مسودہ:تصوف (تغیر)
- یہ صفحہ مضمون تصوف میں تغیر و تجدید کے لیے ہے، موجودہ مضمون تصوف پر درج ہے۔
- ترامیم ؛ ہدایات برائے تحریر اور انداز مقالات کے مطابق ہونا چاہیں۔
- اس صفحہ پر متفقہ یا غیر متفقہ پر باحوالہ بیانات کو اصل مضمون پر منتقل کر دیا جائے گا۔
تصوف (sufism) کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی ، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس [1] اور حدیث کی اصطلاح میں احسان [2] کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے اشخاص تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علما اکرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نا صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔ ان تمام پہلوؤں کا جائزہ مضمون میں آجائے گا فی الحال یہاں تصوف کی وضع کو مزید وضاحت سے بیان کرنے کی خاطر ایک اور تعریف William C. Chittick کے مطابق دی جا رہی ہے۔۔۔
” | مختصر یہ کہ وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں جسم کے لیۓ معیاری خطوطِ راہنمائی (guidelines) کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقہی کہلاۓ ، اور وہ جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم (task) ، درست فہم تک رسائی کے لیۓ عقل کی تربیت ہے وہ پھر تین مکتبوں میں تقسم ہوۓ ۔۔ الٰہوتین (theologian) ، فلاسفہ اور صوفیاء۔ یہاں ہمارے پاس اس انسانی وجود سے متعلق تیسرا ساحہ رہ جاتا ہے، (یعنی) روح۔ متعدد مسلم ، جنہوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں انسانی شخصیت کی (ان) روحانی ابعاد کی پرورش کے لیۓ مختض کردیں وہ صوفی کے نام سے جانے گۓ (اصل عبارت کے لیۓ ربط دیکھیۓ)[3]۔ | “ |
ان مذکورہ بالا دو تعریفوں کے علاوہ بھی تصوف کی بے شمار تعریفیں بیان کی جاتی ہیں جن کا تذکرہ تعریفوں کے قطعے میں آجائے گا، مندرجہ بالا دو تعریفوں کا ابتدایئے کے لیے انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ان میں تصوف کا مکمل اسلامی نقطۂ نظر اور تصوف کا فلسفیانہ نقطۂ نظر دونوں آجاتے ہیں۔
مضامین بسلسلہ |
موافقت و مخالفت
ترمیمتصوف کا لفظ ، اسلامی ممالک (بطور خاص برصغیر ) میں روحانیت ، ترکِ دنیا داری اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علما میں اس سے معترض اور متفق ، دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں؛ کچھ کے خیال میں تصوف شریعت اور قرآن سے انحراف کا نام ہے اور کچھ اسے شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ اس لفظ تصوف کو متنازع کہا بھی جاسکتا ہے اور نہیں بھی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشخاص خود تصوف کے طریقۂ کار سے متفق ہیں وہ اس کو روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے قرآن و شریعت سے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور جو اشخاص تصوف کی تکفیر کرتے وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہیں یعنی ان دونوں (تصوف موافق و تصوف مخالف) افراد کے گروہوں کے نزدیک تصوف کوئی متنازع شے نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو معاملہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے۔ دوسری جانب وہ افراد ، عالم یا محققین (مسلم اور غیر مسلم) کہ جو مسلمانوں میں موجود تمام فرقہ جات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک تصوف کا شعبہ مسلمانوں کے مابین ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے[4]۔
کوزے میں دریا
ترمیمایک مضمون میں تمام پہلوؤں کو شامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ آخر تصوف ہے کیا؟ یعنی تصوف کی تعریف کیا ہے؟ اور پھر اس کے بعد اس تصوف کے آغاز (تاریخ آغاز) سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اس ابتدائی مطالعے کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ تصوف میں کس طرح نمو ہوئی؟ تصوف کو اس کے آغاز کے بعد ، مسلمانوں کے مختلف فرقہ جات نے کس انداز میں اپنے اپنے طور پر اختیار کیا؟ اس کے بعد یہ معلوم کرنا اہم ہے کہ
- تصوف کا تصور مختلف فرقوں کے مابین متنازع کیوں ہے؟
تصوف آج صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں رہا بلکہ غیر مسلم دنیا میں بھی صوفیت (sufism) اپنی جگہ بنا چکا ہے، تو پھر غیر مسلم اس تصوف کو کس انداز میں دیکھتے ہیں؟ کیا غیر مسلموں کے نزدیک تصوف کوئی اسلامی چیز ہے یا اسلام سے الگ؟ کیا تصوف کو اسلامی غامضیت (islamic معرفت) کہا جاسکتا ہے؟ اور کیا تصوف کو حقیقی یا جھوٹی (کاذب) اقسام میں تقسیم کر کہ دیکھا جاسکتا ہے؟ تصوف اور اسلام میں فرق ہے؟ پھر تصوف کے شعبے کی اہم شخصیات (صوفیا اکرام) ان کی تحاریر و کتب اور ان کتب کے (منفی و مثبت) اثرات کا جائزہ لینا۔
- کیا فقہی ائمہ (امامیان) کے ہاں تصوف کے بارے میں خیالات ملتے ہیں؟
