کھٹانہ
کھٹانہ: (انگریزی: Khatana، ہندی: खट्टाना ) یہ گجروں کے بڑے اور شاہی قبائل میں سے ایک قبیلہ (گوت) ہے۔[1][2] جنھوں نے پاک و ہند اور وسطی ایشیاء میں کھوٹان بادشاہت سے ریاست سوات تک مختلف حکومتیں قائم کیں اور جن کا تعلق ترکستان کے قدیم شہر کھوٹان کے یوچی یا ساکا سیتھین (آریائی) قبائل میں سے ہے۔[3][4][5]
کھٹانہ | |
---|---|
نوابی ریاست سمٹھار کے راجا ویر سنگھ جودیو کھٹانہ پوز دیتے ہوئے (دور 1897 تا 1935) | |
گنجان آبادی والے علاقے | |
بھارت • پاکستان • افغانستان | |
زبانیں | |
گوجری • ہندی • کشمیری • پنجابی • اردو • پشتو • ہریانوی • راجستھانی • پہاڑی | |
مذہب | |
ہندو مت • اسلام • سکھ مت | |
متعلقہ نسلی گروہ | |
بجاڑ قبیلہ • چوہان • تومر • کسانہ • بھڈانہ • اعوانہ اور دیگر گجر قبائل |
کھٹانہ لفظ کی اصطلاح
ترمیمکھٹانہ قبیلے کا نام ترکستان (سنکیانگ) کے تاریخی شہر کھوٹان سے نکلا ہے جس کی انھوں نے بنیاد رکھی اور صدیوں تک اس کے حکمران رہے۔[6][7] لفظ کھٹانہ کے معنی ہیں "کھوٹان کا حان (بادشاہ)" اس میں "ہ یا ا" کا اضافہ سنسکرت زبان کی وجہ سے ہوا جیسے گرجر (گجر) کو گرجرا بولا جاتا تھا ، کچھ تاریخ دان اس کا مطلب "کھوٹان کا رانا (بادشاہ)" بھی نکالتے ہیں۔ جنہیں کھوٹانی بھی کہا جاتا ہے
کھٹانہ قبیلے کی جغرافیائی تقسیم
ترمیمپاکستان
ترمیمپاکستان میں ریاست آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ، ہری پور ہزارہ اور پنجاب میں کافی تعداد میں آباد ہیں۔
بھارت
ترمیمبھارت میں ریاست جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، اترپردیش، ہریانہ، پنجاب، دہلی اور راجستھان میں بھی کافی آباد ہیں۔
افغانستان
ترمیمافغانستان میں کاپیسا، بغلان، بلخ، قندوز، تخار، بدخشان، نورستان، لغمان، ننگرہار اور خوست بھی کچھ آباد ہیں۔
کھٹانہ قبیلے کی تاریخ
ترمیمتاریخ کے جھروکوں سے کلاسیکی عہد، قرون وسطی اور نوآبادیاتی دور کی درج ذیل چند ریاستیں ملتی ہیں جن کے کھٹانہ گرجر حکمران رہے۔
کھوٹان بادشاہت
ترمیمکھوٹان شہر کی بنیاد تیسری صدی قبل مسیح کے آس پاس راجہ اشوک کے دور میں ہند آریائی کے ایک گروہ نے رکھی تھی۔[8][6] ایک نسخے کے مطابق، قدیم ٹیکسلا کے ایک قبیلے کے رئیس، جنھوں نے اپنا نسب دیوتا ویشراونا سے ملایا، کہا جاتا ہے انھوں نے اشوک اعظم کے بیٹے راجکمار کنالہ کو اندھا کر دیا تھا۔ موری شہنشاہ نے انھیں سزا کے طور پر ہمالیہ کے شمال میں جلاوطن کر دیا تھا۔ جہاں وہ کھوٹان میں آباد ہوئے اور اپنے ایک رکن کو بادشاہ منتخب کیا۔ ایک مختلف وژن کے مطابق یہ خود راجکمار کنالہ ہی تھے جنھوں نے جلاوطنی اختیار کی اور کھوٹان بادشاہت (گھسٹانہ / کھسٹانہ / کھوٹانہ) کی بنیاد رکھی۔[9]
کھوٹان سلطنت میں ہند آریائی قبائل کے ساتھ ساتھ ایرانی اور چینی باشندے بھی آباد تھے۔ یوچیوں نے جب باختر پر حملہ کیا تو باختر میں بسنے والے ساکا کچھ شمال میں کھوٹان اور جنوب مشرق میں ہندوستان میں ہجرت کرگئے۔[10] دوسری صدی عیسوی میں کھوٹان سلطنت کے راجا وجے کریتی کھٹانہ نے کشانہ سلطنت کے شہنشاہ کنشک کی وسطی انڈیا کے ایک شہر ساکیٹا کو فتح کرنے میں مدد کی۔[11]
