صلیبی جنگیں
صلیبی جنگیں (انگریزی: Crusades) مذہبی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جسے قرون وسطی میں لاطینی کلیسیا نے منظور کیا تھا، جس میں خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کی مہمات، جن کا مقصد ارض مقدسہ کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرانا تھا۔ ان فوجی مہمات میں سے سب سے مشہور 1095ء اور 1291ء کے درمیانی عرصے میں مقدس سرزمین پر لڑی گئی جنگیں تھیں جن کا مقصد یروشلم اور اس کے آس پاس کے علاقے کو مسلم حکمرانی سے فتح کرنا تھا۔[1] 1095ء میں پوپ اربن دوم نے کلرمونٹ کی کونسل میں پہلی مہم کا اعلان کیا۔ اس نے بازنطینی شہنشاہ الیکسیوس اول کومنینوس کے لیے فوجی حمایت کی۔ الیکسیوس اول کومنینوس نے مغربی یورپ کے تمام شرکاء کو صلیبی جنگوں کی دعوت دی۔ زیادہ تر مہمات منظم فوجوں کے ذریعے چلائی گئیں، جن کی قیادت بعض اوقات بادشاہ کرتے تھے۔ پوپ کی ابتدائی کامیابیوں نے چار صلیبی ریاستیں قائم کیں جن میں کاؤنٹی آف ایڈیسا، امارت انطاکیہ، یروشلم کی بادشاہی اور طرابلس کی کاؤنٹی شامل تھیں۔ پہلی صلیبی جنگ جس کے نتیجے میں 1099ء میں یروشلم کی فتح ہوئی، درجنوں فوجی مہمات کا حصہ بنیں۔ صلیبی جنگیں بنیادی طور پر گھڑ سوار جنگیں تھیں اور ان جنگوں کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھا گیا تھا جنھوں نے اس میں حصہ لیا تھا اور یہ مذہبی مہمات کا حصہ تھیں۔ ان جنگوں کا مقصد بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے صلیب کے نعرے کے تحت تھیں جس کا مرکزی مقدس سرزمین یروشلم پر قبضہ کرنا تھا۔ یروشلم پر قبضہ کرنے کے لیے ان لوگوں نے سرخ کپڑے سے صلیب کا نشان تھام لیا۔ بازنطینیوں کے زوال کی بنیادی وجہ بازنطینی سلطنت کے دار الحکومت بازینطینم(قسطنطنیہ ) سے گزرنے والی پہلی مہمات کی وجہ سے ہونے والی تباہی تھی۔[2]
صلیبی جنگیں فتح بیت المقدس | |||||
---|---|---|---|---|---|
عمومی معلومات | |||||
| |||||
متحارب گروہ | |||||
خلافت عباسیہ سلجوقی سلطنت |
مقدس رومی سلطنت مملکت انگلستان | ||||
قائد | |||||
المستظہر باللہ صلاح الدین ایوبی |
اربن دوم رچرڈ اول | ||||
قوت | |||||
150,000 فوجی [حوالہ درکار] | 520,000 فوجی [حوالہ درکار] | ||||
نقصانات | |||||
50 ملین | 300 ہزار | ||||
درستی - ترمیم |
صلیبی جنگیں مذہبی نوعیت کے فوجی تنازعات کا ایک سلسلہ تھا جو عیسائی یورپ کے زیادہ تر لوگوں نے بیرونی اور داخلی خطرات کے خلاف لڑا۔ یہ متعدد نسلی اور مذہبی گروہوں کے خلاف تھا جن میں مسلمان، مشرک، روسی عیسائی، یونانی آرتھوڈوکس، منگول اور پوپ کے سیاسی دشمن شامل تھے۔ صلیبی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس لاکھ سے تیس لاکھ کے درمیان تھی۔[3] جنگوں کا اصل مقصد یروشلم اور مقدس سرزمین پر قبضہ کر نا تھا جن پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ صلیبی جنگوں کے اثرات سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر دور رس تھے۔ پندرہویں صدی کے بعد صلیبی جنگوں میں تیزی سے کمی آئی۔[4][5]
تعارف
ترمیم1095ء سے 1291ء تک ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے مسیحیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنھیں تاریخ میں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران میں نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر عمر ابن الخطاب کے زمانہ میں ہی فتح ہو چکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور مسیحیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ گیارھویں صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتاً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری، تعصب، بدعہدی، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔ صلیبیوں کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ انھوں نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان کندہ کیا تھا۔
اسباب
ترمیمصلیبی جنگوں کے اصل اسباب مذہبی تھے مگر اسے بعض سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ یہ مذہبی اسباب کچھ معاشرتی پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ پیٹر راہب جس نے اس جنگ کے لیے ابھارا، اس کے تعلقات کچھ مالدار یہودیوں سے بھی تھے۔ پیٹر راہب کے علاوہ بعض بادشاہوں کا خیال تھا کہ اسلامی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے معاشی حالات سدھر سکتے ہیں۔ غرض ان جنگوں کا کوئی ایک سبب نہیں مگر مذہبی پس منظر سب سے اہم ہے۔
مذہبی اسباب
ترمیمفلسطین یسوع مسیح کی جائے پیدائش تھا۔ اس لیے مسیحیوں کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہونے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور ان کے لیے زیارت گاہ تھا۔ حضرت عمر کے زمانہ سے وہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور بڑے بڑے انبیا کے مقبرے یہاں تھے اس لیے بیت المقدس کا شہر اور زمین ان کے لیے مسیحیوں سے کہیں زیادہ متبرک اور مقدس تھی۔ مسلمانوں نے متبرک مقامات کی ہمیشہ حفاظت کی۔ چنانچہ غیر مسلم زائرین جب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے یہاں آتے تو مسلم حکومتیں انھیں ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچاتیں۔ ان کے گرجے اور خانقاہیں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھے۔ حکومت نے انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کر رکھا تھا لیکن خلافت اسلامیہ کے زوال اور انتشار کے دور میں ان زائرین نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں ان کی تنگ نظری اور تعصب کی بدولت مسلمانوں اور مسیحیوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ جاہل اور متعصب زائر جب واپس جاتے تو مسلمانوں کی زیادتیوں کے فرضی افسانے گھڑ کر اہل یورپ کے جذبات کو بھڑکاتے۔ یورپ کے مسیحی پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف تھے اب ان حالات میں ان کے اندر نفرت و حقارت کے جذبات نے مزید تقویت پائی۔ چنانچہ دسویں صدی عیسوی کے دوران یورپ کی مسیحی سلطنتوں اٹلی، فرانس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ نے سر زمین فلسطین کی دوبارہ تسخیر کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے ایک بار پھر مسیحی مملکت میں تبدیل کیا جاسکے۔
اس دوران میں سارے یورپ میں ایک افواہ خواص و عام میں بے حد مقبول ہو گئی کہ یسوع (عیسیٰ) دوبارہ نزول فرما کر مسیحیوں کے تمام مصائب کا خاتمہ کریں گے لیکن ان کا نزول اسی وقت ہوگا جب یروشلم کا مقدس شہر مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرالیا جائے۔ اس افواہ نے مسیحیوں کے مذہبی جوش میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔
مسیحی مذہبی رہنماؤں نے یہ چیز عام کر دی تھی کہ اگر کوئی چور، بدمعاش اور بدکردار بھی بیت المقدس کی زیارت کر آئے گا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا اس عقیدہ کی بنا پر بڑے بڑے بدکردار لوگ بھی زائروں کی صورت میں بیت المقدس آنا شروع ہو گئے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت وہ ناچتے اور باجے بجاتے اور شوروغل کرتے ہوئے اپنے برتری کا اظہار کرتے اور کھلے بندوں شراب نوشی کے مرتکب ہوتے۔ چنانچہ زائرین کی ان نازیبا حرکات اور ان کی سیاہ کاریوں، بدنظمی اور امن سوز سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں لگا دی گئیں۔ لیکن ان زائرین نے واپس جاکر مسلمانوں کی زیادتیوں کے من گھڑت افسانے لوگوں کو سنانے شروع کر دیے تاکہ ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔
مسیحی اس وقت دو حصوں میں منقسم ہو چکے تھے۔ ایک حصے کا تعلق یورپ کے مغربی کلیسیا سے تھا جس کا مرکز روم تھا۔ دوسرا مشرقی یا یونانی کلیسیا جس کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ دونوں چرچ کے ماننے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ روم کے پوپ کی ایک عرصہ یہ خواہش تھی کہ مشرقی بازنطینی کلیسیا کی سربراہی بھی اگر اسے حاصل ہو جائے اور اس طرح وہ ساری مسیحی دنیا کا روحانی پیشوا بن جائے گا۔ اسلام دشمنی کے علاوہ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس نے اعلان کر دیا کہ ساری دنیا کے مسیحی بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ اس کے سب گناہ دھل جائیں گے۔ اور فتح کے بعد جو مال و زر حاصل ہوگا وہ ان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ نتیجہً مسیحی دنیا مسلمانوں کے خلاف دیوانہ وار اٹھ کھڑی ہوئی۔
پوپ اربن ثانی مغربی یورپ کے کلیسیا کا سربراہ تھا۔ وہ بڑا جاہ پرست اور جنگ باز مذہبی رہنما تھا۔ یورپ کے حکمرانوں میں اس کا وقار کم ہو چکا تھا۔ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اس نے مسیحیوں میں مذہبی جنگی جنون پھیلانا شروع کر دیا۔ جنگ کے نام پر مسیحیوں کی بالادستی اور مسلمانوں کی شکست و ریخت کا قائل تھا۔ اس نے چرچ کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مناسب سمجھا کہ مسیحی دنیا کو مذہبی جنگوں کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس طرح اس نے صلیبی جنگوں کی راہ ہموار کی۔
سیاسی اسباب
ترمیمعساکر اسلام نے اپنے عروج کے زمانے میں بڑی بڑی سلطنتیں زیر و زبر کر دی تھیں۔ افریقا، ایشیا، جزائر بحیرہ روم (صقلیہ و قبرص) وغیرہ اور اسپین و پرتگال سب ان کے زیر نگیں تھیں۔ اب گیارہویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت بدل چکی تھی مصر میں عبیدی سلطنت روبہ زوال تھی۔ سسلی میں مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے بحیرہ روم کے مسیحی زور پکڑ چکے تھے سپین میں اگر یوسف بن تاشفین میدان عمل میں نہ آتے تو اسپین سے مسلمانوں کا اخراج بہت پہلے مکمل ہو چکا ہوتا۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کے اس سیاسی غلبے کے خلاف یورپ کے مسیحیوں کا اجتماعی رد عمل تھا۔
سلاجقہ کا دور مسلمانوں کے عروج کا آخری شاندار باب ہے۔ انھوں نے ایشیائے کوچک کے تمام علاقے فتح کرکے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے راہیں کھول دی تھیں۔ اور اگر ملک شاہ سلجوقی کے بعد کوئی نامور حکمران تخت نشین ہوتا تو شاید قسطنطنیہ کی تسخیر شرمندہ تعبیر ہوجاتی۔ قسطنطنیہ مسیحی یورپ پر اسلامی یلغار کو روکنے کے لیے آخری حصار کا کام دے رہا تھا۔ لہٰذا سلجوقیوں کی قوت سے خوفزدہ ہو کر بازنطینی حکمران مائیکل ڈوکس نے 1094ء میں مغربی ملکوں کو ترکوں کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف متوجہ کیا اور ان سے امداد طلب کی۔ چنانچہ ساری مسیحی دنیا نے اس کی استدعا کو فوراً قبول کر لیا اور میدان عمل میں نکل آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ایک سیلاب سرزمین اسلام کی طرف امڈ آیا۔
اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر مشرق کے بازنطینی کلیسیا اور مغربی کلیسیا کے درمیان میں سمجھوتہ ہو گیا اور دونوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔
عالم اسلام میں باہمی اتحاد کا فقدان تھا۔ بغداد کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافت، سلجوقی اور اسپین کے حکمران انحطاط کا شکار تھے ان کے درمیان میں باہمی اشتراک کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ لہٰذا صلیبیوں کے لیے اس سے نادر موقع اور کون سا ہو سکتا تھا۔
معاشرتی اسباب
ترمیمیورپ معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں پسماندہ تھا۔ سماجی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے مساوات، اخوت اور عدل و انصاف کے جن اصولوں کو مسلمانوں نے اپنے ہاں رواج دیا تھا یورپ کا مسیحی معاشرہ ابھی تک اس سے محروم تھا۔ غریب اور نادار لوگ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یورپ کا نظام جاگیرداری پر مبنی تھا۔ جاگیر دار غریب عوام کا خون چوس رہے تھے اور ان کے حقوق انھیں میسر نہیں تھے۔ صاحب اقتدار اور مذہبی گروہ نے ان لوگوں کی منافرت کا رخ اپنی بجائے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔
اخلاقی انحطاط سے بھی عوام کی حالت اچھی نہ تھی۔ یورپ کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے عوام کی توجہ اندرونی مسائل اور ان کی زبوں حالی سے ہٹانے کے لیے بیرونی مسائل کی طرف موڑ دی۔ ان لڑائیوں میں رضاکاروں کی معتدبہ تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے یونانی حسن کی لطافتوں کے لمس کی خاطر اس سفر میں شامل ہوئے تھے۔ مشہور فرانسیسی مورخ لیبان کا بیان اس دور کے معاشرہ کی صحیح ترین عکاسی کرتا ہے۔
” | جنت ملنے کے علاوہ ہر شخص کو اس میں حصول مال کا ذریعہ بھی نظر آتا تھا۔ کاشتکار جو زمیندار کے غلام تھے وہ افراد خاندان جو قانون کی رو سے وراثت سے محروم تھے وہ امرا جنہیں جائداد کا کم حصہ ملا تھا اور جن کی خواہش تھی کہ دولت کمائیں وہ راہب جو خانقاہی زندگی کی سختیوں سے تنگ تھے۔ غرض کل مفلوک الحال اور محروم الوارث اشخاص جن کی بہت بڑی تعداد تھی اس مقدس گروہ میں شریک تھے۔ | “ |
گویا ان مذہبی راہنماؤں نے اپنی عیاشیانہ زندگی کو چھپانے کی خاطر عوام کی توجہ ان معاشرتی برائیوں سے ہٹانے کی کوشش کی۔
معاشی اسباب
ترمیماسلامی دنیا کی خوش حالی اور دولت و ثروت کے چرچے یورپ میں عام تھے۔ یورپ ابھی تک خوش حالی کی ان منازل سے نہ گذرا تھا جن کا مشاہدہ مشرق کی اسلامی سلطنتیں کر چکی تھیں۔ لہٰذا یورپ کے وہ تمام عناصر جنھیں حصول زر کے ذرائع یورپ میں میسر نہ تھے اپنی قسمت آزمائی کے لیے اس مذہبی مہم میں شامل ہو گئے۔ ان کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور مال و دولت کے جمع کرنے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی تصدیق صلیبیوں کے اس طرز عمل سے ہوتی ہے جو انھوں نے ہنگری سے گزرتے ہوئے وہاں کے مسیحی باشندوں کے ساتھ روا رکھا۔
یورپ کے نظام حکومت میں جاگیرداری نظام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ معاشی نظام میں اس کی خرابیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ دولت کے تمام ذرائع امرا اہل کلیسا اور جاگیرداروں کا قبضہ تھا عوام مفلوک الحال تھے۔ کاشتکاروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ چنانچہ مذہبی طبقہ نے مذہب کی آڑ میں عوامی رد عمل کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ان لوگوں کی توجہ ملک کے معاشی مسائل سے ہٹی رہے۔ اس کے علاوہ قانون وراثت کے تحت محروم افراد نے بھی محض زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کے تحت اس کو ہوا دی۔
