اہلیا
اہلیا (سنسکرت: अहल्या) ہندو روایتوں کے مطابق گوتم مہارشی کی بیوی تھی۔ مختلف ہندو متون میں درج ہے کہ دیو بھگوان اندر نے اس کو بہکایا اور اس کے شوہر نے اس کو خیانت کی وجہ سے ملعون قرار دے دیا تھا۔ بعد میں رام (وشنو کے ایک اوتار) نے اس کو اس لعنت سے آزاد کیا۔ ہندو روایتوں کے مطابق اہلیا کو برہما نے بنایا تھا۔ وہ اس وقت دنیا کی سب سے خوبصورت عورت تھی، اس کی شادی اس سے عمر میں کئی سالے بڑے گوتم مہارشی سے ہوئی تھی۔ ابتدائی دور کی کتابوں میں درج ہے کہ جب اندر نے اس کے شوہر کے روپ میں آکر اس کو بہکایا تو وہ اندر کو پہچان گئی مگر اس کی چالاکی اور پیش کش کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ بعد کی کتابوں میں اہلیا کو یہ کہہ کر بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ اندر کے جال کو سمجھ نہیں پائی اور اس کے بہکاوے میں آگئی۔ ان تمام کتابوں میں درج ہے کہ اہلیا اور اندر کو گوتم نے (شراپ) ملعون قرار دے دیا تھا۔ لیکن شراپ کی نوعیت مختلف مصادر میں الگ الگ ملتی ہے۔ لیکن تمام نصوص میں یہ متفقہ طور پر ملتا ہے کہ رام نے اہلیا کی مہمان نوازی سے خوش ہو کر اس کو شراپ سے آزاد کیا اور نجات دی۔ شروع کے نصوص میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس نے اپنے اس گناہ کے کفارہ کے لیے بہت مشقتیں برداشت کیں اور اس دوران میں وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی حالانکہ اس نے رام کی خدمت کر کے اس کو منا لیا حتی کہ رام نے اس کو نجات دی۔ بعد کے متون میں یہ بھی لکھا گیا کہ اہلیا کو شراپ دے کر پتھر کا بنا دیا گیا تھا اور وہ انسانیت سے نکل گئی تھی لیکن پھر رام نے اسے آزاد کرایا اور اپنے پیروں سے مس کر کے اسے پتھر سے انسان بنایا۔
اہلیا | |
---|---|
اہلیا از راجا روی ورما (1848–1906) | |
دیوناگری | अहल्या |
سنسکرت نقل حرفی | Ahalyā |
ذاتی معلومات |
اہلیا کو اِندر کے ذریعے بہکانے کا واقعہ اور اس کا انجام تمام بنیادی کتابوں میں درج ہے۔[1] اس واقعہ کا سب سے پہلا ماخذ براہمن گرنتھ (نویں تا چھٹی صدی قبل مسیح) ہے جس میں اہلیا اور اندر کے ناجائز رشتوں کی جھلک ملتی ہے۔ پانچویں سے چوتھی صدی قبل مسیح کی کتاب اور مشہور زمانہ اور ہندو مت کی سب سے مفصل واقعات کا مصدر راماین، جس کا مرکزی کردار خود رام ہے، میں سب سے پہلے اہلیا کے اندر کے ساتھ ناجائز غیر زوجی تعلقات کا مفصل تذکرہ موجود ہے۔ عہد وسطی کے زیادہ تر مؤرخین اور کہانی نگاروں نے رام کے ذریعے اہلیا کو نجات ملنے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اس سے وہ خدا کے رحم و کرم کو دکھاتے ہیں۔ اہلیا کی کہانی متعدد کتابوں میں دوہرائی گئی اور عہد وسطی اور عہد جدید کی شاعری، افسانہ، ناچ گانا اور ڈراما کا موضوع بھی رہی۔ گوکہ پرانی کہانیوں میں رام کو بطور مرکزی کردار پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن کچھ معاصرین نے اہلیا کو بھی مرکزی کردار میں پیش کیا ہے اور وہ کہانی کو اہلیا کے نقطہ نظر سے بیان کرتے ہیں۔ کچھ روایات میں ان کے بچوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔
روایتی ہندو مت میں اہلیا کو ان پانچ پاکباز عورتوں (پانچ کنیائیں) میں شمار کیا جاتا ہے جن کا ذکر کرنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جبکہ کچھ اس کی شوہر کے تئیں وفاداری اور شراپ کو قبول کرنے اور نجات کے لیے کفارہ کی صعوبتیں برداشت کرنے پر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ بعض اس کی بدکاری پر طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
نام
ترمیملفظ اہلیا کو دو حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے: ایک سابقہ اور دوسرا ہالیہ [2] سنسکرت میں اس کے معنی ہل، ہل چلانا اور غلطی کے آتے ہیں۔[3][4] راماین کے اتر کنڈا کتاب میں برہما اندر کو اہلیا کی تخلیق کے طریقہ کو بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے تمام مخلوق کی سب سے خاص خوبصورتی کو جمع کر کے اہلیا کو بنایا ہے اور اس کے جسمانی اعضاء کی تفصیل بیان کرتا ہے، اسی دوران میں سنسکرت لفظ اہلیا کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہے “ بدصورتی سے بالکل پاک“ یا “ خوبصورتی کا سب سے اعلیٰ نمونہ“۔[5] چونکہ کچھ سنسکرت کے لغات میں اہلیا کے معنی ہیں “ بغیر جوتی ہوئی“، [2][6] اس سے مابعد کے مصنفین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس معنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہلیا جنسی ملاپ سے بری تھی اور اسی سے اس مقدس ماں کی طہارت کی دلیل قائم کرتے ہیں۔ بہرحال اس معنی سے اس رجحان کو تقویت ملتی ہے جس کی رو سے اہلیا اندر کی کی پہنچ سے کسی طرح سے دور تھی۔[7][8][9] نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور (1861–1941) اہلیا کے معنی :بغیر جوتی ہوئی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہلیا پتھر کی مانند تھی، کنواری اوربانجھ، جس کا بانجھ پن بعد میں رام نے دور کیا۔[10] دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر بھارتی جھویری ٹیگور کے اہلیا کے معنی بغیر جوتی ہوئی زمین کی تشریح سے اتفاق کرتی ہیں، ان کی اس تشریح کی بنیاد گجرات کے قبیلہ بھیل کی راماین ہے جو ایک غیر تاریخی شفوی روایت ہے۔[11]
تخلیق اور شادی
ترمیماہلیا کو عموما ایونیجاسمبھو کہا جاتا ہے، یعنی وہ جو بحیثیت عورت پیدا نہیں ہوئی تھی۔[12] راماین کے بالا کنڈ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ برہما نے اسے بہت محنت اور خالص تخلیقی طاقت سے بنایا ہے۔[13] برہما پران (1300-401 ق م ) اور وشنو دھرموتر پران ( 500-410 ق م) میں مذکور ہے کہ ایلیا کو برہما نے بنایا ہے۔ [14] اڑیسی ناچ تہذیب کے مطابق برہما نے اہلیا کو پانی سے بنایا اور اس کو سب سے خوبصورت بنایا تا کہ اپسرا اروشی کے حسن کا جواب ہو۔ [15] قبیلہ بھیل کی رامائن کا آغاز ہی اہلیا، اندر اور گوتم کے تذکرہ سے ہوتا ہے۔ کہانی میں مذکور ہے کہ اہلیا کو یگیہ کی راکھ سے پیدا کیا گیا اور گوتم کو ہبہ کر دیا گیا۔ [11] اس کے بالعکس بھاگوت پران ( 1000-501 ق م ) اور ہری ونش ( 300-1 ق م ) میں اہلیا کو چندراونشی کے شہزادی بتایا گیا ہے اور وہ بادشاہ مودگالا کی بیٹی اور بادشاہ دیوداس کی ہمشیرہ تھی۔[16][17]
راماین کی اتر کنڈا کو زیادہ تر علما اس عظیم داستان میں ایک اضافہ مانتے ہیں، اس میں مذکور ہے کہ برہما نے اہلیا کو سب سے خوبصورت عورت کے طور پر بنایا اور پھر اس کو گوتم کی تحویل میں دے دیا حتی کہ وہ جوانی کی عمر کو پہنچ گئی۔ ماہواری آنے کے بعد بابا نے اہلیا کو برہما کو سپرد کر دیا ، برہما کو گوتم کی نفسانی خواہشات پو قابو بہت پسند آیا اور اہلیا کو ہمیشہ کے لیے گوتم کے حوالے کر دیا۔ اندر جو خود یہ مانتا تھا کہ دنیا کی سب سے خوبصورت عورتیں صرف اسی کی ملکیت ہیں، اہلیا کی اس شادی سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ [18][19]