ایک چھوٹی بادشاہت ہونیکی وجہ سے کھوٹان پر چینی خاندانوں ہان اور تانگ کا بھی بہت اسر و رسوخ رہا ہے کھوٹان کے بادشاہ گوانگدے نے 73ء میں کھوٹان کو ہان خاندان کے حوالے کر دیا۔ کھوٹان کے اس وقت شیانگنو کے ساتھ تعلقات تھے جنھوں نے ہان کے شہنشاہ منگ 57 تا 75ء کے دور میں کھوٹان پر حملہ کیا اور کھوٹان سلطنت کے دربار کو مجبور کیا کہ وہ انھیں ریشم اور ٹیپسٹری کی شکل میں سالانہ بڑی رقم ادا کرے۔[12] جب ہان فوجی افسر بان چاو کھوٹان کے دربار گیا تو بادشاہ نے کم سے کم شائستگی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ کاہن نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ بان سے گھوڑوں کا مطالبہ کرے اور بان نے کاہن کو موقع پر ہی مار ڈالا۔ بادشاہ نے، بان کی کارروائی سے متاثر ہو کر، پھر کھوٹان میں شیانگنو کے ایجنٹ کو مار ڈالا اور ہان کو اپنی بیعت کی پیشکش کی۔ تاہم کھوٹان پر ہان کا اثر اس وقت کم ہوا جب ہان کی طاقت میں کمی آئی۔[13]
نخلستان کی ریاستوں کے خلاف تانگ مہم 640ء میں شروع ہوئی اور کھوٹان تانگ کے قبضے میں چلا گیا۔ نخلستان کے چار گیریژن قائم کیے گئے تھے، جن میں سے ایک کھوٹان تھا۔ تبتیوں نے بعد میں چینیوں کو شکست دی اور چاروں گیریژن پر قبضہ کر لیا۔ کھوٹان کو پہلی بار 665ء میں لیا گیا تھا،[14] اور کھوٹانیوں نے اقسو کو فتح کرنے میں تبتیوں کی مدد کی تھی۔[15] تانگ چینیوں نے بعد میں 692ء میں دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، لیکن این لوشان بغاوت سے کافی حد تک کمزور ہونے کے بعد بالآخر پورے مغربی علاقوں کا کنٹرول کھو بیٹھے۔کھوٹان کو تبتی سلطنت نے 792ء میں فتح کیا اور 851ء میں اپنی آزادی حاصل کی[16]
10 ویں صدی عیسوی میں، بدھ سلطنت کھوٹان واحد شہر کی ریاست تھی جسے ابھی تک ترک ایغور (بدھ) اور ترک قاراخانی (مسلم) ریاستوں نے فتح نہیں کیا تھا۔ دسویں صدی کے آخری حصے میں، کھوٹانی قارا خانی خاناتے کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ کاشغر کے مشرق میں بدھ شہروں کی اسلامی فتوحات کا آغاز کاراخانی سلطان ستوق بغرا خان کے 934ء میں اسلام قبول کرنے سے ہوا۔ ستوق بغرا خان اور بعد میں اس کے بیٹے موسیٰ نے ترکوں کے درمیان اسلام کو تبدیل کرنے اور فوجی فتوحات میں مشغول ہونے کی کوششوں کی ہدایت کی۔[17][18] پھر اسلامی کاشغر اور بدھ کھوٹان کے درمیان ایک طویل جنگ ہوئی۔[19] ستوق بغرا خان کے بھتیجے یا پوتے علی ارسلان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بدھوں کے ساتھ جنگ کے دوران مارا گیا تھا۔ [20] کھوٹانیون نے 970ء میں کارا خانیوں سے کاشغر کو مختصر وقت کیلیِے لے لیا اور چینی بیانات کے مطابق، کھوٹان کے بادشاہ نے چینی دربار میں کاشغر سے پکڑے گئے ایک ناچتے ہاتھی کو خراج تحسین پیش کرنے کی پیشکش کی۔[21] 1006ء میں، کاشغر کے مسلمان کارا خانی حکمران یوسف قادر خان نے کھوٹان کو فتح کیا، جس سے ایک ہزار سال کے عرصے پر محیط ایک آزاد بدھ ریاست کے طور پر کھوٹان کا وجود ختم ہو گیا۔[22] کھوٹانیوں اور سونگ چینیوں کے درمیان کچھ رابطے وقفے وقفے سے جاری رہے، لیکن 1063ء میں سونگ کے ایک ماخذ میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ کھوٹان کے حکمران نے خود کو کارا خان کہا، جو کھوٹان پر کاراخانیوں کے غلبہ کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس طرح اس سلطنت پر صدیوں تک حکمرانی کرنے والے خاندان کھوٹان کے مشرق میں پہاڑوں سے اتر کر شمالی ہند میں اباد ہوئے۔[23]
