[26][10][26]

22 فروری ترمیم

ان واقعات سے مزید افراتفری کا آغاز ہوا، تمام صوبہ میں لوگوں نے دفعہ 144 اور حکومتی احکامات کی خلاف ورزیاں شروع کی اور پولیس کے خلاف احتجاجات شروع کیے۔[23] کرزن ہال ڈھاکہ میں تیس ہزار کا مجمع اکھٹا ہوا۔ ان احتجاجات میں پولیس کی جانب سے مزید چار افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران میں کئی محکموں کے افسران، کلرک جن کا تعلق کالجز، بینک، ریوڈیو اسٹیشنز سمیت دیگر اداروں سے تھا اپنے کام چھوڑ کر جلوسوں میں شامل ہونے لگے[27]۔ اس مجمع نے حکومت نواز دو دو اخبار جن میں جوبلی پریس اور مورننگ نیوز شامل تھے کے دفاتر نزر آتش کیے۔[28] نوابپور روڈ سے گزرتے ایک جنازے پر بھی پولیس اہلکار نے فائر کیے جس میں نو سالہ بچہ اوہاللہ اور کارکن شفیع الرحمان نامی اشخاص سمیت کئی لوگ ہلاک ہوئے۔[10][29]

جاری احتجاجات ترمیم

 
22 فروری کو ڈھاکہ میڈیکل کالج میں جنازے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی روڈ پر نکالی گئی ریلی۔

23 فروری کی ساری رات ڈھاکہ میڈیکل کالج کے طلبہ شہید سمرتیستوبھو یا یادگار شہداء کی تعمیر بنانے میں مشغول رہے۔ یہ یادگار 24 فروری کو صبح مکمل ہوئی اس پر ہاتھ سے لکھی ایک تحریر میں "شہیدسمرتیستوبھو" چسپاں کیا گیا۔[30] اس یادگار کا افتتاح شفیع الرحمان نامی مارے گئے کارکن کے والد نے کیا لیکن اس یادگار کو 26 فروری کو پولیس نے مسمار کر دیا۔[31] 25 فروری کو صنعتی ملازمین نے نارائن گنج کے قصبہ میں عام ہڑتال کی۔[32] 29 فروری کو کی گئی جلوس کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب ابوالبرکات اور رفیق الدین نے خاندان نے پولیس پر قتل کے دفعات فالنے کی کوشش کی تو تو پولیس نے ان دفعات کو ختم کر دیا۔ 8 اپریل کو حکومتی رپورٹ میں پولیس کی طلبہ پر فائرنگ کی خاص وجہ نہیں بتائی گئی۔[33]

مغربی پاکستان میں رد عمل ترمیم

اگرچہ اس لسانی تحریک نے مشرقی بنگال اور بعد میں مغربی پاکستان کے نسلی گروہوں میں قوم پرست رجحانات کا آغاز کیا، لیکن اس سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے حکام کے مابین ایک ثقافتی مخاصمت کی فضاء بھی پیدا کی۔[5][20][34] مشرقی حصے میں اس تحریک کو پاکستان کے قومی تشخص کیخلاف ایک عمل کے طور پر دیکھا گیا۔[35] "صرف اردو" کی پالیسی کی مخالفت کو مسلمانوں کی عرب فارسی ثقافت اور تحریک پاکستان کو پیدا کرنے والےنظریہ پاکستان کے خلاف دیکھا۔ [5] مغربی پاکستان کے کئی نامور سیاست دان اردو کو برصغیر کے مسلم ثقافت کے نمائندہ اور بنگالی کو ہندو تشخص کی آئینہ دار قرار دیتے تھے۔[11]۔بہت سے لوگ صرف ایک ہی زبان کو جو پاکستان کی مقامی زبان نہیں تھی، کو واحد قومی زبان قرار دینے حمایت کرتے تھے۔ اس عمل سے مغربی حصہ میں بھی ایک مخالفت اٹھی جو خود ایک کثیر السانی خطہ۔[11] جیساکہ 1967 کے اواخر میں فوجی آمر ایوب خان کو یہ کہتے سناگیا، "مشرقی پاکستان۔۔۔ اب بھی واضح ہندو ثقافت کے زیر اثر ہے۔"[11]