کیا تمام فقہی ائمہ اکرام تصوف پر ایک جیسے افکار بیان کرتے ہیں؟ اور سب سے اہم پہلو یہ کہ اسلامی معاشرے میں رہنے والا ایک عام شخص (جس کا کوئی دینی یا تاریخی مطالعہ نا ہو) تصوف کو کس انداز سے دیکھتا ہے؟ مزید یہ کہ تصوف میں غیر اسلامی افکار ، تصوف سے اسلام میں پیدا ہونے والے فرقہ جات اور تصوف کا سہارا لے کر نمودار ہونے والے جھوٹی نبوت کے دعوٰی داروں پر ایک نظر۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک ہی مضمون میں بیان کرنا مقصود ہو تو پھر ان تمام پہلوؤں کا صرف ایک تعارف اور مزید تحقیق کے لیے حوالہ جات ہی دیے جاسکتے ہیں؛ اور یوں یہاں ایک دریا کو کوزے میں بند کرنے والی کہاوت مِصداق آتی ہے لیکن ایسا کیے بغیر مضمون سے انصاف بھی نہیں کیا جاسکتا۔
نظریاتِ آغاز
ترمیممسلم و غیر مسلم محققین نے اسلام میں تصوف کے آغاز کی وجوہات و اسباب پر متعدد نظریات پیش کیے ہیں جن میں خاصی حد تک مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔
داخلیتِ اسلام
ترمیماسلام پر علامہ (scholar) کہلائے جانے والے ایک فرانسیسی لوئی ماسینیؤن (Louis Massignon) عہد بمطابق (1883ء تا 1962ء) نے تصوف کو ---- داخلیتِ اسلام ---- قرار دیا ہے ، یعنی اسلام کو اپنے آپ میں داخل کرلینا؛ اس کے مطابق قرآن کی مسلسل تلاوت (تکرار)، مراقبہ اور تجربے سے تصوف پیدا ہوا (ہوئی) اور بڑھی[5]۔ تصوف کا قرآن میں لغوی (lexically) طور پیوست ہونے کا یہ نظریہ ، باطنیتِ کلام ، سے بہت مختلف بھی نہیں کہا جاسکتا؛ صوفیا بھی اسی ظاہریت اور باطنیت کی تقسیمِ اسلام کے قائل ہیں، یعنی قرآن کے الفاظ کا مسلسل ورد اور ان میں وہ معنی (باطنی) تلاش کرنا کہ جو ظاہر میں نظر نہیں آتے یا پوشیدہ ہیں، صوفیا کے نزدیک تصوف کی بنیاد ہیں[6]۔
باطنیتِ کلام
ترمیماسلام ایک کامل دین ہونے کے ناطے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تصوف کے آغاز کے بارے میں کچھ نظریہ دان ان پہلوؤں کو تین اقسام میں دیکھتے ہیں؛ جسمانی ، عقلی اور روحانی پہلو؛ یہ تیسرا پہلو ہی ہے کہ جس پر اختصاص (specialization) حاصل کرنے والوں کو صوفی کہا جانے لگا[7]۔ اسی بات کو تصوف سے تعلق رکھنے والے علما بھی ایک حدیث کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ جس میں اسلامی تعلیمات کے ان تین پہلوؤں کا ذکر آتا ہے اور احسان (excellence) کے بارے میں عبارت یوں ہے
- احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے[2]۔
تصوف کے لیے احسان اور روح کے علاوہ بھی متعدد الفاظ بطور متبادل استعمال میں دیکھے جاتے ہیں؛ مثال کے طور پر صوفیا کے نزدیک تزکیۂ نفس ، علم السلوک اور تہذیب نفس بھی تصوف کے ہی مختلف نام ہیں۔ مذکورہ بالا تمام افکار و طریقہ ہائے کار اصل میں پیغمبر اسلام اور صحابہ اکرام کے زمانے سے ہی رائج ہیں اور ان کو اسلام ہی کی تعلیمات کہا جاتا تھا۔
رد عملِ دنیا پرستی
ترمیمحضرت عمر کے زمانے سے تیزرفتاری سے وسعت اختیار کرنے والی اسلامی حکومت میں نومسلمین (غیر عرب) کی کثیر تعداد شامل ہوتی جارہی تھی جس بارے میں صحابہ اور علما ہمیشہ فکرمند بھی رہتے تھے کہ اچانک اسلام سے آشنا ہونے والے نومسلمین کی تربیت کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے کہ اسلامی افکار میں ان علاقوں کے قبل از اسلام کے افکار شامل نا ہونے پائیں جو نئے فتح ہوئے تھے۔ 661ء میں حضرت علی کی شہادت کے بعد، امت کے افکار میں افتراق وسیع ہونے لگے۔ خلافت راشدہ کے بعد آنے والے حکمران اپنے پیشروؤں جیسی اسلامی حکومت کی مثال قائم نا رکھ سکے اور متعدد علما ان سے بدظن ہونے لگے۔ یہ علما ، مسلمانوں میں آنے والی دولت و آسائش طلب زندگی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ابتدائی اسلام کی سادہ گذربسر کی تعلیمات پر زور دیتے تھے؛ ان میں حسن البصری[8] اور ابو ھاشم جیسے علما شامل ہیں اور علما کی دنیاداری سے دور رہتے ہوئے زاہدانہ زندگی کا اختیار کرنا آگے چل کر تصوف کی صورت میں نمو پایا؛ ابو ھاشم کو وہ پہلا شخص کہا جاتا ہے کہ جن کو ان کے بعد آنے والوں نے صوفی کا لقب دیا[9]۔
حبسِ اسلامِ راسِخ
ترمیمایک نظریہ جو بطور خاص تصوف سے شغف اور اسلام سے بغض رکھنے والے غیر مسلم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ؛ تصوف اصل میں اسلامِ راسِخ (orthodox islam) کی پابندیوں ، اپنے نفس پر قابو رکھنے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے عقیدے کو مضبوط رکھنے کے لیے درکار مشقتِ شاقہ اور شرائطِ عُبودیت پر عمل پیرا ہونے کو دشوار سمجھنے اور اس سے نفسیاتی طور پر حبس کی کیفیت محسوس کرنے کے طور پر پیدا ہونے والا رد عمل ہے[10]۔ ان محققین کے نزدیک اسلامِ راسِخ کی شرائطِ بندگی اور صعب مجاہدۂِ نفس سے آزاد ہونے اور دوسرے مذاہب کے افکار سے دوستانہ ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کے پھیلاؤ کے وقت اسلام ، سیاست کی بجائے تصوف سے جلد پھیلا [11]۔
مختلف فرقے، مختلف تعریفیں
ترمیماصطلاح | term |
---|---|
تصوف |
sufism |
لفظ، تصوف تو اصل میں خود اس پر عمل کرنے والے (یعنی صوفی) کے نام سے مشتق ہے، گویا صوفی کا لفظ تصوف سے قدیم ہے[12]۔ رہی بات تصوف کی تعریف کی، تو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ سیدھے سادھے لفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف ، اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے کہ جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔
