معاویہ بن ابو سفیان

صحابئ رسول اور خلافت امویہ کے بانی
(معاویہ بن ابوسفیان سے رجوع مکرر)

کام جاری
صارف: Tahir697

أميرُ المُؤمِنين
معاویہ بن ابو سفیان
مُعاوية بن أبي سُفيان بن حَرب بن أُمَيَّة بن عَبدِ شَمس بن عَبد مَناف بن قُصَيّ بن كِلاب بن مُرَّة القُرَشيُّ العَدنانيُّ
(عربی میں: معاوية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 603ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 اپریل 680ء (76–77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ (632–661)
سلطنت امویہ (661–)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ قريبہ بنت ابی اميہ
میسون بنت بحدل   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد یزید بن معاویہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابو سفیان بن حرب   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ہند بنت عتبہ   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان خلافت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
گورنر شام   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
639  – 661 
ابوعبیدہ ابن الجراح  
ضحاک بن قیس الفہری  
خلیفہ سلطنت امویہ (1  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
28 جولا‎ئی 661  – 27 اپریل 680 
 
یزید بن معاویہ  
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان [3]،  مصنف ،  شاعر [4]،  گورنر ،  خلیفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

امیر معاویہ بن ابو سفیان یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) خلافت امویہ کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔[5] امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔[6][7][8][9][10][11]

ابتدائی زندگی

معاویہ ابوسفیان بن حرب کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ہندہ تھا۔ جنھوں نے غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ کا کلیجا چبایا تھا۔ ظہور اسلام سے قبل ابوسفیان کا شمار رؤسائے عرب میں ہوتا تھا۔ جبکہ ابوسفیان اسلام کے بڑے دشمنوں میں شمار ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا تو ابوسفیان، ہندہ اور ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کر لیا۔ امیر معاویہ بھی ان میں شامل تھے۔ ہجرت مدینہ سے تقریباً 15 برس پیشتر مکہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ اظہارنبوت کے وقت آپ کی عمر کوئی چار برس کے قریب تھی۔ جب اسلام لائے تو زندگی کے پچیسویں برس میں تھے۔ فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں کے تالیف قلب کے لیے ابوسفیان کے گھر کو بیت الامن قرار دیا۔ یعنی جو شخص ان کے گھر چلا جائے وہ مامون ہے۔ اور ان کے بیٹے معاویہ کو کاتب مقرر کیا، بعض علما کے نزدیک انھیں صرف کاتب مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپ کے سپرد تھا۔ یہ دور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا آخری حصہ تھا۔ اس لیے امیر معاویہ زیادہ عرصہ آستانہ نبوت سے منسلک نہ رہ سکے۔

ابوبکرصدیق نے آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو معاویہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ عہد فاروقی میں یزید کی وفات کے بعد آپ کو ان کی جگہ دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے۔ عثمان غنی نے آپ کو دمشق، اردن اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔ والی شام کی حیثیت سے آپ کا بڑا کارنامہ اسلامی بحری بیڑے کی تشکیل اور قبرص کی فتح ہے۔ عثمان غنی آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور آپ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا۔

امیر معاویہ نے خوارج سے مقابلہ کیا، مصر، کوفہ، مکہ، مدینہ میں باصلاحیت افراد کو عامل و گورنر مقرر کیا، مصر میں عمرو بن العاص- کو حاکم بنایا، پھر ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو بنایا، ان کے دور حکومت میں جوبیس سال کو محیط ہے۔ سجستان، رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلس، الجزائر اور سندھ کے بعض حصے فتح ہوئے۔ ان کا دور حکومت ایک کامیاب دور تھا، ان کے زمانہ میں کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔

اموی خلافت

بنو امیہ
فائل:Umay-futh.PNG
خلفائے بنو امیہ
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680
یزید بن معاویہ، 680-683
معاویہ بن یزید، 683-684
مروان بن حکم، 684-685
عبدالملک بن مروان، 685-705
ولید بن عبدالملک، 705-715
سلیمان بن عبدالملک، 715-717
عمر بن عبدالعزیز، 717-720
یزید بن عبدالملک، 720-724
ہشام بن عبدالملک، 724-743
ولید بن یزید، 743-744
یزید بن ولید، 744
ابراہیم بن ولید، 744
مروان بن محمد، 744-750

عثمان کے اندوہناک واقعہ شہادت کے بعد علی المرتضی کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی تو معاویہ نے (جو اس وقت ملک شام کے عامل تھے) علی سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ پہلے قاتلانِ عثمان سے قصاص لیں۔ علی نے جواب میں فرمایا کہ ابھی ہرطرف شورش اور ہنگامہ ہے، یہ فرو ہو جائے اس کے بعد قصاص لیں گے۔ جنگ (صفین) کے بعد آپ کی خلافت کا اعلان کر دیا گیا یہ اعلان دھوکا دہی سے کیا گیا۔ اس طرح اسلامی مملکت دو حصوں میں بٹ گئی۔
اس موضوع پر مزید دیکھیے قتل عثمان اور جنگ صفین کے مضامین

اسلامی سلطنت کا اتحاد

علی کو اپنے دور خلافت میں خوارج کا مقابلہ کرنا پڑا - علی کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے امام حسن کی بیعت کر لی لیکن آپ کے اعلان حکومت کے فوراً بعد معاویہ نے عراق پر فوج کشی کر دی اور امام حسن سے جنگ کے بعد ایک صلح کے نتیجے میں حکومت حاصل کر لی۔اس کے بعد 661ء میں معاویہ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا۔ امام حسن نے معاویہ کے ساتھ ایک مفصل صلح نامے کے ساتھ صلح کی[12] یہاں سے خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوا۔صلح حسن کے اہم شرائط میں سے ایک یہ تھا کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہیں کرے گا۔

استحکام سلطنت کے لیے اقدامات

خوارج کا مقابلہ

مخالفین بنو امیہ میں سب سے زیادہ منظم اور خطرناک گروہ خوارج کا تھا۔ امیر معاویہ کے تخت نشین ہونے کے فوراً بعد 661ء میں ایک خارجی فسردہ بن نوفل نے کوفہ کے قریب علم بغاوت بلند کیا۔ سرکاری افواج ان کے عزم و ہمت کا مقابلہ نہ کر سکیں اور شکست کھانے پر مجبور ہوئیں۔ امیر معاویہ نے اس بغاوت کے لیے اہل کوفہ کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے انھیں تنبیہ کی کہ اگر انھوں نے فسردہ کو گرفتار کرکے حکومت کے سپرد نہ کیا تو انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس دھمکی کا خاصہ اور کوفیوں نے فسردہ کو گرفتار کرا دیا لیکن خوارج نے اس کے باوجود عبد اللہ بن ابی الحوسا کی زیر سرکردگی اپنی جدوجہد کو بدستور جاری رکھا