1952ء سے بعد کے واقعات ترمیم

 
شہید مینار، ڈھاکہ جس کی بنیاد ابوالبرکات کے گھر والوں نے رکھی۔

شھربودلیو کیندریو راشتروبھاشا کورمی پوریشو نامی تنظیم جسے عوامی لیگ کی بھی حمایت حاصل تھی نے 21 فروری کو شوہید دیبوش کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس واقعہ کی پہلی برسی پر احتجاجات ہوئے جس کے شرکاء نے پورے مشرقی بنگال میں سیاہ پٹییاں باندھ کر متاثرین سے اظہار یکجہتی کی۔ اس موقع پر بہت سے دفاتر، بینک اور تعلیمی اداروں کو اس موقع کی یاد میں بند کیا گیا۔ طلبہ گروپ نے کالج اور پولیس افسران سے قانون اور امن آمہ کو برقرار رکھنے کے وعدے کیے۔ ڈھاکہ میم عوامی میٹنگ میں ایک لاکھ لوگوں نے جمع ہوکر مولانا بھاشانی اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔[10] اس موقع پر کشیدگی میں مشرقی پاکستان کے رہنما فضل الرحمان کی بات سے اضافہ ہوا جنھوں نے بنگالی زبان کے حامی لوگوں کو ملک دشمن قرار دیا۔ بہت سے بنگالی طلبہ اور سول سوسائٹی کے افراد نے جلسے پر عائد پابندیوں کو توڑتے احتجاج میں حصہ لیا۔ 21 فروری 1954ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے کئی حال میں سیاہ پرچم لہرائے گئے۔[36]

1954ء میں یونائٹد فرنٹ ترمیم

1954ء کے مشرقی بنگال میں ہوئے صوبائی انتخابات میں مزید سیاسی اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ مسلم لیگ نے اپوزیشن کی بنائی گئی اتحاد جو اے کے فضل حق اور عوامی لیگ پر مشتمل تھی سے سخت رویہ اپنایا اور مسلم لیگ نے ان کے نظریات کو مسترد کیا۔ یہ جماعتیں مزید صوبائی خود مختاری کی حامی تھیں۔ بہت سارے سیاسی کارکنان اس دوران میں قید کیے گئے۔[37] ایک پارلیمانی اجلاس میں محمد علی بوگرہ نے بنگالی زبان کو بالآخر سرکاری سطح پر اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اس عمل سے مزید لسانی تحریکوں کا راستہ کھلا اور دیگر علاقائی زبانوں کی شناخت کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھنے لگیں۔ مولوی عبدالحق جیسے اردو ادیبوں نے بھی بنگالی زبان کو دی گئی حیثیت کی مخالفت کی۔ انھوں نے ایک لاکھ کا مجمع اس فیصلہ کے خلاف جمع کیا۔[38] نتیجتا یہ سرکاری فیصلہ نافذ نہ ہو سکا اور متحدہ محاذ کو انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہو گئی جبکہ مسلم لیگ کی نمائندگی تاریخی طور پر نیچے چلی گئی۔[27][38] متحدہ محاذ نے اپنی حکومت میں بنگالی زبان کی ترویج، استحکام اور تحفظ کے لیے ایک الگ ادارہ بنام بنگلہ اکیڈمی بنائی۔[39]لیکن اس جماعت کی حکومت 30 مئی 1954ء کو اس وقت ختم کردی گئی جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے گورنر راج کا نفاذ کیا۔[37] متحدہ محاذ نے 6 جون 1955ء کو دوبارہ حکومت بنائی لیکن اس میں عوامی لیگ نے شرکت نہیں کی۔[40]