برہما پران بھی اہلیا کی تخلیق اور ابتدائی تحویل کی ایسی ہی کہانی پیش کرتا ہے اور مزید بتاتا ہے کہ اس کی شادی ایک آزاد مسابقہ میں طے ہوئی تھی۔ برہما نے پہلے اعلان کیا کہ جو سب سے پہلے تین دنیاؤں ( جنت، زمین اور زیر زمین) کی سیر کر کے آئے گا اہلیا اسی کی ہو جائے گی۔ اندر نے اس چیلنج کو عبور کرنے کے لیے اپنی جادوئی طاقت کا استعمال کیا اور برہما کے پاس پہنچ کر اہلیا کا ہاتھ مانگا۔ لیکن نراد بابا نے برہما کو بتایا کہ اندر سے پہلے گوتم نے ان تینوں دنیاؤں کا چکر لگایا۔ نراد نے مزید وضاحت کی کہ گوتم نے مراد پوری کرنے والی گائے کا اس وقت طواف کیا جب وہ بچہ جن رہی تھی اور اس طرح اس نے اپنی یومیہ پوجا مکمل کی اور وید کے مطابق گائے کو تین دنیاؤں کے برابر تسلیم کیا۔ برہما نے اظہار اتفاق کیا اور اہلیا کی شادی گوتم سے ہو گئی۔ اور اندر بے مراد رہا۔ [20] ایک ایسی ہی مماثل مگر مختصر داستان پدما پران (1200-701 ق م) میں مذکور ہے۔ [21]
تمام نصوص میں بالاتفاق مذکور ہے کہ شادی کے بعد اہلیا گوتم کے ساتھ اس کے آشرم میں رہی اور یہی جگہ اس کے شراپ کی گواہ بنی۔ راماین کے مطابق گوتم کا آشرم متھلا، بھارت کے قریب ایک جنگل میں تھا جہاں دونوں نے کئی برسوں تک خوب عیش کی زندگی گزاری۔[1][22] دوسرے متون میں گوتم کا آشرم کسی ندی کے قریب بتایا گیا ہے۔ برہما پران کہتا ہے کہ اس کا آشرم دریائے گوداوری کے قریب تھا اور اسکند پران (1200-701 ق م) کے مطابق یہ آشرم دریائے نرمدا کے قریب تھا۔ پدما پران اور برہما ویوارتا پران (1100-801 ق م) کے مطابق آشرم مقدس شہر پشکر کے قریب تھا۔[1]
اندر کے ساتھ تعلقات
ترمیم9 تا 6 صدی ق م کی تمام برہما پرانیں اہلیا اندرا کے تعلقات کے واقعات کے اول ترین مصادر ہیں۔ یہ واقعہ سبریمانیہ فارمولہ میں بطور منتر مذکور ہے جسے وید کے پجاری یگیہ کے آغاز میں مرکزی مشارکین: اندرا، خدا اور برہمن پجاری کو بلانے کے لیے کرتے ہیں۔[23][24] سام وید اور سام وید کی سدومشا برہمن، ستپتھا برہمن، یجر وید کی تیتیریا برہمن [24] میںاندرا کا وصف یوں بیان کیا گیا ہے: “ اہلیا کا عاشق۔۔۔ او کوشیکا ( برہمن)، جو خود کو گوتم بتاتا پھرتا ہے“۔[25] سام وید کی روایت میں اہلیا کو میتری بتایا گیا ہے جسے وید کے عظیم محقق ساین (وفات: 1387ء) نے بھگوان مترا کی بیٹی قرار دیا ہے۔[24]
سبرامانیا کی روایات کے مطابق اہلیا کا کوئی شوہر نہیں ہے۔ سدومشا برہمن میں اہلیا کے کسی شوہر کا تذکر واضح طور پر نہیں ملتا ہے۔ البتہ کوشیکا، ( متعدد علما و مؤرخین نے اس کو ہی اہلیا کا شوہر مانا ہے) [26][24][27] تمام کہانیوں میں موجود رہتا ہے اور اہلیا سے اس کے تعلق سے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اندرا نے اہلیا سے ملاقات کرنے کے لیے ایک برہمن کا جسم دھار کیا تھا۔ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن کے اسکالر رینیٹ شونحین- تھیم کا ماننا ہے کہ سدومشا برہمن میں مذکور کوشیکا وہی شخص ہے جو 5 ویں تا چوتھی صدی قبل مسیح کی مہا بھارت میں اندرا کو شراپ دیتا ہے۔[24][27]
اندر کا بہکانا
ترمیمرامائن کی بالا کانڈا اہلیا کی گمراہی کے واقعات کی سب سے پہلے نصوص میں سے ہے اور اس میں یہ واقعہ مفصل مذکور ہے۔[28][29] رامائن ذکر کرتا ہے کہ اندرا اہلیا کی حسن کی تاب نہ لا اس کا اور اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس کو اہلیا کے شوہر کی غیر موجودگی کا پتہ لگا اور اس نے گوتم کا روپ دھار کر آشرم میں اہلیا کے پاس آیا اور اس نے جنسی ملاپ کی خواہش ظاہر کی۔ اور اس کی پتلی کمر کی تعریف کی۔وہ اس کے جھانسے میں آگئی لیکن اس نے اپنا تجسس بھی ظاہر کر دیا۔ ایک دوسرے متن کے مطابق اندر کا اہلیا کے حسن کی تعریف کام آگیا اور اس نے اندرا کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔[30] جب اندر اپنی نفسانی خواہش کا اظہار کررہا تھا تو اہلیا نے درخواست کی اس کا عاشق اور سب سے اچھا بھگوان جائے اور ان سب کو گوتم کے غضب سے آزاد کرائے۔[31][22] 11ویں صدی کی کتاب کتھاسارت ساگر ان چند متون میں سے ہے جو بالا کنڈ کی اہلیا کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس نے متجسس ہو کر اندر کی خواہش کو قبول کیا تھا۔ البتہ اس متن میں یہ واضح ہے کہ اندر بھیس بدل کر وہاں آیا تھا۔[32]
اتر کنڈ نے پورے معاملہ کو اہلیہ کا اندر کے ذریعہ زنا بالجبر سے تعبیر کیا ہے۔[20][33] مہابھارت کے ایک ضمنی اشارہ میں بادشاہ نہوشا اندر کے گرو برہسپتی کو یاد دلاتا ہے کہ کیسے اندر نے ایک سادھو اور بابا کی غیر معمولی رشی بیوی اہلیہ کو بہکایا۔ ساحین تھیم رقمطراز ہیں کہ لفظ غیر معمولی اور بہکانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ زنا میں اہلیہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔[33] پران کے متعارف کردہ نظریات و مضامین بعد کی کتابوں میں نظر آتے ہیں یہاں تک کہ گوتم کی غیر موجودگی میں اندر کا اس کی شکل میں آنا اور اہلیا کو بہکانے کا واقعہ بھی وہیں سے ماخوذ ہے۔[1] پدم پران میں مذکور ہے کہ جب گوتم اپنے رسمی اسنان کے لیے باہر گیا تب اندر اس کے بھیس میں آیا اور اہلیا سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کا اظہار کیا۔ اہلیا اس وقت عبادت میں مصروف تھی اور یاد الہی میں غرق تھی، اس نے فوراً اس کی خواہش کو مسترد کر دیا۔ کیونکہ اس وقت جماع کرنا خدا کو نظر انداز کرنے جیسا تھا اور یہ غیر مناسب تھا۔ اندر نے اس کو یاد دیالا کہ اس کی سب سے بڑی عبادت شوہر کی خدمت کرنا ہے۔ آخرکار اہلیا مان گئی لیکن اتنی ہی دیر میں گوتم کو اپنی مافوق الفطرت طاقتوں کے ذریعے اندر کی حرکتوں کی بھنک لگ گئی اور وہ آفا فانا میں آشرم واپس آیا۔[34][35] یہ واقعہ اسی طرح برہم پران میں بھی مذکور ہے۔[21][36] اندر نے گوتم کو وہاں نے دور کرنے کے لیے اور وضو کے لیے بھیجنے کے لیے مرغے کا سہارا لیا جس کی بانگ کے بعد گوتم اسنان کے لیے نکل گیا۔ 18ویں صدی کے تیلگو زبان کے زبان کے شاعر وینکٹا کرشنپپا ناے کا نے ایسا ہی بیان کیا ہے۔[37] دوسرے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی کو شریک جرم کر لیا تھا جس نے گوتم کو دور رکھنے میں اس کی مدد کی۔ بعد حوالوں میں چاند کے خدا چندر کا نام آتا ہے۔[13] برہم وورتھ پران میں یہ واقعہ یوں مذکور ہے کہ اہلیا سورندی میں غسل کرنے گئی اور جب اندر نے اس کو دیکھا تو وہیں بھیس بدل کر آ پہنچا۔ اس نے اسی حالت میں اہلیا سے جماع کیا یہاں تک کہ دونوں کیفیت مستی میں ندی میں سما گئے۔ البتہ گوتم نے ان کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ ایک دوسرے ذریعے سے بھی یہی کہانی ملتی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اندر نے ہی اہلیا کا پیچھا کیا تھا اور اس کو بہکایا تھا۔ منداکنی ندی کے پاس اندر اہلیا کے پاس گیا اور اپنی جنسی خواہش کا اظہا کیا جس کو اہلیا نے یک لخت مسترد کر دیا۔ عین اسی وقت اندر نے گوتم کا روپ اختیار کیا اور اپنی خواہش کی تسکین کی۔[38][39]