- جبکہ خود صوفیا، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ تصوف ، اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے کہ جس میں روحانی نشو و نما پر توجہ دی جاتی ہے[13]۔ صوفیا، تصوف کی متعدد جہتوں میں؛ اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔
- دیوبند کے ایک عالم اور اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے محمد مسیح اللہ خان ، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ ؛ اعمالِ باطنی (esoteric) سے متعلق شریعت کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور، اعمالِ ظاہری (exoteric) سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے[14] ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بطور مقلد یہ حنفی ہیں، طریقت میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ ماتریدی اور سلوک میں چشتی ہیں[15]۔
- برصغیر میں دیوبندیوں کے ساتھ ساتھ بریلوی بھی تصوف میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور اس فرقے کے بانی احمد رضا خان کو، قادریہ سمیت تصوف کے تیرہ دیگر فرقہ جات کی جانب سے خلافت حاصل تھی[16]۔
- یہاں ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیے جانے والے ایک صوفی جلال الدین رومی نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں[17]۔
- تصوف سے نالاں علمائے اسلام اور سلفی حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف ، محمد کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور یہ کہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن ان میں ایسے علما بھی نظر آتے ہیں جو چند صوفیا (جیسے امام غزالی) کو تکفیر صوفیت کے دوران مُستثنٰی رکھتے ہیں[18]۔
- اہل تشیع کے مطابق تصوف ، عملی معرفت (gnosis) کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو حواس اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو[19]۔ فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیے ایرانی علاقوں میں عرفانِ نظری (theoretical gnosis) کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے، شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے[20]۔
- تصوف تصوف کی مذکورہ بالا تعریفوں کے بعد اگر حجت تمام کے لیے غیر مسلم (اور بطور خاص مستشرقین (orientialists)) کا تصوف کے بارے میں نظریہ دیکھا جائے تو بہت سے حقائق واضح ہو جاتے ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ غیر مسلم ، تصوف کو اسلام سے کس طرح جدا دیکھتے ہیں، اس کا تفصیلی ذکر اس کے لیے مخصوص قطعے میں آئے گا۔ انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق؛ تصوف ، اسلام میں ایک باطنیہ (escoteric) تحریک کا نام ہے جو خدا کے براہ راست شخصی (ذاتی) تجربات کے ذریعہ آسمانی (الٰہی) حب و علم کی متلاشی ہے۔ صوفیت محمد کے بعد ایسے اشخاص (مجمع) میں ایک منظم تحریک کے طور پر ابھری جو اسلامِ راسِخ کو روحانی طور پر حبسِ نفس (محبوس) سمجھتے تھے[10]۔
صوفی کی اصل الکلمہ
ترمیمجیسا کہ قطعۂ تعریف میں بیان ہوا کہ لفظ تصوف تو اصل میں صوفی سے مشتق ایک اسم ہے جو نویں صدی عیسوی (قریباً 286 ھجری) سے مروج ہونا شروع ہوا[6][12]۔ لفظ صوفی کے بارے میں محققین مختلف نظریات رکھتے ہیں جو نیچے درج کیے جا رہے ہیں۔
اصحابِ صُفّہ
ترمیمتصوف سے شغف رکھنے والے علما اکرام ، لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ، اصحاب صفہ سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر (صِفَة) کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید (صُفَّة) کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ مسجد نبوی کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ ، فقراء ، تارکِ دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لیے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے[21]۔ امام ابن تیمیہ کے مطابق حضرت محمد نے اصحاب کو سوال کرنے سے بالکل منع کر دیا تھا یعنی اصحاب صفہ ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نا ہی ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات (حال ، وجد وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نا ہی اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح جہاد میں بھی شریک ہوا کرتے تھے[22] مزید یہ کہ علم لسانیات کے مطابق ، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ اعراب کے کی رو سے لفظ صفہ سے صُفّی (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے[23]۔
صف الاول
ترمیمبعض صوفیا کے خیال میں یہ لفظ صوفی اصل میں صف اول کی صف سے ماخوذ ہے کہ صوفی تمام دیگر انسانوں کی نسبت اپنا دل خدا کی جانب کرنے اور اس سے رغبت رکھنے میں پہلی صف میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی دیگر متعدد ماخذ کی طرح لسانی قواعد کی پیچیدگی پیش آتی ہے کیونکہ اگر صوفی ، صف سے اخذ کیا گیا ہوتا تو پھر اس لفظ کو صَفّی (saffi) ہونا چاہیے تھا نا کہ صوفی (sufi) جو مروج ہے[24]۔
صوفہ