متحدہ محاذ کی حکومت میں آئے پہلی برسی پر تمام اجتماعات پرامن ماحول میں منعقد ہوئے۔ حکومت نے ایک نیا یادگار شہدا بنانے کا اعلان کیا۔ قانون ساز اسمبلی میں اس لسانی تحریک میں مارے گئے کارکنان کی یاد میں پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ کاروبار اور دیگر عوامی دفاتر بند رہے اور کئی سارے جلسے جلوس کا انعقاد ہوا۔[40][41]

قانونی حیثیت ترمیم

7 مئی 1954ء کے قانون ساز اسمبلی نے مسلم لیگ کی حمایت کے ساتھ بنگالی زبان کو دفتری زبان کا درجہ دیا۔[38] جب 29 فروری 1956ء میں پاکستان کا پہلا قانون پاس کیا گیا تو آرٹیکل 214 کے مطابق اردو سمیت بنگالی زبان کو بھی دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔[40] اس کے باوجود ایوب خان کی فوجی حکومت میں اردو کو دوبارہ واحد دفتری زبان قرار دینے کی کوشش ہوئی۔ مگر 6 جنوری 1959ء کو ایک حکومتی بیان جاری کیا گیا جس میں 1956ء کے آئین کے مطابق دو زبانوں کی بات کی تائید کی گئی۔[42]

آسام ترمیم

مشرقی بنگال میں جاری اس تحریک کا دائرہ دیگر علاقوں میں بھی پھیلا۔ 19 مئی 1961ء کو 11 بنگالی افراد کو سلچر ریلوے اسٹیشن پر قتل کیا گیا جو بنگالی زبان کو سرکاری زبان کے طور پر اپنانے کی بات کر رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آسام کے تین بنگالی اکثریتی اضلاع میں بنگالی زبان کو دفتری زبان کے طور پر اپنایا گیا۔[43]

بنگلہ دیش کی آزادی ترمیم

 
دوسری شہید مینار (یادگار شہداء) جس کی تکمیل 1963 میں ہوئی

اگرچہ یہ لسانی مسئلہ 1956ء تک حل کر لیا گیا تھا لیکن ایوب خان کی حکومت میں مغربی پاکستان کو مشرقی حصہ سے زیادہ اہمیت دی جانے لگی۔ مشرقی حصہ کے لوگوں کو اکثریت میں ہونے کے باوجود اب بھی فوج، عوامی اداروں اور بجٹ میں کم نمائندگی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ اس نوزایدہ مملکت میں منتخب عوامی نمائندہ حکومت کا نہ ہونا تھا۔ علاقائی معاشی زبوحالی نے بنگالی لوگوں میں قوم پرستی کو مزید تقویت دی اور شیخ مجیب کی قوم پرست جماعت عوامی لیگ کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔[20] شیخ مجیب کے چھ نکات میں ایک نکتہ مشرقی بنگال کو بنگلہ دیش قرار دینا بھی تھا۔ ان نکات میں اس صوبہ کو بڑی حد تک خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا گیا اور اس سے جنگ آزادی بنگلہ دیش کا آغاز ہوا۔[5][11]