فلسطین اور شام پر قبضہ کرنے کے بعد اٹلی کے باشندے اپنی سابقہ تجارتی ترقی کو بحال کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسلامی غلبہ کی بدولت اطالوی تاجروں کی تجارتی اجارہ داری ختم ہو چکی تھی۔ لہٰذا ان کا خیال تھا کہ اگر صلیبی جنگوں کی بنا پر فلسطین اور شام کا علاقہ مسلمانوں سے مستقل چھین لیا جائے تو یورپ کی معاشی حالت سدھر سکتی ہے۔ صليبى جنگیں عموماً مذهبى جنگیں تصوركى جاتى ہیں مگر حقيقت ميں يہ یورپ كى ان جنگی مهمات كا حصہ تهيں جو بحيرہ روم اور بحيرہ احمر كى تجارت پر قبضہ جمانے کی غرض سے مسلمانوں کے خلاف لڑی گيئں بيت المقدس پر قبضہ جمانا اور اسے مكمل عيسائى شہر ميں تبديل كرنا محض ايک جنگی نعرہ تها يورپ کے سنار اور تاجر "جنگی فتووں" کے لیے مسیحیت کے مركز "ويٹی كن" كو بهارى رشوت ادا كر کے جذباتى مسیحیوں كى فوج تيار كرواتے تھے تا كہ يورپ سے مشرقى ايشياء تک ان کے تجارتى بحرى راستے مسلمانوں سے محفوظ ہو سكيں اور مسلمان عرب تاجروں كى بجائے يورپين تاجر زيادہ سے زيادہ منافع كما سكيں۔
فوری وجہ
ترمیمفوری وجہ پوپ اربن دوم کا فتوی جہاد تھا۔ فرانسیسی پیٹر جب بیت المقدس کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضہ کو بری طرح محسوس کیا۔ یورپ واپس جا کر مسیحیوں کی حالت زار کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں پیش کیں اور سلسلہ میں سارے یورپ کا دورہ کیا۔ پیٹر کے اس دورہ نے لوگوں کے اندر مذہبی دیوانگی کی سی کیفیت پیدا کر دی لیکن بدقسمتی سے اس راہب نے زائرین کی سیاہ کاریوں کے بارے میں مکمل خاموشی برتی۔ پوپ چونکہ مغربی کلیسیا کا روحانی پیشوا تھا اس لیے اس نے مختلف فرقوں کی ایک کونسل بلائی اور اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ لوگوں کو اس بات کی بشارت دی کہ جو بھی اس مقدس جنگ میں مارا جائے گا اس کے ہر قسم کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت کا حقدار ہوگا لوگ جوق در جوق سینٹ پیٹر کی قیادت میں فلسطین پر چڑھائی کی غرض سے روانہ ہوئے۔
پہلی صلیبی جنگ (1097ء تا 1145ء)
ترمیم1074 میں منزیکرٹ اور سلجوق کے یروشلم پر قبضے کے صرف تین سال بعدگریگوری VII نے مقدس سرزمین کی آزادی کے لیے فوجی مہم شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ بیس سال بعد، اربن دوم نے اس خواب کو دیکھا، جس نے نومبر 1095 میں فیصلہ کن کونسل آف پیانزا اور اس کے بعد کلرمونٹ کی کونسل کی میزبانی کی، جس کے نتیجے میں مغربی یورپ کو مقدس سرزمین پر جانے کے لیے متحرک کیا گیا۔[6] بازنطینی شہنشاہ الیکسیوس اول کومنینوس سے سلجوقیوں کی مسلسل پیش قدمی سے پریشان تھا اور اس نے مغربی یورپ کے ممالک میں ایلچی بھیجے اور اربن دوم سے حملہ آور ترکوں کے خلاف مدد کی درخواست کی۔ پوپ کے اعلان جہاد کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لیے روانہ ہوئے۔ راہب پیٹر کی ماتحتی میں تیرہ لاکھ مسیحیوں کا ایک انبوہ کثیر قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا۔ ان لوگوں نے راستہ میں اپنے ہم مذہب لوگوں کو قتل و غارت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا۔ بلغاریہ سے گزرنے کے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ پہنچے تو رومی شہنشاہ نے ان کی اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے ان کا رخ ایشیائے کوچک کی طرف موڑ دیا۔ جب یہ اسلامی علاقہ میں داخل ہوئے تو سلجوقی حکمران قلج ارسلان نے ان کے لشکر کو تہ و بالا کر دیا اور اور ان کی کثیر تعداد قتل ہوئی۔ صلیبیوں کی یہ مہم قطعاً ناکام رہی۔[7][8]
صلیبیوں کا دوسرا بڑا گروہ ایک جرمن راہب گاؤس فل کی قیادت میں روانہ ہوا۔ جب یہ لوگ ہنگری سے گذرے تو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے اہل ہنگری تنگ آ گئے اور انھوں نے ان کو نکال دیا یہ جماعت بھی اسی طرح کیفرکردار کو پہنچی۔
صلیبیوں کا تیسرا گروہ جس میں انگلستان، فرانس اور فلانڈرز کے رضاکار شامل تھے اس مقدس جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان رضاکاروں کے ہاتھوں دریائے رائن اور موزیل کے کئی ایک شہر کے یہودی نشانہ ستم بنے۔ یہ لوگ ہنگری سے گذرے تو اہل ہنگری نے ان کا صفایا کرکے ہنگری کی سرزمین کو ان کا قبرستان بنا دیا۔ [9]
سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا 1097ء میں روانہ ہوا اس میں انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سسلی کے شہزادے شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی کمان ایک فرانسیسی گاڈ فرے کے سپرد تھی۔ ٹڈی دل کا یہ لشکر ایشیائے کوچک کی طرف روانہ ہوا اور مشہور شہر قونیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلج ارسلان نے شکست کھائی۔ فتح مند مسیحی پیش قدمی کرتے ہوئے انطاکیہ پہنچ گئے نو ماہ کے بعد انطاکیہ پر بھی قبضہ ہو گیا۔ وہاں کی تمام مسلمان آبادی کو تہ تیغ کرتے ہوئے صلیبیوں نے مسلمانوں پر شرمناک مظالم ڈھائے۔ بچے بوڑھے جوان کوئی بھی ان سے بچ نہ سکا۔ تقریباً ایک لاکھ مسلمان مارے گئے۔ انطاکیہ کے بعد فتح مند لشکر شام کے متعدد شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے حمص پہنچا۔ [10][11]
سقوط بیت المقدس
ترمیمحمص پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبیوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا چونکہ فاطمیوں کی طرف سے شہر کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا تھا۔ اس لیے 15 جون 1099ء کو بیت المقدس پر ان مذہبی جنونیوں نے بڑی آسانی سے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کی حرمت کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا۔ مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا اور ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ یورپی مورخین بھی ان شرمناک مظالم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسیحیوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس رویہ سے بالکل الٹ تھا جو عمر ابن الخطاب نے چند صدیاں پیشتر بیت المقدس کی فتح کے وقت مسیحیوں سے اختیار کیا تھا۔ بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کے بعد گاڈ فرے کو بیت المقدس کا بادشاہ بنایا گیا۔ اور مفتوحہ علاقوں کو مسیحی مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ جس میں طرابلس، انطاکیہ اور شام کے علاقے شامل تھے۔ اس شکست کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی تھی، بدنظمی اور انتشار کا عمل تھا۔ [12]
سلجوقیوں کے انتشار کے دوران میں عماد الدین زنگی کی زبردست شخصیت ابھری۔ عماد الدین نے زنگی حکومت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو پھر حیات نو بخشی، موصل، حران، حلب وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرکے زنگی نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ عماد الدین نے جس جرات اور حوصلہ مندی سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زبردست شکستیں دیں وہ تاریخ اسلام کا قابل فخر باب ہے۔ عماد الدین نے قلعہ اثارب اور مصر کے سرحدی علاقوں سے مسیحیوں کو نکال کر خود قبضہ کر لیا۔ محاذ شام پر صلیبیوں کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور زنگی نے شام کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ عماد الدین زنگی کا سب سے بڑا کارنامہ بعلبک پر دوبارہ اسلامی قبضہ ہے۔ [13]