امیر معاویہ نے کوفہ میں خوارج کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے اب مغیرہ بن شعبہ کو مقرر کیا۔ مغیرہ مسلسل ایک برس تک ان کے خلاف بر سر پیکار رہے۔ اس دوران میں خوارج نے عید کے دن عین حالت نماز میں اچانک حملہ کرنے کی سازش کی لیکن بروقت علم ہو جانے کی وجہ سے مغیرہ نے ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔ مغیرہ کی زبردست کوششوں کے نتیجہ کے طور پر خوارج کو دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور ان کے راہنما مارے گئے۔

کوفہ کے بعد خوارج کا دوسرا مرکز بصرہ تھا۔ بصرہ کے خوارج کی سرکوبی کے لیے زیاد بن ابیہ کو بصرہ کی ولایت سپرد کی گئی۔ زیاد بن ابیہ نے اہل بصرہ کے جذبہ خودسری کو کچل دیا۔ اس کی سخت گیری اور تشدد کی بدولت تمام عراق میں امن و امان قائم ہوا۔ مغیرہ کی وفات کے بعد کوفہ کی ولایت بھی اس کے سپرد کر دی گئی

حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت

حضرت حجر بن عدی حضرت علی کے فدائیوں میں سے تھے۔ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد اقتدار میں قاتلان عثمان پر سب و شتم کی بنیاد رکھی اور تمام صوبوں کے والیوں اور اعمال حکومت کو حکم دیا کہ وہ بھی جمعہ کے خطبہ میں قا تلان عثمان کو برسر منبر برا بھلا کہیں[13] امیر معاویہ نے حضرت علی کو برسر منبر برا بھلا کہنے کا حکم دیا۔۔ حضرت علی کو برا بھلا کہنے کی روایت حضرت عمر بن عبد العزیز نے ختم کروائی۔ اس بنا پر حجر بن عدی نے امیر معاویہ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ زیاد نے کوفہ کی امارت کے زمانہ میں حجر بن عدی اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کرا دیا۔ حجر بن عدی بڑے مرتبہ کے صحابی تھے۔ آپ کے قتل نے دنیائے اسلام پر بہت برا اثر چھوڑا۔ [14]

بغاوتوں کی روک تھام

661ء میں بلخ، بخارا، ہرات اور بادغیس کے حکمرانوں نے اموی اقتدار کے خلاف بغاوت کر دی۔ امیر معاویہ نے قیس بن ہثیم کو خراسان کا والی مقرر کیا۔ عبد اللہ ابن حازم اور قیس نے مل کر ان علاقوں پر لشکر کشی کی اور انھیں اطاعت قبول کرنے پر مجبور کیا۔

663ء میں کابل کے حکمران نے بغاوت کر دی عبد الرحمن بن سمرہ اس بغاوت کو فرو کرنے پر مامور ہوا۔ اس نے شہر کا محاصرہ کرنے کے بعد فوج کو سنگباری کا حکم دیا۔ محصورین نے بقول یعقوبی از خود شہر کے پھاٹک کھول دیے۔ اس کے بعد اموی افواج اردگرد کے علاقوں کو فتح کرتی ہوئی غزنہ پہنچیں۔ اہل غزنہ نے تھوڑی سے مزاحمت کے بعد شکست قبول کر لی۔ اس طرح بخارا سے لے کر غزنہ اور کابل تک کے تمام علاقہ کو اموی احاطہ اقتدار میں دوبارہ شامل کر لیا گیا۔

سندھ پر حملہ

امیر معاویہ کے زمانہ میں سندھ پر دو طرفہ حملہ کیا گیا ایک مہم مہلب کی کمان میں اور دوسری بلوچستان سے منذر کی زیر سرکردگی روانہ کی گئی۔ مہلب کابل، قندھار، فتح کرتا ہوا سرزمین سندھ میں داخل ہوا دوسری طرف منذر مکران کا علاقہ فتح کرتا ہوا قلات کی طرف آگے بڑھا۔ یہ دونوں مہمیں بہت کامیاب رہیں اور بہت سا مال غنیمت حاصل کرکے واپس ہوئیں۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایک مہمات روانہ کی گئیں جو کامیاب ہو کر واپس لوٹیں۔

ترکستان کی فتوحات

اگرچہ عبید اللہ ابن زیاد کے زمانہ میں ترکستان کی فتح کے لیے کئی ایک کامیاب مہمات روانہ کی گئی تھیں لیکن سعید بن عثمان کی ولایت کوفہ کے زمانہ میں ترکستان پر باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔ سعید دریا جیحوں پار کرکے اہل سغد کے پایہ تخت تک جا پہنچا۔ ملکہ قبق نے صلح کی خواہش کا اظہار کیا لیکن سغدیوں نے ملکہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور ایک لاکھ بیس ہزار فوج لے کر مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑے۔ بخارا میں دونوں افواج کے درمیان میں زبردست جنگ ہوئی لیکن چونکہ سغدی باہمی پھوٹ کا شکار ہو گئے اس لیے ملکہ صلح کرنے پر مجبور ہوئی۔ بخارا پر قبضہ کے بعد اسلامی لشکر نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہل سمرقند نے کچھ عرصہ تو مزاحمت کی لیکن بالاخر سات لاکھ درہم سالانہ کے وعدہ پر صلح کر لی۔ سمرقند کے بعد ترمذ کا علاقہ بھی فتح کر لیا گیا۔ اس طرح ترکستان کا بیشتر حصہ اموی سلطنت کا جزو بنا