کھٹانہ شاہی
ترمیم977ء میں سبکتگین غزنہ کا حکمران بنا۔ اس کی ریاست کی مشرقی حدود ہندوستان کی ریاست سے ملتی تھی، جو وادی لمغان سے چناب تک پھیلی ہوئی تھی۔ آخری براہمن شاہی راجا بھیم دیو کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے اس نے لاہور کے راجا جے پال کو اپنی سلطنت کا وارث مقرر کیا جو ایک طاقت ور حکمران ثابت ہوا اس کا تعلق گجروں کے شاہی قبیلے کھٹانہ سے تھا۔[24][25]
سلطان محمود غزنوی 991ء میں غزنی کا حکمران بنا۔ اس نے اپنے باپ کے عہد میں جے پال کے خلاف لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی کا پہلا حملہ کوئی باقیدہ حملہ نہیں تھا۔ اس کے بعض افسروں نے چند سرحدی قلعے اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کی، جس میں وہ کامیاب رہے۔ جے پال نے کثیر جوج کے ساتھ جس میں بارہ ہزار سوار تیس ہزار پیادے تین سواروں کے ساتھ غزنی کا رخ کیا۔ سلطان محمود غزنوی نے اس سے مقابلہ کیا اور جے پال کثیر فوج کے باوجود مسلم فوج کے جانبازوں کے مقابلے میں نہیں ٹہر سکے۔ سلطان محمود نے ہندو شاہی حکمرانوں کے دار الحکومت وہنڈ کو تاراج کیا اور جے پال کو اس کے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ گرفتار کر لیا۔ جے پال نے ایک کثیر رقم اور پچاس ہاتھی دینے کا وعدہ کرکے صلح کر لی۔ جے پال کو غزنویوں کے مقابلے میں ایسی شکستیں ہوئیں تھیں کہ وہ شرم کے مارے زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے لڑکے آنند پال کو جانشین مقرر کر کے خود کو چتا میں جلالیا۔
1005ء میں جب محمود غزنوی نے ملتان کے قرمطی حکمران ابوالفتح داؤد کے خلاف خلاف فوج کشی کے لیے وے ہنڈ کا راستہ اخٹیار کیا۔ آنند پال محمود غزنوی کا باج گزار ہونے کے باوجود اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی، تو محمود غزنوی نے اسے پشاور کے قریب شکست فاش دی۔ واپسی پر اس نے جے پال کے نواسے سکہہ پال کے سپرد مقتوحہ علاقہ کی حکومت کی، جس نے اسلام قبول کر لیا تھا، اسے اکثر مورخوں نے اسے نواسہ شاہ لکھا ہے۔ سکہہ پال نے یہ دیکھ کر کہ محمود غزنوی دوسرے ملکوں سے جنگ میں مصروف ہے، اسلام ترک کر کے اپنا قدیم مذہب دوبارہ اختیار کر لیا اور سلطان کے خلاف بغاوت کردی۔ محمود غزنیوی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنی مہم کو فوری طور پر ختم کر کے برصغیرکی جانب روانہ ہو گیا۔ سکہہ پال کو لڑائی میں شکست ہوئی اور وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا۔ لیکن محمود کے سپاہی اس کو گرفتار کر کے لائے۔ محمود غزنوی نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اس سے تاوان جنگ لے کر اسے ایک قلعے میں محصور کر دیا۔