1101ء کی صلیبی جنگ
ترمیم1101 کی صلیبی جنگ کا آغاز پاپاسکل دوم نے کیا تھا جب اسے مقدس سرزمین میں افواج کی نازک صورت حال کا علم ہوا۔ میزبان چار الگ الگ فوجوں پر مشتمل تھا، جسے بعض اوقات پہلی صلیبی جنگ کے بعد دوسری لہر کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔[14] پہلی فوج لومبارڈی تھی جس کی قیادت میلان کے آرچ بشپ اینسلم کر رہے تھے۔ وہ جرمن شہنشاہ ہنری چہارم کے کانسٹیبل کانراڈ کی قیادت میں ایک فورس کے ساتھ شامل ہوئے۔ ایک دوسری فوج کی قیادت نیورس کے ولیم II نے کی۔ شمالی فرانس کے تیسرے گروپ کی قیادت بلوس کے اسٹیفن اور برگنڈی کے اسٹیفن نے کی۔ ان کے ساتھ سینٹ گیلس کے ریمنڈ نے شمولیت اختیار کی۔ چوتھی فوج کی قیادت ایکویٹائن کے ولیم IX اور باویریا کے ویلف چہارم نے کی۔ [15] صلیبیوں نے اپنے پرانے دشمن کلیج ارسلان کا سامنا کیا اور اس کی سلجوق افواج نے پہلی بار لومبارڈ اور فرانسیسی دستوں سے اگست 1101 میں مرسیوان کی لڑائی لڑی اس جنگ میں قلچ ارسلان کی فوج نے صلیبی کیمپ پر قبضہ کر لیا۔ نیورس کے دستے کو اسی مہینے ہیریکلیہ میں ختم کر دیا گیا، تقریباً پوری قوت کا صفایا ہو گیا، سوائے ولیم اور اس کے چند آدمیوں کے۔ ایکویٹینین اور باویرین ستمبر میں ہیریکلیہ پہنچے جہاں دوبارہ صلیبیوں کا قتل عام ہوا۔ 1101 کی صلیبی جنگ فوجی اور سیاسی طور پر ایک مکمل تباہی تھی، جس نے مسلمانوں کو دکھایا کہ صلیبی ناقابل تسخیر نہیں تھے۔[16]
بازنطینی سلطنت کا قیام
ترمیمبالڈون اول کا دور حکومت 1100 میں شروع ہوا اور اس نے شمال میں دشمنوں، سلجوقوں اور جنوب میں فاطمیوں کے سامنے سلطنت کے استحکام کی نگرانی کی۔ [17] الفضل شہنشاہ، طاقتور فاطمی وزیر، جو فرینکوں سے کھوئی ہوئی زمینوں کو واپس لینے کے لیے بے چین تھا، اس نے 7 ستمبر 1101 کو رملہ کی پہلی جنگ شروع کی جس میں بالڈون اول کے ہاتھوں اس کی فوجوں کو شکست ہوئی تھی۔[18] 17 مئی کو 1102 رملہ کی دوسری جنگ میں الفدال کے بیٹے شرف المعالی کی کمان میں فاطمیوں کے ہاتھوں صلیبیوں کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔[19] ہلاک ہونے والوں میں 1101 کی صلیبی جنگ کے سابق فوجی، بلوس کے اسٹیفن اور برگنڈی کے اسٹیفن شامل تھے۔ جرمنی کے کونراڈ نے اتنی بہادری سے لڑا کہ اس کے حملہ آوروں نے پیشکش کی کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دے تو اس کی جان بچائی جائے گی۔ صلیبی شکست کے بعد سلطنت تباہی کے دہانے پر تھی جو 27 مئی کو جفا کی کامیاب جنگ کے بعددوبارہ بحال ہوئی۔[20] شمال میں طرابلس کا محاصرہ شروع کر دیا گیا جو سات سال تک حل نہ ہو سکا۔ الفضل نے اگست 1105 میں رملہ کی تیسری جنگ میں ایک بار پھر کوشش کی اور اسے شکست ہوئی۔ 1110 میں بیروت کے محاصرے میں صلیبی فتح کے بعدسلطنت کے لیے فاطمی خطرہ دو دہائیوں تک کم رہا۔[21]
دوسری صلیبی جنگ (1144ء تا 1187ء)
ترمیمعماد الدین کی وفات کے بعد 1144ء میں اس کا لائق بیٹا نور الدین زنگی اس کا جانشین ہوا۔ صلیبیوں کے مقابلہ میں وہ اپنے باپ سے کم مستعد نہ تھا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے مسلمانوں میں جہاد کی ایک نئی روح پھونک دی اور مسیحیوں سے بیشتر علاقے چھین لیے اور انھیں ہر محاذ پر شکستیں دیتا ہوا ڈیسا، (روحا) کے شہر پر دوبارہ قابض ہو گیا۔ مسیحیوں کی شکستوں کی خبریں پورے یورپ میں پہنچیں تو ایک بار پھر پوپ یوجین سوم نے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا۔ 1148ء میں جرمنی کے بادشاہ کونراڈ سوم اور فرانس کے حکمران لوئی ہفتم کی قیادت میں 9 لاکھ افراد پر مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی اس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ پہلے صلیبی معرکوں کی طرح ان فوجیوں نے بھی خوب اخلاق سوز حرکتیں دوبارہ کیں۔ لوئی ہفتم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلجوقیوں کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ چنانچہ جب وہ انطاکیہ پہنچا تو اس کی تین چوتھائی فوج برباد ہو چکی تھی۔ اب اس باقی ماندہ فوج نے آگے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کر لیا لیکن سیف الدین زنگی اور نور الدین زنگی کی مشترکہ مساعی سے صلیبی اپنے عزائم میں ناکام رہے۔ لوئی ہفتم اور کونراڈ کو دوبارہ یورپ کی سرحدوں میں دھکیل دیا گیا۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ ناکام ہوئی۔
مصر پر نور الدین کا قبضہ
ترمیماس دوران میں حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں۔ یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی۔ مصر کے فاطمی خلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ مسیحیوں کے طوفان کو روک سکتا اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئےنور الدین زنگی کو مصر پر حملہ کی دعوت دی۔ نور الدین نے اپنے سپہ سالار اسد الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ اسد الدین نے مصر میں داخل ہو کر مسیحیوں کا قلع قمع کیا۔ لیکن شاور نے غداری کی اور شیر کوہ کے خلاف فرنگیوں سے ساز باز کر لی۔ 1127ء کو شیر کوہ نے دوبارہ مصر پر فوج کشی کی اور اسکندریہ پر قبضہ کے بعد مصر کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان تمام محاربات میں شیر کوہ کا ہمرکاب رہا تھا۔ شاور سعدی اپنے جرائم کی وجہ سے قتل ہوا اور شیر کوہ خلیفہ عاضد کا وزیر بنا اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اس کی جگہ لی۔ خلیفہ نے الملک الناصر کا لقب دیا۔ خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین نے مصر میں عباسی خلیفہ کا خطبہ رائج کر دیا۔ مصر کا خود مختار حکمران بننے کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا۔
حطین کا معرکہ
ترمیممصر کے علاوہ صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران میں صلیبی سردار ریجنالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔[22][23]
1186ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر مسیحی امرا کے ساتھ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین میں جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ ریجنالڈ گرفتار ہوا۔ اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج مسیحی علاقوں پر چھا گئیں۔[24][25][26]
بیت المقدس کی فتح(1187ء)
ترمیمحطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ صلیبیوں کے برعکس سلطان نے مسیحیوں پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دی اور انھیں چالیس دن کے اندر شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی۔ رحمدل سلطان نے فدیہ کی نہایت ہی معمولی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ ادا نہ کر سکے انھیں بغیر ادائیگی فدیہ شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض اشخاص کا زر فدیہ سلطان نے خود ادا کیا اور انھیں آزادی دی۔ بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔[27][28][29][30]