اثرات ترمیم


بنگلہ دیش ترمیم

 
شہید مینار جو ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے واقع ہے

اس لسانی تحریک نے بنگلہ دیش کی سماجی و ثقافتی زندگی پر انمنٹ نقوش چھوڑے۔ اس کی وجہ سے بنگالی زبان، ادب اور ثقافت کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ 21 فروری لسانی تحریک کی یاد کو بطور یوم تحریک زبان یا شوہید دیبوش (یوم شہداء)، بنگلہ دیش میں ایک اہم قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس دوران میں ایک ماہ تک اکوشے کتب میلہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایکوشے پدک نامی ایوارڈ سالانہ طور پر اسی دن جاتی ہے جو ایک اہم سول ایوارڈ ہے۔[44] اس دن پر بہت سے مشہور سارے افسانے، ڈرامے، پینٹنگز، ناول، نغمے اور گانے لکھے گئے جن میں عبد الغفار چودھری کا گانا اکوشار گان مشہور ہیں اس کی موسیقی شہید الطاف محمود نے دی۔[45] ان معروف نظموں میں بورنو مالا، امر دوکھنی بورنومالا اور فروری 1969ء شامل ہیں جسے شمس الرحمان نے لکھا، فلم میں ظہیر ریحان کی جبون تھیکے نیا، ناٹک میں منیر چوہدری کی کوبور اور ناول میں ایکوشے فروری مصنف ظہیر ریحان اور ارتوناد مصنف شوکت عثمان مشہور ہیں۔[46]

پولیس کے ہاتھوں مسمار کیے گئے یادگار کو دو سال بعد 1954 میں تحریک میں مارے گئے لوگوں کی یاد میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ 1957ء میں ایک بڑے یادگار کی تعمیر کی منظوری متحدہ محاذ کی حکومت نے دی اس کی منظوری جامعہ ڈھاکہ کی ایس چانسلر محمود حسین اور کالج آف آرٹس کے پرنسپل زین العابدین نے بھی دی جبکہ یادگار کے ڈیزائن معمار حمید الرحمان نے بنائی۔ ان کے ڈیزائن میں ایک نیم دائرے کی طرز میں کالم بنائی گئی جو ایک ماں کا تصور پیش کرتے اور جس کے چارے مارے گئے بچے اس کے گرد کھڑے دکھائے گئے ہیں۔[47] 1958ء کے مارشل لا میں اس کی تعمیر معطل رہی لیکن 21 فروری 1963ء میں ابو البرکات کی والدہ کے ہاتھوں اس یادگار کا افتتاح کیا گیا۔ 1971ء میں یہ یادگار پاکستانی فوج کے ہاتھوں تباہ ہوا اور 1973ء میں اس کی دوبارہ مرمت کی گئی۔[48] بنگلہ دیش کے پہلے نجی ٹی وی چینل کا نام اس دن کی مناسبت سے ایکوشے ٹیلیویژن رکھا گیا۔

بھارت میں اثر ترمیم

مغربی بنگال اور تریپورہ میں شہدا کے دن کو باقاعدہ منایا جانے لگا اسی طرح دنیا بھر میں پھیلے بنگالی لوگ اس دن کو مادری زبان کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ سیلچر ریلوے میں مارے گئے 11 طلبہ کی بڑی سے تصویر اسی اسٹیشن پر لگائی گئی اور اس اسٹیشن کو بھاشا شہید ریلوے سٹیشن کا نام دیا گیا۔

دنیا ترمیم

بنگلہ دیش نے یونیسکو کو ایک درخواست میں 21 فروری کو عالمی طور پر مادری زبان کے دن کے طور پر منانے کی سفارش کی۔ اس درخواست کو یونیسکو کے تیسویں عام اجلاس جو 17 نومبر 1999ء کو منعقد ہوئی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی۔[49]