سکہہ پال کی بغاوت ختم کرنے کے بعد اس نے ضروری سمجھا کہ آنند پال کو سزا دے، کیوں کہ ملتان کی مہم کے دوران جب وہ پنجاب سے گذرنا چاہتا تھا تو، آنند پال معمولی مزاحمت کے بعد فرار ہو گیا تھا۔ اب آنند پال اگرچہ کوئی حقیقی طاقت نہیں رہی تھی، لیکن وہ سرحد پر فتنہ کا واحد اور اہم سبب تھا۔ لہذا محمود نے اس کو سزا دینا ضروری سمجھا۔ آنند پال کو بھی اندازاہ ہو گیا تھا کہ محمود غزنوی اس کے خلاف اقدام کرے گا۔ لہذا اس نے بھی تیاری کی اور ہندوراجاؤں کو متحدہ کر کے ایک زبر دست فوج ترتیب دینے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہا۔ وہ اس مرتبہ اکیلا نہیں تھا، بلکہ اس کے ساتھ اجین، گولیار، کالنجر، قنوج، دہلی اور اجمیر کے راجاؤں سے گتھ جوڑ کر کے ایک متحدہ محاذ بنا لیا۔ ایشوری پرشاد کے مطابق نسل، مذہب اور حب الوطنی قوتیں ہندو تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لیے متحد ہوگئیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آنند پال کے متحدہ محاذ میں تیس ہزار کی تعداد میں ہندو کھوکر قبیلہ کے جوان شامل ہو گئے تھے۔ لیکن سپاہ یہ بڑی تعداد خوفزدہ کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن میدان جنگ میں جوہر دکھانے کے لیے نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وے ہنڈ کے قریب میدان جنگ میں گھمسان کا رن پڑا تو ہندو فوج بھاگ نکلی اور بے شمار مال غنیمت محمود غزنوی کے ہاتھ آیا۔ باوجود شکست کھانے کے آنند پال باز ہمت نہیں ہارا تھا۔ اب اس کا دار الحکومت نندانا تھا۔[26]
آنند پال کی مخالفت کا امکان ختم نہیں ہوا تھا، چنانچہ محمود غزنوی نے 1009ء تا 1010ء میں اس پر حملہ کر دیا۔ آنند پال نے مجبور ہو کر سر خم تسلیم کیا اور وعدہ کیا کہ وہ ہر سال غزنہ کو خراج ادا کرتا رہے گا، اس کے علاوہ محمود غزنوی کی فوج کو ایک دستہ بھی مہیا کرے گا۔ خآنند پال کے بعد اس کا بیٹا ترلوچن پال حکمران بنا۔ اس کا روئیہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ لہذا سلطان کو اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری تھی۔ ترلوچن پال کو جب پتہ چلا کہ سلطان اس کے خلاف جنگ کا ارادہ کر رہا ہے تو اپنی جگہ بھیم پال کے سپرد نندانا کا قلعہ کر کے خود کشمیر چلا گیا۔ سلطان نے ایک مختصر سی لڑائی میں بھیم پال کو شکست دے کر نندانا کے قلعہ کو فتح کر لیا اور ترلوچن کی تلاش میں کشمیر روانہ ہوا اور اس کو شکست دے دی مگر وہ ہاتھ نہیں آیا۔[27]
ریاست سمٹھار
ترمیمریاست سمٹھار وسطی ہندوستان میں گوالیار کے مشرق میں واقع ایک ریاست تھی ۔ جس کی بنیاد چندرابھان سنگھ گوجر اور اس کے پوتے مدن سنگھ گوجر نے 1760ء میں رکھی۔1947ء تک اس گوجر ریاست پر 5 گوجر راجوں ،1 رانی اور 4 مہاراجوں نے حکومت کی اور یہ سب کے سب کھٹانہ گوجر تھے۔1877ء کے بعد ان کھٹانہ گوجر بادشاہوں کو انگریز سرکار کی طرف سے 11 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی اور یہ روایت 1947ء تک باقی رہی ۔ 1947ء میں آخری کھٹانہ گوجر بادشاہ چرن سنگھ جودیو نے بطور نیم خود مختار ریاست انڈیا کے ساتھ الحاق کیا ۔ لیکن بعد ازاں 1972ء میں یہ ریاست مکمل طور پر بھارت میں ضم کر لی گئی۔یہ قلعہ انہی کھٹانہ گوجر بادشاہوں کی یاد گار ہے ۔ اس کھٹانہ خاندان کے بزرگوں کا تعلق راجستھان سے تھا ۔