شمالی افریقہ کی فتوحات

شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں فتح ہو چکا تھا۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں ان علاقائی فتوحات میں مزید توسیع کی گئی۔ عمرو بن العاص شمالی افریقہ کے گورنر تھے۔ آپ نے عقبہ بن نافع اور معاویہ بن خدیج کو شمالی افریقہ کی فتح کے لیے نامزد کیا۔ 661ء میں عقبہ نے شمالی افریقہ پر فوج کشی کرکے طرابلس، تونس اور الجزائر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد بوزانہ اور زناتا تک اپنے حلقہ اقتدار کو وسیع کیا۔ 663ء میں سوڈان پر لشکر کشی کی گئی اور اس کے کثیر حصہ پر قبضہ کر لیا گیا افریقہ کے سرکش بربروں کو کچل دیا گیا اور قیروان کی مشہور چھاونی قائم کی گئی تاکہ افریقہ میں مستقل اور پائدار امن قائم رہے۔

قسطنطنیہ پر حملہ

شام اور مصر پر اسلامی غلبہ کے باوجود رومی آئے دن اسلامی سرحدوں پر حملے کرتے رہتے تھے کیونکہ رومیوں کو ایشیائے کوچک اور یورپی مقبوضات پر ابھی تک پوری طرح بالادستی حاصل تھی۔ نیز مشرقی کلیسا کے مرکز کی حیثیت سے بھی بازنطینی حکمران مسیحیوں کی امیدوں کا مرکز تھے۔ اس بنا پر وہ اسی کوشش میں لگے رہتے تھے کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے علاقے کو دوبارہ حاصل کریں۔ رومی حملوں کی روک تھام کے لیے امیر معاویہ نے بالاخر بازنطینی حکومت کے دار الحکومت قسطنطنیہ کی تسخیر کا باقاعدہ منصوبہ بنایا۔ آپ کے اس منصوبہ کی اطلاع جب مکہ و مدینہ تک پہنچی تو اکابر صحابہ نے بھی اس میں شمولیت کے لیے آمادگی کا اظہار کیا کیونکہ رسول اللہ نے فاتحین قسطنطنیہ کو مغرفت کی بشارت دی تھی۔ ( اصل حدیث میں یہ وضاحت بھی ہے، جو شخص قسطنطنیہ فتح کرے گا اس کا نام پیغمبر کے نام پر ہوگا۔ یہ پیشن گوئی سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں پوری ہوئی)55ھ میں سفیان بن عوف ازدی کو اس فوج کا انچارج بنایا گیا۔ اس مہم میں ابوایوب انصاری، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس، عبداللہ بن زبیر جیسے مقتدر صحابی بھی شریک ہوئے۔ فوج کے ایک دستہ کی کمان امیر معاویہ کے بیٹے یزید کے ہاتھ میں بھی تھی۔ قسطنطنیہ چونکہ مشرقی کلیسا کا مرکز تھا اس لیے رومیوں نے بھی اس کے دفاع کے زبردست انتظامات کر رکھے تھے۔ محاصرہ کے دوران میں شہر کی بلند فصیل سے وہ مسلمانوں پر آگ کے گولے برساتے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ جب کامیابی کی صورت نظر نہ آئی تو محاصرہ اٹھانے کا حکم دیا گیا۔ یہ حملہ اگرچہ ناکام رہا لیکن رومیوں پر اس قدر خوف طاری رہا کہ آئندہ کئی برسوں تک انھوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی نہ کی۔

اس محاصرہ کے دوران مشہور صحابی ابوایوب انصاری وفات پا گئے۔ مسلمانوں نے آپ کو شہر کی فصیل کے نیچے لے جا کر دفن کر دیا۔ مسلمانوں نے رومیوں کو خبردار کر دیا کہ وہ لاش کی یا مزار کی بے حرمتی نہ کریں وگرنہ اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ لیکن آہستہ آہستہ خود رومی ان کا احترام کرنے لگے۔ ان کے مزار پر منتیں ماننے لگے۔ عثمانی ترکوں کے زمانہ میں آپ کے مزار پر مقبرہ بنوایا گیا اور مسجد تعمیر کی گئی جو جامعہ ایوبیہ کہلائی۔

جزائر روڈس اور ارواڈ کی فتح

شامی علاقہ کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے جزائر روم کی فتح ضروری تھی چنانچہ اس مقصد کی خاطر اس سے پیشتر جزیرہ قبرص فتح کیا جا چکا تھا۔ امیر معاویہ نے اپنے زمانہ میں ایک قدم مزید آگے بڑھا کر جزیرہ روڈس پر قبضہ کر لیا۔ یہ اناطولیہ کے قریب جنوب مغرب میں واقع ہے۔ جزیرہ صیقلہ (سسلی) پر بھی قبضہ کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے بعد 54ھ میں جزیرہ ارواڈ پر قبضہ ہوا۔

نظام حکومت اور انتظامی اصلاحات

جہاں تک نظم و نسق کا تعلق ہے تو امیر معاویہ نے اس کی کافی حد تک اصلاح کرکے حکومت کو استحکام بخشا اور فوجی اور دیگر اصلاحات سے ملک کو بیرونی حملوں سے تحفظ دیا۔ ان کے نظام حکومت کا خاکہ درج ذیل ہے:

خلیفہ کے اختیارات میں اضافہ

امیر معاویہ نے اپنے انیس سالہ دور حکومت میں ملک سے بے امنی اور خانہ جنگی دور کرکے ایک مضبوط حکومت قائم کی۔ جو داخلی انتشار اور خارجی حملوں کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ اس حکومت کی بنیاد خلیفہ کے وسیع اختیارات پر تھی۔ انھوں نے خلافت راشدہ کے شورائی اور جمہوری طرز حکومت کی بجائے مضبوط مرکزی حکومت قائم کی۔ جو خدا کے سو کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ اگرچہ دور خلافت کے قائم کردہ ادارے بظاہر اسی طرح قائم تھے لیکن ان کے اندر وہ جمہوری روح باقی نہیں رہی۔ مجلس شوریٰ کا وجود قائم تھا اور اس میں عرب کے معروف مدبر عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن ابی سفیان اور دیگر اکابرین سلطنت شامل تھے۔ جن کا انتخاب خلیفہ کی ذاتی پسند یا ناپسند پر مبنی تھا۔ خلیفہ کسی بھی شخص کو شوریٰ کا رکن بنا سکتا تھا اور خود شوریٰ کے کسی فیصلے کا پابند نہ تھا۔ شوریٰ کے ارکان بھی خلیفہ کی خواہش و مرضی کے خلاف رائے دینے سے اجتناب کرتے اور اگر اختلاف کرتے تو ادب و احترام کے ساتھ۔ بے باک تنقید جس کا رواج خلافت راشدہ میں تھا۔ یہاں اس کی گنجائش نہ تھی۔