وینایکا کرشناپپا نیایکا کے ڈرامے میں اہلیا کو ایک رومانی حسینہ اور زناکار عورت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جب برہما ے اہلیا کو دینا کی سب سے خوبصورت عورت کے طور پر بنایا وہ اندر کے محبت میں گرفتار ہو گئی لیکن برہما نے اس کو گوتم کی تحویل میں دے دیا۔ اہلیا کی شادی کے بعد اندر کو بھی اہلیا کو پانے کی خواہش جاگ گئی۔وہ گوتم کی غیر موجودگی میں اکثر اس کے پاس جایا کرتا تھا اور اس کو چھیڑتا تھا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب اندر نے کسی عورت کے ہاتھوں اہلیا کو پیغما بھجوایا، اس عورت کو کام ان شوہروں کا مذاق اڑانا ہوتا تھا جو یہ کہ کر جماع نہیں کرتے تھے کہ یہ مسسی کا صحیح دن نہیں ہے۔ اہلیا نے صدائے احتجاج بلند کی تاکہ یہ ظاہر کرسکے کہ وہ اندر کو حالت جماع میں گوتم ہی سمجھ رہی ہے اور طرح اس نے تمام جنسی لذتوں کا انکار بھی کر دیا۔ اسی رات، جب اہلیا نے اپنے شوہر سے جماع سے لطف اندوز ہونے کی خواہش ظاہر کی تو گوتم نے یہ کہ کر منع کر دیا کہ وہ ابھی ھالت طہارت میں نہیں ہے۔ اہلیا یہ سن کر جھلا گئی اور سوچا کہ کاش وہاں ابھی اندر ہوتا اور اس کو جنسی سکون دیتا۔ اندر کو اس کی خواہش کا پتہ چل گیا اور وہ گوتم کا بھیس بدل کر آگیا، لیکن اندر کی لطف اندوز آواز سے سارا راز کھل گیا مگر اہلیا نے بہکاوے اور دھوکا کو نظر انداز کرتے ہوئے بخوشی اس کے ساتھ جنسی لطف اندوزی حاصل کی۔ ۔[40]
شراپ اور نجات
ترمیمزیادہ تر حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب گوتم کو اس قبیح حرکت کی اطلاع ملی تو اس نے اہلیا کو شراپ دے دی لیکن شراپ کے متن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ تقریباً تمام حوالوں کے مطابق رام نے اہلیا کو اس شراپ سے نجات دی اور آزادی بخشی۔
اہلیا اور اندر کی سزا
ترمیمبال کندر میں مذکور ہے کہ گاؤماتا نے اندر کی نشان دہی کی جو اب تک شکل بدل کر گھوم رہاہے اور اس کو شراپ دی کہ اس کا خصیہ ضائع ہوجائے۔ اس کے بعد گوتم نے اہلیا کو شراپ دی کہ وہ ہزاروں سال تک تمام مخلوق کی نظر سے اوجھل رہے گی اور صرف ہوا پر گزارہ کرے گی، خاک پر سوئے گی اور اپنے گناہ کی سزا اسے جسمانی تکلیف کی صورت میں ملتی رہے گی۔ حالانکہ گوتم نے اس کو یہ یقین دلایا کہ رام ایک دن اس کے آشرم کی زیارت کریں گے اور جب وہ ان کی سیوا کرے گی تب اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ان تمام واقعات کے بعد گوتم نے اپنا آشرم تیاگ دیا اور اختیار کرلی اور سلسلہ کوہ ہمالیہ کی راہ لی۔ ایودھیا کے شہزادے رام، ان کے بھائی لکشمن اور ان کے گرو بابا وشوامتر متھلا کی جانب جانکا کے سفر پر تھے کہ ان کا گذر گوتم کے آشرم سے ہوا۔ جیسے ہی وہ گوتم کے آشرم کے قریب پہنچے تو وشومتر نے اہلیا کی سزا کا تذکرہ کیا اور رام کو حکم دیا کہ اہلیا کو نجات دے۔ حالانکہ اہلیا ملعون تھی مگر وشومتر نے اہلیا کو ایک مہذب خاتون اور دیوی بنا کر پیش کیا [41] وہ اکثر اس کو مہا بھاگ (ایک سنسکرت اصطلاح ہے جس کا معنی “بہت مشہور اور ذی وقار“ ہے) کہا کرتا تھا۔[42][43][44][45] لیکن لفظ مہابھاگ کی یہ تعریف رام بھدر آچاریہ کی اس تعریف سے مختلف ہے جس کے مطابق لفظ مہابھاگ کا معنی اہلیا کے سیاق میں ‘‘انتہائی بدقسمت‘‘ ہونا چاہیے۔وشومتر کے بعد شہزادے اہلیا کی زیارت کے لیے آشرم میں داخل ہوئے جو اس وقت تک کائنات کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔اہلیا زہد و اخلاص کے نور میں غرق ایک نورانی پیکر کا مرقع لگ رہی تھی لیکن وہ دنیا کی نظروں سے ایسے ہی اوجھل تھی جیسے سورج سیاہ بادلوں کی اوٹ میں پوشیدہ رہتا ہے یا چودہیں کے چاند کی چمک دھند میں کہیں کھو گئی ہو یا تیز روشنی دھویں کی نذر ہو گئی ہو۔ اپنے گرو کی تعلیمات کی روشنی میں رام کے تصور میں اہلیا ایک طاہرہ اور پاکباز عورت تھی۔ اپنے بھائی لکشمن کی معیت میں رام نے اہلیا کے پیر چھوکر اس کو عزت دی، رام نے اس فعل نے اہلیا کو سماج میں اس کا وقار لوٹا دیا۔ اہلیا کو گوتم کے کہے ہوئے الفاظ یاد آگئے کہ رام ہی اس کو نجات دلائیں گے لہذا اس نے نے دونوں کو سلام کیا اور نے دل کھول کر ان کا استقبال کیا اور جنگل کے تازہ پھلوں سے ان کی ضیافت کی اور ان کے پیر دھوئے، یہ اس زمانے میں کسی کو عزت دینے کا ایک طریقہ تھا۔ بھگوان اور دیگر آسمانی مخلوق نے رام اور اہلیا پر پھول برسائے کیونکہ اب اہلیا پاک صاف اور معصوم عن الخطا ہو چکی تھی اور اس کے گناہ دھل چکے تھے۔ بالآخر گوتم آشرم میں واپس آیا اور اہلیا کو قبول کر لیا۔[46][47]
مہابھارت میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اندر نے جیسے ہی اہلیا کو ورغلایا سزا کے طور پر اس کی داڑھی سونے کی ہو گئی، ایک شراپ اس کو کوشیکا نے دیا ( کوشیکا کو اکثر گوتم مانا جاتا ہے) جس کی وجہ سے اس کے خصیتین ضائع ہو گئے تھے۔[48][49] اتر کنڈ میں مذکور ہے کہ اندر کو اس کے تخت ضائع ہونے کی بد دعا دی گئی تھی اور یہ کہ دنیا میں ہونے والے ہر زنا کا آدھا گناہ اسی کو ہوگا۔ جبکہ معصوم اہلیا سے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہونے کا خطاب چھین لیا گیا تھا کیونکہ وہ اندر کے ورغلانے میں آگئی تھی۔ اہلیا نے عبادت و ریاضت سے اپنی عصمت واپس حاصل کرلی (حالانکہ تمام متون میں اس کا حوالہ نہیں ملتا ہے)، لیکن گوتم نے اس کو اسی وقت قبول کیا جب اس نے رام کی خدمت کی اور رام نے اس کو نجات دلائی۔[50][51][33] کچھ پرانوں میں بھی اہلیا کا بچاو کیا گیا ہے۔ برہم پران میں مذکور ہے کہ اہلیا کو ایک سوکھی ندی میں تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن اس نے اپنی عصمت کی دہائی دی اور ان نوکروں کو گواہوں کے طور پر پیش کیا جو خود بھی اندر کے بہکاوے میں آگئے تھے۔ گوتم نے اپنی بھروسا مند زوجہ کے شراپ کی شدت کم کر دی اور جیسے ہی وہ گوداوری (گوتمی) سے ملی اس کو نجات مل گئی۔ اندر کو یہ سزا ملی کہ وہ اپنے جسم پر عورت کی شرمگاہ اٹھائے پھرتا تھالیکن جیسے ہی اس نے گوتمی میں اسنان کیا وہ شرمگاہ انکھوں میں بدل گئی۔ صرف برہم پران ہی وہ واحد مصدر ہے جس میں رام کو کہانی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ اور رام کی جگہ گوتمی ندی کی عظمت کو بتایا گیا ہے۔[21][36] پدم پران کے مطابق جیسے ہی اند نے بلی کی شکل میں بھاگنے کی کوشش کی ، گوتم نے اس کو عضو مخصوص کے ضائع ہونے کی بددعا دی اور یہ کہ اس کے جسم پر ہزار نسوانی شرمگاہ لٹکتی رہیں۔ اہلیا نے خود کو بے قصور بتایا لیکن گوتم کی نظر میں وہ طاہرہ نہیں رہی تھی اس لیے اس نے اس کو شراپ دی کہ وہ محض ہڈیوں اور کھال کا ڈھانچہ بن جائے۔ گوتم نے فرمان جاری کیا کہ اہلیا اس وقت اپنی خوبصورتی واپس پا لے گی جب رام اس کو تکلیف میں دیکھ کر ہنسے گا ، اس وقت اہلیا ایک سوکھی ہوئی ندی کی شکل میں ہوگی، بغیر جسم کے ہو گی (راماین کا شراپ) او ایک پتھریلے راستہ پر پڑی ہوگی۔ جب رام کا ظہور ہوتا ہے تو وہ اہلیا کی معصومیت کی گواہی دیتے ہیں اور اندر کو گناہگار ٹھہراتے ہیں اور عین اسی موقع پر اہلیا اپنی خوبصورت جسم میں لوٹ آتی ہے اور پری پیکر بن جاتی ہے اور گوتم کے ساتھ پھر سے گھر بسا لیتی ہے۔[34][35]