ریاست سوات
ترمیمریاست سوات پر حکمرانی کرنے والا میانگل شاہی خاندان گجروں کے کھٹانہ قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے۔1917ء میں ایک جرگے نے میانگل شہزادہ عبد الودود کو مقرر کیا، جو سوات کے شاہی خاندان کے بانی تھے۔ انگریزوں نے اس حکمران اور ریاست کو 1926ء میں ایک شاہی ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد، حکمران نے کافی خود مختاری برقرار رکھتے ہوئے ریاست کو پاکستان میں شامل کر لیا۔ سوات کے حکمران کو 1966ء میں 15 توپوں کی موروثی سلامی دی گئی۔ سوات لبریشن موومنٹ (SLM) کی طرف سے آمرانہ حکمرانی کے خلاف شروع کی گئی مہم کے نتیجے میں 1969ء میں ریاست کا خاتمہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں ریاست کو موجودہ پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔
کھٹانہ قبیلے کی شاخیں
ترمیمکندوآنہ
ترمیمیہ کھٹانہ گوجر کی شاخ ہے اور اس کا آغاز پاکستان کے ضلع گجرات سے ہوا. اس شاخ کا بانی کندو تھا جو مکیانہ، ضلع گجرات کا رہنے والا تھا۔ اس کا مقبرہ بھی مکیانہ میں ہی ہے۔ کندوآنے زیادہ تر ضلع گجرات میں ہی پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کا وجود پنجاب، پاکستان کے دیگر اضلاع، بھارت اور کشمیر میں بھی ہے.
گجگاہیہ
ترمیمیہ کھٹانہ گرجر کی ایک شاخ ہے۔ ان کا گاؤں چلیانوالا مشہور قصبہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ جہاں سکھوں اور فرنگیوں کی جنگ ہوئی تھی۔ یہ زہیں اور دلیر قوم ہے جس کا مستقبل شاندار ہے۔ یہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ان کا بزرگ سردار محمد ولی خان شاہجہاں کے عہد حکومت میں مشہور و مقتدر زمیندار تھا۔وہ اپنے گھوڑے کے گلے میں گجگا ڈالتا تھا۔ (گجگا گھوڑوں کا ساز ہے چند گھنگڑو رسی یا چمڑے کی پٹی کے طور پر نبا کر گھوڑے کے میں ڈالے جاتے ہیں جو بجتے رہتے ہیں مقصد اس سے شان و شوکت ہے۔) اس وجہ سے اس کا نام گجگاہیہ ہو گیا۔ اب اس کی قم بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ جو شخص اس ملک کے رسم و رواج، تغیرات اسماء و گوت سے واقف ہے۔ اس کو اس قسم کی تبدیلی عجیب معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ زمینداروں میں نئے نئے نام رکھنا اور گوتوں کا پیدا کرنا ہر جگہ کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یہ قوم علاقہ جاٹ کی سرحد پر مقیم ہے۔ ان کا دعوٰی ہے کی اس قوم نے برسوں جاٹوں سے مقابلہ کر کے اپنے مقبوضات میں سے ایک چپہ بھر زمین بھی جانے نہیں دی۔ ہم نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ گجگاہیہ ایک فوج کا نام ہے جو راجہ پورس کی فوج میں ہاتھیوں پر سوار ہو کر سکندر سے لڑی تھی۔
گج، ہاتھی، گاہی سوار، گجگاہیہ فصیل سوار
ٹھلہ
ترمیمیہ کھٹانہ گوجر کی شاخ ہے ان کا مورث راجا ٹھلہ تھا اس کی اولاد پنجاب میں آئی اور کئی جگہ زمین آباد کی ان کی ملکیت موضع دہڑ وغیرہ میں ہے۔ ایک گاؤں ٹھلہ بھی ان کے نام پر آباد ہے۔
ڈوئیے