تیسری صلیبی جنگ (1189ء تا 1192ء)
ترمیمبیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغام اجل سے کم نہ تھا۔ اس فتح کی خبر پر سارے یورپ میں پھر تہلکہ مچ گیا۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ میں سارا یورپ شریک تھا۔ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا، شاہ فرانس فلپ آگسٹس اور شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل نے بہ نفس نفیس ان جنگوں میں شرکت کی۔ پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گھوم کر مسیحیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔ [31]
مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہوتے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو مسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور پانچ سو مسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ وہ تمام مال اسباب لے کے شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔[32][33]
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک مسیحیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جوانمردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انھیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران میں سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ [34]
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے مسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا، جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا اور تقریباً چھ لاکھ مسیحی ان جنگوں میں کام آئے۔ [35][36]
معاہدہ کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
- بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
- ارسوف، حیفا، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے
- عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔
- زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔
- صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی۔
چوتھی صلیبی جنگ (1202 - 1204ء)
ترمیماس جنگ کے دوران میں صلیبیوں نے بیت المقدس کے بعد قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا۔ اس جنگ کو پوپ انوسنٹیئس سوم نے 1202 میں شروع کیا تھا۔ صلیبیوں کا ابتدائی منصوبہ فوجوں کو مصر میں بھیجنا اور خطے کی بڑی اسلامی طاقت پر حملہ کرنا اور پھر یروشلم کے خلاف جنگ کرنا تھا۔ لیکن وینس کے باشندے، جنھوں نے 85،000 سونے کے سکوں کے بدلے مہم کے لیے نقل و حمل اور خوراک کی فراہم کرنا تھی نے مہم کو متاثر کیا۔ کیونکہ صلیبیوں نے انھیں طے شدہ رقم فراہم نہیں کی تھی۔ اس مہم کے نتیجے میں بازنطینی ریاست کے دار الحکومت اور قدیم یونانی ثقافت کے مرکز قسطنطنیہ کی تباہی ہوئی۔ یہ مہم صلیبی جنگوں کے زوال کا سبب بنی اور کلیسیا کو خدائی حکم ہونے کے بعد قابل اعتماد جواز کی ضرورت تھی۔[37][38]
پانچویں صلیبی جنگ (1213-1221ء)
ترمیمپوپ انوسینٹ کے تحت اڑھائی لاکھ جرمنوں کی فوج مصر کے ساحل پر حملہ آور ہوئی۔ عادل ایوبی نے دریائے نیل کا بند کاٹ کر ان کی راہ روکی۔ پوپ انوسنٹ سوم نے 1213 میں ایک نئی صلیبی جنگ شروع کرنے کی کوشش کی۔ اس نے صلیبی جنگ کو ہوا دینے کے لیے تبلیغی مہم شروع کی جو 1215 میں چوتھی لاطینی کونسل تک جاری رہی۔۔ اندرچ دوم کی کمان میں ہنگری اور جنوبی جرمن افواج اور آسٹریا کی فوجیں آگے بڑھیں اور ایکڑ پہنچ گئیں۔ ایکرا میں اس فوج کے ساتھ جرمن اور ڈچ افواج بھی شامل ہو گئیں۔ انھوں نے دریائے نیل پر مصر کے شمال مشرق میں واقع ڈیمیٹا شہر کا رخ کیا۔ انھوں نے 1219 میں اس پر قبضہ کر لیا۔ فوج نے پوپ ہونوریئس سوم اور اپوسٹولیک نونسیو پیلاگیس کے اصرار پر منصورہ شہر پر حملہ کر دیا۔ عین اسی وقت دریائے نیل میں سیلاب آنا شروع ہوا۔ مصریوں نے دریا پر ڈیم کھول دیا۔ اور مسلمانوں نے صلیبیوں کا پسپائی کا راستہ کاٹ دیا۔ مسلم افواج نے صلیبیوں کو گھیر لیا اور سینکڑوں صلیبی سیلابی پانی میں ڈوب گئے۔ 30 اگست 1221 ء کو 8 سال کے لیے امن پر دستخط ہوئے اور صلیبیوں کو ڈیمیٹا چھوڑنا پڑا اور پانچویں صلیبی جنگ بری طرح ناکام رہی۔ مسیحی مایوس ہو کر 1227ء میں واپس لوٹ گئے۔[39][40][41][42][43][44][45]
چھٹی صلیبی جنگ (1228–1229ء)
ترمیمملک کامل اور اس کے بھائیوں کے درمیان میں اختلاف کی بنا پر بیت المقدس کا شہر کامل نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔ کامل کے جانشین صالح نے دوبارہ صلیبیوں سے چھین لیا اور اس پر بدستور مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
جرمن شہنشاہ فریڈرک دوم کی قیادت میں جو 1228 کے موسم گرما میں اپنی تلوار کو اس کے خنجر سے ہٹائے بغیر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا شروع کیا۔ اس مہم کو پوپ کی طرف سے اجازت نہیں ملی تھی، لیکن شہنشاہ کو صلیب لینے کے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تاخیر کی وجہ سے چرچ جانے سے محروم کر دیا گیا۔ فریڈرک نے سلطان الکامل کے ساتھ مذاکرات کیے، جس کے نتیجے میں فروری 1229 میں 10 سالہ امن قائم ہوا جس کے بدلے میں سلطان نے یروشلم کو حرم کے علاقے، بیت لحم، ناصرت اور سیدون اور تورون (موجودہ تبین) کے علاوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور یہ پہلی مہم تھی جو اس کے پوپ کی طرف سے حمایت حاصل نہیں تھی۔[46][47][48][49][50][51]
ساتویں صلیبی جنگ (1248ء)
ترمیمساتویں صلیبی جنگ کا آغاز 1249ء میں فرانس کے بادشاہ لوئی نہم شاہ فرانس کی قیادت میں ہوا تھا اور نجم الدین ایوب کے عہد میں انھوں نے مصر پر حملہ کیا تھا جس کے دوران دمیاط میں سلطان کی وفات ہو گئی تھی۔ صلیبیوں نے مصر کی شمالی سرحد دمیاط پر قبضہ کر لیا تھا، پھر قاہرہ پر چڑھائی کے لیے بڑھے، لیکن مملوک فوجوں نے ان کا مقابلہ کیا اور منصورہ، مصر میں پھر فارسکور میں جنگ ہوئی جس میں صلیبیوں کو شکست ہوئی، ان کا شاہِ فرانس لوئی نہم شاہ فرانس کو گرفتار کر لیا گیا اور اس طرح اس جنگ میں صلیبی جنگجؤوں کا ناکام ہو گئے۔
آٹھویں صلیبی جنگ (1268ء)
ترمیمایڈورڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس نے مل کر شام پر حملہ کیا اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر شام و فلسطین سے صلیبیوں کا وجود ختم کر دیا گیا۔ صلیبیوں کے اندر مزید جنگ کا حوصلہ نہ رہا دوسری جانب مسلمان بدستور اپنے علاقوں کی حفاظت میں مستعد تھے۔ جب اس قدر طویل جنگوں کے خاتمہ کے بعد مسیحیوں کا سوائے تباہی اور شکست کے کچھ حاصل نہ ہوا تو ان کا جنگی جنون سرد پڑ گیا۔ اس طرح صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا۔
دیگر صلیبی جنگیں
ترمیمبچوں کی صلیبی جنگ
ترمیمان کے علاوہ 1212ء میں ایک معروف صلیبی جنگ کی تیاری بھی کی گئی جسے "بچوں کی صلیبی جنگ" کہا جاتا ہے۔ مسیحی راہبوں کے مطابق کیونکہ بڑے گناہگار ہوتے ہیں اس لیے انھیں مسلمانوں کے خلاف فتح حاصل نہیں ہو رہی جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے وہ صلیبیوں کو فتح دلائیں گے۔ اس مقصد کے لیے 37 ہزار بچوں کا ایک لشکر ترتیب دیا گیا جو فرانس سے روانہ ہوا۔ 30 ہزار بچوں پر مشتمل فرانسیسی لشکر کی قیادت افواج کے سپہ سالار اسٹیفن نے کی۔ 7 ہزار جرمن بچے نکولس کی زیر قیادت تھے۔ ان بچوں میں سے کوئی بھی بیت المقدس تک نہ پہنچ سکا بلکہ فرانس کے ساحلی علاقوں اور اٹلی میں ہی یا تو تمام بچے غلام بنا لیے گئے یا جنسی زیادتی کا نشانہ بنے یا آپس میں لڑکر ہی مرگئے۔ بچوں کی صلیبی جنگ پانچویں صلیبی جنگ سے قبل ہوئی تھی۔