پتھریلے نقش و نگار
ترمیماہلیا سے متعلق مشہور کہانیوں اور بعد کے دور کے تھیٹر اور الیکٹرانک میڈیا میں دکھائے جانے والے سلسلوں میں اہلییا کو گوتم کے شراپ کا شکار ہو کر پتھر میں تبدیل ہوتا دکھایا گیا ہے اور رام کے پیر سے چھوجانے کے بعد ہی وہ انسان بن پاتی ہے۔
براہم ویورت پران کے مطابق گوتم اندر کو شراپ دیتا ہے کہ وہ ایک ہزار نسوانی شرمگاہ کو اپنے جسم پر اٹھائے پھریگا لیکن جیسے وہ بھگوان سوریا کی پوجا کریگا تو وہ شرمگاہیں آنکھ میں تبدیل ہو جائیں گی۔ اہلیا گرچہ بے گناہ تھی مگر 60 ہزار برس تک پتھر بنی رہی اور رام کے پیر سے مس ہونے کے بعد ہی انسان بن سکی۔اہلیا بغیر کسی آنا کانی کے فیصلہ قبول کر لیا۔ اسی پران کے دوسرے نسخہ میں میں مذکور ہے کہ گوتم نے بلی کی شکل میں اندر کی نیت کو بھانپ لیا اور اسے خصی ہونے کا شراپ دیا۔ اہلیا کی اپنی بے گناہی کی گہار کو گوتم نے قبول کیا اور کہا کہ اہلیا کو ذہن بالکل پاک صاف ہے اور کہا کہ اہلیا نے “صداقت اور اخلاص کا دامن نہیں چھوڑا‘‘۔ لیکن کسی دوسرے مود کے بیج نے اس کے جسم کو نجس کر دیا ہے۔ گوتم نے اہلیا کو حکم دیا کہ جنگل میں چلی جائے اور پتھر میں منتقل ہوجائے یہاں تک کہ رام اپنے پیر سے مس کر کے اسے نجات دلائے۔[38][39] ویکنٹ کرشنپامیں مذکور ہے کہ جیسے ہی اندر مایوس ہو کر باہر نکلتا ہے گوتم وہاں آ پہنچتا ہے اور اہلیا کو پتھر کی بن جانے کی شراپ دیتا ہے جو بعد میں رام کے پیر سے س ہو کر نجات حاصل کریگی۔ اسے نجات ملنے کے بعد گوتم اور اہلیا دونوں پھر سے مل جاتے ہیں اور جنسی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ وہ جنسیات اور عمل شہوت کے نئے طریقوں کو بھی کھوجتے ہیں۔[52] اسکند پران میں مذکور ہے کہ جیسے ہی گوتم وہاں آتا ہے، اہلیا اسے باکل سچائی کے ساتھ سارا ماجرا کہ سناتی ہے، لیکن گوتم اسے پتھر کا بنا دیتا ہے کیونکہ اہلیا خود یہ مانتی ہے کہ اس نے گھومنے والے پتھر کی مانند کام کیا ہے جو گوتم اور اندر کے اشاروں اور حرکات و سکنات کی تفریق تک نہیں کر سکی۔ رام کے پیر سے مس ہو کر اس کے نجات پانے کی پیشن گوئی اسی وقت کر دی گئی تھی۔ خود زدہ اندر اسی وقت بلی بن کر بھاگ جاتا ہے اور اسے خصی ہونے کی بددعا ملتی ہے۔[53] اہلیا کی سچائی کتھا سرت ساگر میں بیان ہوئی ہے۔ جب گوتم جائے وقوع پر آتا ہے اندر بلی بن کر بھاگنا چاہتا ہے لیکن اسے ایک ہزار شرمگاہ دھونے کی بددعا ملتی ہے۔ جب اہلیا سے اس کے مہمان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ وہ مججارا، (بلی یا میرا) تھی۔ گوتم ایک قہقہہ لگاتا ہے اور اسے پتھر کی بن جانے کی بد دعا دیتا ہے جو بعد مین شہزادہ رام کے پیر سے مس ہو کر نجات حاصل کر لیتی ہے کیونکہ کم از کم وہ سچ تو بولتی ہے۔[17][32] اہلیا کہانی کا ایک اور مصدر کالی داس کی کتاب رگھوونش ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ گوتم کی بیوی (نام مذکور نہیں ہے) کچھ مختصر وقت کے لیے اندر کی بیوی بن گئی تھی، لیکن اس میں شراپ کا تذکرہ نہیں ہے۔ حالانکہ اس کی خوبصورتی کا لوٹنے اور نجات پانے کا تذکرہ ملتا ہے اور رام کا واقعہ بھی ہو بہو مذکور ہے۔[54] کالی داس کی کتابوں پر تحقیق کرنے والے گوتم پٹیل کا کہنا ہے کہ کالی داس وہ پہلا شخص ہے جس نے کسی بھی چیز کے پتھر میں تبدیل ہوجانے کو سب سے پہلے بیان کیا ہے-[55] رام ونترم میں مذکور ہے کہ رام نے اپنے پیروں سے اہلیا کو نہیں چھوا تھا بلکہ اس کے پیروں کی دھول ہی اہلیا کو زندگی کی طرف لانے کے لیے کافی تھی۔ رام ونترم بھگتی تحریک کے متعلق شاعری کی کتاب ہے جو رام کو نجات دہندہ کے طور پر پیشکرتی ہے۔[56][57]
اہلیا اور رام کے تعلق سے نئے او پرانے مصادر میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ بال کنڈ میں رام کو خدا کا روپ مانا گیا ہے اور ان کے بھگوان ہونے کو تسلیم کیا گیا ہے جبکہ بعد کے مصادر میں اہلیا کو ایک گناہگار عورت مانا گیا ہے جسے بھگوان رام نجات دیتے ہیں۔[58] بھگتی تحریک کی نظموں میں خدا کو بطور نجات دہندہ بتایا گیاہے اور اس صفت کو خوب بیان کیا گیا ہے۔اس طرح کی نظموں کا مرکزی خیال اہلیا کا گناہ کرنا، پھر اس کو شراپ ملنا اور پھر بھگوان رام کا اس کو نجات دینا ہے۔[59]
14ویں صدی کی برہما پران کی کے پانچویں باب کے زیادہ تر اہلیا کا ہی قصہ مذکور ہے۔ دیگر تمام مصادر کی طرح یہاں بھی اہلیا پتھر کی بن جاتی ہے اور اس کو رام کی خدمت کرنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ رام کو سب سے بڑا بھگوان بتایا گیا ہے۔وشومتر کی صلاح پر رام اپنے پیروں سے پتھر کو مس کرتا ہے اور اہلیا ایک خوبصورت لڑکی بن کر ظاہر ہوتی ہے اور رام کو سلام کرتی ہے۔وہ رام کو وشنوکا ایک اوتار بتاتی ہے جو تمام کائنات کا منبع ہے اور کئی خدا اور مقدس ہستیاں جس کے آگے سر جھکاتی ہیں۔رام کی عبادت کرنے کے بعد وہ گوتم کے پاس آتی ہے، کہانی کے اخیر میں بتایا جاتا ہے کہ اہلیا کی مناجات رام کی قربت حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔[60] اودھی زبان کی رام چرت مانس (16ویں صدی) میں اندر کا اہلیا کے پاس آنا مذکور نہیں ہے۔ اس میں وشومتر رام کو بتاتا ہے کہ شراپ زدہ اہلیا پتھر کی بنی ہوئی ہے اور رام کے قدموں کی دھول کی منتظر ہے۔[61] اہلیا رام کو بتاتی ہے کہ گوتم نے شراپ دے کر اچھا ہی کیا ہے اور وہ اسے اپنے حق میں اچھا سمجھتی ہے۔ کیونکہ اسی وجہ سے وہ رام کو دیکھ پائی جو اسے نجات دے کر دنیاوی زندگی میں واپس لاتا ہے۔[61] تلسی داس اسی کہانی کو رام کے رحم وکرم اور اس کی عظمت کوبیان کرتے ہوئے بار برا دوہراتا ہے۔[62] اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے رام بھدرچاریہ کہتے ہیں کہ رام تین چیزوں کو تباہ کیاہے؛ اپنی آنکھوں سے اہلیا کے گناہ، اپنے پیروں کی دھول سے اہلیا کا شراپ اور اپنے پیروں کے لمس سے اس کا جمود۔[63]
دیگر مصادر
ترمیمدیگر نادر مصادر میں شراپ کا تذکرہ نہیں ہے۔ مہابھارت میں جہاں بہلانے اور ورغلانے کا تذکرہ مفقود ہے وہیں گوتم غصہ میں آکر اپنے بیٹے چراکاری کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی ناپاک ماں کا سر قلم کر دے اور آشرم چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ البتہ بیٹا حکم ماننے سے انکار کردیتا ہے اور یہ ثابت کردیتا ہے کہ اہلیا بے قصور ہے۔ گوتم واپس آتا ہے اور اسے اپنے جلد بازی سے لیے گئے فیصلے پر ندامت ہوتی ہے۔[33][64] بھیل راماین کے مطابق گوتم مقید اندر پر حملہ کرتا ہے، اسے آزادی اس وعدہ پر ملتی ہے کہ وہ فصلوں پر بارش بن کر برستا رہے گا۔ اسے یہ بھی دھیان میں رکھنا ہے کہ ایک چوتھائی فصل گوتم کے نام ہونی چاہیے۔ یہیں اہلیا کو ایک سوکھی اور جلی ہوئی زمین کی مانند بتایا ہے جسے اندر کی بارش کا شدت سے انتظار رہتا ہے جسے سمندری طوفان ( گوتم) نے سب کچھ سکھایا ہوا ہوتا ہے۔[13]