ترمیمزمانۂ جاہلیت میں ’’صوفہ ‘‘ نام سے ایک قوم تھی اس قوم کے خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔ گو عربی قواعد کی رو سے لفظ ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی ‘‘ نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے لیکن بعض ماہرین اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے’’کوفانی‘‘ کی بجائے ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے’’صوفی‘‘ کا اشتقاق بھی ممکن ہے[21]۔ اس دلیل کے باوجود اس اصل الکلمہ کے خلاف متعدد دیگر وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں[23]
- قوم صوفہ ایک غیر معروف قوم تھی جس کی جانب صوفیا کی توجہ مرکوز ہونا یا اس کے نام سے تشبیہ کا امکان قوی نہیں۔
- اگر بالفرض یہ اصل الکلمہ درست تسلیم کر لی جائے تو پھر صوفی کا لفظ خود حضرت محمد اور صحابۂ اکرام کے زمانے سے موجود ہونا چاہیے تھا نا کہ دوسری صدی ھجری (امام قشیری کے مطابق 822ء میں[24]) سامنے آتا[9]۔
- قبل از اسلام کے زمانۂ جاہلیہ سے انتساب کو مسلمان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور صوفیا کی جانب سے ایسا انتخاب ممکن نظر نہیں آتا۔
سوفیہ
ترمیمسوفیہ اصل میں ایک یونانی لفظ ، sophos سے لیا گیا ہے جس کے معنی حکمت اور فارسی متبادلِ تصوف کی اصطلاح کے مطابق عرفان کے ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے تھیو صوفی (theosophy) کو اردو میں حکمت یزدانی کہا جاتا ہے۔ اس اصل الکلمہ کا تذکرہ سب سے پہلے البیرونی سے روایت کیا جاتا ہے[23]۔ اس کو رد کرنے والے محققین کے نزدیک ، ادبی طور پر یا فقۂ لسانیات (philology) کے لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ ان کے مطابق sophos کو یونانی میں لکھنے کے لیے لفظ سگما استعمال کیا جاتا ہے اور عربی تراجم کے دوران اس کا متبادل سین آتا ہے نا کہ حرف صاد کا آتا ہو۔ برخلاف، وہ محققین جو تصوف میں تھیو صوفی اور نو افلاطونیت جیسے افکار پر توجہ دیتے ہیں (مثال کے طور پر Rene Guenon المعروف عبدالواحد یحیٰی (1886ء تا 1951ء)) وہ لفظ صوفی کے لیے sophos کی اصل الکمہ کے حق میں علم الاعداد (numerology) کا سہارا لیتے ہیں اور ان کے مطابق لفظ صوفی میں موجود اعداد کی تعداد حکمت الٰہیہ کے برابر ہے اس لیے صوفی ، سوفیہ سے ہی مشتق ہے[25]۔
الصّفاء
ترمیمفقہی امام، احمد بن حنبل کے استاد بشر ابن الحارث (767ء تا 840ء) جنہیں بشر الحافی بھی کہا جاتا ہے کہ مطابق؛ صوفی وہ ہے کہ جس کا دل اللہ کی جانب مخلص (صاف) ہو[24]۔ اگر لفظ الصفاء کو اخلاص ، پاکیزگی اور صفائی کے معنوں میں لے کر اسی کو صوفی کی بنیاد یا اصل الکلمہ تسلیم کیا جائے تو پھر قواعدی طور پر لفظ صوفی کی بجائے صفوی یا صفاوی اخذ ہونا چاہیے تھا[23]۔
صوف
ترمیملفظ صوف کے معنی اون کے آتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ یہ لفظ کوئی آٹھویں صدی عیسوی سے دیکھنے میں آرہا ہے جب ابن سیرین (وفات 729ء) سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس لباس کی حضرت عیسیفائل:ALAYHE.PNG کی جانب نسبت سے پہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا[26]۔ ابن خلدون کے مطابق صوف (اون) کے کپڑے پہنے کا رجحان دنیا پرستانہ زندگی کی جانب رغبت کے رد عمل کے طور پر ہوا (دیکھیۓ قطعہ؛ ردعملِ دنیا پرستی) جب بزرگ اور نیک انسانوں نے قیمتی اور ریشمی لباسوں کی نسبت سادہ صوف کے لباس کو ترجیح دینا شروع کی[21]۔
بلا ماخذ
ترمیمامام قشیری کے مطابق یہ لفظ 822ء سے دیکھنے میں آیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا پرستی سے نالاں اور زاہد عبادت گزار کسی متعبر نام (لقب / شناخت) سے محروم ہو چکے تھے؛ یعنی خود محمد کے زمانے میں تو سب سے متعبر لقب یا شناخت ، لفظ صحابی ہی کا تھا پھر ان کے بعد والی نسل نے تابعین کی شناخت اختیار کی اور ان کے بعد کی نسل نے تبع تابعین کے لفظ سے شناخت اختیار کی مگر پھر تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کے لیے یہ لفظ صوفی اختیار کیا گیا[24]۔
تفرقِ ظاہریت و باطنیت
ترمیمایک لفظ جو تصوف میں بکثرت استعمال ہوتا ہے وہ ہے باطنیت (esotericism) کا لفظ اور اس کو ظاہری زندگی یعنی ظاہریت (exotericism) سے اندرونی زندگی کو الگ شناخت دینے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے، گو ظاہری زندگی سے یوں تو مراد دنیاوی زندگی کی لی جاسکتی ہے اور عام انسان اس سے وہ زندگی لے سکتا ہے جو مذہبی زندگی (عبادت کے اوقات) سے علاوہ ہو لیکن تصوف میں ایک صوفی کی مراد اس ظاہری زندگی سے اس زندگی کی ہوتی ہے جو غیر صوفی بسر کرتے ہیں۔ جنید (830ء تا 910ء) کے مطابق صوفی ، خود کے لیے مرا ہوا اور خدا کے لیے زندہ ہوتا ہے[24][27]۔
صوفیت اور اسلام
ترمیمصوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی[14]۔ ظاہری علوم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔ اور باطنی علم وہ ہے جو ان کے کہنے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چند صحابہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت علی اور حضرت ابوذر کو تعلیم کیا۔ حضرت ابوبکر سے حضرت سلیمان فارسی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری فیضیاب ہوئے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چاردرجے ہیں۔