ترکوں کے خلاف صلیبی جنگیں
ترمیمسلطنت عثمانیہ کے یورپ میں بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے بھی یورپیوں سے صلیبی جنگوں کے ناموں کا استعمال کیا اور 14 ویں اور 15 ویں صدی میں تین جنگیں لڑی گئیں:
- جنگ نکوپولس 1396ء : شاہ ہنگری سجسمنڈ آف لکسمبرگ کی جانب سے بلائی گئی صلیبی جنگ جسے عام طور پر جنگ نکوپولس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ موجودہ بلغاریہ کی حدود میں نکوپولس کے مقام پر ہونے والی اس جنگ میں بایزید یلدرم نے فرانس اور ہنگری کے مشترکہ لشکر کو عظیم الشان شکست دی۔
- جنگ وارنا 1444ء: پولینڈ اور ہنگری کی مشترکہ فوج مراد ثانی کے ہاتھوں شکست کھاگئی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی عظیم فتوحات میں سے ایک ہے۔
- 1456ء کی صلیبی جنگ : عثمانیوں کی جانب سے بلغراد کا کیا گیا محاصرہ ختم کرنے کے لیے لڑی گئی۔ اس وقت عثمانی فرمانروا سلطان محمد فاتح تھا جو بلغراد کو فتح کرنے میں ناکام رہا اور صلیبی لشکر نے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں 29 اگست 1521ء کو عثمانی سلطان سلیمان اول نے بلغراد کو فتح کرکے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنادیا۔
نتائج
ترمیمدو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں پر بے جا طور پر مسلط کی گئی تھیں اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئیں۔ یوں مذہبی جنونیوں نے دنیا کی ایک کثیر آبادی کو آہ فغاں اور اتھاہ اندھیروں میں دھکیل دیا۔ یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں اجنبیت کی ایک مستقل دیوار جو آج تک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان میں حائل ہے وہ ان صلیبی جنگوں کا ایک بنیادی نتیجہ ہے۔ اور آج فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل کا قیام اور نیو ورلڈ آرڈر اسی کی ایک کڑی ہیں۔ یورپ کا جنگی جنون جب سرد پڑا تو انھیں کلیسا کے اثر و رسوخ کا پتہ چلا یوں اصلاح کلیسیا جیسی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ تاکہ حکومت پر ان کا اثر رسوخ کم کیا جاسکے۔ جب یورپ کے غیر متمدن لوگوں کا واسطہ مسلمانوں سے پڑا تو ان کی علمی و تہذیبی ترقیاں دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اسلامی تمدن سے آشنا ہو کر ان کی ذہنی کیفیت میں انقلاب پیدا ہوا اور احیائے علوم کے لیے یورپ میں فضا سازگار ہو گئی۔ یورپ میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو گیا اور اس کی جگہ مستقل معاشی نظام رائج ہوا۔ اشیاء کے بدلے اشیا کی فروخت کی بجائے سکہ رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت نے بھی یورپ میں ترقی کی۔ اور یورپ کا فن تعمیر بھی اسلامی فنی تعمیرات سے متاثر ہوا۔
نویں صلیبی جنگ
ترمیم11 ستمبر 2001ء کو امریکا کے شہر نیو یارک اور دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی میں اغوا شدہ طیاروں کے ذریعے بالترتیب ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارات پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 3 ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ امریکا نے ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کی جو اس وقت افغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکا نے اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ (انگریزی: War on Terror) قرار دیا۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے مسترد کرنے پر افغانستان کے خلاف کارروائی کی گئی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز تھا۔ اس جنگ کو اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے قصر ابیض میں ایک خطاب کے دوران میں صلیبی جنگ کا نام دیا تھا۔[52] انھوں نے 16 ستمبر 2001ء کو اپنے خطاب کے دوران میں کہا:
” | ہمیں کل اپنے کاموں پر واپس جانے کی ضرورت ہے اور ہم جائیں گے۔ لیکن ہمیں مستعد رہنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کے خبیث لوگ اب بھی موجود ہیں۔ ہم نے طویل عرصے سے اس طرح کی بربریت نہیں دیکھی۔ کوئی شخص اس بات کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ خود کش حملہ آور ہمارے معاشرے میں چھپ بیٹھیں گے اور پھر ایک ہی دن اپنے ہوائی جہاز، ہمارے امریکی ہوائی جہاز، اڑا کر معصوم لوگوں سے بھری عمارات سے ٹکرا دیں گے اور کسی قسم کی پشیمانی ظاہر نہیں کریں گے۔ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے۔ اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا۔ لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں، اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔ میری توجہ اس امر پر مرکوز ہوگی کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کی مدد کرنے والے سب افراد کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاؤں۔ جو دہشت گردوں کو پناہ دیں گے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم 21 ویں صدی میں اپنی پہلی جنگ فیصلہ کن انداز میں جیتیں، تاکہ ہمارے بچے اور ہماری آنے والی نسلیں 21 ویں صدی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔ | “ |
جارج بش کی تقریر میں crusade کے الفاظ پر یورپ اور مسلم ممالک میں کڑی تنقید کی گئی۔ بعد ازاں اس لفظ کے استعمال کی کئی وضاحتیں پیش کی گئیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ قصة الحروب الصليبية. آرکائیو شدہ 2016-12-08 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ Burkes: Is religion responsible for most wars? آرکائیو شدہ 2023-02-22 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ John Shertzer Hittell, "A Brief History of Culture" (1874) p.137: "In the two centuries of this warfare one million persons had been slain..." cited by White آرکائیو شدہ 2018-04-25 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ Charles K. Bellinger (2001)۔ The genealogy of violence: reflections on creation, freedom, and evil۔ Oxford University Press US۔ ص 100۔ 2020-02-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
- ↑ Jonathan Riley-Smith (1991)۔ The First Crusade and the Idea of Crusading۔ University of Pennsylvania۔ ص 5–8۔ ISBN:0-8122-1363-7۔ 10 يناير 2020 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
{{حوالہ کتاب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ Duncalf, Frederic (1969). "The Councils of Piacenza and Clermont آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ images.library.wisc.edu (Error: unknown archive URL)". In Setton,K., A History of the Crusades: Volume I. pp. 220–252.