جدید روایات
ترمیمجدید قلمکاروں نے اہلیا کو ایک نیا روپ دے دیا ہے اور متعدد ہندوستانی زبانوں میں شاعری اور افسانوں میں اہلیا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[65][66] حالانکہ قدیم روایات میں اہلیا کا کردار زیادہ بڑا نہیں ہے۔ اسے “آ پاس کے لوگوں سے نفرت اور بد بختی کا نمونہ“ بنا دیا جو صنفی معیار کو تہس نہس کردیتی ہے۔ جدیدقلمکاروں نے اہلیا کو ایک مافوق الفطرت دیوی قرار دیا ہے نہ کہ رام کے رحم و رکرم پر نجات وانے والی ایک دیوی۔[65][66] خلاصہ یہ کہ جدید مذہبی راماین میں رام کو ایک ہیرو بتایا گیا ہے اور اہلیا کا پتھر سے دنیاوی زندگی میں لوٹ آنا اس کی زندگی کا ایک ما فوق الفطرت کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ اہلیا کی شاعری جدید شاعری میں بھی جگہ ملی ہے۔ مشہور زمانہ بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے بنگالی زبان انگریزی زبان میں،[67] پی ٹی نرسمہا چار نے 1940ء میں کنڑا زبان میں ایک منظوم ڈراما لکھا جس کا نام اہلیا لکھا، جس میں وہ دھرم ( ایمان) پر کام (خواہش) کو ترجیح دیتی ہے۔[18][65] یہ سب ڈرامے کئی بار ٹی وی پر دکھائے جا چکے ہیں۔[68][69] شاعری کے علاوہ ناچ میں بھی اہلیا کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے جیسے کیرلا کا موہنی آٹم ناچ۔[70][71] ایسے ہی اوڈیشا کی تہذیب میں بھی کہیں اہلیا کے قصے سننے کو ملتے ہیں۔[16] کنچن نامبیار کا ڈراما اہلیا موکشم کئی بار کھیلا گیا ہے۔[72] اور اندھرا پرديس کا ایک مشہور تیلگو ڈراما اہلیا کی کہانی پر مبنی ہے۔[73] 20ویں صدی کے اوائل میں پرانی طرز کی کہانیاں ہی دوہرائی گئیں جیسے 1938ء میں سبرامنیا نے اپنی تمل زبان کی نظم میں لکھا کہ اہلیا اندر کو جسمانی تعلقات سے بچنے اور خواہش کو کنٹرول کرنے کا درس دیتی ہے مگر اندر ہی اس کو زنا بالجبر کا شکار بنا لیتا ہے۔ گوتم اسے غم سے نجات دینے کے لیے پتھر میں تبدیل کردیتا ہے۔تمل کے ہی لکھاری یوگیار اہلیا کو معصوم گردانتے ہیں۔ ان کے مطابق اہلیا اندر کے جال میں پھنس گئی تھی اور اس کے ساتھ سو کر ناجائز تعلقات کا شکار ہوئی لیکن بعد میں اسے اپنے گناہ کا احساس ہوا اور اس نے سزا کو بخوشی قبول کر لیا۔[65] اڑیہ زبان میں لکھی گئی ناول مہاموہا (1997ء) میں اہلیا کو ایک آزاد خیار عورت بتایا گیا ہے جو خود کو اندر کے سامنے پیش کرتی ہے تاکہ وہ اس کی نفسانی آگ بجھائے اور اسے مکمل عورت ہونے کا احساس دلائے۔ جب گوتم کو اس کے جھوٹ کا پتہ چلتا ہے تو وہ گوتم کے ساتھ آزادی اور صداقت پر بحث کرتی ہے۔[74] کچھ لکھاریوں نے شراپ اور نجات کے بعد اہلیا کی زندگی کو کہانی کا ایسا ماحصل تصور کرنے کی کوشش کی ہے جو قدیم متون میں ایک مبہم ہی رہا۔[75] 1943ء میں پدھومی پیتا نے تمل زبان میں سپا وی مو کنم (شراپ سے نجات) لکھی، کے بی سری دیوی نے ملیالم زبان میں 1990ء میں کہانی لکھی جسے اردو میں “پتھر کی عورت“ سے ترجمہ کیا جا سکتا ہے، ان دونوں کتابوں میں رام کے دوہرے معیار (دوغلا پن) کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عورت کے نظریے سے دیکھیں تو رام نے عورت کے تئیں دوہرا معیار اپنایا ہے۔ ایک طرف وہ اس اہلیا کو اپنے پیروں سے مس کر کے شراپ سے نجات دلاتے ہیں جس کے اوپر زنا کا الزام تھا لیکن وہی رام اپنی بیوی سیتا کو اس کے مغوی راون کے ساتھ جنسی تعلق کے جھوٹے الزام پر سزا دیتے ہیں۔[76] پدھومی پیتا کی کہانی میں مذکور ہے کہ جب اہلیا کو پتہ چلتا ہے کہ سیتا جی کو خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے آگ سے گزرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو پھر سے پتحر کی بن جاتی ہے۔سری دیوی نے لکھا ہے کہ اہلیا او وقت پتھر کی بن جاتی ہے جب وہ سنتی ہے کہ سیتا جی کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے بعد بھی مملکت سے دور کر دیا جاتا ہے۔پدھومی پیتا نے یہاں تک لکھا ہے کہ اہلیا کو متعدد بار ذہنی صدمہ سے دو چار ہونا پڑتا ہے کیونکہ شراپ سے نجات ملنے اور بے گناہی ثابت ہونے کے بعد بھی گوتم کی تحویل میں اسے اندر کے بہکاوے کو جھیلنا پڑتا ہے اور یہ کہ یہ سب ہوچکنے کے بعد سماج اسے قبول نہیں کرتا ہے۔[65] گوتم کو بھی اپنے جابرانہ فیصلہ کی وجہ سے کڑوی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پدھومی پیتا کی ایک اور کہانی میں مذکور ہے کہ گوتم اہلیا اور اندر کو معاف کر دیتا ہے۔[65]
ایس سیوا سیکرم نے 1980ء میں تمل زبان میں ایک نظم اہالی کائی کے نام سے لکھی جس میں کہانی میں اہلیا کے پتھریے نقش و نگار کا تجزیہ کیا جاتا ہے؛ اہلیا کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جس میں اہلیا کی دلچسپی کسی پتھر کی مورتی سے زیادہ نہیں تھی اسی لیے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے وہ اندر کا رخ کرتی ہے جس کا انجام اہلیا کا مورتی بن جانا ہوا۔ شاعر سوال کرتا ہے کہ آیا اہلیا کے لیے پتھر کی ہی بنی رہنا اچھا تھا یا ایسی شادی میں بنے رہنا صحیح تھا جو کسی پتھر سے کم نہیں تھا۔ مارکسوادی نقاد کووائی گینانی اپنی نظم کھلی ہالی میں لکھتے ہیں کہ اہلیا جاگیردارانہ نظام اور سرمایہ داری نظام نمائندگی کرتی ہے۔[65][1]
جدید ادب میں سنت سنگھ سیکھوں کا پنجابی زبان میں ڈراما کلاکار (1945ء) اہلیا کے تعلق سے کافی اہمیت کا حامل ہے۔اس کا مرکزی مضمون پیار، جنسیت اور خواہش ہے۔ اس ڈراما میں اہلیا ایک آزاد خیال عورت ہے جو اندر سے اپنی ننگی تصویر بنواتی ہے، اندر گوتم کا ایک شاگرد ہے، اہلیا اپنے اس فیصلہ کا بچاو کرتی ہے۔جبکہ شوہر کو بہت ناگوار گزرتا ہے۔[65] این ایس مادھون کی ملیالم زبان کی کہانی بھی جدید انداز میں کہی گئی ہے جس میں اہلیا پر جنسیات کا الزام لگایا جاتا ہے، اس کو اس کا شوہر مارتا ہے، وہ کوما میں چلی جاتی ہے اور اس کیاعصابیات والی بیماری کا علاج رام کرتا ہے۔2015ء میں ایک مختصر فلم اہلیا بنی جس میں ایک پولس اندر اہلیا سے ملنے کے بعد پتھر کا بن جاتا ہے۔[2][3] تیلگو فلم میں بھی یہی کہانی دوہرائی گئی ہے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی کہانیاں ہیں جس میں اہلیا اور اندر دو پیار کرنے والے ہیں جن میں محبت، جنسیات اور دھوکا شامل ہے۔ اس میں سزا اور شراپ بھی ہے۔ موت کے بعد دونوں تناسخ میں ایک ہو جاتے ہیں۔[77][78]
اولادیں