جب تک یہ تمام درجات اپنے درست مقام پر حاصل نہ کیے جائیں اس وقت تک انسان صوفی نہں ہو سکتا۔ شریعت اسلام کا ظاہر ہے اور طریقت اس کا باطن۔ اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی منافین مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے جو ظاہر میں تو ہر وہ عمل کرتے تھے جس کے کرتے کا اسلام نے حکم دیا ہے جیسے کہ نماز روزہ، جہاد وغیرہ مگر دل ہی دل میں وہ کافروں کے ساتھ تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ہم ان مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ان کے سب حالات معلوم تھے اور بعض اوقات تو اکابر صحابہ کی جانب سے بھی ان کو قتل کر دینے تک کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جان و مال کو بالکل اسی طرح محفوظ رکھا جیسے کہ کسی مسلمان کا رکھا جاتا ہے یہاں پر ان کے ظاہر پر حکم لگایا گیا ہے جو شریعت ہی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ظاہر میں نماز روزے کی پابندی اور دیگر فرائض ادا کرتا ہے تو زبان شریعت میں اسے کوئی کافر نہیں کہہ سکتا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی حقیقت معلوم تھی اور اس بارے میں سورۃ المنافقین بھی اتری جس من ان کی نیتوں کو بے نقاب کر دیا گیا تو طریقت کے اعتبار سے یہ لوگ کافر ہیں اور ہمیشہ جہنمی ہیں مگر ان کے اس ظاہر کی وجہ سے مسلمانوں کا کوئی قاضی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا اور کوئی مفتی ان کے خلاف فتوی نہیں دے سکتا۔ یہاں پر اہل اللہ اور اولیاء اللہ اپنے باطنی نور سے ان کی حقیقت معلوم کر لیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے شرور سے متنبہ کر دیتے ہیں۔
اسلام اور صوفیت
ترمیمقرآن میں صوفی یا تصوف و صوفیت نام کی کوئی اصطلاح نہیں ملتی اور جیسا کہ ابتدائییہ میں مذکور ہوا کہ یہ تصور اسلام کی اولین نسل میں موجود ہی نہیں تھا اور ابن خلدون کے مطابق کوئی دوسری صدی سے دیکھنے میں آیا (حوالہ 1) ؛ ابن خلدون کے الفاظ میں اس سے مراد "خود کو اللہ کی مکمل سپردگی میں دینے کی ہے" (جو اسلام کا تصور بھی ہے) اور یہ لوگ مکمل روحانی پاکیزگی، انسان کی اندرونی کیفیات، وجود کی فطرت اور دنیاوی مسرتوں سے دور ہو کر عبادت اور اللہ کی بندگی پر زور دیتے تھے۔ جب تک یہ تمام طریقۂ کار حضرت محمد کی جانب سے لائے گئے اللہ کے پیغام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیار کیے جاتے رہیں اس وقت تک لفظ صوفی اور تصوف کی بجائے ان کو شریعت ہی کہا جاتا سکتا ہے کیونکہ جب سب کچھ قرآن اور سنت کے مطابق ہی ہے تو پر اسے تصوف کیوں کہا جائے کہ اس کے لیے تو شریعت کی اصطلاح حضرت محمد کے قریب ترین زمانے سے موجود ہی تھی۔ لیکن پھر اس میں اسلام حکومت کی وسعت کے ساتھ قبل از اسلام کے ایرانی و یونانی فلسفیانہ خیالات شامل ہونے لگے؛ انسان اور کائنات کا تعلق، اللہ سے قربت، دنیا داری سے کنارہ کشی، انسان کی لاچارگی وغیرہ جیسے تصورات شامل ہونے کے بعد صوفیت اپنی شکل اختیار کرنے لگی؛ اس قسم کی روحانی پاکیزگی اور عبادت کے تصور کو قرآن کی سورت الحدید کی آیت 27 میں رہبانیت (monasticism) کا نام دیا گیا ہے اور اسے خود انسان کی تخلیق کہا گیا ہے[28] اور کہا گیا ہے کہ؛ نہیں فرض کیا تھا ہم (اللہ) نے اسے ان پر۔
اردو کے ایک مفکر اور شاعر ، اقبال نے اسلام میں تصوف کے تصور کو اسلام کی زمین پر ایک بدیسی / اجنبی (alien) تصور قرار دیا ہے جو غیر عرب (اسلام کی وسعت کی وجہ سے) اور (قبل از اسلام کے) ایرانی عقلیت پسند ماحول میں پروان چڑھا، اقبال نے یہ تصوف کے بارے میں یہ رائے سید سلمان ندوی کے نام تیرہ نومبر 1917ء کو اپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ میں تحریر کی۔۔۔۔۔
یہ درست ہے کہ اسلام میں تزکیۂ نفس و روح پر زور دیا جاتا ہے اور اس تزکیے کو حاصل کرنے کے سلسلے میں صوفیا کی دو اقسام نظر آتی ہیں ایک وہ کہ جو مکمل طور پر خود کو قرآن اور شریعت کی حدود میں رکھتے ہوئے ایسا کرتے رہے (اور ہیں) اور دوسرے وہ کہ جو غیر مسلم افکار اور فلسفے سے مکدر تصوف پر چلتے تھے (اور ہیں) ؛ یعنی ہمیشہ ایک ایسی صوفیت بھی موجود رہی ہے کہ جو کسی بھی طور اسلام سے تعلق نہیں رکھتی اور بہت سے صوفیا ایسے ہیں کہ جو صوفیت کی ریاضتوں سے گذرنے کے بعد ایک ایسے درجے تک پہنچے کہ جس کے بعد انہوں نے خود کو اسلام سے جدا کر لیا[30]۔
صوفیا اکرام
ترمیماس قطعے میں معروف صوفیا کو ترتیب زمانی کے لحاظ سے تحریر کیا جارہا ہے؛ عام تاثر کے برعکس تصوف کو خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے صوفیا میں صرف مسلم صوفیا اکرام ہی نہیں ہیں بلکہ ہندومتی ، بدھ متی اور دیگر ادیان کے غیر مسلم صوفیا اکرام بھی شامل ہیں۔
مسلم صوفیا اکرام
ترمیمدرج ذیل میں معروف صوفیا اکرام کی ایک مختصر فہرست بلحاظِ ترتیبِ زمانی دی جارہی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہنا کہ پہلا صوفی کون تھا شاید مشکل ہے لیکن متعدد علما کی نظر میں سب سے پہلے لفظ صوفی کو ابو ھاشم (وفات : 763ء ؟) کے لیے اختیار کیا گیا اور ابو سفیان الثوری (716ء تا 778ء) کی روایت سے اس بات تذکرہ ابی نعیم الحافظ (1038ء ؟) اور ابن الجوزی (1114ء تا 1201ء) کی تصانیف میں آتا ہے[9]۔ اب رہی بات تصوراتی اور روحانی طور پر اسلاف سے تعلق قائم کرنے کی تو اہل تصوف کے ذرائع (بلکہ غیر مسلم ذرائع تک[31]) کے مطابق تو پہلے صوفی خود حضرت محمد ہیں اور ان کے بعد یہ تصوف ان اہل افراد (مثال کے طور پر حضرت علی) کو عطا ہوا جو اس کے اہل تھے یوں پیغمبر اسلام سے تصوف کی لڑی کو شروع کرنے کے بعد اس میں حضرت سلمان فارسی ، حضرت اویس قرنی اور پھر حضرت جعفر الصادق کے نام بھی شامل کیے جاتے ہیں[32]۔