ترمیمیہ کھٹانہ کی شاخ ہیں، ان کے مورث اعلی کا نام ڈوئیے تھا۔ اس کی اولاد میں سے کوئی شخص پنجاب آیا۔ پہلے مرالہ ضلع گجرات میں جو ایک مشہور موضع ہے، مقیم رہا۔ اس کے بعد اس کی اولاد دوسرے مواضع میں پھیل گئی۔ اس علاقہ میں اس خاندان کے نام پر ایک موضع ڈوئیے ہے۔ ان کی ملکیت موضع رنگھڑ، دھونی اور بگنہ وغیرہ میں ہے۔
رلائٹے
ترمیمیہ کھٹانہ کی شاخ ہے۔ ان کے مورث اعلی کی اولاد میں سے بھاگو نامی شخص پہلے دیونہ، پتہ کندہ گجرات میں آیا اور پھر یہ لوگ ڈنگہ تپہ بالا میں چلے گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ جو شخص کھیتی میں شریک ہو۔ اس کو پنجابی میں رلٹا کہتے ہیں چونکہ ان کا بزرگ کسی گاؤں میں جا کر شریک کاشت ہو گیا تھا۔ اس لیے ان کا نام رلائٹا پڑ گیا۔ اس گوت کے لوگ مختلف مواضع میں رہتے ہیں۔ یہ بہت ہوشیار خاندان ہے۔ ہماری رائے میں رلائٹا کی وجہ تسمیہ معقول نہیں ہے کوئی اور ہی وجہ ہوگی۔
دہڑ
ترمیمیہ بھی خاندان کھٹانہ قبیلے کی شاخ ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ راجہ دہڑ کی اولاد سے ہیں جس کی حکومت ملک سندھ میں تھی۔ دہڑ گوت براہمنوں میں بھی پائی جاتی ہے جسے ڈار سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ گجر قبائل کی گوتیں براہمن اور کھشتری دونوں زاتوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور خاندان دہڑ کی تاریخ مکمل و مفصل ہے۔ ان کی ملکیت ضلع گجرات میں کئی مواضع میں ہے۔ دہڑ ایک موضع اس خاندان کے نام بھی ہے۔ دہڑ، میانہ چک اور اتم میں ان کی کافی جماعت آباد ہے اور شریف و معزز ہے۔
بانٹھ
ترمیمیہ اپنا شجرہ نسب کھٹانہ سے ملاتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ ان کا مورث گجرات سلطنت کاٹھیاوار سے آیا اور ضلع گجرات میں موضع بانٹھ آباد کیا۔ اب یہ خاندان کئی گاؤں میں مالک زمین ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ برہ خاندان کے بھائی بند ہیں علاحدہ نہیں ہیں۔ راجہ مل کا ایک فرزند بانٹھ تھا۔ ن غنہ کبھی حزف ہوتا ہے اور کبھی بحال رکھا جاتا ہے۔ بانٹھ اور باٹھ الگ خاندان نہیں ہیں۔ چونکہ ضلع گجرات میں کھٹانوں کی کثرت تھی اس لیے اکثر خاندانوں نے خود کو کھٹانہ لکھوایا۔
گیگی
ترمیمگیگی تنور گجر ہیں اور اپنا شجرہ نسب کھٹانہ قبیلے سے ملاتے ہیں۔ یہ مختلف مواضع راجوال، چوہدووال، دھوپ سڑی، خواص پور، سیدا گول، مٹوانوالہ وغیرہ میں رہتے ہیں۔ گجرات میں دو موضع گیگیاں ان کے نام پر ہیں۔ یہ شریف طبع، محنتی اور جفاکش ہیں۔ گجرات میں شیر شاہ غازی اسی خاندان کے درخشدہ گوہر تھے۔ جن کے سجادہ نشین سادات اکرام ہیں اور ان کے ہزاروں مرید ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ اپنے زمانے میں قطب جہاں تھے۔ دور دور ملکوں سے آکر لوگ ان کی بیعت کیا کرتے تھے۔ ایک سید بھی مرید تھاجو عالم و عارف تھا اس کو اپ نے سجادہ نشین کیا۔
بھنڈ
ترمیمیہ کھٹانہ کی شاخ اور کامل معروف کی اولاد سے ہیں۔ بھنڈ پنجابی میں شوروغل اور جھگڑے کو کہتے ہیں۔ چونکہ ان کا مورث اکثر لوگوں سے لڑتا رہتا اور چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑے اٹھاتا تھا۔ اس لیے اس کا نام بھنڈ مشہور ہو گیا۔ بعض کہتے ہیں بھنڈ نقال کو کہتے ہیں چونکہ یہ لوگوں کی نقلیں کرتا تھا اس لیے اس کو بھنڈ کہنے لگے۔ اس خاندان کے نام پر فتہ بھنڈ، کمال بھنڈ، راجو بھنڈ وغیرہ مواضع ہیں یہ لوگ جنگجو، ناعاقبت اندیش ہیں مگر محنت، جرات و تہور کی وجہ سے اچھے سپاہی ہیں۔