ترمیمراماین میں اہلیا کے بیٹے کا تذکرہ ملتا ہے، اس کا نام شتا نند ہے۔وہ خاندانی پجاری اور میتھیلا کے جاناکا کا معلم ہے۔ اس کہانی میں شتا نند وشومتر سے اپنی ماں کے بارے میں اپنے ذہنی دباؤ کا اظہار کرتا ہے۔[79][80] اس بالعکس مہابھارت میں دو بیٹوں کا تذکرہ ملتا ہے۔شرادوان، جو اپنے ہاتھ میں تیر لے کر پیدا ہوا تھا اور دوسرا چیراکاری۔ ان کے علاوہ ایک گمنام بیٹی کا بھی تذکرہ ملتا ہ۔ ومان پران میں تین بیٹیوں کا تذکرہ ملتا ہے: جیا، جینتی اور اپاراجی۔[79] ایک دیگر کہانی میں مذکور ہے کہ ارون، بھگوان سوریا کا ایک تانگہ کھینچنے والا آدمی ایک مرتبہ عورت بن کر اپنا نام ارونی کرلیتا ہے اور اندر کی نطر اس پر پرتی ہے اور اندر کا محبت ہو جاتی ہے اور ایک بیٹا والی پیدا ہوتا ہے۔ اگلے دن سوریا کی درخواست پر ارون پھر سے عورت بنتا ہے اور سورج کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام سوگریوا رکھا جاتا ہے۔ دونوں بیٹوں کو اہلیا کی تحویل میں دیا جاتا ہے مگر گوتم کو برا لگتا ہے اور ان دونوں کو بندر بنا دیتا ہے۔[17][81][82] تھائی زبان کی راماین میں راکامین، والی اور سورگیوا کو اہلیا کا بیٹا بتایا گیا ہے اور نے باپ اندر اور سوریا ہیں۔ لیکن اہلیا ان کو گوتم کا بیٹا بتاتی ہے۔ گوتم ان کو ناپسند کرتا ہے اور ان سب کو بندر بنا دیتا ہے۔ بدلے میں اہلیا انجانی کو شراپ دیتی ہے اور اس کے ہاں بھی بندر پیدا ہوتا ہے کیونکہ گوتم کی بہن انجانی ہی اہلیا کا راز گوتم کو بتاتی ہے۔ انجانی بندر (ہنومان کو جنم دیتی ہے۔ یہی ہنومان بھگوان کہلاتا ہے اور رام کی مدد کرتا ہے۔[83]
کچھ تمل لوگ خود لو اہلیا اور اندر کی اولاد بتاتے ہیں اور ان کے قبائل کے نام اہلیا کے بیٹوں کے نام پر ہیں۔ گوتم تینوں بیتوں کے نام ان کی عادتوں پر رکھ دیتا ہے:
- اگمودیار- بہادر- گوتم کا مقابلہ کرتا ہے۔
- ماراوار- پیڑ- یہ پیڑ پر چڑھنے میں ماہر تھا۔
- کاللار- چٹان- یہ چالاکی سے چٹانوں کے پیچھے چھپ جاتا تھا۔[84]
تشخیص اور یاد
ترمیماہلیاکے بارے میں ایک شعر بہت مشہور ہے۔
سنسکرت کے الفاظ
اہلیا دروپدی سیتا تارا ای پنچ کنیا سمارینتیم مہا پتاکن اسنیہ
اردو ترجمہ
اہلیا، دروپدی، سیتا، تارا اور مندو داری
ہر ایک کو یہ پانچ نام یاد رکھنے چاہیے کیونکہ
ان کو یاد رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
ملاحظہ: کہیں کہیں سیتا کی جگہ کنتی کا نام آتا ہے۔[85][86][87]
راسخ الاعتقاد ہندو اور بالخصوس ہندو بیویاں پانچ کنیا، پانچ مطہرہ عورتوں کو ضرور یاد رکھتے ہیں اور اپنی دعاؤں میں ان کا منتر پڑھتے ہیں۔[88][87][89] ایک عقیدہ کے مطابق وہ پانچوں سب سے مقدس عورتیں ہیں۔[89] ان کو مہاستی بھی کہا جاتا ہے۔[16] ماہاری ناچ تہذیب میں ان کو افضل ترین عورت مانا جاتا ہے۔[88] اس نظریے کے مطابق اہلیا عفت کی ایک مثال ہے جسے جنسیت کے حوالہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ اپنے شوہر کے تئیں اس کی وفاداری عظیم بناتی ہے۔[89] اہلیا کو اس کے شخصیت، غیر معمولی خوبصورتی اور سب سے پہلی پنیا ہونے کے ناطے اکثر پنچ کنیا کی سردار مانا جاتا ہے۔[90] دیوی بھاگوت پران میں اہلیا کو دوسرے درجہ کی دیوی مانا گیا ہے جو انتہائی لائق، خوبصورت اور قابل تعریف ہے۔ اہلیا کے درجہ میں تارا اور مندوداری ہے اور ان کے ساتھ ہی اروندھتی اور دمینتی بھی ہے۔[91] دیگر مبصرین پنچ کنیا کو مثالی عورت نہیں مانتے ہین۔[92] پنچ کنیا کے مصنف بھٹاچاریہ دوسری کتابوں میں پانچ کنیا؛ اہلیا، سیتا، ستی، دامینتی اور اروندھتی کو پانچ کنیا ماننے میں اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پانچ عورتیں؛ اہلیا، دروپدی، کنتی، تارا اور مندوداری مقدس اور عفیف نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں شوہر کے علاوہ کسی مرد سے ملاقات کی ہے۔[93]
جس جگہ اہلیا کو نجات ملی اسے اہلیا تیرتھ کے نام سے جانا جاتا ہے اور مقدس مانا جاتا ہے۔ تیرتھ پانی والی مقدس جگہ ہے جہاں زائرین خود کو پاک صاف کرنے کے لیے اسنان کرتے ہیں۔ اہلیا کا تیرتھ استھان کافی منتازع رہا ہے، ایک روایت کے مطابق گوداوری کے کنارہ پے۔ دوسری جگہ نرمدا کو بتایا جاتا ہے۔ دونوں جگہوں مقدس مانا جاتا ہے، ان میں سے ایک جگہ، جھگڑیہ میں مندر بنا ہے۔ دوسری جگہ دربھنگہ ضلع میں ہے۔[94][95] اسی ضلع میں اہلیا استھان نام سے مشہور ہے۔[96] جو عورت کو لبھانا چانتے ہوں اور کام دیو کی طرح خوبصورت دکھنا چاہتے ہوں وہ اہلیا تیرتھ پر کورم پران کی پوجا کر سکتے ہیں۔ کامدیو نے ہندو ماہ چیت میں ایسا ہی کیا تھا۔ ایک عقیدہ کے مطابق کو اہلیا تیرتھ میں نہاتا ہے اور حیات بعد الموت میں آرام سے رہے گا۔[97] بھٹاچاریہ کے مطابق اہلیا ایک ابدی عورت ہے جو اپنے شوہر کے برخلاف ایک شہوت پرست خدا کے جنسی جذبات کو قبول کرلیتی ہے کیونکہ شوہر نے کبھی اس کو جنسی تسکین نہیں دی۔مصنف اہلیا کو ایک آزاد خیال عورت مانتا ہے جو اپنے فیصلے خود لیتی ہے، خطروں سے کھیلتی ہے اور غیر معمولی کام کرنے کی خواہاں رہتی ہے۔ جب اس کا گناہ ظاہر ہوتا ہے تو وہ اعتراف بھی کرتی ہے اور سزا کو بخوشی قبول کر لیتی ہے۔[98][99]
دایاں بازو ہندو تنظیم راشٹریہ سیویکا سمیتی کے مطابق اہلیا خارجی مردوں خصوصا برطانوی راج کے مردوں اور مسلم مردوں اور یہاں تک کہ ہندو مردوں سے بھی زنا بالجبر کی علامت ہے۔[100] نسوانی مصنفہ تارابائی شندے لکھتی ہیں کہ بدکردار خدا جیسے اندر کا مقدس عورتوں جیسے اہلیا کو بہکانے والی تصویریں بد اخلاقی پھیلانے کی ذمہ دار ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں کہ پتی ورت دھرم اتنا اہم کیوں ہے؟ پتی ورت دھرم کا مطلب ہے بیوی کا شوہر کے تئیں مکمل وفاداری اور جاں نثاری کا ثبوت دینا اور دل و جان سے اس کی خدمت کرنا۔[101]
خداؤں کے جنسی کارناموں کا افسانہ یونانی اساطیر میں بھی ملتا ہے جہاں اندر ہی کے درجے کا ایک خدا، خداؤں کا بادشاہ زیوس الکمین اس کے شوہر کے روپ میں آکر بہکاتا ہے جس سے افسانوی ہیرو ہرکولیس کی پیدائش ہوتی ہے۔ اہلیا کی طرح الکمین بھی عتاب کا شکار ہوتی ہے۔ اس کو زیوس کو نہ پیچاننے اور شوہرکے علاوہ سے جنسی تعلات بنانے اور کے لیے سزا دی جاتی ہے۔ اہلیا اور الکمین کے افسانے بنیادی یہ فرق ہے کہ الکمین کے کارناموں کا نتیجہ ہرکیولیس بن کر سامنے آیا جو بعد میں بہت بڑا خدا بنا اس لیے الکمین کی حرکت کو برا نہیں مانا گیا جبکہ اہلیا کی حرکت کو مکمل طور پر جنسی اور شہوت پسند مانا گیا۔[102][103]
پاورقی حواشی
ترمیم- ^ ا ب پ ت ٹ "Radhika Apte and Somitra Chatterjee's haunting performances in Sujoy Ghosh's Ahalya"۔ DNA۔ 22 جولائی 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2015
- ^ ا ب پ "Radhika Apte stars as a modern Ahalya in Sujoy Ghosh's new short film"۔ NDTV۔ 22 جولائی 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جولائی 2015
- ^ ا ب Sangeetha Devi Dundoo (28 دسمبر 2013)۔ "The curse of the cliché"۔ The Hindu۔ 19 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2015
- ↑ Apte 2004, p. 73۔
- ↑ Apte 2004, p. 637۔
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 798۔
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Vijnanananda 1921–22, p. 876۔
- ↑ Wilson 2008, p. 100۔
- ↑ Wilson 2008, p. 650۔
- ^ ا ب Jhaveri 2001, pp. 149–52.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ^ ا ب پ Goldman 1990, p. 218.