تنقید ترمیم

گو کہ بنگالی زبان تحریک نے مشرقی بنگال اور بعد میں مشرقی پاکستان میں بہت سے بنگالیوں کے لیے نسلی قوم پرستی کی بنیاد رکھی لیکن مشرقی پاکستان کے دو بازوؤں کے درمیان ثقافتی دشمنی میں بھی اضافہ ہوا پاکستان حکام۔[50] پاکستان کے مغربی ونگ میں وہ لسانی تحریک کو معاشرے کے کچھ طبقات کے لیے بغاوت کے سوا کچھ نہیں سمجھتے تھے۔[51] پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف اردو کی پالیسی پر اعتراض صرف مسلمانوں کی فارسی عربی ثقافت پر اعتراض کرنے کے ساتھ ساتھ نظریہ کے قیام کے مترادف ہے۔ پاکستان کو دو ریاستوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ نیز، مغربی ونگ میں کچھ سیاسی اثرات اردو زبان کو اسلامی ہندی ثقافت کی پیداوار کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ بنگالی زبان ہندو کا حصہ ہے۔ اور ان میں سے اکثر فریقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ مغرب کی طرف اور ان کا ماننا ہے کہ اردو ملک کی واحد مقامی زبان ہے اور اس عقیدے نے پاکستان کے مغربی حصے میں جہاں دیگر زبانوں کے گروہ موجود ہیں، بہت بڑا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ 1967 کے آخر میں ڈکٹیٹر ایوب خان نے بیان دیا کہ مشرقی بنگال اب بھی ہندوؤں کے زیر اثر اور ثقافت ہے۔ بنگالی زبان کی تحریک کے بعد، مسلم عوامی لیگ پارٹی بنگالی نیشنل عوامی لیگ میں تبدیل ہو گئی اور لفظ مسلم کو حذف کر دیا گیا۔ [52] نیز، پاکستانی عوام کی زبانی تحریک نے پاکستان کے مغربی محاذ کے غلط کاموں کے خلاف اپنی ناپسندیدگی اور احتجاج کا اظہار کیا۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران اور صوبائی حکومت کی قیادت میں مرکزی حکومت اور متحدہ محاذ کے درمیان مقابلہ ان اہم عوامل میں سے ایک تھا جو ایوب خان کی پالیسی پر 1958 کے انقلاب کا باعث بنا۔ [53]

تصاویر ترمیم

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  • B Al Helal (2003)۔ Bhasha Andoloner Itihas (History of the Language Movement) (بزبان بنگالی)۔ Agamee Prakashani، Dhaka۔ ISBN 984-401-523-5 
  • Badruddin Umar (1979)۔ Purbo-Banglar Bhasha Andolon O Totkalin Rajniti পূর্ব বাংলার ভাষা আন্দোলন ও তাতকালীন রজনীতি (بزبان بنگالی)۔ Dhaka: Agamee Prakashani 
  • Badruddin Umar (2004)۔ The Emergence of Bangladesh: Class Struggles in East Pakistan (1947–1958)۔ Oxford University Press۔ ISBN 0-19-579571-7 
  • Sufia M. Uddin (2006)۔ Constructing Bangladesh: Religion, Ethnicity, and Language in an Islamic Nation۔ Chapel Hill: The University of North Carolina Press۔ ISBN 0-8078-3021-6 