کھٹانہ شخصیات
ترمیمنامور
ترمیم- آمنہ کھٹانہ ( نشریاتی صحافی، اینکر پرسن )
- طیب امین تیجا ( گلوکار، ادیب )
- میاں گل حسن اورنگزیب ( سینئر بیرسٹر ، جج اسلام آباد ہائیکورٹ )[28]
- میاں گل محمود اورنگزیب ( ڈاکٹر، سینئر سرجن)[28]
- میاں گل اکبر زیب ( سابق سفارتکار )[28]
- میاں ضیاء الرحمن ( سیاست دان )
- میاں گل اسفندیار امیرزیب ( سیاست دان، سابق صوبائی وزیر تعلیم خیبرپختونخوا )[28]
شاہی
ترمیم- میاں گل عدنان اورنگزیب ( سیاست دان، سابق ممبر قومی اسمبلی، الیکٹریکل انجینئر )[28][30]
- میاں گل اورنگزیب ( ولی عہد ریاست سوات، سیاست دان، گورنر بلوچستان اور خیبرپختونخوا، سابق ممبر قومی اسمبلی )[28]
- میاں گل جہانزیب ( والی ریاست سوات، نواب آف سوات )[28]
- میاں گل عبدالودود ( والی ریاست سوات )[28]
- میاں گل عبدالغفور المعروف سیدو بابا (اخوند سوات، بانی میاں گل خاندان)[28]
- مہاراجہ جے پال کھٹانہ ( شاہی خاندان پنجاب اور کابل کا راجا)[24][25]
مزید دیکھیے
ترمیم- ↑ Dr Javaid Rahi (2018-01-01)۔ "The GUJJARS Vol -04 History and Culture of Gujjar Tribe : Ed. Dr. Javaid Rahi"۔ The Gujjars Vol 04
- ↑ Rana Ali Hassan Chauhan (1998)۔ A Short History Of The Gurjars: Past And Present (بزبان انگریزی and Urdu) (1st ایڈیشن)۔ Lahore, Pakistan: Chauhan Publications۔ صفحہ: 128۔ ISBN 9789698419004
- ↑ Vincent A. Smith (1999)۔ The Early History of India۔ Atlantic Publishers۔ صفحہ: 193۔ ISBN 978-8171566181
- ↑ Dr Javaid Rahi۔ "The GUJJARS -Vol : 01 A Book on History and Culture of Gujjar Tribe : Ed Javaid Rahi"
- ↑ Kazuo Enoki (1998), "The So-called Sino-Kharoshthi Coins," in Rokuro Kono (ed.), Studia Asiatica: The Collected Papers in Western Languages of the Late Dr. Kazuo Enoki, Tokyo: Kyu-Shoin, pp. 396–97.
- ^ ا ب Emmerick, R. E. (14 April 1983)۔ "Chapter 7: Iranian Settlement East of the Pamirs"۔ $1 میں Ehsan Yarshater۔ The Cambridge History of Iran, Vol III: The Seleucid, Parthian, and Sasanian Periods, Part 1۔ Cambridge University Press; Reissue edition۔ صفحہ: 263۔ ISBN 978-0521200929
- ↑ Aurel Stein۔ On Ancient Central-Asian Tracks : vol.1۔ صفحہ: 91
- ↑ J. P. Mallory، Victor H. Mair (2000)، The Tarim Mummies: Ancient China and the Mystery of the Earliest Peoples from the West، London: Thames & Hudson، صفحہ: 77–81
- ↑ Vincent A. Smith (1999)۔ The Early History of India۔ Atlantic Publishers۔ صفحہ: 193۔ ISBN 978-8171566181
- ↑ Yu Taishan (June 2010)۔ "The Earliest Tocharians in China" (PDF)۔ Sino-Platonic Papers: 21–22
- ↑ Mentioned by the 8th-century Tibetan Buddhist history, The Prophecy of the Li Country. Emmerick, R. E. 1967. Tibetan Texts Concerning Khotan. Oxford University Press, London, p. 47.