- ↑ Söhnen-Thieme 1996, pp. 50–1.
- ↑ Ritha Devi & Spring-Summer 1977, pp. 25–9.
- ^ ا ب پ Mani 1975, p. 17.
- ^ ا ب پ Garg 1992, pp. 235–6.
- ^ ا ب Bhattacharya 2000, pp. 14–5.
- ↑ Doniger 1999, pp. 89–90, 321–2.
- ^ ا ب Söhnen-Thieme 1996, pp. 51–3.
- ^ ا ب پ Söhnen-Thieme 1996, pp. 54–5.
- ^ ا ب Feller 2004, p. 131.
- ↑ Söhnen-Thieme 1996, pp. 46–8.
- ^ ا ب پ ت ٹ Feller 2004, p. 132.
- ↑ Keith 1998, p. 132.
- ↑ Feller 2004, pp. 132–5.
- ^ ا ب Söhnen 1991, p. 73.
- ↑ Ray 2007, pp. 24–5.
- ↑ The Hindu & 25 جون 2010.
- ↑ Söhnen-Thieme 1996, pp. 58–9.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ^ ا ب Ray 2007, pp. 25–6.
- ^ ا ب پ ت Doniger 1999, pp. 92–3, 321–2.
- ^ ا ب Goldman 1990, pp. 215–6.
- ^ ا ب Doniger 1999, pp. 95–6, 321–2.
- ^ ا ب Doniger 1999, pp. 100–3, 321–2.
- ↑ Söhnen-Thieme 1996, pp. 56–8.
- ^ ا ب Doniger 1999, pp. 94, 321–2.
- ^ ا ب Doniger 1999, pp. 96–7, 321–2.
- ↑ Goldman 1990, pp. 217–8.
- ↑
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑
- ↑ Macdonell 2008, p. 221.
- ↑ Goldman 1990, pp. 215–8.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 798۔
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Doniger 1999, pp. 89–90, 92, 321–2.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Doniger 1999, pp. 101–3, 321–2.
- ↑ Kālidāsa & Devadhar 1997, pp. 203–4, 606.
- ↑ Ramanujan 1991, pp. 28–32.
- ↑ Patel 1994, pp. 105–6.
- ↑ Zvelebil 1973, p. 213.
- ↑ Doniger 1999, pp. 101–2, 321–2.
- ↑ Goldman 1990, p. 45.
- ↑ Söhnen-Thieme 1996, p. 45.
- ↑ Dhody 1995, pp. 17–20.
- ↑ Gita Press 2004, pp. 147–8.
- ^ ا ب Prasad 1990, pp. 145–6.
- ↑ Rambhadracharya 2006, pp. 101, 269.
- ↑ Ganguli Shanti Parva 1883–1896, chap. CCLXVI.
- ↑ Das 2006, pp. 133–5.
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ Richman 2008, p. 24.
- ^ ا ب Gudipoodi & 30 مئی 2008.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Ram Kumar & 18 جولائی 2011.
- ↑ Santhosh & 4 دسمبر 2011.
- ↑ Sharma 2000, p. 40.
- ↑ Ram Mohan & 25 جنوری 2007.
- ↑ Rao 2001, pp. 168–9.
- ↑ Prema Nandakumar 2006.
- ↑ Richman 2008, pp. 27, 111, 113–4.
- ↑ Dwyer 2006, p. 60.
- ↑ Doniger 1999, pp. 104, 321–2.
- ↑ Mani 1975, p. 285.
- ^ ا ب Goldman 1990, pp. 220–1.
- ↑ Pattanaik 2001, p. 49.
- ↑ Freeman 2001, pp. 201–4.
- ↑ Pattanaik 2001, p. 50.
- ↑ Headley 2011, pp. 104–5.
- ↑
- ↑ Bhattacharya & مارچ–اپریل 2004, pp. 4–7.
- ↑ Devika & 29 اکتوبر 2006, p. 52.
- ^ ا ب Mukherjee 1999, p. 36.
- ^ ا ب Chattopadhyaya 1982, pp. 13–4.
- ^ ا ب پ Dallapiccola 2002.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑
- ↑ Mukherjee 1999, pp. 48–9.
- ↑ Bhattacharya 2000, p. 13.
- ↑ Kapoor 2002, p. 16.
- ↑ Ganguli Vana Parva 1883–1896, chap. LXXXIV.
- ↑ Official Site of Darbhanga District 2006.
- ↑ Benton 2006, p. 79.
- ↑ Monier-Williams 2008, p. 1293۔
- ↑ Bhattacharya & نومبر–دسمبر 2004, p. 31.
- ↑ Bacchetta 2002, pp. 50–1.
- ↑ Feldhaus 1998, p. 207.
- ↑ Söhnen 1991, pp. 73–4.
- ↑ Doniger 1999, pp. 124–5.
حوالہ جات
ترمیم- "Ahilya's redemption (Ramayana)"۔ رامانند ساگر's Ramayan TV series۔ YouTube۔ 1987–88۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2011
- "Triṃśaḥ Sargaḥ" [Canto 30]۔ Śrīmadvālmīkīya Rāmāyaṇa [The Ramayana of Valmiki] (بزبان الهندية)۔ 2۔ Gita Press۔ 1998
- "Lessons from the Ahalya Episode"۔ The Hindu۔ 30 ستمبر 2002۔ 31 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2011
- "Descent One (Bālakāṇḍa)"۔ Śrīrāmacaritamānasa or the Mānasa Lake Brimming over with the Exploits of Śrī Rāma (With Hindi Text and English Translation)۔ Gita Press۔ 2004۔ ISBN 978-81-293-0146-8
- "Tourist Spots in Darbhanga: Ahilya Asthan"۔ Official Site of Darbhanga District۔ قومی مرکز اطلاعات، District Unit Darbhanga۔ 2006۔ 15 جولائی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2011
- "Ahalya episode"۔ Ramayan (2008 TV series) on NDTV Imagine۔ YouTube۔ 2008
- "Expiation of Sin"۔ The Hindu۔ 25 جون 2010۔ 1 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2011
- Vaman S. Apte (2004) [1970]۔ The Student's Sanskrit-English Dictionary (2 ایڈیشن)۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-81-208-0045-8
- Paola Bacchetta (2002)۔ "Hindu Nationalist Women Imagine Spatialites/Imagine Themselves"۔ $1 میں Bacchetta, Paola، Power, Margaret۔ Right-wing Women: from Conservatives to Extremists Around the World۔ روٹلیج۔ ISBN 978-0-415-92778-9
- Catherine Benton (2006)۔ God of Desire: Tales of Kāmadeva in Sanskrit Story Literature۔ State University of New York۔ ISBN 978-0-7914-6565-3
- Pradip Bhattacharya (2000)۔ "Panchakanya: Women of Substance"۔ Journal of South Asian Literature: Miscellany۔ Asian Studies Center, مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی۔ 35 (1/2): 13–56
- Pradip Bhattacharya (مارچ–اپریل 2004)۔ "Five Holy Virgins, Five Sacred Myths: A Quest for Meaning (Part I)" (PDF)۔ Manushi (141)۔ 13 اپریل 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2019
- Pradip Bhattacharya (نومبر–دسمبر 2004)۔ "Five Holy Virgins, Five Sacred Myths: A Quest for Meaning (Part V)" (PDF)۔ Manushi (145): 30–7۔ 01 ستمبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2019
- Father Dr. Camille Bulcke (2010)۔ Rāmakathā and Other Essays۔ Vani Prakashan۔ ISBN 978-93-5000-107-3
- Kamaladevi Chattopadhyaya (1982)۔ Indian Women's Battle for Freedom۔ Abhinav Publications
- Anna L. Dallapiccola (2002)۔ "Ahalya"۔ Dictionary of Hindu Lore and Legend۔ Thames & Hudson۔ ISBN 978-0-500-51088-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2011 (رکنیت درکار)
- Sisir Kumar Das (2006)۔ "Epic Heroines – Ahalya"۔ A History of Indian Literature: 1911–1956:Struggle for Freedom : Triumph and Tragedy۔ A History of Indian Literature۔ ساہتیہ اکیڈمی۔ ISBN 978-81-7201-798-9
- Nilanjana Sikdar Datta (2001)۔ "Valmiki-Ramayana – an Approach by Rabindranath Tagore"۔ $1 میں Dodiya, Jaydipsinh۔ Critical Perspectives on the Rāmāyaṇa۔ Sarup & Sons۔ ISBN 978-81-7625-244-7
- Chandan Lal Dhody (1995)۔ The Adhyātma Rāmāyaṇa: concise English version۔ M.D. Publications۔ ISBN 978-81-85880-77-8
- Wendy Doniger (1999)۔ "Indra and Ahalya, Zeus and Alcmena"۔ Splitting the Difference: Gender and Myth in Ancient Greece and India۔ University of Chicago Press۔ ISBN 978-0-226-15641-5
- Rachel Dwyer (2006)۔ Filming the Gods: Religion and Indian Cinema۔ Routledge۔ ISBN 978-0-415-31425-1
- Anne Feldhaus (1998)۔ Images of Women in Maharashtrian Society۔ SUNY Press۔ ISBN 978-0-7914-3659-2
- Danielle Feller (2004)۔ "Indra, the Lover of Ahalya"۔ The Sanskrit Epics' Representation of Vedic Myths۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-81-208-2008-1