مسلم صوفیا ، بلحاظ ترتیبِ زمانی۔ | |
|
|
مذکورہ بالا فہرست میں شامل صوفیا کے نظریات کے لیے ان کے مخصوص صفحات موجود ہیں۔
غیر مسلم صوفیا اکرام
ترمیمغیر مسلم صوفیا اکرام ان صوفیا اکرام کو کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے خود کو ناصرف یہ کہ تصوف بلکہ تصوف کے کسی خاص سلسلے (جیسے نقشبندی وغیرہ) سے جوڑنے کے باوجود کبھی قبولیت اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ مسلمان ، غیر مسلم صوفی کی اصطلاح کو جو بھی نام دیں حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا میں یہ غیر مسلم صوفی ہی کہلائے جاتے ہیں[33]۔
غیر مسلم صوفیا ، بلحاظ ترتیبِ زمانی۔ | |
|
|
برصغیر اور صوفیا اکرام
ترمیمبرصغیر پاک و ہند میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیا اکرام کا کردار بھی بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے اور محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے ساتھ ہی بزرگان دین اور صوفیا اکرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی، داتا گنج بخش ہجویری، شاہ رکن عالم، خواجہ معین الدین چشتی، سلطان سخی سرور، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، مخدوم علائو الدین صابر، شیخ نظام الدین اولیاء، شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے علاوہ دیگر بے شمار ہستیاں شامل ہیں۔ ان صوفیا کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے علاوہ سلیم چشتی، شیخ محمد غوث گوالیاری، مخدوم عبدالقادر ثانی، شیخ دائود کرمانی، شاہ انوالمعالی، ملاشاہ گادری، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت میاں میر، حضرت مجدالف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے نام بھی اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔
کتب تصوف
ترمیم- امام قشیری کا رسالہ قشیریہ
- شيخ عبدالقادر جيلانی کی فتوح الغیب
- داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب
- شیخ شہاب الدین سہروردی کی عوارف المعارف
- ابن عربی کی فصوص الحكم اور الفتوحات المکیہ
کائناتی تصوف
ترمیمکائناتی تصوف (universal sufism) کو ایک ایسا شعبۂ فلسفۂ دماغِ انسانی و نفسانی کہا جاسکتا ہے کہ جو مذہب اسلام کی تعلیمات کو انسانی خواہشات و تخیلات کے مطابق ڈھال کر اسلام کو اسلام سے نفرت کرنے والے اذہان کے لیے قابل قبول بنائے اور ظاہر ہے کہ یہ تصور غیر مسلم افراد کے لیے زیادہ کشش رکھتا ہے[34] اور اسلام کے خمیر سے اٹھنے والے اسلام سے متنفر اشخاص (مثال کے طور پر ادریس شاہ وغیرہ جیسے صوفیا اکرام) کے لیے اپنے گرد ایک جم غفیر لگانے کا نہایت آسان طریقہ فراہم کرتا ہے۔ تصوف کی اس عالمی شاخ سے منسلک افراد کے لیے تصوف ، اسلام پر تقدمِ زمانی کا حامل ہے اور اسلام سے پہلے سے وجود رکھتا ہے یعنی اسلام کی حیثیت ثانوی ہے اور جب اسلام ثانوی ٹھہرا تو پھر نا تو تصوف کو قرآن کی ضرورت باقی ہے اور نا محمد کی۔
مشہور صوفی شعرا
ترمیمتناسخ و تصوف
ترمیماہتجار یا آواگون (اور بعض اوقات تناسخ (reincarnation) یا حول) کے نظریات صوفیا کی تعلیمات میں ملتے ہیں[35][36]۔ یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ جس طرح تمام اسلامِ راسخ پر قائم علما اکرام ، تناسخ اور اہتجار و حلول جیسے نظریات کی یکسر تردید کرتے ہیں اسی طرح حقیقی تصوف کی تعلیمات پر چلنے والے صوفی بھی ان نظریات کو نہیں تسلیم کرتے[37]۔ لیکن عمومی طور پر یہ تاثر (بطور خاص مغرب میں) پایا جاتا ہے کہ صوفیا اس نظریے کے قائل ہیں اور ان کی تحریروں میں اس کی موجودگی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے جس سے کم از کم صوفیا کی طرح باطنیت (esotericism) میں مہارت نا رکھنے والا ایک عام مسلمان بھی لازمی طور پر دھوکا کھا جائے گا، تصوف میں تناسخ و ہندو ، آواگون جیسے نظریات کی موجودگی کا واضح ثبوت سری لنکا کے ایک صوفی باوا محی الدین کے اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے[38] گو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ بعد میں ان کے کسی مرید نے ہر ممکن کوشش کی کہ باوا محی الدین کی واضح طور پر آواگون کے نظریے کو تسلیم کرنے والی تحریر میں باطنیت کا سہارا لے کر اس کی حقیقت کو چھپا سکیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ روۓ خط روابط تبدیل ہوسکتے ہیں اس لیے ایسی صورت حال میں پیچیدگی سے بچنے کی خاطر چند اقتباسات مع ترجمہ درج ہیں۔