صوبائی نظام

ملکی تقسیم اور صوبائی حد بندی کا نظام تقریباً وہی رہا جو حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں تھا۔ ہر صوبے کے لیے الگ گورنر تھا جسے والی کہتے تھے۔ صوبائی گورنروں کی تقرری اور تنزلی کا اختیار خلیفہ کو تھا اور وہ خلیفہ کی ہدایات او روضع کردہ احکامات کے تابع فرمان تھے۔ بعض مقامی نوعیت کے معاملات میں انھیں نے فیصلوں کا اختیار تھا۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں صوبوں میں مکمل امن و امان قائم رہا۔

فوجی نظام

بنی امیہ مکہ کے فوجی قائدین میں سے تھے۔ اس لیے عہد امیر معاویہ میں فوج کی تنظیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کا ڈھانچہ عہد فاروقی کے خطوط پر قائم رہا۔ فوج کے دو حصے تھے جنھیں گرمائی اور سرمائی علی الترتیب صافیہ اور شاتیہ کہتے تھے۔ فوج کی تنخواہ اور بھرتی کے نظام کی اور زیادہ اصلاح کی گئی۔ غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف ملکی دفاع کے لیے نئی نئی چھاؤنیاں اور شہر آباد کیے گئے۔ دوران میں جنگ تلواروں، تیروں اور دیگر رائج الوقت اسلحہ کے علاوہ قلعہ شکن آلات کا عام استعمال ہوتا تھا۔ جس کے ذریعہ بڑے بڑے قلعوں کی فصیلوں میں شکاف کر دیا جاتا تھا۔ امیر معاویہ نے فوج کی تنظیم اس طرح کی کہ ڈسپلن اور استعداد کے لحاظ سے یہ دنیا کی صف اول کی افواج کی ہم پلہ بن گئی

بحریہ کی تشکیل

امیر معاویہ کا سب سے شاندار کارنامہ اسلامی بحریہ کی تشکیل ہے۔ رومیوں کے خلاف جنگوں میں بحریہ کی اہمیت محسوس ہو گئی تھی۔ چنانچہ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے سب سے زیادہ توجہ بحریہ کی ترقی پر صرف کی۔ عہد عثمانی میں 500 جنگی بحری جہاز موجود تھے۔ جن کے ذریعے قبرص کا جزیرہ فتح ہوا تھا۔ امیر معاویہ نے اس بحری بیڑے کو مزید مستحکم بنایا اور مصر و شام کے ساحلی مقامات پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔ بحری فوج کا سپہ سالار علاحدہ مقرر کیا گیا۔ جسے امیرالبحر کہتے تھے۔ اس عہد میں خبادہ بن ابی امیر اور عبد اللہ بن قیس اس عہدہ پر فائز رہے۔

پولیس

ملک کے اندرونی نظام اور امن و امان کے قیام کے لیے محکمہ پولیس کو باقاعدہ منظم کیا گیا۔ عراق میں بالخصوص پولیس کا بڑا زبردست انتظام تھا۔ شہر کوفہ میں چالیس ہزار پولیس کے سپاہی موجود تھے۔ راہ پڑی اشیاء وہیں کی وہیں پڑی رہ جاتیں اور کوئی دوسرا انھیں اٹھانے کی جرات نہ کرتا۔ ملک کے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک مکمل امن و امان تھا۔ مشتبہ لوگوں کے نام رجسٹر میں درج تھے۔ بعض ہنگامی حالات میں لوگوں کے باہر آنے جانے پر پابندی لگا دی جاتی جس طرح موجودہ حالات میں کرفیو آرڈر نافذ کیا جاتا ہے۔ پولیس کی اس نگرانی اور سختی کا خاطر خواہ اثر پڑا تمام شورشیں اور غیر قانونی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ اور لوگوں نے امن و سکون کا سانس لیا۔

دیوان البرید

اس سے پہلے خبر رسانی اور ڈاک کی ترسیل کے لیے مملکت اسلامی میں کوئی باقاعدہ محکمہ نہ تھا۔ امیر معاویہ نے اس کام کے لیے برید کے نام سے مستقل محکمہ قائم کیا۔ اس کام کے لیے ہر منزل پر تازہ دم گھوڑے ہر وقت موجود رہتے جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ڈاک پہنچاتے اور اس طرح حکومت ملکی حالات سے اچھی طرح باخبر رہتی۔

دیوان الخاتم

اس سے پہلے دفتروں میں سرکاری ریکارڈ کی نقل رکھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے جعل سازی کرکے ایک لاکھ کی جگہ دو لاکھ وصول کر لیے۔ جب یہ بات امیر معاویہ کے علم میں آئی تو انھوں نے دیوان خاتم کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا۔ جس کے ذمہ تمام ریکارڈ کی نقلیں رکھنا اور خطوط کو سربمہر کرکے متعلقین تک پہنچانا تھا۔

نئے شہروں کی تعمیر

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے امیر معاویہ نے فوجی ضروریات کی بنا پر نئی نئی چھاؤنیاں تعمیر کیں اور برباد شدہ شہروں کو دوبارہ آباد کیا۔ یہ فوجی چھاؤنیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے شہروں میں تبدیل ہوگئیں۔ واسط اور قیروان کی چھاؤنیاں بعد میں بڑے بڑے شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ ارواڈ کے جزیرہ میں مسلمانوں کو آباد کیا اسی طرح انطاکیہ میں ایک مسلم نو آبادی قائم کی

رفاہ عامہ کے کام

زندگی میں کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جو معاویہ کے اصلاحات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ خوش حالی اور زراعت کی ترقی کے لیے آبپاشی کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ مدینہ کے قرب و جوار میں متعدد نہریں کھدوائی گئیں جن سے اناج اور پھلوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ نہر معقل جو بصرہ میں حضرت عمر کے زمانہ میں کھودی گئی تھی کو دوبارہ کھدوا کر آبپاشی کے قابل بنایا گیا۔ نئے شہروں میں لوگوں کے دینی فرائض کی بجا آوری کے لیے مسجدیں تعمیر کی گئیں۔