ماخذ ترمیم

  1. Sajal Nag۔ Nation and Its Modes of Oppressions in South Asia (بزبان انگریزی)۔ Taylor & Francis۔ ISBN 978-1-000-81044-8۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2022 
  2. এরশাদুল আলম প্রিনস (20 February 2022)۔ "বাংলা হরফের ওপর শয়তানি আছর"۔ banglanews24.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2017 
  3. Glassie, Henry and Mahmud, Feroz.2008.Living Traditions. Cultural Survey of Bangladesh Series-II. Asiatic Society of Bangladesh. Dhaka. International Mother Language Day
  4. ^ ا ب R Upadhyay (2003-05-01)۔ "Urdu Controversy – is dividing the nation further"۔ Papers۔ South Asia Analysis Group۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 فروری 2008 
  5. ^ ا ب پ ت Tariq Rahman (1997)۔ "The Medium of Instruction Controversy in Pakistan" (PDF)۔ Journal of Multilingual and Multicultural Development۔ 18 (2): 145–154۔ ISSN 0143-4632۔ doi:10.1080/01434639708666310۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2007 
  6. Shashwati Halder۔ "Apabhrangsha"۔ Banglapedia۔ Asiatic Society of Bangladesh۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2007 
  7. "A Historical Perspective of Urdu"۔ National Council for Promotion of Urdu language۔ 11 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جون 2007 
  8. T Bhattacharya (2001)۔ "Bangla"۔ $1 میں Garry, J.، Rubino, C.۔ Encyclopedia of World's Languages: Past and Present (Facts About the World's Languages)۔ New York: HW Wilson۔ ISBN 0-8242-0970-2 
  9. Tariq Rahman (فروری 1997)۔ "The Urdu-English Controversy in Pakistan"۔ Modern Asian Studies۔ 31 (1): 177–207۔ ISSN 1469-8099۔ JSTOR 312861۔ doi:10.1017/S0026749X00016978 
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ "Language Movement"۔ Banglapedia – The National Encyclopedia of Bangladesh۔ Asiatic Society of Bangladesh۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PHP) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 فروری 2007 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث Philip Oldenburg (اگست 1985)۔ ""A Place Insufficiently Imagined": Language, Belief, and the Pakistan Crisis of 1971"۔ The Journal of Asian Studies۔ The Journal of Asian Studies, Vol. 44, No. 4۔ 44 (4): 711–733۔ ISSN 0021-9118۔ JSTOR 2056443۔ doi:10.2307/2056443 
  12. Cite news | newspaper =Morning News | date =7 دسمبر 1947 | title = | ref =harv }}
  13. (Al Helal 2003, pp. 227–28)
  14. (Umar 1979, pp. 30–32)
  15. Ekusher Shongkolon '80 (بزبان البنغالية)۔ Dhaka: بنگلہ اکیڈمی۔ 1980۔ صفحہ: 102–103 
  16. Hasan Hafizur Rahman (1982)۔ Bangladesher Swadhinotajuddher Dolilpotro۔ Ministry of Information, People's Republic of Bangladesh 
  17. "NATIONAL CONSOLIDATION"۔ 21 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 مئی 2014 
  18. G. W. Choudhury (اپریل 1972)۔ "Bangladesh: Why It Happened"۔ International Affairs۔ Royal Institute of International Affairs۔ 48 (2): 242–249۔ ISSN 0020-5850۔ JSTOR 2613440۔ doi:10.2307/2613440 
  19. Umar 2004, p. 34
  20. ^ ا ب پ Uddin 2006, pp. 3–16, 120–124
  21. R. Upadhyay (7 اپریل 2007)۔ "De-Pakistanisation of Bangladesh"۔ Bangladesh Monitor, South Asia Analysis Group۔ 11 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2007 
  22. Ranita Mandal (24 جون 2002)۔ "Chapter 4 : Other Activities"۔ Muhammad Shahidullah & His Contribution To Bengali Linguistics۔ Central Institute of Indian Languages, Mysore, India۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2007 
  23. ^ ا ب پ
  24. Umar 2004, pp. 192–193
  25. "Dhaka Medical College Hostel Prangone Chatro Shomabesher Upor Policer Guliborshon. Bishwabidyalayer Tinjon Chatroshoho Char Bekti Nihoto O Shotero Bekti Ahoto"۔ The Azad (بزبان بنگالی)۔ 22 فروری 1952 