- ↑ Munro, Dana Carleton. (1906). The speech of Pope Urban II. at Clermont, 1095. [New York.
- ↑ Tyerman 2006، صفحہ 65، Summons to Jerusalem
- ↑ Runciman 1951، صفحہ 121–133، The People's Expedition
- ↑ Runciman 1951، صفحہ 336–341، Appendix II: The Numerical Strength of the Crusaders
- ↑ Asbridge 2004، صفحہ 89–95، The Main Armies of the First Crusade
- ↑ Asbridge 2012، صفحہ 116–118، Protector of the Holy City
- ↑ Edgington 2019، صفحہ 76–92، King of Jerusalem
- ↑ Cate, James Lea (1969). "The Crusade of 1101." آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ images.library.wisc.edu (Error: unknown archive URL) In Setton, K. A History of the Crusades: I. pp. 343–352.
- ↑ Archer 1904، صفحہ 104–107، A Disastrous Expedition
- ↑ Mulinder, Alex (2006). " Crusade of 1101". In The Crusades: An Encyclopedia. pp. 304–307.
- ↑ Murray 2000، صفحہ 94–119، Baldwin I as King of Jerusalem
- ↑ Mulinder, Alex (2006). "Ramla, First Battle of (1101)". In The Crusades: An Encyclopedia. p. 1105.
- ↑ Mulinder, Alex (2006). "Ramla, Second Battle of (1102)". In The Crusades: An Encyclopedia. p. 1106.
- ↑ Murray, Alan V. (2006). "Jaffa, Battle of (1102)". In The Crusades: An Encyclopedia. p. 650.
- ↑ Mulinder, Alex (2006). "Ramla, Third Battle of (1105)". In The Crusades: An Encyclopedia. p. 1106.
- ↑ (Madden 2000)
- ↑ Gabrieli (1989). "Events preceding Hittin", recounted by Ibn al-'Athir in The Complete History, p. 114 ff.
- ↑ Richard, Jean. The Crusades c1071-c1291. p. 207. آئی ایس بی این 0-521-625661
- ↑ Nicolle (1993). p. 64.
- ↑ Norman Housley, History Today Article, The Battle of Hattin
- ↑ Barker, Ernest (1911). "Raymund of Tripoli". In Chisholm, Hugh (ed.). Encyclopædia Britannica. 22. (11th ed.), Cambridge University Press. p. 935.
- ↑ Gerish, Deborah (2006). Guy of Lusignan (d. 1194). In The Crusades: An Encyclopedia. pp. 549–551.
- ↑ Asbridge 2012، صفحہ 367، Called to Crusade
- ↑ Lewis 2017، صفحہ 233–284، The Regent Thwarted: Count Raymond III (1174–1187)
- ↑ Norgate 1924، صفحہ 152–175، The Fall of Acre, 1191
- ↑ Nicholson, Helen (2006). "Third Crusade (1189–1192)". In The Crusades: An Encyclopedia. pp. 1174–1181.
- ↑ Tyerman 2006، صفحہ 375–401، The Call of the Cross
- ↑ Oman 1924، صفحہ 306–319، Tactics of the Crusades: Battles of Arsouf and Jaffa (Volume I)
- ↑ Murray 2009
- ↑ Asbridge 2012، صفحہ 420–422، The Fate of the German Crusade
- ↑ (Jotischky 2004)
- ↑ Tyerman 2019، صفحہ 249–250
- ↑ "Summons to a Crusade, 1215"۔ Internet Medieval Sourcebook۔ Fordham University۔ ص 337–344
- ↑ Michael Ott (1910). "Pope Honorius III". In Catholic Encyclopedia. 7. New York.
- ↑ Van Cleve, Thomas C. (1977). "The Fifth Crusade آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ images.library.wisc.edu (Error: unknown archive URL)". In Setton, K., A History of the Crusades: Volume II. pp. 343–376.
- ↑ Powell, James M. (2006). "The Fifth Crusade". In The Crusades: An Encyclopedia. pp. 427–432.
- ↑ Perry 2013، صفحہ 89–121، The Fifth Crusade
- ↑ Asbridge 2012، صفحہ 551–562، The Fifth Crusade
- ↑ Maalouf 2006، صفحہ 218–226، The Perfect and the Just
- ↑ Van Cleve, Thomas C. (1977). "The Crusade of Frederick II آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ images.library.wisc.edu (Error: unknown archive URL)". In Setton, K. A History of the Crusades: Volume II. pp. 377–448.
- ↑ Van Cleve, Thomas C. (1977). "The Crusade of Frederick II آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ images.library.wisc.edu (Error: unknown archive URL)". In Setton, K. A History of the Crusades: Volume II. pp. 377–448.
- ↑ Christie 2014، Document 17: Two sources on the Handover of Jerusalem to Frederick II
- ↑ Runciman 1954، صفحہ 183–184، Frederick at Acre (1228)
- ↑ Gibb 1969، صفحہ 700–702، The Ayyubids from 1221–1229
- ↑ Runciman 1954، صفحہ 171–205، The Emperor Frederick
- ↑ 16 ستمبر 2001ء کو جارج ڈبلیو بش کی قصر ابیض میں صحافیوں سے گفتگو
کتابیات
ترمیم- Thomas A. Archer (1904)۔ The Crusades۔ Story of the Latin Kingdom of Jerusalem۔ G. P. Putnam
- Thomas Asbridge (2000)۔ The Creation of the Principality of Antioch, 1098–1130۔ Boydell & Brewer۔ ISBN:978-0-85115-661-3
- Thomas Asbridge (2004)۔ The First Crusade: A New History۔ Oxford۔ ISBN:978-0-19-517823-4
- Thomas Asbridge (2012)۔ The Crusades: The War for the Holy Land۔ Simon & Schuster۔ ISBN:978-1-84983-688-3
- Malcolm Barber (1994)۔ The New Knighthood. A History of the Order of the Temple۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-1-107-60473-5
- Malcolm Barber (2012)۔ The Crusader States۔ Yale University Press۔ ISBN:978-0-300-18931-5
- Ernest Barker (1923)۔ The Crusades۔ World's manuals۔ Oxford University Press, London
- Niall Christie (2014)۔ Muslims and Crusaders: Christianity's Wars in the Middle East, 1095–1382, from the Islamic Sources۔ Routledge۔ ISBN:978-1-138-54310-2
- Giles Constable (2001)۔ "The Historiography of the Crusades"۔ در Angeliki E. Laiou and Roy P. Mottahedeh (مدیر)۔ The Crusades from the Perspective of Byzantium and the Muslim World۔ Dumbarton Oaks۔ ص 1–22۔ ISBN:978-0-88402-277-0
- Susan B. Edgington (2019)۔ Baldwin I of Jerusalem, 1100–1118۔ Routledge۔ ISBN:978-1-4724-3356-5
- Taef El-Azhari (2016)۔ Zengi and the Muslim response to the Crusades: The politics of Jihad۔ Routledge۔ ISBN:978-0-367-87073-7
- H. A. R. Gibb (1969)۔ The Aiyūbids (PDF)۔ A History of the Crusades (Setton), Volume II۔ 2023-03-26 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-10-27
- Norman Housley (1982)۔ The Italian Crusades: The Papal-Angevin Alliance and the Crusades Against Christian Lay Powers, 1254–1343۔ Oxford University Press۔ ISBN:978-0-19-821925-5
- Norman Housley (1992)۔ The Later Crusades, 1274–1580: From Lyons to Alcazar۔ Oxford University Press۔ ISBN:978-0-19-822136-4
- Andrew Jotischky (2004)۔ Crusading and the Crusader States۔ Pearson Longman۔ ISBN:978-1-351-98392-1