غیر مسلموں سے حسن سلوک

حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کے لیے کچھ طریقے مقرر کیے گئے تھے۔ امیر معاویہ نے انھیں بدستور جاری رکھا۔ تمام وعدے جو ان سے کیے جاتے ان کو پورا کیا جاتا۔ ان کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ تھی۔ انھیں عبادت اور اجتماع کی آزادی تھی۔ خلافت راشدہ کے زمانہ میں غیر مسلموں کو کلیدی آسامیوں پر فائز نہیں کیا جاتا تھا لیکن امیر معاویہ نے یہ روایت ترک کرکے انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔

امیر معاویہ کی حکمت عملی

امیر معاویہ قریش کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کی شخصیت مجموعہ صفات تھی۔ عربی سوانحی اور تاریخی ادب میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں امیر معاویہ کی نرمی، ضبط اور تحمل کی صفات کو خراج عقیدت پیش نہ کیا گیا ہو۔ ان کی حکمت عملی کی سب سے نمایاں خصوصیت حلم تھی۔ ان کا یہ وصف تاریخی مسلمات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بے جا و بے وقت سختی کے قائل نہ تھے۔ مخالفین اور معترضین کی نکتہ چینی کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے۔ اس معاملہ میں انھوں نے اپنے طرز عمل کی یوں وضاحت کی ہے:

جہاں میرا کوڑا کام کرتا ہے وہاں میں تلوار کام میں نہیں لاتا اور جہاں زبان کام دیتی ہے وہاں کوڑا کام میں نہیں لاتا۔ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان میں بال برابر بھی رشتہ قائم ہو تو میں اس کو نہیں توڑتا۔ جب لوگ اس کو کھینچتے ہیں تو میں ڈھیل دے دیتا ہوں اور جب وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں۔

انھوں نے ایک ایسی کامیاب حکمت عملی اختیار کی کہ حضرت امام حسن کو خلافت سے دست برداری پر آمادہ کر لیا نیز مغیرہ بن شعبہ، عمرو بن العاص اور زیاد بن سمیہ جیسے عرب اکابر اور دانشوروں کو اپنا معاون بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ یہی لوگ سیاسی معاملات اور انتظامی امور میں ان کے دست وبازو تھے اس کے علاوہ انھوں نے مختلف عرب قبائل مثلاً یمنی اور عدنانیوں میں اس طرح توازن قائم رکھا کہ ان کی قبائلی عصبیتیں دبی رہیں اور انھیں دونوں قبیلوں کا عملی تعاون حاصل رہا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مدبر حکمران اور دوراندیش سیاست دان تھے۔

سیرت و کردار

امیر معاویہ کا شمار اپنے زمانہ کے پانچ بڑے سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے ایک بار انھوں نے خود کہا کہ میں بہ نسبت زیاد کی تلوار کے اپنی زبان سے کہیں زیادہ ہمنوا اور حامی پیدا کیے۔ ان میں لوگوں کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ اگرچہ وہ خلفائے راشدین کی خصوصیات کے حامل نہ تھے لیکن وہ ایک اعلیٰ درجہ کے حکمران ضرور تھے۔ تدبر و رائے اور سیاست دانی میں روسائے عرب میں سے کوئی بھی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ فصاحت و بلاغت میں بھی وہ یکتا تھے اس کے علاوہ وہ ایک بہترین خطیب بھی تھے۔ خور و نوش، رہائش، لباس اور عادات و اطوار میں شاہانہ طرز زندگی کے خوگر تھے۔ ان کے دربار سے قیصر و کسریٰ کی شان ٹپکتی تھی۔ درباریوں، شاعروں، دوستوں اور حاجت مندوں خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو خسروانہ عنایات سے نوازتے۔ اونچے ایوانوں میں رہنے کے باوجود رعایا کے کمزور سے کمزور اور غریب سے غریب آدمی کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کی شکایات سنتے اور وہیں ان کی تکالیف کا ازالہ کا حکم صادر فرماتے۔ اہل دربار پر بھی یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ لوگ جو ان تک نہیں پہنچ سکتے ان کی ضروریات کو امیر تک پہنچانا ان کا ذمہ ہے۔

ایک فوجی ماہر کی حیثیت سے ان کا مقام بہت بلند تھا رومیوں کے خلاف کامیاب فتوحات ان کی اس صفت کی شاہد ہیں سب سے بڑھ کر جو چیز ان کو ہمعصر حکمرانوں سے ممتاز اور نمایاں کرتی ہے وہ ان کی سیاست دانی، معاملہ فہمی اور تدبر ہے۔ آپ کی سیاست ہمیشہ کامیاب رہی ان ہی اوصاف اور کا رہائے نمایاں کی بدولت انھوں نے ایک مضبوط اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔

یزید کی جانشینی

مغیرہ بن شعبہ نے 50 ھ میں پہلی بار امیر معاویہ کے سامنے خلافت کو ان کے خاندان میں منتقل کرنے اور یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ :

عثمان کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں میں جو اختلاف اور خونریزی قائم ہوئی ہے وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے اس لیے میری رائے میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت لے کر اسے جانشین بنا دینا چاہیے۔ تاکہ جب آپ کا وقت آخر آئے تو مسلمانوں کے لیے ایک سہارا اور جانشین موجود ہو اور ان میں خونریزی اور فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔

یہ امیر معاویہ کے دل کی آواز تھی۔ لیکن انھیں اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا پورا پورا احساس تھا۔ سیاسی نقطۂ نظر سے ملک کے تین طاقتور مرکز تھے اور امیر کی اس پر نگاہ تھی۔ کوفہ و بصرہ دنیاوی لحاظ سے اور حجاز مذہبی نقطۂ نظر سے نہایت اہم مراکز تھے۔ مغیرہ نے فوراً تجویز پیش کی کہ کوفہ کی ذمہ داری مجھ پر رہی۔ بصرہ کے لیے زیاد کافی ہیں اور حجاز کی ذمہ داری مروان بن حکم کے سپرد کی جائے۔ کوفہ جو مغیرہ کے ماتحت تھا، کے ایک وفد نے امیر معاویہ کے سامنے باقاعدہ یزید کی نامزدگی کی تجویز پیش کر دی۔ اس وفد کی قیادت خود مغیرہ کے بیٹے موسٰی نے کی۔