  26. ^ ا ب پ Al Helal 2003, pp. 377–393
  27. ^ ا ب
  28. "Banglake Pakistaner Onnotomo Rashtrabhasa Korar Jonno Purbobongo Babostha Porishoder Shoparesh. Shukrobar Shohorer Obosthar Aaro Obonoti: Shorkar Kortrik Shamorik Bahini Tolob. Police O Shenader Gulite Charjon Nihoto O Shotadhik Ahoto : Shatghontar Jonno Curfew Jari. Shohidder Smritir Proti Sroddha Gyaponarthay Shotosfurto Hartal Palan"۔ The Azad (بزبان بنگالی)۔ 23 فروری 1952 
  29. Al Helal 2003, p. 483
  30. "It's True!"۔ The Daily Star۔ 21 فروری 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2018 
  31. Ahmed Rafique۔ "Shaheed Minar"۔ en.banglapedia.org۔ Banglapedia۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2018 
  32. Umar 2004, p. 218
  33. Al Helal 2003, pp. 546–552
  34. "History of Bangladesh"۔ Discovery Bangladesh۔ 9 جون 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2007 
  35. Tariq Rahman (ستمبر 1997)۔ "Language and Ethnicity in Pakistan"۔ Asian Survey۔ University of California Press۔ 37 (9): 833–839۔ ISSN 0004-4687۔ JSTOR 2645700۔ doi:10.1525/as.1997.37.9.01p02786 
  36. Al Helal 2003, pp. 604–609
  37. ^ ا ب Al Helal 2003, pp. 600–603
  38. ^ ا ب پ "UF elections victory"۔ Chronicles of Pakistan۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2011 
  39. Bashir Al Helal (2012)۔ "Bangla Academy"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  40. ^ ا ب پ Al Helal 2003, pp. 608–613
  41. "Gambhirjopurno Poribeshay Shaheed Dibosh Utjapon"۔ Weekly Notun Khobor (بزبان بنگالی)۔ 26 فروری 1956 
  42. Richard D. Lambert (اپریل 1959)۔ "Factors in Bengali Regionalism in Pakistan"۔ Far Eastern Survey۔ Institute of Pacific Relations۔ 28 (4): 49–58۔ ISSN 0362-8949۔ JSTOR 3024111۔ doi:10.1525/as.1959.28.4.01p1259x 
  43. Gautam Sarkar (20 مئی 2008)۔ "Court route for language status"۔ The Telegraph۔ Calcutta 
  44. Sanjida Khan (2012)۔ "National Awards"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  45. Ronald Aminzade، Douglas McAdam، Charles Tilly (17 ستمبر 2001)۔ "Emotions and Contentious Politics"۔ Silence and Voice in the Study of Contentious Politics۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 42۔ ISBN 0-521-00155-2۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2007 
  46. Rafiqul Islam (2000)۔ Amar Ekushey O Shaheed Minar (بزبان بنگالی)۔ Dhaka: Poroma۔ صفحہ: 62–85۔ ISBN 984-8245-39-1 
  47. Syed Sajjad Hussain (1996)۔ The Wastes of Time۔ Institute of Islamic Culture۔ OCLC 41452432 
  48. Jahanara Imam (1986)۔ Ekattorer Dingulee (بزبان بنگالی)۔ Dhaka: Shondhani Prokashani۔ صفحہ: 44۔ ISBN 984-480-000-5 
  49. "International Mother Language Day – Background and Adoption of the Resolution"۔ Government of Bangladesh۔ 20 مئی 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2007 
  50. "Bangladesh History". Discovery Bangladesh. Retrieved 2007-06-21.
  51. Rahman, Tariq (September 1997). "Language and Ethnicity in Pakistan". Asian Survey 37 (9): 833–839. doi:10.1525/as.1997.37.9.01p02786. ISSN 0004-4687. JSTOR 2645700.
  52. Lintner, Bertil (January 2004). "Chapter 17: Religious Extremism and Nationalism in Bangladesh". In eds Satu Limaye, Robert Wirsing, Mohan Malik (PDF). Religious Radicalism and Security in South Asia. Honolulu, Hawaii: Asia-Pacific Center for Security Studies. p. 413. ISBN 0-9719416-6-1. Retrieved 2007-06-28. [edit]
  53. a b c d e James Heitzman and Robert Worden (eds), ed. (1989). "Pakistan Period (1947–71)". Bangladesh: A Country Study. Government Printing Office, Country Studies US. ISBN 0-16-017720-0. Retrieved 2007-06-16.

مزید متعلقہ مصادر ترمیم

بیرونی روابط ترمیم