- Rich Freeman (2001)۔ "Thereupon Hangs a Tail: the Deification of Vali in the Teyyam Worship of Malabar"۔ $1 میں Richman, Paula۔ Questioning Rāmāyaṇas: a South Asian Tradition۔ University of California Press۔ ISBN 978-0-520-22074-4
- Kisari Mohan Ganguli (1883–1896)۔ The Mahabharata Book 3: Vana Parva
- Kisari Mohan Ganguli (1883–1896)۔ The Mahabharata Book 12: Shanti Parva
- Ganga Ram Garg (1992)۔ Encyclopaedia of the Hindu World: A-Aj۔ 1۔ South Asia Books۔ ISBN 978-81-7022-374-0
- Tejwant Singh Gill (2005)۔ "Artist"۔ Sant Singh Sekhon: Selected Writings۔ Sahitya Akademi۔ ISBN 978-81-260-1999-1
- Robert P. Goldman (1990)۔ The Ramayana of Valmiki: Balakanda۔ The Ramayana of Valmiki: an Epic of Ancient India۔ 1۔ مطبع جامعہ پرنسٹن۔ ISBN 978-0-691-01485-2
- Gudipoodi Srihari (30 مئی 2008)۔ "Story of Five Archetypes"۔ The Hindu۔ 6 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2011
- Zoé E. Headley (2011)۔ "Caste and Collective Memory in South India"۔ $1 میں Isabelle Clark-Decès۔ A Companion to the Anthropology of India۔ Blackwell Companions of Anthropology۔ Wiley-Blackwell۔ ISBN 978-1-4051-9892-9
- Herman Jensen (2002)۔ A Classified Collection of Tamil Proverbs۔ Asian Educational Services۔ ISBN 978-81-206-0026-3
- Bharati Jhaveri (2001)۔ "Nature and Environment in Ramayana of Bhils of North Gujarat"۔ $1 میں Dodiya, Jaydipsinh۔ Critical Perspectives on the Rāmāyaṇa۔ Sarup & Sons۔ ISBN 978-81-7625-244-7
- K. Santhosh (6 فروری 2004)۔ "Ahalya's Tale Retold"۔ The Hindu۔ 26 جون 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2011
- Kālidāsa، C.R. Devadhar (1997)۔ "Verse 33–34, Canto 11"۔ Raghuvamśa of Kālidāsa۔ Motilal Banarsidass Publishers
- Subodh Kapoor (2002)۔ Encyclopaedia of Ancient Indian Geography۔ 1۔ Cosmo Publications۔ ISBN 978-81-7755-298-0
- Arthur Berriedale Keith (1998) [1925]۔ "Indra"۔ The religion and philosophy of the Veda and Upanishads۔ 1۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 81-208-0645-X
- Meena K. Kelkar (1995)۔ Subordination of Woman: A New Perspective۔ Discovery Publishing House۔ ISBN 978-81-7141-294-5
- Arthur Anthony Macdonell (2008) [1929]۔ A Practical Sanskrit Dictionary with Transliteration, Accentuation, and Etymological Analysis Throughout۔ کولون یونیورسٹی
- Vettam Mani (1975)۔ Puranic Encyclopaedia: a Comprehensive Dictionary with Special Reference to the Epic and Puranic Literature۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-0-8426-0822-0
- V. V. Mirashi (1996)۔ Bhavabhūti۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-81-208-1180-5
- Prabhati Mukherjee (1999) [1978]۔ Hindu Women: Normative Models۔ Orient Blackswan۔ ISBN 978-81-250-1699-1
- Monier Monier-Williams (2008) [1899]۔ Monier Williams Sanskrit-English Dictionary۔ Universität zu Köln
- P. Ram Mohan (25 جنوری 2007)۔ "Week-long drama festivities end"۔ The Hindu۔ 31 مارچ 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2011
- Gautam Patel (1994)۔ "Sītātyāga, Whether Kālidāsa Wrote it First"۔ $1 میں Pierre-Sylvain Filliozat، Satya Pal Narang، C. Panduranga Bhatta۔ Pandit N.R. Bhatt, Felicitation Volume۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-81-208-1183-6
- Devdutt Pattanaik (2000)۔ The Goddess in India: the Five Faces of the Eternal Feminine۔ Inner Traditions – Bear & Company
- Devdutt Pattanaik (2001)۔ The Man Who Was a Woman and Other Queer Tales of Hindu Lore۔ Routledge۔ ISBN 978-1-56023-181-3
- Rama Chandra Prasad (1990)۔ Tulsidasa's Shri Ramacharitamanasa: the Holy Lake of the Acts of Rama۔ Motilal Banarsidass Publishers۔ ISBN 978-81-208-0443-2
- Prema Nandakumar (28 مارچ 2006)۔ "Myth as Metaphor in Feminist Fiction"۔ The Hindu۔ 20 جولائی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2011
- Ram Kumar Ramaswamy (18 جولائی 2011)۔ "I want to spread joy through dance: Gopika Varma"۔ Deccan Chronicle۔ 10 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 دسمبر 2011
- A. K. Ramanujan (1991)۔ "Three Hundred Rāmāyaṇas:"۔ $1 میں Richman, Paula۔ Many Rāmāyaṇas: The Diversity of a Narrative Tradition in South Asia۔ University of California Press۔ ISBN 978-0-520-07589-4
- Rambhadracharya (Swami) (30 مارچ 2006)۔ Ahalyoddhāra [The Liberation of Ahalya] (بزبان الهندية)۔ Jagadguru Rambhadracharya Handicapped University
- Velcheru Narayana Rao (2001)۔ "The Politics of Telugu Ramayanas"۔ $1 میں Richman, Paula۔ Questioning Rāmāyaṇas: a South Asian Tradition۔ University of California Press۔ ISBN 978-0-520-22074-4
- Pratibha Ray (2007)۔ "Ahalya's Voyage: From Transgression to Transcendence"۔ $1 میں Bhattacharya, Pratip۔ Revisiting the Pancha Kanyas : Proceedings of the National Seminar, کولکاتا، 2003۔ Eastern Zonal Cultural Centre in association with Bookworks۔ صفحہ: 22–30
- Richman, Paula، مدیر (2008)۔ Ramayana Stories in Modern South India: an Anthology۔ Indiana University Press۔ ISBN 978-0-253-34988-0
- Ritha Devi (Spring–Summer 1977)۔ "Five Tragic Heroines of Odissi Dance-drama: The Pancha-kanya Theme in Mahari "Nritya""۔ Journal of South Asian Literature: Feminine Sensibility and Characterization in South Asian Literature۔ Asian Studies Center, Michigan State University۔ 12 (3/4)۔ JSTOR 40872150
- V. S. Sharma (2000)۔ Kunchan Nampyar۔ Makers of Indian Literature۔ Sahitya Akademi۔ ISBN 978-81-260-0935-0
- Nityananda Shastri (2005)۔ Śrīrāmacaritābdhiratna (بزبان السنسكريتية)۔ Sahitya Akademi۔ ISBN 978-81-260-2058-4 with English translation by Shastri, Satya Vrat
- Renate Söhnen (1991)۔ "Indra and Women"۔ Bulletin of the School of Oriental and African Studies۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس on behalf of اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن، لندن یونیورسٹی۔ 54 (1): 68–74۔ ISSN 0041-977X۔ JSTOR 617314۔ doi:10.1017/S0041977X00009617
- Renate Söhnen-Thieme (1996)۔ "The Ahalya Story Through the Ages"۔ $1 میں Leslie, Julia۔ Myth and Mythmaking: Continuous Evolution in Indian Tradition۔ Curzon Press۔ ISBN 978-0-7007-0303-6
- Manohar Laxman Varadpande (2005)۔ History of Indian Theatre۔ Abhinav Publications۔ ISBN 978-81-7017-430-1
- Vijnanananda (Swami) (1921–22)۔ "The Ninth Book: Chapter XVIII"۔ The S'rîmad Devî Bhâgawatam
- V. R. Devika (29 اکتوبر 2006)۔ "Women of Substance: Ahalya: Scarlet Letter"۔ The Week۔ 24 (48)
- H. H. Wilson (2008) [1832]۔ Wilson Sanskrit-English Dictionary (2nd ایڈیشن)۔ Universität zu Köln
- Kamil Zvelebil (1973)۔ The Smile of Murugan on Tamil Literature of South India۔ BRILL۔ ISBN 978-90-04-03591-1