زیاد حاکم بصرہ کو جب امیر معاویہ کی رائے کا علم ہوا تو انھوں نے ازخود کوئی معاملہ طے کرنے کی بجائے عبید بن کعب سے مشورہ کیا۔ زیاد کی رائے میں یزید کی نامزدگی کی وجہ سے بہت سے مسائل اور الجھنیں پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ لٰہذا اس معاملہ میں عجلت موزوں نہ تھی۔ چنانچہ عبید نے یزید کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا اور اسے خلاف شرع حرکات سے باز رہنے کی تلقین کی۔ کہا جاتا ہے کہ یزید نے اس کے بعد اپنے کردار میں کافی اصلاح کرلی۔ لہٰذا بصرہ کا ایک وفد بھی امیر معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یزید کی نامزدگی کی تجویز کو پسند کیا۔

حجاز کی نوعیت کوفہ اور بصرہ سے بالکل مختلف تھی ایک تو وہ خطہ تھا جس پر آفتاب رسالت کی شعاعیں براہ راست پڑیں اور دوسرے ایسے مقتدر صحابی اور اکابرین بھی موجود تھے جو ہر لحاظ سے یزید پر فوقیت رکھتے تھے۔ لہذا ایسے اہل الرائے اور اہل اللہ سے یزید کی نامزدگی کی تائید حاصل کرنا بے حد مشکل تھا۔ امام حسین، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر اور عبد الرحمن بن ابی بکر خصوصی طور پر امیر معاویہ کی نگاہ میں تھے۔ اس کام کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے مروان بن حکم کو تحریر کیا گیا اور اسے اہل مدینہ کا مشورہ اور رائے معلوم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ امیر معاویہ نے اپنے پہلے خط میں یزید کی نامزدگی کا ذکر نہ کیا چنانچہ لوگوں نے آپ کے خیالات کو سراہا مگر اپنے دوسرے خط میں امیر معاویہ نے یزید کی نامزدگی کی وضاحت کر دی۔ لوگوں نے یزید کا نام سنتے ہی اختلاف کیا۔ عبدالرحمن بن ابی بکر نے کہا کہ:

یہ سنت ہرقل و کسریٰ کی ہے اس سے امت کی کوئی بھلائی مقصود نہیں بلکہ معاویہ خلافت کو ہرقل کی شہنشاہی بنانا چاہتے ہیں کہ ایک ہرقل کے بعد دوسرا ہرقل جانشین ہو۔

مروان نے تمام صورت حال اور کیفیت امیر معاویہ کو لکھ دی۔ اس دوران میں کوفہ، بصرہ اور حجاز کے وفود دمشق پہنچ چکے تھے۔ امیر معاویہ نے بصرہ کے وفد کے قائد احنف بن قیس کی موجودگی میں دربار منعقد کیا اور حاضرین دربار کے روبرو یزید کی خوبیاں بیان کیں پھر احنف بن قیس سے رائے طلب کی۔ احنف صاف گو آدمی تھے کہا کہ:

اے امیر اگر جھوٹ بولوں تو خدا سے ڈر لگتا ہے اور اگر سچ بولوں تو آپ کا خوف لاحق ہے۔ آپ یزید کے شب و روز اور افعال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر اس کے بعد بھی آپ اسے امت محمدی کے لیے بہتر سمجھتے ہیں تو پھر صلاح و مشورہ کی کیا ضرورت اور اگر ایسا نہیں سمجھتے تو پھر خود دوسرے عالم کو جاتے ہوئے اس کو دنیا کا توشہ نہ دیجیے۔ ورنہ ہمارا کام تو آپ کا حکم سننا اور بجا لانا ہے۔

چونکہ امیر معاویہ یزید کی نامزدگی طے کر چکے تھے اس لیے باوجود احقاق حق کے انھوں نے کچھ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر کچھ کو انعام و اکرام سے نواز کر ہموار کر لیا چنانچہ عراق اور شام کے باشندوں نے یزید کی بیعت کر لی۔

حجاز کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ امیر معاویہ نے خود مکہ اور مدینہ کا سفر اختیار کیا۔ انھیں عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس عبد اللہ بن زبیر، امام حسین اور عبد الرحمن بن ابی بکر سے شدید مخالفت کا خطرہ تھا۔ یہاں بھی انھوں نے سیاست سے کام لیا اور ہر ایک کو فرداً فرداً مل کر ہر ایک سے کہا کہ تم پانچ آدمیوں کے علاوہ سب نے یزید کی ولی عہدی قبول کر لی ہے اور تم ان چاروں کی رہبری کر رہے ہو۔ سوائے عبد الرحمن ابی بکر کے سب نے جواب دیا کہ

میں کسی کی رہبری نہیں کر رہا ہوں۔ آپ چاروں آدمیوں کو کہیے کہ اگر وہ بیعت کا اعلان کر دیں تو مجھے عذر نہ ہوگا۔

بعض مورخین کا یہ خیال ہے کہ یہ حضرات امیر معاویہ کی آمد کا سن کر مدینہ سے چلے گئے تھے۔ بہرحال بزرگوں نے بیعت سے انکار کر دیا۔ لیکن امیر معاویہ نے لوگوں میں یہ مشہور کر دیا کہ یہ حضرات بیعت کر چکے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امیر معاویہ نے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا مگر اہل حجاز کو اپنی اس تجویز کا حامی نہ بنا سکے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر نے باقی چار اصحاب کی نمائندگی کرتے ہوئے انھیں حضور اکرم اور خلفائے راشدین کے سلسلہ میں اختیار کردہ تین طریقہ ہائے انتخاب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ان پر واضح کر دیا کہ جانشینی کا طریقہ انھیں کسی صورت میں بھی منظور نہیں۔ امیر معاویہ واپس دمشق پہنچے اور یزید کی نامزدگی کا اعلان کر دیا۔

وصیت اور وفات

680ء میں امیر معاویہ کا انتقال 76 برس کی عمر میں دمشق میں ہوا۔ مدت خلافت انیس سال چند ماہ ہے۔ آپ نے تجہیز و تکفین کے بارے میں وصیت کی کہ رسول اللہ کے کرتا مبارک کا کفن پہنایا جائے اور آپ کے ناخن مبارک اور موئے مبارک کو منہ اور آنکھوں پر رکھ دیا جائے ان کی طفیل خدا مجھے بخش دے۔ یزید کی جانشینی کے بارے میں وصیت کی۔