- ↑ Christopoulos, Lucas (August 2012), "Hellenes and Romans in Ancient China (240 BC – 1398 AD)," in Victor H. Mair (ed), Sino-Platonic Papers, No. 230, Chinese Academy of Social Sciences, University of Pennsylvania Department of East Asian Languages and Civilizations, p. 22, ISSN 2157-9687.
- ↑ Rafe de Crespigny (14 May 2014)۔ A Biographical Dictionary of Later Han to the Three Kingdoms (23-220 AD)۔ Brill Academic Publishers۔ صفحہ: 5۔ ISBN 9789047411840
- ↑ Christopher I. Beckwith (16 March 2009)۔ Empires of the Silk Road: A History of Central Eurasia from the Bronze Age to the Present۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 130۔ ISBN 9781400829941
- ↑ Christopher I. Beckwith (28 March 1993)۔ The Tibetan Empire in Central Asia: A History of the Struggle for Great Power Among Tibetans, Turks, Arabs and Chinese During the Early Middle Ages۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 34۔ ISBN 978-0691024691
- ↑ Beckwith 1987, p. 171.
- ↑
- ↑ Valerie Hansen (17 July 2012)۔ The Silk Road: A New History۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 226–۔ ISBN 978-0-19-993921-3
- ↑ George Michell، John Gollings، Marika Vicziany، Yen Hu Tsui (2008)۔ Kashgar: Oasis City on China's Old Silk Road۔ Frances Lincoln۔ صفحہ: 13–۔ ISBN 978-0-7112-2913-6
- ↑ Trudy Ring، Robert M. Salkin، Sharon La Boda (1994)۔ International Dictionary of Historic Places: Asia and Oceania۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 457–۔ ISBN 978-1-884964-04-6
- ↑ E. Yarshater، مدیر (1983-04-14)۔ "Chapter 7, The Iranian Settlements to the East of the Pamirs"۔ The Cambridge History of Iran۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 271۔ ISBN 978-0521200929
- ↑
- ↑ Matthew Tom Kapstein، Brandon Dotson، مدیران (20 July 2007)۔ Contributions to the Cultural History of Early Tibet۔ Brill۔ صفحہ: 96۔ ISBN 978-9004160644
- ^ ا ب پ ت "[آریانا] افغانستان کا پرانا نام"۔ منڈيگک۔ 29 نومبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2022
- ^ ا ب پ ت Hassan Chuhan Rana Ali (1998)۔ A Short History Of The Gurjars: Past And Present (بزبان انگریزی and Urdu) (1st ایڈیشن)۔ Lahore, Pakistan: Chauhan Publications۔ صفحہ: 143۔ ISBN 9789698419004
- ↑ انوار ہاشمی۔ تاریخ پاک وہند۔ صفحہ: 42 –43
- ↑ ڈاکٹر معین الدین معین الدین۔ عہد قدیم اور سلطنت دہلی۔۔ صفحہ: 247 تا 258
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح "The Walnut Heights ::"۔ www.thewalnutheights.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2022
- ↑ Sehrish Maqsood۔ "Anwar Ali Profile, Height, Age, Career, Family & Networth"۔ Pakistani.PK (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2022
- ↑ Residence Swat valley، PakistanName Miangul AurangzebNationality PakistaniParents Miangul AurangzebEthnicity Khatana GujjarKnown for PoliticianCitizenship PakistanGr، parents Miangul Jahan ZebFull Name Miangul Adnan AurangzebAlma mater Northeastern University، United StatesEducation Northeastern University، Aitchison College (2014-01-18)۔ "Miangul Adnan Aurangzeb - Alchetron, the free social encyclopedia"۔ Alchetron.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 نومبر 2022