” | یہ انسانی پیدائش ہے، جس میں ہم الہامی تجزیاتی عقل رکھتے ہیں، شعور کی چھٹی حس۔ یہ عقل ہمیں صحیح اور غلط کے مابین تفریق کے قابل بناتی ہے ۔۔۔ اگر ایک انسانی زندگی ختم ہو جاۓ اور دوبارہ پیدا ہو، خواہ صرف ایک بار، تو اس کی قدر (و قیمت) کمتر ہو جاتی ہے۔ چھٹی حس اور صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت گھٹ جاتی ہے، اور اگلی بار کی پیدائش پر شعور کی (صرف) پانچ حسیں ملتی ہیں۔ This is the human birth, in which we have divine analytic wisdom., the sixth state of consciousness. This wisdom enables us to discriminate between what is right and what is wrong . . . If a human life dies and is reborn, even once, its value decreases. The sixth level of consciousness and the ability to discriminate is reduced, and in the next birth one will have five levels of consciousness |
“ |
تجاوز و فتاویٰ
ترمیمتصوف کا ظاہر بھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نت نئی اختراعات اور فلسفیوں کے افکار مبالغانہ سے سیراب ہوکر طرح طرح کی شکلوں میں تبدیل ہوتا رہا مگر ان لوگوں کا تصوف سے کوئی لینا دینا نہیں اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ کیا تم نے ناچ گانا اور تالیاں بجانا ہی اپنا مذیب بنا رکھا ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو ڈھول ڈبے بجانے اور جھومنے اور ناچنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور اپنے آپ کو پہنچے ہوئے تصور کرتے ہیں یہ شیطان تک ہی پہنچے ہیں اور شیطان ہی ان پر وجی کرتا ہے جس کو یہ تحلی حق سمجھتے ہیں۔
تصوف کی اس موجودہ بگڑی ہوئی شکل سے کے بارے میں اسلام کے علما اکرام نے منتبہ کیا ہے کہ تصوف کی اس حد سے تجاوز کردہ بگڑی ہوئی شکل سے دور رہا جائے۔ Islamweb کے مرکز فتویٰ سے جاری کیا جانے والا ایک روۓ خط فتویٰ سے چند سطور (وضاحتی عبارت کے ساتھ) درج ذیل ہیں۔ اصل عبارت کے لیے متعلقہ موقع دیکھیے۔[39]۔
- ابتدا میں صوفیا کا خطاب ان لوگوں کو دیا جاتا تھا کہ جو خود کو اللہ کی عبادت میں مصروف رکھتے تھے اور زاہدوں کی سی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ [40][41]
- بعد میں صوفیت (عام طور پر تصوف کے متبادل ادا کیا جاتا ہے) میں متدد بدعتیں اور مبالغات حلول کر گئے اور فلسفیوں کے کئی ممنوع تفکرات نے اس میں جگہ بنالی ، جیسے وحدت الوجود ، باطنیت (esotericism) اور لادینی (atheism) (ممکن ہے کہ اس فتوی میں atheism دھریت یا انحراف کے معنوں میں آیا ہو) جن کے بعد یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ ان سے گذرنے کے بعد ایک حد وہ آتی ہے کہ جب وہ شخص اسلام کی پیروی سے بھی آزاد ہوجاتا ہے؛ ارشاد الملوک (مولانا عاشق الہی مراٹھی) کے مطابق ذکر کے لیے شرائط میں سے ایک ، ذکر کو شیخ سے حاصل کرنا ہے بالکل ایسے ہی جیسے صحابہ اپنا ذکر رسول اللہ (ص) سے لیا کرتے تھے[15]۔
کاذب تصوف
ترمیمگویا کہ ابتدائی تصوف اسلام کی اصل روح سے قریب تر ہے اور اس میں بہت سی قابل ذکر شخصیات کے نام آتے ہیں جنہوں نے اسلام کی تبلیغ میں نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں جیسے امام غزالی رح اور معین الدین چشتی رح وغیرہ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ صوفیا اکرام کو دی جانے والی عزت و مقام سے متاثر ہوکر کاذب صوفیا بھی نمودار ہوتے رہے اور تصوف نے بہت سے مفاد پرست افراد کو بھی اپنی جانب راغب کر لیا[42] جنہوں نے درویشی اور صوفیت کے نام کا استحصال کیا اور اس کا تصور مکدر کرنے میں کردار ادا کیا۔ انکی وجہ سے ناصرف یہ کہ تصوف میں مختلف مسلم و غیر مسلم فلسفیوں کے خیالات کی آمیزش ہوتی گئی بلکہ بہت سے افکار دیگر مذاہب سے بھی شامل ہو گئے۔
داتا گنج بخش ؛ منصور بن حلاج اور ابوسلمان کے اسلام منافی تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں۔
” | میں نہیں جانتا فارسی کون ہے اور ابوسلمان کون اور انہوں نے کیا کیا اور کیا کہا۔ لیکن جو شخص تحقیق اور توحید کے خلاف چلتا ہے، اس کو دین میں کچھ نصیب نہیں ہوتا اور جب دین جو اصل ہے مضبوط نا ہو تو تصوف جو اس کی شاخ ہے کس طرح مفید ہو سکتا ہے[43]۔ | “ |
بلا جواب ، سوال
ترمیمتمام تر تصوف سے متعلق کتب و موقع ہاۓ روۓ خط میں کسی نا کسی الفاظ میں ایک بات کا تذکرہ لازمی شامل ہوتا ہے (حوالہ کے لیے حوالہ جات کی فہرست میں شامل کسی بھی حوالے سے رجوع کیا جاسکتا ہے) اور وہ یہ ہے کہ تصوف ، شریعت سے الگ نہیں ہے؛ یا یہ کہ تصوف ، شریعت کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا ؛ یا یہ کہ تصوف دراصل روح کی پاکیزگی کا نام ہے ؛ یا یہ کہ تصوف ، دل میں آنے والی برائیوں سے دل کو پاک کرنے کا نام ہے ؛ یا یہ کہ تصوف دل کو خوبصورت (احسان / پاک) بنانے کا طریقہ ہے۔ یہاں ایک سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کیا مذکورہ بالا تمام باتیں اسلامی تعلیمات نہیں؟ پھر آخر اس تمام تر طریقۂ کار کو اسلام یا شریعت کی بجائے تصوف کا نام دینے کی کیا وجہ ہے؟ اب تک مختلف کتب و ذرائع سے اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے لیکن تمام جگہ ہی بات شریعت سے اقرار اور تصوف کو شریعت کے مطابق ثابت کرنے پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس مضمون کا یہ آخری قطعہ ابھی کسی ایسے عالم کا منتظر ہے کہ جو اس بات کا جواب فراہم کرسکے کہ جب جھوٹے تصوف کی موجودگی اور اس کی معاشرتی برائیاں خود تصوف سے قربت رکھنے والے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مطابق سچی تصوف اصل میں شریعت ہی ہے تو پھر آخر وہ کون سی بات ہے کہ جس پر تصوف قائم ہے؟ اگر تصوف ، شریعت ہی ہے تو پھر اس کا الگ سے نام کیوں؟ اور اگر کوئی چیز تصوف میں ایسی ہے جو شریعت اور قرآن سے الگ ہے یعنی جس کی وجہ سے اس کو ایک الگ نام (تصوف) نا دیا جائے تو بات واضح نا ہوگی تو پھر ظاہر ہے کہ تصوف میں کچھ وہ بھی شامل ہے جو اسلام نہیں۔