جان پدر میں نے تمہاری راہ کے تمام کانٹے ہٹا کر تمہارے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ دشمنوں کو زیر کرکے سارے عرب کی گردنیں تمہارے سامنے جھکا دی ہیں اور تمہارے لیے ایک بڑا خزانہ جمع کر دیا ہے۔ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اہل حجاز کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھنا وہ تمہاری اصل بنیاد ہیں جو حجازی تمہارے پاس آئے اس سے حسن سلوک سے پیش آنا۔ اس کی عزت کرنا اس پر احسان کرنا اور جو نہ آئے اس کی خبر گیری کرتے رہنا۔ اہل عراق کی ہر خواہش پوری کرنا اگر وہ روزانہ عاملوں کا تبادلہ چاہیں تو روزانہ کر دینا کہ عمال کا تبادلہ تلواروں کے بے نیام ہونے سے بہتر ہے۔ شامیوں کو اپنا مشیر بنانا ان کا خیال ہر حال میں مدنظر رکھنا جب کوئی دشمن تمہارے مقابلہ پر آئے تو ان سے مدد لینا۔ لیکن کامیاب ہونے کے بعد ان کو فوراً واپس بلا لینا ورنہ دوسرے مقام پر زیادہ ٹھہرنے سے ان کے اخلاق بدل جائیں گے۔

خلافت میں حسین بن علی، عبد اللہ بن عمر، عبد الرحمن بن ابی بکر، عبد اللہ بن زبیر کے علاوہ کوئی حریف نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عمر سے کوئی خطرہ نہیں انھیں زہد و عبادت کے علاوہ کسی چیز سے واسطہ نہیں ہے۔ عام مسلمانوں کی بیعت کے بعد انھیں بھی کوئی عذر نہ ہوگا۔ عبد الرحمن بن ابی بکر میں کوئی ذاتی حوصلہ و ہمت نہیں ہے جو ان کے ساتھ کریں گے وہ اس کی پیروی کر لیں گے۔ البتہ حسین بن علی کی جانب سے خطرہ ہے اہل عراق انھیں تمھارے مقابلہ میں انھیں لا کر چھوڑیں گے۔ جب وہ تمھارے مقابلہ پر آئیں اور تم ان پر قابو حاصل کر لو تو درگزر سے کام لینا کہ وہ قرابت والے، بڑے حقدار اور رسول اللہ کے عزیز ہیں۔ البتہ جو شخص لومڑی کی طرح دکھائی دے گا اور شیر کی طرح حملہ کرے گا وہ عبد اللہ بن زبیر ہے اگر وہ صلح کر لے تو خیر ورنہ قابو پانے کے بعد اس کو ہرگز نہ چھوڑنا اور اس کے ٹکڑے اڑا دینا۔

مسلم بادشاہت کا آغاز

امیر معاویہ بنیادی طور پر ایک دنیاوی حکمران تھے لہٰذا ان کے عہد حکومت کو خلفائے راشدین کے معیار پر جانچنا ایک تاریخی غلطی ہے ان کا اپنا قول ہے ’’انا اول الملکوک‘‘ یعنی عربوں میں سب سے پہلا بادشاہ میں ہوں۔ اگرچہ انھوں نے حکومت کا ظاہری ڈھانچہ خلفائے راشدین کے مطابق ہی قائم رکھا۔ لیکن اسلامی طرز حکومت میں مندرجہ ذیل بنیادی تبدیلیاں کیں جس کی وجہ سے مسلم بادشاہت کا آغاز ہوا اور ان کی حکومت خلفائے راشدین کے راستہ سے ہٹ گئی۔

اسلامی تعلیمات میں شخصی حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ خلفائے راشدین عوامی تائید و حمایت سے ہی مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے۔ عوام کو ان کے احتساب کا پورا پورا حق تھا۔ لیکن امیر معاویہ نے یزید کو اپنی زندگی ہی میں اپنا جانشین نامزد کر دیا اور اس کے لیے بیعت بھی لے لی۔ یہ بیعت لالچ اور جبر کا نتیجہ تھی۔ یہیں سے اسلام میں شخصی اور موروثی حکومت کا آغاز ہوا۔

خلافت راشدہ کی بنیاد شورائیت پر تھی ان کی رہنمائی کے لیے مجلس شوری موجود تھی جس کے رکن مسلم اکابرین عرب میں سے تھے۔ یہ لوگ پوری آزادی سے ملکی معاملات میں خلیفہ کو مشورہ دیتے لیکن امیر معاویہ نے مجلس شوریٰ ختم کرکے اس کی جگہ اپنے درباری مشیروں کو دے دی۔ یہ مشیر بالعموم ان کے رشتہ دار یا ان کے ہمنوا ہوتے

بیت المال خلفائے راشدین کے زمانہ میں قومی امانت سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ خلیفہ کے ذاتی تصرف میں تھا آمد و خرچ میں بھی جائز و ناجائز کی تخصیص روا نہ رکھی جاتی۔ بیت المال کی رقوم عموماً عوامی تائید و حمایت حاصل کرنے کے استعمال کی جاتیں چنانچہ امیر معاویہ کے زمانہ میں بیت المال ’’شاہی خزانہ‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔

اعلیٰ مناصب پر تقرری کے لیے تقوی اور اہلیت کی بجائے اب خلیفہ کے ساتھ خاندانی اور ذاتی تعلقات بنیادی حیثیت رکھتے تھے۔