- Ariel Koch (2017)۔ "The New Crusaders: Contemporary Extreme Right Symbolism and Rhetoric"۔ Perspectives on Terrorism۔ ج 11 شمارہ 5: 13–24۔ JSTOR:26297928
- John L. La Monte (1932)۔ Feudal monarchy in the Latin kingdom of Jerusalem, 1100 to 1291۔ Monographs of the Medieval academy of America,no. 4۔ The Medieval academy of America, Cambridge, MA
- Andrew A. Latham (2012)۔ Theorizing Medieval Geopolitics – War and World Order in the Age of the Crusades۔ Routledge۔ ISBN:978-0-415-87184-6
- Bernard Lewis (2003)۔ The Assassins: A Radical Sect in Islam۔ Phoenix۔ ISBN:978-1-84212-451-2
- Kevin James Lewis (2017)۔ The Counts of Tripoli and Lebanon in the Twelfth Century: Sons of Saint-Gilles۔ Routledge۔ ISBN:978-1-4724-5890-2
- Peter Lock (2006)۔ The Routledge Companion to the Crusades۔ Routledge۔ DOI:10.4324/9780203389638۔ ISBN:978-0-415-39312-6
- Amin Maalouf (2006)۔ The Crusades through Arab Eyes۔ Saqi Books۔ ISBN:978-0-86356-023-1
- Christoph T. Maier (2006a)۔ "Ideology"۔ در Alan V. Murray (مدیر)۔ The Crusades: An Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ ج II: D–J۔ ص 627–631۔ ISBN:978-1-57607-862-4
- Nicholas Morton (2018)۔ The Field of Blood, The Battle for Aleppo and the Remaking of the Medieval Middle East۔ Basic Books۔ ISBN:978-0-465-09670-1
- Dana Carleton Munro (1902)۔ Letters of the Crusaders۔ Translations and reprints from the original sources of European history۔ University of Pennsylvania
- Alan V. Murray (2000)۔ The Crusader Kingdom of Jerusalem: A Dynastic History, 1099–1125۔ University of Oxford۔ ISBN:978-1-900934-03-9
- Alan V. Murray (2006)۔ The Crusades: An Encyclopedia۔ ABC-CLIO۔ ISBN:978-1-57607-862-4
- Alan V. Murray (2009)۔ "Participants in the third crusade"۔ اوکسفرڈ ڈکشنری آف نیشنل بائیوگرافی (آن لائن ایڈیشن)۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ DOI:10.1093/ref:odnb/98218
{{حوالہ موسوعہ}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہےs:|HIDE_PARAMETER15=
،|HIDE_PARAMETER13=
،|HIDE_PARAMETER21=
،|HIDE_PARAMETER30=
،|HIDE_PARAMETER14=
،|HIDE_PARAMETER17=
،|HIDE_PARAMETER32=
،|HIDE_PARAMETER16=
،|HIDE_PARAMETER25=
،|HIDE_PARAMETER33=
،|HIDE_PARAMETER24=
،|HIDE_PARAMETER9=
،|HIDE_PARAMETER11=
،|HIDE_PARAMETER4=
،|HIDE_PARAMETER2=
،|HIDE_PARAMETER28=
،|HIDE_PARAMETER18=
،|HIDE_PARAMETER20=
،|HIDE_PARAMETER5=
،|HIDE_PARAMETER19=
،|HIDE_PARAMETER10=
،|HIDE_PARAMETER3=
،|HIDE_PARAMETER31=
،|HIDE_PARAMETER29=
،|HIDE_PARAMETER7=
،|HIDE_PARAMETER8=
،|HIDE_PARAMETER26=
،|HIDE_PARAMETER23=
، و|HIDE_PARAMETER12=
(معاونت) وپیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kate Norgate (1924)۔ Richard the Lion Heart۔ Macmillan and Co.
- Charles Oman (1924)۔ A History of the Art of War in the Middle Ages۔ Metheun
- Guy Perry (2013)۔ John of Brienne: King of Jerusalem, Emperor of Constantinople, c. 1175–1237۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-1-107-04310-7
- Joshua Prawer (1972)۔ The Crusaders' Kingdom۔ Phoenix Books۔ ISBN:978-1-84212-224-2
- Jean C. Richard (1999)۔ The Crusades, c. 1071 – c. 1291۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-62566-1
- Jonathan Riley-Smith (1973)۔ The Feudal Nobility and the Kingdom of Jerusalem, 1174–1277۔ Macmillan۔ ISBN:978-0-333-06379-8
- Jonathan Riley-Smith (1995)۔ "The Crusading Movement and Historians"۔ در Jonathan Riley-Smith (مدیر)۔ The Oxford Illustrated History of The Crusades۔ Oxford University Press۔ ص 1–12۔ ISBN:978-0-19-285428-5
- Jonathan Riley-Smith (2001)۔ The Oxford Illustrated History of The Crusades۔ Oxford University Press۔ ISBN:978-0-19-285428-5
- William Robson (1855)۔ The Great Sieges of History۔ Routledge
- Steven Runciman (1951)۔ A History of the Crusades, Volume One: The First Crusade and the Foundation of the Kingdom of Jerusalem۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-34770-9
- Steven Runciman (1952)۔ A History of the Crusades, Volume Two: The Kingdom of Jerusalem and the Frankish East, 1100–1187۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-34771-6
- Steven Runciman (1954)۔ A History of the Crusades, Volume Three: The Kingdom of Acre and the Later Crusades۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-34772-3
- Corliss K. Slack (2013)۔ Historical Dictionary of the Crusades۔ Scarecrow Press۔ ISBN:978-0-8108-7830-3
- William Barron Stevenson (1907)۔ Crusaders in the East۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-7905-5973-5
- Henry Summerson (2005)۔ "Lord Edward's crusade"۔ اوکسفرڈ ڈکشنری آف نیشنل بائیوگرافی (آن لائن ایڈیشن)۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ DOI:10.1093/ref:odnb/94804
{{حوالہ موسوعہ}}
: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہےs:|HIDE_PARAMETER15=
،|HIDE_PARAMETER13=
،|HIDE_PARAMETER21=
،|HIDE_PARAMETER30=
،|HIDE_PARAMETER14=
،|HIDE_PARAMETER17=
،|HIDE_PARAMETER32=
،|HIDE_PARAMETER16=
،|HIDE_PARAMETER25=
،|HIDE_PARAMETER33=
،|HIDE_PARAMETER24=
،|HIDE_PARAMETER9=
،|HIDE_PARAMETER3=
،|HIDE_PARAMETER4=
،|HIDE_PARAMETER2=
،|HIDE_PARAMETER29=
،|HIDE_PARAMETER18=
،|HIDE_PARAMETER20=
،|HIDE_PARAMETER5=
،|HIDE_PARAMETER19=
،|HIDE_PARAMETER10=
،|HIDE_PARAMETER31=
،|HIDE_PARAMETER11=
،|HIDE_PARAMETER26=
،|HIDE_PARAMETER7=
،|HIDE_PARAMETER8=
،|HIDE_PARAMETER23=
،|HIDE_PARAMETER27=
، و|HIDE_PARAMETER12=
(معاونت) وپیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) (Subscription or UK public library membership required.) - Christopher Tyerman (1996)۔ England and the Crusades, 1095–1588۔ University of Chicago Press۔ ISBN:978-0-226-82012-5
- Christopher Tyerman (2006)۔ God's War: A New History of the Crusades۔ Belknap Press۔ ISBN:978-0-674-02387-1
- Christopher Tyerman (2011)۔ The Debate on the Crusades, 1099–2010۔ Manchester University Press۔ ISBN:978-0-7190-7320-5
- Christopher Tyerman (2019)۔ The World of the Crusades۔ Yale University Press۔ ISBN:978-0-300-21739-1
- Heinrich von Sybel (1861)۔ The History and Literature of the Crusades۔ G. Routledge & Son, Limited
- Ralph Bailey Yewdale (1917)۔ Bohemond I, Prince of Antioch۔ Princeton University