حوالہ جات
ترمیمجہاں تک ممکن ہو سکا ، روۓ خط (online) حوالہ جات کو ترجیح دی گئی ہے۔ موضوع پر تمام مسلم و غیر مسلم ، تفرقاتی و طبقاتی پہلوؤں کو سامنے لانے کی خاطر حوالہ جات پر کوئی دینی و لادینی ، اسلامی و غیر اسلامی یا تفرقاتی پابندی نہیں ؛ ماسوائے کہ (اپنے مقام پر) مصدقہ ہوں۔ روئے خط مقامات تبدیل بھی ہوسکتے ہیں اس لیے مضامین کے عنوانات انگریزی ہی میں دیے جا رہے ہیں۔ کسی حوالے پر اعتراض ہو تو تبادلۂ خیال پر بیان کیجیئے۔
- ↑ القرآن، سورۃ الجمعۃ، آیت دو
- ^ ا ب صوفیوں کی جانب سے اکثر استعمال کی جانے والی لفظ احسان کے بارے میں حدیث
- ↑ Mysticism in Islam: In short, Muslim scholars who focused their energies on understanding the normative guidelines for the body came to be known as jurists, and those who held that the most important task was to train the mind in achieving correct understanding came to be divided into three main schools of thought--theology, philosophy, and Sufism. This leaves us with the third domain of human existence, the spirit. Most Muslims who devoted their major efforts to developing the spiritual dimensions of the human person came to be known as Sufis (روۓ خط مضمون)
- ↑ Tasawwuf - the distorted image انٹراسلام . آرگ نامی موقع
- ↑ Louis Massignon, Essai sur les origines du lexique technique de la mystique musulmane ISBN 2204062537 کتاب کا ایک دستیابی موقع
- ^ ا ب The Oxford Encyclopedia of the Islamic World: Sufism by Kazuo Ohtsuka روئے خط مضمون
- ↑ Mysticism in Islam; William C. Chittick موقع روئے خط
- ↑ words of ecstasy in sufism by carl w. ernst
- ^ ا ب پ الف: ابی نعیم الحافظ ؛ حلیۃ الاولياء ب: ابن الجوزی ؛ صفۃ الصفوۃ (ایک روئے خط موقع)
- ^ ا ب Encyclopedia Britannica صوفیت پر مقالہ
- ↑ Sufis and Sufism: some reflections. edited by Neeru Misra. New Delhi ایک کتب دستیابی موقع
- ^ ا ب The Place of Tasawwuf in Traditional Islam نوح حا ميم كيلير کا مقالہ
- ↑ What Is Tasawwuf تصوف . آرگ نامی موقع
- ^ ا ب Shariat and Tasawwuf by Maseehullah Khan مجلس . نیٹ نامی موقع پر
- ^ ا ب The Jamaa'at Tableegh and the Deobandis; Chapter 1.6 احیاء . آرگ نامی موقع
- ↑ Ahmad Raza as a devout Sufi مدنی پروپیگیشن . آرگ نامی موقع
- ↑ Mawlana Jalaluddin Rumi انگریزی اور فارسی
- ↑ The Necessity of a Measure of Proper Sufi education شيخ يوسف القرضاوی
- ↑ Islamic Gnosis ('Irfan) and Wisdom (Hikmat) اہل بیت ڈیجیٹل اسلامک لائبریری
- ↑ Theoretical Gnosis and Doctrinal Sufism and Their Significance Today روئے خط مقالہ
- ^ ا ب پ اردو ویکیپیڈیا پر ہی ایک مضمون تصوف لغوی مباحث ، (گو مضمون اصلاح طلب ہے)
- ↑ اصحابِ صُفّہ اور تصوف کی حقیقت از امام ابن تیمیہ ؛ ترجمہ عبدالرزاق ملیح آبادی : المکتبۃ السلفیۃ ۔ شیش محل روڈ لاہور
- ^ ا ب پ ت Sufism, Origin and Development by Dr. Saleh As-Saleh (روئے خط ، پی ڈی ایف فائل)
- ^ ا ب پ ت ٹ The quranic sufism by mir valiuddin
- ↑ Islamic Esotérime and Taoism, Rene Guenon, p. 21 (موقع روئے خط)
- ↑ خواجہ معین الدین چشتی سے متعلق ایک موقع روئے خط پر تصوف کی تاریخ
- ↑ islamicity forum پر مضمون
- ↑ ایک روئے خط قرآن اردو ترجمے کے ساتھ۔
- ↑ IQBAL IN YEARS at allamaiqbal.com اقبال کا بیان۔
- ↑ Al-Ghazali as sufi (پی ڈی ایف فائل)
- ↑ Sufism: The Esoteric Side Of Islam ہندو دیوتائی فعالیت (پیکر) ادی شکتی نامی موقع
- ↑ Mystical Dimensions of Islam by Annemarie Schimmel: The Univ of North Carolina Press (روئے خط موقع)
- ↑ Sufism -- Sufis -- Sufi Orders at The University of Georgia موقع روئے خط
- ↑ Thelemapedia روئے خط ربط
- ↑ What is sufism (روئے خط مضمون)
- ↑ Volume VIIIa - Sufi Teachings: Karma and Reincarnation (روئے خط مضمون)
- ↑ Is Reincarnation Compatible With Islam (روئے خط مضمون)
- ↑ A Sufi View of Spiritual Rebirth (روئے خط مضمون)
- ↑ Fatwa Title: Muslims and other groups, Fatwa No. 82721 اسلام ویب نامی موقع
- ↑ Mohammedan Confraternities at Catholic Encyclopedia اسلام کی تاریخ اور ابتدائی تصوف کا ذکر
- ↑ Sufism: The Columbia Encyclopedia روئے خط موقع
- ↑ Introduction to Sufism by Dr. Qadeer Shah Baig تصوف ؛ ایک اسماعیلی موقع
- ↑ آب کوثر: شیخ محمد اکرام ؛ ادارۃ ثقافت اسلامیہ لاہور روئے خط کتاب