خلافت راشدہ سادگی کا انتہائی حسین نمونہ تھی۔ مسجد نبوی کا صحن قصر خلافت کا کام دیتا تھا لیکن امیر معاویہ نے اپنے دفاتر اور محل قصر و کسریٰ کے نمونہ پر تعمیر کرائے۔ ان کا طرز رہائش بھی شاہانہ تھا۔ محل پر پہرہ دار اور دروازوں پر دربان مقرر کرنے کا طریقہ آپ ہی نے پہلی بار اختیار کیا۔ آپ نے اپنے بیٹھنے کے لیے ایک ایسی چیز بنوائی تھی جو تخت کے مشابہ تھی۔ اگرچہ آپ مسجد میں امامت کے فرائض ادا کرتے تھے لیکن وہاں آپ نے اپنے لیے آڑ (مقصورہ) بنوا رکھی تھی۔ یہ طور طریقے آپ نے رومی شہنشاہوں سے مستعار لے کر اپنے ملک میں رواج دیے۔ لٰہذا ان تمام تبدیلیوں کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ امیر معاویہ کے عہد میں مسلم بادشاہت کا آغاز ہوا۔[15]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Diamond Catalog ID for persons and organisations: https://opac.diamond-ils.org/agent/35424 — بنام: Muʿāwiya ibn Abī Sufyān
  2. http://www.ceeol.com/aspx/getdocument.aspx?logid=5&id=5b9d8d8d996f4d5f913e0609188fd9d7
  3. https://lubpak.com/archives/22227
  4. https://lubpak.com/archives/22227
  5. Hoyland, In God's Path، 2015: p.98
  6. عبد الرحمٰن ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون حصہ اول، اردو ترجمہ حکیم احمد حسین الہ آبادی، نفیس اکیڈیمی کراچی، جنوری 2003ء، ص 176
  7. جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابو بکر السیوطی، تاریخ الخلفاء، اردو ترجمہ اقبال الدین احمد، نفیس اکیڈیمی کراچی، طبع پنجم مئی 1983ء، ص 196
  8. علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخِ طبری (جلد دوم)، اردو ترجمہ سید محمد ابراہیم ندوی، نفیس اکیڈیمی کراچی، اپریل 2004ء، ص 387
  9. مفتی احمد یار خان نعیمی، حضرت امیر معاویہ، جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان)، کراچی، جون 2006ء، ص 41
  10. فیضانِ امیر معاویہ، مکتبۃ المدینہ، کراچی، مارچ 2016ء، ص 51
  11. مفتی تقی عثانی، حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق، مکتبہ معارف القرآن کراچی، حرفِ آغاز ص 5
  12. خلافت و ملوكيت تصنيف مولانا مودودى
  13. حوالہ خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی
  14. خلافت و ملوکیت مولانا مودودی

مآخذ

  • الكنى والأسماء - مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (طبعة عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة: ج1 ص511)
  • أ ب الأعلام - خير الدين الزركلي (طبعة دار العلم للملايين:ج7 ص261)
  • تاريخ دمشق - أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة اللہ المعروف بابن عساكر (طبعة دار الفكر:ج59 ص67)
  • تاريخ دمشق - أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة اللہ المعروف بابن عساكر (طبعة دار الفكر:ج23 ص432)
  • أسد الغابة في معرفة الصحابة - أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم بن عبد الواحد، المعروف بابن الاثير۔ (طبعة دار الكتب العلمية:ج7 ص281)
  • الإصابة في معرفة الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (طبعة دار الكتب العلمية:ج6 ص120)
  • البداية والنهاية - ابن كثير أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري الدمشقي (طبعة دار هجر:ج11 ص398)
  • معجم الصحابة - أبو القاسم البغوي، عبد اللہ بن محمد بن عبد العزيز بن المَرْزُبان بن سابور بن شاهنشاہ (طبعة مكتبة دار البيان:ج5 ص363)
  • دراسة في تاريخ الخلفاء الأمويين - د۔ محمد ضيف اللہ بطاينة (طبعة دار الفرقان للنشر والتوزيع: ج1 ص129)
  • معاوية بن أبي سفيان - شخصيتہ وعصرہ - عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي (طبعة دار الأندلس الجديدة ج1 ص27)
  • تهذيب الأسماء واللغات - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (طبعة دار الكتب العلمية:ج2 ص101)
  • تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (طبعة دار الغرب الإسلامي:ج2 ص540)
  • الطبقات الكبرى/الجزء المتمم - أبو عبد اللہ محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولا، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (طبعة مكتبة الصديق:ج1 ص106)
  • سير أعلام النبلا - شمس الدين أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (طبعة مؤسسة الرسالة:ج3 ص120)
  • سير أعلام النبلا - شمس الدين أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (طبعة مؤسسة الرسالة:ج2 ص187)
  • تاريخ دمشق، ابن عساكر، ط دار الفكر 1995،ج59 ص194
  • كتاب الزهد، الإمام أحمد، طبعة مكة، ص172.
  • أي خادم
  • تاريخ دمشق، لابن عساكر، ج59،ص171، البداية والنهاية، لابن كثير، ج8، ص143.
  • [تاريخ دمشق، ابن عساكر ج59 ص177]
  • [تاريخ دمشق لابن عساكر ج19 ص 183]
  • [تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام، الذهبي ج2 ص540 ]
  • [سير أعلام النبلا، الذهبي ج3 ص153]
  • (قال ابن العربي المفسر المعروف أنها ماخرجت لقتال ولكن رجاء أن رآها الناس جنحوا للسلم فلقيها عمار بن ياسر قائلا ألم تقرأ قول اللہ (وقرن في بيوتكن) فرجعت)
  • الدولة الأموية، الدكتور علي محمد الصلابي
  • رواہ البخاري في « التاريخ الكبير » (5/240)، وأحمد في « المسند » (17929)، والترمذي في « جامعہ » (3843)، والطبراني في « المعجم الأوسط » (656)، وفي « مسند الشاميين » (2198)، وابن أبي عاصم في « الآحاد والمثاني » (3129)، والأجري في « الشريعة » (1915،1914)، والخطيب في « تاريخہ » (1/207)، وأبو نعيم في « الحلية » (8/358)، وفي « أخبار أصبهان » (1/180)، والخلال في « السنة » (676 ورواہ الترمذي وصححہ الألباني، وصححہ محمد الأمين الشنقيطي في رسالتہ الأحاديث النبوية في فضائل معاوية بن أبي سفيان وقد اعتبر ابن حجر الهيتمي هذا الحديث من غرر فضل معاوية وأظهرہا، ثم قال : ومن جمع اللہ لہ بين هاتين المرتبتين كيف يتخيل فيہ ما تقوّلہ المبطلون ووصمہ بہ المعاندون۔ تطهير اللسان (ص 14)
  • صحيح الجامع، الراوي: سفينة أبو عبد الرحمن مولى رسول اللہ
  • المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 3341، خلاصة الدرجة: صحيح
  • الراوي: أبو بكرة نفيع بن الحارث المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3629، خلاصة الدرجة: [صحيح]
  • صحيح البخاري، ج1، ص122
  • صحيح مسلم، ج4، ص1871
  • تاريخ الطبري، ج4، ص188
  • فضائل الخمسة من الصحاح الستة للفيروز آبادي ج 3 / 392، الصواعق المحرقة ص 143
معاویہ بن ابو سفیان
ماقبل  خلافت امویہ
28 جولائی 661ء29 اپریل 680ء
مابعد